بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

عشق حقیقی کا روح پَرور منظر!

عشق حقیقی کا روح پَرور منظر!

 

الحمدللّٰہ وسلام علٰی عبادہٖ الذین اصطفی

 

حج اسلام کے ارکانِ خمسہ میں سے پانچواں رکن ہے، جس کی فرضیت قرآن کریم اور سنت نبویہؐ سے ثابت ہے۔ حج صاحب ِاستطاعت مسلمان، عاقل،بالغ، آزاد مردوعورت پر زندگی میں ایک مرتبہ فرض ہے۔ جس پر حج فرض ہوجائے، اُسے اس کی ادائیگی میں جلدی کرنا چاہیے، بلاعذر تاخیر کرنا یا ہر سال اُسے ٹالتے رہنا بہت بڑی خیر سے محرومی کا باعث ہے، اس لیے کہ نہ معلوم اُسے کوئی ایساعذر پیش آجائے کہ جس کی وجہ سے وہ زندگی بھر حج پر نہ جاسکے، یا کوئی ایسی ضرورت پیش آجائے کہ یہ جمع شدہ سرمایہ سارا اس میں لگ جائے، جیسا کہ ایک حدیث میں ہے:
’’  قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: مامن عبد ولاأمۃ یضن بنفقۃ ینفقہا فیما یرضی اللّٰہ إلا أنفق أضعافھا فیما یسخط اللّٰہ وما من عبد یدع الحج لحاجۃٍ من حوائج الدنیا إلا رأی المخلفین قبل أن تقضی تلک الحاجۃ یعنی حجۃ الإسلام وما من عبد یدع المشی فی حاجۃ أخیہ المسلم قُضِیَتْ أو لَمْ تُقْضَ إلا ابتلی بمعونۃ من یأثم علیہ ولایؤجر فیہ ‘‘۔       (الترغیب والترہیب،ج:۲،ص:۱۶۹)
ترجمہ:’’حضور اقدس ا سے نقل کیا گیا کہ جو کوئی بھی مرد یا عورت کسی ایسے خرچ میں بخل کرے جو اللہ کی رضا کا سبب ہو تو وہ اس سے بہت زیادہ ایسی جگہ خرچ کرے گا جو اللہ کی ناراضی کا سبب ہو اور جو شخص کسی دنیوی غرض سے حج کو جانا ملتوی کرے گا،وہ اپنی اس غرض کے پورا ہونے سے پہلے دیکھ لے گا کہ لوگ حج سے فارغ ہوکر آگئے۔ اور جو شخص کسی مسلمان کی مدد میں پاؤں ہلانے سے گریز کرے گا، اس کو کسی گناہ کی اعانت میں مبتلا ہونا پڑے گا، جس میں کچھ بھی ثواب نہ ہو‘‘۔
یہ حدیث سند کے اعتبار سے اگرچہ کمزور ہے،لیکن ایسے امور میں ضعیف روایت ذکر کی جاتی ہے۔ اور تجربہ سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ جو لوگ نیکی کے کاموں میں خرچ کرنے سے کتراتے ہیں، اکثر ان کا مال ایسی جگہوں پر خرچ ہوجاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا سبب ہوتی ہیں، اس لیے حج فرض ہونے کے بعد اس میں تاخیر نہ کریں۔
اب یہ کہ حج کرنے پر کیا انعامات ملتے ہیں، اس پر آپ ا نے اپنے ارشادات میں کئی انعامات گنوائے ہیں، مثلاً: جس نے اللہ تعالیٰ کے لیے حج کیا، اس میں کوئی دنیوی غرض، شہرت، ریا، نمودونمائش، وغیرہ کو شامل نہ کیا اور اپنے حج کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے محفوظ رکھا اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ اکرام کا معاملہ کیا تو وہ گناہوں سے ایسا پاک اورصاف ہوگیا جس طرح کہ نومولود بچہ گناہوں کی کثافت اور میل کچیل سے صاف ہوتا ہے۔ اور نیکیوں والے حج کا بدلہ تو اللہ تعالیٰ نے بنایا ہی صرف جنت ہے ۔نیکیوں والے حج سے مراد یہ ہے کہ سفر حج میں لوگوں کو کھانا کھلائے ،ان سے نرم گفتگو کرے اور لوگوں کو کثرت سے سلام کرے۔ جب کوئی ان صفات اور اعمال سے حج کرے گا تو ایسا حج ان سب کوتاہیوںاور قصوروں کا خاتمہ کردیتا ہے، جو حج سے پہلے کیے ہوں۔ حج کرنے والاجب ’’لبیک اللّٰہم لبیک ، لبیک لاشریک لک لبیک، إن الحمد والنعمۃ لک والملک لاشریک لک‘‘ کی صدا لگاتا اوریہ تلبیہ پڑھتا ہے تو اس کے ساتھ اس کے دائیں اور بائیں جو درخت،پتھر اور ڈھیلے وغیرہ ہوتے ہیں، وہ بھی لبیک کہتے ہیں اور اسی طرح یہ سلسلہ اس کی دائیں، بائیں کی زمین کی انتہا تک چلتا ہے۔ایک حدیث میں ہے:
’’ وعن زاذان رضی اللّٰہ عنہ قال: مرض ابن عباسؓ مرضًا شدیدًا فدعا ولدہٗ فجمعہم، فقال: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: من حج من مکۃ ماشیًا حتّٰی یرجع إلٰی مکۃ کتب اللّٰہ لہٗ بکل خطوۃ سبعمائۃ حسنۃ، کل حسنۃ مثل حسنات الحرم، قیل لہٗ: وماحسنات الحرم؟ قال: بکل حسنۃ مائۃ ألف حسنۃ‘‘۔(الترغیب والترہیب،ج:۲،ص:۱۶۶)
ترجمہ:’’حضرت زاذان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،فرماتے ہیں کہ : حضرت ابن عباسؓ بہت زیادہ بیمار ہوئے تو اپنے بیٹوں کو بلواکر جمع کیا اور فرمایا: میں نے رسول اللہ ا سے یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس نے مکہ سے چل کر پیدل حج کیا، یہاں تک کہ مکہ واپس آگیا تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہر قدم کے بدلہ میں سات سو نیکیاں لکھتے ہیں، ہر نیکی حرم کی نیکیوں کی طرح ہوتی ہے۔ آپ ا سے عرض کیا گیا کہ: حرم کی نیکیاں کیسی ہوتی ہیں؟ آپ ا نے فرمایا: ہر نیکی کے بدلے ایک لاکھ نیکیاں ‘‘۔
جو حجاج کرام سفر حج میں شریعت کے تمام تقاضوں کو پورا کرتے ہیں، مثلاً: دورانِ سفر نماز باجماعت کی پابندی کرتے ہیں، مرد ہوں یا خواتین اپنی نظروں کی حفاظت کرتے ہیں، اپنے رب کی نافرمانی نہیں کرتے، اپنے ساتھیوں سے جھگڑا نہیں کرتے، احرام کی تمام پابندیوں اور ممنوعاتِ احرام کی رعایت رکھتے ہیں، خواتین پردہ کا اہتمام کرتی ہیں، حرمین کے تقدس کو پامال نہیں کرتے، حج کے ہر ہر رکن، ہر ہرواجب اور ہر ہر سنت کو اس کی روح کے مطابق ادا کرتے ہیں تو ایسے حجاج کرام کی نہ صرف یہ کہ اللہ تبارک وتعالیٰ مغفرت فرمادیتے ہیں، بلکہ ایسے حجاج کرام جس کے لیے دعا کردیں، اللہ تبارک وتعالیٰ ان کی بھی مغفرت فرمادیتے ہیں، جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے آپ ا کا یہ ارشاد مروی ہے:
’’  وعن أبی ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یغفرللحاج، ولمن استغفر لہ الحاج ‘‘۔     (الترغیب والترہیب، ج:۲، ص: ۱۶۷)
ترجمہ:’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ا نے فرمایا: حاجی کی بخشش کردی جاتی ہے اور اس کی بھی بخشش کردی جاتی ہے، جس کے لیے حاجی بخشش مانگے ‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ کا اپنے بندوں پر کتنا احسان وانعام ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب حضرت آدم علیہ السلام کو زمین پر اُتارا تو ان کے ساتھ اس بیت اللہ کو بھی آسمان سے اُتارا، اور وہ اس وقت ایسا صاف اور شفاف تھا کہ اس کے باہر سے دیکھنے والوں کو اس گھر کے اندر کی چیز نظر آتی تھی اور اندر سے دیکھنے والوں کو باہر کی چیز نظر آتی تھی اور یہ اس لیے اُتارا کہ جس طرح ملائکہ میرے عرش کا طواف اور اس کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھتے ہیں، اسی طرح زمین والے بھی اس گھر کا طواف کریں اور اس کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھیں، اور پھر اس جنت سے آئے گھر کو اللہ تعالیٰ نے طوفان کے زمانہ میں آسمان پر اُٹھالیا، اس کے بعد انبیاء کرام علیہم السلام اس گھر کا طواف اور حج تو کیا کرتے تھے، لیکن اُنہیں اس کی جگہ معلوم نہ تھی، پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کی جگہ بتلائی تو انہوں نے ان پرانی بنیادوں پر اللہ تبارک وتعالیٰ کا گھر تعمیر کیا، جیسا کہ حضور اکرم ا کے اس ارشاد میں منقول ہے :
’’  وعن عبداللّٰہ بن عمرو رضی اللّٰہ عنہما قال: لما أھبط اللّٰہ آدم علیہ السلام من الجنۃ قال: إنی مھبط معک بیتًا، أو منزلًا یطاف حولہ کما یطاف حول عرشی، ویصلی عندہٗ کمایصلی عند عرشی، فلما کان زمن الطوفان رُفِعَ، وکان الأنبیائؑ یحجونہ، ولا یعلمون مکانَہٗ فَبَوَّأَہٗ لإبراہیم علیہ الصلٰوۃ والسلام فبناہ من خمسۃ أجبل: حراء، وثبیر، ولبنان، وجبل الطور، وجبل الخیر، فتمتعوا منہ مااستطعتم‘‘۔            (الترغیب والترہیب،ج:۲،ص:۱۶۸)
ترجمہ:’’حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو جنت سے  نیچے اُتارا تو فرمایا: میں تمہارے ساتھ ایک گھر بھی اُتاررہا ہوں، جس کے ارد گرد طواف کیا جائے گا، جیسے میرے عرش کے ارد گرد طواف کیا جاتا ہے ۔ اور اس کے پاس نماز پڑھی جائے گی، جیسے میرے عرش کے پاس نماز پڑھی جاتی ہے۔ طوفان کے زمانہ میں اُسے اٹھالیا جاتا تھا اور انبیاء علیہم السلام اس کا حج کیا کرتے تھے اور اس کی جگہ کا اُنہیں علم نہ تھا، تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو وہاںٹھہرایا، پھر انہوں نے اُسے پانچ پہاڑوں (کے پتھروں )سے اُسے تعمیر کیا:حراء، ثبیر، لبنان، جبلِ طوراورجبلِ خیر، لہٰذا تم سے جتنا ہوسکے اس سے فائدہ اُٹھاؤ‘‘۔
اب یہ کہ حاجی کو اللہ تعالیٰ کے گھر کے طواف، صفا اور مروہ کے درمیان سعی، عرفات کے میدان میں وقوف، رمی جمار، قربانی، طوافِ زیارت وغیرہ جیسے اعمال پر کیا ملتا ہے، اس کے لیے آپ درج ذیل حدیث کو پڑھیں اور اپنے دل کو ٹھنڈا کریں :
’’وروی ابن عمر رضی اللّٰہ عنہما قال: کنت جالسًا مع النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی مسجد منًی، فأتاہ رجل من الأنصار، ورجل من ثقیف، فسلَّما ثم قالا: یارسول اللّٰہ! جئنا نسألک، فقال: إن شئتما أخبرتکما بما جئتما تسألانی عنہ فعلتُ، وإن شئتما أن أمسک وتسألانی فعلت؟ فقالا: أخبرنا یارسول اللّٰہ! فقال الثقفی للأنصاری: سل، فقال: أخبرنی یا رسول اللّٰہ ! فقال: جئتنی تسألنی عن مخرجک من بیتک تؤم البیت الحرام، ومالک فیہ، وعن رکعتیک بعد الطواف ومالک فیہما، وعن طوافک بین الصفا والمروۃ ومالک فیہ، وعن وقوفک عشیۃ عرفۃ ومالک فیہ، وعن رمیک الجمار ومالک فیہ، وعن نحرک ومالک فیہ مع الإفاضۃ، فقال: والذی بعثک بالحق لَعَنْ ھٰذا جئت أسألک۔ قال: فإنک إذا خرجت من بیتک تؤم البیت الحرام لاتضع ناقتک خفًّا ولاترفعہ إلا کتب اللّٰہ لک بہ حسنۃ، ومحا عنک خطیئۃ وأما رکعتاک بعد الطواف کعتق رقبۃ من بنی اسمٰعیل علیہ السلام، وأما طوافک بالصفا والمروۃ کعتق سبعین رقبۃ، وأما وقوفک عشیۃ عرفۃ، فإن اللّٰہ یھبط إلی سماء الدنیا فیباھی بکم الملائکۃ یقول: عبادی جاء ونی شعثًا من کل فج عمیق یرجون جنتی ، فلو کانت ذنوبکم کعدد الرمل ، أو کقطر المطر، أو کزبد البحر لغفرتُھا، أفیضوا عبادی مغفوراً لکم، ولمن شفعتم لہٗ، وأما رمیک الجمار فلک بکل حصاۃ رمیتھا تکفیر کبیرۃ من الموبقات ، وأما نحرک فمذخور لک عند ربک، وأما حلاقک رأسک فلک بکل شعرۃ حلقتھا حسنۃ، ویمحٰی عنک بھا خطیئۃ وأما طوافک بالبیت بعد ذٰلک، فإنک تطوف ولاذنب لک، یأتی ملک حتّٰی یضع یدیہ بین کتفیک فیقول: اعمل فیما تستقبل فقد غفر لک مامضٰی ‘‘۔                            (الترغیب والترہیب،ج:۲،ص:۱۷۰تا ۱۷۶)
یعنی:’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ: میں حضور اقدس ا کی خدمت میں منیٰ کی مسجد میں حاضر تھا کہ دو شخص ایک انصاری اور ایک ثقفی حاضر خدمت ہوئے اور سلام کے بعد عرض کیا کہ حضور! ہم کچھ دریافت کرنے آئے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: تمہارا دل چاہے تو تم دریافت کرلو اور تم کہو تو میں بتاؤں کہ تم کیا دریافت کرنا چاہتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ: آپ ہی ارشاد فرمادیں۔ حضورا نے فرمایا کہ : تم حج کے متعلق دریافت کرنے آئے ہو کہ حج کے ارادہ سے گھر سے نکلنے کا کیا ثواب ہے؟ اور طواف کے بعد دو رکعت پڑھنے کا کیا فائدہ اور صفا ومروہ کے درمیان دوڑنے کا کیا ثواب ہے ؟ اور عرفات پر ٹھہرنے اور شیطانوں کے کنکریاں مارنے کا اور قربانی کرنے کا اور طوافِ زیارت کرنے کا کیا ثواب ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ: اس پاک ذات کی قسم! جس نے آپ کو نبی بناکر بھیجا ہے، یہی سوالات ہمارے ذہن میں تھے۔ حضور ا نے فرمایا کہ: حج کا ارادہ کرکے گھر سے نکلنے کے بعد تمہاری (سواری) اونٹنی جو ایک قدم رکھتی ہے یا اٹھاتی ہے، وہ تمہارے اعمال میں ایک نیکی لکھی جاتی ہے اور ایک گناہ معاف ہوتا ہے اور طواف کے بعد دو رکعتوں کا ثواب ایسا ہے، جیسا ایک عربی غلام کوآزاد کیاہو اورصفا مروہ کے درمیان سعی کا ثواب ستر غلاموں کو آزاد کرانے کے برابر ہے۔ اور عرفات کے میدان میں جب لوگ جمع ہوتے ہیں تو حق تعالیٰ شانہٗ دنیا کے آسمان پر اتر کر فرشتوںسے فخر کے طور پر فرماتے ہیں کہ میرے بندے دور دور سے پراگندہ بال آئے ہوئے ہیں، میری رحمت کے اُمیدوار ہیں۔ اگر تم لوگوں کے گناہ ریت کے ذروں کے برابر ہوں یا بارش کے قطروں کے برابر ہوں یا سمندر کے جھاگوں کے برابر ہوں،تب بھی میں نے معاف کر دیئے۔ میرے بندو! جاؤ، بخشے بخشائے چلے جاؤ، تمہارے بھی گناہ معاف ہیں اور جن کی تم سفارش کرو، ان کے بھی گناہ معاف ہیں۔اس کے بعد حضور ا نے فرمایا کہ : شیطان کے کنکریاں مارنے کا حال یہ ہے کہ ہر کنکری کے بدلہ میں ایک بڑا گناہ جو ہلاک کردینے والا ہو معاف ہوتا ہے، اور قربانی کا بدلہ اللہ کے یہاں تمہارے لیے ذخیرہ ہے، اور احرام کھولنے کے وقت سرمنڈانے میں ہر بال کے بدلہ میں ایک نیکی ہے اور ایک گناہ معاف ہوتا ہے ۔ اس سب کے بعد جب آدمی طوافِ زیارت کرتا ہے تو ایسے حال میں طواف کرتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا اور ایک فرشتہ کندھوں کے درمیان ہاتھ رکھ کر کہتاہے کہ آئندہ از سر نو اعمال کر، تیرے پچھلے سب گناہ تو معاف ہوچکے ‘‘۔
خلاصہ یہ کہ حج کرنے والا اپنے معبود سے عشق حقیقی اور سچی محبت کا خوب خوب مظاہرہ کرتا ہے، وہ اس طرح کہ عاشقوں کا کام ہی یہ ہوتا ہے، وہ سب تعلقات ختم کرکے گھر بار، عزیز واقارب، دوست احباب، شہر اور وطن سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر کوئے یا رکی طرف روانہ ہوجاتا ہے، اس کے لیے سفر کے مصائب اور شدائد میں بھی مزہ ہی آتا ہے:
اذیت ، مصیبت ، ملامت ، بلائیں
تیرے عشق میں ہم نے کیا کیا نہ دیکھا
حجاج کرام بھی اپنا سب کچھ چھوڑ کر ایک اللہ کی محبت میں سرشار ہوکر دیوانہ وار اللہ کے گھر کی طرف لپکتے اور پہنچتے ہیں، احرام کی حالت میں عاشقانہ رنگ لیے ہوئے نہ سر پر ٹوپی، نہ بدن پر کُرتہ، نہ خوشبو، نہ زینت، ایک فقیرانہ صورت اور ایک مجنونانہ ہیئت جو کرب وبے چینی کے کمال کو خوب خوب ظاہر کرتی ہے:
نہ رکھ لباس کا اُلجھاؤ تن پہ دست جنوں
کیا چاک گریباں تو پھاڑ دامن بھی
جب حاجی اللہ تعالیٰ کے گھر پہنچتا ہے تو بے اختیار آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی بن جاتی ہے اور بزبانِ حال حاجی یہ کہتا ہے:
نالہ کرلینے دیں للہ نہ چھیڑیں احباب
ضبط کرتا ہوں تو تکلیف سوا ہوتی ہے
اور کہتا ہے:
جذبِ دل نے آج کوئے یار میں پہنچادیا
جیتے جی میں گلشن جنت میں آگیا
اللہ تبارک وتعالیٰ تمام مسلمانوں کو حج کی سعادت سے بہرہ مندفرمائیں، آمین۔

وصلی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین