بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

قرآن مجیدکیا ہے؟ (آخری قسط)

 قرآن مجیدکیا ہے؟           (آخری قسط)

اوّل سے قرآن مجید کس طرح اتارا؟ یہ نزولِ قرآن مجید کا پہلا مرحلہ ہے، یعنی لوحِ محفوظ سے پورے کے پورے قرآن مجید کا نزول سمائِ دنیا پر، جس کی تصریح قطعی طور پر مذکورہ آیات میں موجود ہے۔ سما ئِ دنیا سے رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام پر قرآن مجید کا نزول’’جملۃً واحدۃً‘‘ -پوری کتاب کی صورت میں ایک ہی دفعہ- ہو،یا ’’نَجْماً نَجْماً‘‘ -تھوڑا تھوڑا-قرآن مجید اس کا جواب بھی دیتا ہے اور اس کی حکمت ومصلحت بھی بیان کرتا ہے۔ کفار کے مطالبے ’’وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْلاَ أُنْزِلَ عَلَیْہِ الْقُرْآنُ جُمْلَۃً وَّاحِدَۃً‘‘۔           (الفرقان:۳۲) ترجمہ:…’’اور کافروں نے کہا کیوں نہیں اتارا گیا اس پر قرآن سارا کا سارا ایک دفعہ؟‘‘۔ (اس)کے جواب میں ارشاد ہے: ’’وَکَذٰلِکَ، لِنُثَبِّتَ بِہٖ فُؤَادَکَ وَرَتَّلْنَاہُ تَرْتِیْلاً وَلاَیَأْتُوْنَکَ بِمَثَلٍ إِلاَّ جِئْنَاکَ بِالْحَقِّ وَأَحْسَنَ تَفْسِیْرًا‘‘۔                             (الفرقان:۳۲) ترجمہ:…’’اور وہاں اسی طرح اتارا ہے، تاکہ اس سے ہم تیرے دل کو مضبوط رکھیں، (وقتاً فوقتاً) آیات قرآن کے نزول سے تقویت قلب ہوتی رہے اور تھوڑا تھوڑا پڑھ کر سنایا ہے (تاکہ تو گھبرانہ جائے کہ اتنی بڑی کتاب کو کیسے ازبر یاد رکھوں؟) اور (بڑا فائدہ یہ ہے کہ) وہ کفار تمہارے پاس انوکھی بات لائیں، ہم (اس کے جواب میں) حق بات اور (اس کی) بہتر تفسیر پہنچادیں‘‘۔ یہ فائدہ تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات گرامی سے متعلق ہے اور بے حد اہم ہے۔ باقی عام امت (صحابہؓ) کے لئے بھی یہی بہتر تھا کہ قرآن تھوڑا تھوڑا اتارا جائے۔ سورۂ بنی اسرائیل میں ارشاد ہے: ’’وَقُرْآناً فَرَقْنَاہُ لِتَقْرَأَہٗ عَلٰی النَّاسِ عَلٰی مُکْثٍ وَّنَزَّلْنَاہُ تَنْزِیْلاً‘‘۔ (بنی اسرائیل:۱۰۶) ترجمہ:…’’اور قرآن کو ہم نے جدا جدا (کرکے نازل) کیا، تاکہ تم اس کو لوگوں پر ٹھہر ٹھہر کر پڑھو( اور وہ تھوڑا تھوڑا یاد کرتے رہیں) اور ہم نے اس قرآن کو اتارتے اتارتے اتارا ہے‘‘۔ اگر قرآن مجید یکدم پورا کا پورا کتابی شکل میں نازل کردیا جاتا تو نہ صرف یہ کہ ایک ایسی قوم کے لئے جو ایمان لانے سے پہلے لکھنے پڑھنے سے نا آشنا اور اُمی ہے اور پابندیٔ احکام اس کی افتادِ طبع کے خلاف ہے، اس پوری کی پوری ضخیم کتاب کو یاد کرنا دشوار تھا، بلکہ ان گونا گوں اور انسانی زندگی پر محیط احکام واعمال پر عمل کرنا اس سے بدرجہا زیادہ دشوار اور ناقابل عمل تھا۔اللہ جل شانہٗ روزِ ازل سے اس حقیقت کو جانتے تھے، اس لئے لوح محفوظ سے توپورا کا پورا قرآن کتابی شکل میں نازل فرمادیا، تاکہ اس کو ’’کتاب آسمانی‘‘ کہا جاسکے اور نازل شدہ آیات کو اس کتاب مبین-قرآن مجید- کا حصہ بتلایا جاسکے۔ لہٰذا یہ قرآن مجید اللہ جلت حکمتہ نے رسول اللہ ااور امت پر حسبِ مصلحت وضرورت تھوڑا تھوڑا نازل فرمایا، ارشاد ہے: ۱…’’  تَنْزِیْلُ الْکِتَابِ مِنَ اﷲِ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ‘‘۔                               (المؤمن:۲)  ترجمہ:…’’اس کتاب کو تھوڑا تھوڑا اتارا، غالب وبرتر، بڑے علم والے اللہ کی جانب سے ہے‘‘۔ ۲…’’تَنْزِیْلٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ کِتَابٌ فُصِّلَتْ آیَاتُہٗ قُرْآناً عَرَبِیّاً لِّقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ‘‘۔                                                                                        (حم السجدۃ:۲،۳) ترجمہ:…’’ بڑے ہی رحم والے مہربان خدا کی جانب سے جو تھوڑی تھوڑی نازل ہو رہی ہے، وہ ایک کتاب ہے، جس کی آیتیں جدا جدا کی ہوئی ہیں، قرآن ہے عربی (زبان) میں ایسے لوگوں کے لئے جو (عربی زبان کو خوب اچھی طرح) جانتے ہیں‘‘۔ قرآن کی آسمان سے زمین پر سب سے پہلے کون سی آیات نازل ہوئیں اور کس تاریخ کو؟ قرآن کریم کے رسول اللہ اپر اترنے کے سلسلہ میں لفظ’’ تعلیم‘‘ اور’’ قراء ت‘‘کی تفصیل قرآن عظیم کی تصریحات کی روشنی میں آپ پڑھ چکے ہیں کہ یہ دونوں لفظ اور ان سے ماخوذ الفاظ (مشتقات) خصوصاً لفظ’’ قراء ت‘‘ -پڑھانا-قطعی طور پر ثابت کرتا ہے کہ آپ اکو پڑھانے والا اس طرح پڑھاتا ہے، جیسے ایک انسان پڑھاتا ہے اور آپ ابالکل اس طرح پڑھتے ہیں، جیسے ایک انسان دوسرے انسان سے پڑھتا ہے اور یہ اس امر کی دلیل ہے کہ حضرت جبرئیل امین علیہ السلام انسانی شکل میں آکر پڑھاتے ہیں۔ اس سلسلہ کی پانچ آیات حسبِ ذیل ہیں: ’’إِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ ، خَلَقَ الْإنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ، إِقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ، عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ‘‘۔         (العلق:۱،۲،۳،۴،۵) ترجمہ:…’’پڑھو! اپنے رب کے نام سے جس نے (سب کچھ) پیدا کیا ہے۔ انسان کو خون بستہ سے پیدا کیا ہے۔پڑھو! اور تمہارا رب سب سے بڑا کریم ہے، جس نے قلم سے( لکھنا) سکھلایا۔انسان کو وہ کچھ سکھلایا جو وہ نہیں جانتا تھا‘‘۔ سورۂ علق کی ان پانچ آیات کے متعلق نہ صرف یہ کہ امت مسلمہ کے ہرخاص وعام، عالم وجاہل کا حد تواتر تک پہنچاہوا عقیدہ ہے کہ رسول اللہ اکے پاس حضرت جبرئیل علیہ السلام سب سے پہلے ’’سورۂ اقرأ‘‘ کی (عوام میں یہ سورت اسی نام سے معروف ہے) آیات لے کر آئے ہیں، بلکہ ان آیات میں لفظ ’’إِقْرَأْ‘‘اور اس کا تکرار بھی اس پر شاہد ہے کہ قرآن کی پڑھائی کی بسم اﷲ(ابتدائ) انہی آیات سے ہوئی ہے، چنانچہ امت محمدیہ کے معلمین اور حفاظ آج تک اسی سنت الٰہیہ کے تحت اسی طرح پڑھائی شروع کراتے ہیں: پڑھو: بسم اﷲ الرحمن الرحیم، پڑھو : الف، با، تا، ثا۔یاد رکھئے! کسی قوم کی ’’قومی روایات‘‘ علم نفسیات کی رو سے قطعی اور دعوے کا ناقابل تردید ثبوت ہوا کرتی ہیں۔ ناقابل تردید تاریخی حقیقت ہے کہ آپ اکی ولادت باسعادت عام الفیل مطابق ۵۷۲ میلادی ۱۲ یا ۸ ماہ ربیع الاول کو مکہ مکرمہ میں ہوئی ہے اور آپ اکی عمر کے پورے چالیسویں سال آپ اپر غار حرا سے نکلتے ہوئے سب سے پہلی وحی نازل ہوئی ہے۔لہٰذا ‘۱۲؍ یا ۸؍ ربیع الاول عام البعثت زمین پر نزولِ قرآن کے آغاز کی تاریخ ہے، اور سورۂ علق کی مذکورہ بالا آیات قرآن کی زمین پر نازل شدہ سب سے پہلی پانچ آیات ہیں، گویا اسی سال ماہ رمضان المبارک کی لیلۃ القدر کو پورا قرآن لوحِ محفوظ سے آسمان پر کتابی شکل میں اترا (جیساکہ قرآن کی تصریحات کی روشنی میں آپ پڑھ چکے ہیں) زمین پر پورا قرآن کتنے عرصہ میں اترا؟ اور تقریباً ساڑھے بائیس سال میں رفتہ رفتہ تدریجی طور پر پورا قرآن زمین پر اترا، اس لئے کہ قرآن کریم کی آخری آیت حجۃ الوداع کے موقع پر ۱۰ھ میں حسب ذیل نازل ہوئی، اﷲ جلت نعماء ہٗ  ارشاد فرماتے ہیں: ’’اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْإِسْلاَمَ دِیْنًا‘‘۔                                                   (المائدۃ:۳) ترجمہ:…’’آج میں نے تمہارا دین تمہارے لئے کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کو دین ہونے کے اعتبار سے پسندیدہ قرار دے دیا‘‘۔ اس آیت کریمہ میں کلمہ’’ اَلْیَوْمَ‘‘ (آج) قطعی طور پر دن کی تعیین کررہا ہے اور وہ دن تاریخی اعتبار سے ۱۰؍ ذو الحجہ، ۱۰ہجری ہے اور یہی آیت کریمہ وحی قرآنی کے انقطاع کا اعلان بھی ہے، اس لئے کہ اکمالِ دین اور تتمیمِ نعمت کے بعد اضافہ کا امکان ہی نہیں رہتا، چنانچہ آپ ااس کے بعد تقریباً ۷۲؍ دن بقید حیات رہے، اس عرصہ میں احکام سے متعلق کوئی آیت نازل نہیں ہوئی، تا آنکہ ۱۲؍ یا ۱۰؍ ربیع الاول ۱۱ہجری کو عالم فنا سے عالم بقا کی طرف رحلت فرماگئے، إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ اور’’ یَا أَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ ادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ‘‘کی دعوت الٰہی پر لبیک فرماکر ’’فِیْ عِبَادِیْ‘‘(ملأاعلیٰ) اور’’ فِیْ جَنَّتِیْ‘‘ میں داخل ہوگئے۔ قرآن اللہ کی ایسی کتاب آسمانی ہے جس میں نہ باطل کسی طرح راہ پاسکتا ہے، نہ ہی کسی شک وشبہ کی اس میں گنجائش ہے۔ قرآن مجید اللہ کی ایسی محکم کتاب ہے کہ اس کتاب کے تغیر وتبدل اور مسخ وتحریف سے ’’محفوظ‘‘ ہونے اور ’’باطل کے اس میں کسی بھی طرح راہ نہ پاسکنے‘‘ کے متعلق خود اللہ جل جلالہٗ ضمانت دے رہے ہیں، ارشاد ہے: ’’وَإِنَّہٗ لَکِتَابٌ عَزِیْزٌ لاَّیَأْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَلاَ مِنْ خَلْفِہٖ، تَنْزِیْلٌ مِّنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ‘‘۔                                              (حم السجدۃ:۴۱،۴۲) ترجمہ:…’’اور بے شک وہ قرآن ایک زبردست کتاب ہے، باطل اس کتاب میں نہ اس کے آگے سے راہ پاسکتا ہے، نہ پیچھے سے (اس لئے کہ) وہ ایک بڑی حکمتوں والے لائق ستائش (پروردگار) کی تدریجاً اتاری ہوئی (کتاب) ہے‘‘۔ اس کتاب میں کسی بھی قسم کی کوئی کجی یعنی نقص وعیب نہیں ہے، ہر پہلو سے محکم ہے، ارشاد ہے: ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ أَنْزَلَ عَلٰی عَبْدِہٖ الْکِتَابَ وَلَمْ یَجْعَلْ لَّہٗ عِوَجًا‘‘۔  (الکہف:۱) ترجمہ:…’’سب تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے اپنے بندے (محمد ا) پر کتاب اتاردی، اس میں کسی بھی قسم کی کجی نہیں‘‘۔ اگر یہ کتاب، عزیز وحکیم اللہ کے علاوہ کسی بھی اور کی ہوتی تو اس میں الفاظ، معانی اور مضامین کے اعتبار سے بکثرت اختلاف، تفاوت اور تضاد ضرور پایا جاتا، چنانچہ یہ اپنی جگہ مسلم ہے کہ بڑے سے بڑے قادر الکلام انسان کا اتنا مبسوط کلام (کتاب) اس نقص و عیب سے کبھی پاک اور مبرا نہیں ہوتا، حتیٰ کہ افصح العرب والعجم اور ’’أوتیت جوامع الکلم‘‘ کے مالک نبی عربی اکے کلام(احادیث) میں اختلاف تو پایا ہی جاتا ہے، جو اگر چہ مصالح شرعیہ پر مبنی ہے، لیکن بہرحال ہے، اس لئے محدثینؒ نے علوم حدیث میں ’’علم المختلف والمؤتلف‘‘ ایک مستقل علم مدون کیا ہے، جس میں اختلافِ احادیث کے وجوہ ومحامل بیان کئے ہیں اور اصولِ تطبیق وضع کئے ہیں اور منکرین حدیث تو اسی اختلاف کو تضاد کہہ کر انکار احادیث کے درپے ہیں۔ بہرحال یہ کتاب الٰہی قرآن مجید اس نقص وعیب سے بالکل پاک اور مبرا ہے، ارشاد ہے: ’’أَفَلاَ یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْآنَ وَلَوْکَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اﷲِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلاَفًا کَثِیْرًا‘‘۔                                                         (النسائ:۸۲) ترجمہ:…’’کیا یہ منکرین قرآن میں غور نہیں کرتے (کہ ان پر اس کا کلام اللہ ہونا واضح ہو) اور اگر یہ قرآن اللہ کے سوا کسی اور کا کلام ہوتا تو وہ اس میں کثرت سے اختلاف اور تفاوت محسوس کرتے‘‘۔ اسی لئے ارشاد ہے: ’’الٓم تَنْزِیْلُ الْکِتَابِ لاَرَیْبَ فِیْہِ مِنْ رَّبِّ الْعَالَمِیْنَ‘‘۔                        (الم سجدۃ:۱،۲) ترجمہ:…’’الف، لام، میم، اس کتاب کو تدریجاً اتارنا، اس میں مطلق شک وشبہ نہیں کہ رب العالمین کی جانب سے ہے ‘‘۔ قرآن عربی زبان میں کیوں اتارا گیا؟ اس کتاب عزیز(قرآن مجید) کی زبان علیم وحکیم پروردگار نے فصیح عربی اس لئے تجویز کی ہے کہ اس کے اولین مخاطب فصحاء وبلغاء عرب ہیں، وہ بآسانی اس کتاب کے انسانی قدرت سے ماوراء ہونے کو سمجھ سکیں گے اور ان کا فیصلہ تمام نوع انسانی کے واسطے حجت اور قابل قبول ہوگا، ارشاد ہے: ’’حمٓ وَالْکِتَابِ الْمُبِیْنِ إِنَّا جَعَلْنَاہُ قُرْآنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ‘‘۔ ( الزخرف:۱،۲،۳) ترجمہ:…’’حا، میم! قسم ہے فصیح (وبلیغ) کتاب کی، بے شک ہم نے اس کو عربی (زبان کا) قرآن تجویز کیا ہے، تاکہ تم (اے اہل عرب!) اس کو سمجھو (کہ یہ کسی انسان کا کلام نہیں ہے)‘‘۔ قرآن کی مخاطب ومکلف تمام نوعِ انسانی ہے اس لئے کہ قرآن صرف عرب کے لئے نہیں، بلکہ پوری نوعِ انسانی کی ہدایت کے لئے اتارا گیا ہے، ارشاد ہے: ۱…’’ وَکَذٰلِکَ أَوْحَیْنَا إِلَیْکَ قُرْآنًا عَرَبِیًّا لِّتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرٰی وَمَنْ حَوْلَہَا‘‘۔ (الشوریٰ:۷) ترجمہ:…’’اور اسی طرح ہم نے (بطور) وحی بھیجا آپ کے پاس عربی قرآن، تاکہ تم (قہر خداوندی سے باخبر ہوکر) بستیوں کی اصل (مکہ) اور اس کے ارد گرد بسنے والی تمام دنیا کے لوگوں کوڈراؤ‘‘۔ ۲…’’الرٓ تِلْکَ آیَاتُ الْکِتَابِ الْمُبِیْنِ إِنَّا أَنْزَلْنَاہُ قُرْآنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ‘‘۔                                                                                            (یوسف:۱،۲) ترجمہ:…’’الف ، لام، را،یہ واضح (اور روشن) کتاب کی آیتیں ہیں، بے شک ہم نے اس کو عربی قرآن اتارا ہے، تاکہ تم سمجھ لو ‘‘۔ چنانچہ حق پسند زعماء عرب نے صاف اقرار کیا: ’’مَاہٰذَا قَوْلُ الْبَشَرِ‘‘۔یعنی ’’یہ انسان کا قول ہرگز نہیں‘‘۔ اور جن معاندین(حق سے عناد رکھنے والے اور جان بوجھ کر انکار کرنے والے لوگوں) نے حق جاننے کے باوجود قرآن کو خدا کا کلام ماننے سے انکار کیا اور کہا: ’’إِنْ ہٰذَا إِلاَّ قَوْلُ الْبَشَرِ‘‘۔’’ نہیں ہے یہ مگر انسان کا قول‘‘۔ اُن کو تفصیلی طور پر ہر ہر اعتراض کا جواب بھی دیا، جس کی تفصیل آپ عنقریب پڑھیںگے اور آخر میں چیلنج کیا جو آج تک قائم ہے اور قیامت تک قائم رہے گا۔ مکی سورت سورۂ یونس میں ارشاد ہے: ’’قُلْ فَأْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّثْلِہٖ وَادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اﷲِ إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ‘‘۔                                                       (یونس:۳۸) ترجمہ:…’’(اے نبی!) تم کہہ دو: پس تم اس (قرآن) جیسی ایک سورت ہی لے آؤ اور اللہ کے علاوہ جن (طاغوتی طاقتوں) کو تم (اپنی مدد کے لئے) بلاسکتے ہو بلالو، اگر تم سچے ہو‘‘۔ قرآن کے عربی زبان میں نازل ہونے کی دوسری وجہ  علاوہ ازیں رسول اللہ اجن پر قرآن نازل کیا جارہا ہے، وہ بھی عربی النسل ہیں اور عادت الٰہیہ یہ رہی کہ ہر رسول اور اس کی کتاب کی زبان وہی ہوتی ہے جو اس کی قوم کی ہوتی ہے، ارشاد ہے: ’’وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ إِلاَّ بِلِسَانِ قَوْمِہٖ لِیُبَیِّنَ لَہُمْ‘‘۔             (ابراہیم:۴) ترجمہ:…’’ہم نے جو بھی رسول بھیجا ہے وہ اپنی قوم کی ہی زبان والا ہے، تاکہ وہ ان کو (ان کی ہی زبان میں) اچھی طرح اللہ کا پیغام سمجھائے‘‘۔ قرآن مجید کی عظمت اور اس کے مستقل وجودِ خارجی کے دلائل اللہ جلت حکمتہ نے اپنے اس کلام قرآن مجید میں متعدد سورتوں اور آیتوں میں خود اس قرآن مجید کی قسمیں کھائی ہیں اور قرآن وعلوم قرآن میں بصیرت رکھنے والے اربابِ علم جانتے ہیں کہ سنت اللہ یہ ہے کہ اللہ جلت عظمتہ اپنے اس کلامِ الٰہی میں ہمیشہ اپنے ان عظیم ترین مظاہر قدرت کی قسمیں کھاتے ہیں جو مابعد بیان کئے گئے دعوے کی روشن اور قطعی دلیل ہوتے ہیں، تاکہ ’’دعوٰی الشئ مع بیّنۃ وبرہان‘‘(دعویٰ مع ثبوت ودلیل) اور ’’آفتاب آمد دلیل آفتاب‘‘ کا مصداق ہوجائے اور کسی منکر کو ان مظاہر قدرت کے مشاہدہ اور معائنہ کے بعد آئندہ بیان اور دعوے کے انکار کی گنجائش نہ رہے۔لہٰذا مذکورۃ الصدر آیات میں قرآن مجید کی قسم، قرآن کے مستقل وجود اور عظیم ترین مظہرِ قدرت الٰہی ہونے کی قطعی دلیل ہے۔ چند ایسی آیات ہم اس موقع پر نقل کرتے ہیں، سورۂ’’ ص‘‘ میں ارشاد ہے: ۱…’’صٓ وَالْقُرْآنِ ذِیْ الذِّکْرِ بَلِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِیْ عِزَّۃٍ وَّشِقَاقٍ‘‘۔ (ص:۱،۲) ترجمہ:…’’ص، قسم ہے اس نصیحت (کرنے) والے قرآن کی (یہ بے شک وشبہ برحق ہے) بلکہ انکار کرنے والے حمیت ونخوت اور (اس کی) مخالفت وعداوت میں (گرفتار) ہیں‘‘۔ ۲…’’یٰس وَالْقُرْآنِ الْحَکِیْمِ إِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ ، عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ، تَنْزِیْلَ الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمِ‘‘۔                            (یس:۱،۲،۳،۴،۵) ترجمہ:…’’یٰس، قسم ہے اس محکم قرآن کی، بے شک تم بھیجے ہوئے (نبیوں اور رسولوں) میں سے ہو، سیدھے راستہ پر قائم ہو، یہ قرآن حکیم ہی اس کی دلیل ہے، یہ قرآن بڑے زبردست مہربان (خدا) کا نازل کردہ ہے‘‘۔ ان آیات کے علاوہ سورۂ زخرف، سورۂ دخان، سورۂ ق، سورۂ طور کی ابتدائی آیات میں ان قرآن کی قسموں کا ذکر آپ پڑھ چکے ہیں۔اسی طرح اللہ جلت حکمتہ نے قرآن کریم کے اللہ کا کلام اور آسمانی کتاب ہونے کے ثبوت اور دلیل کے طور پراپنے اہم ترین مظاہر قدرت کی قسمیں کھائی ہیں، چنانچہ سورۃ التکویر میں ارشاد ہے: ’’فَلاَأُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ الْجَوَارِ الْکُنَّسِ وَاللَّیْلِ إِذَا عَسْعَسَ وَالصُّبْحِ إِذَا تَنَفَّسَ إِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍ‘‘۔                          (التکویر:۱۵،۱۶،۱۷،۱۸) ترجمہ:…’’پس (ایسا) نہیں(جیسا تم سمجھتے اور کہتے ہو) میں قسم کھاتا ہوں پیچھے ہٹنے، چلتے رہنے والے، چھپ جانے والے (ستاروں) کی اور رات کی جب وہ چھپ جائے اور صبح کی جب وہ سانس لے (صبح صادق کا وقت نمودار ہو) کہ بے شک یہ (قرآن) ایک معزز فرستادہ (فرشتہ) کا قول ہے (آخر آیت تک جو آپ پڑھ چکے ہیں)‘‘۔ دیکھئے! اس آیت کریمہ میں انسانی دسترس بلکہ قطعی اور یقینی فہم وادراک سے بھی بالاتر نظامِ سیارات اور نظامِ شمسی سے ظہور پذیر ہونے والے صبح وشام اور روز وشب کے نظام کو قرآن کے لوحِ محفوظ سے رسول بشری تک نظامِ ترسیل کے دعوے پر بطور دلیل وبرہان پیش کیا ہے کہ جیسے یہ نظام‘ انسانی دسترس بلکہ فہم وادراک سے بالاتر اور اللہ جلت قدرتہ وحکمتہ کی تکوینی تدابیر کے تحت چل رہا ہے، بالکل اسی طرح قرآن کا نظام ترسیل وارسال بھی اسی علیم وحکیم خالق کائنات کی تکوینی تدابیر کے تحت وقوع پذیر ہوتا ہے، نہ تم اس نظام کی حقیقت کو کما حقہ سمجھ سکتے ہو۔ تمہارے ایمان واسلام کا تقاضا تو یہ ہے کہ تم خالق کائنات کے بیان پر ’’آمنا وصدقنا‘‘ کہو، یہی راسخین فی العلم کی شان ہے، ارشاد ہے: ’’وَالرَّاسِخُوْنَ فِیْ الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ آمَنَّا بِہٖ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا‘‘۔     (آل عمران:۷) ترجمہ:…’’اور پختہ ومحکم علم والے کہتے ہیں: ہم تو اس (قرآن) پر ایمان لاچکے، سب ہمارے رب کی جانب سے ہے (چاہے ہماری سمجھ میں آئے یا نہ آئے)‘‘۔ ان آیاتِ قرآنیہ میں توراسخین فی العلم کا مقتضاء ایمان بیان فرمایا ہے۔ تحریف وتاویل کے درپے ہونے والے زائغین کا طریق کار اس سے بالکل مختلف ہے ،ارشاد ہے: ’’فَأَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ ابْتِغَائَ الْفِتْنَۃِ وَابْتِغَائَ تَأْوِیْلِہٖ وَمَایَعْلَمُ تَأْوِیْلَہٗ إِلاَّ اﷲُ‘‘۔                                (آل عمران:۷) ترجمہ:…’’باقی وہ لوگ جن کے دلوں میں کجی (اور گمراہی) ہے، پس وہ لوگ تو قرآن کی متشابہ آیات (جن کی مراد کی تعیین انسانی عقل وفہم سے باہر ہے) ہی کے پیچھے پڑتے ہیں، فتنہ (پھیلانے) کی غرض سے اور مراد متعین کرنے کی غرض سے، حالاں کہ ان کی حقیقی اور قطعی مراد اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا‘‘۔ قرآن مجید کے مستقل وجود خارجی کی ایک اور دلیل قرآن کریم میں قرآن کے متعلق تعلیم اور قراء ت اور ان کے مشتقات کے علاوہ بکثرت لفظ نزول اور اس سے مشتق(ماخوذ) افعال اور مصادر استعمال ہوئے ہیں۔ اس کلمہ کے مفہوم میں ’’اوپر سے نیچے آنے‘‘ کے معنی جوہری طور پر داخل ہیں، جس کو اردو میں ’’اترنا‘‘ کہتے ہیں اور عربی میں ’’نزول‘‘ کہتے ہیں۔ جو نمایاں فرق اردو میں اترنے اور آنے میں ہے، بعینہٖ وہی فرق عربی میں ’’اتیان‘‘ یا ’’مجیء ‘‘اور ’’نزول‘‘ میں ہے۔ جیسے اردو میں اترنا اور اس سے مشتق افعال ’’لازمی‘‘ ہیں، یعنی صرف ایک ذات (فاعل) سے وقوع میں آجاتے ہیں، لیکن اگر کسی اور ذات یا چیز کو اوپر سے نیچے لایا جائے تو اس کے لئے ’’اتارنا‘‘ اور اس سے مشتق افعالِ متعدی استعمال ہوتے ہیں، بالکل اسی طرح عربی میں کسی اور ذات یا چیز کو اوپر سے نیچے اتارا جائے تو اس کے لئے ’’إنزال‘‘ ’،’’تنزیل‘‘ اور ان سے مشتق افعال استعمال ہوتے ہیں یا فعل لازم ’’نزل‘‘ پر ’’بہ‘‘ کا اضافہ کرکے اُسے متعدی بنالیا جاتا ہے اور اس صورت میں اس کے تحقق اور وقوع میں آنے کے لئے اس ذات یا چیز کا مستقل وجود قطعی طور پر ضروری ہوتا ہے جس کو اتارا ہے۔ اب آپ قرآن مجید کے متعلق اس کلمے، افعال، مصادر اور مشتقات کا جائزہ لیجئے، قرآن کے متعلق تنہا’’ نزول‘‘ یعنی فعل لازم قطعاً استعمال نہیں ہوا، بلکہ یا’’بہ‘‘ کے اضافہ کے ساتھ استعمال ہوا ہے، جیساکہ آپ’’ نَزَلَ بِہٖ الرُّوْحُ الأَمِیْنُ‘‘ سورۃ الشعراء کی آیات میں پڑھ چکے ہیں یا مصدر’’ إنزال‘‘ سے مشتق فعل استعمال ہوا ہے، جیسا کہ آپ ’’إِنَّا أَنْزَلْنَاہُ فِیْ لَیْلَۃِ القَدْرِ‘‘ سورۂ لیلۃ القدر میں پڑھ چکے ہیں یا مصدر’’  تنزیل‘‘ جیساکہ آپ سورۃ الشعراء کی آیت میں پڑھ چکے ’’وَإِنَّہٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ العَالَمِیْنَ‘‘ یا اس ’’  تنزیل‘‘ سے متعلق فعل ’’  نَزَّلَہٗ ‘‘ جیساکہ سورۂ بقرہ کی آیت ’’  فَإِنَّہٗ نَزَّلَہٗ عَلٰی قَلْبِکَ‘‘ میں آپ پڑھ چکے ہیں۔ اسی طرح اس اتارنے کے معنی کے متحقق ہونے کے لئے جہتِ فوق ’’اوپر‘‘ ہونا چاہئے، جہاں سے اتارا، جیساکہ آپ سورۂ بروج میں قرآن کے لئے ’’  فِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ‘‘ اورسورۂ زخرف ’’  وَإِنَّہٗ فِیْ أُمِّ الْکِتَابِ لَدَیْنَا‘‘میں پڑھ چکے۔ اور ایک جہت تحت ’’نیچے‘‘ ہونا چاہئے، جہاں اتارا ،جیساکہ آپ قرآن کے متعلق ’’عَلٰی قَلْبِکَ‘‘  سورۂ شعراء اور سورۂ بقرہ میںپڑھ چکے، گویا اللہ جل جلالہٗ نے قرآن کے متعلق مذکورہ ذیل سوالات کے جوابات دے دیئے ہیں: ۱…کس نے اتارا؟ جواب:جبرئیل امین علیہ السلام نے۔ ۲…کیا اتارا؟ جواب: قرآن مجید ۔۔ ۳…کہاں سے اتارا؟ جواب:لوح محفوظ سے، پھر آسمانِ اول سے۔ ۴…کہاں اتارا؟ جواب:رسول اللہ اکے قلب پر ۔ ۵…کس کے حکم سے؟ جواب: اللہ کے حکم سے۔ ان پانچوں حقیقتوں کا مستقل وجودِ خارجی ہے، خصوصاً جبرئیل امین علیہ السلام اور قرآن کہ یہ دونوں تو ایسے قوی عامل اور مؤثر خارجی ہیں کہ ان کے مستقل وجود کا انکار کردینے کے بعد تو قرآن کے اترنے اور اتارنے کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا اور یہ کہنا کہ’’ قرآن مجید پورا کا پورا کلام اللہ بھی ہے اور اسی طرح پورا محمد اکا کلام ہی ہے‘‘۔یہ تو استشراقی فکر کے علاوہ اور کوئی بیوقوف سے بیوقوف آدمی بھی بقائمیٔ ہوش وحواس ہرگز نہیں کہہ سکتا۔ مرگی کے دوروں کا ہذیان، درحقیقت اسی قسم کی ہذیانی بکواس کا نام ہے جو ان یہودی اورعیسائی مستشرقین اور ان کے چیلوں کے زبان وقلم سے اسلام دشمنی کی ’’مرگی‘‘ کے دورہ میں نکل رہے ہیں۔

٭٭٭

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین