بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

فضائلِ تہجد…قرآن و حدیث کی روشنی میں

فضائلِ تہجد…قرآن و حدیث کی روشنی میں


اللہ تعالیٰ نے انسان کو اِس دُنیا میں صرف اور صرف اپنی عبادت، اپنی معرفت اور اپنی پہچان کروانے کے لیے بھیجا ہے، تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اُس کی بندگی کرکے اُس کی ذات کو پہچان کر اور اُس کی معرفت حاصل کرکے اِس دُنیا میں اللہ تعالیٰ کو راضی کرلے، اور پھر آخرت کی ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی عیش و عشرت اور راحت وآرام میں بسر کرے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرات انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام ، صحابہ کرامؓ، تابعینؒ، تبع تابعینؒ اور ائمہ مجتہدینؒ نے اپنے تمام شعبہ ہائے زندگی ٗمعاشرت و معیشت، غمی و خوشی، تنگ دستی و فراوانی اور اپنی حرکات و سکنات اور نشست و برخاست کے ہروقت اور ہر لمحہ میں اِس عظیم مقصد کو اپنے سامنے رکھا اور اس کے اختیار کرنے میں ہمیشہ وہ کوشاں رہے۔ وہ دُنیوی کاروبار، زراعت و تجارت، صنعت و حرفت وغیرہ بھی کرتے تھے، لیکن اُن کے دِل ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی محبت و الفت میں مست و سرشار رہتے اور کسی وقت بھی اُس کی یاد سے غافل نہیں رہتے تھے۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں فرمایا ہے: 
’’رِجَالٌ لَّا تُلْہِیْہِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیْْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَإِقَامِ الصَّلَاۃِ وَإِیْتَاء الزَّکَاۃِ۔ ‘‘
’’( یہ وہ لوگ ہیں کہ) جنہیں کوئی تجارت یا کوئی خرید و فروخت نہ اللہ کی یاد سے غافل کرتی ہے، نہ نماز قائم کرنے اور نہ زکوٰۃ دینے سے۔ ‘‘ ( النور: ۳۷) 
یہی وہ لوگ ہیں جو رات جیسے پر سکون وقت میں بھی راحت و آرام کے بجائے اپنے محبوبِ حقیقی کے سامنے عبادت و بندگی کے لیے دست بستہ کھڑے ہوتے ہیں، اور نماز میں اُس کے سامنے راز و نیاز میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اِنہی لوگوں کا قرآن مجید میں مختلف انداز میں ذکر فرمایاہے، چنانچہ ایک جگہ ارشاد ہے:
’’تَتَجَافٰی جُنُوْبُہُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ خَوْفاً وَّطَمَعاً وَّمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنْفِقُوْنَ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِیَ لَہُمْ مِّنْ قُرَّۃِ أَعْیُنٍ۔‘‘ (الم السجدۃ: ۱۶، ۱۷) 
 ’’اُن کے پہلو (رات کے وقت) اپنے بستروں سے جدا رہتے ہیں، وہ اپنے رب کو ڈر اور اُمید (کے ملے جلے جذبات) کے ساتھ پکار رہے ہوتے ہیں، اور ہم نے اُن کو جو رزق دیا ہے وہ اُس میں سے (نیکی کے کاموں میں) خرچ کرتے ہیں، چنانچہ کسی متنفس کو کچھ پتہ نہیں کہ ایسے لوگوں کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک کا کیا سامان اُن کے اعمال کے بدلے میں چھپا کر رکھا گیا ہے۔ ‘‘
ایک دوسری جگہ ارشاد ہے: 
’’کَانُوْا قَلِیْلاً مِّنَ اللَّیْْلِ مَا یَہْجَعُوْنَ وَبِالْأَسْحَارِ ہُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ۔‘‘ (الذاریات:۱۷، ۱۸)
’’وہ رات کے وقت کم سوتے تھے، اور سحری کے اوقات میں وہ استغفار کرتے تھے۔ ‘‘ 
 ایک اور جگہ ارشاد ہے: 
’’وَالَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّہِمْ سُجَّداً وَّقِیَاماً۔ ‘‘ (الفرقان: ۶۴)
’’ترجمہ:’’اور (رحمان کے بندے وہ ہیں) جو راتیں اِس طرح گزارتے ہیں کہ اپنے پروردگار کے آگے (کبھی) سجدے میں ہوتے ہیں اور (کبھی) قیام میں۔ ‘‘ 
ایک جگہ ارشاد ہے: 
’’أَمَّنْ ہُوَ قَانِتٌ آنَائَ اللَّیْْلِ سَاجِداً وَّقَائِماً یَّحْذَرُ الْأٰخِرَۃَ وَیَرْجُوْ رَحْمَۃَ رَبِّہٖ قُلْ ہَلْ یَسْتَوِیْ الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ۔ ‘‘ (الزمر: ۹)
’’بھلا (کیا ایسا شخص اُس کے برابر ہوسکتا ہے ) جو رات کی گھڑیوں میں عبادت کرتا ہے، کبھی سجدے میں، کبھی قیام میں، آخرت سے ڈرتا ہے اور اپنے پروردگار سے رحمت کا اُمید وار ہے؟ کہوکہ: کیا وہ جو جانتے ہیں اور جو نہیں جانتے، سب برابر ہیں؟۔ ‘‘ 
ایک دوسری جگہ ارشاد ہے: 
’’وَمِنْ أٰنَائِ اللَّیْْلِ فَسَبِّحْ وَأَطْرَافَ النَّہَارِ لَعَلَّکَ تَرْضٰی۔ ‘‘ (طہ:۱۳۰)
’’اور رات کے اوقات میں بھی تسبیح کرو اور دِن کے کناروں میں بھی، تاکہ تم خوش ہوجاؤ۔ ‘‘ 
 ایک اور جگہ ارشاد ہے: 
’’ إِنَّ نَاشِئَۃَ اللَّیْْلِ ہِیَ أَشَدُّ وَطْئًا وَّأَقْوَمُ قِیْلاً۔‘‘ (المزمل:۶)
’’بے شک رات کے وقت اُٹھنا ہی ایسا عمل ہے جو جس سے نفس اچھی طرح کچلا جاتا ہے اور بات بھی بہتر طریقے پر کہی جاتی ہے۔ ‘‘ 
ایک جگہ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتے ہیں: 
’’إِنَّ رَبَّکَ یَعْلَمُ أَنَّکَ تَقُومُ أَدْنٰی مِنْ ثُلُثَیِ اللَّیْْلِ وَنِصْفَہٗ وَثُلُثَہٗ وَطَائِفَۃٌ مِّنَ الَّذِیْنَ مَعَکَ۔‘‘ (المزمل:۲۰)
’’اے پیغمبر! تمہارا پروردگار جانتا ہے کہ تم دوتہائی رات کے قریب اور کبھی آدھی رات اور کبھی ایک تہائی رات (تہجد کی نماز کے لیے) کھڑے ہوتے ہو اور تمہارے ساتھیوں میں سے بھی ایک جماعت (ایسا ہی کرتی ہے)۔ ‘‘ 
 ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں:
’’وَمِنَ اللَّیْْلِ فَتَہَجَّدْ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ عَسٰی أَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَاماً مَّحْمُوْداً۔‘‘ (بنی اسرائیل: ۷۹)
’’اور رات کے کچھ حصے میں تہجد پڑھا کرو جو تمہارے لیے ایک اضافی عبادت ہے، اُمید ہے کہ تمہارا پروردگار تمہیں ’’مقامِ محمود‘‘ تک پہنچائے گا۔ ‘‘
اسی طرح احادیثِ مبارکہ میں بھی تہجد کی نماز پڑھنے کے بے شمار فضائل اور مختلف قسم کی ترغیبات وارد ہوئی ہیں، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: 
’’جب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دوڑنے لگے اور کہنے لگے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں، میں بھی لوگوں کے ساتھ آیا، تاکہ دیکھوں (کہ واقعی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبی ہیںیا نہیں؟) میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک دیکھ کر کہا کہ: یہ چہرہ جھوٹے شخص کا نہیں ہوسکتا۔ وہاں پہنچ کر جو سب سے پہلا ارشاد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے سنا، وہ یہ تھا کہ لوگو! آپس میں سلام کا رواج ڈالو اور (غرباء کو) کھانا کھلاؤ اور صلہ رحمی کرو اور رات کے وقت جب سب لوگ سوتے ہوں (تہجد کی) نماز پڑھا کرو، تو سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤگے۔‘‘ (قیام اللیل)
حضرت علی سے مروی ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: 
جنت میں ایسے بالا خانے ہیں (جوآبگینوں کے بنے ہوئے معلوم ہوتے ہیں) اُن کے اندر کی سب چیزیں باہر سے نظر آتی ہیں۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یارسول اللہ! یہ کن لوگوں کے لیے ہیں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اچھی طرح سے بات کریں، اور (غرباء ) کو کھانا کھلائیں اور ہمیشہ روزے رکھیں اور ایسے وقت میں رات کو تہجد پڑھیں، جب کہ لوگ سو رہے ہوں۔ ‘‘ (ترمذی، ابن ابی شیبہ)
حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ :
 ’’تم رات کے جاگنے کو لازم پکڑو، کیوں کہ یہ تم سے پہلے صالحین اور نیک لوگوں کا طریقہ ہے اور رات کا قیام اللہ تعالیٰ کی طرف تقرب کا ذریعہ ہے اور گناہوں کے لیے کفارہ ہے، اور گناہوں سے روکنے اور حسد سے دُور کرنے والی چیز ہے۔ ‘‘ (قیام اللیل)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ: 
’’ تین قسم کے آدمیوں سے حق تعالیٰ شانہٗ بہت خوش ہوتے ہیں: ایک اُس آدمی سے جو رات کو ( تہجد کی نماز کے لیے) کھڑا ہو، دوسرے اُس قوم سے جو نماز میں صف بندی کرے، اور تیسرے اُس قوم سے جو جہاد میں صف بنائے (تاکہ کفار سے مقابلہ کرے)۔ ‘‘ (قیام اللیل)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ: 
’’رمضان کے روزے کے بعد سب سے زیادہ فضیلت والا روزہ محرم کا ہے۔ اور فرض نماز کے بعد سب سے زیادہ فضیلت والی نماز رات (کے وقت تہجد ) کی ہے۔ ‘‘ ( مسلم، مشکوٰۃ)
پرانے وقتوں میں نماز تہجد بڑی کثرت اور اہتمام کے ساتھ پڑھنے کا رواج تھا، گھر کے بڑے بوڑھے مختلف افراد، مرد و عورتیں رات کے پچھلے پہر بستر چھوڑتے، ٹھنڈے، گرم پانی سے وضو کرتے، پھر مرد حضرات مسجد کی طرف چل دیتے، اور خواتین گھر وں میں مخصوص جگہوں پر تہجد کی نماز ادا کرنے کا اہتمام کرتیں، اور یہ لوگ سپیدۂ سحر نمودار ہونے تک اسی طرح اپنے محبوبِ حقیقی کے ساتھ راز و نیاز میں ہمہ تن مصروف اور منہمک رہتے، لیکن آج بہت دُکھ اور افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑرہا ہے کہ جب سے نت نئی ایجادات ٹی وی، وی سی آر، ڈش اور انٹر نیٹ بالخصوص فیس بک وغیرہ متعارف ہوئی ہیں، تب سے ہم مسلمانوں سے ہمارا یہ قومی اور دینی ورثہ مکمل طرح سے چھوٹ گیا ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں بالخصوص رمضان المبارک میں تہجد کی نماز پڑھنے کی توفیق عطا فرماکر مستقل اس پر عمل پیرا فرمادے ۔ آمین بجاہ النبی الأمی الأمین ، صلی اللّٰہ علیہ وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ وسلم 
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین