بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

قرآن مجید کے حقوق اور ہمارا طرزِ عمل

 قرآن مجید کے حقوق اور ہمارا طرزِ عمل

ہدایت کے دوپہلو ہدایت کا ایک پہلو نظری،فکری اور علمی ہدایت ہے، جبکہ ہدایت کا دوسرا پہلو عملی، اخلاقی اور زندگی کے معمولات کے ضمن میںہدایت ہے،یعنی انسان میں حق وباطل کی تمیز پیدا ہو جانا۔ پہلاپہلو جو کچھ نظر آرہا ہے یہ حقیقت نہیں، بلکہ جو کچھ اس کے پیچھے ہے وہ حقیقت ہے۔ کائنات میں جو کچھ نظر آرہا ہے یہ حقیقت نہیں، بلکہ حقیقت اس کے پیچھے ہے۔ ایک ہمارا یہ ظاہری وجود ہے، جس میں درد محسوس ہوتا ہے، لیکن یہ حقیقت نہیں ، حقیقی وجود روحانی وجود ہے جو نظر نہیں آتا۔ اسی طرح یہ کارخانۂ دنیا ہے، یہاں کی رنگینیاں ہیں، سازوسامان ہے، لیکن حقیقت اس کے پیچھے ہے یعنی آخرت۔یہ جو ظواہر ہیں ان کی بجائے حقائق پر توجہ ہو تو یہ نظری ہدایت ہے، یعنی ظاہر وباطن اور حق وباطل کا فرق معلوم ہو جانا یہ ہدایت ہے۔تین حقائق یعنی ذات باری تعالیٰ، روح انسانی اور حیات اخروی پر جب تین ظواہر یعنی کائنات، جسم انسانی اور حیات دنیوی کا پردہ پڑ جائے تو یہی دجل اور دجالیت ہے۔ حضور a کی ایک بہت ہی پیاری دعا اسی بارے میں ہے: ’’ أللّٰھم أَرِنِیْ حَقِیْقَۃَ الْأَشْیَائِ کَمَاھِیَ‘‘۔ ’’اے اللہ! مجھے تمام چیزوں کی حقیقت اسی طرح دکھادے جس طرح وہ ہیں‘‘۔ دوسراپہلو دوسری ہدایت عملی ہے اور اس کے بھی دودرجے ہیں: ۱:… انفرادی سطح پر ہدایت۔  ۲:… اجتماعی سطح پر ہدایت۔ انفرادی ہدایت یہ ہے کہ: انسان کو یہ سمجھ آجائے کہ مَیں کیا کروں ، کیا نہ کروں؟ کیا خیر ہے اور کیا شر ہے؟ کیا اچھی بات ہے اور کیا بری بات ہے؟ یہ انفرادی ہدایت اللہ نے ہر انسان کے دل میں ودیعت کی ہے، جیسا کہ ارشادِ باری ہے: ’’وَنَفْسٍ وَّمَا سَوَّاھَا، فَأَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوَاھَا‘‘۔(الشمس:۷،۸) یہی وجہ ہے اس انفرادی معاملے پر قرآن مجید میں اتنا زیادہ زور نہیں دیا گیا، ان باتوں کو معروف اور منکر کہا گیا ہے، معروف یعنی جانی پہچانی جس سے خود ہی انسان واقف ہے، اور منکر یعنی جس سے خود ہی انسانی نفس نفرت کرتا ہے، دنیا کے کس انسان کو معلوم نہیں کہ سچ بولنا اچھی اور جھوٹ بولنا بری بات ہے۔ اجتماعی سطح پر ہدایت انسان کی اصل احتیاج اجتماعی زندگی کی ہدایت ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں آکر انسان افراط وتفریط کا شکار ہو جاتا ہے۔ دنیا میں تین بڑے اجتماعی مسائل ہیں: ۱:… مرد وعورت کے حقوق میں توازن۔ ۲:…ریاست اور شہری کے حقوق میں توازن ، یعنی شہری کو کتنی آزادی ہے اور کتنا پابند ہے اور ریاست کو کتنی آزادی ہے اور کتنی پابند ہے۔ ۳:…سرمایہ اور محنت، سرمایہ دار اور مزدور کے حقوق کا توازن۔یہاں آکر انسان ہدایت کا محتاج ہو جاتا ہے اور وہ ہدایت قرآن مجید سے ملتی ہے: ’’اَلرَّحْمٰنُ ، عَلَّمَ الْقُرْأٰنَ، خَلَقَ الْإِنْسَانَ، عَلَّمَہٗ الْبَیَانَ‘‘۔(الرحمن:۱،۲،۳،۴) رحمن اللہ کے ناموں میں سے چوٹی کا نام ہے اور قرآن تمام کتابوں میں سے چوٹی کی کتاب ہے اور انسان تمام مخلوقات میں سے چوٹی کی مخلوق ہے اوربیان انسان کی تمام صلاحیتوں میں سے چوٹی کی صلاحیت ہے۔ ان آیات میں ہمیں یہ تعلیم دی گئی کہ رحمن کی چوٹی کی مخلوق انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی چوٹی کی صلاحیت یعنی بیان کو اللہ کی چوٹی کی کتاب قرآن کو بیان کرنے پر صرف کرے۔اس ساری گفتگو کا نتیجہ یہ ہے کہ پوری قوت کے ساتھ انفرادی اور اجتماعی سطح پر رجوع الی القرآن کی زبردست تحریک چلنی چاہیے، تاکہ سب مسلمان قرآن کے ساتھ جڑجائیں، قرآن کو سیکھیں اور سکھائیں، سمجھیں اور سمجھائیں، عمل کریں اور عمل کروائیں،اسی سے ہمارے سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔ آج قرآن ہماری زندگیوں سے نکل گیا ہے، ہم اگرچہ کئی کام انفرادی سطح کے کرتے ہیں، لیکن اجتماعی سطح پر پہلا قدم رکھتے ہی پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ ہم رواجی پردہ تو کرتے ہیں، لیکن شرعی پردہ نہیں کرتے، رواجی پردہ یہ ہے کہ اجنبی سے پردہ کرواور جاننے والے یا رشتہ دار سے نہیں، جبکہ شرعی پردہ یہ ہے کہ غیر محرم سے پردہ کرو، چاہے وہ رشتہ دار یا جاننے والا ہی کیوں نہ ہو۔اسی طرح دیگر اجتماعی مسائل میں ہماری یہی حالت ہے کہ ہم دین پر عمل نہیں کرتے۔ قرآن مجید کے پانچ حقوق آج دنیا میں حقوق کی جنگیں لڑی جارہی ہیں، کہیں خواتین کے حقوق کی بات ہورہی ہے اور کہیں جانوروں کے حقوق کی، لیکن آج کے مسلمان کو یہ نہیں معلوم کہ اس پر قرآن مجید کے کتنے حقوق ہیں۔ جاننا چاہیے کہ ہر مسلمان پر قرآن مجید کے پانچ حقوق ہیں: ۱:…ایمان وتعظیم۔        ۲:…تلاوت وترتیل۔     ۳:…تذکروتدبر۔        ۴:…حکم واقامت۔ ۵:…تبلیغ وتبیین  پہلا حق:…ایمان وتعظیم ایمان کے دو حصے ہیں: ایک اقرار اور دوسرا تصدیق۔ ہم اقرار تو کرتے ہیں، لیکن یقین اور تصدیق کی ہمارے اندر کمی ہے، لہٰذا ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے دلوں کو ٹٹولیں کہ آیا ہم قرآن کو متوارث مذہبی عقیدے کی بنا پر ایک آسمانی مقدس کتاب سمجھتے ہیں، جس کا زندگی اور اس کے جملہ معاملات سے تعلق نہ ہو یا یہ یقین ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے جو اس لیے نازل ہوا کہ لوگ اس سے ہدایت حاصل کریں اور اسے اپنی زندگیوں کا لائحہ عمل بنائیں؟۔ ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کمی کیسے پوری ہو؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایمان ویقین کے حصول کا سب سے آسان ذریعہ اصحاب ایمان ویقین کی صحبت ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا عظیم ایمان بھی حضور a کی صحبت کا نتیجہ تھا، آپ a کے بعد ہمارے لیے بھی اصحاب یقین کی صحبت ضروری ہے اور خود ایسے خواص کے لیے نور ایمان کا منبع قرآن ہے، پھر اس کے بعد سیرت رسول واصحاب رسول کا مطالعہ کرنے سے معنوی صحبت میسر آجاتی ہے۔ ایمان کوئی ٹھوس چیز نہیں جسے باہر سے ٹھونس کر اندر داخل کیا جائے، بلکہ ایمان کی چنگاری ہر انسان کے اندر موجود ہوتی ہے، لیکن اعمالِ بد نے اُسے دھندلا کیا ہوتا ہے ، اس چنگاری کو شعلہ بنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔حضور a نے فرمایا: ’’إِنَّ ھٰذِہٖ الْقُلُوْبَ تَصْدَأُ کَمَا یَصْدَأُ الْحَدِیْدُ إِذَا أَصَابَہُ الْمَائُ، قِیْلَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! مَا جِلَائُ ھَا؟ قَالَ کَثْرَۃُ ذِکْرِ الْمَوْتِ وَتِلَاوَۃُ الْقُرْآنِ‘‘۔                    (رواہ البیہقی)  ’’بے شک دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے، جس طرح لوہے کو پانی لگنے سے زنگ لگ جاتا ہے،عرض کیا گیا:اللہ کے رسول! اس کی صفائی کس طرح ہوگی؟ آپ a نے فرمایا: ہر وقت موت کا دھیان رکھنا اور قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت کرنا‘‘۔ دوسرا حق:…تلاوت قرآن مجید کا دوسرا حق اس کی قراء ت اور تلاوت ہے۔قراء ت کا لفظ ہر کتاب کے لیے بولا جاتا ہے، جبکہ تلاوت کا لفظ صرف قرآن کے لیے خاص ہے۔ پہلے زمانے میں قاریِٔ قرآن کو عالم کہا جاتا تھا، لیکن پھر آہستہ آہستہ یہ لفظ ان لوگوں کے لیے استعمال ہونے لگا جو قرآن کو مخارج اور صفات کا لحاظ رکھتے ہوئے اہتمام کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ قرآن کریم کی تلاوت باربار کرنے کی ضرورت ہے، جس طرح جسم انسانی بار بار کھانے کا محتاج ہوتا ہے، اسی طرح روح انسانی بھی غذا کی محتاج ہے اور روح کی سب سے عمدہ غذا تلاوت قرآن کریم ہے۔ پھر اس تلاوت کے بھی کچھ حقوق ہیں: ٭تلاوت کا پہلا حق یہ ہے کہ قرآن کریم کو تجوید کے قواعد کا لحاظ کرکے تلاوت کیا جائے، یعنی مخارج، صفات اور رموز واوقاف کا علم ہونا چاہیے، تاکہ قرآن کریم کی تلاوت کا حق ادا ہوسکے۔ ٭تلاوت کا دوسرا حق یہ ہے کہ روزانہ کا معمول ہونا چاہیے۔ زیادہ سے زیادہ تلاوت کا نصاب دس پارے روزانہ ہے اور کم سے کم نصاب ایک پارہ روزانہ ہے۔ ان دونوں کے درمیان ایک نصاب ہے، جس پر اکثر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا معمول تھا، وہ ایک ہفتے میں ختم قرآن کا ہے۔ قرآن مجید میں سات منزلوں کی تقسیم اسی وجہ سے ہے کہ ایک منزل روزانہ تلاوت کرلی جائے اور ایک منزل کو تلاوت کرنے میں تقریباً دوگھنٹے صَرف ہوتے ہیں۔ ٭تلاوت کا تیسرا حق خوش الحانی ہے، فرمایا: ’’زَیِّنُوْا الْقُرْأٰنَ بِأَصْوَاتِکُمْ‘‘۔(سنن ابی داؤد، ج:۱،ص:۵۴۸،دارالکتاب العربی، بیروت) ترجمہ:’’قرآن کو اپنی آوازوں سے مزین کرکے پڑھو‘‘۔  اور ایک روایت میں آپ a نے تنبیہ فرمائی کہ: ’’لَیْسَ مِنَّامَنْ لَّمْ یَتَغَنَّ بِالْقُرْأٰنِ ‘‘۔(سنن ابی داؤد، ج:۱،ص:۵۴۸،دارالکتاب العربی، بیروت) ترجمہ:’’جوقرآن کو خوبصورت نہیں پڑھتا، وہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘۔ ٭تلاوت کا چوتھا حق یہ ہے کہ آدابِ ظاہری وباطنی کا خیال رکھا جائے، یعنی باوضو ہو کر قبلہ رخ بیٹھ کر تعوذوتسمیہ پڑھ کرحضوریِٔ قلب، اور مسلسل تذکروتدبر اور تفہم وتفکر کرکے تلاوت کا اہتمام کیا جائے۔ اپنے خود ساختہ خیالات ونظریات کی سند قرآن میں نہ ڈھونڈی جائے، بلکہ قرآن سے ہدایت لینے کے لیے اُسے پڑھا جائے۔ ٭تلاوت کا پانچواں حق ترتیل ہے، یعنی تلاوت ٹھہر ٹھہر کر کی جائے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیْلاً ‘‘۔’’اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھو‘‘۔ ٹھہر ٹھہر کرپڑھنا تثبیت قلبی کا ذریعہ بھی ہے، اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا: ’’وَکَذَالِکَ لِنُثَبِّتَ بِہٖ فُؤَادَکَ وَرَتَّلْنٰہُ تَرْتِیْلاً ‘‘۔                     (الفرقان:۳۲) ترجمہ:’’اور اسی طرح(اتارا)تاکہ ہم اس کے ذریعے تمہارے دل کو ثبات عطا کریں، چنانچہ پڑھ سنایا ہم نے اس کو ٹھہر ٹھہر کر‘‘۔ چنانچہ ترتیل کے ساتھ پڑھنے سے زیادہ فیض حاصل ہوتا ہے۔ ایک روایت میں فرمایا: ’’قرآن کی تلاوت کرو اور روؤ‘‘۔ ٭تلاوتِ قرآن کا چھٹا حق یہ ہے کہ اس کو حفظ بھی کیا جائے۔ حفظ میں یہ ضروری نہیں کہ پورا ہی حفظ کیا جائے، بلکہ حسب توفیق زیادہ سے زیادہ حفظ کیا جائے۔ تیسرا حق:…تذکروتدبر یعنی قرآن کو سمجھنا۔ بغیر سمجھے قرآن کی تلاوت کا جواز ان لوگوں کے لیے ہے جو پڑھنے لکھنے سے محروم رہ گئے ہیں اور اب ان کی عمر اس حد کو پہنچ چکی ہے کہ ان کے لیے سیکھنا ناممکن ہو چکا ہے،ایسے لوگ اگر ٹوٹی پھوٹی تلاوت کریں یا تلاوت نہ کرسکیں محض عقیدت کی بنا پر سطروں پر اپنی انگلیاں ہی پھیریں تو بھی ان کو ثواب ملے گا۔ لیکن پڑھے لکھے لوگ جنہوں نے دنیا کے مختلف علوم وفنون حاصل کرنے میں زندگیاں صرف کیں، اپنی تو کیا غیرملکی زبانیں بھی سیکھیں،ایسے لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ قرآن کا فہم حاصل کریں۔ فہم کے مدارج فہم قرآن کے دو درجے ہیں: ۱:… تذکر بالقرآن۔۲:…تدبر فی القرآن۔ ۱:… تذکربالقرآن یہ ہے کہ قرآن سے نصیحت حاصل کرنا، اس اعتبار سے قرآن مجید بہت ہی آسان کتاب ہے، ارشاد ربانی ہے: ’’وَلَقَدْ یَسَّرْنَاالْقُرْأٰنَ لِلذِّکْرِ فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ‘‘۔(القمر:۱۷) ’’ہم نے قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے لیے آسان بنایا ہے ، ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا؟‘‘۔ قرآن کو نازل کرکے اللہ تعالیٰ نے ہر انسان پر حجت قائم کردی ہے، خواہ وہ کتنی ہی کم استعداد کا مالک ہو، اگر یہ بات درست ہے تو پھر یہ بھی درست ہے کہ قرآن سے نصیحت حاصل کرنا ہر انسان کے لیے آسان ہے، ہر انسان قرآن سے تذکر حاصل کرسکتا ہے۔ ۲:…تدبر فی القرآن یہ ہے کہ قرآن میں غوروخوض کیا جائے، قرآن مجید وہ سمندر ہے جس کی گہرائی کا کسی کو اندازہ نہیں ہو سکا۔ صحابہ کرام s تدبر وتفکر میں کئی کئی سال لگاتے تھے۔ وہی عبداللہ بن عمر q جن کو حضور a نے سات دن میں قرآن کریم ختم کرنے کا حکم فرمایا تھا، وہ صرف سورۂ بقرہ میں تدبر پر آٹھ سال لگا دیتے ہیں، حالانکہ آیات کا شان نزول،عربی زبان اور دیگر قواعد سب جانتے تھے، ان کو سیکھنے کی کوئی حاجت ہی نہیں تھی۔ امام غزالی v نے ایک عارف کے بارے میں لکھا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ : میں قرآن مجید کاایک ختم ہر جمعہ کوکرتا ہوں اور ایک ختم ہر مہینے کرتا ہوں اور ایک ختم ہر سال کرتا ہوں اور ایک ختم ایسا بھی ہے جس میں تیس سال ہوگئے ہیں، ابھی جاری ہے۔ قرآن مجید کو بطریق تدبر پڑھنے کی کچھ شرائط ہیں، اس کام کے لیے اولاً عربی زبان کے قواعد کا گہرا اور پختہ علم ضروری ہے ، پھر اس کے ادب کا ایک ستھراذوق اور فصاحت وبلاغت کا عمیق فہم لازمی ہے ، اس پر مستزاد یہ کہ جس زبان میں قرآن نازل ہوا، اس کا صحیح فہم اس کے بغیر ممکن نہیں کہ ادب جاہلی کا تحقیقی مطالعہ کیا جائے اور دور جاہلی کے شعرا اور خطبا کا کلام بھی پڑھا جائے، پھر اسی پر بس نہیں، قرآن کی اپنی بھی وضع کردہ اصطلاحات ہیں، جن سے واقفیت ایک طویل مدت تک قرآن کو پڑھتے رہنے سے حاصل ہوتی ہے۔ پھر قرآن کے نظم کو سمجھنا، اس کی ترتیب نزولی اور آیتوں وسورتوں کا باہمی ربط جاننا، یہ سب چیزیں بہت ضروری ہیں۔ یہ ساری وہ چیزیں ہیں جن کے بارے میں مفسرین نے چودہ علوم کا جاننا کہا ہے، اور یہ چودہ علوم والی بات تو پرانی ہے، اب تو اور کئی علوم بھی متعارف ہو گئے ہیں، اب تو سولہ یا اٹھارہ علوم کی قید لگائی جاسکتی ہے۔ چوتھا حق:…حکم ،اقامت اورعمل قرآن مجید کا چوتھاحق یہ ہے کہ اس پر عمل کیا جائے۔ قرآن مجید نہ تو جادومنتر کی کتاب ہے کہ محض اس کا پڑھنا دفع بلیات کے لیے کافی ہے اور نہ ہی یہ محض حصول برکت اور ثواب کی کتاب ہے کہ دکان ومکان میں برکت یا مردے بخشوانے کے لیے اس کی تلاوت کی جائے، بلکہ یہ ’’ھُدًی لِّلنَّاسِ‘‘ ہے، اس کا مقصد ِنزول اس ہدایت کو حاصل کرنا ہے اور اُسے اپنی زندگیوں کا لائحہ عمل بنانا ہے۔ ایک شخص تو وہ ہے جو تلاشِ حق میں لگا ہوا ہے، اس کو قرآن کے حق ہونے یا نہ ہونے کا یقین نہیں ہے، لیکن وہ لوگ جو اسے حق سمجھتے ہیں، اس پر ایمان رکھتے ہیں، ان کے لیے تو ضروری ہے کہ وہ قرآن کریم کو اپنی زندگی پر عملًا نافذ کریں، وہ قرآن کریم کی انگلی پکڑ کر چلنے کی کوشش کریں۔ عمل کے دو پہلو پھر اس عمل کے بھی دو پہلو ہیں: ایک انفرادی اور دوسرا اجتماعی، ایسے احکام جن کا تعلق انفرادی زندگی سے ہے، ان کا تو انسان فی الفور مکلف ہے، البتہ ایسے احکام جن کا تعلق اجتماعی زندگی سے ہے ان کا فی الفور مکلف تو نہیں، لیکن ان کو درست کرنے کی کوشش کرنا یہ ضروری ہے۔ پانچواں حق:…تبلیغ وتبیین قرآن مجید کا پانچواں حق اُسے دوسروں تک پہنچاناہے،جیسا کہ آپ a کا ارشاد ہے: ’’بَلِّغُوْا عَنِّی وَلَوْأٰیَۃً‘‘۔(سنن الترمذی،ج:۴،ص:۳۳۷، ط:دارالغرب الاسلامی،بیروت) آپ a کے اس ارشاد سے معلوم ہو ا کہ تبلیغ کی ذمہ داری سے کوئی بھی بری نہیں، اگرچہ ایک ہی آیت آتی ہو۔ اصلاً تو یہ فریضہ ہے کہ قرآن کریم کے الفاظ اور مفہوم کو اقوامِ عالم تک پہنچایاجائے، لیکن بدقسمتی سے جس جس کی یہ ذمہ داری تھی وہ خود محتاج ہے کہ اس تک پہنچایا جائے، اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلیم وتعلم قرآن کی ایک ایسی رَو چل پڑے کہ تمام مسلمان قرآن کریم کو سیکھنے سکھانے میں لگ جائیں۔ قرآن مجید کے یہ پانچ حقوق ہیں، لیکن عام طور پر جو حقوق سمجھے جاتے ہیں، وہ یہ ہیں: ریشمی جز دان میں رکھا جائے۔جہیز میں دیا جائے۔ نزع کے وقت سرہانے کے قریب یا نئی دکان ومکان میں اس کی تلاوت کی جائے۔ عدالتوں میں قسم اٹھاتے وقت سر پررکھا جائے۔ پریشانی کے وقت فال نکالا جائے۔نعوذباللّٰہ من ذٰلک۔ قرآن کے ساتھ ہمارا طرزِ عمل حضرت عبیدہ ملیکی qسے مروی ہے، آنحضرت a نے فرمایا: ’’یا أھل القرآن ! لا تتوسدوا القرأٰن واتلوہ حق تلاوتہ من أٰناء اللیل والنھاروافشوہ وتغنوہ وتدبروا فیہ لعلکم تفلحون‘‘۔                 (رواہ البیہقی) ترجمہ:’’اے اہل قرآن! اس قرآن کو پس پشت نہ ڈالو، اور اس کی تلاوت کرو جیسا اس کا حق ہے صبح اور شام، اور اس کو پھیلاؤ، اور اسے خوبصورت آوازوں سے پڑھو، اور اس میں تدبر کرو تاکہ تم فلاح پاؤ‘‘۔ لا تتوسدوا یعنی پس پشت نہ ڈالو،سہارا نہ بناؤ۔ ہم نے برکت کی کتاب سمجھ کر طاق میں رکھ دیا، اپنی قسموں کے لیے تختۂ مشق بنادیا، مرتے ہوئے شخص کے پاس سورۂ یٰسین پڑھ لیتے ہیں، بیٹی کو ٹی وی کے ساتھ جہیز میں قرآن بھی دے دیتے ہیں۔ ہمارے حال پر حضور a کا یہ فرمان صادق آتا ہے: ’’ إن اللّٰہ یرفع بہذا الکتاب أقواما ویضع بہ آخرین‘‘۔(صحیح مسلم) ترجمہ:’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ اس کتاب (قرآن)کے ذریعہ بہت سی قوموں کو بلند کرتا ہے اور اس کے ذریعہ بہت سوں کو گراتا ہے‘‘۔ یعنی دنیا میں بحیثیت قوم ہماری تقدیر اس کتاب سے جڑی ہوئی ہے۔ خطبۂ حجۃ الوداع میں آپ a نے ارشاد فرمایا: ’’وقدترکت فیکم ما لن تضلوا بعدہٗ إن اعتصمتم بہ : کتاب اللّٰہ ‘‘۔(صحیح مسلم) ترجمہ:’’میں تمہارے درمیان وہ چیز چھوڑ کر جارہا ہوں کہ جب تک اس کے ساتھ چمٹے رہو گے ہرگز گمراہ نہ ہوگے اور وہ اللہ کی کتاب (قرآن) ہے‘‘۔ حضرت علی q سے ایک طویل حدیث مروی ہے: ’’عن علی q قال: إنی سمعت رسول اللّٰہa یقول: إِنَّھَا سَتَکُونُ فِتْنَۃٌ، قُلتُ: مَاالمخرجُ یارسول اللّٰہ a ؟ قال: کتاب اللّٰہ، فیہ نَبَأُ مَاقَبلَکم وخَبَرُ مَابَعدَکم وحُکمُ مَابَینکُم، ھوالفَصلُ لیسَ بالھَزْلِ، مَن تَرَکَہٗ مِن جَبَّارٍ قَصَمَہٗ اللّٰہُ ومَنِ ابْتَغٰی الھُدٰی فِی غَیرِہ أضَلَّہُ اللّٰہُ وھو حَبلُ اللّٰہِ المَتِینُ، وھو الذکرُ الحکیم، وھوالصراط المستقیمُ ‘‘۔(سنن الترمذی،ج:۵،ص:۱۷۲،ط:دارإحیاء التراث العربی،بیروت) ’’حضرت علی q فرماتے ہیں: میں نے حضور a سے سنا، آپ aنے فرمایا: عنقریب فتنہ ظاہر ہوگا، میں نے پوچھا اس سے نکلنے کا راستہ کیا ہے؟(اگر آج کا مسلمان ہوتا تو فوراً پوچھتا کب ہوگا؟ کہاں ہوگا ؟کیا ہوگا؟ لیکن صحابہ کرام sکو اپنی ایسی فکر لگی ہوتی تھی کہ فوراً اس سے خلاصی کا طریقہ پوچھا)آپ a نے فرمایا: اس سے خلاصی اللہ کی کتاب قرآن ہے، اس میں تم سے پہلے اور بعد کی خبریں ہیں اور اس میں تمہارے درمیان فیصلے ہیں، وہ قول فیصل ہے، فضول بات نہیں ہے، جوجابر سرکش اس کو چھوڑے گا اللہ اس کو توڑکر رکھ دے گا، اور جو اس کے علاوہ ہدایت تلاش کرے گا اللہ اس کو گمراہ کردے گا،قرآن ہی حبل اللہ ہے،اور محکم نصیحت نامہ ہے،اور صراطِ مستقیم ہے‘‘۔ قرآن حبل اللہ ہے سورۂ حج میں فرمایا: ’’وَاعْتَصِمُوْا بِاللّٰہِ‘‘۔ لیکن بات واضح نہیں تھی، پھر اس کی شرح سورۂ آل عمران میں بیان فرمائی: ’’وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ‘‘ اب بھی بات واضح نہیں تھی تو احادیث میں اس کی تشریح فرمائی: ۱:…ترمذی شریف کی حدیث میں ہے، آپ a نے قرآن پاک کے فضائل بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’ھو حبل اللّٰہ المتین‘‘۔ یہی قرآن اللہ کی مضبوط رسی ہے۔ ایک حدیث میں مزید وضاحت ہے، ایک مرتبہ رسول اللہ a اپنے حجرے سے باہر تشریف لائے، دیکھا صحابہ کرام s قرآن کا مذاکرہ کررہے تھے، آپ a نے فرمایا: ۲:…’’ ألیس تشھدون أن لا إلہ إلااللّٰہ وحدہ لا شریک لہ وأنی رسول اللّٰہ وأن القرآن جاء من عنداللّٰہ؟ قلنا بلٰی۔ قال فأبشروا فإن ہذا القرأٰن طرفہ بیداللّٰہ وطرفہ بأیدیکم فتمسکوا بہ فإنکم لن تھلکوا ولن تضلوا بعدہٗ أبداً‘‘۔(طبرانی کبیر) ترجمہ:’’کیا تم اس بات کی گواہی نہیں دیتے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں اور قرآن اللہ کی کتاب ہے؟ صحابہ کرام s نے فرمایا: کیوں نہیں؟!تو آپ a نے فرمایا: خوشخبری حاصل کرو، یہ قرآن اس کی ایک طرف اللہ کے ہاتھ میں ہے اور دوسری طرف تمہارے ہاتھ میں ہے، لہٰذا اس کو مضبوطی سے تھام لو، اس کے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے‘‘۔  اسی طرح مصنف ابن ابی شیبہ کی ایک روایت میں ہے: ’’ قال رسول اللّٰہ a : کتاب اللّٰہ ھو حبل اللّٰہ الممدود من السماء إلی الأرض‘‘۔ ترجمہ:’’اللہ کی کتاب ہی اللہ کی رسی ہے جو آسمان سے زمین تک پہنچی ہوئی ہے‘‘۔ اکابرین امت کی نظر میںتمام مسائل کا حل قرآن مجیدمیں حضرت مولانا ابوالکلام آزاد v اگر ایک شخص مسلمانوں کی تمام موجودہ تباہ حالیوں اور بدبختیوں کی علت حقیقی دریافت کرنا چاہے اور ساتھ ہی یہ شرط بھی لگا دے کہ صرف ایک ہی علت اصلی ایسی بیان کی جائے جو تمام علل واسباب پر حاوی اور جامع ہو تو اس کو بتایا جاسکتا ہے کہ علماء حق ومرشدین صادقین کا فقدان اور علماء سوء ومفسدین دجالین کی کثرت: ’’رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَکُبَرَائَ نَا فَأَضَلُّوْنَاالسَّبِیْلَا‘‘۔ اور پھر اگر وہ پوچھے کہ ایک ہی جملہ میں اس کا علاج کیا ہے؟ تو اس کو امام مالک v کے الفاظ میں جواب ملنا چاہیے کہ: ’’لَایَصْلُحُ آخِرُ ھٰذِہٖ الْأُمَّۃِ اِلَّا بِمَا صَلَحَ بِہٖ أَوَّلُھَا‘‘۔ یعنی امت مرحومہ کے آخری عہد کی اصلاح کبھی نہ ہوسکے گی تاوقتیکہ وہی طریق اختیار نہ کیا جائے جس سے اس کے ابتدائی عہد نے اصلاح پائی تھی، اور وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ قرآن حکیم کے اصلی وحقیقی معارف کی تبلیغ کرنے والے مرشدین صادقین پیدا کیے جائیں۔ (البلاغ،جلد اول، شمارہ اول، مورخہ بارہ نومبر۱۹۱۵ئ) حضرت مولانا انور شاہ کشمیری v مفتی محمد شفیع مرحوم ومغفور فرماتے ہیں کہ :’’میں حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کاشمیری v کی خدمت میں ایک دن نماز فجر کے وقت اندھیرے میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ حضرت سر پکڑے ہوئے بہت غمزدہ بیٹھے ہیں۔ میں نے پوچھا:’’مزاج کیسا ہے؟‘‘ انہوں نے کہا کہ: ہاں! ٹھیک ہے، میاں ! مزاج کیا پوچھتے ہو؟ عمر ضائع کردی۔ میں نے عرض کیا: حضرت! آپ کی ساری عمرعلم کی خدمت میں اور دین کی اشاعت میں گزری ہے، ہزاروں آپ کے شاگرد علما ہیں جو آپ سے مستفید ہوئے اور خدمت دین میں لگے ہوئے ہیں، آپ کی عمر اگر ضائع ہوئی تو پھر کس کی عمر کام میں لگی؟ تو حضرت vنے فرمایا کہــ’’ میں تمہیں صحیح کہتا ہوں کہ اپنی عمر ضائع کردی‘‘ میں نے عرض کیا کہ حضرت! اصل بات کیا ہے؟ فرمایا: ’’ہماری عمروں کا، ہماری تقریروں کا، ہماری ساری کوششوں کا خلاصہ یہ رہا کہ دوسرے مسلکوں پر حنفی مسلک کی ترجیح قائم کردیں۔ امام ابو حنیفہ v کے مسائل کے دلائل تلاش کریں، یہ رہا ہے محور ہماری کوششوں کا، تقریروں کا اور علمی زندگی کا۔اب غور کرتا ہوں کہ کس چیز میں عمر برباد کی! پھر فرمایا:’’ ارے میاں! اس بات کا کہ کون سا مسلک صحیح تھا اور کون سا خطاء پر ؟ اس کا راز تو کہیں حشر میں بھی نہیں کھلے گا اور نہ دنیا میں اس کا فیصلہ ہوسکتا ہے اور نہ ہی قبر میں منکر نکیر پوچھیں گے کہ رفع یدین حق تھا یا ترکِ رفع یدین حق تھا؟(نماز میں) آمین زور سے کہنا حق تھا یا آہستہ کہنا حق تھا؟ برزخ میں بھی اس کے متعلق سوال نہیں کیا جائے گا اور قبر میں بھی یہ سوال نہیں ہوگا، روز محشر اللہ تعالیٰ نہ امام شافعی  v کو رسوا کرے گا، نہ امام ابوحنیفہ vکو، نہ امام مالک v کو،اور نہ امام احمد بن حنبل v کو… اور نہ میدان حشر میں کھڑا کرکے یہ معلوم کرے گا کہ امام ابوحنیفہ v نے صحیح کہا تھا یا امام شافعی v نے غلط کہا تھا، ایسا نہیں ہوگا۔تو جس چیز کا نہ دنیا میں کہیں نکھرنا ہے، نہ برزخ میں ، نہ محشر میں، اس کے پیچھے پڑکر ہم نے اپنی عمر ضائع کردی اور جو صحیح اسلام کی دعوت تھی، جو سب کے نزدیک مجمع علیہ اور وہ مسائل جو سبھی کے نزدیک متفقہ تھے اور دین کی جو ضروریات سبھی کے نزدیک اہم تھیں، جن کی دعوت انبیاء کرام o لے کر آئے تھے، جن کی دعوت کو عام کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا تھا، وہ منکرات جن کو مٹانے کی کوشش ہم پر فرض کی گئی تھی، آج اس کی دعوت ہی نہیں دی جارہی ، یہ ضروریاتِ دین تو لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہو رہی ہیں اور اپنے اور اغیار سبھی دین کے چہرے کو مسخ کررہے ہیں اور وہ منکرات جن کو مٹانے میں ہمیں لگے ہونا چاہیے تھا وہ پھیل رہے ہیں، گمراہی پھیل رہی ہے ، الحاد آرہاہے، شرک وبت پرستی چلی آرہی ہے، حرام وحلال کا امتیاز اٹھ رہا ہے، لیکن ہم لگے ہوئے ہیں ان فرعی وفروعی بحثوں میں، اس لیے غمگین بیٹھا ہوں اور محسوس کررہا ہوں کہ عمر ضائع کردی‘‘۔ (وحدت امت،ص:۱۳،مفتی محمد شفیع v) مفتی محمد شفیع v فرماتے ہیں کہ: حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیری v نے ایک مرتبہ فرمایا کہ اجتہادی مسائل اور ان کے اختلاف جن میں ہم اور عام اہل علم الجھتے رہتے ہیںاور علم کا پورا زور اس پر خرچ کرتے ہیں، ان میں صحیح وغلط کا فیصلہ دنیا میں تو کیا ہوتا میرا گمان تو یہ ہے کہ محشر میں بھی اس کا اعلان نہیں ہوگا، کیونکہ رب کریم نے جب دنیا میں کسی امام مجتہد کو باوجود خطا ہونے کے ایک اجر وثواب سے نوازا ہے اور ان کی خطا پر پردہ ڈالا ہے تو اس کریم الکرماء کی رحمت سے بہت بعید ہے کہ وہ محشر میں اپنے ان مقبولانِ بارگاہ میں سے کسی کی خطأ کا اعلان کرکے اس کو رسوا کریں۔ دو عظیم شخصیات کالجوں یونیورسٹیوں سے نکلنے والے لوگوں میں چوٹی کی شخصیت علامہ اقبال v ہیں، اور مدارس ودارالعلوموں سے نکلنے والے لوگوں میں سے چوٹی کی شخصیت شیخ الہند v ہیں۔ شیخ الہند v  مولانا مرحوم جمعیت علماء ہند کے صدر تھے، اس میں بریلوی ،دیوبندی، اہل حدیث تمام علما شامل تھے۔ آپ نے تحریک ریشمی رومال چلائی تھی، آپؒ کو حجاز سے انگریزوں نے گرفتار کرکے جزیرہ مالٹا میں قید کیا تھا، چار سال قید کے بعد جب ٹی بی کا مرض تیسری سٹیج پر پہنچا تو انگریزوں نے رہا کردیا۔ آپ جب رہا ہو کر بمبئی کے ساحل پر پہنچے تو آپ کا استقبال کرنے مہاتما گاندھی بھی آیا تھا۔رہائی کے بعد ایک مرتبہ دارلعلوم دیوبند میں علما کے ایک مجمع میں آپؒ نے فرمایا:’’ہم نے تو مالٹا کی زندگی میں دو سبق سیکھے ہیں‘‘۔ یہ الفاظ سُن کر سارا مجمع ہمہ تن گوش ہو گیا کہ اس استاذ العلماء درویش نے اسّی سال علماء کو درس دینے کے بعد آخر عمر میں جو سبق سیکھے ہیں وہ کیا ہیں؟ فرمایاکہ: ’’ میں نے جہاں تک جیل کی تنہائیوں میں اس پر غور کیا کہ پوری دنیامیں مسلمان دینی اور دنیوی ہر حیثیت سے کیوں تباہ ہو رہے ہیں؟ تو اس کے دو سبب معلوم ہوئے: ایک ان کا قرآن کریم کو چھوڑ دینا، دوسرے ان کے آپس کے اختلافات اور خانہ جنگی۔ اس لیے میں وہیں سے یہ عزم لے کر آیا ہوں کہ اپنی باقی زندگی اس کام میں صرف کروں کہ قرآن کریم کو لفظاً اور معناً عام کیا جائے، بچوں کے لیے لفظی تعلیم کے مکاتب ہر بستی بستی میں قائم کیے جائیں ، بڑوں کو عوامی درسِ قرآن کی صورت میں اس کے معانی سے روشناس کرایا جائے اور قرآنی تعلیمات پر عمل کے لیے آمادہ کیا جائے، اور مسلمانوں کے باہمی جنگ وجدال کو کسی قیمت پر برداشت نہ کیا جائے۔‘‘ مفتی صاحب v فرماتے ہیں: ’’ نبَّاضِ امّت نے مِلّت ِمرحومہ کے مرض کی جو تشخیص اور تجویز فرمائی تھی، باقی ایّام زندگی میں ضعف وعلالت اور ہجومِ مشاغل کے باوجود اس کے لیے سعی پیہم فرمائی‘‘۔(وحدتِ امت) علامہ اقبالv: علامہ اقبال v نے جو حل تجویز فرمایا، وہ ہے: وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر علامہؒ اپنی فارسی کی شاعری میں اسی بات کو ایک اور انداز سے بیان فرماتے ہیں: خوار از مہجوریِٔ قرآں شدی شکوہ سنجِ گردشِ دوراں شدی اے چوں شبنم بر زمیں افتندہ در بغل داری کتابِ زندہ ’’ہم قرآن کو چھوڑ کر خوار ہورہے ہیں اور شکوہ زمانے کا کررہے ہیں، اے وہ شخص جو شبنم کی طرح زمین پر گرا پڑا ہے، تیری بغل میں ایک زندہ کتاب ہے(اس سے استفادہ کر)‘‘۔ در اصل یہ سورۂ فرقان کی اس آیت کا مفہوم ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ a کی فریاد واستغاثہ کو ذکر فرمایا: ’’وَقَالَ الرَّسُوْلُ یٰرَبِّ إِنَّ قَوْمِیْ اتَّخَذُوْا ھٰذَاالْقُرْأٰنَ مَہْجُوْرًا‘‘۔      (الفرقان:۳۰) ’’اور کہے گا رسول، اے میرے رب! میری قوم نے اس قرآن کو نظرانداز کر دیا تھا‘‘۔ ایک اور جگہ فرماتے ہیں: گر تو می خواہی مسلماں زیستن نیست ممکن جز بہ قرآن زیستن ’’اگر تو مسلمان زندہ رہنا چاہتا ہے تویہ قرآن کے بغیر ممکن نہیں ہے‘‘۔ اپنی تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں، آپ کو واضح طور پر نظر آئے گا کہ جب تک مسلمانوں نے قرآن کو مضبوطی سے تھامے رکھا، اسی کو حقیقی معنوں میں اپنا ہادی وراہنما سمجھا، اپنے عمل، اخلاق اور معاملات کو اسی کے مطابق استوار رکھا تو انفرادی اور اجتماعی ہر سطح پر ان کا رعب اور دبدبہ قائم رہا، دنیا میں وہ سربلند اورغالب رہے اور اسلام کا جھنڈا چہار دانگ عالم میں لہراتا رہا، لیکن جیسے جیسے وہ کتاب اللہ سے بے پروا اور نور وحکمت کے اس خزینہ سے بے تعلق ہوتے چلے گئے، ویسے ویسے ان پر زوال کے سائے گہرے ہوتے گئے اور وہ بتدریج فساد اور انحطاط میں مبتلا ہوتے چلے گئے اور نیتجتاًمغلوب ہوگئے۔ چنانچہ سب سے پہلے ان کے عقائد خراب ہوئے، پھر اعمال بگڑے، پھر سنت کی جگہ بدعت نے لے لی، پھر ان کا اتحاد پارہ پارہ ہوگیا،وہ بیشمار فرقوں اور قومی ونسلی وجغرافیائی تعصبات میں تقسیم ہوگئے۔ ٭٭٭

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین