بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

عہد رسالت میں صحابہ کرام کی فقہی تربیت (ساتویں قسط)

 

عہد ِ رسالت میں صحابہ کرام s کی فقہی تربیت اور عہد ِ تابعینؒ میں اُس کے نتائج و ثمرات(ساتویں قسط)

امام ابوحنیفہ v کا ائمۂ فن سے حدیث و آثار کا سماع امام ابوحنیفہ v نے حدیث و آثار کا سماع ائمۂ فن سے کیا ہے اوراس کے لیے سفر کیے، چنانچہ مورخ شمس الدین الذہبی v فرماتے ہیں : ’’عنی بطلب الٓاثار وارتحل فی ذلک ۔‘‘(۱) ’’موصوف نے حدیث و آثار کی طلب و جستجو میں توجہ کی اور اس کے لیے سفر کیے۔‘‘ ائمہ حدیث سے روایت … وسیلۂ تقرب ائمہ حدیث کی سندیں عالی ہوتی ہیں، ان سے روایت کرنا رسول اللہ a سے تقرب حاصل کرنا ہے اور رسول اللہ a سے تقرب اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ ہے، حاکم نیشاپوریv امام اعمشv کی سند سے حسب ذیل حدیث نقل کرتے ہیں: ’’ حدثنا أبو العباس محمد بن یعقوب حدثنا الحسن بن علی بن عفّان العامری ثنا عبداللّٰہ بن نمیر عن الأعمش عن عبداللّٰہ بن مرّۃ عن مسروق عن عبداللّٰہ بن عمرو قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أربع من کن فیہ کان منافقًا خالصًا ومن کانت فیہ خصلۃ منہن کان فیہ خصلۃ من النفاق حتٰی یدعہا، إذاحدث کذب، و إذاعاہد غدر، و إذا وعد أخلف و إذاخاصم فجر۔‘‘(۲) ’’ابو العباس محمد بن یعقوب نے بیان کیا (ان سے) حسن بن علی بن عفّان عامری نے بیان کیا (ان سے) عبداللہ بن نمیر نے بیان کیا (ان سے) اعمش نے اور اعمش نے عبداللہ بن مرہ سے (اس نے) مسروق سے اس نے عبداللہ بن عمرو سے بیان کیا کہ رسالت مآب a نے فرمایا کہ: چار عادتیں جس میں پائی جائیں وہ خالص منافق ہے اور جس میں ان میں سے کوئی ایک خصلت پائی جائے اس میں نفاق کی ایک عادت پائی گئی، یہاں تک کہ وہ اس کو چھوڑ دے، جب کوئی بات بیان کرے جھوٹ بولے اور جب کوئی معاہدہ کرے اس کا پاس نہ رکھے، جب وعدہ کرے اس کے خلاف کرے، جب جھگڑا کرے تو گالی بکے۔ ’’ حاکم vنے اعمش vکی اس روایت کو نقل کرنے کے بعد حسب ذیل اصول بیان کیا ہے: ’’فإنّ الغرض فیہ القرب من سلیمان بن مہران الأعمش فإن الحدیث لہ وھو إمام من ائمۃ الحدیث و کذلک کل إسناد یقرب من الإمام المذکور فیہ، فإنہ إذاصحّحہ الروایۃ إلٰی ذالک الإمام بالعد د الیسیر فإنہ عال۔‘‘(۳) ’’مذکورئہ بالا حدیث میں مقصد سلیمان بن مہران اعمش سے قرب ظاہر کرنا ہے بلاشبہ یہ ان کی سند سے مروی ہے اور وہ ائمہ حدیث میں سے ایک امام ہے، اور اسی طرح ہر وہ سند جس میں امام موصوف سے قرب میسر ہو، پس اگر اس روایت کی صحت اس امام کی طرف معدو دے چند راویوں سے ہو تو وہ سند عالی ہے۔ ‘‘ اس اصول کی روشنی میں یہ کہنا بجا ہے کہ امام ابوحنیفہ v امام فن بھی ہیں اور مقبول امام مجتہد ہیں، ان کی سندیں عالی بھی ہیں اور تقرب الٰہی کا ذریعہ بھی ہیں۔ امام ابوحنیفہv کی ائمہ حدیث سے راست روایتیں علی بن المدینی v المتوفی ۲۳۴ھ کا بیان ہے کہ :میں نے (صحیح حدیثوں کی) سندیں دیکھیں تو وہ چھ ائمہ حدیث ہیں۔ (۴) ۱:… اہل مدینہ میں محمد بن مسلم بن شہاب الزہریv(۵۸-۱۲۴ھ/۶۷۸-۷۴۲ئ) ۲:…اہل مکہ میں عمروبن دینار المکیv (۴۶-۱۲۶/۶۶۶-۷۴۳ئ) ۳:…اہل بصرہ میں قتادہ بن دعامہ البصری v (۶۱-۱۱۸/۶۸۰-۷۳۶ئ) ۴:…اہل یمن میں یحییٰ بن ابی کثیر الیمانی v(۰۰-۱۲۹/۰۰۰-۷۴۷ئ) ۵:…اہل کوفہ میں ابواسحاق السبیعی الہمدانی الکوفی v(۳۳-۱۲۷/ ۶۵۳-۷۴۵ئ) ۶:…سلیمان بن مہران اعمش کوفی v(۶۱-۱۴۸/۶۸۱-۷۶۵ئ) ان مذکورہ بالا ائمہ حدیث کی اسانید سے بکثرت روایتیں صحاح ستہ میں منقول ہیں۔ امام ابوحنیفہ v یحییٰ بن ابی کثیر الیمانی کے علاوہ تمام مذکورہ بالا ائمہ فن سے راست روایت کرتے ہیں، چنانچہ مورخ اسلام شمس الدین الذہبی v المتوفی ۷۴۸ھ نے سیراعلام النبلاء میں امام ابوحنیفہ v کے تذکرے (۵)میں عمروبن دینار، قتادہ، ابواسحاق السّبیعی، محمد بن مسلم بن شہاب زہری کے ناموں کی تصریح کی ہے اور حضرت اعمش کوفی v کے تذکرے (۶) میں موصوف سے روایت کا ذکرکیا ہے۔ امام ابوحنیفہ v طبقہ ٔ رابعہ کے نامور حفاّظ حدیث میں علامہ شمس الدین الذہبی vجن کے متعلق حافظ ابن حجر v نے لکھا ہے کہ: ذہبیؒ فن رجال میں اربابِ استقرائے کامل میں سے ہیں۔(۷) موصوف نے ’’کتاب المعین فی طبقات المحدثین‘‘ کے طبقہ ٔ چہارم کے نامور محدثین میں امام ابوحنیفہ v کا تذکرہ کیا ہے، جن کی علمی و تدریسی خدمات کا چرچا مشرق و مغرب ہر طرف پھیلا ہوا ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ائمہ فن نے امام ابوحنیفہ v کا شمار ان نامور حفاظ حدیث میں کیا ہے جن کی علمی و تدریسی خدمات کا اسلامی قلمرو کے مشرق ومغرب میں چرچا رہا ہے۔ چنانچہ مذکورہ بالا کتاب کے مقدمے میں رقم طراز ہیں کہ : ’’یہ مقدمہ احادیث و آثار نبویہ بیان کرنے والے نامور محدثین کرام کے ناموں کے بیان میں ہے، تاکہ دانشمند طلبہ کو بصیرت حاصل ہو اور صاحب افادہ محدث کو وہ باتیں یاد دلاتا ہے جن سے جاہل رہنا طلبہ کے لیے معیوب ہوتا ہے۔یہ بڑے محدثین کے کامل ترین تذکرہ کی کتاب نہیں ہے، بلکہ ان محدثین کی نشاندہی کا مرقعہ ہے جن کا ذکر اطراف عالم میں ہر زمانہ میں ہر جگہ پھیلا ہوا ہے۔ ‘‘(۸) علامہ ذہبی vنے کتاب المعین کی ترتیب یہ رکھی ہے: پہلا طبقہ صحابہ s کا ہے، پھر اکابر تابعین ؒکا ہے، پھر ائمہ تابعینؒ حسن بصریؒ، مجاہدؒ، پھر تابعین کا تیسرا طبقہ زہریؒ وقتادہؒ کا ہے، چوتھا طبقہ امام اعمش vاور امام ابوحنیفہ v کا قائم کیا ہے۔ اس سے مورخ اسلام علامہ ذہبی v کی نظر میں مشاہیر محدثین میں امام ابوحنیفہ v کا وہی مقام ہے جو شیخ الاسلام حضرت اعمش v کا ہے۔ امام ابوحنیفہ v کا فقہائے امصار سے استفادہ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ائمہ اربعہ میں امام ابوحنیفہ v کو یہ فخر حاصل ہے کہ انہوں نے اس زمانے کی اسلامی دنیا اور اس کے علمی مرکز کے بہت سے فقیہانِ امصار سے استفادہ کیا، لیکن یہاں پرچند فقہائے امصار کے تذکرے پر اکتفا کیا جاتاہے۔ ۱:…مفتی ٔ مکہ عطا بن ابی رباح v(۲۷-۱۱۴ھ/ ۶۴۷-۷۲۲ئ) یہ عبداللہ بن عباس q کے نامور شاگرد اور امام ابوحنیفہ v کے سب سے بڑے استاد ہیں۔ (۹) ان کے متعلق امام احمد بن حنبل v کا قول ہے:عہد تابعین میں حضرت عطا ؒاور حسن بصریؒ سے زیادہ فتوے دینے والا کوئی نہ تھا، اور مزید یہ کہ حرم مکہ کے مفتی حضرت عطاvتھے، اور بصرہ میں مفتی حضرت حسن بصری v تھے۔ (۱۰) ۲:…مکحول شامی (۰۰۰۔۱۱۲ھ/ ۰۰۰۔۷۳۰ئ) مکحول vکا قول ہے :’’طفت الأرض کلہا فی طلب العلم ‘‘۔’’میں نے علم کی طلب و جستجو میں اسلامی قلمرو کے اکثر شہروں کا سفر کیا۔‘‘ امام زہری vکا قول ہے:’’العلماء أربعۃ سعید بن المسیبؒ بالمدینۃ والشعبیؒ بالکوفۃ والحسنؒ بالبصرۃ ومکحولؒ فی الشام ۔‘‘(۱۱) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’علما چار ہیں، مدینہ میں سعید بن المسیبؒ، کوفہ میں شعبیؒ، بصرہ میں حسنؒ اور شام میں مکحولؒ۔‘‘ سعید بن عبدالعزیز v المتوفی ۱۶۷ھ فرماتے تھے :’’مکحول أفقہ أہل الشام۔‘‘(۱۲) ۔۔۔۔۔۔۔۔’’مکحولؒ اہل شام میں سب سے زیادہ فقیہ تھے۔ ‘‘ ۳:…یزید بن حبیب مصری (۵۳-۱۳۵ھ/ ۶۷۲-۷۴۵ئ)     مورخِ مصر ابوسعید بن یونس v کا بیان ہے:’’موصوف اپنے زمانے میں مصریوں کے مفتی تھے اور یہ پہلے عالم ہیں جنہوں نے سرزمین مصر میں حدیث کو پھیلایا اور حلال و حرام میں بحث کی، مسائل بیان کیے، چنانچہ کہا جاتا ہے کہ اہل مصر کا اس سے پہلے موضوعِ سخن فتن، جنگ و جہاد کی داستانیں اور خیر کے کاموں میں شوق و رغبت تھا۔‘‘(۱۳) ۴:…عامر بن شرحبیل الشعبی v(۱۹-۱۰۳ھ/ ۶۴۰-۷۲۱ئ)     یہ امام ابوحنیفہ v کے بڑے شیوخ میں سے ہیں۔(۱۴)  شعبیv کا بیان ہے: ’’أدرکت خمس مائۃ من أصحاب النبی a ۔‘‘ (۱۵)’’میں نے پانچ سو صحابۂ کرام s کو پایا اور ان سے ملاقات کی ہے۔‘‘     مکحول vکا قول ہے:’’مارأیت أحدًا أعلم من الشعبی۔‘‘(۱۶)۔۔۔۔۔ ’’میں نے شعبیv  سے بڑھ کر عالم نہیں دیکھا۔‘‘     ابو مجلز vکا قول ہے: ’’مارأیت أفقہ من الشعبیؒ لاسعید بن المسیبؒ ولاطاؤسؒ ولا عطائؒ ولا الحسنؒ ولا ابن سیرینؒ فقدرأیت کلہم۔‘‘ (۱۷) ۔۔۔۔۔۔ ’’میں نے شعبیؒ سے بڑھ کر فقیہ نہیں دیکھا۔ نہ سعید بن مسیبؒ اور نہ طائوسؒ اور نہ حسنؒ اور نہ ابن سیرین کوفیؒ، ان کا ہمسر نہ تھا، میں نے ان سب کو دیکھا ہے۔‘‘ لوگوں میں تین علماتھے: ۱:…حضرت ابن عباس qاپنے زمانے میں، ۲:…شعبی v اپنے زمانے میں، ۳:…سفیان ثوری vاپنے زمانے میں۔(۱۸)     ابن ابی لیلیٰ vکا قول ہے: ’’شعبیؒ کے پاس آثار کا علم تھا اور ابراہیمؒ کے پاس قیاس تھا۔‘‘ (۱۹)     ابن سیرین vکا قول ہے: ’’قدمت الکوفۃ و للشعبیؒ حلقۃ عظمۃ والصحابۃؓ کثیر۔‘‘ (۲۰) ’’میں کوفے گیا تو شعبیv کا حلقۂ درس بہت بڑا تھا۔ اس میں صحابہ s کی ایک کثیر تعداد بیٹھی ہوئی ہوتی تھی۔‘‘ ۵:…ابوعبدالرحمن طائوس بن کیسان v(۳۳-۱۰۶ھ/۶۵۳-۷۲۴ئ)     موصوف نے صحابہ s سے حدیثیں سنی تھیں، مورخ ذہبی v لکھتے ہیں:’’سمع من زید بن ثابتؓ، و عائشۃ ؓ، وأبی ہریرۃؓ، و زید بن أرقمؓ، وابن عباسؓ لازم ابن عباسؓ مدۃً وہو معدود فی کبراء أصحابہ۔‘‘(۲۱) ۔۔۔۔۔۔۔۔’’موصوف نے زید بن ثابتؓ، عائشہؓ ، ابوہریرہؓ ، زید بن ارقمؓ اور ابن عباس s سے حدیثوں کا سماع کیا تھا۔ ابن عباس q کی صحبت میں ایک مدت تک رہے ہیں، موصوف کا شمار ابن عباس q کے کبار تلامذہ میں کیا جاتا ہے۔‘‘طائوس v کا اپنا بیان ہے کہ :’’ میں نے پچاس صحابہ کرام s سے ملاقات کی ہے۔‘‘ (۲۲)     حبیب بن ثابت vکا بیان ہے کہ :’’میرے پاس پانچ ایسی شخصیات یکجا ہوئی ہیں کہ ان جیسی شخصیات کسی کے پاس جمع نہیں تھیں: ۱:…عطاؒ، ۲:…طاؤسؒ، ۳:…مجاہدؒ، ۴:…سعیدبن جبیرؒ، ۵:…عکرمہؒ۔‘‘ (۲۳)     مذکورہ بالا پانچ میں سے حضرت عطاؒ اور حضرت طاؤسؒ سے راست استفادے کا فخر امام ابوحنیفہ v کو حاصل تھا۔ مورخ ذہبی v کا بیان ہے: ’’ طاؤس کان شیخ أہل الیمن و برکتہم ومفتیہم،لہٗ جلالۃ عظیمۃ ۔‘‘(۲۴) ۔۔۔۔۔۔۔’’موصوف اہل یمن کے شیخ ہیں، ان کا وجود ان کے لیے باعث برکت ہے اور یہ ان کے مفتی تھے، ان کی علمی شان و عظمت (اہل یمن کے یہاں) بڑی تھی۔‘‘ ان (فقہائے امصار) کی احادیث و فقہی آرا بعض کتاب الآثار میں اور بعض مسانید میں منقول ہیں۔اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ امام اعظم ابوحنیفہ v کا علم کوفہ ہی کے ساتھ مخصوص نہیں تھا، بلکہ امام صاحب v کی شخصیت بلاد اسلامی کے علمی مرکزوں کے نامور حفاظ اور مشہور فقہائے امصار کے علوم کی جامع تھی۔ اس زمانے میں دینی قیادت و سیادت انہی فقہا و محدثین کو حاصل تھی جو بڑھ چڑھ کر دین کی خدمت میں مشغول رہتے تھے، مجتہدین ائمہ اربعہ میں یہ سعادت و قبولیت بلاشبہ امام اعظم ابوحنیفہ v کو حاصل ہے، ذلک فضل اللّٰہ یوتیہ من یشائ۔ یاد رکھئے! حرمین، مکہ، مدینہ، عراقین: کوفہ و بصرہ، مصر و شام اور یمن یہی مرکزی شہر تھے، جہاں پہلی اور دوسری صدی ہجری میں فقہ و حدیث کا بازار گرم تھا اور معمول بہاسنت کا ذخیرہ جن سے احکام کا استخراج و استنباط کیا جاسکتا تھا، انہی فقہا و محدثین کے پاس موجود و محفوظ تھا۔ اس سے یہ حقیقت بھی عیاں ہو جاتی ہے کہ دوسری صدی کے آخر میں جن ائمہ تابعین کے پاس صحابہ کرام s کا علم محفوظ تھا، اس کا جامع فقہ حنفی ہے۔ مجتہدین و مکثرین صحابہ s کے علوم و روایات کا جامع امام یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ امام ابوحنیفہ v کو کثرت سے روایت کرنے والے حفاظِ حدیث اور مجتہدین صحابہ s کا علم ان کے نامور تلامذہ سے حاصل کرنے کی سعادت حاصل ہے، چنانچہ مورخ خطیب بغدادی v المتوفی ۵۶۳ھ نے اپنی سند سے ربیع بن انسؒ کا بیان نقل کیا ہے کہ:  ’’ابوحنیفہ v ابوجعفر منصور عباسی (۹۵-۱۵۸ھ/ ۷۱۴-۷۷۵ئ) کے پاس آئے، وہاں اس کا وزیر عیسیٰ بن موسیٰ بیٹھا تھا، اس نے خلیفہ سے کہا کہ امام موصوف اس وقت دنیا کے سب سے بڑے عالم ہیں۔ منصور نے امام اعظم v سے پوچھا:  تم نے کن سے علم حاصل کیا؟ فرمایا: میں نے عمرq کے شاگردوں کے واسطے سے حضرت عمر q سے، حضرت علیq کے شاگردوں کے واسطے سے حضرت علی q سے، حضرت عبداللہ بن مسعود qکے شاگردوں کے واسطے سے حضرت عبداللہ بن مسعودq سے اور حضرت ابن عباس q کے زمانے میں روئے زمین پر ان سے بڑھ کر کوئی عالم نہ تھا، یہ سن کر اس نے کہا تم (ابوحنیفہv) نے خود کو خوب پختہ عالم بنایا۔‘‘(۲۵)     امام ابوحنیفہ v کے مذکورہ بالا بیان سے علوم میں وسعت و تنوع اور جامعیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ ائمہ اربعہ میں مجتہدین صحابہ s اور کثرت سے حدیثیں روایت کرنے والے صحابہ s کے علوم کے جامع تھے اور ان کے پاس احادیث و آثار کا سرمایہ دوسرے ائمہ کی نسبت زیادہ وسیع تھا۔ امام ابوحنیفہ vکی بعض اسانید زمرئہ اصح الاسانید میں ۱:…ابوحنیفہؒ   عن عطاء بن أبی رباح عن ابن عباسؓ ۔  ۲:…ابوحنیفہؒ   عن نافع عن ابن عمرؓ   ۔۔۔۔۔۔۔۔  کو زمرۂ اصح الاسانید میں شمار کیا گیا ہے۔ جس طرح مالک عن نافع عن ابن عمرؓ صحیح ترین سند ہے، یہی حکم ابوحنیفہؒ   عن ابن عمرؓ   کا ہونا چاہئے۔(۲۶) ۳:…اہل عراق کی عظیم ترین اور صحیح ترین سندسفیان عن منصور عن ابراہیم عن علقمۃ عن عبداللہؓ ہے۔(۲۷)۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہی حکم ابوحنیفہؒ   عن منصور عن ابراہیم عن علقمۃ عن عبداللہؓ کا ہونا چاہئے۔ امام ابوحنیفہ v کی عالی صفت سے آراستگی ائمہ اربعہ میں امام اعظم ابوحنیفہ v کے یہاں اسانید میں دوسرے ائمہ کی بہ نسبت واسطے کم پائے جاتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ موصوف تابعی ہیں، ان کی حدیثیں ثنائی یعنی بعض بہ دو واسطہ اور بعض وحدان بہ یک واسطہ مروی ہیں۔ دیگر ائمہ جیسے امام مالک v کہ وہ تبع تابعی ہیں، ان کے یہاں سند میں واسطے بڑھ جاتے ہیں اور امام اوزاعی v بھی تبع تابعی ہیں، ان کے یہاں بھی واسطے زیادہ پائے جاتے ہیں۔ امام ابوحنیفہ v کے یہاں وحدان پائی جاتی ہیں، ان کے معاصرین امام مالک v اور امام اوزاعی v کے یہاں وحدان (بہ یک واسطہ روایت) نہیں پائی جاتی۔ ائمۂ فن کا امام ابوحنیفہ v کے احکام و نظریات سے اعتناء اصولِ حدیث کی کتابوں میں ائمۂ فن قدما و متاخرین کا اپنی تصانیف میں امام اعظم ابوحنیفہ v کے نظریات و آثار سے اعتناء و بحث کرنا اس امر کا نہایت بین ثبوت ہے کہ اصول حدیث کی کتابوں میں موصوف کے نظریات کو نہایت بلند مقام حاصل ہے۔ یہ امر واقعہ ہے کہ امام اعظم ابوحنیفہ v کا شمار بلند پایہ حفاظِ حدیث میں کیا جاتا ہے۔ ’’تذکرۃ الحفاظ‘‘ کے موضوع پر کم و بیش ہر کتاب میں موصوف کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اس باب میں ان کی ثقاہت بھی مسلم ہے، چنانچہ حافظ احمد بن عبداللہ العجلیؒ (۱۸۲-۲۶۱ھ) نے تاریخ ثقات میں موصوف کا تذکرہ کیا ہے۔(۲۸) جو اُن کی ثقاہت کی دلیل ہے۔ حواشی وحوالہ جات ۱:…سیر اعلام النبلائ، ج: ۶، ص : ۳۹۲۔        ۲:…معرفۃ علوم الحدیث، ص: ۱۱۔ ۳:…ایضاً۔            ۴:…مقدمہ الجرح و التعدیل، ج: ۱،ص: ۵۹- ۶۰، المحدث الفاصل، ص: ۶۱۴۔ ۵:…سیر اعلام النبلا، ج ۶، ص ۲۹۶۔        ۶:…ایضاً، ص :۲۲۷۔ ۷:…شرح نخبۃ الفکر، الرحیم اکیڈیمی، کراچی، ص ۱۱۲۔    ۸:…کتاب المعین فی طبقات المحدثین، عمان، دارالفرقان، ۱۹۸۴ئ، ص ۱۷ و ۵۱۔ ۹:…سیر اعلام النبلائ، ج: ۶، ص: ۳۹۱۔        ۱۰:…مقدمہ ابن الصلاح، ص ۵۱۷۔ ۱۱:…سیر اعلام النبلا، ج ۵، ص ۱۵۸۔        ۱۲:…ایضاً ۱۳:…ایضاً، ج۶، ص ۳۲۔        ۱۴:…تذکرۃ الحفاظ، ۱/۷۹۔ ۱۵:…سیراعلام النبلائ،ج: ۴،ص:۲۹۸۔        ۱۶:…ایضاً۔ ۱۷:…ایضاً، ۴/۲۹۹۔            ۱۸:…ایضاً، ۴/۳۰۰۔        ۱۹:…تذکرۃ الحفاظ، ۱/۸۲ ۔ ۲۰:…سیراعلام النبلائ، ۴/۳۰۲۔        ۲۱:…ایضاً، ۵/۳۹۔        ۲۲:…ایضاً، ۵/۴۳۔ ۲۳:…ایضاً۔             ۲۴:…تذکرۃ الحفاظ، ۱/۹۰۔    ۲۵:…تاریخ بغداد، ج: ۱۳، ص: ۲۲۴۔ ۲۶:…مکانۃ الامام ابی حنیفۃؒ فی الحدیث، محمد عبدالرشید النعمانی، دارالبشائر الاسلامیہ، ۱۴۱۵ھ ،ص: ۸۲-۸۳۔ ۲۷:…سیر اعلام النبلائ، ج:۷، ص ۲۳۶، معرفۃ علوم الحدیث، ص: ۵۵۔ ۲۸:…تاریخ الثقات للعجلی، ص ۴۵۰، (۱۶۹۴)                                                                                       (جاری ہے)

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین