بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

عہد رسالت میں صحابہ کرام کی فقہی تربیت (تیرہویں اور آخری قسط)

عہد ِ رسالت میں صحابہ کرام s کی فقہی تربیت اور عہد ِ تابعینؒ میں اُس کے نتائج و ثمرات   (تیرہویں اور آخری قسط)

۳:… امام اعظم v پر اِرجاء کا الزام وہ امام ابوحنیفہ v سے اِرجاء کے قائل ہونے کی وجہ سے بھی دشمنی رکھتے ہیں، حالانکہ اہل علم میں بہت سے علماء کی طرف اِرجاء کی نسبت ثابت ہے، لیکن کسی نے اُن کی نسبت نازیبا و نامناسب باتیں نقل کرنے کی طرف توجہ نہیں کی، جیسی کہ انہوں نے امام ابوحنیفہ v کی بابت نقل کرنے میں دلچسپی لی ہے، اس لیے کہ انہیں امامت کا رتبہ حاصل ہے، مگر اُنہیں یہ درجہ حاصل نہیں۔(۱) یہاں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ دل سے اللہ تعالیٰ کو لائق عبادت جاننا اور حضرت محمد a کو اللہ کا بندہ و رسول ماننا اور زبان سے اس امر کا اقرار کرنا ایمان ہے۔ اس کا ثمرہ و نتیجہ جہنم کی آگ سے نجات ہے۔ ایمان کی مذکورہ بالا تعریف سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ ایمان کا تعلق قلب سے ہے۔ جوارح (ہاتھ پائوں) سے جو کام انجام پاتا ہے، اُسے عمل کہا جاتا ہے۔ ایمان اور عمل دونوں جداگانہ چیزیں ہیں، لہٰذا ہر ایک کا حکم بھی مختلف ہوگا۔ یہاں یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ عمل کے چھوٹ جانے سے ایمان کا اس حیثیت سے کچھ نہیں بگڑتا کہ وہ اُسے دائرئہ ایمان سے خارج کرتا ہو۔ دلیل اس بات کی یہ ہے کہ قرآن گناہِ کبیرہ کا ارتکاب کرنے والے کو ’’مومن‘‘ کے لفظ سے یاد کرتا ہے، چنانچہ آیۂ شریفہ میں ارشاد ہے: ’’وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَأَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا۔‘‘(۲) ’’اور اگر دو فریق مسلمانوں کے آپس میں لڑپڑیں تو ان میں ملاپ کرائو۔‘‘ قتال بلاشبہ کبیرہ گناہ ہے، لیکن قرآن کریم نے ان باہم لڑپڑنے والوں کو ’’مومنین‘‘ کے لفظ سے یاد کیا ہے، اسلام سے خارج نہیں کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایمان اور عمل یہ دونوں مختلف چیزیں ہیں، ایک دوسرے کا جز نہیں ہیں۔ عمل کو اگر ایمان کا جز مانا جائے تو لازم آئے گا کہ جو شخص اعمال کا پابند نہ ہو، وہ شخص مؤمن بھی نہ ہو۔معتزلہ و خوارج اس کو جزء ایمان سمجھتے ہیں، اس لیے خوارج ایسے شخص کوکافر کہتے ہیں۔ معتزلہ ایسے شخص کو نہ کافر کہتے ہیں، نہ مومن مانتے ہیں۔ اہل سنت والجماعت کہتے ہیں: جو شخص ایمان رکھتا ہے اور فرائض اس سے ترک ہو جاتے ہیں وہ مسلمان ضرور ہے، لیکن گنہگار مسلمان ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اختیار ہے اُسے سزا دے یا معاف کرے۔ ایمان و عمل کے درمیان فرق کی وجہ سے محدثین امام ابوحنیفہv اور ان کے نامور شاگرد امام ابویوسف، امام محمد، امام زفر، حسن بن زیادw وغیرہ کو مرجئہ کہتے ہیں۔ اِرجاء کے معنی تاخیر کے ہیں، اعمال میں کوتاہی کرنے والوں اور فرائض کو پابندی سے ادا نہ کرنے والوں کے معاملہ کو آخرت میں اللہ تعالیٰ پر چھوڑتے ہیں اور فی الفور اس کے جہنمی ہونے کا حکم نہیں لگاتے۔ اس لیے محدثین ان پر اِرجاء کا الزام لگاتے ہیں اور انہیں مرجئہ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ جو اس قسم کا عقیدہ رکھتے ہیں، وہ مرجئہ مرحومہ کہلاتے ہیں اور جو فی الفور حکم لگا کر اُسے جہنمی کہتے ہیں، انہیں مرجئہ ملعونہ اور مرجئہ ضالہ کہا جاتا ہے۔ ان سے اہل سنت والجماعت کا کوئی تعلق نہیں۔ محدثین کا اِرجاء کی تہمت سے درپردہ اشارہ اس طرف ہوتا ہے۔ محدثین کرام کا مذہب ایمان و عمل میں تفریق کا نہیں ہے، چنانچہ صاحب المصنف حافظ عبدالرزاق بن ہمام v (۱۲۶-۲۱۲ھ) کا بیان ہے: ’’سمعتُ مالکاً، والأوزاعی، وابن جریج، والثوری و معمراً یقولون: الإیمان قول و عمل، یزید و ینقص۔‘‘(۳) ’’میں نے امام مالک، اوزاعی، ابن جریج، سفیان ثوری اور معمر wکو یہ فرماتے سنا ہے کہ: ایمان قول و عمل کا نام ہے، یہ بڑھتا گھٹتا ہے۔ ‘‘ اس لیے بھی یہ حنفیہ پر طعن کرنے سے نہیں چوکتے۔ ائمہ اسلام اور علماء خراسان میں سے امام ابوحنیفہv کے شاگرد، حافظ و محدثِ خراسان ابراہیم بن طہمان نیشاپوریv المتوفی ۱۶۳ھ جو صحاح ستہ کے راویوں میں ہیں، ان کے متعلق جب سفیان بن عیینہv المتوفی ۱۹۸ھ نے اپنے شاگرد ابوالصلت عبدالسلام ہروی vالمتوفی ۲۳۶ھ سے کہا: ’’ماقدم علینا خراسانی أفضل من أبی الرجاء عبداللّٰہ بن واقد الہروی‘‘ ۔۔۔۔۔۔ ’’ہمارے پاس کوئی خراسانی ابو الرجاء عبداللہ بن واقدالہروی (المتوفی بعد ۱۶۰ھ)سے زیادہ بڑھ کر عالم نہیں آیا۔‘‘ توابوالصلتv نے عرض کی: ’’ ابراہیم بن طہمان بھی آئے تھے۔‘‘ ابن عیینہv نے کہا: ’’کان ہو مرجئًا‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’وہ مرجئہ میں سے تھا‘‘۔۔۔۔۔۔ پھرابوالصلتv نے کہا: ’’لم یکن إرجاء ہم ہٰذا المذہب الخبیث بأنّ الإیمان قول بلاعمل وأن ترک العمل لایضر بالإیمان، بل کان إرجائُ ھم أنہم یرجون لأہل الکبائر الغفرانَ رداً علی الخوارج وغیرہم، الذّین یُکَفِّرون الناسَ بالذنوب۔‘‘ ’’ان کا ارجاء اس گمراہ اور خبیث مذہب کے جیسانہیں تھا کہ ان کا (عقیدہ) ایمان بلا عمل ہے کہ ترکِ عمل ایمان کو ضرر نہیں پہنچاتا، بلکہ اِن کا ارجا یہ ہے کہ وہ کبیرہ گناہ کرنے والے گنہگاروں کی مغفرت کا معاملہ آخرت میں اللہ تعالیٰ پر مؤخر رکھتے ہیں، وہ چاہے انہیں سزا دے اور چاہے نہ دے۔ یہ خوارج و معتزلہ وغیرہ پر رد ہے، جو گنہگار لوگوں کو ان کے گناہوں کے سبب کافر کہتے (اور مسلمان نہیں سمجھتے، ان سے جنگ کرتے) ہیں۔‘‘ یہ عقیدہ مرجئہ ضالہ (گمراہ) کا ہے۔ اور جس عقیدہ کا اوپر ذکر آیا ہے وہ مرجئہ مرحومہ کا ہے۔ یہ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے۔ محدث و حافظِ خراسان ابراہیم بن طہمان مکیv شاگردِ امام ابوحنیفہؒ کا تذکرہ اوپر آیا۔ ان کے علم و فضل اور حدیث میں ان کے مقام کا اندازہ امام اسحاق بن راہویہv المتوفی ۲۳۷ھ کے اس قول سے کیا جاسکتا ہے، وہ فرماتے ہیں: ’’کان صحیحَ الحدیث ، کثیرَ السّماع، ماکان بخراسان أکثر حدیثاً منہ وہو ثقۃ۔‘‘(۴) ’’ابراہیم بن طہمانؒ کے پاس صحیح حدیثیں تھیں، موصوف نے کثرت سے سماع کیا تھا، خراسان میں ان سے زیادہ کسی کے پاس حدیثیں نہیں تھیں۔‘‘     تقویٰ و پرہیزگاری میں ان کے مرتبے کا اندازہ امام ابوزرعہv کے بیان سے کیا جاسکتا ہے: ’’کنت عند أحمد بن حنبلؒ فذکر إبراہیم بن طہمانؒ، وکان متکئاً من علۃ فجلس، وقال:لاینبغی أن یذکر الصالحین فیتکأ۔‘‘ ’’میں امام احمد بن حنبلv کے پاس بیٹھا تھا کہ ابراہیم بن طہمانؒ کا ذکر آیا، امام احمدv (بیماری کی وجہ سے) تکیے کے سہارے سے بیٹھے تھے، تو سہارا چھوڑ کر ادب سے بیٹھ گئے اور فرمایا: یہ مناسب نہیں کہ بزرگوں کا ذکر آئے اور آدمی تکیے کے سہارے بیٹھا رہے۔‘‘ یہ تھا ابراہیم بن طہمان v کا علم و فضل اور ورع و تقویٰ میں مقام۔ اب ذرا اُن کے متعلق محدثین کے اِرجاء کے اقوال بھی سنئے:  امام احمدv  فرماتے ہیں: ’’کان مرجئًا شدیدًا علٰی الجھمیۃ۔‘‘ ۔۔۔۔۔۔ ’’یہ ارجاء کے قائل تھے، جہمیہ کی تردید میں بہت سخت تھے۔‘‘ ابوحاتم رازی vالمتوفی ۲۷۷ھ فرماتے ہیں: ’’شیخان بخراسان مرجئان: أبوحمزۃ السکری و إبراہیم بن طہمان و ہماثقتان۔‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’خراسان میں دو شیخ الحدیث ہیں اور وہ مرجئہ میں سے ہیں: ابوحمزہ سکریؒ اور ابراہیم بن طہمانؒ اور یہ دونوں ثقہ ہیں۔‘‘ امام دارقطنی v المتوفی ۳۸۵ھ فرماتے ہیں: ’’ثقۃ إنما تکلموا فیہ للإرجائ۔‘‘ ۔۔۔۔ ’’یہ ثقہ ہے اور اِرجاء کی وجہ سے محدثین نے اس میں کلام کیا ہے۔ ‘‘ نامور مجتہدین اور ائمہ حدیث کا تعلق مرجۂ اہل سنت و الجماعت سے ہے۔ حافظ علامہ احمد بن علی البیکندی السلیمانی v المتوفی ۴۰۴ھ نے جب امام سفیان ثوریؒ اور سفیان بن عیینہؒ کے شیخ علامہ حافظ مسعر بن کدامؒ (جو حدیث میں حجت مانے جاتے تھے، اور جنہیں پختگی و اتقانِ علم کی وجہ سے مصحف کہا جاتا تھا) کی اور دوسرے ائمہ مجتہدین اور حفاظِ حدیث کی نسبت فرمایا کہ وہ مرجئہ میں سے تھے تو علامہ شمس الدین الذہبیv اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’لاعبرۃ بقول السلیمانی کان من المرجئۃ مسعر وحمادبن أبی سلیمان، و النعمان، و عمروبن مرۃ، و عبدالعزیز بن رُوَّاد، وأبومعاویۃ، و عمر بن زر… (۵) و سرد جماعۃ، قلت الإرجاء مذہب لعدۃ من جلۃ العلماء ولا ینبغی التحامل علٰی قائلۃ۔‘‘ (۶) ’’حافظ السلیمانیؒ کے اس قول کا کہ (ع) مسعر (۱۵۲ھ/۷۶۹ئ)، حماد بن ابی سلیمان (۰۰-۱۲۰/ ۰۰-۷۳۸ئ)، نعمان (۸۰-۱۵۰ھ/ ۶۹۰-۷۶۷ئ)، عمرو بن مرہ (۱۱۶ھ/۷۳۴ئ)، عبدالعزیز بن ابی رواد (۰۰-۱۵۹ھ/ ۰۰-۷۷۶ئ)، ابومعاویہ (۰۰-۱۹۵ھ/ ۰۰-۸۱۱ئ) ،  عمر بن ذر (۰۰- ۱۵۶ھ/ ۰۰-۷۷۳ئ) اور ایک جماعت کو نام بنام بیان کیا ہے اور کہا کہ یہ مرحبۂ (ضالہ) میں سے ہیں۔ میں کہتا ہوں ارجاء جلیل القدر علماء کی ایک جماعت کا مذہب ہے۔ اس عقیدے کو اختیار کرنے اور اس کے ماننے والوں پر زیادتی کرنا اور ارجاء کا الزام ان پر دھرنا مناسب نہیں۔ ‘‘ ارجاء کے مسئلے میں بعض حنفی حفاظ کے غلو اور ان کی بعض نامناسب تعبیرات نے اہل علم پر برا اثر ڈالا، چنانچہ شیخ الحرم حافظ عبدالمجید بن عبدالعزیز مکی المتوفی ۲۰۶ھ جو بڑے عابد و زاہد بھی تھے، لیکن اِرجاء کے مسئلے میں حدسے تجاوز کر گئے تھے، چنانچہ امام احمد بن حنبلv موصوف کے متعلق فرماتے تھے:’’کان فیہ غلوفی الإرجائ‘‘۔ ۔۔۔۔۔۔  ’’موصوف ارجاء میں حد سے بڑھ گئے ہیں۔‘‘  اور علامہ شمس الدین ذہبیv موصوف کے متعلق رقمطراز ہیں کہ: ’’ارجاء کے مسئلے میں گرفتار اس شخص سے اللہ تعالیٰ درگزر فرمائے اور ہمیں اور تمہیں سنت کی مخالفت سے بچائے۔ اس امت کے کثیر تعداد میں علماء ارجاء کے قائل تھے، انہوں نے اپنے اس قول ’’أنا مؤمن حقاً عنداللّٰہ الساعۃ‘‘ میں کہ’’ اس وقت اللہ تعالیٰ کے نزدیک یقینا مومن ہوں‘‘ کو اپنا کیوں مذہب نہیں بنایا، اس حقیقت کے اعتراف کے باوجود کہ وہ نہیں مانتے کہ مومن کا خاتمہ ایمان پر ہوگا یا کفر پر، مذکورہ بالا جملہ زبان سے نکالنا بدعت ہے۔ (یعنی متقدمین مرجئہ نے جب یہ قول’’أنا مؤمن حقاً الخ‘‘ اختیار نہ کیا تو متاخرین کا اس قول کو اختیار کرنا بدعت ہے) اور غالی مرحبۂ کی یہ بات بھی بہت سخت ہے کہ ایمان صرف دلوں کا اعتقاد ہے، نماز کا چھوڑنے والا، زکوٰۃ نہ دینے والا، شراب کا پینے والا، لوگوں کو جان سے مارنے والا، زنا کرنے والا، ایسے تمام لوگ کامل الایمان ہیں، یہ جہنم میں نہیں جائیں گے، اور انہیں کبھی عذاب نہ ہوگا۔ انہوں نے شفاعت کی متواتر حدیثوں کو رد کیا، ہر فاسق و فاجر کو، ہر ڈاکو کو، برباد اور تباہ کرنے والی باتوں پر دلیرانہ عمل کرنے کا پروانہ دے رکھا ہے۔ رسوائی سے ہم اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں۔‘‘(۷) فطانت، ذہانت، سبب ِحسد مذکورئہ بالا خوبیوں سے آراستگی کے باوجود ان سے حسد کیا جاتا ہے اور امام موصوف کی طرف ایسی باتوں کی نسبت کی جاتی ہے، جو ان میں نہیں ہیں اور ان کی نسبت ایسی باتیں گھڑی جاتی ہیں جو ان کی شان کے لائق ہی نہیں ہیں، حالانکہ علماء کی ایک جماعت نے امام موصوف کی تعریف کی اور ان کی عظمت و فضیلتِ شان کو بیان کیا ہے۔(۸) ابن عبدالبرv کہتے ہیں: ’’ وہ اہل علم جنہوں نے امام ابوحنیفہ v سے روایت کی ہے، انہوں نے امام موصوف کی توثیق کی ہے، ان کی تعریف کرنے والوں کی تعداد مذمت کرنے والوں سے بہت زیادہ ہے۔‘‘ امام ابوحنیفہ v پر نکتہ چینی کے دو اہم سبب امام ابوحنیفہ v پر نکتہ چینی کا ایک سبب موصوف کا رائے و قیاس (فقہی بصیرت) سے زیادہ کام لینا ہے۔ دوسرا اِرجاء کا قائل ہونا ہے۔ اَسلاف میں بڑائی کا معیار اَسلاف میں بڑائی کا معیار لوگوں کا ان کے متعلق متضاد رائے رکھنا ہے، اور یہ مشہور بات ہے، کیا تم حضرت علی q کی طرف نہیں دیکھتے؟ ان دو گروہوں میں ایک حد سے زیادہ چاہنے والا، دوسرا حد سے زیادہ بغض و کینہ رکھنے والا، چنانچہ حضرت علیq کے متعلق حدیث میں آتا ہے کہ دو آدمی برباد ہوں گے: (ایک) حد سے زیادہ محبت کرنے والا (دوسرا) کینہ رکھنے والا اور بہتان باندھنے والا۔ قدر و منزلت رکھنے والوں کی یہی صفت ہوتی ہے جو دینداری و فضل و کمال میں انتہاء کو پہنچے ہوتے ہیں۔(۹) حضرت امام ابوحنیفہ v پر طعن وتشنیع کا ثمرہ باایں ہمہ فضل و کمال اور قبولیت و شہرت، امام ابوحنیفہ v پر بہت طعن وتشنیع کی گئی، مستقل کتابیں اور رسالے لکھے گئے، لیکن اس کا جو نتیجہ نکلا اس کے متعلق محقق عبدالعزیزv المتوفی ۷۳۰ھ ’’شرح اصول بزدوی‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں: ’’وقد طعن الحساد فی حقہ بہٰذا الجنس کثیرًا، حتی صنفوا فی طعنہٖ کتبًا و رسائل، ولکن لم یزدہ طعنہم إلاّ شرفًا و علوًا، ورفعۃً بین الأنام و سموًا، فشاع مذہبہٗ فی الدنیا، و اشتہر و بلغ أقطار الأرض نورُ علمہٖ و انتشر۔‘‘  (۱۰) ’’اور حاسدوں نے امام ابوحنیفہv کے متعلق اس قسم کے بے سروپا اعتراضات بہت کیے ہیں، لیکن اس طعن وتشنیع نے ان کی عزت و شرف میں اضافہ کیا اور خلق خدا میں ان کی سرفرازی اور بلندی کو بڑھایا، چنانچہ امام صاحب v کا مذہب دنیا میں خوب پھیلا، پھلا پھولا اور چاردانگِ عالم میں ان کے علم کی روشنی پہنچی اور ان کے علم کی خوب نشر و اشاعت ہوئی۔‘‘                                                     (انتہٰی) حواشی وحوالہ جات ۱:…جامع بیان العلم،ایضاً، ج: ۲، ص: ۱۴۹- ۱۵۰            ۲:… سورۃ الحجرات، آیت: ۹۔ ۳:…سیراعلام النبلائ، ج: ۷، ص: ۲۵۲۔ (تذکرۂ سفیان ثوریؒ)        ۴:…سیراعلام النبلائ، ج: ۷، ص: ۳۸۲۔ ۵:…میزان الاعتدال کے مطبوعہ نسخوں میں ’’عمروبن ذی‘‘ چھپا ہے، صحاح ستہ کے رواۃ میں اس نام کا کوئی راوی ہمیں نہیں معلوم، والصحیح ماثبتناہ۔                     ۶:…الذہبی، میزان الاعتدال، ج: ۴، ص: ۹۹ ۷:…سیر اعلام النبلائ، ج: ۹، ص: ۴۳۶۔            ۸:…جامع بیان العلم، ج: ۲، ص: ۱۴۸۔ ۹:…ایضاً، ص: ۱۴۸- ۱۴۹۔                ۱۰:… کشف الاسرار، ج: ۳، ص: ۷۶۴۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین