بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

علوم شرعیہ کے حصول میں علمِ معقول (منطق) کی اہمیت!

علوم شرعیہ کے حصول میں

 علمِ معقول (منطق) کی اہمیت!

 

   منطق یہ’’ نطق ینطق‘‘ باب’’ ضرب یضرب‘‘ سے مصدر میمی یا اسم ظرف ہے، اگر مصدر میمی ہو تو اس کا معنی ہوگا: بولی، گفتگو، گویائی اور اگر اسم ظرف ہو تو اس کا معنی ہوگا: بولنے کی جگہ۔
    منطق کا اصطلاحی معنی ہے:
    ’’أٰلۃ قانونیّۃتعصم مر اعاتہا الذہن عن الخطأ فی الفکر‘‘۔
    ترجمہ:۔’’منطق ایسا قانونی آلہ ہے جس کی رعایت کرنا ذہن کو فکری غلطی سے بچاتا ہے‘‘۔
    یوں تو ہر انسان کی فطرت ہے کہ وہ ہربات کو دلیل کے آئینے سے دیکھتا ہے، معاملہ کے ہر پہلو کو مختلف پیرایوں سے ذہن میں ترکیب دیتا ہے، پھر ایک راہ متعین کرلیتا ہے، یہی منطق ہے، لیکن اس کا باقاعدہ اظہار سب سے پہلے حضرت ادریس علیہ السلام نے معجزانہ طریقے سے کرکے اپنے مخالفین کو ساکت وعاجز کیا، اس کے بعد حکیم افلاطون (المتوفی ۴۲۱ ق م ) نے منطق کو وضع کیا، لیکن یہ تدوین نامکمل تھی، اس کے بعد حکیم ارسطاطالیس (ارسطو) (المتوفی ۴۲۲ ق م) نے اسکندر رومی کے حکم سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ۳۳۲ سال قبل منطق کو کامل طور پر یونانی زبان میں مدون کیا اور’’ معلم اول‘‘ کے لقب سے مشہور ہوئے۔ ۱۹۸ھ میں مامون الرشید کے زمانے میں یونانی فلسفہ عربی زبان میں منتقل کیاگیاتو منصور بن زح سامانی نے حکیم ابونصر محمد بن طرقان فارابی کو دوبارہ تدوینِ منطق کا حکم دیا ،اسی لئے فارابی کو’’ معلم ثانی‘‘کہا جاتا ہے۔ مگر ان کی تحریریں کچھ منتشر تھیں، اس وجہ سے سلطان مسعود نے شیخ ابوعلی حسین بن عبد اللہ بن سینا المعروف بوعلی سینا (المتوفی ۴۲۷ھ) کو منطق کی تدوین کا حکم دیا، انہوں نے منطق کو انتہائی بسط وتفصیل کے ساتھ تیسری دفعہ مدون کیا اور فارابی کی تصانیف سے استفادہ کرکے اٹھارہ جلدوں میں’’ الشفاء‘‘ جیسی عظیم المرتبت کتاب لکھی اور ’’معلم ثالث‘‘ اور شیخ المنطق جیسے القابات سے ملقب ہوئے۔
     مسلمانوں کو تقریباً پہلی دو صدیوں تک یونانی علومِ منطق وفلسفہ کا کوئی علم نہ تھا، لیکن تیسری صدی ہجری میں جب اسلام کے حلقہ بگوشوں کا دائرہ وسیع ہونے لگا اور عجم بھی جوق درجوق اسلام میں داخل ہونے لگے تو یونانی فلاسفہ مشرک اور بت پرست عقلی راہ سے اسلام پر حملہ آور ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات پر اعتراضات کرنے لگے۔ اہل حق اس فتنہ کی سر کوبی کے لئے چاق وچوبند ہوگئے، تاکہ انہیں ترکی بہ ترکی جواب دیا جائے اور اس کے لئے ضروری تھا کہ اس فن کی اصطلاحات اور طریقۂ استدلال سے شناسائی حاصل کی جائے۔ اس وقت سے اُسے سیکھنے کا سلسلہ شروع ہوگیا،چنانچہ امام غزالیؒ نے اس فن کو کام میں لایا اور اصولِ فقہ کی کتاب ’’المستصفی‘‘ میں منطق کے اصول داخل کئے، پھر آخر عمر میں ان پر تصوف کا غلبہ ہوا تو انہوں نے منطق پر رد کرکے ’’تہافۃ الفلاسفۃ‘‘ لکھی اور ایک صدی تک فلسفہ ومنطق کے ایوانوں میں زلزلہ برپا کرکے اس علم کو نیم جان کردیا، پھر ابن رُشد نے امام غزالیؒ کے رد میں ’’تہافۃ التہافۃ‘‘ لکھی اور علم منطق کو پھر سے حیات بخشی۔
    متقدمین کے نزدیک علم منطق آلہ اور ذریعہ کی حیثیت رکھتا تھا، مقصود بالذات نہ تھا، بلکہ علومِ نقلیہ کے حصول کے لئے ذریعہ تھا اورپہلے اس میں بہت سی بے کار اور فضول ابحاث تھیں، جیساکہ ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں: ’’مناطقۂ متقدمین عالَم کے حدوث کے قائل نہ تھے، ان کا مشہور مقولہ ہے: 
’’العالم مستغن عن المؤثر،وکل ماہذا شأنہ فہو قدیم، فالعالم قدیم‘‘ 
    یعنی ’’عالم کسی مؤثر (کے اثر) سے مستغنی ہے اور جو چیز ایسی ہووہ قدیم ہوتی ہے، لہٰذا عالم قدیم ہے‘‘۔ اور یہ لوگ اس کے بھی قائل تھے کہ اس عالم کے اوپر دوسرا عالم نہیں ہے، گویا یہ آخرت کا انکار ہوا اور یہ لوگ حشر اجساد کی بھی نفی کرتے تھے‘‘۔
     اس لئے بعض حضرات نے منطق کی افادیت کا انکار کرتے ہوئے اس کی مخالفت میں کتابیں لکھیں، بلکہ بہت سے حضرات نے تو منطقِ ارسطو کی تردید کرکے ان کے خیالات کو غلط ثابت کرنے کے لئے کتابیں لکھیں، جیسے: تیسری صدی میں حسن بن موسی نو بختی نے ’’کتاب الآراء والدیانات‘‘ لکھی اور اس میں ’’ارسطو‘‘ کی منطق کے بعض اہم مسائل کا رد کیا۔ چوتھی صدی میں امام ابوبکر باقلانیؒ نے ’’دقائق‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں متقدمین کی منطق کا رد کیا اور یونانیوں کی منطق پر اہل عرب کی منطق کی ترجیح ثابت کی۔ پانچویں صدی ہجری میں علامہ عبد الکریم شہر ستانیؒ (صاحب الملل والنحل) نے ’’برقلس‘‘ اور ’’ارسطو‘‘ کی تردید میں ایک کتاب تالیف کی اور قواعد منطق کے مطابق ان پر دلائلِ نقض کیا اور اسی صدی کے آخر میں امام غزالیؒ نے ’’تہافۃ الفلاسفۃ‘‘ لکھی۔ چھٹی صدی ہجری میں ابو البرکان بغدادیؒ نے اس سلسلے کو بڑی ترقی دی اور ’’المعتبر‘‘ کے نام سے ایک معرکۃ الآراء کتاب لکھی، جس میں اکثر مسائل میں ’’ارسطو‘‘ کے خیالات کو غلط ثابت کیا، البتہ متاخرین نے اس فن میں کافی تغیرات کرکے فضول ابحاث کو نکالا اور اس کو ایک مستقل علم کی حیثیت سے متعارف کرایا،علم منطق کی اس مختصر سی تاریخ کے بعد آیئے! ذرا اس کی شرعی حیثیت پر نگاہ ڈالیں۔
علمِ منطق کی شرعی حیثیت: 
     احادیثِ مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ کوئی بھی علم خواہ کسی بھی زبان وقوم سے تعلق رکھتا ہو، اُس کا سیکھنا مباح، بلکہ بعض اوقات ضروری اور واجب ہوجاتا ہے، چنانچہ شارح ’’میزان المنطق‘‘ فرماتے ہیں:
’’ عقلی طور پر یہ بات ثابت اور مسلم ہے کہ آیات قرآنیہ اور آثارِ نبویہ سے استدلال کرکے اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کی معرفت حاصل کرنا واجب ہے، اب مذکورہ طریقے سے اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کی معرفت کا حصول علم منطق پر موقوف ہے، لہذا ’’مقدم الواجب واجب‘‘ کے قاعدے سے علم منطق کا سیکھنا سکھانا واجب ہے‘‘۔
     امام غزالیؒ احیاء العلوم میںفرماتے ہیں کہ:
’’ علم منطق میں دلائل وبراہین اور تعریفات وحدود کے شرائط وعلل سے بحث ہوتی ہے اور ان چیزوں کی معرفت واجب الکفایۃ ہے، لہٰذا علم منطق کا سیکھنا بھی واجب علی الکفایہ ہوگا اور جن کتب میں ا س کی ممانعت ہے، اس سے مراد وہ منطق ہے جس میں معتزلہ وفلاسفہ ودیگر فِرَق ضالہ کے بے فائدہ شبہات وفضولیات ہیں‘‘۔
 شاہ عبد العزیزؒ فرماتے ہیں کہ:’’ علم منطق کی مثال تلوار وبندوق کی ہے، اگر ان کے خریدنے کا مقصد قتل ناحق، رہزنی وغارتگری ، مجادلہ ومکابرہ اور دین اسلام کے مقرر کردہ اصول وضوابط کا رد وابطال ہو تو سیکھنا ناجائز ہے، ورنہ جائز، بلکہ ضروری ہے‘‘۔
     حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ فرماتے ہیں کہ:
’’ اگر علم دین کے ساتھ منطق اس غرض سے پڑھاجائے کہ اس سے فہم واستدلال میں سہولت ہوتی ہے تو یہ صرف ونحو کی طرح جائز ہے اور اگر ابطالِ شرع کا کام لیا جائے تو پھر ناجائز اور تلبیسِ ابلیس شقی ہے‘‘۔
علم منطق پر ہونے والے اعتراضات اور ان کے جوابات:
    فقہ کی کتاب ’’جامع الرموز‘‘ میں لکھا ہے: ’’یجوز الاستنجاء بأوراق المنطق‘‘ اس قول کا بطلان اظہر من الشمس ہے، کیونکہ آلات واسبابِ علم کی قدر ضروری ہے۔ 
    علامہ قاضی حمید اللہ خانؒ فرماتے ہیں کہ: یہاں استنجاء سے استنجائے قلب مراد ہے‘‘۔
     امام ابویوسفؒ فرماتے ہیں:’’ من تمنطق تزندق‘‘۔ 
    امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ: ’’جو آدمی علم منطق سیکھے، اُس کو اونٹ پر سوار کرکے پورے شہر کا چکر لگوایاجائے اور خوب پٹائی کرکے یہ اعلان کیا جائے کہ یہ اس شخص کی سزا ہے جو کتاب اللہ کو چھوڑ کر فضول بحثوںمیں لگ گیا‘‘۔ 
    امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں کہ: میں علماء منطق کی نماز جنازہ نہیں پڑھتا‘‘ ۔
    امام ابوحنیفہؒ نے اپنے بیٹے حمادؒ کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا کہ:’’ تم علم منطق میں مشغول نہ ہونا، کیونکہ یہ عمر کو ضائع وبرباد کردے گا‘‘۔
     محدث صوفی عبد اللہ انصاری ہرویؒ کے نزدیک علماء منطق میں عدالت نہیں ہے، اس لئے ان سے حدیث روایت کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ 
    بعض مشائخ فرماتے ہیں کہ:’’ اگر کوئی آدمی علماء اسلام کے لئے اپنے مال کی وصیت کرے تواس میں علماء منطق شامل نہ ہوں گے‘‘۔
    ابن رشدؒ فرماتے ہیںکہ: الٰہیات میں مناطقہ وفلاسفہ کا قول معتبرنہیں ہے‘‘۔
     امام غزالیؒ آخری عمر میں علم منطق وفلسفہ سے اعراض کرکے علم حدیث کے ساتھ اس طرح مشغول ہوگئے تھے کہ وفات کے وقت صحیح بخاری ان کے سینہ پر تھی اور علم منطق کے متعلق انہوں نے مستقل کتاب ’’إلجام العوام عن  الکلام‘‘ لکھی ہے۔ 
    امام رازیؒ فرماتے ہیں کہ: ’’ہمیں پوری زندگی میں علم منطق وکلام سے ’’قیل وقال‘‘ کے علاوہ اور کچھ حاصل نہ ہوا‘‘۔
     امام الحرمین ابوالمعالی الجوینیؒ فرماتے ہیں کہ:’’ اے لوگو! علم منطق وکلام مت سیکھو، اگر مجھے یہ معلوم ہوتا کہ یہ مجھے کہاں تک پہنچا دے گا تو میں علم منطق کبھی حاصل نہ کرتا‘‘۔
     امام ابویوسفؒ ہی کا قول ہے ’’من طلب الدین بالکلام تزندق‘‘ ۔
    حضرت بہاء الدین مرجانیؒ فرماتے ہیں کہ: ’’مناطقہ کو اربابِ حق اہل السنۃ والجماعۃ اور فرقہ ناجیہ میں سے مت سمجھو ،بلکہ یہ لوگ فرق ضالہ میں سے ہیں‘‘۔
    ان تمام اعتراضات اور مذمتی اقوال کا جواب یہ ہے کہ علماء کا یہ تاثر اور نظریہ قدماء کی منطق کے بارے میں تھا، جس میں کچھ خرافات اور بہت سی فضول ابحاث تھیں۔ متاخرین کی منطق ان دونوں چیزوں سے پاک ہے، اس لئے اس کی طرف ان میں سے ایک قول بھی متوجہ نہ ہوگا۔
    منطق کے مستحسن نہ ہونے پر قاضی ابو المعالیؒ کے فتویٰ سے بھی استدلال کیا جاتا ہے کہ شاہ توران عبد اللہ ازبک کے زمانہ میں ملا عصام الدین نے علم منطق کو فروغ دیا اور جب اس کا خوب چرچا ہوا تو قاضی ابو المعالیؒ نے فتویٰ دیا کہ علم منطق کا سیکھنا سکھانا حرام ہے اور اس فتویٰ کی وجہ سے شاہ توران نے ملا عصام الدین کو اپنے تلامذہ سمیت ما وراء النہر کی طرف جلا وطن کردیا۔ اگر علم منطق کوئی اچھی چیز ہوتی تو ان کو جلا وطن نہ کیا جاتا۔اس کا جواب یہ ہے کہ ملا عصام الدین کے بعض شریر تلامذہ راستہ میں سادہ لوح انسان کو پکڑ کر یوں کہتے تھے کہ تو انسان نہیں ہے، بلکہ گدھا ہے، کیونکہ تجھ سے لاحیوان سلب ہے اور سلب عام سلب خاص کو مستلزم ہے، لہذا تجھ سے ناطقیت سلب ہے اور جس سے ناطقیت سلب ہو وہ حیوان ہوتا ہے اور گدھا بھی حیوان ہے۔ اس شرارت کی بناء پر شاہ توران نے مجبوراً ملا عصام الدینؒ کو مع تلامذہ کے جلا وطن کردیا تھا۔
    علامہ عبد العزیز فرہاریؒ شرح عقائد کی شرح ’’نبراس‘‘ میں لکھتے ہیں کہ:
’’ علماء حضرات نے علم منطق کے متعلق جو لکھا اور اس کی تعلیم سے روکا، وہ چار قسم کے لوگوں کے لئے ہے:ایک: وہ حضرات جو متعصب فی الدین ہونے کے ساتھ ساتھ حق کی اطاعت نہیں کرتے، جب اس قسم کے لوگ علم منطق وکلام سیکھیں گے تو ان کے تعصب میں اور بھی اضافہ ہوگا۔ دوسرے: وہ حضرات جن کی قوت عاقلہ تیز نہیں ہے اور منطق کے حقائق تک ان کورسائی نہیں ہوسکتی، اس قسم کے لوگ جب علم منطق سیکھیں گے تو ایمان خطرے میں ہوگا۔ تیسرے: وہ حضرات جو فلاسفہ ومناطقہ کے دقائق اور غیر ضروری باتوں میں اس طرح گھس جاتے ہیں کہ عقائد اسلامیہ اور محتاج الیہ اشیاء کو چھوڑ دیتے ہیں۔چوتھے: وہ حضرات جو عند التعارض منطق کو کتاب وسنت پر ترجیح دیتے ہیں‘‘۔
     بہرحال آج بھی اگر اس کے قواعد وضوابط کی رعایت وپابندی کی جائے تو انسان غلطی سے محفوظ رہ سکتا ہے، لیکن اگر کوئی اس کو صحیح عقیدے کے خلاف استعمال کرے تو یہ خود اس کا قصور ہوگا، نہ کہ فن کا۔
عاب المنطق قوم لاعقول لہم 
ولیس لہ إذا عابوہ من ضر
عیب نکالا بے عقل لوگوں نے منطق میں
اس میں منطق کا ہوا نقصان کوئی نہیں
وماضر لشمس الضحی والشمس طالعۃ
أن لایری ضوء ہا من لیس ذا بصر
آفتاب طالع کے لئے یہ بات نقصان دہ نہیں 
کہ اندھا آدمی روشنی اس کی دیکھے نہیں
گر سمجھ آتی نہیں منطق کی تو گھر جا بیٹھئے
 اس لئے کہ یہ بات تیرے بس کی نہیں
    اب آیئے! اس طرف نگاہ ڈالتے ہیں کہ علومِ شرعیہ کے حصول میں علم منطق کی کتنی اہمیت ہے؟ چنانچہ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ فرماتے ہیں کہ:
’’ علم منطق سے علوم شرعیہ میں عمقِ نظر اور دقتِ فکر پیدا ہوتی ہے۔ اگر اس کو استعداد کے لئے پڑھا جائے تو خدائی نعمت ہے اور اس سے دینیات سمجھنے میں معاونت ملتی ہے، لطیف فرق اس سے سمجھ میں آتے ہیں۔ علوم نقلیہ غذائیں اور علوم عقلیہ دوائیں ہیں، اول الذکر مقاصد میں سے ہیں اور ثانی الذکر ضروریات میں سے ہیں اور ضروریات کو ضروریات کی حد تک استعمال کیا جاتا ہے، اس میں غلو ممنوع ہے‘‘۔
     ابو نصر فارابیؒ نے علم منطق کو رئیس العلوم کہا ہے، کیونکہ صحت وسقم، قوت وضعف میں منطق جملہ علوم پر حاکم ہے۔ بوعلی سیناؒ نے اس کو ’’خادم العلوم‘‘ کہا ہے اور مزید لکھا ہے کہ علم منطق جملہ علوم کے ادراک وتحصیل میں معین ومددگار ہے، جو اس کو نہیں جانتا وہی اس کو چھوڑتا ہے اور اس کی منفعت کا انکار کرتا ہے۔ امام غزالیؒ کا قول ہے: ’’من لم یعرف المنطق فلاثقۃ لہ فی العلوم أصلا‘‘۔یعنی’’جو منطق نہیں جانتا،اُسے علوم میں پختگی بالکل نہیں ہوتی‘‘۔
    شاہ عبد العزیزؒ فرماتے ہیں:’’ اس کی حیثیت آلے کی ہے اور آلہ ہمیشہ اس چیز کا تابع ہوتا ہے جس کا اسے آلہ بنایا جائے‘‘۔
     قاضی ثناء اللہ پانی پتی ؒ فرماتے ہیں کہ:’’ مگر منطق کہ خادم ہمہ علوم است ،خواندنِ آں البتہ مفید است‘‘۔ترجمہ:’’مگر منطق جو تمام علوم کے لئے خادم ہے، اس کا پڑھنا یقینا مفید ہے‘‘۔
     جلال الدین رومیؒ فرماتے ہیں کہ:’’ منطق اور حکمت تھوڑا بہت سیکھ لینا مباح ہے‘‘۔     حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں کہ:’’ ہم تو جیسا بخاری کے مطالعہ میں اجر سمجھتے ہیں، ویسے ہی کتب منطق کے مطالعہ میں اجر سمجھتے ہیں‘‘۔ منطق کے فوائد پر نظر ڈالتے ہوئے علامہ طحطاویؒ فرماتے ہیں کہ:’’ یہ اعم العلوم ہے، کیونکہ اس کے ذریعے جاہل، عالم، دیہاتی شہری سب کے اندر قوت گویائی پیدا ہوتی ہے‘‘۔
منطق تو منطق ہے اس کے ماہر کم ملتے ہیں
ورنہ جاہل تو ہر راہ میں دم بدم ملتے ہیں
    اب آیئے! قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں منطق کے طرزِ استدلال کی جو آیات واحادیث ہیں وہ آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں، چنانچہ خلفائے راشدینؓ کی صداقت وحقانیت اسی منطق کے ذریعے قرآنی آیات سے ثابت کی جاسکتی ہے:
قرآن سے پہلی مثال:
     ’’الَّذِیْنَ إِنْ مَّکَّنَّا ہُمْ فِیْ الأَرْضِ أَقَامُوْا الصَّلٰوۃَ وَأٰتُوْا الزَّکٰوۃَ وَأَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْکَر‘‘ ۔آیت میں ’’الَّذِیْنَ  ‘‘سے خلفائے راشدینؓ مراد ہیں۔’’ إِنْ مَّکَّنَّا ہُمْ فِیْ الأَرْضِ‘‘ مقدم ہے ’’أَقَامُوْا الصَّلٰوۃَ‘‘ تا آخر الآیۃ تالی ہے اور مقدم اور تالی کے درمیان لزوم کا علاقہ ہوتا ہے، اب خلفاء راشدینؓ کے لئے جب مقدم ثابت ہے (یعنی ان کو حکومت ملی) تو تالی (یعنی اقامت صلوۃ، ایتاء زکوۃ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر) بھی ان کے لئے ثابت ہوگا۔
قرآن سے دوسری مثال:
     ’’وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتَانِ‘‘ صغری ہے۔’’ إِنَّمَا یَخْشٰی اﷲَ مِنْ عِبَادِہٖ العُلَمآئُ‘‘ کبری ہے۔’’ فللعماء جنتان‘‘ نتیجہ ہے۔
حدیث کی مثال:
    ’’کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ صغری ہے، ’’کل ضلالۃ فی النار‘‘ کبری ہے، ’’البدعۃ فی النار‘‘ نتیجہ ہے۔
     ان تمام دلائل وشواہد وبراہین سے معلوم ہوا کہ علم منطق کا حصول ضروری ہے۔ علم منطق اگرچہ علوم مقصودہ میں سے نہیں، لیکن مفید ہے اور علوم آلیہ میں سے ہے۔ یہ مبتدیوں کے لئے تربیت ہے اور کاملین کے لئے تکمیل فکر ہے۔ اس کے ذریعے تعقل، ذہنی ورزش اور تشحیذ اذہان ہوتی ہے۔ عقلیت پسند ملحدین اور فلاسفہ کا رد اسی کے ذریعے ممکن ہے۔ ذہنی نظم، فکری کاوش اور سلف کے علمی ذخیرے سے استفادہ اسی کے ذریعے ممکن ہے۔ ملحدین ،مستشرقین اور عقل پرستوں کے اسلام پر نظریاتی حملوں کا جواب اور ان کے دلائل کی کاٹ اور ان کے قائم کردہ شبہات کے قلعوں کو ریت کی دیوار ثابت کرنے کے لئے ’’وَجَادِلْہُمْ بِالَّتِیْ ہِیَ أَحْسَنُ،، پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اس فن کو اپنے سینے سے لگاکر اس کو اپنا حق دلانا ہوگا۔
العلم للرحمن جل جلالہ 
وسواہ فی جہلاتہ یتغمغم
ما للتراب وللعلوم وإنما 
یسعی لیعلم أنہ لایعلم

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین