بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

فقہ اور اُصولِ فقہ کی تدریس ! (پہلی قسط)


فقہ اور اُصولِ فقہ کی تدریس !

 

مسالکِ اربعہ میں ائمہ کے اختلاف کے بنیادی اجتہادی اُصول
                           

(پہلی قسط)

 

موضوع کا تعارف

فقہ اور ا س فقہ کی تدریس اور ائمہ اربعہ کے بنیادی اجتہادی اُصول کی مطلوبہ تفصیل کی طرف آنے سے قبل خود فقہ ، اُصولِ فقہ اور اجتہادی اُصول کا تعارف بھی مناسب معلوم ہوتاہے،اختصار کے ساتھ تعارف پیش کریں گے۔

فقہ

فقہ: فہم کا ہم معنی لفظ ہے، جس کی تعبیر یہ ہوسکتی ہے کہ موجود، محفوظ اور ملفوظ سے کسی دوسرے امر کی طرف ذہن کا منتقل ہوجانا، جیسے: ’’أَقِیْمُوْا الصَّلٰوۃَ‘‘ سے نماز کا حکم سمجھنا، پھر ا س کی ادائیگی کا طریقۂ کار ڈھونڈنا اور پھر اس کے مطابق نما زکے حکم کو پوراکرنے کے لیے عملی کوشش کرنا، ’’أَقِیْمُوْا الصَّلٰوۃَ‘‘ کے لفظ میں یہ سارے مطالب پنہاں تھے۔ یہ مطالب اور ان کی بجاآوری ’’أَقِیْمُوْا الصَّلٰوۃَ‘‘ کا مقصد و مطلوب ہیں۔ اسی طرح جب نصوص سے مقاصدِ شریعت کو سمجھاجائے، مقاصد کو بیان کیاجائے اور عملی زندگی میں اس کی تطبیقی شکل متعارف کروائی جائے تو اسی عمل کا نام ’’فقہ‘‘ ہے۔
اب نصوصِ شرعیہ سے استفادۂ احکام کا طریقہ کیا ہے؟ ایک مختصر سے طبقہ کا خیال یہ ہے کہ نصوص کے ظاہر ی الفاظ پر اکتفاء کیاجائے، جوکچھ ، جتنا کچھ ظاہری الفاظ کامتبادر مدلول بنتا ہو، اسی کو مقصدِ شریعت قرار دیاجائے۔جہاں الفاظ کی فہرست ختم، وہاں شریعت کا دائرہ بھی ختم۔ اس کے بعد مکلف انسان کسی قسم کی پابندی کے زیرِ اثر نہیں رہے گا،بلکہ بالکلیہ آزاد ہوجائے گا۔
جب کہ یہ تصور‘ اسلام کی عالمگیریت ،ہمہ جہتی اور تاقیامت دستورِ حیات کے دعویٰ کے منافی ہے۔ اسی لیے علمائے شریعت کاایک دوسرا عظیم طائفہ ہے جونصوص کے الفاظ سے زیادہ مقاصد اور مبانی سے زیادہ معانی سے استفادی تعلق پر یقین رکھتاہے۔یہ طبقہ محدود نصوص سے لامحدود مسائل کی دریافت پر ایمان رکھتاہے۔ اس طبقے کو اُمت کے اعلیٰ ترین دماغوں سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس طبقے کی فہم وفراست نے اُمت مسلمہ کے اکثریتی طبقے کو تکوینی طور پر اپنا پیروکار بنارکھا ہے۔ اُمتِ مسلمہ کا اس طبقے کے فہم پر اجتماعیت کے ساتھ اعتماد کرنا اُمت کے اس طبقے کی حقانیت کی دلیل بھی ہے۔
اس طبقے نے نصوص کے متبادر مفاہیم سے لے کر متوقع اور فرضی مسائل کی تقدیر، تخریج وتفصیل تک محنت کی، جس کی بدولت نصوص کے مفاہیم کاایک وسیع ذخیرہ یکجا ہوتا چلاگیا اور اس میدان میں سب سے بڑی فہم وفقہ کا ذخیرہ ’’فقہ حنفی‘‘ کہلاتاہے۔دوسرے نمبر پر فقہ شافعی ہے،پھر فقہ مالکی اور پھر ا س کے بعد فقہ حنبلی ہے۔اس وقت اُمتِ مسلمہ کاایک معتدبہ طبقہ انہی چار مفاہیم کے واسطے سے نصوصِ شریعت پر عمل پیراہے۔

فقہی اختلاف کی بنیاد اور اُس کی حکمت

ان چار شناختوں میں اُمت کی تقسیم کی بنیادی وجہ فہمِ نصوص میں اختلاف ہے،مثلاً ارشادربانی ہے:
’’وَامْسَحُوْا بِرُؤوسِکُمْ‘‘ باب وضومیں ’’سر‘‘ کا وظیفہ مسح ہے، مگر مسح پورے سر کا ہے یا بعض سر کا ہے؟ یہاں چونکہ ’’رُؤوس‘‘کو باء حرف جر کے ساتھ ذکر کیاہے ،جس سے تبعیض اور استیعاب دونوں کے معانی لیے جاسکتے ہیں۔ پھر تبعیض کی تفصیل میںمختلف نصوص کااطلاق واجمال یاتقیید وتحدیدکارفرماہے۔
اسی طرح ’’یَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِھِنَّ ثَلاَ ثَۃَ قُرُوْئٍ‘‘ میں ’’قَرْئٌ‘‘کامعنی طہر ہے یا حیض؟ دونوں کی گنجائش ہے۔ اس لیے اس اختلاف کی نہ صرف گنجائش ہے، بلکہ دونوں معانی کے محتمل لفظ کا خاموشی کے ساتھ ذکرہونا یہ اختلا ف کی خاموش اجازت کے مترادف بھی ہے۔
اسی طرح کی چند اور بنیادیں ہیں جن کی وجہ سے مفاہیمِ نصوص کی تعبیرات مختلف ہوتی رہیں، اور اُنہیں اختلاف سے یاد کیاجانے لگا ، جبکہ اسے اختلاف کی بجائے اقوال اور تعبیرات کا تنوع کہنا چاہیے تھا،کیونکہ فقہاء فہماء کی کوئی بھی بات نطاقِ نصوص سے باہرکی نہیں ہوسکتی۔ اختلاف اور اقوال پر چند باتیں اُصول کے اختلاف کے ضمن میں آئیں گی،ان شاء اللہ!۔جب کہ اسبابِ اختلاف کی جامع بحث حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے رسالے ’’الإنصاف فی بیان أسباب الاختلاف‘‘ میں مطالعہ کی جاسکتی ہے۔
بہرکیف! نصوص سے استنباط، استخراج اور استفادے کے لیے ائمہ مجتہدین نے کچھ اُصول ایسے اپنائے تھے جوخود نصوص ہی سے ماخوذ تھے، یا نصوص ہی کا مقتضا تھے۔ ان اُصولوں کی بنیاد پر نصوص اور اخبار کے قبول اور ترک کے معیارات میں ظاہری فرق اور اختلاف ضرور محسوس ہوتا ہے، جسے ائمہ کا اُصولی اختلاف بھی کہا جاتا ہے، مگر یہ اختلاف بھی درحقیقت فہمِ نصوص والے فطری اختلاف ہی کا نتیجہ اور ثمرہ ہے، کیونکہ فقہاء کے اُصول بھی زیادہ تر نصوص ہی سے مستفاد و متعلق ہیں۔ یہ بھی ایک گونہ قابلِ فہم اُمور میں فہم ہی کااختلاف ہے، جسے ’’اجتہادی اُصول‘‘کااختلاف بھی کہاجاتاہے۔
بایں معنی ائمہ مجتہدین کے اجتہادی اصول سے مرادوہ بنیادیں ہیں جن پر ائمہ مجتہدین نے اپنے فرعی(فقہی)مسائل کی بنیاد رکھی تھی۔اصول کے اختلاف پر فروع کااختلاف متفرع ہوا، اور مختلف فقہی شناختیں قائم ہوگئیں، جو زیادہ تر نصوص کے مختلف رُخ ہی ہیں۔ انہیں مذہب بھی کہا جاتا ہے، یعنی فقہی مذاہب، منزلِ محمدی تک پہنچنے کے راستے ہیں۔ 

تدریسِ فقہ

تدریسِ فقہ سے متعلق گفتگو تین جہات پر یا تین مراحل پر اور تین پہلوؤں پر مشتمل ہوگی:

۱:-مبادیات /تمہید         ۲:-محتویات/توضیح           ۳:-مہمات/تعمیم وتذییل

۱:-فقہ کی مبادیات/تمہید

فقہ کی تعریف اور قیود کی توضیح

’’فقہ مکلف مسلمان کے اُن فرعی اعمال واقوال کے احکام کانام ہے جوادلۂ شرعیہ سے مستفاد، مستخرج اور مستنبط ہوئے ہوں۔‘‘ یہ فقہ کی عمومی تعریف ہے۔ خصوصی اصطلاحی تعریف جوامام اعظم امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  کی طرف منسوب ہے، وہ یہ ہے کہ: ’’انسان کے حق میں مفید اور مضر کی معرفت اور پہچان کا نام فقہ ہے‘‘ ۔۔۔۔۔’’معرفۃ النفس مالھاوماعلیھا۔‘‘ (کشاف اصطلاحات الفنون، ج:۱، ص:۳۰، ط: سہیل اکیڈمی، لاہور)
ان دونوں تعریفوں سے مشترکہ طورپر یہ معلوم ہوتاہے کہ فقہ کی تدریس کے دوران درج ذیل اُمور کی طرف دھیان رہنا ضروری ہے:
۱:… مکلف انسان کے اعمال فرعی واصلی یاعملی ونظری میں تقسیم ہیں، فقہ چونکہ فرعی احکام کانام ہے، نظری وکلامی مسائل سے بحث نہیں کرتا، مگرعمل وفرع سے بحث کرتے ہوئے کسی حد تک نفسِ فقہ سے متعلق نظری واصلی پہلو کوبھی ملحوظ رکھنا چاہیے، بالخصوص نفسِ فقہ کے اعتبار وعدم اعتبار،حجیت وعدمِ حجیت ،احتیاج اور عدمِ احتیاج، ابداع یااستخراج سے متعلق جو نظریات پائے جاتے ہیں ان پر توجہ رہنی چاہیے، مثلاً اس وقت فقہ اسلامی سے متعلق دوانتہاء پسندانہ نظریات عام ہورہے ہیں۔ ایک یہ کہ فقہ اسلامی درحقیقت رومن لاء سے ماخوذ ہے، یہ رومن لاء کی اسلام کاری یاعربی تعبیر ہے۔یہ نظریہ سراسر باطل ہے، اس لیے کہ فقہ اسلامی اور رومن لاء کے درمیان زبردست تفاوت بلکہ بڑے بڑے تضادات کا تعلق ہے،جن کی طرف ڈاکٹر محمود غازی مرحوم نے اپنے محاضرات میں اشارہ فرمایا ہے۔ (محاضراتِ فقہ، فقہ اسلامی اور قانون روماء کے درمیان فرق، ص:۲۲)
دوسری انتہاء پسندی فقہ کے حوالہ سے یہ ہے کہ فقہ اسلامی خدانخواستہ قرآن وسنت کے مقابلے کی کوشش ہے،بلکہ قرآن وسنت کے متوازی شریعت سازی کا نام فقہ ہے۔یہ نظریہ بھی باطل ہے۔ کیونکہ فقہ کہتے ہی اس کو ہیں جوادلۂ شرعیہ سے مستفاد ومستخرج ہو، جو فرعی احکام استنباط واستخراج کے واسطے سے قرآن وسنت سے تعلق نہ رکھتے ہوں انہیں کوئی مسلمان فقہ نہیں کہتا اور جواستنباط واستخراج کے واسطے سے قرآن وسنت سے تعلق رکھتے ہوں انہیں کوئی بھی مسلمان قرآن وسنت سے خارج نہیں کہہ سکتا، اس لیے تدریسِ فقہ سے قبل ایسے نظریات سے آگاہی فقہی مدرس کے لیے ازبس ضروری ہے۔ اس بات کو عام فہم اندازمیں سمجھنے کے لیے مولانامحمد امین صفدر اوکاڑوی vکی تجلیاتِ صفدر کا مطالعہ انتہائی مفید ہے، جب کہ باذوق اہلِ علم علامہ زاہد الکوثری رحمۃ اللہ علیہ کے مقالے ’’الرأي والاجتہاد‘‘ سے استفادہ فرماسکتے ہیں، جو ’’نصب الرایۃ‘‘ کے مقدمہ کے طور پر شامل ہے۔
۲:… فقہ چونکہ فرعی اعمال کے احکام کے بیان کا نام ہے، اس لیے مدرسِ فقہ کو ’’حکم ‘‘کے متعلقات کے بارے میں آگاہی رہنی چاہیے:
الف:- حکم کے متعلق سب سے پہلے حاکم، نفسِ حکم،حکم کا درجہ اورحکم کادائرۂ اثر بطور خاص پیش نظر رہنا چاہیے۔ بیانِ احکام میں سب سے پہلے ’’حاکم‘‘ سے متعلق یہ نظریہ وعقیدہ واضح ہوناچاہیے کہ حاکمیت کا درجہ صرف اللہ تعالیٰ کوحاصل ہے، کائنات کا خالق بھی وہی ہے اور مالک بھی وہی ہے۔یہ نظریہ دساتیرِ عالم کے مقابلے میں فقہِ اسلامی کی فوقیت، برتری اور عالی نسبت ہونے کا عقیدہ ٹھہرتا ہے۔ فقہِ اسلامی کا مدرس دورانِ درس اس نظریہ کی اہمیت اور برتری کا تقابل بھی پیش کرنے کی کوشش کرے۔ اس تقابل کی لازمی ضرورت یہ ٹھہرتی ہے کہ فقہی مدرس دساتیرِ عالم پر بھی نظر رکھے اور دورانِ درس موقع بموقع تقابلی اندازمیں فقہِ اسلامی کا تفوق بتاتا رہے، اس طرح دنیائے انسانیت پر دینِ اسلام کی برتری اور حاکمیت کا نظریہ ثابت کیاجاسکے گا۔
ب:-’’حکم‘‘کے متعلقات میں دوسرا امر ’’نفسِ حکم‘‘ہے ، جس کامفہوم یہ ہے کہ مخاطب سے کسی فعل کی بجاآوری یاترک کا مطالبہ کرنا، یہ مطالبہ کبھی فرض کے درجہ میں، کبھی واجب، کبھی سنت، کبھی استحباب وندب اور کبھی مباح کے درجہ میں ہوتا ہے۔ اسی طرح ترکِ فعل کے مطالبہ میں کبھی احتراز بطور حرام کے مطلوب ہوتا ہے، کبھی مکروہِ تحریمی اور کبھی مکروہِ تنزیہی یاخلافِ اولیٰ کے طورپر ہوتا ہے۔ فقہی درس کے دوران حکم کی ان مختلف حیثیات کا لحاظ رکھناضروری ہوتا ہے۔ احکام بیان کرنے کے لیے حکم کی مختلف حیثیات اور درجہ بندی کے تعین سے پہلے خود ان اصطلاحات کے بارے میں بھی آگاہی ہونی چاہیے۔ ا س کے علاوہ ہر باب کی اہم اہم اصطلاحات خود مدرس کوبھی یاد ہوں اور طالب علم کو بھی یاد کرائے۔
ج:- نیزاحکام کا تعلق جن افراد کے ساتھ ہوتاہے، ان کی اہلیت اور محلیت کاسوال بھی پیش نظر رہے۔ مکلف انسان کون ہوتا ہے؟ امرِ تکلیفی ا س کی طرف کب متوجہ ہوتا ہے؟ مکلف انسان کے اعذار اور عوارض کیا کیا ہیں؟ ان کی رعایت کی بنیادیں کیا کیا ہیں؟ وغیرہ، وغیرہ، مثلاً طہارت کے مسائل پڑھاتے ہوئے چھوٹے بچوں کے حق میں فرضیت یا وجوب کی بات تونہیں ہوسکتی، لیکن تعلیم وترغیب کے لیے ان کے عمل کا حصہ بنانے پر زور دیاجائے ، یہی معاملہ صلوٰۃ کا ہے،پھر زکوٰۃ میں حکم کے متوجہ ہونے کی نصابی تفصیل کے بعد مزکی (زکوٰۃ  ادا کرنے والے) کی اہلیت کی تفصیلات بتائی جائیں، وغیرہ، وغیرہ۔
د:-حکمِ مسئلہ سمجھنے یا سمجھانے کے لیے دوچیزیں بڑی اہمیت رکھتی ہیں، ایک اس سے پہلے اور ایک اس کے بعد۔ حکمِ مسئلہ سے قبل صورتِ مسئلہ بتائی جائے اور حکمِ مسئلہ کے بعد دلیلِ مسئلہ بتائی جائے، یعنی جو مسئلہ پڑھایا جارہا ہے اس کی بنیاد، دلیل، مأخذ اور اصل یا قاعدہ کیا ہے؟ گوکہ یہاں پر یہ تفصیل اپنا مقام رکھتی ہے کہ فی زمانہ فقہی مدرس کو مسائل کے دلائل سے آگاہی کا مطلب کیا ہے؟ کیونکہ اصطلاحی فقیہ تو دلائل بمعنی نصوص سے استنباط واستخراج کرنے والے کوکہتے ہیں، ایسے فقیہ کو مفتی یا مجتہد کہتے ہیں جن کا فی زمانہ وجود ناپید بتایا جاتا ہے، اس لیے عرفی فقہاء/فقہی مدرسین کے حکم میں دلائل کی معرفت کا مفہوم قدرے مختلف اور عام ہوگا۔ جودلائل بتانا یا پیشِ نظر رکھنا فقہی مدرس کا وظیفہ ٹھہرتا ہے اس سے مراد فقہی ابواب میں مسائل کے ساتھ ذکرکردہ نقلی وعقلی دلائل اور وہ قواعد واصول ہوں گے جنہیں حکمِ مسئلہ کی تعلیل کے طورپر ذکر کیا گیا ہوتا ہے۔ (المستصفی من علم الاصول للامام محمد بن محمد الغزالی (۴۵۰- ۵۰۵ھ)، الفن الثالث، ج:۱، ص:۲۲۲، دارارقم۔ فواتح الرحموت بشرح مسلم الثبوت ،عبدالعلی محمد الہندیؒ(متوفی:۱۲۲۵ھ)، ج:۱،ص:۲۶، داراحیاء التراث ۔ارشاد الفحول إلیٰ تحقیق الحق من علم الأصول للشیخ محمد بن علی بن محمد الشوکانیؒ (۱۱۷۳-۱۲۵۰ھ)، الفصل الثانی فی الاحکام، ص:۵، ط:مصر)
اس تفصیل سے اتنااندازہ ہوتاہے کہ فقہ کی تعریف میں ’’ادلۂ تفصیلیہ‘‘سے مسائل کے احکام کا استنباط کرنا یہ فقیہ مجتہد کا کام ہے، عرفی فقہاء اور مفتیوں کا کام ان دلائل ووسائل کو نقل کرنا ہے۔ یہ حضرات اصطلاحی فقہاء کی بجائے محض ناقلین کا درجہ رکھتے ہیں۔ ناقل کا وظیفہ یہ ہے کہ نقل کے اندرضبط وربط کاکمال پیدا کرنے کی کوشش کرے۔
۳:… اب رہا یہ کہ فقہاء مجتہدین کے وہ ’’ادلۂ تفصیلیہ‘‘ جن پر وہ فقہی احکام کی بنیاد رکھتے ہیں آخر وہ ہیں کیا؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ تمام فقہاء مجتہدین کے ہاں چار بنیادی مآخذ اتفاقی ہیں: کتاب، سنت، اجماع اور قیاسِ شرعی، جب کہ ہر امام کے ہاں کچھ ذیلی مآخذ بھی ہیں، مثلاً: حنفیہ کے ہاں استحسان، استصحاب، مصالح مرسلہ اور سدِذریعہ وغیرہ، جن کی کچھ تفصیل آگے اُصولِ فقہ میں آرہی ہے، ان شاء اللہ!
پھر ان ادلۂ تفصیلیہ کی تفہیم وتعارف میں دو چیزیں ملحوظ رہنی چاہئیں:
الف:-ماخذ            ب:-طرقِ استدلال
پھر کتاب وسنت سے استدلال کی نوعیت میں اچھی خاصی تفصیل ہے۔
مثال کے طورپر نصِ قرآنی سے استدلال کی صورت میں عبارۃ النص، دلالۃ النص، اشارۃ النص یا اقتضاء النص کی نوعیت کی نشاندہی کی جائے، پھر یہ استدلال ظاہرسے، نص سے، مفسر، محکم،  خفی، مجمل، متشابہ وغیرہ سے کیونکر ہے؟ اسی طرح سنت سے استدلال ہو تو سنتِ قولی، فعلی یا تقریری کی طرف رہنمائی کی جائے، ظاہر ہے کہ فقہی مدرس مجتہدانہ تفصیلات میں نہیں جاسکتا، نہ اس کا منصب ہے، لیکن قدرے مناسبت کے لیے خود ان نوعیتوں پر نظررکھے اورکہیں کہیں اشارۃً طلبہ کی ضرور رہنمائی کرے۔
نیزاستدلال کرتے ہوئے استدلال کی درج بالانوعیتیں جب بیان کریں گے توخود ان اصطلاحات کی تفہیم بھی ضروری ٹھہرے گی، پھر ان اصطلاحات میں اشباہ ونظائر (ایک جیسے، ملتے جلتے ناموں) کے درمیان فروق بھی ازبر کرانے کی ضرورت پیش آئے گی، یہ فرق بیانی اگرچہ بنیادی طورپر اصولِ فقہ کاموضوع ہے، لیکن فقہ کے دلائل بیان کرتے ہوئے اختصاراً یہ بتایا جائے کہ ظاہر اور اشارۃ النص میں کیا فرق ہے؟ دلالۃ النص اور قیاس میں حدِ امتیاز کیاہے؟عام اور مطلق میں فارق کیا ہے؟ نیز خاص اور مقید میں فاصل کیا ہے؟

 

۴:… مبادیاتِ فقہ کا موضوع فقہِ اسلامی کی نشوونما اور ارتقائی مراحل کی اطلاع کے بنا ادھورا شمار ہوتا ہے، اس لیے فقہی مدرس طلبہ کے ذہنی مستویٰ کو ملحوظ رکھتے ہوئے فقہِ اسلامی کے مختلف ادوار کا استحضار کرے اور کچھ کچھ طلبہ کو بھی بتائے۔ اسی ضمن میں فقہاء کے طبقات کا تعارف بھی آجائے گا۔ اس موضوع پر شیخ ابوزہرہ مصری vکی کتابیں بڑی اہمیت وافادیت کی حامل ہیں، بالخصوص ’’تاریخ المذاہب الإسلامیۃ‘‘ اپنے موضوع کی جامع کتاب ہے۔ استاذ محمد خضری بک کی ’’تاریخ التشریع الإسلامي‘‘ اور شیخ محمد الثعالبی المالکی کی ’’الفکر السامي فی تاریخ الفقہ الإسلامي‘‘ بڑی مفید ومستند کتابیں مانی جاتی ہیں، نیز طبقاتِ فقہاء پر لکھی گئی کتب سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ استاذخضری کی کتاب ہمارے ہاں ’’تخصص فی الفقہ‘‘ کے نصاب کا حصہ ہے۔
۵:… مبادیاتِ فقہ میں ایک اور چیز بہت اہم ہے کہ فقہی مذاہب کی اُمہاتِ کتب کاتذکرہ اور تعارف بھی ہوجائے ،جیسے فقہِ حنفی میں مسائل کے اعتبار سے کتب کے تین طبقے ہیں: ظواہر، نوادر اور نوازل۔ ظواہرسے امام محمد رحمۃ اللہ علیہ  کی چھ کتابیں مرادہیں جو فقہِ حنفی کی اصل واساس ہیں، پھر ان چھ کا مجموعہ حاکم شہیدؒ کی ’’الکافی‘‘ہے، پھر ’’الکافی‘‘کی شرح، محمد بن احمد بن ابی سہل شمس الائمہ سرخسیؒ کی ’’المبسوط‘‘ ہے۔ اس طرح فقہِ حنفی کی بنیادی جامع کتاب مبسوطِ سرخسی ہے، دیگرمذاہب میں اس پائے کی کتابوں میں شافعیہ کی ’’المجموع شرح المہذب‘‘ہے،ما لکیہ کے ہاں ’’الموطا‘‘اور ’’بدایۃ المجتہد و نھایۃ المقتصد‘‘ہے،جب کہ حنابلہ کے ہاں ’’المغنی لابن قدامۃ‘‘ اپنے مسلک کی جزئیات کے لیے جامع کتابیں شمار ہوتی ہیں۔ تمام مسالک کی اہم اہم کتابوں کی کچھ تفصیل اردوزبان میں’’ قاموس الفقہ‘‘ مولفہ: مولاناخالد سیف اللہ رحمانی مدظلہم میں دستیاب ہے۔                     (جاری ہے)
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین