بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

علم، اس کی اقسام اور اس کے فوائد

 

 علم: اس کی اقسام اور اس کے فوائد

    علم ‘دین کا ہو یا دنیا کے کسی شعبے کا، وہ بہر حال انسانیت کے لیے تمغۂ فضلیت اور طرۂ امتیاز ہے اور تعلیم کا مقصد فضل وکمال سے آراستہ ہونا اور میراثِ انسانیت کا حاصل کرنا ہے۔ موضوع کے لحاظ سے علم کی دو قسمیں قرار پاتی ہیں: ۱:… دینی علوم اور ۲:… دنیاوی علوم۔     دینی علوم کے اصل ثمرات وبرکات تو آخرت ہی میں ظا ہر ہوں گے، تاہم جب تک دنیا میں اسلام کی عزت ورفعت کا دور دورہ رہا دنیا میں بھی اس کی منفعتیں ظاہر ہوتی تھیں۔ علماء دین‘ قاضی، قاضی القضاۃ، مفتی اور شیخ الاسلام کی حیثیت سے محاکمِ عدلیہ اور محاکمِ احتساب کے مناصب پر فائز ہوتے تھے۔ ملک وملت کے لیے ان کا وجود سایۂ رحمت سے کم نہیں تھا، ان کی خدا ترسی، حق پسندی اور عدل پروری کی بدولت معاشرہ میں امن وعافیت کی فضا قائم تھی اور اسلام کے عادلانہ احکام کا نفاذ بہت سے معاشرتی امراض سے حفاظت کا ضا من تھا۔      الغرض دینی منا صب کے لیے علماء دین ہی کا انتخاب وتقرر ہوتا تھا اور آج بھی جن ممالک میں اسلامی نظام کسی حد تک رائج ہے، اس کے کچھ نمونے موجود ہیں اور دنیوی علوم جن کا تعلق براہِ راست دنیا کے نظام سے تھا، مثلاً: فلسفہ، منطق، تاریخ، جغرافیہ، ریاضی، ہیئت، حساب، طب و جراحت وغیرہ ان کے لیے تو حکومتی منا صب بے شمار تھے۔      اور علوم کی یہ تقسیم کہ کچھ علوم دینی ہیں اور کچھ دنیاوی، محض موضوع کے لحاظ سے ہے، مگر اس کے معنی دین ودنیا کی تفر یق کے ہرگز نہیں، چنانچہ دنیوی علوم اگر بے ہودہ اور لایعنی نہ ہوں اور انہیں خدمت ِخلق، اصلاحِ معاش اور تد بیرِ سلطنت کی نیت سے حاصل کیا جائے تو وہ بھی با لو اسطہ رضائے الٰہی کا ذریعہ بن جاتے ہیں اور دین ودنیا کی تفریق ختم ہوجاتی ہے اور اس کے برعکس جب دینی علوم کی تحصیل کا مقصد محض دنیا کما نا ہو تو یہ علوم بھی با لواسطہ دنیا کے علوم کی صف میں آجاتے ہیں اور اس کے لیے احادیث نبو یہ میں سخت سے سخت وعید یں بھی آئی ہیں، مثلاً: ایک حدیث میں ہے: ’’من تعلم علمًا مما یُبتغی بہ وجہ اللّٰہ لا یتعلمہٗ إلا لیصیب بہٖ عرضًامن الدنیا لم یجد عَرَفَ الجنۃ یوم القیامۃ، یعنی ریحَھا‘‘۔    (مشکوٰۃ،کتاب العلم، الفصل الثانی، ص: ۳۴، ط: قدیمی) ’’ جس شخص نے وہ علم سیکھا جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی رضا مندی حاصل ہوسکتی ہے اور پھر اس کو متاعِ دنیا کا ذریعہ بنایا تو ایسا شخص قیامت کے دن جنت کی خوشبو سے بھی محروم رہے گا۔‘‘     ایک اور حدیث میں ہے: ’’من طلب العلمَ لیُجاریَ بہٖ العلمائَ أولیُماریَ بہٖ السفھائَ أویصرف وجوہَ الناس إلیہ أدخلہ اللّٰہُ النارَ‘‘۔             (مشکوٰۃ،کتاب العلم،الفصل الثانی، ص:۳۴،ط:قدیمی) ’’ جس شخص نے اس غرض سے علم حاصل کیا کہ اس کے ذریعہ علماء سے مقابلہ کرے یا کم عقلوں سے بحث کرے یا لوگوں کی تو جہ اپنی طرف مائل کرے اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو آگ میں ڈالیں گے ۔‘‘      بہر حال ایک مقام ایسا بھی آتا ہے کہ دینی علوم بھی دنیا کے علوم بن جاتے ہیں اور دنیوی علوم بھی رضا ئے الٰہی اور طلبِ آخرت کا ذریعہ بن سکتے ہیں اور دین ودنیا کی تفریق ختم ہوجاتی ہے، گو یا اصل مدار مقاصد و نِیَّات پر ہے کہ اگر مقصد رضا ئے الٰہی ہے تو دنیوی علم بھی دین کے معاون ومددگار اور صنعت وحرفت کے تمام شعبے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے وسائل بن جاتے ہیں۔      علوم خواہ قدیم ہوں یا جد ید اور دینی ہوں یا دنیوی ان سب سے مقصد رضا ئے الٰہی کے مطابق ایک صالح معاشرہ کا قیام ہونا چاہیے اور یہ مقصد اسی صورت میں حاصل کیا جاسکتا ہے کہ جو شخص جس شعبۂ زندگی سے منسلک ہو وہ اس شعبہ سے متعلق بقدر ضرورت دینی مسائل سے بھی واقف ہو۔ مسلمان تاجر ہو تو تجارت سے متعلقہ دینی مسائل کا عالم ہو، انجینئر ہو تو عالم ہو، طبیب اور ڈاکٹر ہو تو عالم ہو، حضرت فاروق اعظم q کے عہد میں جو خلافتِ راشدہ کا تابنا ک دور ہے، ایک قانون یہ تھا: ’’ لا یبع فی سوقنا ھٰذا من لم یتفقہ فی الدین‘‘۔    (سنن الترمذی،ابواب صلوٰۃ الجمعۃ،ج:۱، ص:۱۱۰، ط:قدیمی) ’’ جو شخص فقیہ( دینی مسائل کا ما ہر) نہ ہو اس کو ہمارے بازار میں خر یدوفروخت کی اجازت نہیں۔‘‘     گویا دنیا کمانے کے لیے بھی علم دین کی ضرورت ہے، تاکہ حلال وحرام اور جائز و ناجائز کی تمیز ہو سکے اور خالص سود، سودی کا روبار اور غیر شرعی معاملات میں مبتلا نہ ہو۔     الغرض ایک دور ایسا تھا کہ ہر ہنر وکمال کا مقصد آخرت اور رضائے الٰہی تھا اور اب ایک دور ایسا آگیا ہے کہ ہر چیز کا مقصد دنیا ہی دنیا بن کر رہ گیا، بلکہ اب تو اس میں بھی اس قدر تنزل رونما ہوا ہے کہ دنیا کی بھی تمام حیثیتیں ختم ہو کر رہ گئیں، اب تو واحد مقصد صرف پیٹ رہ گیا ہے۔ دنیا کے ہر علم وہنر اور فضل وکمال کا منتہائے مقصود بس یہ سمجھا جاتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح یہ جہنم بھر جائے۔ جدید تعلیم اور اس کا مقصد     قدیم اصطلاح میں تو دینی علم ہی علم کہلانے کا مستحق تھا، دنیاوی علوم کو فنون یا ہنر سے تعبیر کیا جاتا تھا، مگر آج کی اصطلاح یہ ہوگئی ہے کہ قدیم علوم کے ما ہر کو عالم کہا جاتا ہے اور جدید علوم کے ما ہرین کو تعلیم یافتہ کے خطاب سے یاد کیا جاتا ہے۔ امریکہ اور یورپ وغیرہ کے جو ممالک جد ید علوم کے امام ہیں وہاں آج بھی کسی تعلیم یا فتہ کے لیے ضروری نہیں کہ وہ کسی اسکول میں ٹیچر، کسی کالج میں پروفیسر یا سرکاری دفتر میں ملازم ہو، بلکہ وہاں تعلیم کا مقصد ہنرو کمال کی تحصیل سمجھا جاتا ہے، تاکہ ہر شعبۂ حیات میں ہنر وکمال کے مالک افراد موجود ہوں۔ ان ممالک میں ٹیکسی ڈرائیور اور بسوں کے کنڈیکٹر بھی گریجویٹ ہوتے ہیں۔ یہ کہیں بھی نہیں سمجھا جاتا کہ بی اے یا ایم اے ہونے کے بعد دکان پر بیٹھنا یا کارخانے میں جانا یا ڈرائیور بننا باعث تو ہین ہے، پھر نہ معلوم ہمارے ملک میں یہ کیوں ضروری سمجھ لیا گیا ہے کہ جو شخص تعلیم یافتہ یا گریجویٹ ہو اس کے لیے سر کاری ملا زمت لازم ہے، ورنہ اس کی حق تلفی اور اس کی ڈگری کی توہین متصوّر ہوگی ۔     بر طانوی دور میں اس جدید تعلیم کا مقصد بلاشبہ یہی سمجھایا گیا تھا کہ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں سے تیار ہونے والے افراد سرکاری مشینری کے کل پرزے بنیں گے، کیونکہ اس اجنبی ملک میں حکومت کی انتظامی ضرورت پوری کر نے کے لیے ان کو ایک ایسی نسل کی ضرورت تھی جس سے ان کی حکومت کا کاروبار چل سکے، وہ انگلستان سے اتنے انگر یز یہاں نہیں لا سکتے تھے کہ اتنے بڑے بَرِّ کوچک کا تمام کام سنبھال سکیں، انہیں دنیا کے دوسرے ممالک پر بھی حکمرانی کرنی تھی۔ کلیدی مناصب تو ضرور وہ اپنوں ہی کو دیا کرتے تھے یا پھر ان کو جو سو فیصد ان کے حاشیہ برداربن جائیں، مگر نیچے درجہ کے لیے انہیں یہیں سے آدمی مہیا کرنے تھے۔ علاوہ ازیں اس جد ید تعلیم سے انگر یز کا ایک بڑا مقصد یہ تھا کہ ہند وستانی لوگ انگریزی تہذیب وتمدن کے اتنے دلدادہ ہوجائیں کہ ظا ہر وباطن میں انگر یز ہی انگر یز نظر آئیں اور لارڈ میکالے کی پیش گوئی پوری ہوجائے۔     الغرض یہ ذہنیت انگر یزی دور کی پید اوارہے کہ تعلیم حاصل کرنا صرف ملازمت کے لیے ہے، ظاہر ہے کہ تعلیم کی رفتار میں ہر سال تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور سرکاری مناصب اور ملازمتیں محدود ہیں، تعلیمی تنا سب سے ان میں اضافے کا امکان نہیں، نہ یہ ممکن ہے کہ تمام تعلیم یا فتہ افراد کو سرکاری ملازمتوں میں کھپایا جاسکے اور یہ تو طلبہ کا مسئلہ تھا، اس پر مستزاد یہ کہ طالبات بھی اب تعلیم کے میدان میں اسی تیز رفتاری سے تر قی کر رہی ہیں اور وہ بھی ملا زمت کی خواہاں ہیں۔ جب نئی نسل کو مستقبل تاریک نظر آتا ہے تو ان میں بے چینی پھیلتی ہے اور اس کا نتیجہ اس عبرت ناک منظر کی صورت میں ظا ہر ہوتا ہے جو گزشتہ دنوں کر اچی یو نیورسٹی میں تقسیم اسناد کے موقع پر دیکھنے میں آیا کہ گو ر نر تک کے لیے آبرو بچانا مشکل ہوگیا۔ یہ ہیں جد ید تعلیم کی بر کات! اور یہ ہیں جد ید تعلیم یا فتہ حضرات، إن فی ذٰلک لعبرۃً لأولی الأبصار۔ یہ صورتِ حال تمام اہل دانش اور اربابِ اقتدار کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ اگر جدید نسل کے اس ذہنی کرب کا صحیح حل تلاش نہ کیا گیا تو اس کے نتائج اس سے زیادہ ہولناک ہوں گے۔  جدید نسل کی بے چینی اور ذہنی کرب کے اسباب     ہمارے نزدیک کرب وبے چینی کے متعدد اسباب ہیں۔ سب سے اہم تو یہ ہے کہ جد ید تعلیمی اداروں میں دینی ماحول، دینی تربیت اور دینی ذہن وفکر کی ضرورت کو کبھی محسوس نہیں کیا گیا، بلکہ اس کے برعکس نئی نسل کو دین سے بیزار کر نے کے تمام اسباب و وسائل مہیا کیے گئے، دین کو ملائیت کا نام دے کر نوخیز ذہنوں کو اس سے نفرت دلائی گئی۔ علمائے دین کے لیے طرح طرح کے القاب تجو یز کرکے انہیں تعلیم یا فتہ طبقہ کی نظر میں گر انے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ ذرائع نشر واشاعت کو تمام حدود و قیود سے آزاد کر کے انہیں بددینی کا مبلغ بنادیا گیا، اس پر مستزاد یہ کہ لادینی نظریات کا پرچار کرنے کے لیے مستقل ادارے قائم ہوئے اور سرکاری طور پر ان کی بھرپور حوصلہ افزائی کی گئی۔ اب خود سوچیے کہ جس نوخیز نسل کے سامنے گھر کا پورا ماحول بے دین ہو، تعلیم گا ہوں میں دینی ماحول کا فقدان ہو، گلی کوچوں، سڑکوں اور بازاروں سے بے دینی کا غلیظ اور مسموم دھواں اُٹھ رہا ہو، زندگی کے ایک ایک شعبہ سے دین کو کھرچ کھرچ کر صاف کردیا گیا ہو، والدین سے اساتذہ تک اور صدر سے چپڑاسی تک نئی نسل کے سامنے دینداری، خداترسی اور خوفِ آخرت کا کوئی نمونہ سرے سے مووجود نہ ہو اور جس ملک میں قدم قدم پر فواحش ومنکر ات، بے حیائی وبداخلاقی اور درند گی وشیطنت کا سامان موجود ہو، کیا آپ وہاں کی نئی نسل سے دین داری، شرافت اور انسانی قدروں کے احترام کی تو قع کر سکتے ہیں؟ جس نسل کا خمیر تخریب سے اٹھایا گیا ہو کیا وہ کوئی تعمیری کارنامہ انجام دے سکتی ہے؟ جو خود معاشرہ کے عمومی بگاڑ کی پیداوار ہو کیا وہ کسی درجہ میں بھی معاشرہ کی اصلاح کے لیے مفید اور کارآمد ہوسکتا ہے؟     تم لا کھ تعلیمی ترقی اور اعلیٰ تہذیب کے ڈھنڈورے پیٹو، لیکن خوب یاد رکھو! تعلیم کا ماحول جب تک دینی نہیں ہوگا، نئی نسل کے سامنے والدین، اساتذہ اور اہم شخصیتوں کی شکل میں اخلاق وانسانیت اور دین داری وخدا خوفی کے اعلیٰ نمونے جب تک موجود نہیں ہوں گے، تعلیم میں جب تک دینی تر بیت مطمح نظر نہیں ہوگی اور جب تک اخلاق واعمال، جذبات وعواطف اور رجحانات ومیلانات کی اصلاح نہیں ہوگی تب تک یہ مصیبت روز افزوں ہوتی جائے گی۔ تعلیم سے جب اسلامی روح نکل جائے، اخلاق تباہ ہوجائیں، انسانی قدریں پامال ہوجائیں اور مقصدِ زندگی صرف حیوانیت اور شکم پروری رہ جائے تو اس تعلیم کے یہ دردناک نتائج ظا ہر نہیں ہوں گے تو اور کیا ہوگا؟     صد حیف! کہ آج انسانیت کی پوری مشین پیٹ کے گرد گھومنے لگی ہے، آج کی تمام تعلیم، تمام تربیت اور تمام تہذیب کا خلاصہ یہ ہے کہ حیوانی زندگی کے تقاضے کیسے پورے کیے جائیں، دین جاتا ہے تو جائے، اخلاق مٹتے ہیں تو مٹیں، انسانیت پامال ہوتی ہے تو ہو، مگر ہمارے حیوانی تقاضے اور نفسانی خواہشات بہر حال پوری ہونی چاہئیں، نہ دین سے تعلق،نہ اخلاق سے واسطہ،نہ انسانیت کا شعور، نہ افکار صحیح، نہ خیالات درست، نہ خدا کا خوف، نہ آخرت کی فکر، نہ مخلوق سے حیا۔ إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔ جد ید تعلیم اور اس کے چند مہلک ثمرات      اسی جدید تعلیم اور اس کے لا دینی نظام نے لسانی عصبیت اور صو بہ پرستی کی لعنت کو جنم دیا، جس کی وجہ سے مشرقی بازو کٹ گیا اور اب کراچی اور سندھ میں بھی شب وروز اس کے دردناک مناظر دیکھنے میں آرہے ہیں، نہ معلوم اس بدنصیب قوم کا انجام کیا ہوگا۔ انسانی اقدار اور احترامِ انسانیت کا شعور پیدا کر نے کے لیے دین ومذہب کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ہم بار ہا ان صفحات میں صاف صاف کہہ چکے ہیں کہ آخرت کی نجات اور دنیا کی سعادت صرف اسلامی تعلیمات اور اسلامی ہدایات واحکامات میں مضمر ہے، اس کے سو اخسارہ ہی خسارہ ہے، تعلیم کا مقصد روح کی بالیدگی، نفس کی پاکیزگی، سیرت وکردار کی بلندی اور ظا ہر وباطن کی طہارت ونظافت ہونا چاہیے اور یہ جب ہی ہو سکتا ہے کہ اس تعلیمی قالب میں دینی روح بطور مقصد جلوہ گر ہو اور جب تم اپنے وسائل کی پوری قوت سے دین کو ختم کررہے ہو اور دین کا مضحکہ اڑاکر اُسے رسو ا کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہو تو اس کے بد تر ین نتائج کے لیے بھی تیار رہو۔ خرما نتواں یافت ازاں خار کہ کشتیم

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین