بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

علماء کی صحبت کے بغیر علم آزمائش وابتلاء ہے

 علماء کی صحبت کے بغیر علم آزمائش وابتلاء ہے

دنیا میں ہر کمال کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ صاحب کمال کی خدمت میں رہ کر وہ کمال حاصل کر لیا جائے۔ معمولی سے معمولی صنائع اور عام سے عام پیشوں کے لیے بھی کسی استاذ ورہنما کی ضرورت مسلم ہے۔ بغیر استاذ کے نری عقل وذہانت اور طباعی سے کوئی کمال صحیح طور پر حاصل نہیں ہوسکتا۔انجینئری ہو یاڈاکٹری اور طبابت ہو، ہر صنعت وحرفت کے لیے ابتداء ً  عقل کی رہنمائی کے لیے کسی استاذ کی حاجت یقینی ہے۔ جب انسانی عقل کے پیدا کر دہ فنون وعلوم کے حاصل کر نے کے لیے ایک کامل کی صحبت ضروری ہے تو علوم نبوت اور معارفِ انبیاء اور حقائق شریعت کے لیے استاذ ور ہنما سے کیسے استغناء ہوسکتا ہے؟ کیونکہ یہ علوم ومعارف تو عقل وادراک کے دائر ے سے بالا تر ہیں اور وحی ربّانی کے ذریعہ سے امت کو پہنچے ہیں۔ آسمانی تر بیت اور ربانی ہدایات وار شاد کے ذریعہ سے اس کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ پھر ان ربانی علوم میں الفاظ سے زیادہ مر بی کی تو جہات اور اس کی عملی صحبت کو دخل ہوتا ہے اور تعلیم سے زیادہ ذہنی وفکری اور عملی تر بیت ضروری ہے، اس لیے جتنی طویل صحبت ہو گی زیادہ کمال نصیب ہوگا اور مربی ور ہنما جتنا باکمال ہوگا اتناز یادہ فائدہ اور کمال حاصل ہوگا۔ پھر ان علومِ نبوت کی غرض وغایت چونکہ ہدایت وارشاد اور مخلوقِ خدا کی رہنمائی ہے، اس لیے ان کے سمجھنے میں شیطان لعین کی عداوت واضلال اور گمراہی کا شدید اندیشہ ہوتا ہے۔ جو کمال کہ دنیوی مفاد کے لیے حاصل کر نا ہوتا ہے اس پر شیطان آرام سے بیٹھا رہتاہے، اس کو دخل کی حاجت ہی نہیں، نہ عداوت ظا ہر کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن جہاں آخرت وعقبیٰ اور دین کی بات ہوتی ہے تو شیطان اپنی شرارت کے لیے بے تاب ہوتا ہے، مختلف وسائل سے اپنی پوری طاقت صرف کرتا ہے کہ کسی طرح سے یہ رشد وہدایت‘ضلالت میںتبدیل ہوجائے۔ اور چونکہ ابلیس لعین کا سب سے بڑا کار نامہ تلبیس ہے، یعنی حق وباطل میں ایسا التباس ہوجائے کہ جو چیز ظاہری صورت کے لحاظ سے خیر ہے‘ حقیقت کے اعتبار سے شر بن جائے،پھر نفس انسانی کی کار ستا نیاں اس پر مستز اد ہیں۔ انسانی فطرت میں کبر و عجب ہے،ریا کاری و حبّ شہر ت ہے،حبّ جاہ کا مرض ہے اور ایسے شد ید وقوی امراض ہیں کہ مدتوں کی ریا ضتوں اور مجاہدوں سے ان کا ازالہ نہیں ہوتا، اس لیے نفس وشیطان کے اثرات سے بچنے کے لیے مدتوں کسی کامل کی صحبت کی ضرورت ہوتی ہے اور جب فضل الٰہی شامل حال ہو تو اصلاح ہوجاتی ہے، ورنہ انسان یو نہی علم وعقل کے صحراؤں میں بھٹکتا پھرتا ہے۔ دنیا کی علمی تاریخ کا مطالعہ کر نے کے بعد یہ حقیقت بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ جتنے فتنے پیدا ہوئے ہیں‘ سب اذکیاء اور طباع حضرات کے ذریعہ سے وجود میں آئے اور علمی دور میں اکثر فتنے علم کے راستے سے آئے ہیں، بلکہ علماء حق میں بھی بہت سے اذکیاء زمانہ اپنی شدتِ ذکا وت کی وجہ سے جمہور امت سے شذ وذاختیار کر کے غلط افکار ونظر یات کا شکار ہوگئے اور وہاں زیادہ تر یہی حقیقت کار فر مارہی کہ اپنے تبحر وذ کا وت پر اعتماد کر کے علمی کبر اور اعجاب بالرأی کے مرض میں مبتلا ہوئے۔ زیادہ صحبت نہیں ملی اور کہاں سے کہاں نکل گئے۔ ہمارے اس دور میں بھی اس کے بہت سے نظا ئر موجود ہیں اور چونکہ علمی ذہانت تو ہوتی ہی ہے اور بسااوقات بہت عمدہ بات بھی کہہ جاتے اور لکھ جاتے ہیں، اس لیے ان کی وہ عمدہ باتیں مزید فتنہ کا باعث بن جاتی ہیں اور جن حضرات کو زیادہ صحبت اور علمی گہرائیاں نصیب نہیں ہیں وہ بہت جلد ان کے معتقد ہوجاتے ہیں اور ان کے امت سے مختلف شواذ اور جد ید افکار و نظریات کے بھی حامی ہوجاتے ہیں اور شیطان تو اپنے کام میں لگا ہوا ہے۔ جو شخصیت امت کی ہدایت وار شاد کے کام آسکتی تھی وہ امت میں زیغ وضلال کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ ہر دور میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ امام غزالی vنے’’مقاصد الفلا سفۃ‘‘میں لکھا ہے کہ یونانیوں کے علوم: حساب ،ہندسہ ،عنصریات وغیرہ صحیح علوم کو دیکھ کر لوگ ان کے تمام علوم کے معتقد ہوگئے، طبیعیات والٰہیات میں ان کی تحقیقات کے قائل ہو کر گمراہ ہوگئے۔ امام غزالی v کی یہ بات بہت عجیب ہے اور بالکل صحیح ہے۔ شیطان کو اس قسم کے مواقع میں اضلال کا بہت اچھا مو قع مل جاتا ہے۔ بہرحال جب انتہائی علمی قابلیت والے، انتہائی ذکاوت والے فتنوں میں مبتلا ہو سکتے ہیں تو ایسے حضرات کہ جن میں علمی قابلیت بہت کم لیکن قلمی قابلیت بہت زیادہ ہو، صحبت ِاربابِ کمال سے یکسر محروم ہوں،طباع وذہین ہوں، وہ تو بہت جلد اعجاب بالرأی کی خطر ناک بلا میں مبتلا ہو کر تمام امت کی تحقیر اور تمام تحقیقاتِ امت کا استخفاف اور تمام سلف صالحین کے کار ناموں کی تضحیک اور اول سے لے کر آخر تک تمام پر تنقید کر کے خطر ناک گہرے گڑھے میں گر کر تمام نسل کے لیے گمراہی کا باعث بن جاتے ہیں۔  اس قسم کے لوگوں میں سے آج کل کی ایک مشہور شخصیت جناب ابو الا علیٰ صاحب مودودی کی ہے،جو بچپن ہی سے طباع وذہین مگر معاشی پر یشانی میں مبتلا تھے۔ ابتدا میں اخبار’’ مدینہ بجنور‘‘ میں ملازم ہوئے اور پھر دہلی میں جمعیت علماء ہند کے اخبار’’مسلم‘‘ سے وابستہ رہے، پھر چند سالوں کے بعد اخبار ’’الجمعیۃ دہلی‘‘ میں ملازم ہوئے جو جمعیت علماء ہند کا تر جمان تھا، دہلی سے نکلتا تھا، غالباً سہ روز تھا۔ تاریخ کے جوا ہر پاروں کے عنوان سے ان کے مضا مین بہت آب وتاب سے نکلتے تھے۔ اس طرح مودودی صاحب کی قلمی تر بیت مولانا احمد سعید صاحب کے ذریعہ ہوتی گئی۔ والد مر حوم کی وفات کی وجہ سے اپنی تعلیم نہ صرف یہ کہ مکمل نہ کرسکے، بلکہ بالکل ابتدائی عربی تعلیم کی کتابوں میں رہ گئے۔ نہ جد ید تعلیم سے بہر ہ ور ہو سکے۔ پرائیو یٹ انگر یزی تعلیم حاصل کی اور انگریزی سے کچھ مناسبت ہو گئی۔ اس دور کے اچھے لکھنے والوں کی کتابوں اور تحریرات اور مجلات وجر ائد سے بہت کچھ فائدہ اٹھا یا اور قلمی قابلیت روز افزوں ہوتی گئی۔ بدقسمتی سے نہ کسی دینی در سگا ہ سے فیض حاصل کر سکے، نہ جد ید علم کے گر یجو یٹ بن سکے۔ نہ کسی پختہ کار عالم دین کی صحبت نصیب ہوسکی اور ایک مضمون میں خود اس کا اعتراف کیا ہے جو عرصہ ہوا کہ ہندوستان متحدہ میں مو لانا عبد الحق مد نی مراد آبادی کے جواب میں شائع ہوا تھا۔ بلکہ بد نصیبی سے نیاز فتح پوری جیسے ملحد وزندیق کی صحبت نصیب ہوئی، ان سے دوستی رہی، ان کی صحبت ور فاقت سے بہت کچھ غلط رجحانات ومیلانات پیدا ہوگئے۔ حیدر آباد دَکن سے۱۹۳۳ء میں ماہنا مہ’’تر جمان القرآن‘‘ جاری کیا، آب وتاب سے مضامین لکھے، بہتر سے بہتر پیرائے میں کچھ علمی وقلمی چیزیں ابھرنے لگیں۔ ان دنوں ملک کی سیاسی فضا مر تعش تھی، تحریک آزادیِ ہند فیصلہ کن مراحل میں تھی، ہند وستان کے بہتر ین دماغ اسی کی طرف متوجہ تھے، مودودی صاحب نے سب سے ہٹ کر اقامتِ دین اور حکومت ِالٰہیہ کا نعرہ لگایا اور تحریک آزادی کی تمام قوتوں پر بھرپور تنقید کی۔ ان کے بھولے بھالے مداح یہ سمجھے کہ شاید دین قیم کا آخری سہارا بس مودودی صاحب کی ذات رہ گئی ہے، چنانچہ بہت جلد مولانا سید سلیمان ندویؒ، مولانا مناظر احسن گیلانیؒ اور عبد الماجد دریاآبادیؒ کے قلم سے خراج تحسین وصول ہونے لگا۔ ظا ہر ہے کہ اس وقت مودودی صرف ایک شخص کا نام تھا۔ نہ اس وقت اس کی دعوت تھی، نہ جماعت تھی، نہ تحریک تھی۔ ان کی تحریرات اور زور دار بیانات سے بعض اہل حق کو اُن سے تو قعات وابستہ ہوئیں۔ ان کی آمادگی اور چوہدری محمد نیاز کی حوصلہ افزائی سے پٹھان کوٹ میں ’’دارالاسلام‘‘کی بنیاد ڈالی گئی۔ لیگ وکا نگر یس کی رسہ کشی شروع ہو گئی تھی، ان کے قلم سے ایسے مضا مین نکلے اور سیاسی کشمکش کے نام سے ایسی کتاب وجود میں آگئی کہ ہم نوا حضرات سے اس کو خراج تحسین حاصل ہوا اور سیاسی مصالح نے اس کو پر وان چڑھایا۔ لا ہور میں اجتماع ہوا اور با قاعدہ امارت کی بنیاد ڈالی گئی اور ان کی ایک لکھی تقر یر پڑ ھی گئی جس میں بتا یا گیا کہ امیرِ وقت کے لیے کیا کیا امور ضرور ہیں۔ اربابِ اجتماع میں مشہور شخصیتیں جناب مولانا محمدمنظور نعمانیؒ، مولانا ابو الحسن علی ندویؒ، مولانا امین احسن اصلاحی اور مولانا مسعود عالم ندوی بھی تھے،بڑے امیر منتخب ہوگئے اور چار امراء یہ حضرات امیر ماتحت منتخب ہو گئے۔ جماعت اسلامی باقاعدہ وجود میں آگئی، اس کا دستور آیا، اس کا منشور آیا، لوگوں کی نگا ہیں اُٹھیں، ہرطرف سے امید یں وابستہ ہوگئیں، لیکن ۶ ؍ماہ کا عرصہ نہیں گزرا ہوگا کہ مولانا نعمانیؒ، مولانا علی میاںؒ مستعفی ہو گئے اور ان کو ان کی علمی کمزوریاں اور اخلاص کا فقدان نظر آیا، ساتھ نہیں دے سکے، لیکن ان حضرات نے پھر بھی پردہ پوشی کی اور امت کے سامنے صاف وصریح وجۂ علیحد گی ظا ہر نہیں فرمائی۔ میں اس وقت جا معہ اسلامیہ ڈابھیل میں تد ریسی خدمات انجام دیتا تھا، میں نے ان دو بزرگوں سے جدائی کے وجوہ دریافت کیے، بہت کچھ کہا، لیکن کوئی صاف بات نہیں بتلائی، لیکن میں سمجھ گیا۔ مولانا مسعود عالم مر حوم اور مولانا امین احسن اصلاحی کو بہت کچھ معتقدات وطریقہ کار میں موافقت تھی اور یہ دونوں بزرگ عرصہ تک مودودی صاحب کے دست وباز و بنے رہے۔ مولانا مسعود عالم مرحوم نے عربی ادب کے ذریعہ خدمات انجام دیں اور مودودی صاحب کی تحریرات اور کتابوں کے آب وتاب سے عربی تر جمے کیے اور ادبی تر بیت کر کے چند شاگردوں کو بھی تیار کر دیا۔ مولانا اصلاحی نے اپنے خاص علمی ذوق وانداز سے مودودی صاحب کی تحریک کو پروان چڑھایا، اچھے اچھے رفقاء کار، اربابِ قلم اور اربابِ فن شامل ہوگئے۔ کیمونزم کے خلاف اور بعض دینی مسائل پر عمدہ عمدہ کتابیں لکھی گئیں۔ سود خوری، شراب نوشی، پردہ وغیرہ پر اچھی کتابیں آگئیں۔ تفہیمات وتنقیحات میں بعض اچھے اچھے مضا مین آئے۔ جدید نسل کی اصلاح کے لیے کتا بیں تالیف کی گئیں۔ عرب ممالک میں خصوصًاسعودی عرب کو متأثر کر نے کے لیے اور وہاں کے شیو خ کو ہم نو ابنا نے کے لیے مختلف انداز سے کام کیا اور کا میاب تدبیریں اختیار کیں اور جو رفقاء کار کے قلم سے معرضِ اشاعت میں آیا اُسے اس انداز سے پیش کیا جاتارہا کہ یہ سب کچھ مودودی کی توجہات کا رہینِ منت ہے۔ اس سے ان کی شخصیت بننی شروع ہوگئی اور تمام جماعت کے افراد کی تالیفات سے خود وجاہت کا فائدہ اٹھایا۔  خود عربی لکھنے سے معذور، انگر یزی لکھنے سے معذور ہے، نہ عربی لکھ سکتا ہے، نہ بول سکتا ہے، یہی انگر یزی کا حال بھی ہے، لیکن جو کتابیں ترجمہ کی گئیں ان کے سر ورق پر بھی لکھا گیا: ’’تا لیفات المودودی‘‘۔کہیں یہ نہیں لکھا کہ یہ ترجمہ مسعود عالم کا ہے یا عاصم حداد کا ہے۔ لوگ یہ سمجھے کہ اردو کا یہ ادیب کیا ٹھکانا عربی ادب کا بھی امام ہے۔ لیکن چند دن گزرے تھے کہ مولانا گیلانی مر حوم اور حضرت سید سلیمان مرحوم متنبہ ہوگئے کہ یہ تحریرات جد ید فتنہ انگیزی کا سامان مہیا کر رہی ہیں۔ جو کچھ خطابات تھے اور متکلم اسلام وغیرہ القاب تھے اس کو روک دیا اور مولانا گیلانی نے’’صد ق جدید‘‘ میں ’’خارجیت جدیدہ‘‘ کے عنوان سے تنقیدی مضمون لکھا۔ علمائے کرام کے زمرے میں شاید حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی v پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے اپنے مکاتیب میں اس فتنے کی نشاندہی فرمائی۔رفتہ رفتہ علماء امت کچھ نہ کچھ لکھتے رہے۔ حضرت مولانا شیخ الحدیث محمدز کر یا صاحب v نے اس وقت جو مطبوعہ ذخیرہ تھا سب کو مطالعہ فرماکر ایک مبسوط رسالہ مر تبہ فرمایا، لیکن افسوس کہ طبع نہ ہوسکا اور اس سلسلہ میں ایک مدرسِ مظاہر العلوم مولانا محمد زکریا قدوسی صاحب‘ مودودی صاحب کی طرف مائل ہو گئے تھے، ان کی اصلاح کے پیش نظر ایک مکتوب لکھا جو ’’فتنۂ مودودیت‘‘ کے نام سے ایک رسالہ کی شکل میں شائع ہوگیا ہے۔  مودودی صاحب کی بہت سی چیز یں پسند بھی آئیں اور بہت سی نا پسند بھی، لیکن عرصہ دراز تک جی نہ چاہا کہ ان کو مجروح کیا جائے اور ان کے جد ید اندازِ بیان سے جی چاہتا تھا کہ جد ید نسل فائدہ اٹھائے۔ اگر چہ بعض اوقات ان کی تحریرات میں نا قابل برداشت باتیں بھی آئیں، لیکن دینی مصلحت کے پیش نظر بر داشت کر تا رہا اور خاموش رہا، لیکن اتنا اندازہ نہ تھا کہ یہ فتنہ عالم گیر صورت اختیار کرے گا اور اکثرعرب ممالک میں یہ فتنہ بری صورت اختیار کرے گا اور دن بدن ان کے شاہکار قلم سے نئے نئے شگو فے پھوٹتے رہیں گے۔ صحابہ کرام sاور انبیاء کرام o کے حق میں ناشائستہ الفاظ استعمال ہوں گے۔ آخر’’تفہیم القرآن‘‘ اور ’’خلافت وملو کیت‘‘اور’’تر جمان القرآن‘‘ میں روز بر وز ایسی چیزیں نظر آئیں کہ اب معلوم ہوا کہ بلاشبہ ان کی تحر یر ات وتالیفات عہدِحاضر کا سب سے بڑا فتنہ ہے۔ اگر چہ چند مفید ابحاث بھی آگئی ہیں’’وَإِثْمُھُمَا أَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِھِمَا‘‘والی بات ہے، اب حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ سکوت‘ جرم عظیم معلوم ہوتا ہے اور چالیس سال جو مجر مانہ سکوت کیا اس پر بھی افسوس ہوا اور اب وقت آگیا ہے کہ بلاخوف لو مۃ لا ئم الف سے یاء تک ان کی تالیفات وتحریرات کو مطالعہ کر کے جو حق وانصاف ودین کی حفاظت کا تقاضا ہو وہ پورا کیا جائے ۔ واللّٰہ سبحانہٗ ولیُّ التو فیق۔

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین