بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

 فتح وشکست کے حقیقی اسباب!


 فتح وشکست کے حقیقی اسباب!

 

 حق تعالیٰ شانہٗ کی قدرت ور بوبیت آسمان سے لے کر زمین تک تمام کا ئنات پر محیط ہے، اس عالم کو ن وفساد کا کوئی ذرہ نہ اس کی قدرت سے خارج ہے، نہ اس ربوبیت سے بے نیاز، قوموں کا عروج وزوال ،تر قی وبر بادی، فتح وشکست اور کامیابی وناکامی بھی بر اہِ راست مشیتِ خداوندی کے تحت داخل ہے۔ الغرض حق تعالیٰ کا غیر مرئی نظامِ قدرت ونظام ربو بیت عالم کے ہر ہر جزء میں جاری وساری ہے ۔
 اللہ تعالیٰ نے اس عالم میں اسباب ومسببات کا ایک ظا ہری سلسلہ جاری فرمادیا ہے، لیکن اسباب ومسببات کا خالق ومالک بھی وہی ہے اور اقتدارو تصرف بھی اسی قادر مطلق کے قبضۂ قدرت میں ہے، پھر جس طرح اس عالم میں ظا ہری اسباب کا سلسلہ جاری ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ کے کار خانۂ قدرت میں اسباب سے بالا تر بھی ایک مخفی نظام کا رفرما ہے۔
 ظا ہری اسباب بھی اسی وقت مؤثر ہوتے ہیں، جبکہ حق تعالیٰ شانہ کی حکمت ومشیت کا تقاضا ہو، ور نہ اسباب وتدابیر کا تمام کارخانہ بے کار اور معطل ہوکر رہ جاتا ہے، فتح و نصرت کے لیے جس طرح ظاہر ی اسباب مو ثر ہیں اس سے کہیں زیادہ باطنی اسباب اور غیبی نظام کی تاثیر فیصلہ کن ہوتی ہے۔
 شرقِ اوسط کے درد انگیز حالات پر جہاں تک غور کیا، یہی سانحہ ہوا کہ ظا ہری ومادی اسباب ایسے نہ تھے کہ ایسی حیرت ناک اور ذلت آمیز شکست مسلمانوں کو ہوتی، بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہماری بد عملیوں کی پاداش میں قدرت کا مخفی نظام حرکت میں آیا، مصری حکومت پر غلط فہمی اور غفلت طاری کردی گئی، یوں اس کا فوجی نظام تہ وبالا کردیا گیا اور سالہا سال کی جنگی تد بیروں اور دفا عی استحکام کو آن کی آن میں پیوندِ خاک کردیا گیا۔
’’إِذْ أَعْجَبَتْکُمْ کَثْرَتُکُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْکُمْ شَیْئًا وَّضَاقَتْ عَلَیْکُمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّیْتُمْ مُّدْبِرِیْنَ۔‘‘  (التوبۃ:۲۵)
 درحقیقت یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تازیانۂ عبرت ہے، تاکہ ہم اپنے اعمال کا جائز ہ لیں، خدا فراموش زندگی سے تو بہ کرلیں اورحق تعالیٰ سے ٹوٹے ہوئے رشتے کو دوبارہ جوڑلیں، یہ سانحہ کسی خاص ملک کے لیے نہیں، بلکہ مصر، شام، تیونس، الجزائر، حجاز اور کویت بلکہ تمام اسلامی ممالک سبھی کے لیے تازیانۂ عبرت تھا، جیسا کہ ’’بینات‘‘ کے سابقہ شمار ے میں تفصیلی اشارے کیے گئے تھے، لیکن صدمے کی بات یہ ہے کہ اس عبرت انگیز شکست اور سبق آموز صورت حال سے جیسی عبرت ہونی چاہیے تھی‘ نہیں ہوئی، واللّٰہ المستعان۔
 ماضی کی ہلاک شدہ قوموں کی عبرت ناک تباہی کی داستانیں پڑھنے سے جو بنیادی بات آدمی محسوس کرتا ہے، وہ یہی ہے کہ ان کے دل ودماغ نشۂ غفلت سے اس قدر ماؤ ف ہو چکے تھے کہ ان پر عذاب آتا مگر انہیں یہ احساس بھی نہ ہوتا کہ یہ حق تعالیٰ کا عذاب ہے ،بس یوں ہی اسباب کی طرف منسوب کرکے اپنی جگہ مطمئن ہوجاتے اور اگر کہیں اسباب کا کوئی سرا نہ ملتا تو ان حوادث کوبخت واتفاق کا کرشمہ قرار دے دیا:’’قَدْ مَسَّ أٰ بَائَ نَا الضَّرَّائُ وَالسَّرَّائُ۔‘‘ غفلت ،لا پر وائی اور سنگ دلی کی یہی وہ خطرناک سر حد تھی جس سے گزرنے کے بعد ان کا نام ونشان تک مٹادیا گیا :’’ھَلْ تُحِسُّ مِنْھُمْ مِّنْ أَحَدٍ أَوْتَسْمَعُ لَھُمْ رِکْزًا۔‘‘
 موجودہ حسرت ناک اور در دناک صورت حال میں بھی یہی محسوس ہورہا تھا، فتح وشکست کوئی نئی چیز نہیں، بلکہ یہ سلسلہ تو ابتدا ہی سے چلا آرہا ہے، لیکن شکست کے اصلی اور حقیقی اسباب پر غور نہ کرنا قابلِ صد افسوس ہے ،قرآن حکیم نے اسی حقیقت کو واضح فرمایا ہے، ارشاد ہے:
’’أَوَلَا یَرَوْنَ أَنَّھُمْ یُفْتَنُوْنَ فِیْ کُلِّ عَامٍ مَّرَّۃً أَوْمَرَّتَیْنِ ثُمَّ لَا یَتُوْبُوْنَ وَلَا ھُمْ یَذَّکَّرُوْنَ۔‘‘    (التوبۃ:۱۲۶)
’’اور کیا وہ دیکھتے نہیں کہ انہیں آزمایا جاتا ہے ہر سال ایک مر تبہ یا دو مر تبہ ،پھر بھی نہ وہ توبہ کرتے ہیں اورنہ وہ غور کرتے ہیں۔‘‘
’’وَلَا ھُمْ یَذَّکَّرُوْنَ‘‘ نہایت ہی قابلِ غور ہے۔ نیز ارشاد ہے: 
’’فَلَوْلَا إِذْجَائَ ھُمْ بَأْسُنَا تَضَرَّعُوْا وَلٰکِنْ قَسَتْ قُلُوْ بُھُمْ وَزَیَّنَ لَھُمُ الشَّیْطٰنُ مَاکَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۔‘‘      (الانعام:۴۳)1
’’پھر وہ کیوں نہ گڑ گڑائے جب ان پر ہمارا عذاب آیاتھا، لیکن ان کے دل سخت ہو گئے اور اچھا کر دکھلایا ان کو شیطان نے جو کچھ وہ پہلے سے کررہے تھے۔ ‘‘
نیز ارشاد ہے:
’’وَلَقَدْ أَخَذْنَاھُمْ بِالْعَذَابِ فَمَا اسْتَکَانُوْا لِرَ بِّھِمْ وَمَا یَتَضَرَّعُوْنَ۔‘‘ (المومنون:۷۶)
’’اور یقینا ہم نے ان کو عذاب میں پکڑا تھا پھر نہ تو وہ اپنے رب کے سامنے جھکے اور نہ وہ گڑگڑاتے ہیں۔‘‘
 اسی قسم کی آیات سے واضح ہے کہ حوادث سے عبرت نہ پکڑنا اور حق تعالیٰ کی طرف رجوع نہ کرنا نہایت خطرناک حالت ہے۔

حاشیہ:

1۔۔۔۔۔    کتنا عجیب نقشہ ہے جو قرآن حکیم نے ’’در حدیثِ دیگراں‘‘ خود ہماری صورت حال کا کھینچ کر رکھ دیا، جنگ سے ذرا پہلے ہمارے یہاں یہ بحث چھڑی ہوئی تھی کہ ہماری تر قی کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ یہی مذہبیت،  رجعت اور ملائیت ہے، اسے ختم کرکے اسلامی اشتر اکیت اور اسلامی سوشلزم کو لانا چاہیے، مصر غریب جس کی اشتراکیت پسندی اور تجدد پرستی کے حوالے یہاں بار بار دیئے جاتے تھے، سب نے دیکھا کہ وہ’’ عِبَادًا لَنَا أُولِیْ بَأْسٍ شَدِیْدٍ‘‘کی تاب چاردن بھی نہیں لا سکا، لیکن ہمارے فکر ونظر میں اب بھی تبدیلی نہیں ہوئی، ہمارے مفکر ین کا رُخ اب بھی مذہب کش اشتر اکیت ہی کی طرف ہے، اُمت کے عمومی فسادِ مزاج کی انتہاء یہ ہے کہ سقوطِ بیت المقدس کے بعد بھی سینماؤں میں سیرۃ النبیؐ کے اجلاس منعقد کیے جاتے ہیں اور عربوں کے نقصانات کی تلا فی کے لیے عرب عورتوں کے مینا بازار جیسے شرمناک اور حیا سوز مناظر کا اہتمام کیا جاتا ہے:’’وَإِذَا أَرَادَ اللّٰہُ بِقَوْمٍ سُوْئً فَلَامَرَدَّ لَہٗ۔‘‘ نظریں اس طرف تو سبھی کی جاتی ہیں کہ مسلمان سائنس اور ٹیکنا لو جی میں پیچھے رہ گئے تھے، اس لیے انہیں شکست ہوئی اور ایک معاصر نے تو یہاں تک مشورہ دے ڈالا کہ پاکستان میں مسجدوں پر جتنے ٹکے مسلمان برباد کر ررہے ہیں، وہ سب سائنسی ترقی اور فوجی استحکام پر خرچ کیے جانے چاہئیں، لیکن اس طرف کسی کی نظر نہیں جاتی کہ یہ اُمت تعلق مع اللہ، ایمانی قوت اور خود اعتماد ی کی دولت کھوبیٹھی ہے، اس لیے بیت المقدس سے اقوامِ متحدہ تک اس کی حیثیت گھاس پھوس کی ہوکر رہ گئی ہے، جس کی نہ کوئی قیمت ہے، نہ کو ئی وزن۔ (مدیر)
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین