بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

عہد ِ رسالت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فقہی تربیت اور اُس کے نتائج و ثمرات (تیسری قسط)

عہد ِ رسالت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فقہی تربیت اور اُس کے نتائج و ثمرات       (تیسری قسط)

رسول a کا اپنی رائے کی بجائے صحابہ کرام s کی رائے سے اتفاق ’’إن الأمر لما ضاق علی المسلمین فی حرب الأحزاب، وکان فی الکفار قوم من أھل مکۃ عوناً لہم رئیسھم عیینۃ بن حصن الفزاری، أبوسفیان بن حرب، بعث رسول اللّٰہ a إلٰی عیینۃ وقال: ارجع أنت و قومک ولک ثلٰث: ثمار المدینۃ، فأبٰی إلاَّ أن یعطیہ نصفَہا فاستشار فی ذلک الأنصارَ و فیہم سعد بن معاذؓ و سعد بن عبادۃؓ رئیسا الأوس والخزرج ، فقالا: ھذا شیٔ أمرک اللّٰہ بہ أم شیٔ رأیتہ من نفسک؟ قال: لا، بل رأیی رأیتہ من عند نفسی، فقالا: یا رسول اللّٰہ! لم ینالوا من ثمار المدینۃ إلابشراء أو بقری فإذا أعزنا اللّٰہ بالإسلام لا نعطیہم الدنیئۃ، فلیس بیننا و بینھم إلَّا السیف، و فرح بذلک رسول اللّٰہ a ثم قال للذین جاؤوا بالصلح: اذھبوا فلا نعطیھم إلا السیف‘‘۔(۱) ’’ غزوۂ احزاب میں مسلمانوں پر جب جنگ کا معاملہ پریشان کن ہوگیا اور کفار (کے لشکر) میں مکہ کے لوگوں کی ایک جماعت ان کی معاونت کر رہی تھی، ان کے سردار عیینہ بن حصن اور ابوسفیان بن حرب تھے تو رسول اللہ a نے عیینہ کے پاس (ایک قاصد) بھیجا اور فرمایا: تو اور تیری قوم (کفار کی نصرت و مددچھوڑ کر) مکہ لوٹ جائے تو تمہارے لیے مدینہ کے پھلوں کا تیسرا حصہ ہوگا تو اس نے صاف انکار کر دیا، مگر یہ کہ آپ ہمیں آدھے پھل دیں تو آنحضرت a نے اس معاملے میں انصار سے مشورہ کیا اور ان میں قبیلہ اوس و خزرج کے سردار حضرت سعد بن معاذ qاور سعد بن عبادہ q بھی تھے تو ان دونوں نے حضور a سے پوچھا: اس بات کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے یا یہ آپ کی ذاتی رائے ہے؟ رسالت مآب a نے فرمایا: نہیں، بلکہ یہ میری اپنی رائے ہے۔ تو انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! ان مکہ والوں کو خرید و فروخت اور مہمانداری کے علاوہ مدینہ کے پھل نہیں ملے، پھر جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں اسلام کی بدولت عزت عطا فرمائی ہے تو ہم ان کو گئی گزری چیز بھی نہیں دیں گے، ہمارے اور ان کے درمیان میں (فیصلہ کن چیز) صرف تلوار ہے، رسول اللہ a (ان کی) اس بات سے مسرور ہوئے، پھر ان کی طرف سے صلح کے لیے آئے ہوئے لوگوں سے کہا: جائو! اب تو ہم ان کاتلوار ہی سے فیصلہ کریں گے۔‘‘ رائے کے استعمال پر اظہارِ مسرت ایک حدیث میں ہے: ’’عن رجال من أصحاب معاذؓ: أنّ رسول اللّٰہ a لمّا بعثہ إلٰی الیمن، قال: کیف تقضی؟ قال: بکتاب اللّٰہ عزّوجل، قال: فإن لم تجد فی کتاب اللّٰہ؟ فقال:بسنّۃ رسول اللّٰہ a ، قال: فإن لم یکن فی سنۃ رسول اللّٰہ ؟ قال: أجتھد برأیی، فقال: الحمد لِلّٰہ الذی وَفَّقَ رسولَ رسولِ اللّٰہ a  لِما یُحبّہٗ رسولُ اللّٰہ a ، فأجاز لہ الاجتھادَ فیما لا نصّ فیہ۔ ومن جھۃ أخرٰی أنّ ھذا الخبر قدتلقّاہ النّاس بالقبول واستفاض، واشتھر عندہم من غیر نکیرمن أحدٍ منھم علی رواتہ، ولا ردَّ لہ وأیضًا: فإن أکثر أحوالہ أن یصیر مرسلا ، والمرسل عندنا مقبول ‘‘۔(۲) ’’ حضرت معاذ q فرماتے ہیں: رسول اللہ a نے انہیں جب یمن کی طرف (قاضی بناکر) بھیجا تو پوچھا: (جب تمہارے سامنے کوئی مسئلہ آئے گا) کیسے فیصلہ کرو گے؟ عرض کیا: کتاب اللہ کے موافق۔ رسول اللہ a نے پوچھا: اگر کتاب اللہ میں نہ پائو؟ عرض کیا:! رسول اللہ a کی سنت کے موافق۔ سرکار دوعالم a نے پھر پوچھا: اگر سنت رسول اللہ ؐ میں نہ ملے؟ عرض کیا: اپنی رائے و اجتہاد سے فیصلہ کروں گا۔ تو سرورکونین a نے فرمایا: تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے رسول اللہ a کے رسول و سفیر کو ایسی چیز کی توفیق عنایت فرمائی جس کو اللہ کا رسول a پسند کرتا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ رسالت مآب a نے ان کو غیر منصوص مسائل میں اجتہاد کی اجازت عطا کی تھی، اس حدیث کو عوام و خواص میں قبول عام حاصل ہے اور اہل علم کے یہاں اس حدیث کو بغیر کسی انکار و رد کے شہرت حاصل ہے۔ نیز (یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ) بیشتر راویوں نے اس حدیث کو مرسل روایت کیا ہے اور مرسل ہمارے (حنفیہ کے) یہاں مقبول اور قابل ِ حجت ہے۔‘‘ حضرت معاذ qکے ارشاد ’’ أجتہد برأیی‘‘ کی تشریح صحیح البخاری و سنن ابی دائود کے اولین شارح امام ابوسلیمان الخطابی vالمتوفی ۳۸۸ھ نے ان الفاظ میں کی ہے: ’’قال الخطابی: أجتہد برأیی یرید الإجتھادَ فی رد القضیۃ من طریق القیاس إلٰی معنی الکتاب والسنۃ ولم یرد الرأی الذی یسنح لہ من قبل نفسہ أویخطر ببالہ من غیرأصل من کتاب أوسنّۃ وفی ہذا إثبات القیاس وإیجاب الحکم بہ‘‘۔  (۳) یعنی ’’أجتہد برأیی‘‘ سے حضرت معاذ q کی مراد وہ اجتہاد ہے جس میں قیاس کے ذریعہ غیرمنصوص مسئلے کے حکم کو قرآن و سنت کے معنی و منشأ کی طرف لوٹایا جائے، نہ کہ اس رائے کی طرف جو محض نفسانی خواہش کی بنا پر ظاہر ہو، یا وہ رائے جو قرآن و سنت کی اصل کے بغیر یوں ہی دل میں کھٹکنے لگے۔ یہ حدیث قیاس کے ثبوت کی دلیل ہے، نیز اس امر کی دلیل ہے کہ قیاس جو حکم ثابت کرتا ہے اس پر عمل کرنا ضروری اور واجب ہے۔ ‘‘ فقہاء محدثین میں حافظ ابن کثیر vالمتوفی ۷۷۴ھ حضرت معاذq کی مذکورہ بالا حدیث کے مأخذ و سند کے متعلق فرماتے ہیں: ’’ہذا الحدیث فی المسند والسنن بإسناد جید‘‘۔ (۴) ۔۔۔۔۔۔۔یعنی ’’یہ حدیث مسند احمد اور سنن کی کتابوں میں عمدہ سند کے ساتھ آئی ہے۔‘‘ فقہی بصیرت سے صحابہ کرامs کی آراستگی اکثر و بیشتر صحابہ کرام s اس صفت سے آراستہ تھے اور اس صفت کے اصل مصداق رسولa کے صحابہ کرام sہیں، چنانچہ شیخ الاسلام ابواسحاق شیرازی شافعی v المتوفی ۴۷۶ھ ’’طبقات الفقہائ‘‘ میں رقم طراز ہیں، جس کا ترجمہ یہ ہے: ’’اس حقیقت کو سمجھو کہ رسول اللہ a کے اکثر و بیشتر صحابیؓ جنہوں نے ان کی صحبت اٹھائی اور ان سے وابستہ رہے، وہ سب فقیہ ہیں اور بلاشبہ یہ فقہ (شریعت کو سمجھنے سمجھانے) کا طریقہ صحابہ s کے حق میں آیا ہے۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے خطاب (اوامر و نواہی) اور اس کے رسول a کے خطاب سے جو کچھ سمجھا اور رسول اکرم a کے افعال و اعمال اور تقریرات (معرض بیان میں آپ a کے سکوت کرنے اور نکیر نہ کرنے) کو جانا اورسمجھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کا خطاب ہے۔ وہی قرآن کریم ہے جو انہی کی زبان میں ہے۔ ان اسباب کی وجہ سے جنہیں یہ جانتے اور ان واقعات کے تحت جوان کے سامنے پیش آئے تھے یہ ان سے واقف تھے‘ اتارا گیا۔ انہوں نے نوشتۂ وحی کو سمجھا، اس کے منشأ و مطلب کو سمجھنے کی کوشش کی اور اس کے صریح اور غیر صریح احکام کو سمجھا۔ ابو عبید قاسم بن سلامv (المتوفی ۲۲۴ھ) نے ’’کتاب المجاز‘‘ میں کہا ہے کہ صحابہ s میں سے کسی صحابیؓ سے منقول نہیں کہ اس نے قرآن کی کسی صریح و صاف بات کو سمجھنے میں رسول اللہ a سے رجوع کیا ہو۔ رسول اللہ a کا خطاب ان سے انہی کی زبان میں ہوتا تھا، وہ اس کے معانی و مطالب کو جانتے، اس کی مبہم بات کو سمجھتے تھے، اس کے مقصد کو سمجھنے کی کوشش کرتے تھے۔ رسول اللہ a کے وہ افعال جن کا تعلق عبادات، معاملات، عادات و اطوار اور سیاسیات سے ہے، ان سب کا انہوں نے مشاہدہ کیا، دیکھا، اور سمجھا تھا۔ اور جو باتیں ان کے سامنے بار بار آتی تھیں ان کی گہرائی تک پہنچتے تھے، اس لیے رسول اللہ a نے ان کے متعلق فرمایا تھا: ’’أصحابی کالنجوم بأیھم اقتدیتم اھتدیتم‘‘(میرے صحابہ s ستاروں کی طرح رہنما ہیں، تم جس کی پیروی کرو گے رہنمائی پائو گے) اس لیے جو کوئی رسول اللہ a کے ان اقوال میں جو صحابہ s نے نقل کیے ہیں‘ غور و فکر کرے گا اور ان اعمال میں جن کا تعلق عبادات وغیرہ سے ہے نقل کرے گا، وہ ان کے علم و دانش، فہم و فراست اور فضل و کمال کی طرف اپنے آپ کو مجبور و محتاج پائے گا، یہ اور بات ہے کہ ان اکثر و بیشتر صحابہ s میں وہ صحابہs جنہیں فتویٰ دینے، حلال و حرام سے بحث کرنے (اور مشکل مسئلوں کا حل نکالنے) میں شہرت حاصل تھی، وہ ایک مخصوص جماعت تھی۔‘‘ (۵) عہد ِرسالت میں صحابہ کرامs کی تعداد عہد ِرسالت میں صحابہ کرام s کی کل تعداد ایک لاکھ چودہ ہزار تھی۔(۶) ان میں اکثر و بیشتر فقیہ تھے، لیکن ہر ایک صحابیؓ مجتہد نہ تھا اور نہ وہ اپنے آپ کو فتویٰ دینے کا اہل سمجھتا اور نہ اسلامی معاشرے میں اس کو اس اہم ذمہ داری کا اہل سمجھا جاتا تھا۔ مجتہدین صحابہ کرام s اوپر تصریح گزر گئی ہے کہ صحابہs کی مذکورہ بالا تعداد میں وہ صحابہ کرام s جن سے بکثرت فتویٰ منقول ہیں، ایسے کل سات مجتہد صحابیؓ ہیں۔ اور جن سے کم فتوے منقول ہیں، وہ تیرہ مجتہد صحابیؓ ہیں۔ اور جن سے کم تر صرف ایک دو فتوے منقول ہیں، وہ ایک سو بیس ہیں۔ اگر صحابہ کرامs کی کل تعداد میں صرف سات ہی سربر آوردہ مجتہدین کو شمار کیا جائے تو اس کا مطلب یہ نکلے گا کہ سولہ ہزار دوسو پچاسی صحابہ s کی عظیم جماعت میں صرف ہمیں ایک ہی عظیم ترین مجتہد نظر آتا ہے۔ اور اگر ان تیرہ صحابہ کرام s کو جن کے فتوے کم منقول ہیں، ان سات عظیم ترین مجتہد صحابہ کرام s کے ساتھ جن سے بکثرت فتوے منقول ہیں‘ ملائیں تو ان عظیم ترین اور عظیم تر سب کی تعداد بیس ہو جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پانچ ہزار سات سو کی جماعت میں ہمیں ایک مجتہد ملتا ہے۔ مجتہدین صحابہ s کے تین طبقات علامہ ابن حزم vالمتوفی ۴۵۶ھ نے عہدِ صحابہؓ میں مجتہدین صحابہsکے تین طبقات بیان کیے ہیں، وہ فرماتے ہیں: ’’لم ترووا الفتیا فی العبادات والأحکام إلّا عن مائۃ ونیف وثلاثین منہم فقط من رجل و امرأۃ بعد التقصی الشدیدۃ ‘‘۔ (۷) ’’عبادات اور ایسے مسائل میں جن میں شریعت کا حکم درکار ہوتا ہے، فتوے دینے والے صحابیؓ اور صحابیہؓ کا بہت چھان بین کے بعد پتہ لگ سکا ہے۔ ان کی تعداد ایک سو تیس سے کچھ اوپر ہے۔‘‘  ان مجتہدین صحابہsکے تین طبقات ہیں: ۱:…    پہلا طبقہ مکثرین ِ صحابہ s کا ہے۔ یہ وہ ارباب فتویٰ صحابی ہیں جن کے فتووں کی سنن و آثار کی کتابوں میں اتنی کثرت اور بہتات ہے کہ انہیں یکجا کیا جائے تو ایک بڑی موٹی جلد تیار ہو جائے۔ ۲:…    دوسرا طبقہ متوسطین صحابہ sکا ہے۔ یہ ان ارباب فتویٰ صحابہsکا طبقہ ہے جن کے فتووں کی کتب و آثار و سنن میں اتنی کثرت نہیں کہ موٹی سی ایک کتاب بن جائے، لیکن اتنی تعداد ضرور منقول ہے کہ ان سے ایک رسالہ ترتیب پا جائے۔ ۳:…    تیسرا طبقہ مقلین کا ہے۔ یہ ان ارباب فتویٰ صحابہs کا طبقہ ہے جن سے اتنے فتوے بھی حدیث کی کتابوں میں منقول نہیں کہ ایک چھوٹا موٹا رسالہ ہی بنایا جاسکے، بس ایک دو فتوے ہی منقول ہیں، وہ ایک جز (ایک یا دو ہی ورق) میں آ جائیں گے۔چنانچہ علامہ ابن حزم اندلسی vالمتوفی ۴۵۶ھ لکھتے ہیںکہ : مکثرین(کثرت سے فتوے دینے والے) سات ارباب فتویٰ صحابیؓ یہ ہیں: ۱:… ام المونین حضرت عائشہ ؓ، ۲:…حضرت عمر بن الخطابؓ، ۳:…حضرت عبداللہ بن عمرؓ، ۴:…حضرت علی ؓ بن ابی طالب، ۵:…حضرت عبداللہ بن عباسؓ، ۶:…حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، ۷:…حضرت زید بن ثابتs ہیں۔ اور یہ سات صحابہs  ہیں، ان میں سے ہر ایک کے فتووں کو جمع کیا جائے تو وہ ایک موٹی کتاب بن جائے۔ ابوبکر محمد بن موسیٰ بن یعقوب بن امیر المومنین مامون نے حضرت عبداللہ بن عباس r کے فتووں کو جمع کیا تو وہ بیس کتابوں میں یکجا ہوئے تھے۔ ابوبکر محمد vجس کا ذکر اوپر آیا ہے، یہ علم فقہ و حدیث میں ائمہ اسلام میں سے ایک تھے۔ متوسطین میں وہ ارباب فتویٰ صحابی ہیں جن سے زیادہ فتوے منقول نہیں، ان میں: ۱:…ام المومنین حضرت ام سلمہؓ، ۲:…حضرت انس بن مالکؓ، ۳:…حضرت ابوسعید خدریؓ، ۴:…حضرت ابوہریرہؓ، ۵:…حضرت عثمان بن عفانؓ، ۶:…حضرت عبداللہؓ بن عمروبن العاص، ۷:…حضرت عبداللہ بن زبیرؓ، ۸:…ابوموسیٰ اشعریؓ، ۹:… معاذ بن جبلؓ، ۱۰:…حضرت ابوبکر صدیقؓ، ۱۱:…حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، ۱۲:…حضرت سلمان فارسیؓ، ۱۳:…جابر بن عبداللہs شامل ہیں، یہ تیرہ -۱۳- صحابیؓ ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کے فتوے اگرجمع کیے جائیں تو ایک چھوٹا رسالہ بن جائے گا۔ انہی میں ۱:…حضرت طلٰحہؓ، ۲:…حضرت زبیرؓ، ۳:…حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ، ۴:…حضرت عمران بن حصینؓ، ۵:…حضرت ابوبکرؓ، ۶:…حضرت عبادہ بن صامتؓ، ۷:…حضرت معاویہ بن ابوسفیان s کے ناموں کو اور بڑھایا جائے اور تیرہ -۱۳- میں سات -۷-کا اور اضافہ کیا جائے تو متوسطین کی تعداد بیس تک پہنچ جائے گی، اس صورت میں مکثرین اور متوسطین کی مجموعی تعداد ستائیس ہو جائے گی۔ باقی سب مقلین وہ صحابی ہیں جن میں ہر ایک سے ایک دو فتوے ہی منقول ہیں اور وہ بہت مختصر ہیں، ورق دو ورق سے زیادہ نہیں ہیں، ان سے ہر ایک کے فتووں کا بہت مختصر جزء بنے گا۔(۸) مکثرین، متوسطین صحابہs کی مجموعی تعداد کے پیش نظر علامہ ابن الہمام vالمتوفی ۸۶۱ھ نے شرح فتح القدیر میں لکھا ہے: ’’لا تبلغ عدۃ المجتہدین الفقہاء منہم أکثر من عشرین‘‘۔ (۹) ’’صحابہ کرامsمیں مجتہدین صحابہ ؓ کی تعداد بیس سے زیادہ نہیں پہنچتی ہے۔‘‘  ان ارباب فتویٰ صحابہؓ کی مجموعی تعداد ایک سو سترہ سے کچھ اوپر ہے۔ ان میں ایک سو بیالیس -۱۴۲- صحابیؓ اور بیس -۲۰- صحابیہؓ ہیں، جن کی مجموعی تعداد ایک سو باسٹھ ہی ہوتی ہے۔(۱۰) لیکن ڈاکٹر احسان عباس، ڈاکٹر ناصر الاسد کی تحقیق اور شیخ احمد محمد شاکر کی مراجعت کے ساتھ ابن حزم v کا تیسرا رسالہ ’’أصحاب الفتیا من الصحابۃؓ و من بعد ہم علی مراتبہم فی کثرۃ الفتیا‘‘ میں ارباب فتویٰ صحابہؓ و صحابیاتؓ کی مجموعی تعداد ۱۴۹؍ مذکور ہے، ہم نے اس نقص کو علامہ ابن حزمv کی ’’الأحکام صفحہ: ۹۳‘‘ سے مقابلہ کیا تو مجموعی تعداد تو درست نکلی، لیکن صحابیاتؓ کی تعداد بیس نہیں بائیس ہے۔ اس لحاظ سے صحابہs اور صحابیاتu کی مجموعی تعداد ایک سو چونسٹھ -۱۶۴-ہو جاتی ہے۔ یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ مسلم معاشرے میں جب کبھی اور جہاں کہیں نت نئے مسائل پیش آئے، اکثروبیشتر انہی سات اکابر مجتہدین صحابہs میں کسی نہ کسی کے پاس جاکر مسئلہ کا حکم، اس کا حل اور جواب پوچھا جاتا تھا اور جس سے معلوم کیا جاتا وہ اپنی مجتہدانہ بصیرت سے کبھی فوراً جواب دے کر سائل کو عمل کا راستہ بتا تا تھا، جیسا کہ کسی نے میراث کا ایک نہایت پیچیدہ مسئلہ دوران خطبہ ہی حضرت علیq سے پوچھا، اور آپؓ نے اسی وقت اس کا حل بتایا، وہ جواب آج بھی مسئلہ منبریہ کے نام سے مشہور ہے۔ کبھی سائل سے کہا جاتا کہ بعد میں اس کا جواب دیا جائے گا، چنانچہ غور و فکر میں کبھی ایک مہینہ گزر جاتا تھا، چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعودq نے مہر اور میراث مفوضہ کے مسئلے کا جواب ایک مہینے کے بعد دیا تھا۔(۱۱) اور جب انہیں معلوم ہوا کہ اس مسئلہ کا رسول اللہ a نے بھی یہی جواب دیا تھا تو ایسی خوشی ہوئی تھی کہ زندگی میں عظیم کارنامے انجام دینے پر انہیں اتنی خوشی و مسرت نہیں ہوئی ہوگی، جتنی اس مسئلہ کے حل اور رسالت مآب a کے جواب کے ساتھ مطابقت و موافقت سے ہوئی تھی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا مجتہدین صحابہs کی فطرت میں کیسا عظیم اجتہادی ملکہ ودیعت کیا گیا تھا۔ اور بارگاہ رسالت a میں حاضری، صحبت و خدمت نے صحابہs میں ایسا جلا و نور بخشا تھا کہ مشکل سے مشکل مسئلے کو حل کرنا اور اس پر عمل کرنا اُن کے لیے آسان تھا۔ ان اکابر مجتہدین صحابہs کی مجتہدانہ صلاحیت اور فقیہانہ بصیرت، مزاجِ شریعت سے مناسبت اور اس میں رسوخ و پختگی نے انہیں مرجع خلائق بنایا تھا، مسائل کے حل میں سب کی نگاہیں انہی کی طرف اٹھتی تھیں اور انہی کے بتائے ہوئے مسئلوں پر عمل کیا جاتا تھا۔ مذکورہ بالا مجتہدین صحابہؓ میں سے ہر مجتہد نے جن مسائل کو حل کیا، یہ انفرادی اجتہادی مسائل کا ذخیرہ ہر مجتہد کے اندازِ فکر و نظر کا شاہد، اس کی اجتہادی آرا و نظریات کا جامع اور اس کی اصابت ِرائے کا شاہکار ہے۔ مذکورہ بالا مجتہدین صحابہؓ کے اجتہادی کام کی ابتدا عہد رسالت میں مدینہ منورہ سے ہوئی، جیسا کہ گزر چکا، پھر جیسے جیسے اسلامی قلمرو کی فتوحات کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا، ان کی اجتہادی سرگرمیوں کا دائرہ بھی اسلامی مملکت کے مرکزی شہر وں میں وسعت اختیار کرتا گیا، ان کی تعلیمی و تربیتی مساعی سے ان کے طلبہ اور شاگردوں میں اجتہادی سلیقہ پروان چڑھتا گیا، چنانچہ ان کی وفات کے بعد ان کے شاگردوں نے اس بنیادی فریضے کو اسلامی قلمرو کے وسیع تر علاقے کے مرکزی شہروں میں انجام دینا شروع کیا۔ ان سات مجتہدین صحابہؓ کے جس مجتہدانہ کام کا آغاز عہد ِرسالت میں مدینہ سے ہوا تھا، وہ سارے اسلامی قلمرو میں پھیلا اور ان مکثرین صحابہ ؓ کے اجتہادی کام کا سلسلہ عہد صحابہؓ میں حضرت عبداللہ بن عباسr کی وفات پر ساتویں دہائی کے وسط میں اختتام پذیر ہوا اور ان کے نامور شاگردوں نے اس سلسلے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، لیکن اس کا دائرہ انفرادی کوششوں تک محدود رہا، اور اسلامی قلمرو کی مقامی اور وقتی ضرورتوں کو پورا کرتا رہا،مگر شورائی نظامِ اجتہادی جس کا آغاز حضرت عمر qنے اپنے دورِ خلافت میں کیا تھا، وہ اکابر مجتہدین کے اسلامی قلمرو میں مامور کیے جانے سے زیادہ عرصہ تک قائم نہ رہ سکا۔ عہدِرسالت میں بعض صحابہs کی خدمتِ افتاء فتوے دینا رسول اللہ a کا فرض منصبی تھا، قرآن میں اس کا ذکر ہے: ’’ یَسْتَفْتُوْنَکَ‘‘ (۱۲)   ’’صحابہs آپ (a) سے فتویٰ لیتے ہیں‘‘یعنی شرعی حکم معلوم کرتے ہیں۔چنانچہ رسالت مآب a فتویٰ دیتے تھے، آپ aنے بعض مہاجر و انصار صحابہؓ کی بھی تربیت کی تھی اور وہ آپ aکی غیرموجودگی میں آپ a کی اجازت سے فتویٰ دیتے تھے۔ (۱۳) ان میں چھ صحابہs کو شہرت حاصل تھی، تین مہاجر اور تین انصاری تھے، چنانچہ حضرت سہل بن ابی خیثمہ ساعدی q اپنے والد حضرت ابوخیثمہq سے نقل کرتے ہیں: ’’کان الذین یُفتون علی عہد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ثلاثۃ من المہاجرین و ثلاثۃ من الأنصار: عمر، و عثمان و علی و أُبی بن کعب و معاذ بن جبل، و زید بن ثابت s ‘‘۔ (۱۴) ’’رسول اللہ aکے زمانے میں جو صحابہ کرام sفتویٰ دیتے تھے، ان میں تین حضرت عمر، عثمان اور علی sمہاجر تھے اور تین حضرت أبی بن کعب، حضرت معاذ بن جبل اور زید بن ثابت sانصاری تھے۔‘‘ علامہ جلال الدین سیوطی v(متوفی ۹۱۱ھ) فرماتے ہیں: مجھے احادیث و آثار کے مطالعے سے معلوم ہوا کہ زمانۂ رسالت میں افتاء کی خدمت انجام دینے والے صحابہ sآٹھ تھے، میں نے انہیں دو شعروں میں نظم کیا ہے، وہ شعر یہ ہیں: وقد کان فی عصر النبیؐ ثمانیۃ یقومون بالإفتاء قومۃ قانت فأربعۃ أہل الخلافۃ معہم معاذؓ، أبیؓ، و ابن عوفؓ، ابن ثابتؓ(۱۵) یعنی ’’حضور اکرم a کے زمانے میں آٹھ صحابہ sفتاویٰ دینے کا ایسا اہتمام کرتے جیسے کوئی فرمانبردار اطاعت الٰہی کرتا ہے۔ ان میں چار خلفاء راشدین حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی s تھے اور ان کے ساتھ حضرت معاذ، حضرت ابی بن کعب، حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت زید بن ثابت s بھی یہ خدمت انجام دیتے تھے۔‘‘ مؤرخ علامہ عبدالرحمن ابن الجوزی vمتوفی ۵۹۷ھ نے ’’کتاب المدہش‘‘ میں عہد ِرسالت میں مفتیان صحابہؓ کی تعداد چودہ نقل کی ہے، موصوف کا بیان ہے: ’’من کان یفتی علی عہد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أبوبکر و عمر و  عثمان و علی و عبدالرحمٰن بن عوف و ابن مسعود و أبی و معاذ و عمار و حذیفۃ و زید بن ثابت و أبو الدرداء و أبو موسٰی و سلمان s ‘‘۔(۱۶) عہد ِرسالت میں جو صحابہs فتوے دیتے تھے، وہ ۱:…حضرت ابوبکر عبداللہ بن عثمان تیمی قرشیؓ (۵۱ق ھ - ۱۳ھ/ ۵۷۳ئ-۶۳۴ئ)، ۲:…حضرت عمرؓ (۴۰ ق ھ-۲۴ھ/ ۵۸۴ئ- ۶۴۴ئ)، ۳:… حضرت عثمانؓ (۴۷ق ھ-۳۱ھ/ ۵۷۷ئ-۶۵۶ئ)، ۴:…حضرت علیؓ (۲۳ ق ھ- ۴۰ھ/ ۶۰۰-۶۶۱ئ)، ۵:…حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ (۴۴ ق ھ -۳۲ھ/ ۵۸۰ئ- ۶۵۲ئ)، ۶:…حضرت عبداللہ بن مسعود ہذلیؓ (۰۰۰-۳۲ھ/… -۶۵۳ئ)، ۷:…حضرت ابی بن کعب الانصاریؓ (۰۰۰-۲۱ھ/ ۰۰۰-۶۴۲ئ)، ۸:…حضرت معاذ بن جبل خزرجی انصاریؓ (۲۰ ق ھ- ۱۸ھ/ ۶۰۳-۶۳۹ئ)، ۹:…حضرت عمار بن یاسرؓ (۵۷ ق ھ - ۳۷ھ/ ۵۶۷-۶۵۷ئ)، ۱۰:…حضرت حذیفہ بن الیمانؓ (۰۰۰- ۳۶ھ/ ۰۰۰- ۶۵۶ئ)، ۱۱:… حضرت زید بن ثابت خزرجی انصاریؓ (۱۱ ق ھ - ۴۵ھ/ ۶۱۱- ۶۶۵ئ)، ۱۲:… حضرت ابوالدرداء عویمر بن مالکؓ (۰۰۰-۳۲ھ/ ۰۰۰-۶۵۲ئ)، ۱۳:…حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ (۲۱ ق ھ- ۴۴ھ/ ۶۰۲-۶۶۵ئ)، ۱۴:…حضرت سلمان فارسیؓ (۰۰۰-۳۶ھ/ ۰۰۰-۶۵۶ئ) s تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد ِرسالت میں مجتہدین صحابہs کے فتووں پر عمل کیا جاتا تھا اور ان کی فقہی بصیرت و تقلید کو راہِ نجات سمجھا جاتا تھا۔ خلافت راشدہ میں رائے اورفتووں پرعمل خلافت ِراشدہ میں بھی رائے اور فتووں پر عمل کیا جاتا تھا، چنانچہ فقہاء سبعہ میں قاسم بن محمد بن ابی بکرv المتوفی ۱۰۶ھ کا بیان ہے: ’’ان أبابکر الصدیقؓ کان إذا نزل بہ أمریرید فیہ مشاورۃَ أہل الرأی وأہل الفقہ، و دعا رجالًا من المہاجرین والأنصار، عمرؓ و عثمانؓ و علیاؓ و عبدالرحمٰن بن عوفؓ و معاذ بن جبلؓ و أبی بن کعبؓ و زید بن ثابتؓ، و کل ہولاء یفتی فی خلافۃ أبی بکرؓ، و إنما تصیر فتوی الناس إلی ہولائ، فمضٰی أبوبکرؓ علی ذلک، ثم ولی عمرؓ فکان یدعوھؤلاء النفر، وکانت الفتویٰ تصیر و ھوخلیفۃ إلی عثمانؓ و أبیٍّؓ و زیدؓ‘‘۔ ’’بلاشبہ حضرت ابوبکر صدیقq کے پاس جب کوئی نیا مسئلہ اور واقعہ پیش آتا، وہ اس میں اہل الرائے اور اہل فقہ سے مشورہ لینے کا ارادہ فرماتے تو مہاجرین و انصار میں سے حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ، حضرت معاذ بن جبلؓ، حضرت ابی بن کعبؓ اور حضرت زید بن ثابت s کو بلاتے تھے اور یہی لوگ خلافت صدیقی میں فتوے دیتے تھے اور لوگوں کی طرف سے جو سوالات آتے وہ انہی کو پہنچائے جاتے تھے۔ یہ فتاویٰ کے مرجع تھے اورانہی کا فتویٰ چلتا تھا۔ حضرت ابوبکرq کے دورِ خلافت میں یہی معمول تھا۔ حضرت عمر q کی حکمرانی کا زمانہ جب شروع ہوا تو وہ بھی انہی لوگوں کو بلاتے تھے اور انہی کے فتووں پر عمل جاری تھا۔ اور فتوے حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ اور حضرت زید بن ثابت s کو پہنچائے جاتے تھے۔‘‘(حضرت عثمان اور حضرت علی r کے دورِ فرمانروائی میں یہ خود فتوے دیتے تھے) ۔ حواشی وحوالہ جات ۱:…کشف الاسرار علیٰ أصول فخرالاسلام البزدویؒ،ج: ۳،ص: ۲۱۰، کراچی الصدف پبلشرز، الإجتہاد فی الشریعۃ الإسلامیۃ و بحوث أخری، إدارۃ الثقافۃ و النشر بالجامعۃ الإمام محمد بن سعود الإسلامیۃ،۱۴۰۴ھ۔ ۲:…أصول الجصاص،ج:۲،ص: ۲۲۲۔ ۳:…معالم السنن، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۴۱۶ھ،ج: ۴،ص: ۱۵۳، بذل المجھود، کراچی، معہد الخلیل،ج: ۴،ص: ۳۰۹۔ ۴:…تفسیر القرآن العظیم، مصر، مصطفی البابی، ۱۳۵۶ھ،ج: ۱،ص: ۳۔ ۵:…طبقات الفقہاء للشیرازی، بغداد ۱۳۵۶ھ،ص: ۳۔ ۶:…مقدمہ ابن الصلاح و محاسن الاصطلاح، القاہرۃ، دارالمعاد، طبع ۱۴۱۱ھ،ص: ۴۹۴۔ ٭…تدریب الراوی، طبع ۱۹۵۹ئ،ص: ۴۰۵، ۴۰۶۔ ٭… إرشاد طلاب الحقائق إلی معرفۃ سنن خیرالخلائق للنوویؒ، المدینہ المنورۃ، مکتبۃ الإیمان ۱۴۰۸ھ،ج: ۲، ص: ۵۹۷۔ ۷:…الأحکام، القاہرۃ، إدارۃ الطباعۃ المنیریۃ، ۱۳۴۷ھ،ج: ۵،ص: ۹۲۔ ۸:…الأحکام،،ج: ۵،ص: ۹۲- ۹۳، (ولہ) الرسالۃ الثالثۃ، أصحاب الفتیا من الصحابۃؓ ومن بعد ہم علی مراتبہم فی کثرۃ الفتیا،ص: ۳۱۹۔ اس رسالے میں ابن حزمv نے ارباب فتویٰ کی مجموعی تعداد ایک سو باسٹھ بیان کی ہے، ان میں ۱۴۲مرد اور ۲۰ خواتین ہیں۔ مکثرین سات، اور متوسطین ۱۳ بیان کیے ہیں، باقی سب مقلین ہیں۔ یہ رسالہ سید کروی حسن کی تحقیق سے دارالکتب العلمیہ نے ۱۳۵۱ھ میں بیروت سے شائع کیا ہے۔ ۹:…شرح فتح القدیر،ج: ۳،ص: ۳۳۰۔        ۱۰:…ایضاً، اصحاب الفتیا۔ ۱۱:…سنن ابی دائود، ج:۱،ص: ۲۸۸، کراچی، سعید اینڈ کمپنی۔ ۱۲:…النسائ:۱۲۷، ۱۷۶۔    ۱۳:…السیوطیؒ، الحاوی للفتاوی، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۴۰۲ھ، ۱۹۸۲ئ،ج: ۱، ص: ۱۶۱۔ ۱۴:…الطبقات الکبریٰ، بیروت، دارصادر،ج: ۲،ص: ۳۵۱۔ ۱۵:…الحاوی للفتاوی،ج: ۱،ص: ۱۶۲، (لہ) الکثر المدفون فی الفلک المشحون،ص: ۲۵۲۔ ۱۶:…المدہشی، بیروت، عباس احمد الباز، ص: ۵۱۔                                                                                       (جاری ہے)

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین