بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

عورت کا بغیر محرم کے حج پر جانا!

عورت کا بغیر محرم کے حج پر جانا!

    کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان کرام کہ ایک خاتون جوکہ مالدار اور صاحب حیثیت ہے اور اس کے پاس حج کے اخراجات بھی موجود ہیں وہ حج کرنا چاہتی ہے، مگر محرم نہیں ہے، یا محرم ہے مگر محرم کے اخراجات اس کے پاس نہیں ہیں، آیا اس صورت میں عورت بغیر محرم کے حج کے لیے جاسکتی ہے؟      نیز کیا کوئی عورت دیگر عورتوں کی جماعت کے ساتھ (جن کے ساتھ مرد بھی ہیں) جاسکتی ہے؟ اگر نہیں جاسکتی اور پوری زندگی محرم کا انتظام نہ ہوسکے تو یہ عورت گناہ گار ہوگی؟     مستفتی: محمد فخرالدین الجواب باسمہٖ تعالٰی     صورتِ مسئولہ میں واضح رہے کہ عورتوں کے حج پر جانے کے لیے ضروری ہے کہ اگر وہ مکہ مکرمہ سے مسافتِ سفر کی مقدار دور ہوں تو ان کے ساتھ شوہر یا دیگر کسی محرم کا ہونا ضروری ہے۔ محرم کے بغیر سفر کرنا عورتوں کے لیے ناجائز اور حرام ہے، خواہ عورت جوان ہو یا بوڑھی، تنہا ہو یا اس کے ساتھ دیگر عورتیں ہوں، کسی بھی حالت میں جانا جائز نہیں، بلکہ حکم یہ ہے کہ اگر وہ مالدار ہے اور اس کا شوہر یا کوئی محرم نہیں ہے یا محرم ہے مگر محرم کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتی تو اس کے لیے شرعی حکم یہ ہے کہ وہ انتظار کرتی رہے، تاآنکہ محرم کا بندوبست ہوجائے یا محرم کے اخراجات کا بندوبست ہوجائے۔ اگر زندگی بھر محرم کا بندوبست نہ ہوسکے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ مرنے سے قبل حج بدل کی وصیت کرجائے، تاکہ لواحقین حج بدل کرسکیں۔ امام ابوحنیفہv اور امام احمدv کا یہی مذہب ہے، جب کہ امام شافعیv اور امام مالکv کا مسلک یہ ہے کہ اگر عورت مالدار ہو اور اس پر حج فرض ہو تو اس صورت میں اگر محرم نہ ہو تو وہ معتمد اور دیندار عورتوں کے ساتھ حج پر جائے گی، جب کہ احناف کے نزدیک کسی بھی حالت میں عورت بغیر محرم کے سفر نہیں کرسکتی، جیساکہ حدیث شریف میں ہے: ’’عن ابن عمرؓ قال: قال رسول اللّٰہ a لاتسافر المرأۃُ ثلاثًا إلا ومعہا ذو محرم۔‘‘ ترجمہ:…’’حضرت ابن عمرq سے روایت ہے کہ حضور a نے فرمایا کہ: نہیں سفر کرے کوئی عورت تین (دن کا) مگر یہ کہ اس کے ساتھ کوئی محرم ہو۔‘‘     حضرت عبد اللہ بن عمرq سے ایک اور روایت میں منقول ہے: ’’لایحل لامرأۃٍ تؤمن باللّٰہ والیوم الآخر تسافر مسیرۃ ثلاثِ لیالٍ إلا ومعہا ذو محرم۔‘‘ ترجمہ:۔۔۔۔۔ ’’کسی بھی عورت کے لیے حلال نہیں ہے جو اللہ اور قیامت کے دن پر یقین رکھتی ہے کہ محرم کے بغیر تین رات کا سفر کرے۔‘‘     حضرت عبد اللہ بن عباسr سے روایت ہے: ’’قال رسول اللّٰہ a لایَخْلُوَنَّ رجلٌ بامرأۃٍ ولاتسافر امرأۃٌ إلا ومعہا محرم، فقال رجل: یا رسول اللّٰہ! اکتبتت فی غزوۃ کذا کذا وخرجت امرأتی حاجۃ، فقال: اذہب فاحجج مع امرأتک۔‘‘                                 (مشکوٰۃ، ص:۲۲۱) ترجمہ:۔۔۔۔۔’’حضور a نے فرمایا کہ: کوئی آدمی کسی عورت کے ساتھ خلوت نہ کرے اور کوئی عورت سفر نہ کر ے مگر اس کے ساتھ محرم ہو۔ ایک آدمی نے کہا کہ: یا رسول اللہ! میں فلاں فلاں جنگ میں لکھ دیا گیا ہوں اور میری بیوی حج کے لیے نکلی ہے، آپ a نے فرمایا :جا! اپنی بیوی کے ساتھ حج کر۔‘‘     اسی طرح مختلف احادیث سے ثابت ہے کہ حضور a نے عورتوں کو بغیر محرم کے سفر کرنے سے منع فرمایا، خواہ وہ سفر حج کے لیے ہو یا کسی اور کام کے لیے۔ نیز واضح رہے کہ تمام فقہائے احناف خواہ متقدمین ہوں یا متاخرین سب اس بات پر متفق ہیں کہ عورت بغیر محرم کے حج کے لیے سفر نہیں کرسکتی، خواہ حج فرض ہو یا نفل، عورت بوڑھی ہو یا جوان، جب کہ بعض فقہاء کرام کے نزدیک اگر عورت کا محرم نہ ہو تو اس پر حج فرض ہی نہیں، چنانچہ بدایۃ المجتہد لابن رشدؒ میں ہے: ’’واختلفوا من ہذا الباب ہل من شرط وجوب الحج علی المرأۃ أن یکون معہا زوج أو ذو محرم منہا یطاوعہا علی الخروج معہا إلی السفر للحج۔ فقال مالک والشافعی رحمہما اللّٰہ: لیس من شرط الوجوب ذٰلک وتخرج المرأۃ إلٰی الحج إذا وجدت رفقۃ مأمونۃ وقال أبوحنیفۃؒ وأحمدؒ وجماعۃ: وجود ذی المحرم ومطاوعتہٗ لہا شرط فی الوجوب وسبب الخلاف معارضۃ الأمر بالحج والسفر إلیہ لتنہی عن سفر المرأۃ ثلاثًا إلا مع ذی محرم وذلک أنہٗ ثبت عنہ علیہ الصلاۃ والسلام من  حدیث أبی سعید الخدریؓ وأبی ہریرۃؓ وابن عباسؓ وابن عمرؓ أنہٗ قال علیہ الصلاۃ والسلام: لایحل لامرأۃ تؤمن باللّٰہ والیوم الآخر أن تسافر إلا مع ذی محرم۔فمن غلب عموم الأمر قال: تسافر للحج وإن لم یکن معہا ذو محرم ومن خص العموم بہذا الحدیث أو رأی من باب تفسیر الاستطاعۃ قال: لاتسافر لحج إلامع ذی محرم۔‘‘  (بدایۃ المجتہد لابن رشد،ج:۱،ص:۳۱۱) ’’فقہاء کرام کے درمیان اس باب میں اختلاف ہے کہ عورت کے ساتھ محرم یا شوہر کا ہونا حج فرض ہونے کے لیے شرط ہے؟ یعنی اس کے ساتھ شوہر یا ایسا محرم ہو جو اس کے ساتھ حج کے لیے جاسکے۔ امام مالکv اور امام شافعیv فرماتے ہیں کہ: وہ (محرم) حج فرض ہونے کے لیے شرط نہیں، بلکہ اگر عورت کو معتمد عورت ساتھی ملے تو وہ ان کے ساتھ حج کے لیے جاسکتی ہے اور امام ابوحنیفہv اور امام احمدv اور فقہائے کرامؒ کی ایک جماعت نے فرمایا کہ: عورت کے لیے محرم ہونا اور محرم کا اس کے ساتھ جانا شرطِ وجوب میں سے ہے۔ دراصل اس اختلاف کی وجہ حج کے لیے حکمِ الٰہی اور (دوسری طرف) عورت کے لیے نامحرم کے بغیر تین دن کا سفر کرنے کی ممانعت ہے، کیونکہ حضرت ابوسعید خدریؓ، ابوہریرہؓ ، ابن عباسؓ اور ابن عمرؓ کی حدیث کی رو سے یہ بات ثابت ہے کہ حضور a نے فرمایا کہ: کسی عورت کے لیے حلال نہیں ہے جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہے کہ وہ محرم کے بغیر کوئی سفر کرے۔جو حضر ات امر الٰہی کی عمومیت کو غالب قرار دیتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ عورت حج کے واسطے سفر کرے گی، اگرچہ اس کے ساتھ کوئی محرم نہ ہو اور جو حضرات (حکم الٰہی کی) عمومیت کو اس حدیث کی رو سے خاص کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ حدیث (حکم خداوندی میںلفظ) ’’استطاع‘‘ کی تفسیر ہے وہ حضرات کہتے ہیں کہ عورت محرم کے بغیر حج کے لیے سفر نہ کرے۔‘‘     فقہ حنفی کی مشہور ومعتبر کتاب فتاویٰ تاتار خانیہ میں ہے: ’’والمحرم فی حق المرأۃ شرط شابۃ کانت أو عجوزًا إذا کانت بینہا وبین مکۃ مسیرۃ ثلاثۃ أیام۔ وقال الشافعیؒ: یجوز لہا أن تخرج فی رفقۃ معہا نساء ثقات۔ واختلفوا فی کون المحرم شرط الوجوب أم شرط الأداء حسب اختلافہم فی أمن الطریق وفی السغنانی: والصحیح أنہ شرط الأدائ۔‘‘   (فتاویٰ تاتار خانیہ،ج:۲،ص:۴۳۴) ترجمہ:…’’ اور محرم ساتھ ہونا عورت کے لیے شرط ہے خواہ عورت جوان ہو یا بوڑھی ہو جب اس کے درمیان اور مکہ کے درمیان تین دن کا راستہ ہو اور امام شافعیv فرماتے ہیں کہ: عورت کے لیے نکلنا جائز ہے جب اس کے ساتھ ثقہ عورتیں ہوں۔ فقہاء کرام میں اختلاف ہے کہ آیا محرم کا ہونا وجوبِ حج کے واسطے شرط ہے یا ادائیگی حج کے واسطے شرط ہے؟ جب کہ منشأ اختلاف ’’امن الطریق‘‘ کی تعریف کا اختلاف ہے۔ ’’السغنانی‘‘ میں ہے کہ صحیح قول یہی ہے کہ محرم ہونا ادائیگی حج کے لیے شرط ہے۔‘‘     فتاویٰ عالمگیری میں ہے: ’’منہا المحرم للمرأۃ شابۃً کانت أو عجوزًا إذا کانت بینہا وبین مکۃ مسیرۃ ثلاثۃ أیام۔‘‘                                             (فتاویٰ عالمگیری ،ج:۱،ص:۲۱۹) ترجمہ:۔۔۔۔۔’’ان میں سے (ایک شرط) عورت کے لیے محرم کا ہونا ہے خواہ عورت جوان ہو یا بوڑھی، جب کہ اس کے اور مکہ کے درمیان تین دن کی مسافت ہو۔‘‘ ’’وفی رسائل الأرکان ثم المرأۃ إنما یجب علیہا الحج إذا کان معہا زوج أو محرم إن کان بینہا وبین مکۃ مسیرۃ السفر لما روٰی الشیخان عن ابن عباسؓ۔۔۔۔۔۔۔۔                                              (رسائل الارکان، ص:۲۳۹) ترجمہ:…’’رسائل الارکان میں ہے کہ عورت پر حج اس وقت فرض ہوتا ہے جب اس کے ساتھ شوہر یا کوئی محرم ہو، اگر اس کے اور مکہ کے درمیان سفر کی مقدار کا فاصلہ ہو، جیساکہ بخاری اور مسلم میں حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘     الکشف فی الفتاویٰ میں ہے: ’’فأما الذی ہو بالشرط فہو حج المرأۃ إذا وجدت محرمًا بعد ہٰذہٖ الأسباب السبعۃ فیکون علیہا الحج وإن لم نجد محرمًا فلیس علیہا الحج فی قول أبی حنیفۃؒ وأصحابہٖ وأبی عبد اللّٰہ وفی قول الشافعیؒ علیہا أن تخرج بنفسہا۔‘‘                                                        (النتف فی الفتاوی، ص:۳۰۳،ج:۲) ترجمہ:۔۔۔۔۔ ’’عورت پر حج لازم ہونے کے لیے ان سات اسباب کے علاوہ یہ بھی شرط ہے کہ جب اس کا محرم ہو اس صورت میں اس پر حج لازم ہوگا اور اگر اس کو محرم میسر نہ ہو تو اس پر امام ابوحنیفہv اور ان کے اصحاب اور ابوعبد اللہ کے قول کے مطابق حج لازم نہیں ہے اور امام شافعیv کے نزدیک اس کے لیے لازم ہے کہ بغیر محرم کے تنہاحج کے لیے جائے۔‘‘     فقہ حنفی کی مشہور کتاب بدائع الصنائع میں ہے: ’’وأما الذی یخص النساء فشرطان: أحدہما أن یکون معہا زوجہا أو محرم لہا فان لم یوجد أحدہما لایجب علیہا الحج وہذا عندنا، وعند الشافعیؒ ہٰذا لیس بشرط ویلزمہا الحج والخروج من غیر زوج ولامحرم إذا کان معہا نساء فی الرفقۃ ثقات واحتج بظاہر قولہٖ تعالٰی: ’’وَلِلّٰہِ عَلٰی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَیْہِ سَبِیْلاً‘‘ وخطاب الناس یتناول الذکور والإناث بلاخلاف الخ۔ ولنا ما روی عن ابن عباسؓ عن النبی a أنہٗ قال:’’ ألا لاتحجن امرأۃ إلا ومعہا محرم‘‘ وعن النبی a أنہٗ قال: ’’لا تسافر امرأۃٌ ثلاثۃَ أیام إلا ومعہا محرم أو زوج‘‘ ولأنہا إذا لم یکن معہا زوج ولا محرم لایؤمن علیہا إذا النساء لحم علی وضم إلا ماذب عنہ ولہذا لایجوز لہا الخروج وحدہا والخوف عند اجتماعہن أکثر ولہذا حرمت الخلوۃ بالأجنبیۃ وإن کان معہا امرأۃ أخریٰ والآیۃ لاتتناول النسائَ حالَ عدم الزوج والمحرم معہا لأن المرأۃَ لم تقدر علی الرکوب والنزول بنفسہا۔‘‘                                   (بدائع الصنائع،ج:۲،ص:۱۲۳) ترجمہ:۔۔۔۔۔۔’’عورتوںکے لیے جو شرائط مخصوص ہیں وہ دو ہیں: ایک یہ کہ اس کے ساتھ شوہر یا اس کا محرم ہو، اگر اس کا محرم نہ ہو تو اس پر حج فرض نہیں ہے۔ یہ ہمارا مذہب ہے اور امام شافعیv کے نزدیک محرم شرط نہیں بلکہ اس پرحج لازم ہے اور اس کے لیے شوہر اور محرم کے بغیر نکلنا جب کہ اس کے ساتھ ثقہ جماعت عورتوں کی ہو ضروری ہے۔ان کی دلیل باری تعالیٰ کے قول کا ظاہری مفہوم ہے کہ: ’’اور اللہ کے واسطے لوگوں کے اوپر اس مکان کا حج کرنا (فرض) ہے اس شخص کے ذمہ جوکہ طاقت رکھے وہاں تک پہنچنے کی۔‘‘ باری تعالیٰ کا یہ خطاب شامل ہے مذکر ومؤنث سب کو۔ہماری دلیل جوکہ حضرت ابن عباسr سے حضور a کی روایت ہے کہ فرمایا:’’ آگاہ رہو! کوئی عورت حج نہ کرے مگر یہ کہ اس کے ساتھ محرم ہو۔‘‘ اور حضور a سے مروی ہے کہ فرمایا: ’’نہیں سفر کرے کوئی عورت تین دن کا مگر یہ کہ اس کے ساتھ محرم یا شوہر ہو۔‘‘ کیونکہ اگر اس کے ساتھ شوہر یا محرم نہ ہو تو وہ (فتنہ سے) مامون نہیں ہوگی، کیونکہ عورتوں کی مثال قصائی کے تختہ پر رکھے گئے گوشت کی ہے جس کی حفاظت ضروری ہے، اسی لیے اس کا تنہا نکلنا جائز نہیں۔ (امام شافعیv کی بات کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ: (نیز عورتوں کے اجتماع سے خوف فتنہ زیادہ ہے، اسی لیے تو اجنبی کے ساتھ خلوت حرام ہے، اگرچہ اس کے ساتھ دیگر عورتیں بھی ہوں اور مذکورہ آیت ان عورتوں کو شامل نہیں ہوگی جن کا شوہر یا محرم نہیں۔ (نیز یہ کہ) عورت سواری پر سوار ہونے اور اس سے اترنے پر تنہا قدرت نہیں رکھتی۔‘‘     علاوہ ازیں تمام فقہائے کرام اور محدثین ومفسرین کرام نے اس بات کی تصریح فرمائی ہے کہ عورتوں کے لیے بغیر محرم کے سفر کرنا جائز نہیں۔ اختصاراً وہ عبارتیں نقل کرنے کی بجائے صرف چند کتابوں کے حوالے درج کیے جاتے ہیں: تفسیر مظہری، ص:۹۷، ج:۱۔ عمدۃ القاری، ص:۲۲۱، ج:۱۰۔ الجوہرۃ النیرۃ، ص:۱۹۳، ج:۱۔ الفتاویٰ السعیدیہ، ص:۲۰، ج:۱۔ مجمع الانہر شرح ملتقی البحر، ص:۲۶۲، ج:۱۔ تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق، ص:۴، ج:۲۔ المجموع، ص:۸۷، ج:۷ (شوافع) فتاویٰ عثمانی، ص:۱۷۔ احسن الفتاویٰ، ص:۵۲۲، ج:۴ وغیرہ     مذکورہ بالا عبارات سے واضح ہے کہ عورتوں کے حج پر جانے کے لیے شوہر یا کسی محرم کا ساتھ ہونا ضروری ہے، بغیر محرم کے عورتوں کے لیے جانا جائز نہیں۔ یہی مسلک امام ابوحنیفہv اور امام احمدv کا ہے اور تمام فقہاء احنافؒ کی یہی تحقیق ہے۔      الجواب صحیح                    الجواب صحیح                        کتبہ     ابوبکرسعید الرحمن             نظام الدین شامزی                محمد عبد القادر                                            دار الافتاء جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی

 

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین