بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

قرآن مجیدکیا ہے؟ (پہلی قسط)

قرآن مجیدکیا ہے؟              (پہلی قسط)

کیا قرآن مجید اللہ جل وعلیٰ کا ازلی وابدی کلام ہے اور آسمانی کتاب جو جبرئیل علیہ السلام کے ذریعہ رسول اللہ ا پر اتاری گئی ہے؟ یا     نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اخلاقی، روحانی اور مذہبی تجربات ہیں اور ایک آواز ہے جو زندگی کی حقیقی گہرائیوں سے بلند ہوتی اور رسول اللہ اکے قلب سے پوری شدت کے ساتھ ٹکراتی اور شعور کی سطح پر نمودار ہوتی ہے؟ نیز     قرآن اور وحی الٰہی پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات سے خارج، ماوراء اور جبرئیل علیہ السلام کے ذریعہ آپ پر معروض ہے؟ یا     آپ کی اعلیٰ وارفع ذات کا داخلی، روحانی ارتقاء ہے، نہ کسی بھی خارجی ہستی (جبرئیل علیہ السلام) کا اس میں مطلق دخل ہے، نہ ہی جبرئیل علیہ السلام کوئی خارجی ہستی ہے؟ یا     قرآن مجید پورا کلام اللہ بھی ہے، اسی طرح پورے کا پورا محمد ا کا کلام بھی ہے؟ قرآن مجید، وحی الٰہی، جبرئیل امین علیہ السلام اور رسول اللہ ا کی ذات مقدس سے متعلق یہ چند اہم اور بنیادی سوالات ہیں جن کے جوابات کے لئے ہم اول خود قرآن مجید کی طرف ہی رجوع کرتے ہیں، اس لئے کہ کسی کے متعلق سوال کا جواب وہی معتبر مانا جاتا ہے جو وہ خود بتادے: آفتاب آمد دلیل آفتاب علاوہ ازیں ایک خدا پرست مومن مسلمان کے لئے تو ’’مَنْ أَصْدَقُ مِنَ اﷲِ قِیْلاً‘‘(اللہ سے بڑھ کر اور کس کا قول (بیان) زیادہ سچا ہے؟) کے تحت اللہ جل وعلیٰ کے بیان کے سامنے اور کسی بھی ہستی کا تحقیقی بیان(چاہے وہ افلاطونِ وقت ہی کیوں نہ ہو) لائق اعتناء و التفات ہو ہی نہیں سکتا۔ قرآن اللہ جل وعلیٰ کا کلام ہے ہٹ دھرم مشرکین وکفار مکہ رسول اللہ ا کو ’’لاجواب‘‘ کرنے کی نیت سے کہا کرتے تھے: ’’لولا یکلمنا اﷲ؟‘‘یعنی اللہ تم ہی سے بات کرتا ہے، ہم سے بات کیوں نہیں کرتا؟ اللہ جل وعلیٰ نے آیت کریمہ میں اس کا جواب دیا ہے: ’’وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ أَنْ یُّکَلِّمَہُ اللّٰہُ إِلَّا وَحْیاً أَوْ مِنْ وَّرَائِ  حِجَابٍ أَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلاً فَیُوْحِیَ بِإِذْنِہٖ مَا یَشَائُُ إِنَّہٗ عَلِیٌّ حَکِیْمٌ ‘‘۔                              (الشوریٰ:۵۱) ترجمہ:…’’کسی بھی بشر کی یہ مجال نہیں کہ اللہ اس سے بات کرے بجز اس کے کہ وحی کے طور پر (بات کرے) یا (مانع رؤیت نوری) پردے کے پیچھے سے (بات کرے) یا کسی قاصد (ایلچی) کو بھیجے، پس وہ (قاصد) جو بات اللہ چاہے (اس بشر کے پاس) پہنچا دے، بیشک وہ اللہ بہت ہی بلند (کائنات سے ماورائ) بڑی ہی حکمتوں والا ہے‘‘۔ یعنی نہ اللہ جل جلالہ کی عظمت وجلال کے ہی شایانِ شان ہے کہ وہ اپنی ایک ’’ماء مہین‘‘ ( حقیر پانی) سے پیدا شدہ مخلوقِ ضعیف، بشر سے رُو در رُو بات کرے اور نہ ہی اللہ کے کلام کے ’’ملکوتی ولاہوتی ثقل‘‘ اورگرانی کی کوئی قوی سے قوی مادّی مخلوق، حتی کہ پہاڑ بھی-متحمل ہوسکتی ہے۔ہاں! اس علیم وحکیم خالقِ کائنات نے اپنے لامحدود علم وحکمت کے تحت انسانوں تک( کہ وہی اس کلام کے مخاطب ومکلف ہیں)اپنا کلام(قرآن)پہنچانے کی مذکورہ ذیل تین صورتیں نکال دی ہیں۔ اللہ جل وعلیٰ کے کلام کی تین صورتیں چنانچہ مذکورہ بالا آیت کریمہ میں اولاً منکرین کا جواب دینے کے علاوہ ایک عام اصول اور سنت اللہ کے طور پر اللہ جل وعلیٰ سے شفاہاً(آمنے سامنے) کلام کرنے کے، بشری قدرت واستطاعت سے خارج ہونے کی بناء پر نفی فرمائی ہے، اس کے بعد بطور استثناء تین طریق پر اللہ جل وعلیٰ کے کسی بشر سے کلام فرمانے کا اثبات فرمایا ہے۔ ۱…ایک بطور وحی بات کرنا یعنی دل میں بات ڈال دینا۔ ۲…دوسرے پردے (رؤیت سے مانع نور) کے پیچھے سے بات کرنا۔ ۳…تیسرے کسی رسول (قاصد) کے ذریعہ اپنی بات پہنچا دینا اور اس نفی اور اثبات کی وجہ بھی بیان فرمادی کہ اللہ جل وعلیٰ کی ذات اقدس تمام کائنات سے اعلیٰ وارفع اور وراء الوراء ہے، کسی کی رسائی اس تک ممکن نہیں کہ اس سے بات کرے ’’إِنَّہٗ عَلِیٌّ‘‘ ساتھ ہی وہ بڑی حکمتوں والا ہے، اس لئے اس نے مذکورہ بالا تین طریق پر کلام کرنے کی راہ نکال دی ’’إِنَّہٗ حَکِیْمٌ‘‘ بالفاظِ دیگر ’’عَلِیٌّ‘‘ نفی کی دلیل ہے، ’’حَکِیْمٌ‘‘ اثبات کی دلیل ہے۔ قرآن (اللہ کا کلام) تیسری صورت میں رسول اللہ ا کے پاس آیا ہے۔ اس آیت کریمہ کے فوراً بعد دوسری آیت میں نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خطاب کرکے آگاہ فرماتے ہیں کہ ہم نے تمہارے پاس اپنا کلام( قرآن) مذکورہ بالا تین طریقوں میں سے تیسرے طریق پر یعنی بذریعہ رسول (قاصد) بھیجا ہے اور یہ کہ یہ ہمارا کلام جو ہم نے بھیجا ہے یہ کائنات کی ظلمتوں کو دور کرنے والا ایک نور ہے۔ جبرئیل کون ہیں؟ اسی کے ساتھ ساتھ اول اس رسول کے ملکی اوصاف بیان فرماتے ہیں اور پھر ان کا نام بھی بتلادیتے ہیں، ارشاد ہے: ’’وَکَذَلِکَ أَوْحَیْْنَا إِلَیْْکَ رُوْحاً مِّنْ أَمْرِنَا مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتَابُ وَلَا الْإِیْمَانُ وَلَکِنْ جَعَلْنَاہُ نُوْراً نَّہْدِیْ بِہٖ مَنْ نَّشَائُ  مِنْ عِبَادِنَا ‘‘۔       (الشوریٰ:۵۲) ترجمہ:…’’اسی طرح ہم نے (اے نبی!) تمہارے پاس اپنے امر (حکم) سے، ایک روح (جبرئیل) کے ذریعہ وحی بھیجی ہے (اس سے پہلے، تم نہیں جانتے تھے کہ (آسمانی) کتاب کیا (ہوتی ) ہے اور کیا ہے (اس پر) ایمان (لانا) لیکن ہم نے اس (قرآن) کو نور بنایا ہے جس سے ہم اپنے بندوں میں سے جس کو چاہیں ہدایت فرمادیتے ہیں‘‘۔ اس آیت کریمہ میں اس (ملکی) رسول (قاصد)کو جس کے ذریعہ اللہ جل وعلیٰ نے نور یعنی قرآن کو بھیجا ہے ’’أَوْحَیْنَا‘‘ کی مناسبت سے روح سے تعبیر فرمایا ہے، جیسے ’’یرسل‘‘ کی مناسبت سے پہلی آیت میں رسول سے تعبیر فرمایا تھا، لیکن سورۃ النحل میں اس رسول کو روح القدس کے لفظ سے تعبیر فرماکر اس ملکی رسول کے’’ ملکوتی تقدس‘‘ سے آگاہ فرمایا ہے، ارشاد ہے: ’’قُلْ نَزَّلَہٗ رُوْحُ الْقُدُسِ مِنْ رَّبِّکَ بِالْحَقِّ ‘‘ ۔                                   (النحل:۱۰۲) ترجمہ:…’’(اے نبی!) تم کہہ دو اس (قرآن) کو تمہارے رب کی جانب سے روح القدس نے حق کے ساتھ اتارا ہے‘‘۔ اور سورۃ الشعراء میں’’ الروح الامین ‘‘کے لفظ سے تعبیر فرماکر اس رسول کی ’’امانت‘‘ (یعنی بغیر کسی ادنیٰ تصرف کے اللہ کا کلام پہنچادینے) کے متعلق اطمینان دلایا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی بتلادیا ہے کہ یہ کتاب عربی زبان کی ہے ،ارشاد ہے: ’’وَإِنَّہُ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ نَزَلَ بِہٖ الرُّوْحُ الْأَمِیْنُ عَلٰی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیْنٍ ‘‘۔                                       (الشعرائ:۱۹۲،۱۹۳،۱۹۴،۱۹۵) ترجمہ:…’’اور بیشک وہ (قرآن) اتارا ہوا ہے پروردگار عالم کا، اس کو اتارا ہے امانت دار (فرشتہ) نے تمہارے دل پر، تاکہ تم بھی خبردار کرنے والوں (انبیاء ورسل) میں شامل ہوجاؤ خالص عربی زبان میں‘‘۔ اور سورۂ بقرہ کی آیت کریمہ ذیل میں اس رسول، روح، روح القدس، الروح الامین کا نام بھی بتلا دیا، ارشاد ہے: ’’قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوّاً لِّجِبْرِیْلَ فَإِنَّہٗ نَزَّلَہٗ عَلٰی قَلْبِکَ بِإِذْنِ اللّٰہِ مُصَدِّقاً لِّمَا بَیْْنَ یَدَیْْہِ وَہُدًی وَّبُشْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ ‘‘۔                                             (البقرۃ:۹۷) ترجمہ:…’’(اے نبی!) تم کہہ دو: (جو جبرئیل کا دشمن ہو (ہوا کرے) پس بیشک اس نے تو اس (قرآن) کو اللہ کے حکم سے تمہارے دل پر اتارا ہے جو سچ بتانے والا ہے اس (کتاب آسمانی) کو جو اس سے پہلے ہے اور رہنمائی وخوشخبری ہے ایمان والوں کے لئے‘‘۔ اور سورۂ تکویر میں اس ملکی رسول کی عالم ملکوت میں عزت، عظمت، منزلت اور تمام فرشتوں پر سیادت یعنی اقتدارِ اعلیٰ سے آگاہ فرماکر یقین دلایا ہے کہ یہ کوئی معمولی درجہ کا فرشتہ نہیں ہے، بلکہ تمام عالم ملکوت میں سردار اور رب العرش العظیم کا سب سے مقرب فرشتہ ہے، اس لئے کہ جتنی عظیم ہستی کو قاصد بنا کر بھیجا جاتا ہے اتنی ہی ایک طرف اس کلام کی صداقت وواقعیت کی ضمانت ہوتی ہے، دوسری طرف مرسل الیہ (جس کے پاس بھیجا جاتا ہے) کی عزت افزائی اور پیغام بھیجنے والے (مرسِل) کے نزدیک اس کی قدر ومنزلت کا اظہار ہوتا ہے، ارشاد ہے: ’’إِنَّہُ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍ ذِیْ قُوَّۃٍ عِنْدَ ذِیْ الْعَرْشِ مَکِیْنٍ مُطَاعٍ ثَمَّ أَمِیْنٍ ‘‘۔                                                                                            (التکویر:۱۹،۲۰،۲۱) ترجمہ:…’’بیشک وہ (قرآن) ایک معزز قاصد کا (لایاہوا) قول (کلام) ہے جو بڑی (روحانی) قوت والا ہے، عرش والے (مالک الملک) کے ہاں بڑے مرتبہ والا ہے، وہاں (سب کا) سردار ہے امانت دار (ثقہ اور معتمد) ہے‘‘۔ (جاری ہے)

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین