بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

قدیم اور جدید معاشی نظریات کا تعارف (پہلی قسط)

قدیم اور جدید معاشی نظریات کا تعارف                                    (پہلی قسط)

معاشیات کاقدیم تصوراورطرزعمل معیشت اورتجارت کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی خودانسان کی،احتیاج برائے مبادلہ (Need of Exchange)کی جڑیںزمانے کے اس دورسے پیوستہ ہیںجس وقت دو انسانوں نے آپس میںدومطلوبہ چیزوںکاتبادلہ کیا۔ البتہ تجارت نے بحیثیت ایک پیشے اورمعاشی کاروبارکی باقاعدہ شکل حضرت سلیمان علیہ الصلاۃ والسلام کے زمانے میںاختیارکی،ان کے تجارتی بیڑے تھے، اوران کے تجارتی ایجنٹ (Agent)مختلف شہروںمیںوہاںکے تجارتی احوال سے باخبررکھنے پر مامور تھے۔                                                         (دائرۃ المعارف لفریدوجدی:۲/۵۴۰،بیروت) یونانیوںکی معاشی سرگرمیاں یونانیوںنے اپنے دورحکومت میںتجارت کے پیشے کوخوب ترقی دی ،یہاں تک کہ ان کوسیاسی اورمعاشی دونوںطرح کاتفوق حاصل رہا،ان کے بعدرومیوںکے حکمرانوںــــ ـــ’’بومی‘‘ اور’’آغوست‘‘ کے دورمیںتجارتی اورمعاشی سرگرمیوںکومزیدعروج ملا،لیکن رومی بادشاہ’’ تبیر‘‘کے زمانہ میںمعاشی زوال کی ابتداء ہوئی اورآئے روزاس میںاضافہ ہوتاچلاگیا،اگرچہ بعد کے کئی رومی حکمرانوں نے اسے روبزوال ہونے سے بچانے کی بہت کوششیںکیں،لیکن ان کی کوئی کوشش اورمحنت بارآورثابت نہ ہوسکی۔(حوالہ بالا:۲/۵۴۰)  قدیم عرب کامعاشی نظام     زمانہ گزرتارہااوریوںعربوںکادورشروع ہوا،ان کے معاشی حالات کاجائزہ لینے سے معلوم ہوتاہے کہ قدیم عرب کامعاشی نظام اورطرزعمل گوکہ آج کے جدیدمعاشی نظامو ں کی طرح کوئی مکمل نظام تونہیںتھا،لیکن چوںکہ وہ بھی انسانوں کاوضع کردہ ایک نظام تھا،اس لئے اس میںایک معاشی نظام کے تمام بنیادی عنصرپائے جاتے تھے،جن کی بنیادوںپرتہذیب وتمدن کی ترقی کے ساتھ نئے معاشی نظاموںکی عمارتیںتعمیرکی گئی ہیں۔یہ بات توروزروشن کی طرح عیاںہے کہ انسان نے جونظام بھی ہدایت الٰہیہ کی روشنی اوررہنمائی کے بغیرمحض اپنی عقل وفہم اورذاتی تجربے کی بنیادپروضع کیا،اگرچہ ظاہربینوںکواس میںنفع ہی نفع نظرآتاہے،مگرپھربھی یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ اپنے اندرخامیاںاورنقصات کوپنہاںکئے ہوئے ہوتاہے،جنہیںیاتواصحاب اقتدارکے ظلم وجبرنے دبایاہوتاہے،یازمانے کی چکاچوند،اغراض ومفادات کی دبیزچادرنے چھپایاہواہوتاہے،کیونکہ انسانی عقل ناقص ہے، کامل نہیں کہ اس کی بنیادپرکوئی بے عیب نظام وضع کیاجاسکے اوروہ خامیوںسے مبرّاہو،ایک مکمل اوربے عیب نظام کے لئے انسانی عقل وفہم کے ساتھ احکامات وہدایات الٰہیہ کی رہنمائی بھی ناگزیرہے۔ عصرجاہلیت میںعرب کامعاشی نظام زمانہ جاہلیت میںعربوںکے معاشی حالات کاجائزہ لینے سے ان کے مندرجہ ذیل معاشی پہلوہمارے سامنے آتے ہیں:۱:…تجارت۔۲:…زراعت۔۳:…صنعت وحرفت۔ ۴:…دیگرپیشے۔ ۵:…غارت گری ۔۶:…متفرقات۔ ۱:…تجارت عرب قوم کادنیاکی دیگراقوام عالم میں عمومی تعارف بحیثیت تجارت پیشہ قوم کے تھا۔مکہ مکرمہ میںبیت اللہ واقع ہونے کی وجہ سے آج کی طرح اس زمانہ میں بھی اُسے تقدس واحترام حاصل تھا،اسے دنیاکامحفوظ ترین مقام جاناجاتااوردنیاکے مختلف خطوںسے حجاج اپناتجارتی سامان لاکریہاںفروخت کرتے اوریہاںسے خریداہواتجارتی سامان دنیاکے دیگرعلاقوںمیںلے جاتے تھے۔ اس طرح مکہ مکرمہ کوزمانہ قدیم سے دینی شرافت کے ساتھ ایک بین الاقوامی تجارتی مرکزہونے کابھی درجہ حاصل رہاہے۔  عربوں کے تجارتی بازاراورمراکز     مختلف اشیاء کی خریدوفروخت کے لئے مخصوص اورالگ تجارتی بازاراورمراکزقائم ہوتے تھے،کتب تاریخ میںان کاتذکرہ ملتاہے: ۱:…سوق العطاریین‘عطرفروشوںکابازار(Perfumes Markiet) ۲:…سوق الفواکہ،پھلوںکابازار(Fruits Markiet) ۳:…سوق الرطب،کھجورمنڈی(Dates Markiet) ۴:…سوق البزازین،کپڑافروشوںکابازار (Cloth marchent's Markiet) ۵:…زقاق للحذائین،جوتوںکابازار(Center of shoes) ۶:…مکان للحجامین والعلاقین،حجام(Hair Cutters Saloons) اس کے علاوہ یہاںکی غلہ منڈی میںگہیوںاوراناج وغیرہ جبکہ بازارمیںشہد،مصالحہ جات اوردیگراشیاء خوردونوش بھی بکثرت ملتی تھیں۔(السیرۃ النبویۃ،للندوی)علاوہ ازیںیمن اورمدینہ منورہ سے نکالی گئی تجارت پیشہ یہود قوم اس وقت طائف میںقیام پذیرتھی۔                   (فتوح البلدان،ص:۶۵) قریش مکہ اورتجارت قریش مکہ ایک تجارت پیشہ قوم تھی،جیساکہ اسم قریش کے لغوی معنی (تجارت اورکسب کرنے والا)سے بھی ظاہرہوتاہے، ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’سمیت قریش من التقرش :وہوالتکسب والتجارۃ ،حکاہ ابن ہشام رحمہ اللّٰہ ‘‘۔                              (البدایہ والنہایہ لابن کثیر،قریش نسباًواشتقاقاًوفضلاً:۱/۹۹الحقانیہ بشاور) وہ سال میںدومرتبہ تجارتی سفرکیاکرتے،موسم سرمامیںیمن اورموسم گرمامیںشام کاتجارتی سفرکرتے تھے۔                         (جامع البیان فی تفسیرالقرآن للطبری ،تفسیرسورۃ قریش:۱۲/۱۹۹،دارالمعرفۃ ،بیروت ) قرآن مجیدمیںاللہ تعالیٰ نے انہی تجارتی اسفارکاذکربطوراحسان فرمایاہے،بقول مؤرخین ان تجارتی اسفارکاآغازحضوراکے داداہاشم نے کیا،وہ ہرسال بغرض تجارت شام اورفلسطین جایاکرتے،یوںاس طرح مستقل تجارتی سفروںکی بنیادپڑگئی۔      (تاریخ الطبری المعروف بتاریخ الأمم والملوک،ہاشم:۲/۱۲،مؤسسہ الأعلمی للمطبوعات، بیروت) قریش کے تقریباًتمام مردوعورت تجارت پیشہ تھے،ان کے ہاںیہ عام رواج تھاکہ جوتاجرنہ ہوتااس کی معاشرہ میںکوئی عزت نہ ہوتی تھی۔ان کے تجارتی قواعد وضوابط نے ایک مکتب کی صورت اختیارکرلی تھی،جس نے اوزان اورحسابات کے نظام کوپروان چڑھایا۔    (تاریخ الاسلام ،للدکتورحسن ابراہیم ،الباب الاول ،العرب قبل الاسلام،التجارۃ فی بلادالعرب:۱/۶۳،دارإحیاء التراث العربی) علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ اپنی معرکۃ الآراء تصنیف ’’سیرۃ النبی ‘‘میںقبل ازاسلام عربوںکے حالات کے حوالے سے تحریرفرماتے ہیں: ’’چاندی اورسونے کی کانیںبکثرت ہیں،علامہ ہمدانیؒ نے ’’صفۃ جزیرالعرب‘‘ میں ایک ایک کان کانشان دیاہے،قریش جوتجارت کیاکرتے تھے، مؤرخین نے لکھا ہے وہ زیادہ تران کامال تجارت چاندی ہوتی تھی۔برٹن صاحب نے مدین کے طلائی معادن پرخا ص ایک کتاب لکھی ہے۔(Gold Minees of Median) مکہ کے تاجر چمڑا، کھالیںاورطائف کامنقی برآمدکیاکرتے تھے‘‘۔                  (سیرۃ النبی ‘للشبلی نعمانیؒ،تاریخ عرب قبل اسلام،عرب:۱/۱۰۵،نیشنل فاؤنڈیشن اسلام آباد) وہ جنوبی یمن،ہند اورافریقہ سے سونا،قیمتی پتھر،صندل کی لکڑی ،زعفران،خوشبوئیں،گرم مصالحہ جات اورجڑی بوٹیاںدرآمدکیاکرتے تھے۔ یہ اشیاء گووزن میں کم مگرقیمت میں زیادہ ہوتی تھیں۔یمن کے عطوراوربخوراورکپڑابالخصوص قبولیت عام کادرجہ رکھتے تھے۔ چین سے ریشم،عدن سے قیمتی کپڑے،افریقہ سے غلام،کرایہ کے سپاہی مزدور،شام اورمصرسے سامان تعیش،روم کی صنعتی پیداوار خصوصاًریشم ،روئی اورمخمل کے نفیس کپڑے ،شام سے ہتھیار،اناج اورتیل ،افریقہ سے ہاتھی دانت کی مصنوعات اورسونے کی مٹی وغیرہ درآمدکیاکرتے تھے۔ زمانہ جاہلیت کے بازار بازارتجارتی سرگرمیوںکی جائے پیدائش،مقام تربیت،نقطہ عروج اورمظہراتم ہوتے ہیں، یہاں سے ہی تجارتی سرگرمیاںپھلتی پھولتی اورپروان چڑھتی ہیں۔ قواعد وضوابط اورتجارتی نظریات، جغرافیائی ضروریات کے پیش نظروجودمیںآتے ہیں،لوگ انہیںمختلف ناموںسے موسوم کرتے ہیں۔ دورِ جاہلیت میں قائم کئے گئے تجارتی بازاریہ ہیں: ۱:… عکاظ۔۲:… ذوالمجاز۔۳:… مجنہ۔ ۴:… صنعائ۔۵:… تعز۔۶:… رابیہ۔ ۷:… شخر۔۸:… مشقر۔۹:…  حجر۔۱۰:… نطاۃ۔۱۱:… دومۃ الجندل۔۱۲:… صحار۔ ۱۳:… ریا۔۱۴:… عدن۔۱۵:… بصری۔۱۶:… دبا۔۱۷:… بدر۔                    (اسلام کاقتصادی نظام،مولاناحفظ الرحمن ، ص:۲۵،دہلی) زمانہ جاہلیت میںنظام زر مبادلہ زمانہ جاہلیت میںسکوںکارواج تھا،دیناراوردرہم کی چلت زیادہ تھی،جبکہ ان کے ساتھ ساتھ حمیری سکے بھی لین دین میںقبول کئے جاتے تھے۔(فتوح البلدان للبلاذریؒ)ان سکوںکی قدروقیمت کی تعیین ان کے وزن سے ہوتی تھی، نہ کہ ان کی ظاہری قدر(Face Value)سے۔  اس دورمیںدونظامِ زرکام کررہے تھے:۱:…سونا۲:…چاندی ،جن ممالک میںسونایعنی دینارکارواج تھا،وہ ’’اہل الذہب‘‘ کہلاتے تھے،جیسے مصراورشام وغیرہ،اورجن ممالک میںچاندی یعنی درہم کارواج تھا،انہیں’’اہل الورق‘‘کہاجاسکتاہے،جیسے:عراق اوربابل۔ زمانہ جاہلیت کی مشہورتجارتی شکلیں قبل ازاسلام عرب بالخصوص مکہ مکرمہ ،مدینہ منورہ اورطائف میںرائج بعض مشہورتجارتی شکلوںکاہم ذیل میںتذکرہ کرتے ہیں،لیکن یادرہے کہ اسلام نے ان تمام تجارتی شکلوںکوممنوع قراردیاہے۔ ۱:…بیع منابذہ جب بائع(فروخت کرنے والا)مشتری(خریدار)کی طرف کپڑاپھینک دیتاتوبیع لازم ہوجاتی۔                               (الہدایۃ للمرغینانی،کتاب البیوع،باب البیوع الفاسد:۵/۱۰۰،مکتبۃ البشریٰ،کرچی) ۲:…بیع ملامسہ جب مشتری فروخت کی جانے والی چیز کوچھولیتاتوبیع لازم ہوجاتی۔(حوالہ بالا) ۳:…بیع حبل الحبلۃ مشتری اوٹنی اس شرط پرلیتاکہ جب وہ جنے، پھراس کاجوبچہ ہو،وہ جنے، تب اس کی قیمت اداکروںگا۔                                              (بدائع الصنائع،کتاب البیوع:۴/۳۲۶،مکتبۃ رشیدیۃ) ۴:…بیع صفقہ مشتری بائع کے ہاتھ پراپناہاتھ مارکریہ ثابت کرتاکہ اب بیع مکمل ہوگئی،بعض دفعہ بائع چاہے یانہ چاہے ،مشتری چالاکی سے اس کے ہاتھ پرہاتھ مارکربیع کرلیتاجوبائع کومجبوراًقبول کرنا پڑتی۔                               (الکفایۃ علی الہدایۃ فی ذیل فتح القدیر،کتاب البیوع،باب البیع الفاسد:۶/۵۵،رشیدیہ) ۵:…بیع محاقلۃ اناج کی بالیاںپکنے سے پہلے تاجرکھیتوںکی پیداوارخریدکرقبضہ کرلیتے، تاکہ بعدمیںاپنی من مانی قیمت پربیچ سکیں۔                           (صحیح مسلم وشرحہ للنووی،کتاب البیوع،باب النہی عن المحاقلۃ:۲/۱۰،سعید) ۶:…بیع مزابنہ  پکی اورٹوٹی ہوئی کھجوروںکودرختوںپرلگی ہوئی کھجو روںکے عوض فروخت کیاجاتاتھا،جس میں نقصان اورجھگڑادونوںکے امکانات ہوتے تھے۔     (حاشیۃ ابن عابدین ،کتاب البیوع،باب البیع الفاسد:۵/۶۵،سعید) ۷:…بیع مصراۃ دودھ والے جانورکوفروخت کرنے سے ایک دو دن قبل سے دوہناچھوڑدیتے، تاکہ بیچتے وقت تھنوںمیںدودھ زیادہ نظرآئے اورخریدارسے زیادہ قیمت وصول کی جاسکے۔                                   (فتح الباری،کتاب البیوع،باب النہی أن لایحفل:۴/۴۵۴،۴۵۵، قدیمی) ۸:…بیع عربان نسائی (ادھار)اوربیعانہ والے معاملہ کوکہتے ہیںکہ مشتری بائع کوکچھ رقم پیشگی بطوربیعانہ دے دیتا،اس شرط پرکہ اگرمشتری بیع کومقررہ وقت کے اندرنہ خریدسکے توبائع بیعانہ کی رقم بطورحرجانہ ضبط کرلے گا،اوراگربائع مطلوبہ مبیع فروخت نہ کرناچاہے توبیعانہ کے برابراوررقم بطورجرمانہ دے گا۔                                          (حجۃ اللہ البالغہ،باب البیوع المنہی عنہا:۲/۲۸۶،زمزم پبلشرز کراچی) ۹:…بیع نجش ایسی بیع جس میںزیادہ سے زیادہ قیمت وصول کرنے کے لئے چالاک بائع(جوعموماًسرمایہ دارہوتاہے)یہ حیلہ اختیارکرتاہے کہ وہ چنداشخاص کواس لئے مقررکرلے کہ جب مبیع کی بولی ہورہی ہوتووہ صرف قیمت بڑھانے کے لئے اپنی طرف سے زیادہ دام بتاتے جائیں،تاکہ مشتری زیادہ قیمت پرخریدنے پرمجبورہوجائے۔                                (فتح الباری،کتاب البیوع،باب النجش:۴/۴۴۷،قدیمی) ۱۰:…بیع مضطر ایسے حاجت مندشخص کی بیع جواپنی سخت حاجت میںاپنامال اونے پونے داموںفروخت کرے ،یااپنی مجبوری کی وجہ سے انتہائی مہنگے داموںچیزخریدے۔                     (حاشیہ ابن عابدین،کتاب البیوع،باب البیع الفاسد،مطلب بیع المضطروشراء ہ فاسد:۵/۵۹،سعید) ۱۱:…بیع الکالی بالکالی اس کوبیع الدین بالدین بھی کہتے ہیں،ایسی بیع جس میںدونوںطرف ادھارہو۔(بدائع الصنائع، کتاب البیوع،شرائط الرکن:۴/۴۳۳،رشیدیہ) اس کی کئی صورتیںہیں:موجودہ دورمیںرائج سٹہ بازی (Speculation)  بھی اس کی ایک صورت ہے۔ ۱۲:…بیع غرر ایسی بیع کوکہتے ہیںجس میںعوضین میںسے ایک کی مقدار،مدت،یاقیمت متعین اورمعلوم نہ ہو،جیسے ہوامیںاڑتے پرندوںکی بیع،جانورکے پیٹ میںبچے کی بیع وغیرہ۔                                       (فتح الباری،کتاب البیوع،باب بیع الغرروحبل الحبلۃ:۴/۴۴۹،قدیمی) ۱۳:…شہری کادیہاتی کے لئے بیع کرنا اس بیع کاطریقہ یہ تھاکہ کوئی دیہاتی اپنافروختنی مال لے کرشہرآتاکہ موجودہ قیمت پراس کوفروخت کرے،شہرکے لوگ اسے ترغیب دیتے کہ اس وقت بازاراتراہواہے، وہ ان کوبیچنے کا مجازبنادے اورمال ان کے حوالے کرے،تاکہ گرانی بڑھنے کے بعدوہ فروخت کریںاوراسے زیادہ نفع حاصل ہو،حضور انے اس سے منع فرمایاہے۔   (صحیح مسلم وشرحہ،کتاب البیوع ،باب تحریم بیع الحاضرللبادی:۲/۴، سعید کراچی ) ۱۴:…تلقی جلب بیرونی،تجارتی قافلوںکی شہرآمدسے قبل ہی شہرکے تاجراُن کاسرمایہ خریدلیتے تھے،تاکہ ان سے سستے داموں خریدکرسرمایہ دارانہ ذہن رکھنے والے لوگ مصنوعی گرانی پیداکرنے کے بعداُسے مہنگے داموںفروخت کرسکیں۔ (أوجزالمسالک إلی مؤطامالک،کتاب البیوع،باب ماینہی عنہ من المساومۃ والمبایعۃ:۵/ص۱۵،مکتبہ امدادیہ ملتان) ۱۵:…بیع سنین ومعاومہ اس طرح بیع کی جائے کہ اس سال جوکچھ پھل اس درخت پرآئے وہ فروخت کیاجائے ۔ ناپیداورمعدوم شئے کی بیع ہونے کی وجہ سے حضور انے اس بیع سے منع فرمایاہے۔                   (بذل المجہودفی حل أبی داؤد،للسہارنفوریؒ،کتاب البیوع ،باب فی بیع السنین:۵/۲۵۱،مکتبہ امدادیہ ملتان) زمانہ جاہلیت کی بیوعات کے بارے میں اسلام کا نقطہ نظر زمانہ جاہلیت کی مذکورہ بالاصورتوںکے درست نہ ہونے کی وجہ یاتوطرفین کی رضامندی اورخوشنودی کافقدان،دھوکہ دہی اورغررہے،یاپھرآئندہ طرفین کے درمیان نزاع پیداہونے کاامکان ہے۔اسلام نے خریدوفروخت کے سلسلہ میںنہایت متوازن اصول مقررکئے ہیں،جس میںتاجر اور خریدارکی نفسیات اوران کے جذبات کاپوراپورالحاظ ہے ،جس میںاس بات کی پوری رعایت ہے کہ گراں فروشی کوروکاجائے،جس میںاس بات کاپوراپوراخیال ہے کہ آئندہ کوئی نزاع پیدانہ ہونے پائے، جس میںاس امرکاپوراپاس رکھاگیاہے کہ طرفین کی رضامندی کے بغیرکوئی معاملہ ان پرمسلط نہ کیا جائے،اورجس میںقدم قدم پریہ احتیاط ملحوظ ہے کہ ایک فریق دوسرے کااستحصال نہ کرے،تجارت کے معاملے کودھوکہ دہی،فریب اورچالبازی سے محفوظ رکھاجائے،اورجہاںکوئی ایساکرگزرے تواس کی تلافی کی تدابیربھی فراہم کی جائیں۔       (قاموس الفقہ،مولاناخالدسیف اللہ رحمانی (ب)بیع:۲/۳۵۰،زمزم پبلشرز کراچی) ڈاکٹرنورمحمدغفاری صاحب کی تحریر     ڈاکٹرنورمحمدغفاری صاحب دورجاہلیت کی مختلف تجارتی شکلوںکوشرح وبسط سے تحریرفرمانے کے بعدلکھتے ہیں:’’یہاںاس حقیقت کی طرف اشارہ کرنادلچسپی سے خالی نہ ہوگاکہ ان اشکال مبادلہ کے مطالعہ سے ظاہرہوتاہے کہ ایام جاہلیت کے عرب طلب ورسدکے فطری قوانین سے بخوبی آگاہ تھے۔ احتکاراوراکتنازکے ذریعے مال کوروک کرمصنوعی قلت پیداکرنااورقیمتوںکوبڑھاچڑھاکروصول کرناان کا بھی عام فن تھا،وہ تخمین اورسٹہ بازی(Speculation)میںبھی ماہرتھے۔ وہ شہرکے باہرسے آنے والے تجارتی کاروانوںسے سامان تجارت اورخصوصاًغلہ خریدکرتے اوربازارمیں مصنوعی قلت کی حالت پیداکرکے اپنی من مانی قیمتیںوصول کرتے،کسانوںکو(بالخصوص طائف اورمدینہ میں)سودی قرضے دیتے اوران کی تمام فصل (پیداوار)پرقبضہ کرلیتے،گویاتاجر’’زیادہ سے زیادہ نفع‘‘ (Profit Maximization) کے استحصالی حربہ کے استعمال میںآج کے سرمایہ داروںسے ملتے جلتے تھے، جو اس حقیقت کابیّن ثبوت ہے کہ سرمایہ دارکی استحصالی ذہنیت ہردورمیںایک جیسی رہی ہے‘‘۔(نبی کریم اکی معاشی زندگی،ڈاکٹرنورمحمدغفاری،دورجاہلیت کی چندتجارتی شکلیں،ص:۴۱،شیخ الہنداکیڈمی کراچی۔ تجارت کے اسلامی اصول وضوابط، ڈاکٹر نورمحمد غفاری، ص:۵۷،شیخ الہنداکیڈمی کراچی)                                                                           (جاری ہے)

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین