بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

فریضۂ زکاۃاور اس کی ادائیگی(پہلی قسط)

فریضۂ زکاۃاور اس کی ادائیگی                           (پہلی قسط)

 اسلامی مہینوں میں سب سے زیادہ اہم اور سب سے زیادہ فضیلت والا مہینہ ’’رمضان المبارک‘‘ ہے۔ اس ماہِ مبارک میں مسلمانوں کو بہت ساری عبادات کے مواقع ملتے ہیں۔ یہ مہینہ شروع ہوتے ہی مسلمانوں میں ذہنی،ایمانی اور عملی اعتبار سے بہت سی خوشگوار تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں، نہ صرف یہ ، بلکہ ہمارے ارد گرد کے معاشرے میں امن و امان ، باہمی ہمدردی اور اخوت و بھائی چارگی کی ایک عجیب فضا قائم ہوتی ہے، چنانچہ اسی مہینے میں عام طور پر اپنے اموال کی زکاۃ نکالنے کا معمول ہے، اگرچہ زکاۃ کی ادائیگی کا براہِ راست رمضان المبارک سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ زکاۃ کے وجوب اور اس کی ادائیگی کا تعلق اس کے متعین نصاب کا مالک بننے سے ہے، لیکن چونکہ رواج ہی یہ بن چکا ہے کہ رمضان المبارک میں اس کی ادائیگی کی جاتی ہے، اس لیے اس موقع پر مناسب معلوم ہوا کہ اس ماہ میں جہاں رمضان ، روزہ اور ان سے متعلق ہر ہر عبادت پر لکھا جاتا ہے اور خوب لکھا جاتا ہے،وہاں اسی مہینے میں ’’زکاۃ ‘‘ پر بھی لکھا جائے ، تاکہ اس فریضے کے ادا کرنے والے پوری ذمہ داری سے اپنے اس فریضے کو ادا کریں ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ذہنوں میں رہے کہ ہم معاشرے سے اس فضا کو ختم کرنے کی کوشش کریں جو اس وقت عمومی طور پر سارے مسلمانوں میں اپنا زور پکڑ چکی ہے کہ زکاۃ رمضان میں نکالنی ہے، بلکہ ہم یہ ماحول بنائیں اور اسی کے مطابق دوسروں کی ذہن سازی کریں کہ زکاۃ نکالنے والا اپنی زکاۃ کی ادائیگی میں زکاۃ کے واجب ہونے کے وقت کا خیال رکھتے ہوئے اس کے وقت پر زکاۃ نکالے ،اور اس کے لیے رمضان کا انتظار نہ کرے۔ چنانچہ ذیل میں ’’زکاۃ کن اموال پر واجب ہوتی ہے؟‘‘ پر تفصیلاً اور کچھ دیگر مسائل پر اجمالاً روشنی ڈالی جائے گی۔ زکاۃ کا معنی و مفہوم زکاۃ کے لغوی معنیٰ پاکی اور بڑھنے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں ’’مخصوص مال میں مخصوص افراد کے لیے مال کی ایک متعین مقدار ‘‘کو زکاۃ کہتے ہیں۔ (الاختیار لتعلیل المختار، کتاب الزکوٰۃ، ج:۱،ص:۹۹،دارالکتب العلمیہ) زکوٰۃ کو زکوٰۃ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ جب انسان مال کے ساتھ مشغول ہوتا ہے، تو اس کا دل مال کی طرف مائل ہو جاتا ہے ، دل کے اس میلان کی وجہ سے مال کو مال کہا جاتا ہے، اورمال کے ساتھ اس مشغولیت کی وجہ سے انسان کئی روحانی و اخلاقی بیماریوں اور گناہوں میں مبتلاہو جاتا ہے، مثلاً: مال کی بے جا محبت، حرص اور بخل و غیرہ۔ان گناہوں سے حفاظت اور نفس و مال کی پاکی کے لیے زکوٰۃ و صدقات کو مقرر کیا گیا ہے، اس کے علاوہ زکوٰۃ سے مال میں ظاہری یا معنوی بڑھوتری اور برکت بھی ہوتی ہے، اس وجہ سے بھی زکوٰۃ کا نام زکوٰۃ رکھا گیا۔( نوادر الأصول للترمذی،الأصل الثانی والستون والمائۃ فی صفۃ الأولیاء و حقیقۃ الولایۃ أو التحذیر من إہانتہم،ج:۲،ص:۱۴۶، دارالجیل) زکاۃ کی فرضیت زکاۃ اسلام کا ایک اہم ترین فریضہ ہے ، اس کی فرضیت شریعت کے قطعی دلائل سے ثابت ہے، جن کا انکار کرنا کفر ہے ، ایسا شخص دائرہ اسلام سے اسی طرح خارج ہو جاتا ہے جیسے نماز کا انکار کرنے والا شخص اسلام سے نکل جاتا ہے۔زکاۃ کی فرضیت کب ہوئی ؟ اس سلسلے میں بہت سی آیات اور بہت سی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ زکاۃ کی فرضیت ہجرت ِ مدینہ سے پہلے ہوئی، جبکہ دوسری طرف بہت سی آیات اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی فرضیت ہجرت کے بعد ہوئی۔ چنانچہ اس بارے میں علامہ ابن کثیر v نے لکھا ہے کہ نفسِ فرضیت تو ہجرت سے پہلے ہوگئی تھی، لیکن اس کے تفصیلی احکامات ہجرت کے بعد نازل ہوئے،ملاحظہ ہو: ’’قولہ:{وَأَقِیْمُوْا الصَّلَاۃَ وَأٰتُوْا الزَّکَاۃَ} أی:أقیموا صلاتکم الواجبۃ علیکم و أٰتُوْا الزَّکَاۃَ المفروضۃَ۔ و ھذا یدل لمن قال:’’إن فرض الزکاۃ نزل بمکۃ، لکن مقادیر النصب و المخرج لم تبین إلا بالمدینۃ‘‘۔       (تفسیر ابن کثیر، سورۃ المزمل،آیت نمبر:۲۰) زکاۃ کے فوائد، ثمرات و برکات زکاۃ اللہ رب العزت کی جانب سے جاری کردہ وجوبی حکم ہے، جس کا پورا کرنا ہرصاحب نصاب مسلم پر ضروری ہے، اس فریضہ کے سرانجام دینے پر انعامات کا ملنا سو فیصد اللہ تعالیٰ کا فضل ہے، کیونکہ اس فریضے کی ادائیگی تو ہم پر لازم تھی ، اس کے پورا کرنے پر شاباش ملنا اور پھر اس پر بھی مستزاد، انعام کا ملنا (اور پھر انعام، دنیوی بھی اوراُخروی بھی)تو ایک زائد چیز ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں سمجھیں کہ مسلمان ہونے کے ناطے اس حکم کا پورا کرنا ہر حال میں لازم تھا، چاہے کوئی حوصلہ افزائی کرے یا نہ کرے،کوئی انعام دے یا نہ دے، لیکن اس کے باوجود کوئی اس پر انعام بھی دے تو پھر کیا ہی کہنے! اور انعام بھی ایسے کہ جن کے ہم بہر صورت محتاج ہیں،ہماری دنیوی و اُخروی بہت بڑی ضرورت ان انعامات سے وابستہ ہے، ذیل میں چند انعامات کا صرف اشارہ نقل کیا جارہا ہے، تفصیلی مباحث دئیے گئے حوالہ جات میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں: ۱:… زکاۃ کی ادائیگی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ مال کو بڑھاتے ہیں۔(البقرۃ:۲۶۷۔تفسیر جلالین، البقرۃ: ۲۶۷۔ و روح المعانی،التوبۃ:۱۰۴۔صحیح البخاری، کتاب الزکاۃ، باب الصدقۃ من کسب طیب۔ رقم الحدیث: ۱۴۱۰، ج:۲، ص:۱۱۲، دارطوق النجاۃ) ۲:… زکاۃ کی وجہ سے اجر و ثواب سات سو گنا بڑھ جاتا ہے۔(البقرۃ:۲۶۱۔ تفسیر البیضاوی، البقرۃ:۲۶۱) ۳:… زکاۃ کی وجہ سے ملنے والا اجر کبھی ختم ہونے والا نہیں، ہمیشہ باقی رہے گا۔(الفاطر: ۲۹،۳۰) ۴:…اللہ تعالیٰ کی رحمت ایسے افراد(زکاۃ ادا کرنے والوں)کا مقدر بن جاتی ہے۔ (الأعراف:۱۵۶) ۵:… کامیاب ہونے والوںکی جو صفات قرآنِ پاک میں گنوائی گئیں ہیں، ان میں ایک صفت زکوٰۃ کی ادائیگی بھی ہے۔(المؤمنون:۴) ۶:… زکاۃ ادا کرنا ایمان کی دلیل اور علامت ہے۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب الطھارۃ، باب الوضوء شطر الإیمان، رقم الحدیث:۲۸۰،دار المعرفۃ بیروت) ۷:…قبر میں زکاۃ (اپنے ادا کرنے والے کو)عذاب سے بچاتی ہے۔(المصنف لابن ابی شیبۃ،کتاب الجنائز،باب فی الرجل یرفع الجنازۃ،رقم الحدیث:۱۲۱۸۸،ج:۷،ص:۴۷۳،دار قرطبۃ، بیروت) ۸:…ایک حدیث شریف میں جنت کے داخلے کے پانچ اعمال گنوائے گئے ہیں، جن میں سے ایک زکاۃ کی ادائیگی بھی ہے۔ (سنن أبی داؤد، کتاب الصلاۃ، باب فی المحافظۃ علی وقت الصلوٰت، رقم الحدیث:۴۲۹، ج:۱، ص:۲۱۴، دار ابن حزم) ۹:…انسان کے مال کی پاکی کا ذریعہ زکاۃ ہے۔ (مسند أحمد:مسند أنس بن مالکؓ، رقم الحدیث: ۱۲۳۹۴) ۱۰:… انسان کے گناہوں کی معافی کا بھی ذریعہ ہے۔ (مجمع الزوائد، کتاب الزکاۃ، باب فرض الزکاۃ، ج:۳،ص:۶۳) ۱۱:… زکاۃ سے مال کی حفاظت ہوتی ہے۔(شعب الإیمان للبیہقی،کتاب الزکاۃ، فصل فی من أتاہ اللہ مالا من غیر مسألۃ،رقم الحدیث: ۳۵۵۷،ج:۳،ص:۲۸۲،دار الکتب العلمیہ) ۱۲:…زکاۃ سے مال کا شر ختم ہو جاتا ہے۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی،کتاب الزکاۃ، باب الدلیل علی أن من أدی فرض اللہ فی الزکاۃ، رقم الحدیث:۷۳۷۹)  اوپر جتنے فضائل ذکر کئے گئے ہیں وہ ہر قسم کی زکاۃ سے متعلق ہیں ، چاہے وہ’’ زکاۃ ‘‘سونے چاندی کی ہو ، یا تجارتی سامان کی ،عشر ہو یا جانوروں کی ۔ زکاۃ ادا نہ کرنے کے نقصانات اور وعیدیں فریضۂ زکاۃ کی ادائیگی پر جہاں من جانب اللہ انعامات و فوائد ہیں، وہاں اس فریضہ کی ادائیگی میں غفلت برتنے والے کے لیے قرآنِ پاک اور احادیث ِ مبارکہ میں وعیدیں بھی وارد ہوئیں ہیں ، اور دنیا و آخرت میں ایسے شخص کے اوپر آنے والے وبال کا ذکر بکثرت کیا گیا ہے، ذیل میں ان میں سے کچھ ذکر کیے جاتے ہیں: ۱:…جو لوگ زکاۃ ادا نہیں کرتے اُن کے مال کو جہنم کی آگ میں گرم کر کے اِس سے اُن کی پیشانیوں، پہلوؤں اور پیٹھوں کو داغاجائے گا۔(سورۃ التوبہ:۳۴،۳۵) ۲:…ایسے شخص کے مال کو طوق بنا کے اُس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا۔(سورۃ آل عمران:۱۸۰) ۳:… ایسا مال آخرت میں اُس کے کسی کام نہ آ سکے گا۔ (سورۃ البقرۃ: ۲۵۴) ۴:…زکاۃ کا ادا نہ کرنا جہنم والے اعمال کا ذریعہ بنتا ہے۔(سورۃ اللیل:۵تا۱۱)  ۵:…ایسے شخص کا مال قیامت والے دن ایسے زہریلے ناگ کی شکل میں آئے گا ،جس کے سر کے بال جھڑ چکے ہوں گے ، اور اس کی آنکھوں کے اوپر دو سفید نقطے ہوں گے،پھر وہ سانپ اُس کے گلے کا طوق بنا دیا جائے گا، پھر وہ اس کی دونوں باچھیں پکڑے گا(اور کاٹے گا) اور کہے گا کہ میں تیرا وہ ما ل ہوں ، میں تیرا جمع کیاہوا خزانہ ہوں۔ (صحیح البخاری ، کتاب الزکاۃ، باب إثم مانع الزکاۃ،رقم الحدیث:۱۴۰۳، ج:۲، ص:۱۱۰، دارطوق النجاۃ) ۶:…مرتے وقت ایسا شخص زکاۃ ادا کرنے کی تمنا کرے گا، لیکن اس کے لیے سوائے حسرت کے اور کچھ نہ ہو گا۔(سورۃ المنافقون:۱۰۔صحیح البخاری، کتاب الزکاۃ، باب فضل صدقۃ الشحیح الصحیح، رقم الحدیث: ۱۴۱۹، ج:۲ ،ص:۱۱۰، دارطوق النجاۃ)   ۷:…ایسے شخص کے لیے آگ کی چٹانیں بچھائی جائیں گی،اور اُن سے ایسے شخص کے پہلو ، پیشانی اور سینہ کو داغا جائے گا۔ (صحیح مسلم، کتاب الزکاۃ، باب إثم مانع الزکاۃ) ۸:… ایسے افرادکوجہنم میں ضریع، زقوم، گرم پتھر، اور کانٹے دار و بدبو دار درخت کھانے پڑیں گے۔(دلائل النبوۃ للبیہقی، باب الإسراء ،رقم الحدیث:۶۷۹) ۹:… ایسے افراد سے قیامت میں حساب کتاب لینے میں بہت زیادہ سختی کی جائے گی۔ (مجمع الزوائد، کتاب الزکاۃ، باب فرض الزکاۃ: ج:۳،ص:۶۲) ۱۰:…جب لوگ زکاۃ روک لیتے ہیں تو اس کے بدلے اللہ تعالیٰ ان سے بارشیں روک لیتے ہیں۔ (المستدرک للحاکم، رقم الحدیث: ۲۵۷۷) ۱۱:… جب کوئی قوم زکاۃ روک لیتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس قوم کو قحط سالی میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ (المعجم الأوسط للطبرانی،تحت من اسمہ عبدان، رقم الحدیث:۴۵۷۷)  زکاۃ ادا کرنے سے مال میں کمی واقع نہیں ہوتی ’’نبی اکرم a نے ارشاد فرمایا:’’ کہ میں تین چیزوں پر قسم اٹھاتا ہوں اور تمہیں ایک اہم خاص بات بتاتا ہوں، تم اسے یاد رکھنا،ارشاد فرمایا :کہ کسی بندے کا مال زکاۃ (و صدقہ ) سے کم نہیں ہوتا، جس بندے پر بھی ظلم کیا جاتا ہے اور وہ اس پر صبر کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کی عزت میں اضافہ فرماتے ہیں۔اور جو بندہ بھی سوال کا دروازہ کھولتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر فقر اور تنگ دستی کا دروازہ کھول دیتے ہیں‘‘، یا ’’نبی اکرم a نے اسی طرح کا کوئی جملہ ارشاد فرمایا‘‘۔اور میں تمہیں ایک اور خاص بات بتاتا ہوں، سو تم اُسے یاد رکھنا، ارشاد فرمایا: ’’دنیا تو چار قسم کے افراد کے لیے ہے: ایک اس بندے کے لیے جس کو اللہ تعالیٰ نے مال اور دین کا علم ،دونوں نعمتیں عطا فرمائیں، تو وہ اس معاملہ میں اپنے رب سے ڈرتاہے(اس طرح کہ اس مال کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں استعمال نہیں کرتا اور علمِ دین سے فائدہ اٹھاتا ہے)اور اس علمِ دین اور مال کی روشنی میں رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرتا ہے اوراس (مال)میں اللہ تعالیٰ کے حق کو پہچانتا ہے۔ (مثلاً: مال کو اللہ تعالیٰ کے لیے وقف کرتا ہے، اور دینی علم سے دوسروں کو تبلیغ، تدریس اور افتاء وغیرہ کے ذریعے سے فائدہ پہنچاتا ہے) تو یہ شخص درجات کے اعتبار سے چاروں سے افضل ہے۔ دوسرے اس بندے کے لیے کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے علم کی نعمت تو عطا فرمائی، لیکن مال عطا نہیں فرمایا، لیکن وہ نیت کا سچا ہے اور کہتا ہے کہ اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں فلاں آدمی کی طرح عمل کرتا (جو کہ رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرتا ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کے حق کو سمجھ کر عمل کرتا ہے) تو یہ شخص اپنی نیت کے مطابق صلہ پاتاہے اور اس شخص کا اور اس سے پہلے شخص کا ثواب برابر ہے۔ تیسرے اس بندے کے لیے ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے مال کی نعمت عطا فرمائی، لیکن علم کی نعمت عطا نہیں فرمائی، تو وہ علم کے بغیر اپنے مال کو خرچ کرنے میں اپنے رب سے نہیں ڈرتا، اور نہ ہی اس مال سے صلہ رحمی کرتا ہے اور نہ ہی اس مال میں اللہ تعالیٰ کے حق کو سمجھتاہے، تو درجات میں یہ سب سے بدتر بندہ ہے۔ چوتھے اس بندے کے لیے ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے نہ تو مال کی نعمت عطا فرمائی اور نہ علم کی ، تو وہ کہتا ہے کہ اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں بھی اس مال کے سلسلے میں فلاں بندے کی طرح عمل کرتا (جواپنے مال کے خرچ کرنے میں اللہ سے نہیں ڈرتا اور نہ ہی صلہ رحمی کرتا ہے اور نہ ہی مال میں اللہ تعالیٰ کے حق کو سمجھتا ہے)سو یہ بندہ اپنی نیت کے مطابق صلہ پاتا ہے پس اسکا گناہ اور وبال اس پہلے شخص کے گناہ اور وبال کے مطابق ہی ہوتا ہے‘‘۔(سنن الترمذی،کتاب الزھد، باب ما جاء مثل الدنیا مثل أربعۃ نفر، رقم الحدیث:۲۳۲۵، ج:۴، ص:۵۶۲، مصطفیٰ البابی الحلبی ) (جاری ہے)

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین