بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

عہد ِ رسالت میں صحابہ کرام کی فقہی تربیت اور عہد ِ تابعینؒ میں اُس کے نتائج و ثمرات (دوسری قسط)

عہد ِ رسالت میں صحابہ کرامsکی فقہی تربیت اور اُس کے نتائج و ثمرات       (دوسری قسط)

صحابہ کرام s کی فقہی تربیت رسول اللہ a نے قیاس و رائے (فقہی بصیرت) کو خود بھی بعض مواقع میں استعمال فرمایا اور صحابہ کرام s کو بھی نہایت سیدھے سادے انداز سے اس طریقے کو سمجھایا اور ان کی تربیت کی۔ چنانچہ رسول اللہ a نے زندگی کے گونا گوں شعبوں میں صحابہ کرام s کی تربیت جس انداز سے کی، اُس کے کچھ نمونے ملاحظہ فرمائیں: حج کی ادائیگی ایک صحابی q رسول اللہ a کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ: میری بہن نے حج کرنے کی نذر مانی تھی، وہ حج نہ کرسکی اور مرگئی۔ حضور اکرم a نے فرمایا: ’’لوکان علیھا دین أکنت قاضیہ؟قال: نعم قال: فاقضِ دَیْنَ اللّٰہِ فَھُوَ أحقّ بالقضائ‘‘۔ (۱) ’’تیری بہن پر اگر قرض ہوتا تو کیا تو اُسے ادا کرتا؟ بولا:جی ہاں۔ فرمایا: اس کو ادا کر، اللہ تعالیٰ کا قرض اس کا زیادہ حق دار ہے کہ اس کو ادا کیا جائے۔‘‘ یہاں حضور اکرم a نے اللہ تعالیٰ کے قرض کو انسان کے قرض پر قیاس کیا، یہ علت دونوں میں موجود ہے، ان میں سے ہر فرض کی ادائیگی ضروری ہے۔ اسی طرح خثعمیہ نامی ایک خاتون نے رسول اللہ a سے پوچھا کہ میرے باپ پرحج فرض ہے، لیکن وہ بہت بوڑھا ہے، سواری پر بیٹھ نہیں سکتا، کیا میں اس کی طرف سے حج کرسکتی ہوں؟ آنحضرت a نے فرمایا: تمہارا کیا خیال ہے، اس پر قرض ہوتا اور تم وہ ادا کرتیں تو کیا وہ کافی ہو جاتا؟ اس نے کہا: جی ہاں! رسول اللہ a نے فرمایا: تو اللہ کا قرض ادا کرنا زیادہ ضروری ہے۔ (۲) اس حدیث سے ثابت ہوا کہ آپ a نے ایک خاتون کو بھی فقہی بصیرت سے آشنا کر دیا۔ میاں بیوی کی معاشرتی زندگی کا پہلو حضرت عمر q نے جس وقت رسول اللہ a سے یہ بات عرض کی کہ: ایک دن میں خوشی میں تھا، میں نے روزے کی حالت میں بیوی کا بوسہ لیا (تو کیا روزہ جاتا رہا؟) ۔رسالت مآب a نے فرمایا: غور کرو اگر تم نے روزے کی حالت میں منہ میں پانی لیا اور اسے منہ میں پھرایا، کلی کی، تو کیا ہوگا؟ بولے: یہ کوئی حرج کی بات نہیں۔ رسول اللہ a نے فرمایا: تو کیا ہوا؟ روزہ پانی کے حلق سے اترنے سے ٹوٹے گا، اگر پانی حلق سے نہیں اترا تو روزہ نہیں ٹوٹے گا۔ (۳) یہاں صرف بوسہ لینا ،یہ صو رت ایسی ہے جیسے منہ میں پانی ڈالا اور وہ حلق سے نیچے نہ اترا، روزہ برقرار رہا، علت دونوں میں یکساں ہے، لہٰذا جو حکم ایک کا ہے، وہی حکم دوسرے کا ہوگا۔ حضرت ابوذر غفاری q نے نبی کریم a سے ایک مرتبہ عرض کیا کہ: مالدار صدقہ خیرات کرتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں، وہ آخرت میں ہم سے بازی لے جائیں گے؟ رسول اللہ a نے فرمایا: تم بھی یہ کرتے ہو۔  میں نے عرض کیا: وہ صدقہ کرتے ہیں، ہم صدقہ خیرات نہیں کرتے۔ سرکاردوعالم a نے فرمایا: تمہارے لیے بھی صدقہ ہے، تمہارا راستے سے ہڈی اٹھانا صدقہ ہے، تمہارا گناہ سے بچنا بھی صدقہ ہے، تمہارا کمزور کی مدد کرنا صدقہ ہے، اور تمہارا اپنی بیوی سے ہمبستری کرنا صدقہ ہے۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! کیا ہمیں اپنی شہوت پوری کرنے پر اجر دیا جاتا ہے؟ رسول اللہ a نے فرمایا: (ذرا غور کرو اور دیکھو)اگر تم یہی کام اپنی بیو ی کے علاوہ کسی اور کے ساتھ کرتے تو کیا تم گنہگار نہ ہوتے؟ میں نے کہا: جی ہاں! تو کیا تم اپنے آپ کو شروبدکاری سے نہیں روکتے ہو؟ اور کیا تم یہ نیک کام انجام نہیں دیتے ہو؟(۴) اس حدیث میں بھی رسول اللہ a نے قیاس کیا۔ آپ aنے قیاس کے طریقے سے ہی حضرت ابوذر غفاریq کی رہنمائی فرمائی۔ معاملاتی پہلو حضرت ابوسعید خدری qسے روایت ہے کہ صحابہ کرامs کی ایک جماعت سفر میں کسی قبیلے میں اتری( اس زمانے میں ان میں مہمانداری عام تھی، لیکن قبیلہ والوں نے صحابہ کرام s سے کھانے وغیرہ کانہیں پوچھا اور اس زمانے میں کسی ہوٹل وغیرہ کا کوئی رواج نہ تھا) اتفاقاً اس قبیلے کے سردار کو سانپ نے ڈس لیا، انہوں نے اس کے علاج کی کوشش کی، وہ سود مند نہ ہوئی، قبیلے کے کچھ لوگوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ ان لوگوں سے بھی پوچھو، چنانچہ انہوں نے کہا: کیا تم میں کوئی سانپ کے کاٹے کا علاج جانتا ہے؟ ان میں سے ایک بولا: جی ہاں، میں جانتا ہوں، میرے پاس اس کا منتر ہے، لیکن تم نے ہماری مہمانداری نہیں کی، اس لیے ہم بھی بلا اجرت اس پر جھاڑ پھونک نہیں کریں گے، چنانچہ بکریوں کے ایک مختصر گلے پر معاملہ طے ہوگیا۔ وہ صحابیؓ گئے اور الحمد شریف پڑھ کر دم کیا، سانپ کا زہر اتر گیا، چنانچہ معاملے کے مطابق جو طے تھا وہ انہیں دیا گیا۔ صحابہ کرام s میں سے بعض نے کہا: یہ مال آپس میں تقسیم کرو، چنانچہ دم کرنے والا بولا: ابھی نہیں، بلکہ حضور اکرم a سے پوچھ کرتقسیم کریں گے، چنانچہ مدینہ آکر حضور k کو یہ قصہ بتایا گیا، آپ a نے فرمایا: تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ الحمد اس کا منتر ہے؟ (انہوں نے عرض کیا: الحمد شریف ہر مرض سے شفا ہے) آپ aنے فرمایا: تم نے ٹھیک کیا، یہ مال باہم تقسیم کرو اور میرا بھی اس میں سے ایک حصہ رکھو، چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔(۵) یہاں صحابیqنے منتر کے عوض اجرت کو دوا کے عوض و اجرت پر قیاس کیا، اس لیے کہ علت ِجامعہ دونوں میں عوض و اجرت ہے۔حضور اکرم a نے صحابہs کو اجتہاد کی وجہ سے دوہرے اجر ملنے کی خوشخبری سنائی ہے۔مذکورہ بالا حدیثوں کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ نئے مسائل کے حل میں اجتہاد نہایت کامیاب ترین طریقہ ہے۔نیز اس سے یہ حقیقت بھی عیاں ہوجاتی ہے کہ اصول فقہ کے مبادی عہد ِ رسالت ہی میں ظاہر ہوگئے تھے۔(۶) تجارت کے پہلو اسی طرح رسول اللہ a کا ارشاد ہے: ’’لعن اللّٰہ الیہود حرمت علیہم الشحوم فحملوھا فباعوھا ‘‘۔(۷) ’’یہودیوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت اور پھٹکار ہو، (گردے، آنتیں، اور معدے کی) چربیاں ان پر حرام کی گئی تھیں( انہوں نے اس کو چھوڑا نہیں، انہوں نے ان سے مالی فائدہ اٹھایا) انہیں بیچا اور بیچ کر اس کی قیمت کھائی۔‘‘  چربی سے فائدہ اٹھانا حرام تھا، انہوں نے اس کی قیمت سے فائدہ اٹھایا، یہاں دیکھئے ’’أکل‘‘ (کھانا) بھی (باعثِ) انتفاع تھا اور خرید و فروخت کرکے مالی فائدہ اٹھانا بھی (باعث) انتفاع ہے۔ دونوں میں علت (انتفاع) یکساں موجود ہے تو حکم بھی دونوں کا یکساں ہوگا۔ رنگ وروپ کا پہلو رسول اللہ a کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! میرے یہاں کالا بچہ پیدا ہوا ہے۔ رسالت مآب a نے پوچھا: تمہارے پاس اونٹ ہیں؟ اس نے کہا: جی ہاں! موجود ہیں۔ رسول اکرم a نے پوچھا: ان کے رنگ کیسے ہیں؟ اس نے بتایا وہ سرخ ہیں، پھر سرور دو عالم a نے اس سے پوچھا: ان میں کوئی خاکی رنگ کا بھی ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں! موجود ہے۔ سرور کونین a نے فرمایا: وہ کہاں سے آیا؟ اس نے کہا: ممکن ہے مادہ کی کسی رگ نے یہ رنگ کھینچ لیا ہو، رسالت مآب a نے فرمایا: تو تیرے بیٹے کا رنگ بھی کسی رگ نے کھینچ لیا ہوگا۔ (۸) ملاحظہ فرمائیں کہ حضور اکرم a نے باپ بیٹے کے رنگ وروپ کے اختلاف کو اونٹ کے رنگ و روپ کے اختلاف پر قیاس کیا اور آدمی کو بھی فقہی بصیرت کا ڈھنگ بتا دیا۔ رسول اللہ a کے قیاس کا طریقہ یہ تھا کہ ایک چیز کا حکم اس کی نظیر سے پیش کرکے بتاتے تھے۔(۹) چنانچہ حضور اکرم a نے ایک صحابی ؓ سے فرمایا: تمہاری بیوی سے ہمبستری کرنا بھی صدقہ و خیرات کا حکم رکھتا ہے۔ صحابیؓ نے عرض کیا: کیا ہمیں اس شہوت کی تسکین کرنے میں بھی اجر دیا جاتا ہے؟ رسالت مآب a نے اس سے فرمایا: تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر تم یہ کام اپنی بیوی کے علاوہ کسی اور عورت کے ساتھ کرتے تو تم گنہگار نہ ہوتے؟ (معلوم ہوا جہاں نکاح کی علت نہ پائی جائے گی، وہاں یہ کام گناہ اور حرام ہوگا)صحابیؓ نے عرض کیا: جی ہاں ہوتا، حضور k نے فرمایا کہ: جس طرح تمہارا برے کام پر مواخذہ اور گناہ ہوگا، اسی طرح خیر کے کام پر اجر ملے گا۔تو دیکھئے! رسول a نے قیاس کیا اور محظور کا مقابلہ مباح سے کرکے یہ واضح فرمایا کہ: جس طرح محظور کے ار تکاب پر گناہ اور محاسبہ ہوتا ہے، اس کے مقابل مباح کے ارتکاب پر اجر ملتا ہے۔ بصیرت کے استعمال کی ترغیب اور ہمت افزائی حضرت عمرو بن العاص q کا بیان ہے کہ دو آدمی جھگڑتے ہوئے رسول اللہ a کے پاس آئے، رسول اللہ a نے فرمایا: اے عمرو، ان کے درمیان فیصلہ کرو، انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! آپ مجھ سے زیادہ اس کے حقدار ہیں۔ رسول اللہ a نے فرمایا: ہاں! اس کے باوجود تم کرو۔ انہوں نے عرض کیا: اس فیصلے پر مجھے کیا ملے گا؟میں کیونکر فیصلہ کروں؟ رسول اللہ a نے فرمایا: اگر تم نے ٹھیک فیصلہ کیا تو تمہارے لیے دس نیکیاں ہیں اور اگر تم نے اجتہاد کیا اور اس میں بھول چوک ہوئی تو تمہیں ایک نیکی ملے گی۔(۱۰)  اور عقبہ بن عامر qسے بھی اسی طرح سے مروی ہے۔ شرائط صلح کی پابندی میں قیدی صحابیؓ کی فقہی بصیرت صلح حدیبیہ ۶ہجری کے بعد حضرت ابوبصیر q جب مشرکین کے چنگل سے بھاگ کر رسول اللہ a کے پاس آگئے تو صلح حدیبیہ کی شرط کے مطابق قریش نے دو آدمی حضور اکرم a کی خدمت میں بھیجے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حضور اکرم a شرط کے مطابق ابوبصیرکو واپس کریں۔ رسول اللہ a نے انہیں واپس کیا، جب مدینہ سے باہر نکلے تو ابوبصیرqنے ان میں سے ایک کو جان سے مارڈالا اور دوسرا بھاگ کر واپس حضور اکرم a کے پاس آ گیا اور ابوبصیر qکے کارنامے کی خبر کی، ابوبصیرq ’’سِیْفُ البحر ‘‘(ساحل سمندر) جاپہنچے۔ یہ خبر جب مکہ میں کچھ مسلمانوں کو لگی تو وہ بھی ابوبصیرq سے جاملے اور مشرکین پر حملے شروع کیے۔(۱۱) ابوبصیرq اور ان کے ساتھی یہ کام اپنے اجتہاد سے کرتے رہے اور حضور اکرم a نے ان پر کوئی نکیر اور گرفت نہیں کی، اس لیے کہ یہ رسول اللہ a کی حدود و شرائط سے خارج تھے۔ حضرت عمر q نے مکہ کے مسلمانوں کو جو خط ابوبصیر qسے جاملنے کے لیے لکھا تھا، وہ حضور اکرم a کی اجازت سے نہیں لکھا تھا۔ حضور اکرم a نے اس پر نکیر بھی نہیں کی اور نہ حضرت ابوبصیرqکے کافر کو قتل کرنے پر کوئی گرفت کی اور نہ ان کے قیامِ ساحلِ سمندر پر کوئی باز پرس کی اور نہ ان سے جاملنے والوں پر کچھ گرفت کی، اس لیے کہ یہ ان کی فقہی بصیرت اور اجتہادی فکر و نظر کا نتیجہ و ثمرہ تھا اور درست تھا۔ نماز کی امامت میں فقہی بصیرت اسی طرح حضور اکرم a کا ارشاد ہے: قوم و قبیلے میں جو سب سے بڑا قاری ہو، وہ امامت کرے اور قراء ت میں سب برابر ہوں تو جو اُن میں سنت کا سب سے بڑا عالم ہو وہ امامت کرے، چنانچہ دو ہم رتبہ اور قریب قریب میں سے ایک کو زیادہ بڑا قرار دینا اجتہادی امر ہے۔(۱۲) حضور اکرم a کا حضرت عثمان بن ابی العاص q سے یہ فرمانا کہ تم اپنی کمزور قوم کے امام ہو، لہٰذا کمزور ترین کی اقتدا کا خیال رکھو، کمزور ترین کو جاننا اجتہادی طریقے سے ہی ہوسکتا ہے۔ (۱۳) نماز میں شک اور فقہی بصیرت سے فیصلہ اسی طرح نماز کے اندر شک میں مبتلا شخص کا ظنِ غالب پر عمل کرنا، یہ بھی ایک اجتہادی امر ہے۔ امان و سفارش اسی طرح حضرت عثمانq کے دودھ شریک بھائی عبداللہ بن ابی سرح کا واقعہ ہے جن کے قتل کا حکم رسول اللہ a نے دے دیا، پھر بھی حضرت عثمانq نے انہیں ’’امان‘‘ دی او ر انہیں حضور اکرم a کے پاس لاکر بیعت کی سفارش کرتے رہے۔ رسول اللہ a اس خیال سے کہ اس کے قتل کا حکم دیا جا چکا ہے، کوئی اُسے آکر قتل کر دے کچھ دیر رکے رہے، جب کوئی آگے نہ بڑھا تو رسالتمآب a نے اس کو بیعت کرلیا۔ حضرت عثمانq کی ’’امان دہی اور سفارش‘‘ اجتہادی کام تھا، اس لیے رسول اللہ a نے ان پر نکیر نہیں کی۔(۱۴) میدان جنگ میں انتخاب امیر رسول اللہ a نے غزوئہ موتہ ۸ھ میں لشکر روانہ کیا تو فرمایا تھا کہ جعفربن ابی طالبq (۸ھ/ ۶۲۹ئ) شہید ہو جائیں تو زید بن حارثہq ۸ھ/ ۶۲۹ئ) کو امیر لشکر بنایا جائے، یہ شہید ہو جائیں تو عبداللہ بن رواحہq (۸ھ/ ۶۲۹ئ) کو امیر بنایا جائے۔ یہ بھی شہید ہوگئے تو لشکر بغیر امیر لشکر رہ گیا۔ یہاں صحابہs نے حضور اکرم a کی ہدایت کے مطابق اپنی فقہی بصیرت سے حضرت خالد بن ولیدq(۲۱ھ/۶۴۲ئ) کو امیر لشکر چن لیا، جب دربار رسالت a میں اس امر کی اطلاع کی گئی تو رسول اکرم a نے اس اجتہادی عمل کو درست قرار دیا۔(۱۵) طہارت میں پانی پر قادر نہ رہنے میں فقہی رہنمائی ۱:…اسی طرح غزوئہ ذات السلاسل ۷ یا ۸ ہجری میں سردی کی رات، حضرت عمرو بن العاص q کو احتلام ہوگیا، چنانچہ انہیں یہ ڈر ہوا کہ اگر میں نہایا تو ہلاکت کا خطرہ ہے، تیمم کیا اور صبح (فجر) کی نماز پڑھائی، صحابہ کرامsنے اس واقعہ کا تذکرہ رسالت مآب a سے کیا۔ حضور اکرم a نے حضرت عمرو بن العاصq  سے فرمایا  :’’یا عمرو! صلیت بأصحابک وأنت جنب ؟‘‘۔۔۔۔۔۔ ’’اے عمرو! تم نے احتلام کی حالت میں اپنے رفقا کو نماز پڑھا دی؟ ‘‘۔(حضرت عمروqفرماتے ہیں)نہ نہانے کی میں نے وجہ بتائی اور عرض کیا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’وَلاَ تَقْتُلُوْا أَنْفُسَکُمْ إِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیْمًا‘‘۔ (۱۶) حضور اکرم a نے اس قیاس شرعی کو تسلیم کیا، نہ کوئی گرفت کی، نہ ملامت اور تقریراً آپ aنے ان کے اجتہاد اور فقہی بصیرت کو درست قرار دیا۔(۱۷) یہاں حضرت عمرو بن العاصq نے جان کی ہلاکت کی صورت کو تیمم کے جواز کی صورت پر قیاس کیا، کیونکہ دونوں صورتوں میں علت مشترکہ پانی کے استعمال پر قادر نہ رہنا ہے۔(۱۸) ۲:…’’عن أبی سعید رضی اللّٰہ عنہ أن رجلین تیمما و صلَّیا ثم وجدا مائً فی الوقت فتوضأ أحد ہما و عاد لصلاتہ ماکان فی الوقت ولم یعد الأٰخر فسألا النبی a فقال للذی لم یعد أصبت السنۃ و أجزأتک صلاتک وقال للٰأٰخر أماأنت فلک مثل سہم جمع ۔‘‘ (۱۹) ’’حضرت ابو سعید خدری q سے روایت ہے کہ دو شخصوں نے تیمم کرکے نماز پڑھی، پھر وقت کے رہتے رہتے پانی مل گیا، ایک نے وضو کرکے نماز لوٹائی اور دوسرے نے نماز نہیں لوٹائی، پھر ان دونوں نے بارگاہ رسالت a میں جاکر یہ واقعہ بیان کیا، اور اس کے متعلق حکم پوچھا۔جس شخص نے نماز نہیں لوٹائی، اس سے رسول اللہ a نے فرمایا: تم نے سنت کے مطابق عمل کیا، تم نے جو نماز پڑھی وہ کافی ہوگئی، اور دوسرے شخص سے فرمایا: تم کو ثواب کا پورا حصہ ملے گا، یعنی تم نے دونوں نمازوں کا ثواب پایا۔ (اس نے اپنے اجتہاد کی وجہ سے دوہرا اجر  پایا)۔‘‘ ۳:…’’ عن ابن عمر رضی اللّٰہ عنہما قال: قال النبیّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یوم الأحزاب لا یصلّین أحد العصر إلا فی بنی قریظۃ فأدرک بعضہم العصر فی الطریق، فقال بعضہم: لا نصلّی حتّٰی نأتیھا، وقال بعضہم: بل نصلی لم یردمنّا ذٰلک، فذکر ذٰلک للنبیّ a فلم یعنّف واحدًا منھم۔‘‘ (۲۰) ’’حضرت عبداللہ بن عمر r سے روایت ہے، انہوں نے کہا: آنحضرت a نے جنگ خندق ۵ھ میں (جب جنگ ہوچکی) یوں فرمایا: تم میں سے ہر شخص عصر کی نماز بنی قریظہ کے پاس پہنچ کر پڑھے۔ اب نماز کا وقت راستے میں آ پہنچا تو بعض نے کہا: ہم تو جب تک بنی قریظہ کے پاس نہ پہنچ لیں گے، عصر کی نماز نہیں پڑھیں گے اور بعض نے کہا: ہم نماز پڑھ لیتے ہیں، کیونکہ آنحضرت a کے ارشاد کا یہ مطلب نہ تھا کہ ہم نماز قضا کریں، پھر بارگاہ رسالت a میں اس واقعہ کا ذکر آیا، رسول اللہ a نے کسی پر خفگی نہیں کی، ہر ایک کے عمل کو درست قرار دیا۔‘‘ عہد ِرسالت میں دومجتہدین کی اجتہادی آرا نماز کا وقت راستے میں ہوگیا تو صحابہ s میں دو جماعتیں ہوگئیں، ایک نے راستے میں وقت پر نماز ادا کی، اور دوسری جماعت نے بنی قریظہ میں وقت نکل جانے کے بعد نماز پڑھی، دونوں کا اندازِ فکر و نظر جداگانہ تھا۔ ایک جماعت کی رائے تھی کہ نماز وقت پر ادا کرنے کا حکم ہے، لہٰذا نماز کا وقت راستے میں آ گیا ہے، یہیں ادا کرنا ہے۔ دوسری جماعت نے بنی قریظہ میں جاکر نماز پڑھی، دونوں کی نیت بخیر تھی، اس لیے کسی پر ملامت و گرفت نہ کی۔اس اندازِ تربیت سے یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ مجتہد ہر اس مسئلے میں جس میں نص موجود نہ ہو، اپنی فقہی بصیرت پر عمل کرسکتا ہے، اس کی رائے درست نہ ہو تو بھی اس سے مواخذہ نہ ہوگا، بلکہ حق کی جستجو میں جو کوشش کی ہے اس کا ایک اجر ملے گا، جیسا کہ دوسری حدیث سے ثابت ہے۔(۲۱)قاضی عیاض مالکیv حدیث مذکور کی شرح میں رقم طراز ہیں: ’’اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ فروعی مسائل میں (مجتہد سے) بھول چوک معاف ہے۔ اور ان فروعی مسائل میں سے جس مسئلے (کے نتیجے) تک مجتہد کا اجتہاد اُسے پہنچائے، اس میں مجتہد کی ملامت و گرفت نہیں کی جائے گی، اس کے برعکس اصول کے مسائل (یعنی عقائد) میں معافی نہیں اور یہ مذکورہ بالا صورت میں جب صحابہ s کی نظر میں دلائل متعارض ہوگئے، چنانچہ نماز کو اپنے وقت پر پڑھنے کا حکم تو اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ نماز کو بنی قریظہ پہنچنے سے پہلے ادا کیا جائے۔اور ’’أن لا یصلین أحدٌ العصرَ إلا فی بنی قریظۃ ‘‘کا حکم اس امرکو چاہتا ہے کہ نماز وقت نکلنے کے بعد بنی قریظہ میں پڑھی جائے، تو کون سے ظاہر کو مقدم کیا جائے، اور کون سے عام پر عمل کیا جائے؟قاضی عیاض v (المتوفی ۵۴۴ھ) نے فرمایا کہ: رسول اللہ a کی مراد بنی قریظہ تک پہنچنے میں جلدی کرنا تھا، نفس نماز کو مؤخر کرنا، اس میں سستی اور کوتاہی کرنا مراد نہ تھا۔ جس نے اس مفہوم کو لیا، اس نے نماز کے فوت ہونے کے اندیشے سے نماز وقت میں ادا کی اور جس نے ظاہر لفظ کولیا، مقصود کو نہ سمجھا، اس نے اس پر عمل کیا اور نماز مؤخر کی، تو اس حدیث میں دونوں مکاتب فکر کی دلیل موجود ہے۔ جو مکتب فکر ظاہری الفاظ پر عمل کا قائل ہے، اس کی بھی دلیل ہے اور جومکتبۂ فکر منشأ و مقصد (بات کی تہہ تک پہنچنے) کا خوگر ہے، اس کی بھی دلیل موجود ہے۔‘‘(۲۲) امام محی الدین یحییٰ بن شرف نووی v(المتوفی ۶۷۶ھ) فرماتے ہیں: ’’ نماز کا وقت تنگ ہو جانے کی وجہ سے صحابہ s میں نماز اپنے وقت میں ادا کرنے، یا اس میں اتنی دیر کرنے میں کہ قضا پڑھنی پڑے، اختلاف ہوا۔ اس اختلاف کا سبب یہ تھا کہ شریعت کے دلائل ان کی نظر میں متعارض ہوگئے، اس طرح کہ نماز کو وقت پر ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اور یہاں رسول اللہ a کا ارشاد :’’لایصلین أحدٌ العصرَ أو الظہرَ إلّافی بنی قریظۃ ‘‘ـ کا ایک مفہوم یہ ہے کہ:  بنی قریظہ کی طرف جانے میں جلدی کی جائے اور جلدی پہنچنے میں کوئی چیز مانع نہ ہو، محض نماز کی تاخیر مقصود نہیں، لہٰذا بعض صحابہs نے ’’لایصلین‘‘ کے معنی و منشأ کے پیش نظر وقت پر نماز پڑھی اور دوسرے صحابہ s نے ظاہر الفاظ پر عمل کیا اور بنی قریظہ میں جاکر قضا نماز پڑھی۔ اس واقعے کا ذکر جب بارگاہ رسالت a میں کیا گیا تو رسول اللہ a نے ان میں سے کسی فریق پر نہ گرفت کی، نہ ملامت کی، کیونکہ ہر فریق نے اپنے اجتہاد پر عمل کیا، اس لیے اس حدیث سے دو باتیں ثابت ہوئیں: ۱:…ظاہر الفاظ پر اور ۲:…قیاس رائے پر عمل کرنا،یہ دونوں درست ہیں۔ چنانچہ اس حدیث میں ان لوگوں کی بھی دلیل پوشیدہ ہے جو اجتہاد و قیاس کے قائل ہیں اور معنی و منشأ کا خیال رکھتے ہیں اور اس فریق کی بھی دلیل موجود ہے جو ظاہر الفاظ پر عمل پیرا رہتے ہیں، نیز اس میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ مجتہد کو اس کے اجتہاد پر عمل کرنے میں ملامت نہیں کی جائے گی، جب کہ اس نے حق کی جستجو میں اپنی پوری کوشش کی ہو۔ ‘‘(۲۳) اس حدیث پر علامہ ابن قیم الجوزیہv (۷۵۱ھ) نے سیر حاصل بحث کی ہے، وہ بھی ہدیۂ ناظرین ہے، وہ فرماتے ہیں: ’’فقہا کا اس مسئلے میں اختلاف ہے کہ ان دونوں فریقوں میں سے کونسا فریق زیادہ حق سے قریب رہا ہے؟ فقہا کی ایک جماعت کہتی ہے: کہ جن صحابہs نے نماز مؤخر کی، وہ اپنے اجتہاد میں حق سے قریب رہے۔ اگر ہم ان کے ساتھ ہوتے تو ہم بھی ایسا کرتے، جیسے انہوں نے نماز مؤخر کی، اور ہم بھی بنی قریظہ میں نماز پڑھتے، تاکہ رسول اللہ a کے حکم :’’لایصلین أحدٌ العصرَ إِلاَّ فی بنی قریظۃ‘‘ پر عمل پیرا رہتے، فی الفور نماز نہ پڑھتے۔ اور فقہا کی دوسری جماعت کا قول یہ ہے کہ نہیں بلکہ جن صحابہ s نے راستے میں اپنے وقت پر نماز پڑھی، انہوں نے سبقت کی فضیلت حاصل کی، اور دونوں فضیلتوں سے سرفراز ہوئے، اس لیے کہ انہوں نے رسالت مآب a کے حکم کو : ۱:…جلد از جلد پورا کرنے کی کوشش کی۔ ۲:… اور اپنے وقت پر نماز پڑھنے میں سرورکونین a کی رضا جوئی کی خاطر جلدی کی۔ ۳:… پھر قوم کے ساتھ جاملنے میں بھی جلدی کی، تو انہوں نے جہاد کی فضیلت بھی پائی، نماز کو اپنے وقت میں پڑھنے کی فضیلت بھی حاصل کی اور رسول اللہ a کی منشأ کو پانے میں بھی کامیاب رہے۔ یہ جماعت دیگر صحابہ s سے زیادہ فقیہ نکلی اور خاص کر یہ نماز تو عصر کی نماز تھی، اور یہی صلاۃ الوسطیٰ ہے۔ سرکاردوعالم a کی اس صحیح صریح نص کی وجہ سے جس کا کوئی معارض نہیں اور اس میں کوئی طعن بھی نہیں۔ نماز عصر کی پابندی کرنے، اس میں تاخیر نہ کرنے، اس کو جلدی پڑھنے کے متعلق حدیث میں تاکید آئی ہے۔ اس کے متعلق یہ حدیث بھی موجود ہے کہ جس سے یہ نماز فوت ہوئی تو گویا کہ اس کے اہل و عیال اور مال سب برباد ہوگئے، اس کا عمل ضائع ہوگیا، پس جو تاکید اس نماز کے متعلق آئی ہے، اس جیسی تاکید اس کے سوا دوسری نمازوں کے متعلق نہیں آئی۔ بہرحال! جن حضرات نے نماز مؤخر کی، ان کے پاس بھی نماز مؤخر کرنے کا عذر موجود ہے، ان کو ایک اجر ملے گا، یہ اس لیے ملاکہ انہوں نے ظاہرِ نص کو نہیں چھوڑا، ان کی غرض اس سے حضور a کے ارشاد کی تعمیل تھی، اسی لیے حق تک رسائی میں ان دونوں میں سے کوئی بھی خطا کار نہیں۔ بلکہ جن صحابہ sنے راستے میں نماز پڑھی، انہوں نے دونوں دلائل میں موافقت اور تطبیق کی، دونوں فضیلتوں کو حاصل کیا، اس لیے ان کے لیے دوہرا اجر ہے اور دوسرے حضرات بھی اجر کے مستحق ہیں۔‘‘(۲۴) آپ نے دیکھا کہ جس جماعت نے نماز وقت پر ادا کی، اس نے اپنی فقہی بصیرت سے گوناگوں اجر کس خوبی سے سمیٹے! یہی وہ راز ہے جس کی بنا پر فقیہ اللہ تعالیٰ کے یہاں محبوب و پسندیدہ ہوتا ہے اور اس کا مرتبہ دوسروں سے بلند تر رہتا ہے۔ حواشی وحوالہ جات ۱:…صحیح البخاری، ج: ۲،ص: ۹۹۱، کتاب الأیمان و النذور، باب من مات وعلیہ نذر۔ ۲:…سنن النسائی، باب حج المرأۃ عن الرجل،ج: ۲،ص: ۴، طبع: قدیمی کتب خانہ۔ ۳:…أبودائود، کتاب الصوم، باب القبلۃ للصائم ،حدیث نمبر: ۲۳۸۵، الحاکم، ،ج: ۱ ،ص: ۴۳۔ ۴:…مسند احمد، بیروت، المکتب الاسلامی، ،ج: ۵،ص: ۱۵۴۔        ۵:…صحیح البخاری، کتاب الاجارۃ، ۳/۱۲۱۔ ۶:…الوصول إلی قواعد الأصول،ص: ۱۶۔                ۷:…صحیح البخاری،ج: ۴،ص: ۲۰۷۔ ۸:…بخاری،ج: ۷،ص: ۶۸، کتاب الطلاق۔            ۹:…أصول الجصاص ،ج: ۲ ،ص: ۲۲۴۔  ۱۰:…مسند احمد،ج: ۴،ص: ۲۰۵۔                 ۱۱:…صحیح البخاری،حدیث نمبر: ۲۷۳۴۔ ۱۲:…أصول الجصاص،ج: ۲،ص: ۲۲۳۔        ۱۳:…ایضاً۔    ۱۴:…ایضاً۔     ۱۵:…ایضاً،ج: ۲ ،ص: ۲۱۶۔        ۱۶:…النسائ: ۲۹۔    ۱۷:…سنن ابودائود،ج: ۱،ص: ۱۴۵۔ ۱۸:…سنن النسائی، کراچی، قدیمی، ص: ۷۵۔            ۱۹:…الأحکام،ج: ۵،ص: ۹۴۔ ۲۰:…ترجمۂ مسلم، وحید الزمان،ج: ۴،ص: ۱۳۶۔            ۲۱:…ایضاً۔ ۲۲:…اکمال المعلم ،ج: ۶،ص: ۱۱۰، طبع دارالوفائ۔            ۲۳:…مسلم ،ج: ۲،ص: ۹۶۔ ۲۴:…زادا المعاد، بیروت، مکتبہ ’’المنارالاسلامیۃ‘‘ ،ج: ۳،ص: ۱۳۱۔                                                                                      (جاری ہے)

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین