بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

’’عاطف میاں‘‘ کی مخالفت کیوں؟ وجوہ-اسباب-محرکات جناب جاوید چوہدری صاحب کی خدمت میں

’’عاطف میاں‘‘ کی مخالفت کیوں؟
وجوہ-اسباب-محرکات
جناب جاوید چوہدری صاحب کی خدمت میں

 

الحمد للّٰہ وسلامٌ علٰی عبادہٖ الذین اصطفٰی

 

محترم جناب وزیراعظم عمران احمد خان نیازی صاحب نے الیکشن مہم میں پاکستان کو مدینہ منورہ جیسی اسلامی ریاست بنانے کے لیے عوام سے ووٹ مانگے۔ نظر بظاہر عوام نے ان پر اعتماد کیا، جس کی بناپر وہ وزیراعظم بنادیئے گئے۔ انہیں دنوں ہالینڈ کی پارلیمنٹ کے ایک رکن کے خلاف پوری مسلم برادری سمیت پاکستان میں بھی غم وغصہ ، جلسے جلوس اور مظاہرے ہورہے تھے، جس نے ہمارے نبی کریم a کے توہین آمیز خاکے بنانے والوں میں مقابلہ کرانے اور انعام دینے کے لیے اعلان کر رکھا تھا۔ جناب عمران خان صاحب نے بحیثیت وزیراعظم سینیٹ میں تقریر کی اور اسلامیانِ پاکستان کی پوری پوری ترجمانی کرتے ہوئے فرمایا کہ: ہم او۔آئی۔سی کا اجلاس بلاکر ان سے قرارداد منظور کرانے کے بعد متفقہ طور پر اقوام متحدہ سے مطالبہ کریں گے کہ اس بارہ میں قانون سازی کی جائے کہ دنیا کے تمام مذاہب کی مقدس شخصیات کی توہین اور تذلیل قابلِ سزا جرم قراردیا جائے، تاکہ یہ سلسلہ ہمیشہ کے لیے رُک جائے۔ وزیراعظم کی اس تقریر کا پورے ملک میں خیرمقدم کیا گیا۔
جناب وزیراعظم صاحب نے حکومت بنانے کے ساتھ ہی ۱۸؍ رکنی اکنامک ایڈوائزری کونسل کا اعلان کیا، جس کی فہرست میں ایک نام اسلام سے مرتد’’عاطف میاں‘‘قادیانی کا بھی لیا گیا، عاطف میاں پاکستانی ماں باپ کے ہاں براعظم افریقہ کے ملک نائیجیریامیں پیدا ہوا، امریکہ پڑھنے کے لیے گیا، وہاں احمد شیخ نامی قادیانی مبلغ نے اس سے دوستی گانٹھی، آٹھ سال تک اس کے پیچھے لگا رہا، بالآخر ۲۰۰۲ء میں اس کو اسلام سے مرتد کراکر قادیانیت میں داخل کیا۔ اس نے معاشیات میں پی ایچ ڈی کررکھی ہے۔ یہ اس وقت قادیانیوں کی جماعت خدام احمدیہ کا سرگرم رکن ہے، اور یہ لندن میں مرزا مسرور کا مالیاتی مشیر اور اس مرکز کا مالیاتی نگران اور افریقہ میں قادیانی مشن کا سربراہ ہے۔ اس کے والدین اس کے قادیانی ہونے کی وجہ سے اس سے قطع تعلق کیے ہوئے ہیں۔ یہ وہی شخص ہے جس کے بارہ میں عمران خان صاحب نے اسلام آباد ڈی چوک کے دھرنے کے دنوں میں کہا تھا کہ میں جب حکومت میں آؤں گا تو ’’عاطف میاں‘‘ کو وزیرخزانہ بناؤں گا۔ ایک انٹرویوکے دوران جب ان سے سوال کیا گیا کہ ’’عاطف میاں‘‘ قادیانی ہے، کیا آپ پاکستان جیسے ایک اسلامی ملک میں افریقہ میں پیدا ہونے والے ایک قادیانی کو وزیرخزانہ بنائیں گے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ: مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ قادیانی ہے۔ اب جب اس اکنامک ایڈوائزری میں اس کا نام سامنے آیا تو پوری مذہبی، دینی اور سیاسی تنظیموںاور جماعتوں نے اس کے خلاف آواز بلند کی، جس پر وزیراطلاعات جناب فواد چوہدری صاحب نے ایک پریس کانفرنس کے دوران عاطف میاں کے بارہ میں سوال کے جواب میں کہا کہ: ’’کیا اقلیتوں کے کردار کے بارہ میں پابندی لگادینی چاہیے؟ کیا ہمارے ملک میں جو اقلیتیں ہیں، ان کو اُٹھاکر باہر پھینک دینا چاہیے؟ انہوں نے عاطف میاں کی تقرری پر اعتراض کرنے والوں کے بارے میں یہ بھی کہا کہ کس قسم کے یہ لوگ ہیں جو یہ باتیں کررہے ہیں؟! پوری دنیا کہہ رہی ہے کہ اگلے پانچ سالوں میں اس کو نوبل انعام ملنا ہے۔ اکنامک ایڈوائزری میں اس کو لگایا ہے ، کوئی اس کو اسلامی نظریاتی کونسل کا ممبر تو نہیںلگایا۔ پاکستان اقلیتوں کا بھی اتنا ہے جو پاکستان میں اکثریت ہے، ان کا ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ کسی کو اس کے اوپر اعتراض کرنا چاہیے اور جو اعتراض کررہے ہیں، وہ بنیادی طور پر ایکسٹری مسٹ (انتہا پسند) ہیں اور ہم نے ایکسٹری مسٹوںکے سامنے نہیں جھکنا۔ ہر مسلمان کا یہ مذہبی فریضہ ہے کہ وہ اپنے ساتھ بسنے والے لوگوں کی حفاظت کرے۔ اور یہ کوئی بات نہیں ہے کہ جو آپ کی پسند کا نہیں ہے، ان کو اُٹھاکر بحیرۂ عرب میں پھینک دیں۔‘‘ یہ ہیں وہ فرمودات جو انہوں نے کہے۔
وزیراطلاعات کی کانفرنس کے بعد کچھ صحافی بھائیوں نے بھی اپنے کالم اور ٹی وی پروگراموں کے ذریعے وزیرموصوف کی بات کو آگے بڑھایا ۔ روزنامہ ایکسپریس کے صحافی جناب جاوید چوہدری صاحب نے بھی اپنے کالم: ’’کیا قائد اعظم کو پتا نہیں تھا؟‘‘ میںعاطف میاں کی تعریف میں خوب آسمان و زمین کے قلابے ملائے اور کہا کہ: چوہدری فواد ، ایاز صادق، شہلا رضا اور احسن اقبال کی بھی سن لیں۔ اور ساتھ چند سوالات ، اعتراضات واشکالات بھی اُٹھائے:
۱:-کیا یہ ملک صرف مسلمانوں کا ہے؟ اور مسلمان بھی دیوبندی؟
۲:-ہم نے ہندوؤں کو نکالا، پھر پاکستانی یہودیوں کو ، پھر چن چن کر پڑھے لکھے اور ماہر عیسائیوں کو، پھر مہذب، صلح جو اور کامیاب بزنس مین پارسیوں کو اور اب ہم ہر اس قادیانی کے پیچھے لگ گئے ہیں جو اس ملک میں کام کرنا چاہتا ہے، کیوں؟
۳:-قائد اعظم محمد علی جناح نے سرظفر اللہ کو پاکستان کا پہلا وزیرخارجہ کیوں بنایا تھا؟
۴:-ظفر اللہ خان دنیا کے پہلے وزیرخارجہ تھے جنہوں نے اقوام متحدہ میں فلسطین کا ایشو اٹھایا تھا۔
۵:-وہ پہلے ایشیائی اور واحد پاکستانی تھے جنہوں نے اقوام متحدہ میں جنرل اسمبلی کے اجلاس کی صدارت کی اور عالمی عدالت انصاف کے صدر بنے۔
۶:-عاطف میاں کے خلاف وہ لوگ تحریک چلارہے ہیں جو ۱۹۴۷ء تک پاکستان کے وجود کے خلاف تھے، کیوں؟ آخر کیوں؟!
اس کے بعد جناب جاوید چوہدری صاحب نے اپنے ممدوح قادیانیوں کے دلی جذبات کو زبان دیتے ہوئے وہ سب کچھ کہہ دیا جو قادیانیوں کی مدتوں سے خواہش تھی اور جو انہوں نے ہر دین بے زار، سیکولر اور دین دشمن طبقے کے دل ودماغ میں ڈال رکھی ہے کہ:’’پھر ہمیں چند بڑے فیصلے کرنا ہوں گے:
۷:- ہمیں مذہب کو پرائیویٹ اسٹیٹس دینا ہوگا۔ 
۸:-ہمیں اس ملک میں رہنے والے تمام شہریوں کو مذہب ، رنگ، نسل اور قبیلے سے بالاتر ہوکر برابری کے حقوق دینا ہوں گے۔ اگر رانا بھگوان داس اور جسٹس کارنیلئس سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بن سکتے ہیں تو پھر یہ ملک کے صدر کیوں نہیں بن سکتے؟ 
۹:-اگر عاطف میاں پاکستانی شہری ہیں تو یہ پھر اکنامک ایڈوائزری کونسل کے رکن کیوں نہیں بن سکتے؟ 
۱۰:-اور پارسی اگر ملک کی تجارتی پالیسیوں کے آر کی ٹیکٹ ہوسکتے ہیں تو پھر یہ لوگ وزیر کیوں نہیں بن سکتے؟ یہ لوگ ملک کی خدمت کیوں نہیں کرسکتے؟ 
۱۱:-رسول اللہ a نے اگر عبداللہ بن ابی کو منافق اعظم ڈکلئیر ہونے کے باوجود ریاستِ مدینہ سے بے دخل نہیں کیا تھا تو پھر ہم اس ملک میں غیرمسلموں کو کام سے روکنے والے کون ہوتے ہیں؟ ہمیں اپنے دل، سوچ اور ظرف تینوں بڑے کرنا ہوں گے، ورنہ آج ہم جب اسلام کے نام پر ان لوگوں کو نکال رہے ہیں تو کل کوئی ہم سے بڑا مسلمان ہمیں بھی اس ملک سے نکال دے گا ۔‘‘ (روزنامہ ایکسپریس، ۶ستمبر۲۰۱۸ء، بروز جمعرات)
اسی طرح روزنامہ جنگ کے کالم نگار جناب محمد بلال غوری صاحب نے ۶ ستمبر ۲۰۱۸ء کی اشاعت میں ’’شکریہ عمران خان ‘‘ کے نام سے ایک کالم تحریر کیا:اس میں ایک بات تو یہ لکھی کہ: 
۱:-اختلاف دلیل کی بنیاد پر ہونا چاہیے، نا کہ تعصب، بغض اور عناد کے زیراثر۔
۲:-آپ نے پارلیمنٹ کے ذریعے قانون سازی کرکے انہیں غیرمسلم قراردے دیا تو کیا اب اُنہیں اقلیت کے طور پر پاکستان میں جینے کا بھی کوئی حق نہیں؟ اس دلیل کے جواب میں یہ تاویل پیش کی جاتی ہے کہ ان کا معاملہ ہندوؤں، عیسائیوں، سکھوں اور دیگر کافروں سے مختلف ہے، یہ پارلیمنٹ کے اس فیصلے کو نہیں مانتے، جس کی رو سے انہیں غیر مسلم قراردیا گیا، یہ ریاست کے باغی ہیں، لہٰذا کسی رعایت کے مستحق نہیں۔کیا پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے عدالتی فیصلے کو تسلیم کرتی ہے؟ کیا مسلم لیگ (ن) حالیہ عدالتی فیصلوں کو درست مانتی ہے؟ ایسے گروہ بھی موجود ہیں جو کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر کہتے ہیں کہ وہ پاکستان کے آئین کو تسلیم نہیں کرتے۔ 
یہ دونوں صحافیوں کے چیدہ چیدہ ۱۳ سوالات ، اعتراضات واشکالات ہیں ۔
اچھا ہوا کہ وزیراعظم صاحب نے دانشمندانہ اقدام کرتے ہوئے اسلام سے مرتد قادیانی ’’عاطف میاں‘‘ کو اکنامک ایڈوائزری سے الگ کردیا اور وفاقی وزیراطلاعات جناب فواد چوہدری صاحب نے سجدۂ سہو کرتے ہوئے فرمایا: ’’ہم علماء اور معاشرے کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں اور ایک آدمی کی وجہ سے ہم انتشار نہیں چاہتے۔‘‘ ہم فواد چوہدری صاحب کے ان جذبات کی قدر کرتے ہیں اور انہیں مشورہ دینا چاہتے ہیں کہ آپ پاکستان کے وفاقی وزیراطلاعات ہیں، قادیانیوں کے ترجمان نہیں۔ آپ نے جن پاکستانیوں کو ’’ایکسٹری مسٹ‘‘انتہا پسند کہا ہے ، آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس سے بلاتفریق مسلک ومذہب تمام مسلم برادری کی دل آزاری ہوئی ہے، آپ کو ان سے معافی مانگنی چاہیے اور یہ کہ آئندہ کے لیے عقل مندوں کے اصول کے مطابق ’’پہلے تولو پھر بولو‘‘کے اصول پر سختی سے عمل کرنا چاہیے۔
اب ہم اپنے صحافی بھائیوں کے اٹھائے گئے سوالات ، اشکالات واعتراضات کا ترتیب وار جواب لکھتے ہیں:
سوال:۱:- کیا یہ ملک صرف مسلمانوں کا ہے؟ اور مسلمان بھی دیوبندی؟
جواب:-یہ ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان نہ صرف مسلمانوں کا ہے، بلکہ اس میں رہنے والی تمام ان قومیتوں اور مذاہب کے ماننے والوں کا بھی ہے جو دل وجان سے اس ملک کے وفادار، آئین کے پاس دار، اپنی شناخت یہودی، عیسائی، ہندو، سکھ ، پارسی، بہائی وغیرہ کو نہ چھپانے والے ، حضور اکرم a کو اللہ تبارک وتعالیٰ کا آخری نبی ماننے والوں کومسلمان کہنے اور اپنے آپ کو اپنے مذہب سے ظاہر کرنے والوں کا بھی ہے۔ 
باقی آپ کا یہ طعن اور طنز کرنا کہ قادیانیوں کا قلع قمع کرنے والے اور ان کے خلاف تحریک چلانے والے صرف دیوبندی ہیں، یہ ایک ایسی گمراہ کن بات ہے جو صرف اور صرف قادیانیوں اور ان کے مغربی دنیا کے آقاؤں کی کاسہ لیسی اور ان کے مخفی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے سوا کچھ نہیں۔
کون نہیں جانتا کہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے یومِ تاسیس سے لے کر آج تک بلکہ قیام پاکستان سے پہلے انگریز کے ’’خود کاشتہ پودے‘‘ کی دسیسہ کاریوں اور انگریز کی اطاعت کو اپنا مذہبی فریضہ سمجھنے اور مسلم امہ کے جاسوسوں کے گھناؤنے کردار کو آشکارا کرنے والی جماعت مجلس احرار اسلام میں بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث، شیعہ اور اسلام سے کسی بھی طرح تعلق رکھنے والے افراد سب اس میں شامل تھے، شامل ہیں، اور ان شاء اللہ! اس قادیانی فتنے کے خلاف متحد اور متفق رہیں گے۔
قادیانیوں کو مسلمانوں سے علیحدگی کا مطالبہ ، آج کے صرف کٹھ ملا اور مسلم اُمہ کے افراد کا نہیں، بلکہ اس سے بہت پہلے بقول شورش کشمیری رحمہ اللہ: علامہ اقبالؒ نے قادیانی امت کے عمیق مطالعہ کے فوراً بعد ہندوستان کی برطانوی حکومت سے مطالبہ کیا کہ مرزائیوں کو مسلمانوں سے الگ کردیا جائے۔ وہ محمد عربیa کی اُمت میں نقب لگاکر ایک علیحدہ اُمت پیدا کرتے ہیں۔ مرزا غلام احمد کوئی اُمت پیدا نہ کرسکتے تھے۔ اگر وہ الگ اُمت پیدا کرتے تو اسلامی ملکوں میں انگریزی استعمار کے لیے مفید نہ ہوتے۔ انہوںنے اپنے پیرؤوں کی جمعیت کو اس طرح ڈھالا کہ وہ اپنے سوا تمام مسلمانوں کو کافر سمجھتے ہیں، لیکن کام ان سے اس طرح لیا گیا، گویا وہ مسلمانوں ہی کا ایک فرقہ اور جماعت ہے۔
علامہ نے مزید فرمایا کہ: ۱:-قادیانی مسلمانوں میں صرف سیاسی فوائد کے حصول کی خاطر شامل ہیں، ورنہ وہ تمام عالم اسلام کو اپنے عقائد کی رو سے کافر قراردیتے ہیں۔
وہ اسلام کی باغی جماعت ہے اور مسلمانوں کو اس مطالبہ کا پورا پورا حق حاصل ہے کہ قادیانیوں کو اُن سے الگ کردیا جائے۔                                               (تحریک ختم نبوت، ص:۲۲۱)
کیوں جناب ! علامہ اقبال v بھی صرف دیوبندی تھا جو انگریز حکومت سے قادیانیوں کو مسلمانوں سے علیحدگی کا مطالبہ کررہا تھا؟
سوال:۲:-ہم نے ہندوؤں کو نکالا، پھر پاکستانی یہودیوں کو ، پھر چن چن کر پڑھے لکھے اور ماہر عیسائیوں کو، پھر مہذب، صلح جو اور کامیاب بزنس مین پارسیوں کو اور اب ہم ہر اس قادیانی کے پیچھے لگ گئے ہیں جو اس ملک میں کام کرنا چاہتا ہے، کیوں؟
جواب:- جناب جاوید چوہدری صاحب! ہمارا اعتراض قادیانیوں کے پاکستان میں رہنے پر نہیں، مسلمانوں میں رہنے پر ہے۔ وہ پاکستان میں رہنا چاہتے ہیں، شوق سے رہیں۔ پھر اس کا فیصلہ وہ خود ہی کرلیں کہ مسلمانوں کے مسلمات کا استعمال، ان کی ظلی نبوت اور علیحدہ اقلیت کے حسبِ حال ہوگا یا نہیں؟ 
یہ کہنا کہ پاکستان میں کوئی جماعت یا شخصیت ان کی جان، مال اور آبرو کی دشمن ہے اور انہیں معدوم کرنے کی دوڑ میں لگی ہوئی ہے۔ یہ سراسر بہتان اور الزام تراشی ہے۔ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ قادیانی اُمت ہمارے مطالبہ سے قطع نظر جب خود اپنے پیغمبر اور خلیفہ کی ہدایت اور روایت کے مطابق مسلمانوں سے الگ اُمت ہے تو اپنے آپ کو مسلمانوں سے علیحدہ اقلیت میں شمار کیوں نہیں کرتے؟ تاکہ آئین پر بھی عمل ہو اور وہ ملک میں مناصب بھی حاصل کریں۔
یہ بھی چوہدری صاحب آپ نے صرف ہوا میں تیر چلایا ہے کہ ہم نے پاکستانی یہودیوں، ماہر عیسائیوں، مہذب صلح جو اور کامیاب بزنس مین پارسیوں کو پاکستان سے نکالا ہے۔ اگر ایسا ہے تو اس کا ثبوت پیش کریں اور جن لوگوں نے ایسا کیا ہے تو ان کو قانون کے حوالہ کریں، تاکہ جو لوگ اس میں ملوث ہیں وہ سامنے آئیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ان کے ساتھ قانون کے مطابق کارروائی کریں۔ اگر ایسا نہیں ہے اور یقینا ایسا نہیں ہے تو پاکستانی مسلمانوں کو خواہ مخواہ بدنام نہ کریں اور نہ ہی بیرونی دنیا کو پاکستان کے خلاف جگ ہنسائی اور پروپیگنڈہ کا جواز مہیا کریں۔ آپ ماشاء اللہ! دور اندیش اور صاحبِ نظر صحافی ہیں۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ آپ کے اسی کالم کو جواز بناکر پاکستان کے خلاف مستقبل میں کیا کچھ کیا جاسکتا ہے۔
سوال:۳:- قائد اعظم محمد علی جناح نے سرظفر اللہ کو پاکستان کا پہلا وزیرخارجہ کیوں بنایا تھا؟
جواب:- اس کے جواب میں ہم اتنا عرض کریں گے کہ ’’پاکستان کی پہلی کابینہ‘‘ اور ’’پاکستان کیوں ٹوٹا؟‘‘ نامی دو کتابوں کو ملاحظہ فرمالیں، جن سے معلوم ہوگا کہ قائد اعظم نے نامساعد حالات اور بعض مجبوریوں کے تحت جنرل سرڈگلس گریس کو آزاد، خودمختار ریاستِ پاکستان کی فوج کا ’’کمانڈر انچیف‘‘، سردار جوگندرناتھ مینڈل کو ’’وزیرقانون‘‘ اور ظفر اللہ خان کو ’’وزیرخارجہ‘‘ لینے کا فیصلہ بادلِ ناخواستہ قبول کیا۔ انگریز وائسرائے کے دباؤ کے تحت یہ فیصلے تسلیم کیے گئے۔ ان تاریخی حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ انگریز وائسرائے نے ظفر اللہ خان کی تقرری پر بہت اصرار کیا اور یہاں تک دھمکی دی کہ جب تک یہ اعلان نہیں کیا جاتا، اختیارات کی منتقلی نہیں ہوسکے گی۔ (پاکستان کی پہلی کابینہ، بحوالہ قادیانیت کا سیاسی تجزیہ، ص: ۴۷۵)
زیرنظر واقعہ سے آپ اندازہ لگائیں کہ ظفر اللہ خان قائد اعظم کی کتنی بات مانتا تھا:
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے جب انگریزوں سے ’’عدم تعاون‘‘ اور ترکِ موالات کے سلسلے میں تمام اہل وطن سے اپیل کی کہ وہ انگریزوں کے عطا کردہ ’’اعزازات‘‘ و ’’خطابات‘‘ واپس کردیں تو صرف چوہدری ظفر اللہ خان واحد شخص تھا جس نے انگریزوں کا عطا کردہ ’’سر‘‘ کا خطاب واپس کرنے سے صاف صاف انکار کردیا تھا۔ (ماہنامہ ’’صوت الاسلام‘‘ ص:۳، فیصل آباد ، مدیر مولانا مجاہدالحسینی، بحوالہ نوائے وقت لاہور)
اور یہی ظفر اللہ خان تھا جس نے قائد اعظم کی نمازِ جنازہ یہ کہہ کر نہیںپڑھی تھی کہ :
’’آپ مجھے کافر حکومت کا مسلمان وزیر سمجھ لیں یا مسلمان حکومت کا کافر نوکر۔‘‘ 
                                           (زمیندار، لاہور، ۸فروری ۱۹۵۰ء)
گویا وہ صرف اپنے آپ کو مسلمان کہہ رہا تھا اور بشمول قائد اعظم ہم سب کو کافر کہہ رہا تھااور اس سے یہ بات بھی بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ ظفر اللہ کے ہاں قائداعظم اور پاکستان کی کیا حیثیت تھی؟!
 محترم جناب! اب ذرا اس کی وزارتِ خارجہ کی کارکردگی بھی ملاحظہ فرمالیں کہ:
اپنے دورِ وزارت میں زیادہ وقت بیرون ملک گزارا، چوہدری صاحب پارلیمنٹ میں آنے سے کتراتے رہے۔ وزارتِ خارجہ سے محب وطن افراد کو نکال کر مخصوص قادیانیوں کو وسیع پیمانے پر بھرتی کیا گیا۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی پاکستان کے نکتۂ نظر کی بجائے جماعت احمدیہ کی پالیسی کے مطابق وضع کی گئی۔ غیرممالک میں ہمارے خارجہ دفاتر کو قادیانیت کی تبلیغ اور جاسوسی کے اڈوں میں تبدیل کیا گیا۔ اسلامی ملکوں سے روابط اور تعلقات بڑھانے کی بجائے یورپی ممالک خصوصاً امریکہ وبرطانیہ سے تعلقات بڑھائے گئے۔ عرب ممالک سے رشتۂ اُخوت مستحکم کرنے کے بجائے انہیں پاکستان سے بدظن کرنے اور پاکستان سے دور کرنے کی پالیسی اختیار کی گئی اور عربوں کی جاسوسی کے لیے مختلف ممالک میں قادیانی سیل قائم کیے گئے۔اسلامی ہمسایہ برادر ملک افغانستان ، مصر سے جان بوجھ کر تعلقات کشیدہ کیے گئے، جن کا خمیازہ آج تک بھگتا جارہا ہے۔ پاکستان کے جغرافیائی محلِ وقوع اور وطنِ عزیز کے دفاعی نکتۂ نظر سے ہمسایہ ملک چین کی بجائے امریکہ جیسے خودغرض ملک کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھائی گئیں۔ مسئلہ کشمیر حل کرنے کی بجائے دیدہ ودانستہ طور پر خراب کیا گیا اور اس مسئلے کا کوئی پائیدار حل تلاش نہ کیا گیا۔
چوہدری ظفر اللہ خان پاکستان کے وزیر خارجہ کی حیثیت سے تنخواہ قومی خزانے سے وصول کرتے تھے، لیکن اندرون وبیرون ملک وہ جماعتِ احمدیہ کے لیے کام کرتے تھے۔
چوہدری ظفر اللہ خان کے دور میںناقص پالیسی کے باعث ہمیں سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی طور پر ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا، چونکہ احمدیہ جماعت برطانیہ کی خودکاشتہ اور امریکہ کی لے پالک تھی، اس لیے اس نے پاکستان کو یورپی ممالک کا دست نگر اور امریکہ کا اقتصادی بھکاری بنادیا۔ یہ تمام باتیں ہم یوں ہی ہوا میں تیر نہیں پھینک رہے، بلکہ اس کی تائید اس وقت کی قانون ساز اسمبلی کے اراکین کی تقاریر سے ہوتی ہے، آپ وہ اُٹھاکر پڑھیں تو آپ کی آنکھیں کھل جائیں گی۔ ان اراکین اسمبلی میں سے ایک رکن جناب محمد ہاشم گزدر نے کراچی کی مسلم پارٹیز کنونشن مورخہ ۲؍جون میں تقریر کرتے ہوئے کہا:
’’چوہدری ظفر اللہ خان کشمیر کا مسئلہ پیش کرنے کے لیے لیک سیکس گئے تھے۔ میں ان دنوں وہاں موجود تھا، وہاں لابی میں مشہور تھا کہ سرظفر اللہ خان وہی کام کرنا چاہتے ہیں جو ہندوستان چاہتا ہے۔ میں نے اسی روز تمام احوال سے حکومتِ پاکستان کے منسٹر کو مطلع کردیا۔ اس کے بعد میںنے تمام ممالک کا دورہ کیااور محسوس کیا کہ اکثر ممالک میں ہمارے خارجہ دفاتر مرزائیت کی تبلیغ کے اڈے بنے ہوئے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ: چوہدری ظفر اللہ خان کے انگریزوں اور ہندوؤں سے گہرے مراسم ہیں۔ ظفر اللہ خان قادیانی‘ پاکستان سے زیادہ اپنے امام مرزا بشیرالدین کے وفادار ہیں اور اپنے امام کی ہدایت کے مقابلہ میں حکومتِ پاکستان کے احکام کو ٹھکرادیتے ہیں۔ (تقریر کرتے ہوئے کہا) میرے کئی دوست محض دنیاوی فوائد کے لیے مجبوراً قادیانی ہوگئے۔ پاکستان میں جو شخص اکھنڈ بھارت کے نعرے لگاتا ہے، وہ پاکستان کا دشمن ہے اور ہماری بدقسمتی ہے کہ اکھنڈ بھارت ہندوستان کا عقیدہ رکھنے والے مرزائی‘ ملک کی سترفیصد کلیدی آسامیوں پر فائز ہیں۔ اگر خدانخواستہ کسی وقت جنگ ہوگئی تو معلوم نہیں کہ ہمارا کیا حال ہوگا اور آفیسران کی پوزیشن کیا ہوگی؟!۔‘‘       (ہفت روزہ ’’لولاک‘‘ فیصل آباد، ص:۱۲، ج:۲۴، ش۱۱/۱۰، ۱۹؍جون ۱۹۸۷ء)
سوال:۴:- ظفر اللہ خان دنیا کے پہلے وزیرخارجہ تھے جنہوں نے اقوام متحدہ میں فلسطین کا ایشو اٹھایا تھا۔
جواب:- آپ نے لکھا کہ دنیا کے پہلے وزیرخارجہ تھے، جنہوں نے اقوامِ متحدہ میں فلسطین کا ایشو اُٹھایا، اس جواب سے پہلے اتنا عرض کرنا چاہوں گاکہ: ہر قادیانی کے نزدیک حکومت، عہدہ، منصب ہو یا ملازمت سب سے مقدم اپنے خلیفہ کی بات ماننا ہے۔ اگر حکومتی اُمور یا فرائض منصبی میں سے کوئی کام کرنا ہے تو وہ خلیفہ کی منظوری سے مشروط ہوگا۔ گویا وزیراعظم ، صدر یا حکام بالا میں سے کسی نے آئینی امور یا انتظامی امور میں سے کوئی آرڈر یا حکم دیا ہے تو خلیفہ کی اجازت یا رضامندی ہوگی تو وہ روبعمل ہوگا، ورنہ جیسا خلیفہ چاہے گا، وہی ہوگا۔ اس کے لیے ملاحظہ ہو: الفضل ۲۵ دسمبر ۱۹۳۲ء جس میں مرزا محمود قادیانی لکھتا ہے:
’’ملکی سیاست میں خلیفۂ وقت سے بہتر اور کوئی راہنمائی نہیں کرسکتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت اس کے شامل حال ہوتی ہے۔‘‘
اس بات کی تائید کہ ہرقادیانی کے لیے اپنے خلیفہ کا حکم ماننا سب سے مقدم ہے، علامہ اقبالؒ نے کہا:
’’ بدقسمتی سے کمیٹی میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے مذہبی فرقہ کے سوا کسی دوسرے کا اتباع کرنا سرے سے گناہ سمجھتے ہیں، چنانچہ احمدی وکلاء میں ایک صاحب نے جو میرپور کے مقدمات کی پیروی کررہے تھے، حال ہی میں اپنے ایک بیان میں واضح طور پر اس خیال کا اظہار کردیا۔ انہوں نے صاف طور پر کہا کہ: وہ کسی کشمیر کو نہیں مانتے، جو کچھ انہوں نے یا ان کے ساتھیوں نے اس ضمن میں کیا، وہ ان کے امیر کے حکم کی تعمیل تھی۔‘‘  
                                      (رئیس احمد جعفری، ’’اقبال اور سیاستِ ملی‘‘ صفحہ:۱۵۹-۱۶۰)
اور اس کی تائید اس واقعہ سے بھی ہوتی ہے کہ :’’ جب عرب نمائندے فلسطین کا مسئلہ یو - این - او میں پیش کرنا چاہتے تھے تو انہوں نے یو - این - او میں اپنی قرارداد کے حق میں فضا سازگار کرنے کے لیے دوست ملکوں کے نمائندوں سے ملاقاتیں کیں اور اپنی حمایت پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ اس سلسلہ میں وہ چوہدری ظفر اللہ خان سے بھی ملے اور ان سے تعاون کی التجا کی۔ ظفر اللہ خان نے انہیں کہا کہ: ’’اگر ان کے امام جماعت اور مرزا بشیرالدین محمود خلیفۂ ربوہ اُنہیں اس بات کی ہدایت کریں گے تو وہ ان کی ضرور مدد کریں گے، اس لیے آپ لوگ مجھے کچھ کہنے کے بجائے ربوہ میں ہمارے خلیفہ صاحب سے رابطہ قائم کریں۔‘‘ بے چارے عرب نمائندوں نے کسی نہ کسی طرح مرزا محمود سے رابطہ قائم کیا اور ان سے امداد کی درخواست کی۔ مرزا صاحب نے عرب نمائندوں کو یہاں سے تار دیا کہ ہم نے چوہدری ظفر اللہ خان کو ہدایت کردی ہے کہ وہ یو - این - او میں تمہاری امداد کرے۔ اتفاق سے یہ تار خطیبِ پاکستان قاضی احسان احمد شجاع آبادی کے ہاتھ آگیا، انہوںنے لیاقت علی خان مرحوم سے ملاقات کی اور ان سے دریافت کیا کہ مملکتِ پاکستان کے سربراہ آپ ہیں یا مرزا محمود؟ اور انہیں تار اور سارا ماجرہ کہہ سنایا۔ لیاقت علی مرحوم نے قاضی صاحب مرحوم سے وہ تار اور چند دوسری چیزیں لے لیں اور ظفر اللہ خان کو وزارتِ خارجہ سے علیحدہ کرنے کا ارادہ کرلیا۔کچھ عرصہ بعد لیاقت علی خان مرحوم شہید ہوگئے اور ظفر اللہ خان علیحدہ نہ کیے جاسکے۔‘‘                 (ہفت روزہ ’’لولاک‘‘ لائل پور، ۷اپریل ۱۹۷۱ء ، جلد نمبر: ۱۲، شمارہ نمبر۲)
عرب ڈیلی گیشن نے امریکہ سے جماعتِ احمدیہ کے سربراہ کے نام جو تار اِرسال کیا، وہ قادیانیوں کے آرگن رسالہ میں ان الفاظ میں شائع ہوا:
’’ لیکس سیکس ۶؍ نومبر عرب ڈیلی گیشن نے امریکہ سے بذریعہ تار حضرت امام جماعتِ احمدیہ کا شکریہ ادا کیا کہ انہوںنے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کے ڈیلی گیشن چوہدری ظفر اللہ خان کو مسئلہ فلسطین کے تصفیہ تک یہیں ٹھہرنے کی اجازت دی۔‘‘ 
                                                    (الفضل، ۸؍نومبر ۱۹۴۷ء)
عرب ڈیلی گیشن کا جو تار انجمن احمدیہ لاہور کے دفتر میں موصول ہوا، اس میں لکھتا ہے: 
’’اس سے ہمیں بے حد اطمینان ہوا ہے اور ہمیں امید ہے کہ اس سے عربوں کے مطالبہ کو بے حد تقویت حاصل ہوگی۔‘‘ 
سرظفر اللہ خان کے اس بھیانک کردار اور قادیانی جماعت کے اثرونفوذ پر حکومت کو متنبہ کرتے ہوئے مرزا غلام نبی جانباز لکھتے ہیں:
’’یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر چوہدری سرظفراللہ حکومتِ پاکستان کی طرف سے لیک سیکس گئے تھے تو پھر عرب ڈیلی گیشن کا تار حکومتِ پاکستان کے نام آنا چاہیے تھا، نہ کہ مرزا بشیرالدین محمود کے نام۔ اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ چوہدری ظفر اللہ نے عرب ڈیلی گیشن کو یقین دلایا تھا کہ میں تو اپنے لیڈر مرزا بشیر الدین محمود کے حکم سے یہاں آیا ہوں، نیزاسی کے حکم سے یہاں مزید دنوں کے لیے ٹھہرسکتا ہوں۔ ورنہ عرب ڈیلی گیشن کو پاکستانی گورنمنٹ سے اجازت لینی چاہیے تھی، نہ کہ قادیانی خلیفہ سے۔‘‘           (تحریک ختم نبوت)
سوال:۵:-وہ پہلے ایشیائی اور واحد پاکستانی تھے جنہوں نے اقوام متحدہ میں جنرل اسمبلی کے اجلاس کی صدارت کی اور عالمی عدالت انصاف کے صدر بنے۔
جواب:-ظاہر ہے جس نے ساری زندگی انگریز کی چاکری اور ان کے لیے مسلمانوں کی مخبری کی ہو تو اس کا حق تو بنتا ہے کہ اُسے نمائشی طور پر اقوام متحدہ میں جنرل اسمبلی کی صدارت اور عالمی عدالتِ انصاف کی صدارت ملے، جیسے ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی، ملعونہ تسلیمہ نسرین، سلمان رشدی اور ملالہ یوسف زئی، یہ سب وہ لوگ ہیں جنہوں نے اسلام، پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچایا تو اُنہیں اعزازات اور مناصب سے نوازا گیا۔
اسی طرح اب اسلام سے مرتد ہوکر قادیانیت قبول کرنے والا، جسے آپ معاشیات کا ماہر، پاکستان کو بلاتنخواہ اپنی خدمات پیش کرنے والا ہیرو بناکر پیش کررہے ہیں، یہ بھی ’’اکنامک ایڈوائزری ٹیم‘‘ میں شامل ہوتا تو ایک طرف آئی ایم ایف کا کام آسان ہوجاتا، دوسری طرف پاکستان کو اقتصادی طور پر مفلوج کرنے کے صلہ میں اُسے بھی نوبل انعام سے نوازا جاتا، جیسا کہ وفاقی وزیراطلاعات پیش گوئی کررہے ہیں۔ آپ نے بھی لکھا کہ: ’’اسے نوبل انعام مل جاتا، لیکن پاکستانی ہونا انعام دینے والوں کے سامنے آڑے آگیا۔ ‘‘
محترم! عاطف میاں قادیانی مرتد کا پاکستانی ہونا ان کے سامنے آڑے نہیں آیا، بلکہ ایک کام تو اس نے کردیا کہ اسلام سے مرتد ہوکر قادیانیت قبول کی، یہ اسلام اور مسلمانوں کا بظاہر نقصان کیا، لیکن اس نے ابھی تک اسلامی جمہوریہ پاکستان کے خلاف کام کرکے (غداری کی)کوئی کارکردگی نہیں دکھائی تھی، اس کے لیے اسے اس کونسل میں گھسانا تھا اور اس سے پاکستان کے خلاف کام لینا تھا۔ جب پاکستانیوں نے اسے قبول نہیں کیا تو وجدان یہ کہتا ہے کہ اب اُسے نوبل انعام بھی نہیں ملے گا، کیونکہ وہ (اسلام، مسلمانوں یا ان کے ملک کے خلاف)کسی کارکردگی کے ساتھ مشروط ہے اور وہ اب رہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ان کا منصوبہ ناکام ہوا تو عاصم اعجاز خواجہ اور عمران رسول نے بھی استعفیٰ دیا، جو ایک پلان اور منصوبہ کے تحت یہاں بھیجے جارہے تھے۔
سوال:۶:-عاطف میاں کے خلاف وہ لوگ تحریک چلارہے ہیں جو ۱۹۴۷ء تک پاکستان کے وجود کے خلاف تھے۔ کیوں؟ آخر کیوں؟!
جواب:-عزیز من! پہلی بات تو یہ ہے کہ عاطف میاں کے خلاف تحریک کسی ایک طبقے، مسلک اور ایک گروہ نے نہیں چلائی، بلکہ چند مٹھی بھر قادیانی ٹولے کے ہمنوا سیکولر ذہن رکھنے والوں کے علاوہ پوری پاکستانی قوم نے چلائی۔ اور یقینی بات ہے کہ اس میں ہرمسلک ، سوسائٹی اور تنظیم سے تعلق رکھنے والے افراد تھے، لیکن آپ نے جو دوسرا طنز مجلسِ احرار اسلام کے سربراہ سید عطاء اللہ شاہ بخاری قدس سرہٗ اور مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہٗ کی ذات پر کیا ہے، یہ آپ جیسے صحافی کے شایانِ شان نہیں۔ اگر صحافت اسی کا نام ہے کہ جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ کہاجائے تب تو ٹھیک ہے اور اگر صحافت اس کا نام نہیں اور یقینا اس کا نام نہیں تو پھر سچ کو چھپایا نہ جائے، بلکہ سچ کا سچ اور جھوٹ کا جھوٹ ہونا واضح اور ظاہر کیا جائے۔اب سنیے!
کسی کام کے کرنے اور نہ کرنے میں یا یہ کام اس طرح ہو اور اس طرح نہ ہو، اس میں آراء مختلف ہوسکتی ہیں اور رائے کا اختلاف کوئی بری چیز نہیں، لیکن جب ایک کام ہوجائے تو پھر یہ کہنا کہ یہ کام کیوں ہوا؟ یا یہ کہنا کہ ہم کوشش کریں گے کہ یہ کام ختم ہوجائے، دونوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔
اس میں شک نہیں کہ بعض مسلمان راہنماؤں نے قیام پاکستان کی مخالفت کی، لیکن یہ ان کی سیاسی رائے تھی اور انہوں نے قیام پاکستان کے بعد نہ صرف پاکستان کی حقیقت کو ذہنی وقلبی طور پر تسلیم کیا، بلکہ پاکستان کے استحکام، اس کی سالمیت وبقا اور دفاع کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کردیں۔ مسلمان راہنماؤں نے قیام پاکستان کی مخالفت سیاسی نقطۂ نظر سے کی، جب کہ آپ کی ممدوح قادیانی جماعت نے پاکستان کے قیام کی مخالفت بانی جماعت احمدیہ کے الہامی عقیدہ پر کی،جیسا کہ قادیانیوں کے خلیفہ مرزا محمود نے کہا:
۱:- ’’میں(خلیفہ محمود) قبل ازیں بتاچکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت ہندوستان کو اکٹھا رکھنا چاہتی ہے، لیکن قوموں کی منافرت کی وجہ سے عارضی طور پر الگ بھی کرنا پڑے۔۔۔۔۔ یہ اور بات ہے۔ہم ہندوستان کی تقسیم پر رضامند ہوئے تو خوشی سے نہیں، بلکہ مجبوری سے اور پھر یہ کوشش کریں گے کہ کسی نہ کسی طرح پھر متحد ہوجائیں۔‘‘             (الفضل:۱۷ مئی ۱۹۴۷ء)
دوسرا حوالہ بھی ملاحظہ فرمائیں، مرزا بشیر الدین محمود کہتا ہے کہ:
۲:-’’بہرحال ہم چاہتے ہیں کہ اکھنڈ ہندوستان بنے اور ساری قومیں باہم شیروشکر ہوکر رہیں۔‘‘                                               (روزنامہ الفضل، ۱۵؍اپریل ۱۹۴۷ء)
جب کہ حضرت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری نور اللہ مرقدہٗ نے لاہور میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا: 
’’تم میری رائے کو خود فراموشی کا نام نہ دو، میری رائے ہارگئی اور اس کہانی کو یہیں ختم کردو۔۔۔۔۔۔ بہرحال قوم نے فیصلہ کردیا اور جس دیانت داری سے ہم نے اختلاف کیا تھا، اسی دیانت داری سے ہم نے برادری کے فیصلے کو تسلیم کرلیا۔ اب یہ ملک میرا ہے، میں اس کا وفادار شہری ہوں، جنہوںنے جانا تھا جاچکے ہیں، میں یہاں ہوں اور یہیں رہوں گا۔ یہاں تو میری جنگ کا اختتام ہے اور وہاں جاؤں تو ابھی میری جنگ کا آغاز ہوگا۔‘‘            (روزنامہ آزاد، ۱۴ نومبر ۱۹۴۹ء)
پھر حضرت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری قدس سرہٗ نے احرار رضاکاروں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’احرار رضاکارو! آج کے بعد تم احرار رضاکار نہیں رہے، جاؤ! قومی رضاکاروں کی نیشنل گارڈز میں بھرتی ہوجاؤ۔ اب گلی کوچوں میں چپ وراست کا وقت نہیں رہا، فوجی ٹریننگ حاصل کرکے ملک وملت پر جان قربان کرنے کے لیے تیار ہوجاؤ۔ مجلس احرار اسلام کا سرمایہ تم ہو، میری ساری عمر کی کمائی تم ہو، میں تمہیں قوم کے سپرد کرتا ہوں اور خوش ہوں کہ ہماری عمر بھر کی کمائی صحیح کام آئی۔۔۔ فوجی وردی میں ملبوس ہوکر رائفل پکڑو اور دین وملت کی پاسبانی کے لیے جان قربان کرنے کی تربیت حاصل کرو۔‘‘                 (روزنامہ آزاد، لاہور، ۲۸؍ نومبر۱۹۴۹ء)
اور حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہٗ سے جب ان کے ایک مرید نے خط لکھ کر پوچھا کہ: ’’حضرت! ہم تو پاکستان میں ہیں اور آپ ہندوستان میں ہیں۔ اب ہمارے لیے کیا حکم ہے؟‘‘ آپ نے فرمایا: 
’’جب تک مسجد وجود میں نہیں آتی تو اختلاف ہوتا ہے کہ یہاں بنے یا وہاں ، لیکن مسجد جب ایک بار بن جائے تو پھر اس کی حفاظت ضروری ہوتی ہے۔‘‘
یہ تھا ہمارے اکابر اور بزرگوں کا اخلاص، پاکستان کو مسجد جیسا تقدس دے رہے ہیں اور پاکستان کے استحکام، سالمیت وبقا اور دفاع کے لیے اپنے رضاکاروں کو جانیں قربان کرنے کے لیے تربیت کا کہہ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے رضاکارآج تک پاکستان کے استحکام، سالمیت وبقا اور دفاع پر لگے ہوئے ہیں اور جنہوں نے پاکستان کو کمزور کرنے اور اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھنے والی قادیانی جماعت کے سربراہوں اور ان کے افراد کی نیندیں حرام کی ہوئی ہیں۔ وہ پاکستان کو کمزور کرنا چاہتے ہیں، لیکن یہ سربکف رضاکار ان کی تمام چالوں اور حیلہ سازیوں کو وقت سے پہلے بیچ چوراہے طشت از بام کردیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ عاطف مرتد قادیانی کو اکنامک ایڈوائزری سے نکالنے کے بعد اس جماعت اور ان کے ہمنواؤں کی چیخیں نکل رہی ہیں ۔
سوال:۷:-آپ فرماتے ہیں: ’’ہمیں مذہب کو پرائیویٹ اسٹیٹس دینا ہوگا۔‘‘
جواب:-جناب من! بات مذہب کی نہیں، نہ ہی ان قادیانیوں کے ساتھ جھگڑا صرف مذہب کا ہے، بلکہ بات یہ ہے کہ جب قادیانی اُمت کا مذہبی محاسبہ کیا جائے تو وہ سیاسی پناہ تلاش کرتے ہیں اور جب ان کا سیاسی محاسبہ کیا جائے تو وہ مذہبی اقلیت ہونے کا تحفظ چاہتے ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ یہ مذاق ناروا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ قادیانی ہمیشہ یہ تأثر دیتے چلے آرہے ہیں کہ انہیں ملا قسم کے لوگ مذہب کے واسطے مارنا چاہتے ہیں، اور ان کی جان، مال اور آبرو کے دشمن ہیں، اس تأثر کے عام ہونے کی وجہ صرف یہ ہے کہ پاکستان میں جو لوگ ان کا محاسبہ کررہے ہیں اور ان کے خطرناک عزائم سے پردہ چاک کرتے ہیں وہ اکثر وبیشتر نہ تو یورپ اور مغربی دنیا کی زبان سے واقف ہیں اور نہ ان کے پاس ظفر اللہ ، ڈاکٹر عبدالسلام، ایم ایم احمد اور عاطف میاں مرتد قادیانی جیسے شاطر، عیار اور استعمار کے ایجنٹ موجود ہیں۔
پاکستان میں مسلمانوں کی عمومی حالت یہ ہے کہ جب تک کوئی خطرہ ان کے سرپر آکر مسلط نہ ہوجائے، وہ اس کا نوٹس نہیں لیتے۔علامہ اقبال vنے علامہ سید سلیمان ندوی v کو خط لکھا، جس کا ذکر شورش کشمیری v نے اپنی کتاب تحریک ختم نبوت ،ص:۱۹۳ پر کیا ہے کہ: ’’میں ڈکٹیٹر بن جاؤں تو سب سے پہلے مغرب زدہ طبقے کو ہلاک کردوں۔ ابھی تک اس نے نہ قادیانی مذہب کو سمجھنے کی ضرورت محسوس کی ہے اور نہ وہ قادیانیوں کی سیاسی مضرتوں سے آگاہ ہے۔ وہ یہی سمجھتا ہے کہ ایک چھوٹی سی اقلیت کو مسلمانوں کے کٹ ملا تنگ کررہے ہیں۔ ان مغرب زدہ اور سیکولر ذہنیت کے لوگوں سے بجاطور پر سوال کیاجاسکتا ہے کہ مسلمان ایک وحدت کا نام ہے اور یہ وحدت ختم نبوت کے تصور سے استوار ہوئی ہے۔ اگر کوئی اس وحدت کو توڑتا ہے اور ختم نبوت کی مرکزیت کو ظلی وبروزی کی آڑ میں اپنی طرف منتقل کرنا چاہتا ہے تو کیا اس کا وجود خطرناک نہیں؟ باغی کون، وہ یا محاسب؟ کیا اپنی قومی سرحدوں کی حفاظت کرنا جرم ہے یا مذہبی جارحیت؟ بعض لوگ رواداری کا سبق دیتے ہیں، لیکن وہ رواداری کے معنی نہیں جانتے۔ اگر رواداری کے معنی غیرت، حمیت، عقیدے، مسلک اور اپنے شخصی یا اجتماعی وجود سے دستبردار ہونے کے ہیں تو یہ معانی کہاں ہیں؟ اور کس تحریک کے داعی، پیغمبر اور نظام نے بتلائے ہیں؟ قادیانیوں کے باب میں مسلمانوں کا معاملہ ذاتی نہیں، اجتماعی ہے اور اس کے عناصرِ اربعہ میں غیرت وحمیت، عقیدہ ومسلک شامل ہیں۔‘‘
سوال:۸:- ہمیں اس ملک میں رہنے والے تمام شہریوں کو مذہب ، رنگ، نسل اور قبیلے سے بالاتر ہوکر برابری کے حقوق دینا ہوں گے۔ اگر رانا بھگوان داس اور جسٹس کارنیلئس سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بن سکتے ہیں تو پھر یہ ملک کے صدر کیوں نہیں بن سکتے؟ 
جواب:- الحمد للہ! اس ملک میں رہنے والے چاہے وہ اکثریت میں ہیں یا اقلیت میں، سب کو آئین نے جو حقوق دیئے ہیں، وہ حقوق برابری کے ہیں اور تمام اقلیتیں وہ حقوق لے رہی ہیں، تکلیف صرف ان کو ہے جو آئین کے باغی اور اپنے آپ کو اقلیت کہلوانے کے روادار نہیں۔
سوال:۹:-اگر عاطف میاں پاکستانی شہری ہیں تو یہ پھر اکنامک ایڈوائزری کونسل کے رکن کیوں نہیں بن سکتے؟ 
 جواب:-عاطف میاں کا معاملہ اب تو کھل کر آگیا ہے کہ آئی ایم ایف کی ۲۵رکنی ٹیم میں ان کا نام بھی شامل ہے اور آئی ایم ایف یہودیوں کے کنٹرول میں ادارہ ہے اور وہ پاکستان کو اقتصادی طور پر دبوچنے اور مفلوج کرنے کے درپے ہیں، یہی وجہ ہے کہ مقتدر حلقوں نے حکومت کو اس عاطف میاں کے نام شامل کرنے سے پہلے باخبر کیا تھا، جیسا کہ اخبارات میں آچکا ہے۔
سوال:۱۰:- اور پارسی اگر ملک کی تجارتی پالیسیوں کے آر کی ٹیکٹ ہوسکتے ہیں تو پھر یہ لوگ وزیر کیوں نہیں بن سکتے؟ یہ لوگ ملک کی خدمت کیوں نہیں کرسکتے؟ 
جواب:- پارسیوں کو وزیر بننے سے کسی نے کبھی منع نہیں کیا، اگر وہ اپنے کوٹے میں وزیر بن سکتے ہیں اور آئین میں اس کی گنجائش ہے تو ضرور بنیں، کس نے ان کو منع کیا ہے؟! اتنی بات ضرور کہنا چاہیں گے کہ بات اگر قادیانیوں کے آئین کے دائرہ میں رہنے کی کی جاتی ہے تو وہ واویلا کرتے ہیں اور ان اقلیتوں کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر بات مذہبی اعتبار سے کی جائے کہ تم ایک نئے نبی کی اُمت ہو ، مسلمانوں سے الگ رہو تو وہ مسلمانوں میں نہ صرف یہ کہ گھستے ہیں، بلکہ کہتے ہیں کہ اصلی مسلمان ہم ہیں اور تم کافر ہو۔آئیے! چند قادیانی حوالہ جات اور ان کے نتائج پر پہلے نظر ڈالتے ہیں:
۱:…’’ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم غیر احمدیوں کو مسلمان نہ سمجھیں اور ان کے پیچھے نماز نہ پڑھیں کیونکہ ہمارے نزدیک وہ خدا تعالیٰ کے ایک نبی کے منکر ہیں۔ یہ دین کا معاملہ ہے، اس میں کسی کا اپنا اختیار نہیں کہ کچھ کرسکے۔‘‘                       (انوار خلافت،ص: ۹۰)
۲:…’’پس مسیح موعود (مرزا قادیانی) خود محمد رسول اﷲ ہے جو اشاعت اسلام کے لیے دوبارہ دنیا میں تشریف لائے۔‘‘            (مرزا بشیر احمد پسر مرزا قادیانی، کلمۃ الفصل، ص:۱۵۸)
ان حقائق کے ہوتے ہوئے کیا قادیانیوں کو یہ حق دے دیا جائے کہ وہ اپنی آئینی حیثیت نہ مان کر قانون شکنی کے مرتکب ہونے کے باوجود مسلمانوں کے سروں پر مسلط رہیں؟! مسیحی حضرات، ہندو، سکھ کرم فرما حضرات کا مسلمانوںسے یہ تنازعہ نہیں کہ مسیحی، ہندو، سکھ ہونے کے باوجود خود کو مسلمان کلیم کر کے مسلمانوں کے درپے آزار یا قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوں۔ مگر قادیانیوں کے طرزِ عمل نے یہ صورت حال پیدا کر دی ہے کہ جس سے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ ان کا تدارک صرف اور صرف یہ ہے کہ ان کو قانون کا پابند کیا جائے۔ پاکستان میں واحد قادیانی جماعت ہے جس نے اپنی عدالتیں قائم کر رکھی ہیں۔ اپنے فیصلے، ان کی اپیل، پھر ان پر اپیل در اپیل کا پورا عدالتی سسٹم قائم کر رکھا ہے۔ اپنے اسٹام شائع کرتے ہیں، اپنے سمن جاری کرتے ہیں، ان کی عدالتوں میں باقاعدہ وکیل پیش ہوتے ہیں، پیشیاں پڑتی ہیں، فیصلے ہوتے ہیں۔ اگر ملک میں کسی اور جماعت یا ادارہ نے یہ سسٹم جاری کیا ہوتا تو طوفان کھڑا ہو جاتا کہ سٹیٹ کے اندر سٹیٹ کا سسٹم ناقابلِ برداشت ہے۔ مرتکب کو قانون کا پابند بنایا جاتا بلکہ دیدۂ عبرت بھی، مگر قادیانی ایک ایسی البیلی اقلیت ہے کہ ان کی اس حرکت پر کوئی ملکی ادارہ قانون کی رٹ قائم کرنے، قانون کی حکمرانی کی بات نہیں کرتا۔ ہمارے جیسے چند لوگ اس آواز کو اُٹھائیں تو ہمارے نامور صحافی فرماتے ہیں کہ کیا قادیانیوں کو جینے کا حق نہیں؟ ان بندگانِ خدا سے کوئی پوچھے کہ کوئی مطالبہ کرے کہ چوری کو روکو، ڈاکہ کو روکو، دوسرا ستائش باہمی کا ممبر کھڑا ہو جائے کہ چوروں کو، ڈاکوؤں کو زندہ رہنے کا حق نہیں؟
جناب! زندہ رہنے کا حق تو چور کو حاصل ہے، مگر چوری اور ڈاکے کا لائسنس تو جاری نہیں کیا جاسکتا۔ ہم کہتے ہیں کہ قادیانیوں کو قانون کا پابند بنایا جائے۔ کیا دنیا میں انصاف نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی کہ ہمارے معزز صحافی قادیانیوں کی حمایت میں گویا ایک قانون شکن جماعت کی حوصلہ افزائی کے درپے ہو جاتے ہیں۔
سوال:۱۱:-رسول اللہ a نے اگر عبداللہ بن ابی کو منافق اعظم ڈکلئیر ہونے کے باوجود ریاستِ مدینہ سے بے دخل نہیں کیا تھا تو پھر ہم اس ملک میں غیرمسلموں کو کام سے روکنے والے کون ہوتے ہیں؟ ہمیں اپنے دل، سوچ اور ظرف تینوں بڑے کرنا ہوں گے، ورنہ آج ہم جب اسلام کے نام پر ان لوگوں کو نکال رہے ہیں تو کل کوئی ہم سے بڑا مسلمان ہمیں بھی اس ملک سے نکال دے گا ۔‘‘ 
جواب:-رہی غیر مسلم کے صدر بننے کی بات تو اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے اور وہ نظریہ اسلام ہے، یہاں کی اکثریتی آبادی مسلمان ہے اور ہمارے آئین میں ہے کہ خداداد مملکت کا مذہب اسلام ہوگا اور اس کا صدر اور وزیراعظم مسلمان ہوگا، تو اس میں اعتراض کی کیا بات ہے؟اگر اس پر اعتراض ہے تو بتائیں اسرائیل کا صدر یا وزیراعظم مسلمان ہوسکتا ہے؟ اگر وہاں نہیں بن سکتا اور ان کے صدر یا وزیراعظم کے یہودی ہونے پر کسی کو کوئی اعتراض نہیںتو یہاں کیوں اعتراض ہے؟
سوال:۱۲:-اختلاف دلیل کی بنیاد پر ہونا چاہیے، نہ کہ تعصب، بغض اور عناد کے زیراثر۔
جواب:- یہ بات ٹھیک ہے کہ حضور اکرم a نے عبداللہ بن اُبی منافق کو مدینہ کی ریاست سے بے دخل نہیں کیا تھا، لیکن ان کو ریاست کے کسی اہم منصب پر فائز بھی نہیں کیا تھا۔ اور جب وہ حضور اکرم a کے مقابل آگئے اور مدینہ کی ریاست کو چیلنج کرنے کے لیے مسجد ضرار تعمیر کرلی تو آپa نے اس کو جلانے کا حکم دیا۔ الحمد للہ! پاکستانی مسلمانوں نے کسی غیرمسلم کو کام سے نہیں روکا۔ تمام اقلیتیں خوش ہیں۔ اگر عاطف میاں مرتد اور قادیانی کو منع کیا ہے تو وہ اس لیے کہ بارہا کے تجربوں سے یہ بات ثابت ہوئی کہ یہ طبقہ پاکستان، اور پاکستانی قوم کے لیے مشکلات کھڑی کرتا ہے۔ مغربی دنیا کے لیے جاسوسی کا کام کرتا ہے، اس لیے حکومت، ریاست اور مملکت کے ذمہ داران حضرات ان سے اجتناب کریں اور ہوشیار رہیں۔ اگر مذہبی جماعتوں اور پاکستانی قوم نے جب ملک کی سالمیت ، استحکام، اور حفاظتی نکتۂ نظر سے یہ بات کی ہے تو یہ جرم اُنہیں قبول ہے اور اس کی جو سزا ہے، وہ بھگتنے کے لیے تیار ہیں۔
جناب محمد بلال غوری صاحب سے یہ کہنا چاہیں گے کہ الحمد للہ! قادیانیوں سے ہمارا اختلاف دلیل کی بنیاد پر ہی ہے، کسی تعصب، عنادیا بغض کی بنا پر نہیں۔ اور اگر عاطف میاں مرتد قادیانی سے اختلاف کیا ہے تو یہ بھی دلیل کی بنیاد پر ہے۔میں آپ سے پوچھتا ہوں: جو آدمی کلمۂ اسلام اور مسلمانوں کو چھوڑ کر قادیانیت قبول کرسکتا ہے، تو کیا وہ اپنے یا اپنی جماعت اور جن کے یہ ایجنٹ ہیں، ان کی خوشنودی کے لیے آپ کے ملک کو داؤ پر نہیں لگاسکتا؟ جب کہ اس کے خیالات یہ ہوں، وہ کہتا ہے:
۱:-پاکستان کی ترقی کے لیے یہ ضروری ہے کہ پاکستان کا جوہری صلاحیت کا حامل ہونا ایک جوہری تعیُّش ہے۔۲:-پاکستان کی فوج میں تخفیف اور فوجی اخراجات میں کمی کی جائے۔ ۳:-پاکستان کشمیر کو ہمیشہ کے لیے بھول جائے۔
اگر عاطف میاں کی یہ باتیں تسلیم کرلی جائیں تو پھر پاکستان کا اللہ ہی حافظ۔ کیا یہ باتیں کسی محب وطن کی ہوسکتی ہیں؟ اور اگر ایسے لوگوں کو حکومت میں گھسنے کا موقع دے دیا جائے تو کیا وہ اپنے ایجنڈے پر عمل نہیں کریں گے؟ 
سوال:۱۳:- آپ نے پارلیمنٹ کے ذریعے قانون سازی کرکے اُنہیں غیرمسلم قراردے دیا تو کیا اب اُنہیں اقلیت کے طور پر پاکستان میں جینے کا بھی کوئی حق نہیں؟ اس دلیل کے جواب میں یہ تاویل پیش کی جاتی ہے کہ ان کا معاملہ ہندوؤں، عیسائیوں، سکھوں اور دیگر کافروں سے مختلف ہے۔ یہ پارلیمنٹ کے اس فیصلے کو نہیں مانتے، جس کی رو سے انہیں غیر مسلم قراردیا گیا، یہ ریاست کے باغی ہیں، لہٰذا کسی رعایت کے مستحق نہیں۔
جواب:-محترم! قادیانیوں کو پاکستان میں جینے اور رہنے سے کسی نے منع نہیں کیا، کیا آپ نہیںجانتے کہ چناب نگر جہاں قادیانیوںنے ریاست کے اندر ایک ریاست بنائی ہوئی ہے، وہ پاکستان میں ہی ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی اور شہروں میں جاسوسی کے لیے اپنے خفیہ ٹھکانے بناکر جاگزیں ہیں پورے ملک میں ۔
 ہاں! جیسا کہ آپ نے خود لکھا کہ: ’’یہ لوگ آئین کو نہیں مانتے، اپنے آپ کو غیرمسلم اقلیت نہیں مانتے۔‘‘ ہم یہ کہتے ہیں کہ جناب! جب یہ آئین کو نہیں مانتے تو اس ملک کے کسی کلیدی عہدے کے بھی مجاز نہیں۔ 
باقی آپ نے آئین سے غداری کو عدالتوں کے فیصلوں کے اختلاف پر منطبق کیا، یہ تطبیق درست نہیں، اس لیے کہ عدالتی فیصلے پر جائز تنقید کی قانون اجازت دیتا ہے۔ ہاں!کوئی عدالت کی توہین کرے تو اس پرتوہین عدالت کا کیس ہوگا، لیکن اگر کوئی شخص آئین پاکستان کو نہیں مانتا تو وہ باغی ہے اور اس پر بغاوت کا کیس ہوگا۔ فیصلے سے اختلاف کو ہر عدالت، معاشرہ اور ملک تسلیم کرتا ہے، لیکن بغاوت اور قانون شکنی کو کوئی عدالت، ملک یا معاشرہ قبول نہیں کرتا۔ باقی آپ کا یہ فرق کرنا کہ جو ریاست کے خلاف جب تک ہتھیار نہ اُٹھائے، وہ قابلِ برداشت ہے، یہ آپ کی منطق ہے، کوئی عدالت،ملک یا قانون اس کو قبول نہیں کرتا۔ آئیے! ہم آپ کو یہ بھی بتادیں کہ پاکستان کے آئین کے بارہ میں قادیانیوں کے کیا خیالات ہیں؟ اس کے لیے قادیانیوں کے چوتھے سربراہ مرزا طاہر احمدکا یہ ایک کلپ سن لیں، یہ کلپ یوٹیوب پر موجود ہے، وہ کہتا ہے:
’’اگر یہ آئین جس کا میں ذکر کررہا ہوں، یہ اسی طرح رہنے دیا گیا اور کوئی اور تبدیلی کا دور ایسا نہ آیا کہ اس آئین کو اُٹھاکر ایک طرف پھینک دے تو یہ آئین ملک کو برباد کرے گا اور اگر یہ آئین توڑا گیا تو بہتر ہے، ورنہ یہ آئین ملک کو توڑدے گا۔ اس لیے آخری خیرسگالی اور بھلائی ملک کی ہے، یہ بات ایسی ہے کہ جس میں کوئی شک نہیں۔ یہ آئین رہے گا، ورنہ اس آئین کو ملک توڑنے کی کھلی چھوٹ دے دی جائے گی۔ یہ کیسے اور کب ہوگا؟ اللہ بہتر جانتا

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین