بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

علامہ محمد عبدالستار تونسویؒ کی حیات وخدمات

علامہ محمد عبدالستار تونسویؒ کی حیات وخدمات

 

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَسَلاَمٌ عَلٰی عِبَادِہٖ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی

دارالعلوم دیوبند کے فاضل، شیخ العرب والعجم شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ،  شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ، حضرت مولانا عبدالشکور لکھنویؒ، حضرت مولانا خان محمد رحمہم اللہ تعالیٰ کے شاگرد رشید ، سرمایۂ اہلسنت، رئیس المناظرین، ہزاروں علماء کے استاذومربی، اسوہ صحابہؓ کے سچے پیرو، اتحادِ امت کے داعی، نمونۂ اسلاف، شعلہ نوا مقرر، کہنہ مشق مدرس ،حضرت مولانا محمد عبدالستار تونسویؒ زندگی کی چھیاسی بہاریں گزارنے اور تقریباً ۶۰؍ برس دین متین کی بے لوث خدمت کرنے کے بعد ۸؍ صفر المظفر ۱۴۳۴ھ مطابق ۲۱؍دسمبر ۲۰۱۲ء بروز جمعہ بعد نماز عشاء خالق حقیقی سے جاملے۔   إنا للّٰہ و إنا إلیہ راجعون، إن للّٰہ ماأخذ ولہ ماأعطیٰ وکل شیء عندہٗ بأجل مسمیٰ۔ حضرت علامہ عبدالستار تونسوی نور اللہ مرقدہٗ نے ۱۹۲۶ء میں بمقام تونسہ شریف ضلع ڈیرہ غازی خان میں مولانا حکیم اللہ بخش کے ہاں آنکھ کھولی۔ آپؒ کے والد ماجد نہایت نیک سیرت، متقی، پاکباز، ذاکر وشاغل ، تہجد گزار اور شب بیدار انسان تھے۔ضلع ڈیرہ غازی خان کے مختلف اسکولوں میں تدریسی خدمت انجام دینے کے ساتھ خدمت خلق کے جذبہ کے تحت حکمت کے شعبہ سے وابستہ تھے۔ غریب ، نادار اور مفلوک الحال اشخاص کے بلامعاوضہ علاج ومعالجہ کے علاوہ ان کی مالی خدمت بھی کیا کرتے تھے۔ اپنے محلہ کی مسجد ’’خلفائے راشدینؓ  ‘‘میں چوبیس سال تک بلاتنخواہ امامت کے منصب پر فائز رہے۔ ہزاروں آدمیوں کو کتاب وسنت کی تعلیمات سے روشناس کیا، اسی کی برکت تھی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت تونسویؒ جیسی اولاد سے آپ کو نوازا۔ حضرت تونسویؒ نے ابتدائی تعلیم وتربیت اپنے والد صاحب سے لی۔ ناظرہ قرآن کریم حافظ محمد عثمانؒ سے پڑھا، درجہ کتب کی تعلیم کے لئے آپؒ کو تونسہ شریف کی معروف ومشہور دینی درس گاہ مدرسہ محمودیہ میں داخل کرایا گیا، جہاں آپؒ نے فارسی، عربی، فقہ، منطق، فلسفہ، علم کلام، علم تفسیر سے لے کر دورہ حدیث کی تعلیم مکمل کی۔ اساتذہ کا آپؒ پر اتنا اعتماد تھا کہ دورانِ تعلیم آپؒ کو نچلے درجات کے اسباق پڑھانے پر مأمور فرمایا۔ حضرت تونسویؒ کے نواسہ اور آپؒ کے مشن کے امین حضرت مولانا عبدالحمید تونسوی مدظلہ لکھتے ہیں: ’’حضرت والا نے فارسی وصرف کی کتب ماہرِ صرف وعلومِ فارسی جناب مولانا خالق داد صاحبؒ سے پڑھیں، دیگر نحووفقہ کی کتابیں مولانا احمد جراحؒ، مولانا اللہ بخشؒ اور ادب کی کتب مولانا غلام رسولؒ سے پڑھیں۔ منطق ومعقول اور فلسفہ کے فنون جامع المعقول مولانا عبدالستار شہلانی ؒفاضل ریاست رام پور سے حاصل کئے۔ اور فقہ، میراث،تفسیر وحدیث کی مبسوط کتب استاذ العلماء شیخ الحدیث مولانا خان محمد صاحبؒ فاضل دارالعلوم دیوبند سے پڑھیں۔ ابتدائی کتب سے لے کر دورہ حدیث تک تمام علوم وفنون کی تکمیل جامعہ محمودیہ تونسہ میں ہی کی‘‘۔ یہ جامعہ محمودیہ حضرت خواجہ محمود صاحبؒ نے قائم کیا، جسے ترقی وتوسیع آپؒ کے فرزند حضرت خواجہ نظام الدین تونسویؒ نے دی۔ موصوف صاحب فہم وذکاء ، پابند صوم وصلوٰۃ ، ذاکر اور علم دوست تھے۔ آپؒ کو اکابرین دیوبند سے والہانہ محبت تھی، خصوصاً حضرت مدنیؒ سے عشق کی حد تک تعلق تھا۔ تقسیم ہند کے حوالہ سے بھی آپؒ حضرت مدنیؒ کے موقف کے حامی تھے۔ جب حضرت مدنیؒ کے انتقال کی خبر حضرت خواجہ نظام الدینؒ کے ہاں پہنچی تو آبدیدہ ہوگئے ، فوراً مدرسہ محمودیہ تشریف لائے، جہاں حضرت مولانا خان محمد صاحبؒ پڑھارہے تھے۔ حضرت کی درس گاہ میں پہنچ کر روتے ہوئے فرمایا: آج آپ کے استاذ بلکہ پورے ہند کے استاذ انتقال فرماگئے ہیں۔ اس لئے آپ کو اطلاع دینے اور آپ سے تعزیت کرنے کے لئے آیا ہوں۔ افسوس! اگر میرے پاس ہوائی جہاز ہوتا تو میںضرورحضرت مدنیؒ کے جنازہ میں شریک ہوتا، مگر افسوس یہ سہولت میسر نہیں ۔ حضرت خواجہ نظام الدینؒ کی اکابرین دیوبند سے محبت وشیفتگی کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے تونسہ میں کئی مرتبہ جلسوں کا اہتمام کیا، مگر علمائے دیوبند کے علاوہ کسی دوسرے عالم کو دعوت نہیں دی، چنانچہ حضرت تونسویؒ کے بیان کے مطابق خواجہ صاحبؒ کے جلسہ میں حضرت امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ، بطل حریت مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ، اور خطیب پاکستان مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادیؒ تشریف لاتے رہے، جن کے بیانات سے ہزاروں لوگ مستفیض ہوئے۔ آپ کے استاذ شیخ الحدیث حضرت مولانا خان محمد صاحبؒ، حضرت خواجہ نظام الدین تونسویؒ مہتمم جامعہ محمودیہ اور والد صاحبؒ نے باہمی مشورہ سے طے کیا کہ اُنہیں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہٗ کی خدمت میں اکتسابِ علم کے لئے دارالعلوم دیوبند بھیجا جائے، چنانچہ ۱۹۴۵ء کے اواخر میں آپؒ کو دیوبند بھیجا گیا۔ حضرت مولانا عبدالحمید تونسوی صاحب لکھتے ہیں: ’’دارالعلوم دیوبند میں جن اساطین علم وفن اور اکابر اساتذہ سے آپؒ نے علم حدیث میں کسب فیض کیا، اُن کے اسماء گرامی یہ ہیں: شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ؒسے بخاری شریف وترمذی شریف، شیخ الادب والفقہ مولانا اعزاز علی صاحبؒ سے ابوداؤد شریف اور شمائل ترمذی، استاد الحدیث مولانا بشیر احمدؒ سے مسلم شریف ، حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیبؒ سے ابن ماجہ شریف اور استاذالحدیث مولانا فخرالحسنؒ سے نسائی شریف پڑھیں ۔ علاوہ ازیں مؤطا امام محمد اور طحاوی شریف علی الترتیب استادالحدیث مولانا عبدالخالق صاحبؒ، حضرت مولانا نافع گلؒ اور مولانا عبدالحقؒ آف اکوڑہ خٹک سے پڑھیں اور یوں علوم دینیہ سے سیراب ہوکر فیضیاب ہوئے۔ …… آپ کو مولانا شبیر احمد عثمانیؒ سے بھی استفادہ کا موقع ملا، چونکہ مولانا عثمانیؒ کی رہائش دیوبند ہی میں تھی تو آپ وقتاً فوقتاً ان کے پاس جاکر فن تفسیر وحدیث سے متعلق معلومات حاصل کرتے رہے اور حضرتؒ کی علمی مجالس اور دروس وبیانات میں شریک ہوتے رہے۔……ایک دن حضرت تونسویؒ نے شیعہ وسنی کے نزاع پر مختلف سوالات کئے اور حضرت مدنیؒ نے بڑی فراخدلی سے جوابات دیئے، یہاں تک کہ گفتگو طویل ہوگئی۔ بعد از کلام حضرت شیخ  ؒنے فرمایا کہ مولوی عبدالستار! آپ کا ذوق قابل داد ہے، میرا مشورہ ہے کہ یہاں سے فراغ کے بعد لکھنؤ چلے جاؤ، وہاں امامِ اہلسنت علامہ عبدالشکور صاحب لکھنوی سے ضرور استفادہ کرو ‘‘۔ حضرت تونسویؒ نے اپنے استاذ کے حکم کی تعمیل کے لئے دو سال حضرت مولانا عبدالشکور لکھنویؒ کے پاس گزارے اور ان سے ردِ شیعیت سیکھی اور اس کے امام ومناظر بنے۔ حضرتؒ نے تعلیم سے فراغت کے بعد اپنے مادرِ علمی جامعہ محمودیہ تونسہ کو تدریس کے لئے منتخب کیا اور دس سال تک گلستان، بوستان سے لے کر سنن ترمذی اور صحیح بخاری تک تمام کتب پڑھائیں۔ حضرت تونسویؒ کا معمول تھا کہ شعبان، رمضان میں جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں دورہ حدیث سے فراغت پانے والے طلبہ کو دورہ تدریبیہ کے دوران رد شیعیت ، فن مناظرہ کے اصول وضوابط اور اہل سنت اور تشیع کے درمیان مابہ النزاع مسائل کا حل عمدہ انداز میں ذہن نشین کرواتے تھے۔ ایک دن دورانِ سبق فرمایا کہ میں نے دس سال مدرسہ میں پڑھایا ہے، لیکن طلبہ کی عدمِ توجہ ، ان کی روایتی سستی اور غفلت کے سبب میں نے فیصلہ کیا کہ عام مسلمانوں میں جاکر اُن کو سچے عقائد ، اتباعِ سنت اور دین کی تبلیغ وتعلیم دوں، اس لئے میں نے تدریس ترک کی۔ یہی وجہ ہے کہ حضرتؒ اپنی ہر تقریر کی ابتداء میں دین کا خلاصہ اور نچوڑ سامعین کے سامنے ضرور بیان فرماتے تھے۔ عام سننے والا آدمی سمجھتا تھا کہ شاید تونسوی صاحب ایک ہی تقریر کرتے ہیں، لیکن درحقیقت حضرتؒ لوگوں کو دین کا خلاصہ بتاکر اس پر عمل پیرا ہونے کی دعوت دیتے تھے۔ حضرتؒ کے بیان کے چند اقتباسات نقل کئے جاتے ہیں، جن سے اندازہ ہوگا کہ حضرتؒ امت مسلمہ کی صلاح وفلاح اور ہدایت واستقامت کے لئے اپنے اندر کتنا درد اور جذبہ رکھتے تھے اور ساتھ ہی ساتھ ماہنامہ بینات کے توسط سے آپؒ کا پیغام قارئین بینات تک پہنچ جائے گا۔حضرتؒ کابیان خطبہ مسنونہ کے بعد اکثر وبیشتر ان اشعار اور درج ذیل جملوں سے شروع ہوتا: ‘‘محمد از تو می خواہم خدارا خدایا از تو عشق مصطفیؐ را ایمانِ ما اطاعتِ خلفاء راشدینؓ اسلامِ ما محبتِ آلِ محمد است یعنی ’’اے محمد!(صلی اللہ علیہ وسلم) ہم آپ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کو چاہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عشق مانگتے ہیں۔ خلفائے راشدینؓ کی اطاعت ہمارا ایمان ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آلؓ سے محبت کرنا ہمارا اسلام ہے۔‘‘ پھر فرماتے :یہ خالص مذہبی ، اسلامی ، اصلاحی، دینی وتبلیغی ، تعلیمی اور خیرخواہی کا پروگرام ہے، جس کی غرض وغایت رضائے الٰہی ہے۔ضروریاتِ دین کی تعلیم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ اللہ کے دربار میں وہ نیکی قابل قبول نہیں جو اللہ کے دین کی تعلیم کے مطابق نہیں۔ آج کے دور میں اکثر لوگ اپنے دل و دماغ، خواہش وخیال کی پیروی کررہے ہیں، اس لئے ملک میں بڑا انتشار ہے، کئی فرقے ہیں، کئی جماعتیں ہیں، کئی گروہ ہیں۔ آپ حضرات کتاب وسنت کے مطالعہ سے یہ بات دیکھ لیں گے کہ تفرقہ مستقل اللہ کا عذاب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کتاب مقدس میں فرمایا: میں جس قوم پر ناراض ہوتا ہوں، اس پر آسمان سے پتھر برساتا ہوں، یا زمین میں دھنسا دیتا ہوں یا گروہ گروہ اور پارٹیاں پارٹیاں بنادیتا ہوں۔ یہ فرقہ، تفرقہ، فتنہ وفساد ، بغض وعناد اللہ کا عذاب ہے۔ میرے مشائخ کی یہ کوشش ہے کہ ملک میں اتحاد ہو، یگانگت ہو، محبت وپیار ہو، اتحاد واتفاق ہو، اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا:’’وَاعْتَصِمُوْابِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعاً وَّلَاتَفَرَّقُوْا‘‘۔(آل عمران: ۱۰۳) ’’اللہ (کے دین اسلام )والی رسی کو تھام لو، اور تفرقہ نہ کرو‘‘۔ میں باشندگانِ پاکستان کو یہ درخواست کرتا ہوں کہ بھائی بھائی بن کر پاک پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازہ پر آئیں، جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنا علاج معالجہ کرائیں۔ میرے پیارے عزیزو!ہماری نجات ، ہماری کامیابی، ہماری سرخروئی پاک پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں ہے۔ میرے پیارے عزیزو!مومن کا دین مولوی یا وزیر کا بنایا ہوا نہیں، مومن کا دین کسی گورنر و صدر کا بنایا ہوا نہیں ، مومن کا دین علماء واولیاء کا بنایا ہوا دین نہیں، مومن کا دین انبیاء علیہم السلام کا بنایا ہوا نہیں، مومن کا دین خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا بنایا ہوا نہیں۔مومن کا دین وہ ہے جو اللہ نے بنایا ہے۔ میرے پیارے عزیزو!ہمارا دین دماغ انسانی کا بنایا ہوا نہیں، ہمارا دین خواہشاتِ نفسانی کا بنایا ہوا نہیں، ہمارا دین وہ ہے جو وحی ربانی سے حاصل ہوا۔ ہمارا دین وہ قواعد واصول ہیں جو اللہ تعالیٰ نے جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کئے، جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو عطا کئے۔ نہ مجھے علمیت کا دعویٰ، نہ میرے اندر زہد وتقویٰ اور ریاضت ہے، میں مسلمانوں میں سے ادنیٰ درجہ کا مسلمان ہوں، میری جماعت تنظیم اہل سنت والجماعت کی کوشش ہے کہ ہر گھر میں پاک پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت آجائے۔ میری کوشش یہ ہے کہ آپ بھائی بھائی بن کر پاک پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازہ پر آئیں، جناب رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر فیصلہ پر اپنی گردن جھکائیں۔ ہم ہر نیک کے قائل ہیں، ہر نیکی کے قائل ہیں،لیکن ایک بات ہے کہ ہر مسئلے کو اس طرح تسلیم کریں گے، جس طرح پاک پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پڑھا اور سکھا گئے ہیں۔ ہمارے اس دور میں اکثر لوگ اس کوشش میں ہیں کہ دین ہمارے تابع ہو۔ میری یہ بات یاد رکھ لیں، دین ہمارے تابع نہیں، ہم دین کے تابع ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت ہمارے تابع نہیں، ہم شریعت کے تابع ہیں۔ اللہ کا قرآن ہمارے تابع نہیں، ہم قرآن کے تابع ہیں۔ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے تابع نہیں، ہم نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ہیں۔ دل مانے یا نہ مانے، دماغ تسلیم کرے یا نہ کرے، مومن کی شان یہ ہے کہ پاک پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر فیصلہ پر گردن جھکادے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے بعد ہمیں سوچ وبچار کا کوئی حق نہیں۔ آپ حضرات آج کے بعد یہ عہد کریں کہ ہم نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے بعد اپنی خواہش اور خیال کے پیچھے نہیں جائیں گے، اپنے دماغ کے پیچھے نہیں جائیں گے، پاک پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلیں گے۔ میری تحقیق یہ ہے کہ اگر میری معروضات پر عمل کرلیا جائے تو سارا مذہبی انتشار ایک دن میں ختم ہوجائے گا۔ ہم دنیا میں امتحان کے لئے آئے ہیں، تھوڑی دنیا کے لئے تھوڑی محنت کریں، بڑی زندگی کے لئے بڑی محنت کریں۔ یہ مسئلہ یاد کرلو، اپنے بچوں کو سکھا دو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ۷۲؍ ٹولے جہنم میں جائیں گے، ایک ٹولہ جنت میں جائے گا، وہ ٹولہ ’’ماأنا علیہ وأصحابیؓ‘‘جس راستہ پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم گئے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت گئی ہے، وہ راستہ جنت کا راستہ ہے، وہ راستہ بہشت کا راستہ ہے۔ سارے جھگڑے ختم ہوجائیں گے ، کوئی دیوبندی، بریلوی، شیعہ، اہل حدیث پاک پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کا انکار نہیں کرے گا۔جناب رحمۃٌ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدینؓ‘‘۔ ’’میری سنت کو لازم پکڑو اور میرے خلفائے راشدینؓ کے طریقے کو لازم پکڑو‘‘۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’خیرالقرون قرنی ، ثم الذین یلونہم ، ثم الذین یلونہم ‘‘۔ ’’میری جماعت سب سے بہترین جماعت ہے، پھر وہ لوگ جو ان کے پیچھے آئیں، پھر وہ لوگ جو ان کے پیچھے آئیں‘‘۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تینوں کی بہتری کی گواہی دی ہے۔ ہم یہ چاہتے ہیں ہمارے گھر میں وہی دین ہو جو بہترین لوگوں کے گھر میں تھا۔ یہ سارا دین ہے، یہ میرا سارا مذہب ہے، یہ میرے سارے مسئلے ہیں، ہر آدمی کو اگر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ فیصلے لمحہ بالمحہ یاد رہیں تو کوئی فرقہ آپ کو گمراہ نہیں کرسکے گا۔ قرآن کریم میں ہے: ’’لَقَدْکَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ‘‘۔                               (الاحزاب:۲۱) ’’رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم) کی ذات میں تمہارے لئے بہترین نمونہ موجودہے‘‘۔ ’’قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ‘‘۔                      (آل عمران:۳۱) ’’اگر تم اللہ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تعالیٰ بھی تم سے محبت کرے گا‘‘۔ ’’وَالسَّابِقُوْنَ الْأَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہَاجِرِیْنَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ‘‘۔                                                           (التوبہ:۱۰۰) ’’سبقت کرنے والے مہاجرین وانصار اور وہ لوگ جو اخلاص سے اُن کی اتباع کرنے والے ہیں، اللہ اُن سے راضی اور وہ اللہ سے راضی‘‘۔ انتشار کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ان فیصلوں پر لوگوں کی نگاہ نہیں، ہر آدمی اپنے دل ودماغ ، خواہش وخیال کی پیروی کررہاہے۔ باقی کوئی مسئلہ آجائے، آپ ماہرین شریعت کے پاس جائیں۔ دنیاوی کام کے لئے دکان ومکان کے کیس کے لئے آپ حضرات ماہر وکیل تلاش کرتے ہیں، اسی طرح دین سیکھنے کے لئے ماہرین دین کے پاس جائیں‘‘۔ یہ حضرت تونسویؒ کی تقریر اور بیان کے چند اقتباسات ہیں، جس کے ہر ہر جملہ میں اتحادِ امت کا درس، فرقہ اور تفرقہ سے نفرت کا اظہار ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدینؓ کی سنت کی پیروی سے دوری کے اسباب کو بہت ہی کھلے اور واضح الفاظ میں بیان فرمایاگیا ہے۔ کاش! کہ امت مسلمہ اس مردِ درویش اور مردِ قلندر کی آواز پر کان دھرتی اور اپنے اندر موجود خامیوں، کوتاہیوں اور ناکامیوں کا اعتراف کرتے ہوئے اس کا علاج حضرت تونسویؒ کے ان فرمودات میں ڈھونڈتی۔ مجھے یاد پڑتا ہے غالباً ۱۹۸۵ء یا چھیاسی میں حضرت تونسویؒ نے دورانِ تقریر فرمایا: میں دیکھ رہا ہوں ، تمہارا دشمن جب تم پر حملہ آور ہوگا، وہ تم سے مسلک نہیں پوچھے گا کہ تم دیوبندی، بریلوی ہو، سنی ، شیعہ یا اہل حدیث ہو، وہ صرف یہ جانتا ہے کہ تم کلمہ ایک پڑھتے ہو، تمہارا رسول ایک ہے، تمہاری کتاب ایک ہے، وہ تمہیں تقسیم در تقسیم کرکے کمزور کرے گا اور پھر وہ تم سب کو ملیا میٹ اور تباہ وبرباد کرکے رکھ دے گا، اس لئے میں کہتا ہوں کہ ملک میں تفرقہ نہ کرو، بھائی بھائی بن جاؤ اور قرآن وسنت کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوجاؤ تو بچ سکوگے ۔ آج بالکل وہی حالات ہیں جن کا نقشہ اس مردِ قلندر نے چھبیس سال پہلے کھینچا تھا۔ …………………………… حضرت تونسویؒ نے پہلی شادی ۱۹۴۴ء میں دورانِ تعلیم کی، ان سے آپؒ کے چار صاحبزادے ہوئے۔ پہلی اہلیہ کی وفات کے بعد ۱۹۶۰ء میں دوسری شادی کی، جن سے چار صاحبزادے اور پانچ صاحبزادیاں ہوئیں۔ حضرتؒ کا آخری دس روزہ تبلیغی دورہ گوجرانوالہ میں جاری تھا کہ بارش اور ٹھنڈ کی وجہ سے آپؒ کو نزلہ کی شکایت ہوئی، جو صبح تک کافی حد تک بڑھ گئی تھی۔ دورہ مختصر کرکے اپنے گھر تونسہ میں تشریف لائے، افاقہ نہ ہوا، مقامی ہسپتال میں آپ کو داخل کیا گیا، دو دن زیر علاج رہنے کے بعد ہمیشہ کے لئے اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے۔دوسرے دن تین بجے جنازہ کا وقت طے کیا گیا، لیکن ملک کے طول وعرض سے جنازہ میں شرکت کی غرض سے آنے والے قافلوں کی بنا پر ایک گھنٹہ کی تاخیر ہوئی۔ آپ کے جنازہ میں شرکت کرنے والوں کی تعداد لاکھ سے اوپر بتائی جاتی ہے۔ راقم الحروف کی بھی حضرت مولانا عزیز الرحمن جالندھری دامت برکاتہم ناظم اعلیٰ عالمی مجلس تحفظِ ختم نبوت کی قیادت اور شاہین ختم نبوت حضرت مولانا اللہ وسایا صاحب کی معیت میں تعزیت کے لئے تونسہ میں حاضری ہوئی، جہاں حضرت کے صاحبزادگان : حضرت مولانا عبدالغفار صاحب جانشین حضرت تونسویؒ، مولانا عبداللطیف اور مولانا عبدالجبار سے تعزیت کی۔ ان حضرات کا کہنا تھا کہ حضرت تونسوی صاحبؒ تقریباً رات آٹھ بجے فوت ہوئے اور دوسرے دن تدفین تک حضرتؒ کے جسد خاکی سے پسینہ بہہ رہا تھا اور بدن بالکل نرم اور ملائم تھا، یوں محسوس ہورہا تھا جیسے تھکا ماندہ آدمی تھوڑی دیر کے لئے سستانے کے لئے بیٹھتا ہے، تو پسینہ بہتا ہے، ایسا پسینہ بہہ رہا تھا اور حضرتؒ کے چہرۂ انور کی دیر تک لوگ زیارت کرتے رہے۔ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے رئیس، نائب رئیس، اساتذۂ جامعہ اور ادارہ بینات حضرت کے صاحبزادگان، متعلقین  اوراقرباء سے دلی تعزیت کا اظہار کرتا ہے اور حضرت کی جدائی کے غم کو اپنا غم سمجھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ حضرتؒ کی بال بال مغفرت فرمائے، آپؒ کو جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور آپؒ کے شاگردوں، متوسلین اور عقیدت مندوں کو آپؒ کے مشن کو جاری وساری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ وصلی اللّٰہ تعالیٰ خیر خلقہٖ سیدنا محمد وعلیٰ آلہٖ وأصحابہٖ أجمعین

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین