بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

عہد رسالت میں صحابہ کرام کی فقہی تربیت ( آٹھویں قسط )

عہد ِ رسالت میں صحابہ کرام s کی فقہی تربیت اور عہد ِ تابعینؒ میں اُس کے نتائج و ثمرات(آٹھویں قسط)

دوسری صدی ہجری میں سنن و آثاراوراحکام کے ائمہ اور امامِ اعظم ابوحنیفہv دوسری صدی ہجری میں سنن و آثار اور احکام کا علم تین ائمہ فن میں دائر وسائر سمجھا جاتا تھا۔ چنانچہ امام شافعیv فرماتے تھے: ’’العلم یدورعلی ثلاثۃ : مالکؒ، واللیثؒ، و ابن عیینۃؒ۔‘‘(۱) ’’سنن و آثار اور احکام کا فن تین ائمہ امام مالکv (۹۳-۱۷۹ھ/ ۷۱۲-۸۹۵ئ) لیثv (۹۴-۱۷۵ھ/ ۷۱۳-۷۹۱ئ) اور ابن عینیہv (۱۰۷- ۱۹۸ھ/ ۷۲۵-۸۱۴ئ) میں دائر ہے۔‘‘ امام شافعیv کے مذکورہ بالا مقولے پر مؤرخِ اسلام علامہ شمس الدین الذہبی v فرماتے ہیں کہ: دوسری صدی ہجری میں علمِ سنن و آثار کو ان تین ائمہ حدیث میں محدود و منحصر کرنا صحیح نہیں۔ ان کے ساتھ سات ائمہ فن اور بھی ہیں، اور وہ یہ ہیں: ۱:۔۔۔اوزاعی v (۸۸-۱۵۷ھ)، ۲:۔۔۔سفیان ثوریv (۹۷- ۱۶۱ھ)، ۳:۔۔۔معمر (۹۵-۱۵۳ھ)، ۴:۔۔۔ابوحنیفہv(۸۰-۱۵۰ھ)، ۵:۔۔۔شعبہv (۸۲-۱۶۰ھ)، ۶:۔۔۔ حماد بن مسلم (۰۰-۱۶۷ھ)، ۷:۔۔۔حماد بن زید (۹۸-۱۷۹ھ)۔(۲) حافظ شمس الدین الذہبی الشافعی vکے بیان سے یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ سنن و آثار کے علوم میں امام ابوحنیفہ vکا وہی مرتبہ و مقام ہے، جو امام مالک، ابن عینیہ، شعبہ، حماد بن سلمہ، معمر، سفیان ثوری، لیث اور حماد بن زید wکا ہے، ان میں سے اکثر کی روایات بکثرت صحاحِ سۃ میں موجود ہیں، جیسا کہ ان کے رموز اور علامات سے ظاہر ہے۔ ائمۂ جرح و تعدیل کے یہاں امام ابوحنیفہ v کا مقام اس امرکی صداقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ متشدد ائمہ جرح و تعدیل کے طبقۂ اولیٰ، ثانیہ، ثالثہ اور رابعہ میں کسی امام سے امام ابوحنیفہ v کی جرح منقول نہیں، بلکہ ان سے امام اعظم vکی توثیق منقول ہے۔ طبقۂ اولیٰ طبقۂ اولیٰ میں امیر المومنین فی الحدیث شعبہv (۸۰-۱۶۰ھ) اور سفیان ثوریv (۹۷-۱۶۱ھ) کا شمار ہے اور شعبہ vکے متعلق امام شافعی v کا قول ہے: ’’لولا شعبۃؒ لما عرف الحدیث بالعراق۔‘‘(۳) ’’شعبہؒ اگر نہ ہوتے تو عراق میں حدیث کا جاننے والا کوئی نہ ہوتا۔ ‘‘ لیکن جرح کرنے میں شعبہv، سفیان ثوریv سے زیادہ سخت اور تیز ہیں اور شعبہv اولاً خود کوفیُّ المذہب اور امام اعظمv کے پیرو ہیں۔(۴) ثانیاً: امام بخاری v کے استاد ابوالولید طیالسی v(۱۳۳-۲۲۷ھ) کا بیان ہے: ’’کان شعبۃؒ حسن الذکر لأبی حنیفۃؒ کثیر الدعاء لہ ما سمعتہ قط یذُکر بین یدیہِ إلا دعا لہ۔‘‘(۵) ’’شعبہ vابوحنیفہ v کو اچھے الفاظ سے یاد کرتے اور ان کے حق میں بہت دعا کرتے تھے، میں نے انہیں جب بھی سنا کہ ان کے سامنے ابوحنیفہ v کا ذکر کیا گیا ہو تو انہوں نے موصوف کے لیے (ضرور)دعا کی۔‘‘ اور یحییٰ بن معینv المتوفی ۲۳۳ھ کا بیان ہے: ’’ھٰذا شعبۃؒ بن الحجاج یکتب إلیہ أن یُحدِّث ویأمرہ و شعبۃ شعبۃ۔‘‘ (۶) ’’شعبہ بن الحجاج vامام ابوحنیفہv کو لکھتے تھے کہ حدیث بیان کریں اور انہیں اس کے بیان کرنے کا حکم دیتے تھے، اور شعبہ تو شعبہ ہیں۔‘‘ امیر المؤمنین فی الحدیث شعبہ vکسی سے کہیں اور اُسے حکم دیں، خیال فرمائیں وہ کس درجہ کا محدث و حافظ حدیث ہوگا۔ طبقۂ ثانیہ طبقۂ ثانیہ میں سید الحفاظ یحییٰ بن سعید القطان v(۱۲۰-۱۹۸ھ) اور عبدالرحمن بن مہدیv (۱۳۵-۱۹۸ھ) داخل ہیں۔ یحییٰ القطانv کے متعلق امام احمد بن حنبلv کا قول ہے: ’’مارأیت بعینی مثل یحیٰی بن سعید القطانؒ۔‘‘(۷) ’’میری آنکھوں نے یحییٰ بن القطانؒ جیسا کسی کو نہیں دیکھا۔ ‘‘ اور حافظ عصر امام حدیث و علل علی بن المدینی v(۱۶۱-۲۳۴ھ) کا بیان ہے: ’’مارأیت أحدًا أعلم بالرجال منہ۔‘‘(۸) ’’میں نے یحییٰ  ؒ سے بڑھ کر رجال کا عالم نہیں دیکھا۔ ‘‘ یحییٰ بن سعید القطانv جرح کرنے میں ابن مہدیv سے زیادہ سخت ہیں، ابن عبدالبرv  نے ’’الانتقائ‘‘ میں یحییٰ vکا یہ قول بصراحت نقل کیا ہے: ’’لانکذب اللّٰہ عزوجل، کم من شئی حسن قالہ أبو حنیفۃؒ، و ربما استحسنّا الشیٔ من رأی أبی حنیفۃؒ و أخذنا۔‘‘(۹) ’’ہم جھوٹ نہیں بولتے، واللہ بہت سی اچھی باتیں ابوحنیفہv نے کہی ہیں اور ہم نے ان کی بہت سی باتوں کو اچھا سمجھا اور ان پر عمل کیا۔ ‘‘ یحییٰ بن معین vکا بیان ہے: ’’کان یحیٰی بن سعیدؒ یذہب فی الفتوٰی مذہب الکوفیین۔‘‘(۱۰) ’’یحییٰ بن سعید القطانؒ کوفیوں کے مذہب کے مطابق فتویٰ دیتے تھے۔ ‘‘ یحییٰ بن سعید القطان vامام ابوحنیفہv کی حدیث دانی کے متعلق فرماتے ہیں: ’’واللّٰہ لأعلمُ ھٰذہ الأمّۃ بماجاء عن اللّٰہ ورسولہ a۔‘‘(۱۱) ’’اللہ کی قسم! ابوحنیفہv اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول a کی طرف سے جو کچھ وارد ہوا ہے اس کے سب سے بڑے عالم تھے۔ ‘‘ طبقۂ ثالثہ طبقۂ ثالثہ میں سید الحفاظ یحییٰ بن معینv (۱۰۸-۲۳۳ھ) اور امام احمد بن حنبلv (۱۶۴- ۲۴۱ھ) ہیں۔ یحییٰ بن معینv، امام احمد بن حنبلv کی بہ نسبت جرح کرنے میں زیادہ تیز ہیں۔ یحییٰ بن معینv کے متعلق علی بن المدینیv کا بیان ہے: ’’انتھٰی علم الناس إلٰی یحیٰی بن معینؒ۔‘‘(۱۲) ’’علماء کا علم یحییٰ بن معینؒ پر ختم ہے۔ ‘‘ اور اس امر کا اعتراف امام احمد بن حنبل v کو بھی ہے، وہ فرماتے ہیں: ’’یحیٰی بن معینؒ أعلمنا بالرجال۔‘‘(۱۳) ’’یحییٰ بن معینؒ ہم میں رجال کے سب سے بڑے عالم ہیں۔‘‘ یحییٰ بن معین vنے امام ابوحنیفہ v کو ’’صدوق‘‘ بہت سچا قرار دیا ہے،چنانچہ حافظ مغرب علامہ ابن عبدالبرالقرطبی vلکھتے ہیں : ’’یحییٰ بن معینؒ سے پوچھا گیا کہ اے ابوزکریا! (یہ یحییٰ کی کنیت ہے) ابوحنیفہv روایت حدیث میں صدوق ہیں؟ جواب دیا: جی ہاں! وہ صدوق (ہمیشہ سچ بولنے والے) تھے۔‘‘(۱۴) یحییٰ vکا قول ہے: ’’ثقۃ ماسمعت أحدًا ضَعَّفَہٗ۔‘‘(۱۵) ’’ابوحنیفہv ثقہ ہیں، میں نے کسی کو انہیں ضعیف کہتے نہیں سنا۔‘‘ اور صالح بن محمد الاسدی الحافظ vکا بیان ہے: ’’سمعت یحییٰ بن معینؒ یقول کان أبوحنیفۃؒ ثقۃ فی الحدیث۔‘‘(۱۶) ’’میں نے یحییٰ بن معینؒ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ابوحنیفہ v حدیث میں ثقہ اور معتبر تھے۔‘‘ محمد بن سعید العوفی vفرماتے ہیں: ’’سمعت یحییٰ بن معینؒ یقول: کان أبوحنیفۃؒ ثقۃ، لا یحدث بالحدیث إلّا بما یحفظہ ولا یحدث بمالم یحفظ۔‘‘(۱۷) طبقۂ رابعہ طبقۂ رابعہ میں امام حافظ کبیر ابوحاتم محمد بن ادریس حنظلی رازیv (۱۹۵-۲۷۷ھ) اور محمد بن اسماعیل بخاریv (۱۹۴- ۲۵۶ھ) کا شمار ہوتا ہے، اور ابوحاتم رازیv جرح کرنے میں امام بخاریv کے مقابلے میں زیادہ سخت واقع ہوئے ہیں۔ اسی طرح علی ابن المدینیv کو بھی متشدد سمجھا جاتا ہے اور وکیع کو بھی متشدد خیال کیا جاتا ہے۔ ان سے کوئی جرح منقول نہیں، موصوف کے متعلق سید الحفاظ یحییٰ بن معین vفرماتے ہیں: ’’مارأیت أحدًا أقدمہ علٰی وکیع ، کان یفتی برأی أبی حنیفۃؒ وکان یحفظ حدیثہ کلہ وکان قدسمع من أبی حنیفۃؒ حدیثاً کثیرًا۔‘‘(۱۸) ’’میں نے کسی کو نہیں دیکھا کہ میں اُسے وکیع پر ترجیح دوں، وہ ابوحنیفہ v کے مذہب پر فتویٰ دیتے تھے اور وہ اپنی تمام حدیثوں کے حافظ تھے اور انہوں نے امام ابوحنیفہv سے بہت زیادہ حدیثیں سنی تھیں۔‘‘ ائمہ فن حدیث امام ابوحنیفہ v سے حدیث روایت کرتے ہیں، یہ فن حدیث میں امام ابوحنیفہv کی مہارت و ثقاہت کی روشن دلیل ہے۔چنانچہ علی بن المدینی v فرماتے ہیںکہ: ’’امام ابوحنیفہ v سے سفیان ثوری v (۹۷-۱۶۱ھ) عبداللہ بن مبارکv (۱۱۱-۱۸۱ھ) وکیع بن الجراحv (۱۲۹-۱۹۷ھ) عباد بن العوامv (۸۸- ۱۸۵ھ) اور جعفر بن عونv (۱۱۰-۲۰۷ھ) نے روایت کی ہے اور امام ابوحنیفہ vثقہ ہیں، ان سے روایت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔‘‘(۱۹) مذکورہ بالا ائمہ فن حدیث میں مجتہد مطلق امام سفیان ثوریv بھی ہیں، جن کا مذہب جامع الترمذی میں ذکر کیا جاتا ہے، اسی طرح فقہاء میں امام ابوحنیفہv کے استاد امام عراق حماد بن ابی سلیمانv المتوفی ۱۲۰ھ بھی ہیں، جنہوں نے امام ابوحنیفہ v سے روایت کی ہے۔(۲۰) طبقۂ اولیٰ، ثانیہ، ثالثہ میں حنفی ائمہ فن جرح و تعدیل شعبہؒ، امام یحییٰ بن سعید القطانؒ اور یحییٰ بن معین wسے امام ابوحنیفہv کی توثیق منقول ہے، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دوسری صدی ہجری میں ائمہ فن حدیث و ائمہ جرح و تعدیل ابوحنیفہv کی تقلید کرتے تھے۔ اس سے بڑھ کر امام ابوحنیفہv کی ثقاہت کی اور کونسی روشن دلیل پیش کی جاسکتی ہے؟! یہ وہ ائمہ فن ہیں جن کی اجتہادی آراء و اقوال سے فن رجال کی کتابیں بھری ہوئی ہیں اور راویانِ حدیث و آثار کی ثقاہت کے فیصلے کیے جاتے ہیں اور اُنہی کے اقوال و آثار کی تقلید کی جاتی ہے۔ فنِ جرح و تعدیل میں امام ا بوحنیفہv کا مرتبہ فن جرح و تعدیل میں امام ابوحنیفہv کو جو بلند مقام حاصل ہے، اس کا اندازہ اس امر سے کیا جاسکتا ہے کہ ائمہ فن ان کے اقوال کو کتابوں میں اپنی سند سے نقل کرتے اور بطور سند پیش کرتے ہیں،چنانچہ امام ابوعیسیٰ ترمذی vالمتوفی ۲۷۹ھ ’’کتاب العلل‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’ أبا حنیفۃؒ یقول: مارأیت أحدًا أکذب من جابر الجعفی ولا أفضل من عطاء بن أبی رباحؒ۔‘‘(۲۱) ’’ابوحنیفہv فرماتے ہیں کہ: میں نے جابر جعفی سے بڑھ کر جھوٹا اور حضرت عطا بن ابی رباح vسے افضل کسی کو نہیں دیکھا۔‘‘ اور حافظ عبداللہ بن عدی جرجانی vالمتوفی ۳۶۵ھ نے ’’ الکامل فی ضعفاء الرجال‘‘ میں اس بات کو ان الفاظ سے نقل کیا ہے: ’’ما رأیت فیمن لقیتُ أفضل من عطا بن أبی رباحؒ ولالقیت أکذب من جابر الجعفی۔‘‘(۲۲) ’’ میں نے جن لوگوں کو دیکھا ہے ان میں عطا بن ابی رباحؒ سے بڑھ کر کسی کو افضل نہیں پایا اور میں جن سے ملا ان میں جابر جعفی سے زیادہ جھوٹا نہیں دیکھا۔‘‘ مذکورہ بالا ائمہ فن کااپنی سند سے امام ابوحنیفہv کا قول نقل کرنا امام موصوف کی ثقاہت اور فن جرح وتعدیل میں ان کی مہارت و امامت کی روشن دلیل ہے۔ امام ابوحنیفہv کی فقہ و حدیث پر نظر اور صحیح حدیث کا ادراک و بصیرت فنونِ حدیث میں تفقہ ایک اہم عنصر ہے اور نصف علم کی حیثیت رکھتا ہے، چنانچہ امام بخاریv  کے اُستاد حافظ علی بن المدینیv المتوفی ۲۳۴ھ کا قول ہے: ’’التفقہ فی الحدیث نصف العلم و معرفۃ الرجال نصف العلم۔‘‘(۲۳) ’’علم حدیث میں فقہی بصیرت حاصل کرنا آدھا علم ہے اور معرفتِ رجال آدھا علم ہے۔‘‘ مذکورہ بالا دونوں علموں میں اگر کسی کو دقت ِنظر و مہارتِ فن حاصل ہے تو اُسے بلاشبہ حدیث کا پورا علم حا صل ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جن محدثین کو فقہی بصیرت حاصل نہیں وہ کامل محدث نہیں۔ امام اعظم ابوحنیفہ v میں یہ دونوں باتیں بدرجۂ اتم موجود تھیں۔ امام موصوف کی فقہی بصیرت اور دینی تفقہ کے متعلق مجتہد مطلق امام شافعی v المتوفی ۲۰۴ھ کا قول ہے: ’’الناس عیال أبی حنیفۃؒ فی الفقہ۔‘‘(۲۴) ’’فقہ میں لوگ امام ابوحنیفہ v کے بال بچے ہیں۔ ‘‘ یہی بات امام موصوف سے ان الفاظ میں بھی منقول ہے: ’’الناس فی الفقہ عیال علٰی أبی حنیفۃؒ۔‘‘(۲۵) ’’لوگ فقہ میں ابوحنیفہv کی اولاد ہیں۔‘‘ حافظ مغرب علامہ ابن عبدالبرv المتوفی ۴۶۳ھ نے امام شافعی v سے اس حقیقت کو ان الفاظ سے بھی نقل کیا ہے: ’’من أراد الفقہ فہو عیال أبی حنیفۃ ۔‘‘(۲۶) ’’جو فقہ و فقہی بصیرت حاصل کرنا چاہے وہ امام ابوحنیفہv کا محتاج ہے۔ ‘‘ امام شافعی v سے یہ الفاظ بھی منقول ہیں: ’’من أراد أن یتبحّر فی الفقہ فہو عیال أبی حنیفۃؒ۔‘‘(۲۷) ’’جو فقہ میں عبور وتبحر چاہتا ہو وہ ابوحنیفہ v کا محتاج ہے۔‘‘ امام ابویوسفv کی حجازی ائمۂ فن سے بھی حدیث کی تحصیل قاضی امام ابویوسفv کی حدیث میں وسعت و دقت ِنظر کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ موصوف نے عراق ہی کے حفاظ و فقہا اور محدثین سے سنن و آثار کا سماع نہیں کیا تھا، بلکہ حجاز کے نامور حفاظ و فقہا و محدثین سے بھی احادیث و آثار کا سماع کیا تھا، چنانچہ عباسی خلفا میں پہلا خلیفہ ابوالعباس السفاح عبداللہ بن محمد بن علی بن عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما (۱۰۴-۱۳۶ھ) جب ۱۳۲ھ میں برسراقتدار آیا تو اس نے مدینہ کے نامور عالم امام مالک v کے استاد و شیخ ربیعۃ الرای (۰۰-۱۳۶ھ) کو انبار (کوفہ) بلایا، تاکہ عراق میں قضا کا منصب ان کے سپرد کیا جائے۔(۲۸)  اس حقیقت سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے کہ اسلام میں عہد ِرسالت ہی سے منصب ِقضا اربابِ فتویٰ کو دیا جاتا تھا، چنانچہ حضرت ابوبکر صدیقؓ، عمر فاروقؓ، عثمان غنیؓ، علی المرتضیٰؓ، عبداللہ بن مسعودؓ، معاذ بن جبلؓ، ابی بن کعب s وغیرہ سب ہی اصحاب الرائے اور اربابِ فتویٰ تھے، جیسا کہ ان کے فتووں میں اس امرکی صراحت گزر گئی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں تفقہ اور فقہی بصیرت کو کیسا بلند مقام حاصل رہا ہے۔ ابوالعباس سفاح کی وفات کے بعد اس کا بھائی ابوجعفر المنصور عبداللہ بن محمد عباسی (۹۵-۱۵۸ھ) ۱۳۶ھ میں برسراقتدار رہا، اس نے ہاشمیہ سے دارالخلافہ ۱۴۵ھ میں بغداد منتقل کیا تو مدینہ منورہ کے نامور علماء کو بغداد بلایا، چنانچہ امام ابن تیمیہ vرقم طراز ہیں: ’’خلیفہ عباسی ابوجعفر منصور نے اپنے دور خلافت ۱۳۶-۱۵۸ھ میں حجاز کے علماء حفاظِ حدیث اور فقہا و محدثین کو عراق دارالخلافہ (کوفہ) بلایا، تاکہ وہ علوم کی نشرو اشاعت کریں، چنانچہ ہشام بن عروہv (۶۱-۱۴۶ھ) محمد بن اسحاقv (۰۰-۱۵۱ھ) یحییٰ بن سعید الانصاریv (۰۰-۱۴۳ھ) ربیعہ بن ابی عبدالرحمنv (۰۰۔۱۳۶ھ) حنظلہ بن ابی سفیان جمحیv(۰۰-۱۵۱ھ) عبدالعزیز عبداللہ بن ابی سلمہ ماجشونv (۰۰-۱۶۴ھ)  وغیرہ آئے تو امام ابویوسف v ان کی تعلیمی مجالس میں حاضر ہوتے اور ان سے حدیث سیکھتے تھے اور جو علما حجاز سے آئے ان لوگوں سے بہت زیادہ حدیثیں سنی ہیں۔ انہی وجوہ و اسباب کی وجہ سے یہ کہا جاتا ہے کہ امام ابوحنیفہ v کے شاگردوں میں قاضی ابویوسف حدیث کے بڑے عالم تھے۔ (۲۹) معلوم ہوتا ہے کہ ۱۳۲-۱۴۶ھ کے درمیانی زمانے میں قاضی ابویوسفv نے حجازی علماء سے حدیثوں کا سماع کیا تھا، اس لیے امام ابوحنیفہ v کے شاگردوں میں امام ابویوسفv کو سنن و آثار کا سب سے بڑا عالم مانا جاتا ہے۔  فقہ ِ حدیث اور حدیث میں امام ابویوسفv کا مقام و مرتبہ     امام ابو یوسفv کو فقہ ِ حدیث اور حدیث میں جو بلند مقام حاصل ہے، اس کے متعلق علامہ شمس الدین الذہبی vفرماتے ہیں: ’’وأفقہ أصحابہٖ أبویوسف۔‘‘(۳۰)امام ابوحنیفہv کے شاگردوں میں سب سے بڑھ کر فقیہ ابویوسفv تھے۔ انہوں نے امام ابوحنیفہv سے سترہ برس استفادہ کیا تھا، چنانچہ وہ خود فرماتے ہیں:’’صحبت أباحنیفہؒ سبع عشرۃ سنۃ۔‘‘(۳۱) ’’میں علم حاصل کرنے کے لئے امام ابوحنیفہv کی صحبت میں سترہ برس رہا ہوں۔‘‘      امام شافعیv کے نامور شاگرد امام مزنیv المتوفی ۳۶۴ھ فرماتے ہیں: ’’أتبعہم للحدیث۔‘‘(۳۲)۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’امام ابوحنیفہ vکے شاگردوں میں امام ابویوسف vسب سے بڑھ کر حدیث کا اتباع کرنے والے ہیں۔‘‘     امام ابویوسفv کے شاگرد امام احمد بن حنبلv کا بیان ہے: ’’کان یعقوب أبویوسف منصفا فی الحدیث۔‘‘(۳۳)۔۔۔۔۔۔’’امام ابویوسف یعقوب vحدیث میں انصاف پسند تھے۔‘‘     قاضی ابویوسفv کے دوسرے شاگرد سید الحفاظ یحییٰ بن معین المتوفی ۲۳۳ھ فرماتے ہیں: ’’مارأیت فی أصحاب الرأی أثبت فی الحدیث ولا أحفظ ولا أصح روایۃ من أبی یوسف۔‘‘(۳۴) ’’میں نے اصحاب الرای میں قاضی ابویوسفv سے زیادہ مضبوط و معتبر راوی اور ان سے بڑھ کر حافظ حدیث اور زیادہ صحیح روایت کرنے والا نہیں دیکھا۔‘‘ حواشی وحوالہ جات ۱:…سیر اعلام النبلا، ج:۸، ص:۹۴، (ترجمہ امام مالک)    ۲:… ایضاً۔ ۳:…تذکرۃ الحفاظ، ج :۱، ص: ۱۹۳۔ (ترجمہ شعبہ، رقم: ۱۰۷)    ۴:… میزان الاعتدال، ج: ۱، ص: ۵۹۳(ترجمہ حمادبن سلمہ، رقم: ۲۲۵۱) ۵:…الانتقائ، ص: ۱۲۷۔                ۶:…الانتقائ، ص: ۱۲۶، اخبار أبی حنیفۃؒ و أصحابہ للصیمری، ص: ۸۰۔ ۷:…تذکرۃ الحفاظ، ج: ۱، ص: ۲۹۸۔ (رقم: ۲۸۰)        ۸:…ایضاً۔ ۹:…تاریخ بغداد، ج: ۱۳، ص: ۳۴۵-۳۴۶، الانتقائ، ص: ۱۳۲، تہذیب الکمال للمزی، ج: ۳، ص: ۱۴۱۷۔ ۱۰:…تاریخ بغداد، ج: ۱۳، ص: ۳۴۵، الانتقائ، ص: ۱۳۲، تہذیب الکمال، ج ۳، ص ۱۴۱۷۔ ۱۱:…مقدمہ کتاب التعلیم، تحقیق محمد عبدالرشید نعمانی، حیدر آباد پاکستان، لجنۃ احیاء الادب السندی، ۱۳۸۳ھ، ص: ۱۳۴۔ ۱۲:…تذکرۃ الحفاظ، ج: ۲، ص: ۴۳۰۔            ۱۳:…الذہبی، تذکرۃ الحفاظ، ج: ۲، ص: ۴۳۰۔ ۱۴:…جامع بیان العلم، ج: ۲، ص: ۱۴۹۔        ۱۵:…الا نتقاء ، ص: ۱۲۷۔ ۱۶:…تہذیب الکمال، ج: ۱۹، ص: ۱۰۵۔        ۱۷:…ایضاً ۔     ۱۸:…جامع بیان العلم، ج: ۲، ص: ۱۴۹۔ ۱۹:…ایضاً۔    ۲۰:…جامع المسانید، ج: ۱، ص: ۵۵۵۔        ۲۱:…و تہذیب الکمال، ج: ۱۹، ص: ۱۱۸۔ ۲۲:… جامع بیان العلم و فضلہ، ج: ۲، ص: ۱۳۵۔            ۲۳:…المحدث الفاصل، دارالفکر،ص: ۳۲۰۔ ۲۴:…الانتقاء فی فضائل الثلاثۃ الفقہا، مصر، مکتبۃ القدسی، ۱۹۳۰ئ، ص: ۱۳۶، تہذیب الکمال، ج: ۱۹، ص: ۱۱۱۔ ۲۵:…تاریخ الاسلام للذہبی، دارالکتاب العربی، ص: ۳۰۷۔         ۲۶:…تاریخ بغداد، ج: ۱۳، ص: ۳۴۶۔ ۲۷:…تہذیب الکمال، ج: ۱۹، ص: ۱۱۱۔            ۲۸:…تاریخ بغداد، ج: ۸، ص: ۴۲۱۔ ۲۹:…مجموعہ فتاویٰ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ، ج: ۲، ص: ۳۰۷۔    ۳۰:…سیر اعلام النبلا، ج: ۵، ص: ۲۳۶ (ترجمہ حماد بن ابی سلیمان) ۳۱:…مناقب الامام ابی حنیفہ و صاحبیہ،ص: ۴۱۔        ۳۲:…تاریخ بغداد،دارالکتب العلمیہ، ج :۲، ص: ۱۷۶۔ ۳۳:…ایضاً، ج: ۲، ص: ۱۷۹۔            ۳۴:…مناقب الامام ابی حنیفۃ و صاحبیہ، ص: ۴۰۔                                                                                         (جاری ہے)

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین