بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

غلامانِ مصطفی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جرأت کو سلام

غلامانِ مصطفی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جرأت کو سلام

 

الحمد للّٰہ وسلامٌ علٰی عبادہٖ الذین اصطفٰی

روس کی شکست وریخت کے بعد مغربی استعمار نے اسلام، مسلمانوں اور اسلام کی مقدس ترین شخصیات کو اپنے نشانے پر رکھ لیا ہے۔ ایک طرف افغانستان، عراق، شام، برما، فلسطین اور کشمیر میں نہتے مسلمانوں کو قتل وغارت اور ظلم وستم کی بھٹی میں بھسم کررہا ہے تو دوسری طرف اس نے مغربی ممالک میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ گستاخانہ خاکے بنوائے، اپنی جیلوں میں مسلمان قیدیوں کے سامنے قرآن کریم کی بے حرمتی کرائی گئی، قرآن کریم کو جلانے کی اعلانیہ جسارتیں کی گئیں۔ جب اس سے بھی ان کے اندر کی آگ اور غیظ وغضب ٹھنڈا نہ ہو اتو انہوں نے اپنے ایک پیشوا سینٹ لوئس کے لائحہ عمل (جو اس نے صلیبی جنگوں کے خاتمے پر مسلمانوں کے لیے بنایا) کو سامنے رکھتے ہوئے اس پر عمل درآمد شروع کردیا۔ وہ یہ کہ اس نے کہا کہ: ’’مسلمانوں کے درمیان سے اپنے ہم خیال لوگ تلاش کرو، ایسے لوگ تمہیں اشرافیہ اور حکمرانوں کے طبقے سے بآسانی ملیں گے۔‘‘  لہٰذا آج اسلامی ممالک اور خصوصاً ہمارے ملک پاکستان میں مادیت کی حرص وہوس کے بیمار اور پجاری، دھن، دولت، عزت وشہرت اور مغربی آقاؤں کی ایجنٹی کرنے کے لیے موم بتی مافیا اور نام نہاد سول سوسائٹی، بھینسے، مینڈھے، کتے، سؤر جیسے حیوان جبلت اور درندہ صفت لوگ اسلامی تہذیب، اسلامی اقدار، اسلامی شعائر حتیٰ کہ حضور اکرم a کی ذات، آپ a کی ازواج مطہراتؓ اور اہل بیت اطہارؓ کی توہین کی جسارت، انٹرنیٹ، الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا پر کھلے عام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ’’گربہ کشتن روزِ اول‘‘ کے مصداق اگر اول روز سے ان کا ناطقہ بند کردیا جاتا تو آج یہ نوبت نہ آتی کہ ہماری عدالتوں میں بیٹھے جج‘ ہمارے وزیر اعظم اور ہمارے وزیر داخلہ صاحبانِ عزیمت جیسے لوگوں کی آنکھوں میں آنسو اُمڈتے ہوئے نظر نہ آتے۔ محترمہ بے نظیربھٹو کی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں دو موذی عیسائیوں نے آنحضرت a کی شانِ اقدس میں ناروا جسارت کی، ان پر مقدمہ بنا، عدالت سے سزا ہوئی، لیکن ہماری اشرافیہ اور مقتدر قوتوں نے مل کر راتوں رات خصوصی طیارے پر سوار کراکر بیرونِ ملک ان کے آقاؤں اور سرپرستوں کے پاس انہیں روانہ کردیا۔ اس سے گستاخان کو شہ ملی۔ پھر کیا تھا کہ آئے مہینے ملک کے کسی نہ کسی کونے سے تواتر سے ایسی خبریں آنے لگیں کہ فلاں جگہ، فلاں بدبخت گستاخ نے قرآن کریم، حضور a یا ازواج مطہراتؓ کی گستاخی کی جسارت کی ہے۔ قادیانی بھی ان حالات میں پیچھے نہیں رہے، انہوں نے بھی ان حالات سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے کئی جگہوں پر فرقہ واریت پر مشتمل پمفلٹ پھیلانے، مسالک کو آپس میں لڑانے اور پس پردہ رہ کر عیسائی، مسلم تنازع اور فساد برپا کرائے۔ بدفطرت اور بدمذہب مردوں کے ساتھ ساتھ بدبخت اور بدقسمت عورتوں کو بھی جرأت ہونے لگی۔ ملعونہ آسیہ نے اسی لیے ازواجِ مطہراتؓ پر زبان درازی کی۔ جس نے علاقہ پنچائیت سے لے کر اعلیٰ عدالتوں تک اقرارِ جرم کیا۔ اقرارِ جرم کے باوجود اس کو بچانے کے لیے اشرافیہ اور وقت کا گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے پاکستان کے آئین میں تحفظِ ناموسِ رسالت پر مشتمل قانون کو کالا قانون کہا۔ جس کو گورنمنٹ کے ادارے کے ایک فرد ممتاز قادری نے گولیوں سے بھون ڈالا۔ اسی پاداش میں ممتاز قادری کو تختۂ دار پر چڑھادیا گیا۔ وہ تو شہادت کے مرتبہ پر فائز کردیئے گئے۔ لیکن ملعونہ آسیہ کو ابھی تک تختۂ دار پر نہیں لٹکایا گیا۔ اس سے کیا سمجھا جائے کہ حکمران اپنی مسلم عوام کے خیرخواہ ہیں یا مغربی آقاؤں کے طرف دار؟ اسی لیے سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ میاں اللہ نواز نے اپنے ایک انٹرویومیں کہا کہ:  ’’ہمارا عدالتی نظام روحِ محمد سے عاری اور ہمارے قوانین انگریز کی غلامی کے نظام پر مبنی ہیں۔‘‘                                           (روزنامہ امت، کراچی، ۱۱؍ مارچ ۲۰۱۷ء ) اگست ۲۰۱۲ء میں اس وقت کے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی حکومت نے پالیسی ہدایت نامہ جاری کیا کہ: پاکستان میں انٹرنیٹ سے توہین آمیز اور فحش مواد بلاک کیا جائے اور کہا گیا کہ ملک میں انٹرنیٹ پر کھلے عام توہین آمیز اور فحش مواد کی موجودگی‘ اسلام کی بنیادی تعلیمات، قراردادِ مقاصد اور آئین کے آرٹیکل ۱۹ اور ۳۱ کی خلاف ورزی ہے۔ اس کے علاوہ انٹرنیٹ پر توہین آمیز اور فحش مواد کی موجودگی کی بناپر اعلیٰ عدالتوں میں کئی درخواستیں بھی دائر کی گئیں۔ اور اب پاکستان کی قومی اسمبلی سے سائبر کرائم کی روک تھام کے لیے بل منظور ہوچکا ہے، جس کے مطابق پی ٹی اے (پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی) اسلامی اقدار، قومی تشخص، ملکی سیکورٹی اور دفاع کے خلاف مواد بند کرنے کی پابند ہوگی اور اس کے تحت تین ماہ سے ۱۴ سال تک قید اور پچاس ہزار روپے سے لے کر پانچ کروڑ روپے تک جرمانے کی سزا بھی مقرر کی گئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود معتبر ذرائع کے مطابق’’بھینسا‘‘ اور ’’آنٹی ‘‘نامی پیجز ۲۰۱۴ء سے چل رہے تھے اور اس کی شکایت بھی ایک قومی ادارے نے کی تھی، لیکن اسے اس وقت بند نہ کیا گیا اور نہ ہی کوئی کھوج لگانے کی کوشش کی گئی کہ اس کے پس پردہ کون لوگ ہیں جو ہمارے ملک میں اس گھناؤنے اور مذموم فعل کے مرتکب ہورہے ہیں؟ اس کے برعکس وزیر اعظم میاں نواز شریف صاحب اور چیف جسٹس صاحب کی جعلی تصویر پوسٹ کرنے والے کا علم صرف چار دن میں لگالیا گیا۔ آخر کیا کہا جائے کہ ہمارے ادارے جان بوجھ کر ایسے مجرمین کو بچارہے تھے یا وہ ان کے آقاؤں کے خوف سے ان پر ہاتھ نہیں ڈال رہے تھے؟  اللہ تبارک وتعالیٰ جزائے خیر دے جناب سلمان شاہد ایڈووکیٹ کو کہ جن کی جانب سے سپریم کورٹ کے سینئر وکیل جناب طارق اسد ایڈووکیٹ نے ۲۷؍ فروری ۲۰۱۷ء کو گستاخانہ پیچز بلاک کرانے اور اس کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کے لیے درخواست دی تھی اور ان پیجز کا کچھ غلیظ مواد بھی پیش کیا تھا۔ معزز عدالت کے جج‘ محترم جناب جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب نے اسی دن ان پیجز کو بلاک کرنے، ان کی مستقل بندش اور اس کے ذمہ داران کے خلاف متعلقہ اداروں کو کارروائی کا حکم دیا۔ اس کیس کی سماعت کے وقت جناب جسٹس صاحب نے جو دلآویز اور ایمان سے لبریز ریمارکس دیئے، وہ ہماری اسلامی اور عدالتی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں، جناب جسٹس صاحب نے فرمایا: ’’جس دن سے یہ پٹیشن میرے سامنے آئی ہے، خدا کی قسم! نہیں سویا۔ کوئی میرے نبی a کی نعوذ باللہ! توہین کرے تو میں اُسے کیسے برداشت کرلوں؟ آئین وقانون پر عملدرآمد نہ کرکے ہم خود ممتاز قادری کو جنم دیتے ہیں۔ ایف آئی اے والو! پی ٹی اے والو! وزارتِ آئی ٹی والو! وزارتِ داخلہ والو! فوج والو! بتاؤ! آقا a سے کس طرح شفاعت مانگوگے؟ اتنی گستاخی کے بعد ہم ابھی تک زندہ کیوں ہیں؟ یہ ہمارے ایمان کا مسئلہ ہے۔ اللہ کو گواہ بناکر کہتا ہوں: اگر اپنے آقا a، ازواج مطہراتؓ، اصحاب رسول ؓ، اور قرآن کریم کی عزت وحرمت کے تحفظ کے لیے مجھے اپنے عہدے کی بھی قربانی دینا پڑی تو دے دوں گا، مگر اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچاؤں گا۔ اس کیس کا مدعی کوئی ایک شخص نہیں، پورا پاکستان اس کیس کا مدعی ہے۔ اگر آقاa کی عزت وناموس کے تحفظ کے لیے سوشل میڈیا بھی بند کرنا پڑا تو اللہ کی قسم! حکم جاری کردوں گا۔ ویلنٹائن ڈے منانے والوں کو آقا a کی یہ گستاخی کیوں نظر نہیں آرہی؟ گستاخِ رسول مباح الدم ہے۔ جب کوئی گستاخ مارا جائے تو پھر کچھ لوگ موم بتیاں لے کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ہم خود قوم کو لاقانونیت کی طرف آنے کی دعوت دیتے ہیں۔ اگر یہ مواد عوام تک چلا گیا تو وہ حشر کریں گے کہ جس کا ہم تصور نہیں کرسکتے۔ اگر پی ٹی اے سوشل میڈیا میں گستاخانہ مواد کو روک نہیں سکتا تو پی ٹی اے کو ہی ختم کردیا جائے۔ یہ عدالت سوشل میڈیا میں کائنات کی مقدس ترین شخصیات کی گستاخی کے خلاف آپریشن ردُ الشیطان شروع کررہی ہے، جنہوںنے گستاخی کی اور جو لوگ اس کا تماشا دیکھتے رہے، ان سب کے خلاف کارروائی ہوگی۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے درخواست گزار سلمان شاہد ایڈووکیٹ کے وکیل طارق اسد ایڈووکیٹ کو مخاطب کرتے ہوئے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ : ’’طارق اسد صاحب! میں آپ کے توسط سے علماء سے اپیل کرتا ہوں کہ خدا کے واسطے اپنے مسلکی اور فروعی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر آقا a کی عزت وحرمت کے تحفظ کے لیے متحد ہوجائیں۔ یہ مسئلہ ہم سب کا مشترکہ مسئلہ ہے، اللہ اور اس کے رسول a کی ناموس کی حفاظت سے زیادہ دین کی اور کوئی خدمت نہیں ہوسکتی۔‘‘                (روزنامہ اسلام کراچی، بروز ہفتہ، ۱۱مارچ،۲۰۱۷ء )  جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیتے ہوئے مزید کہا کہ: ’’ میڈیا میں کچھ دانشور چاہتے ہیں کہ کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے ان کی مرضی پوچھی جائے، انہیں اس پر بھی اعتراض ہے کہ فیصلہ لکھواتے ہوئے جج صاحب کے آنسو کیوں نکلتے ہیں؟ یہ مسئلہ صرف میرا نہیں ہے، پوری امت کا ہے، امتی اپنے لیے آقاa کا غلام ہونے سے زیادہ کوئی لفظ استعمال نہیں کرتا، کچھ لوگ اس معاملے کو مختلف زاویئے سے دیکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ رب العالمین ایسے لوگوں کو ہدایت دے۔ خبر بیچنے کے لیے حضورa کی ناموس بیچنے کی اجازت کسی صورت نہیں دی جائے گی۔ میڈیا کے تمام لوگ ہمارے لیے قابل احترام ہیں، وہ سب پڑھے لکھے ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ کچھ ہوش میں ہوتے ہیںاور کچھ ہوش میں نہیں ہوتے۔ لوگوں کو اس بات پر کنفیوژ کیا جارہا ہے کہ آزادیِ اظہارِ رائے کی بنیاد پر سب کچھ کیا جاسکتا ہے۔ وفاقی وزارتِ اطلاعات سے گزارش ہے کہ پرنٹ والیکٹرونک میڈیا میں بتایا جائے کہ آرٹیکل ۱۹ کیا ہے؟ اظہارِ رائے کی آزادی پر کیا قدغنیں ہیں؟ اور ان کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے کیا سزا ہے؟ میڈیا میں بیٹھنے والے سارے اسکالر مل کر بھی آئین میں ترمیم کرنا چاہیں تو نہیں کرسکتے۔ آئین وقانون کی تشریح کا حق صرف عدلیہ کو ہے اور ترمیم کا حق پارلیمان کو ہے۔ اگر کسی کو آئین میں اسلامی شقوں کی موجودگی پر بہت اعتراض ہے تو وہ اپنی مہم چلائیں اور آئین میں ترامیم لائیں اور لوگوں کو باہر نکل کر اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کریں کہ پاکستان کا نام ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ نہیں ہونا چاہیے، پھر جو لوگ کہیں گے، وہ بھی دیکھ لیں گے۔ آئین جس چیز کا پابند کرتا ہے، اس کے خلاف کام کرنا آئین شکنی ہے۔ ہمارے میڈیا کے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وزیراعظم، آرمی چیف، چیف جسٹس اور تمام ادارے کوئی بھی کام کرنے سے پہلے ان دانشوروں سے پوچھیں۔ اگر انہوں نے مجھے مسجد کا خطیب کہا، مولوی کہا، تو یہ میرے لیے اعزاز ہے ، وہ اگر مجھے مسجد کا خادم بھی کہہ دیں، یہ بھی میرے لیے اعزاز ہے۔‘‘                              (روزنامہ اُمت کراچی، بروز منگل، ۱۴مارچ،۲۰۱۷ء ) راقم الحروف کے نزدیک محترم جناب جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب کے یہ ریمارکس ملک کے تمام ذمہ داران، علمائے کرام اور میڈیا کے مالکان کے لیے اتنا واضح اور غیر مبہم ہیں کہ اس پر مزید کچھ لکھنے کی ضرورت ہی نہیں، اسی لیے قومی اسمبلی، سینیٹ اور پنجاب اسمبلی کے ممبران نے جسٹس صاحب کو خراجِ عقیدت پیش کیا اور ہر فلور پر ان گستاخان کے خلاف کارروائی کرنے کی متفقہ قراردادیں پاس ہوئیں۔  قومی اسمبلی میںمنگل کو مسلم لیگ (ن) کے رکن کیپٹن (ر) صفدر نے توہین رسالت کے خلاف قرارداد پیش کرنے کے لیے نجی کارروائی کے روز قواعد معطل کرنے کی تحریک پیش کی۔ تحریک منظور ہونے پر کیپٹن صفدر اور جمعیت علمائے اسلام کی رکن قومی اسمبلی محترمہ نعیمہ کشور صاحبہ نے قرار داد پیش کی، جسے ایوان نے متفقہ طور پر منظور کرلیا۔ قرارداد کے متن میں کہا گیا کہ: ایوان سوشل میڈیا پر توہین رسالت کی پرزور مذمت کرتا ہے۔ مسلمانانِ پاکستان کے جذبات، احساسات، دین اور پیغمبر اسلام کے خلاف توہین آمیز اقدامات فی الفور روکنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ بعد ازاں ارکان کے مطالبے پر ڈپٹی اسپیکر نے اس ایشو پر ایوان کی خصوصی کمیٹی بنانے کے لیے ایوان کی رائے لی۔ تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے خصوصی کمیٹی کے قیام پر اتفاقِ رائے کیا، جس کے بعد (ن) لیگ کے میاں عبدالمنان صاحب نے خصوصی کمیٹی کے قیام کے لیے تحریک پیش کی، جسے ایوان نے کثرتِ رائے سے منظور کرلیا۔                                                (روزنامہ اسلام کراچی، بروز بدھ، ۱۵مارچ،۲۰۱۷ء ) اسی طرح سینیٹ نے بھی قرارداد کی اتفاقِ رائے سے منظوری دے دی۔ جمعہ کو سینیٹر کامل علی آغا نے تحریک پیش کی کہ قابل اعتراض مواد کی مذمت کے لیے قرارداد پیش کرنے کی اجازت دی جائے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کلمہ طیبہ کی بنیاد پر قائم ہوا۔ تمام انبیاء Bاور بالخصوص امام الانبیاء حضرت محمدa، صحابہ کرامs، اہل بیت عظامs، کے ناموس کے تحفظ کی ذمہ داری پاکستان پر عائد ہوتی ہے۔ حالیہ دنوں میں ناموسِ رسالت اور صحابہ کرام s کے حوالے سے توہین آمیزمواد کے ذریعہ بعض عناصر مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اسلام کسی بھی مقدس ہستی کی توہین کی اجازت نہیں دیتا۔ متعلقہ محکمہ ۲۹۵سی کے تحت ایسے عناصر اور ان کے سہولت کاروں کو نشانِ عبرت بنائے اور سوشل میڈیا سمیت تمام ایسے ذرائع کی سخت مانیٹرنگ کی جائے۔ قرارداد کے متن میں مزید کہا گیا کہ سوشل میڈیا پر نبی کریمa اور امہات المؤمنینu کے بارے میں انتہائی نازیبا الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ مخصوص ذہن کے لوگ پاکستان کی اساس پر حملہ آور ہیں۔ ریاست کے خلاف سازش کی جارہی ہے۔ ارکان کا کہنا تھا کہ جب ادارے ذمہ داریاں پوری نہ کریں تو لوگ قانون ہاتھ میں لیتے ہیں۔ ہر معاملہ عدالت میں ہی جانا ہے تو حکومت کیا کررہی ہے۔ ایوان نے یہ قرارداد اتفاقِ رائے سے منظور کرلی۔ ڈپٹی چیئرمین مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ سوشل میڈیا پر توہین اسلام اور ازواجِ مطہرات u کے خلاف جو طوفانِ بدتمیزی برپا ہے ذمہ دار اداروں کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی ، اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو ملک کے حالات خانہ جنگی کی جانب جائیں گے۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر نہال ہاشمی نے کہا کہ توہین مذہب کو ملک میں نام نہاد طبقہ سپورٹ کررہا ہے۔ سول سوسائٹی اور موم بتی گروپ اس طرح کے اقدامات کو سپورٹ کرتے ہیں۔ جہاں فوجی عدالتوں میں توسیع ہورہی ہے، وہاں! ایسے طبقے کے خلاف بھی اقدام اٹھانا چاہئیں۔‘‘        (روزنامہ اسلام کراچی، بروز ہفتہ، مارچ،۲۰۱۷ء ) اسی طرح پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں توہین رسالت کے خلاف قرارداد مسلم لیگ (ق) کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر سردار وقاص حسن موکل، عامر سلطان چیمہ، ڈاکٹر محمد افضل اور خدیجہ عمر فاروقی نے پیش کی، جس کے متن میں کہا گیا ہے کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو ’’لا إلٰہ إلا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ‘‘ کی بنیاد پر قائم ہوا ہے۔ پاکستان کا آئین وقانون تمام انبیاء کرام B بالخصوص امام الانبیاء خاتم النبیین والمرسلین حضرت محمد مصطفی a، صحابہ کرامs، اہل بیت عظامs، تمام مقدس شخصیات w، شعائر اسلام کے تحفظ کی ذمہ داری لیتا ہے۔ قرارداد پیش ہونے پر تمام جماعتوں کے ارکان نے اس کی تائید کی اور قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی گئی۔ قرار داد پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے کہا کہ: ہمارا ایمان مکمل نہیں ہوتا جب تک ہم اپنے عزیز ترین رشتوں سے زیادہ آپ a کی ناموس کو عزیز نہیں سمجھتے۔ انہوں نے کہا کہ کسی ایسی ہستی کے بارے میں اس قسم کی گفتگو کرنا کہ جس سے اربوں لوگوں کے دل دکھیں اور فتنہ پیدا ہو تو اس کی سزا کم از کم ’’موت‘‘ ہے۔‘‘ (روزنامہ اسلام کراچی، بروز بدھ، ۱۵مارچ،۲۰۱۷ء ) اس موقع پر جمعیت علمائے اسلام کے امیر حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب نے پشاور کلب میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: افسوس! اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس طرح کے گستاخانہ پیجز چلائے جارہے ہیں، ان کے ذمے دار دراصل کفار کے ایجنڈے پر کام کررہے ہیں۔ جسٹس شوکت عزیز نے امت مسلمہ کی ترجمانی کی ہے۔ حکومت سوشل میڈیا سے گستاخانہ مواد فوری ہٹاکر غیرتِ ایمانی کا ثبوت دے۔ انہوں نے کہا کہ علماء اور جمعیت کے کارکن ناموسِ رسالت کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔‘‘                  (روزنامہ ایکسپریس کراچی، بروز بدھ، ۱۵مارچ،۲۰۱۷ء ) اسی طرح وفاقی وزیرداخلہ جناب چوہدری نثار صاحب نے جمعرات کو نادرا سہولت فراہمی سینٹر کے افتتاح کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ توہین کا سلسلہ ۲۰۱۴ء سے جاری ہے، مگر چند ماہ میں اس میں تیزی آئی ہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ یہ آزادیِ اظہار ہے یا ہماری مقدس ہستیوں کے خلاف گھٹیا ترین حرکت ہے۔ کوئی مسلمان مقدس ہستیوں کی گستاخی پر مبنی صفحات کو دیکھ ہی نہیں سکتا۔ آزادیِ اظہار رائے کے نام پر مقدس ترین شخصیات کی توہین کی سازش قبول نہیں۔ ناموسِ رسالت ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ دنیا کے مسلمانوں کو متحد ہونا ہوگا اور جب سب مسلمان اکٹھے ہوکر بولیں گے تو اس میںملوث افراد کو طاقتور پیغام جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یورپ میں ہولوکاسٹ سے متعلق شک کا اظہار کرنا بھی جرم ہے۔ ایسا کرنے والوں کو امریکا اور برطانیہ ویزا بھی جاری نہیں کرتا۔ مسلم ممالک توہین آمیز مواد کے معاملے میں ہمارا ساتھ دیں۔ وزیرداخلہ نے کہا: فیس بک اور سوشل میڈیا پر بہت سارے بلاگز بلاک کردیئے گئے ہیں اور گستاخانہ مواد والی پوسٹیں بھی بند کردی گئی ہیں، جبکہ پی ٹی اے کے ذریعے سروس پرووائیڈرز کو سختی سے ہدایات کی ہیں کہ کسی بے گناہ پر کوئی الزام نہ لگے۔‘‘       (روزنامہ ایکسپریس کراچی، بروز جمعہ، ۱۷مارچ،۲۰۱۷ء ) وفاقی وزیر داخلہ محترم جناب چوہدری نثار صاحب نے تمام اسلامی ممالک کے سفراء کرام کی ایک کانفرنس بلائی اور تمام نے اس بات پر اتفاق کیا کہ اپنے اپنے ممالک کی حکومتوں سے کہا جائے گا کہ وہ اپنے ممالک میں سوشل میڈیا کے ایسے تمام بلاگز کو بند کریں اور ایسے پیجز چلانے والوں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کریں اور تمام اسلامی ممالک ایک متفقہ ضابطہ بناکر اُسے اقوام متحدہ میں لے جائیں گے اور اُس سے یہ منظور کروایا جائے گا کہ تمام مقدس ترین شخصیات اور خصوصاً شعائر اسلام کی توہین کرنے والوں کے خلاف قانون بنایا جائے اور اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو عبرت ناک سزائیں دی جائیں۔ علمائے کرام سے گزارش ہے کہ تمام ذرائع ابلاغ بالخصوص انٹرنیٹ یا سوشل میڈیا پر جولوگ مذہب، پگڑی، ڈاڑھی، دوپٹہ، حجاب یا اسلام کے کسی عمل کا استہزاء یا استخفاف کرتے ہیں، ان کو منہ توڑ جواب دینے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی ذہن سازی کریں کہ اسلام کے احکام، حضور اکرم a کی تعلیمات تمام کی تمام ہماری خیرخواہی، ہماری بھلائی اور فطرتِ انسانی کے عین مطابق ہیں۔ جن لوگوں کو ان کی افادیت سمجھ نہیں آتی، ان کی اپنی عقل کا قصور یا ان کی سوچ کا فتور ہے، باقی کچھ نہیں۔ اسی طرح ہر مسلک اور ہر مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام سے درخواست ہے کہ اپنے اپنے محلہ اور گلی کی ہرہر مسجد کی سطح پر اپنے اتحاد واتفاق کی فضا بنائیں اور عوام الناس کو باور کرائیں کہ ہم سب کی نجات دین اسلام کے ماننے اور اس پر عمل کرنے میں ہے۔اور اگر ہم سب مل کر اپنے آقائے نامدارa، آپ a کی ازواجِ مطہراتؓ، صحابہ کرامؓ، اہل بیت عظامؓ، اسلامی شعائر اور اپنی دینی اقدار وتہذیب کی حفاظت نہ کرسکے تو اس جینے سے مرجانا بہتر ہے۔ خدانخواستہ اگر ہم ان مقدس ترین شخصیات کی ناموس اور عزت وحرمت کی نگہبانی نہ کرسکے تو پھر گلی کا کتا ہم سے بہتر ہوگا۔  وصلی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین