بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

عہد ِ رسالت میں صحابہ کرام کی فقہی تربیت اور عہد ِ تابعینؒ میں اُس کے نتائج و ثمرات (پانچویں قسط)

عہد ِ رسالت میں صحابہ کرام s کی فقہی تربیت اور اُس کے نتائج و ثمرات       (پانچویں قسط)

اُصولِ استنباط کی تشکیل و تدوین میں مجتہدین صحابہs کے تلامذہ کی مساعی جمیلہ حقیقت یہ ہے کہ شریعت کے تمام ابواب میں غور و خوض کرنے اور شریعت کے اصول کی روشنی میں اسلامی معاشرے میں پیش آنے والے مشکل مسائل کو حل کرنے کے اصولِ استنباط اور قواعد استخراج کی تشکیل و تدوین میں ائمہ مجتہدین اور ان کے شاگردوں کی مساعی جمیلہ کا یہ ثمرہ ہے، چنانچہ شیخ عبدالقادر بغدادی v متوفی ۴۲۹ھ ’’أصول الدین‘‘ میں فرماتے ہیں کہ: صحابہؓ میں سے چار صحابیs ۱:…حضرت علی q، ۲:… عبداللہ بن مسعود q، ۳:… زید بن ثابت انصاری خزرجی q، ۴:… عبداللہ بن عباس r نے تمام ابوابِ فقہ (شریعت) میں بحث کی ہے۔ یہ چار صحابیs کسی مسئلے میں کسی قول پر اتفاق کریں تو مبتدع کے سوا کہ فقہ میں اس کے اختلاف کا اعتبار نہیں، مسلم امہ اُن کے قول پر مجتمع ہوجاتی ہے اور اُسے اجماع کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ یہاں یہ نکتہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ ہر وہ مسئلہ جس میں حضرت علیq تمام صحابہ sکے قول کے مقابلے میں اپنی رائے اور قول میں منفرد ہوں، اس میں محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ انصاری v (۴۷-۱۴۸ھ/ ۶۴۰-۷۶۵ئ) عامر بن شرحبیل شعبی کوفیv (۱۹-۱۰۳ھ/ ۶۴۰-۷۲۱ئ) اور عبیدہ بن عمرو سلمانیv (۷۲ھ/ ۷۶۹ئ) ان کی اتباع کرتے ہیں۔ اورہر وہ مسئلہ جس میں حضرت زید بن ثابتq منفرد ہوئے، اس میں امام مالکv و شافعیv اکثر ان کی پیروی کرتے ہیں اور مدینہ کے فقہاء سبعہ میں سے ان کے فرزند حضرت خارجہv یقیناً انہی کے قول پر عمل کرتے ہیں۔ اور ہر وہ مسئلہ جس میں حضرت ابن عباسr منفرد ہوئے، اس میں عکرمہ بن عبداللہ بربری مدنیv (۲۵-۱۰۵ھ/ ۶۴۵- ۷۲۳ئ) اور سعید بن جبیر کوفیv (۴۵-۹۵ھ/ ۶۶۵- ۷۱۴ئ) ان کی اتباع کرتے ہیں۔ اور ہر وہ مسئلہ جس میں حضرت عبداللہ بن مسعودq منفرد ہوئے، اس میں علقمہ بن قیس نخعی کوفی  v (۶۲ھ/ ۶۸۱ئ) اسود بن یزید نخعی کوفیv (۷۵ھ/ ۶۹۴ئ) اور ابوثور ابراہیم بن خالد کلبی بغدادیv ان کی پیروی کرتے ہیں۔ (۱) امام ابوحنیفہv کی نظر میں ان مذکورہ بالا اربابِ فقہ و نظر اور مجتہدین صحابہs کی فقہی بصیرت و دقت نظر کا اندازہ اس امر سے کیا جاسکتا ہے کہ وہ ان سے مروی احادیث کی موجودگی میں قیاس کی اجازت نہیں دیتے، چنانچہ امام فخر الاسلام بزدویv فرماتے ہیں: ’’راوی کو اگر تفقہ اور اجتہاد میں شرفِ تقدم و شہرت حاصل ہے، جیسا کہ خلفاء راشدینؓ اور عبداللہ بن مسعودؓ، عبداللہ بن عباسؓ، عبداللہ بن عمرؓ، ابوموسیٰ اشعریؓ اور حضرت عائشہ s ہیں اور ان کے علاوہ بھی صحابہ ؓ ہیں جن کو فقہ و نظر میں شہرت حاصل ہے، ان کی حدیث حجت ہے، ان کی حدیث کے مقابلے میں قیاس کو چھوڑا جائے گا۔ اور راوی اگر عدالت اور حفظ میں مشہور و معروف ہے، لیکن فقہ میں مشہور نہیں، جیسے: حضرت ابوہریرہؓ و حضرت انس r ہیں، ایسے راوی کی حدیث اگر قیاس کے مطابق ہے تو اس پر عمل کیا جائے گا اور اگر اس کی حدیث قیاس کے مخالف ہے تو اس حدیث کو نہیں چھوڑا جائے گا، مگر ضرورت کی وجہ سے (یعنی قیاس کا دروازہ مطلقاً بند نہ کیا جائے، بلکہ قیاس کیا جائے گا)۔‘‘(۲) یہاں یہ نکتہ بھی ملحوظِ خاطر رہنا چاہیے کہ مذکورہ بالا ائمہ مجتہدین کی مختصر جماعت کو یہ امتیاز و خصوصیت اس لیے حاصل تھی کہ ان بر گزیدہ شخصیات کے اجتہادات پر صحت و سلامتی کی مہر تصدیق بارگاہِ رسالت سے ثبت ہوچکی تھی اور انہیں افتاء و تعلیم کی اجازت حاصل تھی، چنانچہ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویv متوفی ۱۲۳۹ھ ’’فتاویٰ عزیزی‘‘ میں رقمطراز ہیں: ’’کسانیکہ بحضورِآں جناب a بپایۂ اجتہاد کامل رسیدہ بودند و آنحضرت a اجتہاداتِ ایشاں را تصویب فرمودند و بفتویٰ و تعلیم اجازت فرمودہ بودند، مثل حضرت عمرؓ، و علیؓ، و مثل عبداللہ بن مسعودؓ، و معاذ بن جبلؓ و زید بن ثابت و امثالہمs‘‘۔(۳) ’’رسول اللہ a کے حضور میں جنہیں اجتہاد کامل نصیب تھا اور حضور اکرم a نے ان کے اجتہادات پر مہر تصدیق ثبت فرمائی اور انہیں فتویٰ و تعلیم دینے کی اجازت دی تھی، جیسے: حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، حضرت معاذ بن جبلؓ، حضرت زید بن ثابتؓ اور انہی کی طرح بعض دوسری شخصیات ہیںs۔‘‘ حضرت ابن مسعودq کے تلامذہ کا فقہی مقام حضرت عمرqوعلیqکی نظر میں حضرت عبداللہ بن مسعودq نے اپنے شاگردوں کو اجتہاد و فقہی بصیرت میں ایسا پختہ کیا تھا کہ دورِ فاروقی و عثمانی اور عہدِ مرتضوی میں کوفہ کا قاضی حضرت شریحv (۷۸ھ/ ۶۹۷ئ) کوبنایا گیا تھا، جنہوں نے بعض مقدمات میں حضرت عمرq اور حضرت علیq کے خلاف فتویٰ دیا تھا اور اُنہیں عہدئہ قضا سے معزول نہیں کیا گیا، چنانچہ ابوبکر الجصاص vلکھتے ہیں: ’’حضرت عمرq و حضرت علیq نے حضرت شریح vکوکوفہ کا قاضی بنایا اور ان کے فیصلوں پر اعتراض نہیں کیا، باوجود یکہ قاضی شریحv نے بہت سے مسئلوں میں ان سے اختلاف کیا۔ ‘‘(۴) حضرت عمرq نے ایک دن حضرت عبداللہ بن مسعودq کو آتے دیکھا تو حاضرین مجلس سے فرمایا: ’’کنیف ملیَٔ علمًا‘‘…’’یہ علم بھرا باڑا ہے‘‘…دوسری مرتبہ فرمایا :’’کنیفٌ ملیَٔ فقہًا‘‘… ’’تفقہ و فقہی بصیرت سے بھرا  باڑا ہے‘‘۔ (۵) خلیفہ راشد حضرت علی q، حضرت عبداللہ بن مسعود q کے شاگردوں کو :’’أصحاب سرج ہذہ القریۃ ـ‘‘ (۶)…’’یہ اس بستی (کوفہ) کے علمی چراغ ہیں‘‘…کے لقب سے یاد کرتے تھے۔  اس سے حضرت عبداللہ بن مسعودq کے شاگردوں کے علمی مقام کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ شاگردانِ ابن مسعودq کا فقہی مرتبہ ابن عباسr کی نظر میں حضرت عبداللہ بن مسعود q کے شاگردوں کی حضرت ابن عباس r قدر کرتے اور جب وہ آتے تو حضرت ابن عباسr ان کی دعوت کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت ابراہیمv نے حضرت مسروقv کا یہ بیان نقل کیا ہے: ’’حضرت ابن عباس r کے پاس جب حضرت عبداللہ بن مسعودq کے شاگرد آتے تو وہ ان کے لیے کھانا تیار کراتے، انہیں بلاتے تھے، مسروقv نے کہا: ایک بار انہوں نے ہمارے لیے کھانا تیار کیا، پھر مسائل پوچھنے اور فتویٰ دینے لگے اور مسائل میں ہماری مخالفت کرنے لگے، ہمیں جواب دینے سے یہی بات مانع رہی کہ ہم ان کے یہاں کھانے پر مدعو تھے (یہ موقع بحث و مباحثہ کے لیے موزوں نہیں تھا، اس لیے ہم نے اس سے گریز کیا)۔‘‘  (۷) عبداللہ بن مسعودq کے شاگردوں کا عہدِ صحابہؓ میں اجتہاداور خدمت ِافتاء حضرت عبداللہ بن مسعود q کے شاگردوں کو یہ فخر حاصل ہے کہ وہ عہدِ صحابہؓ میں اجتہاد کرتے تھے اور ان کے فتووں کو مانا جاتا تھا، چنانچہ امام ابواسحاق الشیرازی الشافعی vمتوفی ۴۷۶ھ تحریر فرماتے ہیں: ’’أصحاب عبداللّٰہ بن مسعودؓ کشریحؒ والأ سودؒ وعلقمۃؒ کانوا یجتہدون فی زمن الصحابۃؓ ولم ینکر علیہم أحد ‘‘۔ (۸) ’’حضرت عبداللہ بن مسعودq کے شاگرد جیسے قاضی شریحؒ، اسودؒاور علقمہw عہد ِصحابہؓ میں اجتہاد کرتے تھے اور کسی نے ان پر نکیر نہیں کی۔ ‘‘ حضرت عبداللہ بن مسعودq کے شاگردوں کا روایتی وثقاہتی معیار حضرت عبداللہ بن مسعودq کے شاگردوں کو فقہ وحدیث میں جو مرتبہ و مقام حاصل تھا، اس کا اندازہ امام ابن تیمیہv کے اس بیان سے کیا جاسکتا ہے، موصوف لکھتے ہیں: ’’اور لیکن اہل حدیث جیسے شعبہؒ اور یحییٰ بن سعید القطانؒ اور اربابِ صحاح ستہ و سنن‘ حفاظ اور غیر ثقات میں تمیز کرتے تھے، چنانچہ وہ کوفہ اور بصرہ کے ایسے ثقہ راویوں کو جن کی ثقاہت شک و شبہ سے بالاتر ہے، خوب جانتے تھے اور ان میں بہت سے ایسے راوی بھی ہیں جو بہت سے حجازی راویوں سے بھی افضل و برتر تھے۔ اور کوفی عالم حضرت عبداللہ بن مسعودq کے شاگردوں کی ثقاہت کے متعلق شک و شبہ میں پڑتا ہی نہیں تھا، جیسے علقمہؒ، اسودؒ، عبیدہ سلمانیؒ، حارث تمیمیؒ، شریح قاضیؒ، ابراہیم نخعیؒ، حکم بن عتیبہؒ، ان کے بعد اُنہی جیسے حفاظ روات سب سے زیادہ معتبر اور سب سے بڑھ کر حافظ موجود تھے۔چنانچہ علماء اسلام کا اس امر پر اتفاق ہے کہ شناسانِ حدیث نے جن حدیثوں کو صحیح قرار دیا ہے، ان سے استدلال اور حجت پیش کرنا درست ہے۔ان اہل علم کا تعلق خواہ کسی شہر سے ہو، اور ابوداؤد سجستانیv نے ایسی حدیثوں کو جن کی روایت میں ہر شہر کے علماء منفرد ہیں، انہیں ایک کتاب میں جمع کیا ہے جو ’’مفارید أہل الأمصار‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ ‘‘(۹) عبداللہ بن مسعودq کے شاگردوں کی کوفہ میں تعلیمی خدمات کا فیضان حضرت عبداللہ بن مسعودq کے شاگردوں کی تعلیمی خدمات کے متعلق محمد بن سیرینvمتوفی ۱۱۰ھ کے بھائی نامور عالم انس بن سیرین بصریv (۳۴- ۱۲۰ھ/ ۶۷۵- ۷۳۸ئ)کا بیان قاضی حسن بن خلاد vمتوفی ۳۶۰ھ نے بسند متصل ’’المحدث الفاصل‘‘ میں زینت ِکتاب کیا ہے، وہ فرماتے ہیں: ’’قدمت الکوفۃ قبل الجماجم فرأیت فیہا أربعۃ آلاف یطلبون الحدیث  وأربع مائۃ قد تفقہوا‘‘۔ (۱۰) ’’میں دیر جماجم کے واقعہ یعنی ۸۲ ھ سے پہلے کوفہ میں گیاتو میں نے دیکھا کہ یہاں چار ہزار طلبۂ حدیث پڑھتے تھے اور چار سو طلبہ فقیہ بن چکے اور فقہی بصیرت حاصل کرچکے تھے۔‘‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد تابعینؒ میں صرف کوفے میں چار سو فقیہ موجود تھے۔ دوسرے اسلامی قلمرو کے بلاد اور دیہات کا کیا ذکر؟ ذرا نظر کو بلند کیجئے! عہد صحابہؓ میں کسی صحابیؓ کے شاگردوں کو کہیں ایسے القاب سے یاد کیا گیا ہے اورکیا کسی مجتہد کی تعلیمی و تدریسی خدمات کو خلافت راشدہ میں ایسے شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا گیا ہے، جیسا کہ حضرت علی q نے حضرت عبداللہ بن مسعود q کے تلامذہ کو پیش کیا ہے؟ یہ نتیجہ و ثمرہ اس فقہی بصیرت کا ہے جو انہیں حاصل تھی۔ حضرت عبداللہ بن مسعودq کے شاگردوں کی تعلیمی و تدریسی خدمات کے عہد ِاموی میں جو شاندار نتائج و ثمرات اور ان کے دیرپا اثرات کوفہ میں نکلے، اس کی نظیر اسلامی قلمرو کے وسیع و عریض قطعہ میں کہیں اور مشکل سے ملے گی۔ عہد عباسی میں اس کا اثر کوفہ میں حدیث کی گرم بازاری کوفہ میں حدیث کی گرم بازاری کا اندازہ قاضی حسن بن خلاد رامہر مزی v(تقریباً ۲۶۰-۳۶۰ھ/ ۸۷۳-۹۷۳ئ) نے ’’المحدث الفاصل‘‘ میں محدثِ بغداد حافظ عفان بن مسلم بصری v(۱۳۰-۲۲۰ھ / ۷۴۷ - ۸۳۵ئ) سے بسند متصل نقل کیا ہے، وہ فرماتے ہیں: ’’فقد مناالکوفۃ فأقمنا أربعۃ أشہر، ولو أردنا أن نکتب مائۃ ألف حدیث لکتبناہا، فما کتبنا إلا قدر خمسین ألف حدیث وما رضینا من أحد إلا بالإملاء إلا شریکًا، فإنہ أبی علینا وما رأینا بالکوفۃ لحانًا مجوزًا ‘‘۔ (۱۱) ’’ہم کوفہ میں آئے تو چار مہینے ٹھہرے، ہم اگر یہاں یہ چاہتے کہ ایک لاکھ حدیثیں لکھیں تو لکھ سکتے تھے، مگر ہم نے صرف پچاس ہزار حدیثیں لکھیں، پھر کسی اور سے املا کے علاوہ راضی نہ ہوئے، مگر شریک کے سوا کہ انہوں نے ہم سے انکار کیا اور ہم نے کوفہ میں کسی ایسے آدمی کو نہیں دیکھا کہ جو عربیت میں غلطی کرے اور اس کو روا رکھے۔‘‘ عفانv نے جس شہر میں چار مہینے میں پچاس ہزار حدیثیں لکھیں، اس شہر میں حدیث کی کثرت کا کیا ٹھکانا!۔ حواشی وحوالہ جات ۱:… أصول الدین، تالیف عبدالقادر البغدادی، استانبول، مطبعۃ الدولۃ ۱۳۴۶ھ،ص: ۳۱۱۔ ۲:…أصول البزدوی، ص: ۱۵۸-۱۵۹۔    ۳:…فتاویٰ عزیزی، دہلی، مطبع مجتبائی، ۱۳۴۱ھ،ج: ۱،ص: ۱۱۸۔ ۴:…أصول الجصاص،ج: ۲،ص: ۱۵۶-۱۵۷۔    ۵:…الطبقات الکبریٰ،ج: ۲،ص: ۳۴۴۔ ۶:…تاریخ الثقات للعجلی، طبع ۱۴۰۵ھ،ص: ۲۷۶۔     ۷:…أصول الجصاص،ج: ۲،ص: ۱۵۶- ۱۵۷۔ ۸:… أبو اسحاق شیرازی الشافعی، کتاب اللمع۔     ۹:…مجموع الفتاویٰ شیخ الاسلام ابن تیمیہ، الریاض ۱۳۹۸ھ،ج: ۲۰،ص: ۳۱۷۔ ۱۰:…المحدث الفاصل، ص: ۵۶۰۔        ۱۱:…ا لمحدث الفاصل، ص: ۵۵۹۔                                                                                       (جاری ہے)

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین