بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

عقائدِ باطلہ کے پرچار والے ہندوانہ کارٹون بنانا اور دیکھنا

عقائدِ باطلہ کے پرچار والے ہندوانہ کارٹون بنانا اور دیکھنا

    کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:     آج کل ہندوانی طرز کے کچھ اس طرح کے کارٹون آتے ہیں، مثال کے طور پر ایک کارٹون ہے ہرکیولیس (Hercules)، اس میں کئی خدا دکھائے جاتے ہیں، جیسے اچھائی کا خدا، برائی کا خدا، وغیرہ۔ اس طرح کی فلمیں اور کارٹون کچھ اس طرز پر ہوتے ہیں کہ ان بناوٹی خداؤں کو مرکزی کردار دیاجاتاہے اور اکثر ان خداؤں کی آپس میں لڑائی دکھائی جاتی ہے اور آخر میں اچھائی کا بناوٹی خدا غالب آجاتا ہے اور برائی والا ہار جاتا ہے۔ اس کا رد عمل بچوں پر یہ ہوتا ہے کہ وہ بعد میں تبصروں میں کہتے ہیں کہ ’’ہرکیولیس‘‘ اچھائی کا خدا ہے، اس نے ایسا کردیا، وغیرہ۔ اسی طرح بالغ لوگ بھی اس میں کوتاہ ہوجاتے ہیں کہ وہ فلم کے دوران دوسروں کو بتانے کے لیے کہہ دیتے ہیں کہ یہ اچھائی کا خدا ہے، اس خدا کے پاس اتنی طاقت ہے، جبکہ دوسرے خدا کچھ کمزور ہیں، وغیرہ۔ جبکہ نیت صرف تبصرہ کی اور یہی ہوتی ہے کہ یہ سب جھوٹ ہے، لیکن زبان سے اور تبصروں میں یہ کہہ دیتے ہیں۔ برائے مہربانی اس پورے مضمون کی روشنی میں مرتب کیے گئے مندرجہ ذیل سوالات کا جواب عنایت فرمائیں:     ۱- ان جملوں کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا یہ جملے جھوٹ موٹ میں بول دینا جائز ہے؟     ۲-کیا یہ کفریہ جملے ہیں، جبکہ نیت میں ذرہ برابر بھی ان پر ایمان شامل نہیں؟     ۳- اس طرح کے جملے بولنے والوں کا کیا حکم ہے؟                 مستفتی:زین صدیقی الجواب باسمہٖ تعالٰی ہرکیولیس (Hercules) کارٹون کے ذریعہ اچھائی اور برائی کے جدا جدا بناوٹی خداؤں کا اعتقاد رکھنا اور تصور پیش کرنا اور ان کی مصنوعی لڑائی دکھاکر اچھائی کے خدا کو غالب اور برائی کے خدا کو مغلوب دکھانا یہ سارا عمل محض کفر ہے۔ اس کفریہ منظرنامہ کے بعد ان بناوٹی خداؤں کی فتح وشکست پر تبصرے کرنا اور ان بناوٹی خداؤں کی فتح وشکست اور اس سارے عمل کو جھوٹا سمجھنے کے باوجود نقل کرنا شرعاً ناجائز ہے اور حرام ہے،لہٰذا: ۱،۲:- مذکورہ جملے ’’ہرکیولیس اچھائی کا خدا ہے، اس نے ایسا کردیا۔۔۔۔ وغیرہ ‘‘ ناجائز سمجھنے کے باوجود لایعنی تبصرے کے طور پر دُھراناشرعاً کم از کم کفر کی نقل وحکایت کے زمرے میں آتے ہیں، جو کہ ناجائز ہے اور کفر کو اس طرح سے جھوٹ موٹ نقل کرنے پر بھی کفر کا اندیشہ ہے، گوکہ اچھائی اور برائی کے بناوٹی خداؤں پر ایمان کے بغیر ہی بولے جائیں۔ ۳:- ایسے جملے بولنے والے شخص پر کفر کا اندیشہ ہے، اسے اپنے سابقہ فعل پر توبہ واستغفار لازم ہے اور اپنے ایمان اور نکاح دونوں کی تجدید بھی کرنی چاہیے اور آئندہ کے لیے اس طرح کے کارٹون دیکھنے اور ان پر تبصروں سے اجتناب کریں۔مجمع الانہر میں ہے: ’’إذا وصف اللّٰہَ تعالٰی بمالایلیق بہٖ أو سخر باسم من أسمائہٖ أو بأمرٍ من أوامرہٖ أو أنکر صفۃً من صفات اللّٰہ تعالٰی… یکفر۔‘‘ (کتاب السیر والجہاد، باب المرتد، ج:۲، ص:۵۰۴، غفاریہ) فتاویٰ ہندیہ میںہے: ’’(ومنہا ما یتعلق بذات اللّٰہ تعالٰی وصفاتہٖ وغیر ذلک) یکفر إذا وصف اللّٰہَ تعالٰی بمالایلیق بہٖ أو سخر باسم من أسمائہٖ … أو جعل لہٗ شریکا… أو نسبہٗ إلی الجہل أو العجز أو النقص‘‘۔ (کتاب السیر، مطلب:موجبات الکفر انواع، ج:۲، ص:۲۵۸، بیروت ، وکذا فی البحر، کتاب السیر، باب احکام المرتدین، ج:۵، ص:۲۰۲، رشیدیہ) حدیث شریف میں ہے: ’’عن بلال بن حارثؓ قال:قال رسول اللّٰہ a… وإن الرجل لیتکلم بالکلمۃ من الشر ما یعلم مبلغہا، یکتب اللّٰہ بہا علیہ سخطہٗ إلی یوم یلقاہ۔‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح، باب حفظ اللسان، ج:۲،ص:۴۱۲، قدیمی) شرح الفقہ الاکبر میں ہے: ’’والرضا بالکفرِ کفرٌ سواء کان یکفر نفسہٗ أو یکفر غیرہٗ‘‘۔ (مطلب استحلال المعصیۃ، ص:۱۵۴) کتاب احکام المرتدین میں ہے: ’’وذکر شیخ الإسلام فی شرح السیر: أن الرضا بکفر الغیر یکون کفرا إذا کان یستجیز الکفر ویستحسنہ‘‘۔        (فصل فی اجراء کلمۃ الکفر، ج:۵، ص:۴۶۰، ادارۃ القرآن) وفیہ ایضاً: ’’والحاصل أن من تکلم بکلمۃ الکفر ہازلا أو لاعبا کفر عند الکل، ولااعتبار باعتقادہٖ کما صرح بہٖ قاضیخان فی فتاواہ، ومن تکلم بہا مخطأ أو مکرہا لایکفر عند الکل، ومن تکلم بہا عالما عامدا کفر عند الکل، ومن تکلم بہا اختیارا جاہلا بأنہا کفر ففیہ اختلاف والذی تحرر أنہٗ لایفتی بتکفیر مسلم أمکن حمل کلامہٖ علی محمل حسن أو کان فی کفرہٖ اختلاف ولو روایۃ ضعیفۃ…الخ‘‘۔                               (کتاب احکام المرتدین، ج:۵، ص:۱۳۴، بیروت) کشف الخفاء للعجلونی میں ہے: ’’(من کثر سواد قوم فہو منہم) إن رجلا دعا ابنَ مسعود ؓ إلٰی ولیمۃ فلما جاء لیدخلَ سمع لہوًا ، فلم یدخل، فقیل لہٗ: فقال: ’’إنی سمعتُ رسولَ اللّٰہ a یقول: وذکرہٗ وزاد ’’ومن رضی عمل قوم کان شریک من عمل بہ۔‘‘ (ج:۲،ص:۲۷۴،بیروت) شرح الفقہ الاکبر میں ہے: ’’ومن خرج إلی السدۃ أی مجتمع أہل الکفر فی یوم النیروز، کفر لأن فیہ إعلان الکفر، وکأنہ أعانہم علیہ وعلی قیاس مسئلۃ الخروج إلی النیروز المجوس الموافقۃ معہم فیما یفعلون فی ذلک الیوم یوجب الکفر۔‘‘ (فصل فی الکفر، ص:۱۸۶،قدیمی) مرقاۃ المفاتیح میں ہے: ’’من تشبہ نفسہٗ بالکفار مثلا فی اللباس وغیرہٖ أو بالفساق أو الفجار أو بأہل التصوف والصلحاء الأبرار فہو منہم أی فی الإثم والخیر۔‘‘ (کتاب اللباس، ج:۸، ص:۱۵۵) مجمع الانہر میں ہے: ’’ویکفر بخروجہٖ إلی نیروز المجوس والموافقۃ معہم فیما یفعلونہٗ فی ذلک الیوم۔‘‘                                                                     (کتاب السیر،ج:۳، ص:۵۱۳،غفاریہ) فتاویٰ تاتارخانیہ میں ہے: ’’اجتمع المجوس یوم النیروز، فقال مسلم: ’’خوب رسمی نہادہ اند‘‘ أو قال’’نیک آئین نہادہ اند‘‘ یخاف علیہ الکفر۔‘‘     (کتاب احکام المرتدین، ج:۵، ص:۵۱۹، ادارۃ القرآن) کنزالعمال میں ہے: ’’من کثر سواد قوم فہو منہم، ومن رضی عمل قوم کان شریکا فی عملہٖ۔‘‘                                                  (کتاب الصحبۃ من قسم الاقوال، ج:۹، ص:۲۲، بیروت)                                                                            فقط واللہ اعلم       الجواب صحیح          الجواب صحیح          الجواب صحیح                  کتبہٗ       انعام الحق          محمد عبد القادر      رفیق احمد بالاکوٹی              ملک رضوان                                                                    تخصص فقہ اسلامی                                                      جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی  

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین