بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

فقہ وافتاء کاتاریخی ارتقاء-ایک مطالعہ

فقہ وافتاء کاتاریخی ارتقاء-ایک مطالعہ

فقہ وافتاء، حقیقت وماہیت اورباہمی تعلق فقہ اسلامی قرآن وسنت کاعُصارہ ونچوڑہے، جوفقہائے کرام کی انتھک کوششوں اوربے پایاں محنتوں کاثمرہ ہے،اورافتاء کافقہ کے ساتھ چولی دامن کاساتھ ہے۔ ایک فقیہ اپنی خدادادصلاحیتوں سے کام لے کرقرآن وسنت میں غورکرکے پیش آمدہ مسائل کے احکام مستنبط کرتاہے توان مسائل کے مجموعے کو ’’فقہ‘‘کا نام دیا جاتاہے اورجب کوئی سائل اس کے پاس آکرانہی مسائل سے متعلق دریافت کرتاہے توفقیہ کے اس بیانیے کو’’فتویٰ ‘‘اور’’افتائ‘‘کے خوبصورت الفاظ مل جاتے ہیں،لہٰذافقہ وافتاء یافقہ وفتویٰ دولازم وملزوم چیزیں ہیں۔ قرنِ اول میں فقہ کاظہورہواتوافتاء کاسلسلہ بھی روزِ اول سے قائم ہوگیا۔ پیغمبر خدا a ایک فقیہ تھے اورامت کے اولین مفتی بھی۔ فقہ اسلامی کا آغاز و ارتقاء ، ترتیب و تدوین اور تہذیب و تنقیح کے مختلف مراحل گزرے ہیں، جن سے گزر کر موجودہ فقہی ذخیرہ وجود میں آیا ہے۔ علامہ خضری بک نے فقہ اسلامی کی تاریخ کوچھ ادوار میں تقسیم کیاہے اورعہدرسالت کوپہلادورقراردیاہے۔(۱) پہلادور عہدنبوی میں فقہ وافتاء عہدنبوی میں فقہ وافتاء کاتعلق براہ راست نبی کریم a کی ذات مبارکہ سے تھا،اس دورمیں اسلام کی نشوونماہورہی تھی،مقاصددینیہ پرزورتھا، ضروریاتِ زندگی محدودہونے کی بنا پرمسائل وحوادث کا ظہور کم ہوتاتھااورایک سادہ معاشرے میں جومسائل پیش آجاتے تھے توبارگاہِ رسالت سے ان کی شرعی راہنمائی بآسانی مل جایاکرتی تھی۔باقاعدہ تدوین فقہ ہوئی تھی نہ اس کی ضرورت تھی۔عمومی طورپرایمان وعمل کی پختگی اوراشاعت اسلام وجہادفی سبیل اللہ پرتوجہات مرکوزتھیں۔ اس دور میں فقہ اسلامی کے دوہی مآخذتھے:۱:۔۔۔قرآن کریم، ۲:۔۔۔تشریحات وتعلیمات نبویہ۔ قرآن کریم میں اصول وکلیات کابیان ہوتا تھا توتعلیمات نبویہ میں ان کی تشریح وتوضیح اور جزئیات کی تفصیل ہوجاتی تھی۔ اورکتاب وحکمت کی تعلیم کوقرآن نے مقاصد ِنبوت میں شمارکیاتھا،اس لیے نبی کریم a اس فریضے کی انجام دہی فرماتے ہوئے اپنے جانثارصحابہؓ کی فقہی تربیت بھی فرمارہے تھے۔(۲) چنانچہ مؤرخین وسیرت نگاروں کے بیان کے مطابق عہد ِنبوت میں خودآنحضرت a کی موجودگی میں ہی کئی صحابہ کرام s منصب افتاء پرفائزہوچکے تھے، جن میں حضرات خلفاء اربعہ،حضرت معاذبن جبل،حضرت عبدالرحمن بن عوف،حضرت عماربن یاسر،حضرت حذیفہ بن یمان،حضرت زیدبن ثابت،حضرت ابودرداء اورحضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہم اجمعین شامل ہیں۔(۳) چنانچہ دورنبوت میں سیدالمفتین توخودنبی کریم a ہی تھے، آپ aسے لوگ آکرمسائل میں راہنمائی لیتے توآپ aوحی ربانی کی روشنی میں جواب مرحمت فرمایاکرتے تھے،علامہ ابن قیم v نے اس نوع کے کافی سوالات وجوابات اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’اعلام الموقعین‘‘میں یکجاجمع کردیئے ہیں، جو’’فتاویٰ امام المفتین‘‘کے نام سے مستقل ایک جلدمیں الگ سے بھی طبع ہوچکے ہیں۔اس نوع کے سوال وجواب کی طرف قرآن کریم میں بھی کئی مقامات پراشارات ہیں۔ آپa کی غیرموجودگی میں یامشغولیت کی صورت میں مندرجہ بالاحضرات سائلین کی تشفی فرماتے تھے۔ یوں دھیرے دھیرے فقہ وافتاء کاکارواں رواں دواں رہا۔(۴) دوسراوتیسرادور عہدصحابہؓ وتابعین میں فقہ وافتاء علامہ خُضَرِی v نے عہدصحابہؓ کودوحصوں میں تقسیم کیاہے،کبارصحابہ s کے دورکودوسراحصہ قراردیاہے جووصال رسالت مآب a (۱۱؍ہجری)سے سن ۴۰؍ہجری پرمشتمل ہے۔اس مرحلے میں اولاً عہدصدیقی میں یمامہ کی جنگ کے دوران حفاظ صحابہؓ کی ایک بڑی تعدادکی شہادت نے حفاظتِ قرآن کی طرف توجہات مبذول کرائیں اورحضرت ابوبکر q نے کبارصحابہؓ سے مشاورت کے بعدحضرت زیدبن ثابت q کوجمع قرآن پرمامورفرمایا۔(۵)چنانچہ ’’جامع القرآن ‘‘درحقیقت صدیق اکبر q ہیں۔حضرت عثمان q کے دور میں لغت قریش میں کتابت پراتفاق ہوااور’’مصحف عثمانی‘‘ہی آج بھی پڑھا پڑھایا جاتا ہے۔لیکن احادیث قولیہ کے جمع کرنے کااب تک الگ اہتمام نہ ہواتھا،البتہ متفرق طور پر مختلف صحابہ کرام s کے پاس لکھے ہوئے حدیثی ذخیرے ضرورموجودتھے جن کے مذاکرے اورسماع وقراء ت کاسلسلہ بھی جاری تھا۔نیزفقہ کی تدوین کاسلسلہ بھی تاحال شروع نہیں ہوا تھا، البتہ پیش آمدہ مسائل میں افتاء اور اجتہاد کا عمل ضرور قائم تھا،چنانچہ حضرت ابوبکرq بالترتیب کتاب وسنت میں غوروتدبرکے بعد جو مسائل نہ ملتے تو اجتہاد سے کام لیتے تھے،یہی طرزعمل حضرت عمرq کابھی تھا،مزید براں نصوص میں حکم نہ ملنے کی صورت میں کبار صحابہ sخصوصاًفقہائے صحابہ sسے مشاورت کابھی اہتمام کیاجاتاتھا۔ یوں توصحابہ کرام qمیں مفتیان کرام کی تعدادایک سوکے لگ بھگ تھی،لیکن مکثرین محض سات تھے:حضرت عمر،حضرت علی،حضرت عبداللہ بن مسعود،حضرت عائشہ،حضرت زیدبن ثابت، حضرت عبداللہ بن عباس اورحضرت عبداللہ بن عمرs۔ ان حضرات کے فتاویٰ وآثار مصنف عبدالرزاق ومصنف ابن ابی شیبہ وغیرہ میں بکھرے پڑے ہیں۔حافظ ابن حزم vکابیان ہے کہ اگر ان میں سے ہرایک کے فتاویٰ جمع کیے جائیں توایک ضخیم کتاب تیارہوجائے۔معروف عرب عالم شیخ محمد رواس قلعہ جی نے اس نوع کے موسوعات کے کئی مجموعے مرتب کیے ہیں جوعلمی حلقوں میں متداول ہیں۔ ان کے علاوہ متوسطین صحابہ sکی ایک بڑی تعدادتھی،جن میں حضرت ابوبکر،ام سلمہ،انس بن مالک، عثمان اورمعاویہ s شامل ہیں۔ ان کے فتاویٰ بھی رسالوں کی صور ت میںجمع ہوسکتے ہیں،باقی صحابہ ؓبہت کم فتوے دیاکرتے تھے۔(۶) علامہ خضری بک v نے صغارصحابہؓ وتابعینؒ کے دورکوتیسرامرحلہ قراردیاہے ۔یہ دور حضرت معاویہ qکی حکومت(۴۱؍ہجری) سے قرن ثانی کی ابتدا تک کے زمانے پرمحیط ہے۔اس دور میں فتنے بڑھ گئے تھے، اس لیے روایت حدیث میں احتیاط کے کئی مزیداصول طے ہوگئے تھے اور تدوین حدیث کابھی آغازہوچلاتھا۔نیزامام ابوحنیفہ v جیسے فقیہ بھی اسی دورکاحصہ ہیں،جنہوں نے فقہ اسلامی کی تدوین میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ ہر شہر میں مفتیان کرام کی ایک جماعت بھی افتاء کا میدان گرم کیے ہوئے تھی، جن کی فہرست علامہ ابن قیم vاوردیگراہل علم نے ذکرکی ہے،ہم اختصار کے پیش نظریہاں حوالہ ہی کافی سمجھتے ہیں۔(۷) چوتھادور علامہ خضری v کی تقسیم کے مطابق یہ فقہ اسلامی کی تاریخ کاچوتھامرحلہ ہے جودوسری صدی کے آغازسے چوتھی صدی کے نصف تک طویل زمانے پرمحیط ہے۔ یہی دورہے جس میں تدوین حدیث اورتدوین فقہ جیسے معرکہ آراء کارنامے انجام پائے اورائمہ فقہاء ومحدثین کے نفوس قدسیہ کاظہورہوا۔ جہاں تک تدوین حدیث کاتعلق ہے تویہ ایک طویل الذیل موضوع ہے جوسرِدست ہمارے اس مختصرسے مقالے کے موضوع سے خارج ہے،البتہ تدوین فقہ کے میدان میں امام ابوحنیفہ v اور ان کے شاگردوں ،امام مالک،امام شافعی،امام احمد،امام اوزاعی،امام لیث بن سعداورامام عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ w کی خدمات سونے کے پانی سے لکھنے کے قابل ہیں۔امام ابوحنیفہ vنے اہل علم وفقہاء کی ایک شوریٰ ترتیب دی تھی جس میں مسائل پرغوروخوض ہوتا ،دلائل کامناقشہ ومباحثہ ہوتا، متفقہ مسائل لکھے جاتے اوراختلافی اموربھی سپردقلم کیے جاتے۔ ان مجالس میں جہاں پیش آمدہ مسائل پربحث ہوتی وہیں مستقبل میں پیش آنے والے حوادث بھی زیربحث آتے، یوں ’’فقہ تقدیری‘‘کا ایک ذخیرہ وجود میں آیا جو فقہ حنفی کا ایک امتیازہے۔ نیزافتاء کانظام بھی مستحکم ہوا،فقہاء کے مناہج طے ہوئے، اصول استنباط واستخراج متعین ہوئے ،جن کی بنیادپرمختلف فقہی مذاہب وجودمیں آئے۔اورتکوینی طورپران میں سے چارمشہورمسالک کوقبولیت عامہ نصیب ہوئی،چنانچہ اس زمانے سے خلق خداکی اکثریت انہی سے وابستہ ہوتی چلی آرہی ہے۔ واضح بات ہے کہ ہرامام کے مقلدین اپنے مسلک کے موافق فتویٰ حاصل کرنے کے لیے اپنے کبارفقہاء کی طرف رجوع کرتے تھے، یہی فتاویٰ ترتیب دیئے گئے توان سے کتب فتاویٰ کی بنیادپڑی،جومعتبرمتون وشروح کے بعدہرفقہی مذہب میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔اجمالی طورپریہ کہاجاسکتاہے کہ یہ دور سابقہ فقہاء کی خوشہ چینی اورفقہ اسلامی کی تدوین کازمانہ تھا۔(۸) پانچواں دور یہ مرحلہ چوتھی صدی کے وسط سے سلطنت عباسیہ کے زوال تک پرمشتمل ہے۔ یہ دورفقہی مذاہب میں توسع اورتقلیدکے شیوع کادورہے،مرورِزمانہ سے ہمتیں پست ہوئیں اورکم علمی وجہالت پرقناعت کا بازار گرم ہوا۔اس دور میں مختلف فقہی مسالک کے مقلدین میں مناظرہ بازی کاایک مذاق بھی پیداہوا جس کے مثبت ومنفی اثرات پڑے ،البتہ فقہی ذخیرہ میں بھی قابل قدراضافہ ہوا،چنانچہ اسی دور میںتفریعات وتخریجات پرمشتمل کتب کا ایک کتب خانہ تیار ہوگیا۔ حنفیہ میں فقیہ ابواللیث سمرقندی، امام قدوری، ابوزید دبوسی، ابوالحسن کرخی،شمس الائمہ سرخسی،بزدوی،کاسانی ،مرغینانی، صاحب ہدایہ، دیگر فقہی مذاہب کے ابن عبدالبر،ابن رشد،ابوولیدباجی، قاضی عیاض،امام الحرمین عبدالملک الجوینی،امام غزالی اورامام نووی w جیسے ناموراہل علم وفقہاء اسی دور کی یادگارہیں۔ بہر کیف اس زمانے میں بھی فقہ وافتاء کاسلسلہ یوں ہی جاری وساری رہا۔مجموعی اعتبارسے یہ فقہ کی ترتیب وتہذیب اوراختیاروترجیح کا دورہے۔(۹) چھٹادور یہ مرحلہ سقوط بغدادسے دور حاضر پرمشتمل ہے ،اس زمانے میں مجتہدانہ صلاحیتوں کے حامل اہل علم کمیاب ہوگئے ،علامہ سیوطی وغیرہ جن اہل علم نے اجتہادمطلق کادعویٰ کیابھی تودیگرعلماء نے اس کوتسلیم نہیں کیا۔ شروح وحواشی اوراختصارکارجحان اس دورمیں زیادہ رہاہے،نیزآخری زمانے میں تسہیل کا ایک اور رجحان ابھرا ہے۔ اس زمانے میں ابن عبدالسلام، ابن حاجب، ابن تیمیہ ،ابن قیم، ابن ہمام، سبکی اور سیوطی جیسے wجہابذہ اہل علم گزرے ہیں۔اور آخری دورمیں علامہ کوثری v اور علامہ انورشاہ کشمیری vجیسی عبقری ہستیاں بھی رہی ہیں۔خلافت عثمانیہ بھی اسی طویل دور کا حصہ ہے ، جس میں افتاء کانہایت مستحکم نظام رہاہے،شیخ الاسلام کامنصب اس کاامتیازی کارنامہ ہے، جو چیف جسٹس بھی ہواکرتاتھا،اس دور میں افتا کانظام کافی مرتب ومنظم شکل میں سامنے آیا، چنانچہ اہل علم نے آدابِ استفتاء وافتاء پرباقاعدہ کتابیں لکھیں اور ہر خطے میں دار الافتاؤں کا ایک سلسلہ قائم ہوا۔ اس موضوع پرمحدث العصر علامہ سیدمحمدیوسف بنوری v کاایک اقتباس پیش کرنافائدہ سے خالی نہ ہوگا،جوطویل ضرورہے، لیکن اس میں تاریخ افتاء کااختصارآگیاہے، اور ساتھ ساتھ موجودہ نیٹ ورک کا پس منظربھی سامنے آگیا ہے، ملاحظہ فرمائیں: ’’اسلامی حکومتوں میں جب تک اسلامی قانون جاری رہا اور اسلامی حکومتیں کسی نہ کسی حد تک خدمتِ دین کی ذمہ داری کو محسوس کرتی رہیں، اس وقت تک ایک طرف محاکمِ عدلیہ قضاکا نظام جاری رہا او ر دوسری طرف علمائے امت کے ذریعہ ہر وقت افتاء کا کام ہوتا رہا، اسلامی حکومتیں دارالقضاء کی طرح دارالافتاء کی سرپرستی بھی کرتی رہیں، آج بھی ان حکومتوں میں جنہیں پوری طرح اسلامی حکومتیں کہنا مشکل ہے، قضاء وافتاء کا نظام کسی نہ کسی حد تک قائم ہے۔  متحدہ ہندوستان کے فرنگی استعمار کا شکار ہوجانے اور اس کے ظلم وجبر کے شکنجے میں جکڑ جانے کے بعد بھی بہت سی اسلامی ر یاستوں میں یہ نظام کسی حد تک قائم رہا اور بھوپال، ٹونک، بہاول پور وغیرہ میں سوائے حدود کے تمام فیصلے اسلامی قانون کے مطابق ہوتے رہے۔ البتہ برٹش گورنمنٹ کے زیر نگیں علاقوں میں اسلامی قانون کو معطل کر دیا گیا، محاکم عدلیہ اٹھادیئے گئے، ان کی جگہ تاجِ برطانیہ کی وفا دار عدالتیں قائم ہوئیں، اسلامی حکومتوں کے قائم کردہ دارالافتاء برباد کر دیئے گئے، ان حالات میں امتِ محمدیہ lکے دور اندیش اکابرِدین نے امت میں دین کے علمی وعملی اور اخلاقی واعتقادی نظام کو قائم اور باقی رکھنے کے لیے دینی ادارے قائم کیے جن سے تعلیم وتبلیغ اور درس وافتاء کے چشمے جاری ہوئے۔ یہ فقہائِ اسلام اور حکمائے امت جنہوں نے ان کٹھن حالات میں یہ نظام قائم رکھا، صرف یہی نہیں کہ یہ حضرات علوم اسلامیہ (تفسیر وحدیث، فقہ واصول،جرح وتعدیل، قضایائے صحابہؓ وتا بعین، نحووبلاغت، صرف ولغت) کے دریائے ناپیداکنار کے شناور ہوتے تھے، بلکہ اکابر اولیاء اللہ اور صالحین امت کے فیضِ صحبت سے تربیت یافتہ بھی ہوتے تھے، ان کے دل نور ایمان سے منور، ان کے دماغ فراست ایمانی سے روشن اوران کے اخلاق واعمال امت کے لیے قابل حجت نمونہ ہوتے تھے، روزِ اوّل ہی سے ان کی تعلیم وتربیت علومِ انبیاء ؑکے مزاج کے مطابق ’’خضر صفت‘‘ اساتذہ کے انفاسِ قدسیہ اور صحبتِ مقدسہ کے ذریعہ ہوتی تھی، جس کے نتیجہ میں وہ علمی تبحر،اخلاقی بلندی اور عملی کمال کے ساتھ شریعتِ محمدیہ کی ذمہ داری کی نزاکتوں کا بھی پورا پورا احساس رکھتے تھے، انہیں یہ بات پوری طرح ملحوظ رہتی تھی کہ کل انہیں بارگاہِ خدا وندی میں پیش ہونا ہے، اس لیے خدا خوفی اور فکرِ آخرت کے جذبے سے کسی کی رُو رعایت یا خوفِ ملامت کیے بغیر وہ ٹھیک ٹھیک احکام خداوندی بیان کرتے تھے۔  ظاہر ہے کہ یہ منصب صر ف کتابوں کی ورق گردانی، غیر مسلم مستشرقین کی شاگردی، اعدائے اسلام کی معاشرت، ان سے محبت وتعلق اور ان کی رہنمائی سے حاصل نہیں ہوسکتا، بلکہ ان کفار اور مستشرقین کی صحبت سے رہے سہے فطری نقوش بھی مٹ جاتے ہیں، قبول حق کی توفیق سلب ہوجاتی ہے اور دلوں پر مہر لگ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم ممالک کے سادہ لوح اسکالر جب مستشرقین کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرتے ہیں تو انہیں دیکھتے ہی ان کی زبان سے بولنے اور ان ہی کے ذہن سے سوچنے لگ جاتے ہیں، ان کے صفحۂ دماغ اور لوحِ دل پر مستشرقین اساتذہ کے کافرانہ و معاندانہ نقوش کچھ اس طرح مرتسم ہوجاتے ہیں کہ کھلے کھلے اسلام کش نظریات کو وہ غیر شعوری طو رپر ہضم کرتے چلے جاتے ہیں، تاآنکہ وہ ان کفار کی کورانہ تقلید میں اس قدر راسخ ہوجاتے ہیں کہ محمد a کے لائے ہوئے دین کو ’’روایتی اسلام‘‘ کہہ کر پائے استحقار سے ٹھکرادیتے ہیں۔ جب قلوب مسخ ہوجائیں، نیتیں بدل جائیں، عزائم میں فساد ابھر آئے، مزاج بگڑجائیں، ذہن کفر کے زہر سے مسموم ہوجائیں تو صرف یہی نہیں کہ پھر ان لوگوں کے سدھر نے کی توقع باقی نہیں رہتی، بلکہ ان کا وجود ،ان کا علم اور ان کا کردار امت کے لیے سراپا فتنہ بن جاتا ہے، اس وقت ان کی حالت ٹھیک وہی ہوتی ہے جو حضرت نوح m نے اپنی امت کی بیان فرمائی: ’’إِنَّکَ إِنْ تَذَرْھُمْ یُضِلُّوْاعِبَادَکَ وَلَایَلِدُوْاإِلَّا فَاجِرًا کَفَّارًا۔‘‘(نوح:۲۷) ترجمہ:اے اللہ!اگر آپ انہیں مزید مہلت دیں گے تو یہ صرف آپ کے بندوں کو بہکائیں گے اور ان کی آئندہ نسل بھی فاجر وبدکار ہی ہوگی۔(۱۰) وصلی اﷲ وسلم علی سیدنا محمد وعلی آلہ وصحبہ اجمعین مآخذومراجع ۱:…ملاحظہ فرمائیں:تاریخ التشریع الاسلامی للشیخ خضری بک،ط:دارالکتب الثقافیۃ۔ ۲:…عہدنبوت میں صحابہؓ کی فقہی تربیت کے موضوع پرہماری جامعہ کے شعبہ تخصصِ علومِ حدیث کے مشرف محقق عالم حضرت مولاناعبدالحلیم چشتی دامت برکاتہم العالیہ کاوقیع مقالہ قابل دیدہے،حال میں عربی مقالہ عمان کے اشاعتی ادارے دارالفتح سے چھپ چکاہے۔اردوترجمہ بھی قسط وارماہنامہ بینات کی زینت بڑھارہاہے۔فجزاہ اللہ عن العلم واہلہ خیرا۔ ۳:… ملاحظہ فرمایئے:الفکرالسامی فی تاریخ الفقہ الاسلامی:۱/۲۳۳،۲۳۴،مطبع: دار الکتب العلمیہ بیروت۔ ۴:…اس عنوان کے تحت اپناحاصل مطالعہ باختصارپیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے،تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں: ۱-فقہ اسلامی کاتاریخی پس منظر،مولانامحمدتقی امینی،طبع :قدیمی کراچی۔ ۲-الفکرالسامی فی تاریخ الفقہ الاسلامی،محمدبن حسن ججوی،طبع:دارالکتب العلمیہ بیروت۔ دوضخیم جلدوں پرمشتمل یہ کتاب تاریخ تدوین فقہ کے موضوع پرایک شاہکارہے،کوئی باذوق زبان دان عالم اس کے ترجمے کابیڑااٹھالے تواردوداں طبقے کابھی بھلاہوجائے۔ ۳-تاریخ تشریع اسلامی کے موضوع پرلکھی گئی، متفرق کتب۔ ۵:…دیکھئے:صحیح بخاری،کتاب فضائل القرآن،باب جمع القرآن، ۲/۷۴۵،طبع:قدیمی۔ ۶:…ملاحظہ کیجئے:اعلام الموقعین،۱/۱۰،۱۱۔تاریخ التشریع الاسلامی خضری بک۔اصول الافتاء مفتی محمد تقی عثمانی:۱/۲۲،۲۳، طبع: مکتبہ معارف القرآن کراچی۔        ۷:…اعلام الموقعین،۱/۱۹،۲۰۔طبع: دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان ۸:…تاریخ التشریع الاسلامی۔الفکرالسامی فی تاریخ الفقہ الاسلامی وغیرہ        ۹:…ایضاً ۱۰:…بصائروعبر:۱/۱۶،۱۷،طبع:مکتبہ بینات، جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی۔

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین