بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

فرض نمازوں کے بعد دعا کی اہمیت (تیسری اور آخری قسط )

فرض نمازوں کے بعد دعا کی اہمیت                             (تیسری اور آخری قسط )

    دوسرا باب اس بارے میں ہے کہ دعا فرض نماز کے بعد سنت سے پہلے بلاکراہت جائز ہے، بلکہ افضل تو یہ ہے کہ وہ سنت کے بعد ہو۔پہلے باب سے یہ معلوم ہوچکا کہ اصل دعا فرض نماز کے بعد سنت ومستحب ہے۔ باقی رہی یہ بات کہ دعا فرض نماز کے بعد سنت سے پہلے مکروہ ہے یا نہیں؟ وہ احادیث جو پہلے باب میں گزرچکی ہیں وہ سب اپنے ظاہری الفاظ کے ساتھ دلالت کرتی ہیں کہ حضور اکرم a کی دعا سنن راتبہ سے پہلے سلام کے فوراً بعد ہوا کرتی تھی، جیسے کہ احادیث کے الفاظ سے یہ بات مفہوم ہوتی ہے کہ جیسے ’’إذا سَلَّمَ‘‘ ،’’إذا انصرف‘‘ اور ’’إذا‘‘ مبادرۃ کے لیے ہے اور ’’دبر کل صلٰوۃ مکتوبۃ‘‘ اور اس جیسے الفاظ سے اور ان میں سے بہت سے احادیث کے راوی صحابہ کرامs صراحت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور اکرم a کو فرض نماز کے بعد ان دعاؤں کے ساتھ دعا کرتے ہوئے سنا ہے اور اس سے معلوم ہوا کہ سنن راتبہ اور نوافل کا گھر میں ادا کرنا (نہ کہ مسجد میں) آپ a کے عام طریقوں میں سے تھا، پس اگر حضور اکرم a گھر تشریف لے جانے سے پہلے فرض نماز کے فوراً بعد یہ دعائیں نہ فرماتے تو صحابہs ان دعاؤں کو حضور اکرم a سے نہ سنتے، جیسے کہ یہ ظاہر ہے۔     اور رہا یہ کہ حضور اکرم a سنت اور نوافل گھر میں پڑھتے تھے، اس پر کئی احادیث دلالت کرتی ہیں:     ان احادیث میں سے ایک حدیث وہ ہے جس کی تخریج امام مسلم v نے اپنی صحیح مسلم میں، ابوداؤدvنے اپنی سنن میں اور امام احمد vنے مسند احمد میں بروایت عبد اللہ بن شقیق q کی ہے، فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ tسے رسول اللہ a کی نوافل کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا: ’’حضور اکرم a میرے گھر میں ظہر سے قبل چار رکعت پڑھتے، پھر باہر تشریف لے جاتے اور لوگوں کو نماز پڑھاتے تھے، پھر واپس آتے اوردو رکعت پڑھتے تھے اور آپ a لوگوں کو نمازمغرب پڑھانے کے بعد گھر میں داخل ہوتے اور دورکعت پڑھتے اور لوگوں کو عشاء کی نماز پڑھا کر میرے گھر میں داخل ہوتے اور دو رکعت پڑھتے۔(الحدیث) اور اس حدیث کے آخر میں ہے: ’’اور جب فجرطلوع ہوتی تو دو رکعت پڑھتے تھے‘‘۔     ۲:… امام ترمذی v نے شمائل میں اور ابن ماجہv نے اپنی سنن میں بروایت عبد اللہ بن سعد انصاری q حدیث کی تخریج کی ہے، فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم a سے پوچھا کہ گھر میں نماز پڑھنا افضل ہے یا مسجد میں؟ آپ a نے فرمایا: مجھے مسجد میں نماز پڑھنے سے گھر میں نماز پڑھنا زیادہ پسند ہے مگر یہ کہ فرض نماز ہو (یعنی اس کا مسجد میں پڑھنا افضل ہے)     ۳:…امام بخاری v اور امام مسلم v اور ان کے علاوہ دیگرنے حضرت زید بن ثابتq سے روایت کیا ہے کہ حضور اکرم a نے فرمایا: سوائے فرائض کے اور تمام نمازوں کو گھر میں ہی پڑھنا افضل ہے۔ اسی طرح اس کی تخریج امام ترمذی v نے بھی کی ہے اور فرماتے ہیں کہ اس باب میں حضرت عمر بن خطابؓ، حضرت جابر بن عبد اللہؓ، حضرت ابوسعید خدریؓ، حضرت ابوہریرہؓ، حضرت ابن عمرؓ، حضرت عائشہؓ، حضرت عبد اللہ بن سعدؓ اور حضرت زید بن خالد الجہنیs سے بھی روایت ہے۔     ۴:…امام ابوداؤدv، امام ترمذی v اور امام نسائی v نے حضرت کعب بن عجرہ q سے روایت کی ہے کہ (ایک روز) نبی کریم a (انصار کے قبیلہ) بنی عبد الاشہل کی مسجد میں تشریف لائے اور وہاں مغرب کی (فرض اور سنت) نماز پڑھی، جب (بعض) لوگ (اپنی فرض) نماز پڑھ چکے، تو آپ a نے دیکھا کہ وہ فرض نماز ادا کرنے کے بعد نفل نماز (یعنی مغرب کی سنتیں بھی وہیں) پڑھ رہے ہیں، آنحضرت a نے (یہ دیکھ کر) فرمایا کہ: یہ (یعنی مغرب کی سنتیں یا مطلقاً نفل نماز) گھر میں پڑھنے کی ہے۔     ان احادیث میں سے ہر حدیث دلیل ہے کہ حضور اکرم a سنت اور نوافل کی نماز گھر میں ادا کرتے تھے، چنانچہ پہلی حدیث کی دلالت تو اس پر ظاہر ہے۔ باقی رہی دوسری احادیث تو ظاہر یہی ہے کہ عبادات کے باب میں جو افضل اور محبوب عمل ہو، آپ a اسے چھوڑتے نہیں تھے۔لہٰذا ان احادیث سے معلوم ہوا حضور اکرم a فرض نماز کے فوراً بعد گھر تشریف لے جانے اور سنن ونوافل پڑھنے سے قبل ادعیہ ماثورہ کے ساتھ دعا فرماتے تھے، اسی وجہ سے آپ a جہاں بھی ہوتے صحابہ کرام s نے آپ a کویہی دعائیں پڑھتے ہوئے سنا بھی اور ان دعاؤں کو آپ سے سن کر یاد بھی کیا۔ خاتمۃ الرسالۃ     اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ مسلم شریف کی حدیث میں حضرت عائشہ t سے مروی ہے کہ حضور اکرم a نہیں بیٹھتے تھے، مگر ان کلمات کے پڑھنے کے بقدر (وہ کلمات یہ ہیں)’’أللّٰہم أنت السلام‘‘ پس اس کا کیا جواب ہے؟     میں کہتا ہوں: اس کے چار جوابات ہیں:     پہلا جواب: درحقیقت اس حدیث کی سند ضعیف ہے، کیونکہ اس کا مدار تین آدمیوں پر ہے۔     پہلا شخص: ابوخالد الاحمر ہے اور اس کا نام سلیمان بن حیان ہے۔ (حَیَّان) حاء کے فتح اور یاء کی تشدید کے ساتھ ہے۔ قبیلہ ازد اور کوفہ سے تعلق ہے۔ حافظ ابن حجرv نے ’’تہذیب التہذیب‘‘ میں فرمایا : ابوبکر البزارؒ نے کتاب السنن میں کہا ہے کہ اہل علم نے نقلاً اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ ابو خالد حافظ نہیں تھے۔ انہوں نے کئی احادیث اعمشؒ اور دیگر سے روایت کی ہیں جن کی متابعات نہیں ہیں اور ابن معینؒ نے کہا ہے کہ ابوخالد صدوق تھے، لیکن حجت نہیں ہے اور ابوہاشم الرفاعیؒ نے کہا ہے کہ وہ اصل میں صدوق تھے، لیکن ان کا حافظہ خراب ہوگیا تھا، پس وہ غلطی اور خطا کرجاتے تھے۔     دوسرا شخص: ابو معاویہ الضریر ہے اور اس کا نام محمد بن خازم ہے (خازم) خاء اور زاء کے ساتھ ہے۔حافظ ابن حجرv نے ’’تہذیب التہذیب‘‘ میں فرمایا ہے : عبد اللہ بن احمد نے کہا ہے کہ: میں نے اپنے والد سے یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ ابو معاویہ الضریر اعمشؒ سے مروی شدہ حدیث کے علاوہ دیگر احادیث میں مضطرب ہے، وہ احادیث کو صحیح محفوظ نہیں کرتا اور ابن معینؒ نے کہا ہے کہ: ابو معاویہ عبد اللہ بن عمر سے منکر احادیث روایت کرتے تھے اور ابوداؤدؒ نے کہا کہ ابو معاویہ کا تعلق مرجئہ سے تھا اور مرہؒ نے کہا کہ وہ کوفہ میں مرجئہ کے رئیس تھے۔ اور ابن خراشؒ نے کہا کہ وہ اعمشؒ سے مروی شدہ روایات میں ثقہ تھے اور ان کے علاوہ دیگر روایات میں مضطرب تھے اور ابو زرعہؒ نے کہا کہ ابو معاویہ مرجئہ کے ہم خیال تھے، ان سے پوچھا گیا کہ ان کی طرف وہ دعوت بھی دیتا تھا؟ تو انہوں نے کہا: جی ہاں! میں کہتا ہوں کہ: یہ حدیث ابومعاویہ نے اعمشؒ سے روایت نہیں کی ہے،بلکہ عاصم احول سے کی ہے جو مضطرب تھے۔     تیسرا شخص: عاصم بن سلیمان الأحول ابو عبد الرحمن البصری ہے، حافظ ابن حجرؒنے تہذیب التہذیب میں فرمایا ہے کہ علی بن المدینیؒ نے یحییٰ ابن سعید القطانؒ کے حوالے سے کہا ہے کہ عاصم الأحول حافظ نہیں تھے اور ابن ادریسؒ نے کہا ہے کہ میں ان سے کچھ بھی روایت نہیں کرتا اور وہیبؒ نے ان کو اس وجہ سے چھوڑدیا کہ ان کی کچھ عادات ان کو اچھی نہیں لگیں۔     دوسرا جواب: یہ ہے کہ حدیث کا لفظ ’’أنہ لم یقعد‘‘ ہے أنہ لم یقرأ  نہیں ہے، پس ممکن ہے کہ آپ a اس کے بقدر بیٹھے ہوں اور پھر کھڑے ہوکر اذکار کیے ہوں۔     تیسرا جواب: یہ ہے کہ یہ حدیث ان تمام احادیث سے متعارض ہے جو فرض نماز کے بعد ذکر اور دعا کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں، جن کا ذکر باب اول کی فصل اول میں ہوچکا ہے۔پس ان احادیث کو ترجیح دی جاتی ہے، کیونکہ ان میں سے اکثر کی تخریج صحیحین میں ہوئی ہے اور صحیحین کی احادیث ان احادیث سے اصح ہیں جو صرف صحیح مسلم میں ہیں۔     چوتھا جواب: یہ ہے کہ حضرت عائشہ t کا قول ’’إلا مقدار ما یقول: أللّٰہم أنت السلام‘‘ سے مراد حقیقی مساوات نہیں ہے، بلکہ تقریبی مساوات مراد ہے۔ بس ان کلمات ’’لا إلٰہ إلا اللّٰہ وحدہٗ لاشریک لہٗ‘‘ آخر تک اور ’’أللّٰہم لامانع لما أعطیت‘‘ اور آیت الکرسی اور دیگر دعائیں پڑھنے کے بقدر تاخیر مکروہ نہیں ہے، جیسے کہ یہ بات فتح القدیر میں ہے اور شرح منیۃ الکبیر اور علامہ دہلویv کی شرح مشکوٰۃ اور دیگر کتب میں ذکر ہے۔ اگر کوئی اعتراض کرے کہ کتبِ فقہ کی عبارتوں میں ایسی بات ذکر ہے جو فرض اور سنت کے درمیان دعا کی کراہت پر دلالت کرتی ہے۔ ان میں سے ایک بات جواہر الفتاوی میں ہے کہ قاضی امام علاء الدینؒ سے فرض نماز کے بعد دعا کے بارے میں پوچھا گیا، فرمایا: پسندیدہ یہی ہے کہ فرض کو سنت کے ساتھ ملادیا جائے (یعنی فرض کے فوراً بعد سنت ادا کی جائے) ایک عبارت وہ ہے جو خلاصہ اور اشباہ نامی کتاب میں ذکر ہے کہ سنتوں میں مشغول ہونا دعا میں مشغول ہونے سے اولیٰ ہے۔     میں کہتاہوں: ان دونوں عبارتوں کا جواب یہ ہے کہ یہ دونوں کراہت پر دلالت نہیں کرتیں، درحقیقت یہ عبارتیں سنت کو فرض کے بعد ملانے کی اولویت پر دلالت کرتی ہیںاور یہ ایک مختلف فیہ امر ہے، اسی وجہ سے فتح القدیر میں کہا ہے: اس میں اختلاف کیاگیا ہے کہ فرض کے بعد ادا کی جانی والی سنتوں کا فرض کے ساتھ فوراً ملانا اولیٰ ہے یا نہیں؟اور تحقیق سے ہم نے احادیث پیش کردی ہیں جواس بات پر دلالت کر تی ہیں کہ فرض اور سنت کے درمیان دعا مسنون اور مندوب ہے، پس ان کثیر روایات کی وجہ سے فرض اور سنت کے درمیان دعا کے مسنون یا مندوب ہونے کا قول راجح ہوگیا ہے۔ فائدہ مسند تکمیلیہ     اس رسالہ کا خلاصہ یہ ہے کہ سنتوں کو فرض سے ملانا مکروہ تنزیہی ہے، جیسے کہ ابو رمثہ q کی حدیث اس پر دلالت کرتی ہے جس کا ذکر پہلے ہوچکا ہے اور ابن الہمام vنے بھی اس بات کو فتح القدیر میں ذکر کیا ہے۔ فرض اور سنت کے درمیان فاصلہ کے بارے میں امام شمس الائمہ حلوائی v کا قول ہے کہ فرض اور سنت کے درمیان وقفہ کرنے میں بالکل کراہت نہیں ہے، اوررہا امام کے حق میں تو(اس کے لیے بھی فرض وسنت کے درمیان)دعا اور ذکر کے ساتھ تھوڑا سا وقفہ کرنے میں کوئی کراہت نہیں ہے، بلکہ بالکل دعا کے چھوڑنے سے یہی افضل وبہتر ہے۔ ہاں! اگر وقفہ زیادہ ہو بایںطور کہ وہ تینتیس معروف ورد کے بقدر ہو یا اس سے بھی زیادہ ہو تو مکروہ یعنی مکروہ تنزیہی ہے جو خلافِ اولیٰ کے معنی میں ہے۔

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین