بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

شیخ الہندؒ کا احسانی وعرفانی مقام (دوسری قسط)

شیخ الہند v کا احسانی وعرفانی مقام

                   (دوسری قسط)

شیخ الہندv: مجاہدانہ سرگرمیوں کی عدمِ قبولیت کے خوف سے گریہ     دین کی سربلندی اور خلافت اسلامی کی بقا و استحکام کے لیے زندان و اسیری، عبادات واذکار کی پابندی اور ترجمۂ قرآن کی سعادت کے باوصف شیخ الہندv کی کیفیت یہ تھی کہ: ’’جس وقت مالٹا میں تھے، ایک روز بیٹھے ہوئے رو رہے تھے، ساتھیوں نے پوچھا: کیا حضرت گھبراگئے ہیں؟ یہ لوگ سمجھے کے گھر بار یاد آرہا ہوگا یا جان جانے کا خوف ہوگا۔ فرمایا کہ: میں اس وجہ سے نہیں رورہا ہوں جو تم سمجھے ہو، بلکہ اس وجہ سے رو رہا ہوں کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں یہ مقبول بھی ہے یا نہیں؟!‘‘(۱) حسنِ خلق بھی عبادت ہے     ذوقِ عبادت اور بندگی کا ایک اہم، عظیم اور غالب حصہ مخلوقات سے معاملات اور تعلقات سے متعلق ہے، ـــــ اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے رسول اللہ a نے ارشاد فرمایا: ’’الخلق عیال اللّٰہ، فأحب الناس إلٰی اللّٰہ من أحسن إلٰی عیالہٖ۔‘‘(۲) ’’مخلوق اللہ تعالیٰ کا کنبہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوق میں سب سے زیادہ محبت اس شخص سے ہے، جو اس کے کنبے سے حسن سلوک سے پیش آئے‘‘۔     عام طور پر یہ بات قابل مشاہدہ ہے کہ اگر کوئی بزرگ یا عالم درس و تدریس، تصنیف و افتاء یا صوفیانہ امور میں مشغول رہتا ہے تو اسے بالعموم کاروبارِ دنیا اور لوگوں سے میل جول اور تعلق و اختلاط سے مستثنیٰ سمجھا جاتا ہے، بلکہ پیش قدمی کر کے اگر یہ بھی کہہ دیا جائے کہ فی زمانہ مؤخر الذکر غفلت اور اول الذکر انہماک ہی کو سلوک و عرفان کی معراج سمجھا جانے لگا ہے تو مبالغہ نہ ہوگا ۔ یہ رویہ فی الحقیقت سیرت نبویؐ، اسوۂ صحابہؓ و اہل بیتؓ اور اخلاقِ صوفیہ تینوں کے منافی ہی نہیں، بلکہ ایک ایسی غیر متوازن شخصیت کا غماز بھی ہے جو دین کے ایک بہت اہم اور بڑے حصے سے خود کو اپنی ان انفرادی ’’ذمے داریوں‘‘ کے باعث مستثنیٰ سمجھنے لگتا ہے، جس کے حصول اور جس کی ادائیگی کے لیے نصوص میں متواتر ترغیب و تحریص دلائی گئی ہے: طریقت بہ جز خدمتِ خلق نیست بہ تسبیح و سجادہ و دلق نیست شیخ الہندv: ذوقِ عبادت اور حسنِ خلق کے جامع      شیخ الہندv  اسلاف کے طریق کی اتباع وپیروی میں عبادت و اخلاق دونوں کے توازن کا مظہر تھے۔ مولانا عزیز الرحمن بجنوریv آپ کے عبادات و معاملات کے مابین توازن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’طالب علمی کی زندگی کے بعد متصلاً ہی معلمانہ زندگی کا آغاز ہوجاتا ہے۔ یہ زندگی بھی آپ کی مکمل ترین زندگی ہے۔ دن میں دس دس، گیارہ گیارہ گھنٹے درس کے بعد سلوک و تصوف کے تمام اشغال نہایت پابندی سے اداکرتے تھے۔ صلوٰۃ باجماعت کا تو اس قدر اہتمام تھا کہ تکبیر اولیٰ تک فوت نہ ہوتی۔ غرض کہ پورا دن اسی مشغولیت میں صرف ہوتا۔ مہمانوں کی کثرت، ان کی دیکھ بھال اور خدمت، بال بچوں کی تربیت اور اہلِ بیت کے حقوق کی ادائیگی، غرض کہ کوئی سی مشغولیت بھی آپ کو صلوٰۃ باجماعت، ادائے اوراد و وظائف اور قیام اللیل سے مانع نہ ہوتی تھی‘‘۔(۳) شیخ الہندv: طالبان علوم سے تعلق اور شفقت     شیخ الہندv‘ دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث اور صدر مدرس تھے۔ ظاہر ہے طالبان علوم سے ان کا سابقہ واسطہ ہمہ وقتی تھا۔ شیخ الہندv کے احوال کا مطالعہ اس بات کو واضح کردیتا ہے کہ آپؒ طالبان علوم کے لیے بے حد شفیق اور مہربان تھے۔ مولانا حسین احمد مدنی v لکھتے ہیں: ’’(شیخ الہندv کو) طالب علموں سے بے حد انس تھا‘‘۔(۴) آپؒ کا علمی رعب اور آپؒ کی عرفانی وجاہت آپؒ کے اور طلبہ کے درمیان کبھی حائل نہ ہوتی۔ طلبہ بے تکلف آپ سے اپنی خواہش کا اظہار کردیا کرتے تھے۔ مولانا قاری محمد طیب vسے منقول ہے کہ ایک دن طلبہ نے کہا: ’’حضرت تیرنا سکھلادیجیے۔ چنانچہ جمعے کے دن سویرے طلبہ کو ہمراہ لے کر دیوبند سے باہر تالاب پر گئے اور ہر ایک کو تیرنا سکھایا۔ ایک پنجابی طالب علم نے کہا: حضرت! لایئے! میں آپ کی کمر مل دوں۔ یہ کہہ کر اس نے کمر ملنا شروع کردی۔ حضرت شیخ الہندv کا جسم بہت نرم تھا، طالب علم نے سمجھا میل بہت ہے، اس لیے فوراً ہی ریت اٹھا کر ملنا شروع کیا، جس کی وجہ سے کھال چھل گئی، مگر حضرت نے اُف نہ کی۔ جب واپس ہوئے تو راستے میں ایک بیل کو دیکھا جس کی کمر سے خون جاری تھا، پنجابی طالب علم نے کہا: کسی ظالم نے اس کو کتنی بری طرح مارا ہے۔ حضرتؒ نے فرمایا: جی ہاں! کسی پنجابی نے اس کی کمر ملی ہوگی‘‘۔ (۵)     اللہ اکبر! ایک تو طلبہ پر شفقت کا یہ عالم، اس طالب علم کی غلطی اور اپنی تکلیف پر ادنیٰ گرانی کا اظہار کیے بغیر بات کو مزاح میں ٹال دینا یہی شیخ الہندv کا وصف تھا۔ شیخ الہندؒ: بے نفسی اور عاجزی کا عظیم مظہر     عجب اور تکبر کے بالمقابل بے نفسی و تواضع ہے۔ اس کی حقیقت زبانی اظہار سے زیادہ عملی ہے۔ یہ خود کومحض ہیچ مداں، احقر، خاکسار اور فقیر کہہ دینے سے عبارت نہیں، بلکہ اس کی حقیقت خود کو کسی بھی امتیازی وصف کی بنا پر عام لوگوں سے بلند سمجھے جانے کی عملی نفی ہے۔ بلکہ عارفین نے تو یہ بات نہایت وضاحت سے فرمائی ہے کہ جس نے اپنے لیے تواضع کو ثابت کیا وہ بے شبہ متکبر ہے، کیوں کہ تواضع کا دعویٰ تو اپنی رفعتِ قدر کے مشاہدے کے بعد ہوگا، پھر جب اپنے لیے تواضع کادعویٰ کیا گیا تو گویا اپنے مرتبے کی بلندی کا مشاہدہ کیا، یہی تکبر ہے۔ بے نفس، متواضع اور عجب سے پاک شخص ہمیشہ عام انسانوں میں گھلا ملا رہتا ہے۔ اس کے انداز و اطوار حاکمانہ نہیں ہوتے اور نہ وہ خوردوں سے کسی بڑائی یا تعظیم کا متمنی ہوتا ہے۔ حضرت شیخ الہندvاس وصف میں بھی نمایاں اور ممتاز تھے، مولانا حسین احمد مدنیv لکھتے ہیں: ’’حضرت شیخ الہندv کا طبیعی مذاق تھا کہ وہ غرباء اور معمولی آدمیوں میں رہنا پسند فرماتے تھے اور اپنی عادت، لباس، چال، معاملات وغیرہ اس قسم کا رکھنا چاہتے تھے۔ اہل دنیا اور امراء اور تکلف والوں سے گھبراتے تھے ۔۔۔۔۔۔ ریل میں تیسرے درجے میں سفر کرنا پسند فرماتے تھے۔‘‘(۶)      وہ بداہتہً خود کو ہر کمال اور عظمت سے مُعَرَّا باور کرتے تھے۔ مولانا قاری محمد طیب v لکھتے ہیں: ’’اس رفعتِ شان پر بے نفسی کا عالم یہ تھا کہ گویا نفس کا کوئی تقاضا باقی ہی نہیں رہاتھا،یا اس کے پورے ہونے کی کوئی صورت نہیں رہ گئی تھی، یا اُسے پامال کرنے کی فکر ہر وقت دامن گیر رہتی تھی۔‘‘(۷)     اس سلسلے میں شیخ الہندv کی زندگی کے تین واقعات ملاحظہ کیجیے۔ یہ عاجزی و فروتنی آج بھی عوام سے زیادہ خواص سے اتباع و تقلید کا مطالبہ کر رہی ہے۔ قاری محمد طیبv لکھتے ہیں:     ’’اس زمانے میں اکثر مساجد میں کسیر بچھادی جاتی تھی جو نرم بھی ہوتی تھی اور گرم بھی، یہ گھاس تالابوں میں پیدا ہوتی ہے، جب سوکھ جاتی ہے تو لوگ اسے بچھانے کے لیے لے آتے تھے، اسے دیہات کا قالین یا نرم گدہ سمجھنا چاہیے۔ حضرت شیخ الہندvکی مسجد میں بھی سردیوں میں برابر اس کا فرش ہوتا تھا۔ موسم سرما آنے پر ایک دن خود ہی طلبہ سے فرمایا کہ آؤ بھئی! مسجد کے لیے کسیر لے آویں۔ چار طلبہ کے ساتھ ہولیے، انہیں حضرت اپنے باغ میں لے گئے، وسطِ باغ میں تالاب بھی تھا اور اس پر کسیر بہ کثرت پیدا ہوتی تھی، چنانچہ کسیر کاٹی گئی، خود حضرت بھی درانتی سے کاٹنے میں شریک رہے، کاٹ کر جمع شدہ ذخیرے کے پانچ گٹھڑ بنائے۔ طلبہ نے عرض کیا کہ: حضرت! پانچ گٹھڑیاں کیوں بنائی گئی ہیں؟ ہم تو چار ہیں۔ فرمایا: اور میرا حصہ کہاں گیا؟ یہ کہہ کر چار بڑی بڑی گٹھڑیاں تو طلبہ کے سروں پر رکھوائیں اور ایک اپنے سر پر رکھی۔ ہر چند طلبہ بہ ضد ہوئے کہ حضرت! اس ذخیرے کی چار گٹھریاں کردی جائیں، ہم کافی ہیں، کچھ زیادہ بوجھ نہیں، مگر حضرت نے نہ مانا، چار گٹھریاں طلبہ کے سروں پر اور ایک اپنے سر پر رکھ کر یہ قافلہ چلا، شہر میں آیا اور بازار کے ایک حصے میں سے گزرا، ان طلبہ کو تو ممکن ہے کہ سر پر گھاس رکھ کر بازار میں سے گزرنے پر کچھ عار آرہا ہو،لیکن حضرتؒ کی بے نفسی کا عالم یہ تھا کہ گویا اپنے کو اس بوجھ اٹھانے کا اہل اور مستحق سمجھ کر شہر سے گزر رہے تھے۔ دیہات والے بھی اب جسے پسند نہیں کرتے موصوف کے یہاں وہ بوجھ ایک معمولی بات تھی۔‘‘(۸)     قاری محمد طیب v اسی واقعے سے متصل ایک اور واقعہ بھی نقل کرتے ہیں جس میں تواضع، خاکساری، للّٰہیت، شفقت، محبت اور حسن ادا سب ہی اسباق موجود ہیں، قاری صاحبؒ لکھتے ہیں: ’’میرے خسر مولوی محمود صاحب رام پوری فرماتے تھے کہ وہ دیوبند میں طالب علمی کے زمانے میں چھوٹی مسجد میں رہا کرتے تھے، جس میں حضرت مفتی اعظم مولانا عزیز الرحمن صاحبؒ کا قیام تھا، اس زمانے میں طلبہ میں چارپائی کا دستور نہ تھا، سادگی اور تواضع سے عموماً طلبہ زمین پر لیٹتے تھے۔ مولوی صاحب باوجود رئیس گھرانے کا ایک فرد ہونے کے عام طلبہ کی طرح فرشِ زمین پر ہی اپنے حجرے میں لیٹا کرتے تھے۔ حضرت شیخ الہندv کا موصوف سے اور رام پور کے اس گھرانے سے بہت گہرا اور مخلصانہ تعلق تھا اور مولوی محمود صاحب مرحوم سے یوں بھی خصوصیت زیادہ تھی۔ ایک دن حضرت شیخ الہند v چھوٹی مسجد میں تشریف لائے اور مولوی محمود صاحب کے حجرے پر گزر ہوا، یہ زمین پر فرش بچھائے لیٹے تھے، فرمایا: محمود! تیرے پاس چار پائی نہیں؟ انہوں نے عرض کیا کہ حضرت! چارپائی تو نہیں ہے، مجھے زمین پر لیٹنے کی عادت ہوگئی ہے، اس سے بہت متاثر ہوئے، مگر فرمایا کچھ نہیں، اگلے دن دوپہر کا وقت تھا، گرمی شدید تھی، لو چل رہی تھی کہ مولوی صاحب نے کھڑکی سے دیکھا، حضرت اپنے کندھے پر ایک چارپائی لیے خود تشریف لارہے ہیں، وزنی چارپائی ہے مگر اسے سر پر اٹھا رکھا ہے۔ مولوی صاحب صورت حال دیکھتے ہی حجرے سے نکل ننگے سر اور ننگے پیر حضرت کی طرف دوڑے، حضرت انہیں بھاگتا ہوا دیکھ کر وہیں سڑک پر کھڑے ہوگئے اور چارپائی زمین پر رکھ دی، جب قریب پہنچے تو ایک خاص انداز سے فرمایا: جناب! یہ لے جاؤ اپنی چارپائی، مجھ سے نہیں اٹھتی، میں بھی شیخ زادہ ہوں، مجھ سے یہ چارپائیاں نہیں گھسیٹی جاتیں۔ یہ فرما کر پیٹھ پھیر لی اور گھر روانہ ہوگئے۔ مولوی صاحب کچھ کہنے ہی نہ پائے اور چارپائی اٹھا کر حجرے میں لے آئے، گویا انہیں کوئی کلمۂ معذرت بھی نہیں کہنے دیا کہ وہ معنی ً ثنائِ حسن ہوجاتی۔‘‘(۹) شیخ الہندv: بہ یک وقت اپنے معمول کی پابندی اور طلبہ کی رعایت     قاری محمد طیب صاحب v ہی نقل کرتے ہیںکہ: ’’حضرت نانوتوی vکی وفات کے بعد حضرت شیخ الہندv کی عادت تھی کہ ہر جمعرات کو حضرت گنگوہی v کے پاس حاضری کے لیے گنگوہ کا سفر پیدل کرتے تھے، جمعرات کو چھٹی کا گھنٹہ بجتا، اسی وقت سبق سے اٹھ کر گنگوہ کا راستہ لیتے۔ گنگوہ دیوبند سے ۲۲کوس یعنی ۳۰ میل ہے۔ حضرت اذان عصر پر چلتے اور عشاء گنگوہ پڑھ لیتے تھے۔ جمعے کا پورا دن حضرت گنگوہی v کی خدمت میں گزار کر اذانِ عصر کے قریب گنگوہ سے واپس ہوتے اور عشاء دیوبند میں پڑھ لیتے تھے۔ برس ہا برس یہ معمول رہا، سردی ہو یا گرمی یہ معمول قضا نہ ہوتا تھا۔     مولوی محمود صاحب کا بیان ہے کہ ایک دن ہم دو تین طلبہ نے اصرار کیا کہ حضرت! ہم بھی ساتھ چلیں گے۔ فرمایا: اچھا، مگر اس دن حضرت نے ان طلبہ کی رعایت سے پیدل سفر کرنے کے بجائے ارادہ کیا کہ سفر سواری پر ہو، تو کمہار کا ایک ٹٹو کرایہ پر لے لیا اور ارادہ یہ کیا کہ دو تین طلبہ اترتے چڑھتے چلے جائیں گے، چنانچہ کمہار ٹٹو لے کر دارالعلوم کے دروازے پر آگیا۔ حضرت حسبِ معمول اذانِ عصر کے قریب درس سے اٹھے، یہ طلبہ بھی حاضر تھے تو حضرتؒ نے فرمایا کہ: بھائی میاں محمود! پہلے تم سوار ہو، پھر باری باری ہم بھی سوار ہوتے رہیں گے۔ انہوں نے حضرتؒ کے سوار ہونے پر اصرار کیا تو حضرتؒ نے نہ مانا اور زبردستی مولوی محمود صاحب کو سوار کردیا۔ دو طلبہ اور خود حضرت پیچھے پیچھے پیدل روانہ ہوئے، بلکہ ایک قمچی لے کر ٹٹوکو ہنکانا بھی اپنے ذمے لے لیا۔     مولوی محمود صاحب فرماتے تھے کہ میں سخت ضیق میں تھا کہ حضرت تو پیچھے پیچھے پیدل ہیں اور میں سوار ہوں، مگر مجبور تھا، حکم یہی تھا، دو چار میل چل کر یہ ٹٹو سے اتر گئے تو حضرتؒ نے زبردستی دوسرے طالب علم کو بٹھا دیا اور خود ٹٹو ہانکتے جا رہے ہیں۔ چار پانچ میل کے بعد دوسرے طالب علم کو چڑھادیا۔ غرض تیس میل کا سفر پورا طے ہوگیا، مگر خود نہیں چڑھے، باری باری ان طلبہ کو بٹھاتے رہے۔ اس وقت معلوم ہوا کہ یہ ٹٹو اپنے لیے کرائے پر نہیں لیا تھا، بلکہ ان طلبہ کے لیے شفقۃً لیا گیا تھا۔ جمعے کو واپسی ہوئی تو طلبہ گھبرائے کہ اب پھر وہی معاملہ ہوگا کہ ہم ٹٹو پر سوار ہوں گے اور حضرت پیدل چلیں گے، باہم مشورہ ہوا کہ آخر کیا صورت اختیار کی جائے کہ ہم پیدل چلیں اور حضرت کو ٹٹو پر سوار کردیں۔     مولوی محمود صاحب فرماتے تھے کہ: میں نے کہا: ترکیب تو میں کردوں گا کہ حضرت پورے راستے ٹٹوسے نہ اتر سکیں، مگر ایک دفعہ سوار کردینا ہے۔ چنانچہ جب گنگوہ سے روانگی ہوئی تو حسبِ معمول طلبہ پر زور دیاکہ سوار ہو، مگر یہ لوگ ایکا کر چکے تھے، عرض کیا کہ: حضرت! آتے ہوئے ہم سوار رہے، اب واپسی میں یہ نہیں ہوگا، حضرت سوار ہوں خواہ پھر اترلیں، مگر ابتدا حضرت ہی کے سوار ہونے سے ہوگی۔     جب یہ سب اکٹھے ہو کر بہ ضد ہوئے تو آخرحضرت نے قبول فرمالیا اور ٹٹو پر سوار ہوگئے۔ طلبہ نے چپکے سے مولوی محمود سے کہا کہ تم اب وہ موعود ہ ترکیب کرو کہ حضرت دیوبند تک ٹٹو سے نہ اترنے پائیں، چنانچہ مولوی صاحب نے وہ مؤثر نسخہ استعمال کیا کہ جب حضرت سوار ہوگئے تو انہوں نے ٹٹو کے برابر میں آکر حضرت نانوتویؒ، حضرت حاجی امداد اللہؒ، حضرت حافظ شہید ؒوغیرہ اکابر کا تذکرہ چھیڑ دیا۔ حضرت کی عادت تھی کہ ان بزرگوں کا ذکر چھڑتے ہی ان میں محو ہوجاتے تھے اور پھر ادھر اُدھر کی کچھ خبر نہیں رہتی تھی۔ ان حضرات کا ذکر چھڑتے ہی جو حضرت نے ان بزرگوں کے واقعات بیان کرنے شروع کیے تو حضرت کو نہ راستے کی خبر رہی نہ ان طلبا کی، پورے تیس میل کا سفر طے ہوگیا، ندی آگئی جو دیوبند سے تین چار میل کے فاصلے پر ہے۔ ندی دیکھتے ہی حضرت نے گھبرا کر فرمایا کہ اوہو!ندی آگئی اور یہ کہہ کر ٹٹو سے کود کر اترے۔ فرمایا: بھائی میں نے تم سب کا حق مار لیا، لو جلدی سے تم سوار ہو۔ طلبہ نے ہر چند حضرت کے بیٹھنے کا اصرار کیا، مگر حضرت تہیہ فرماچکے تھے، کسی کی نہیں سنی، باری باری ان لوگوں کو بٹھلایا۔ شہر میں داخل ہوئے تو پھر اسی شان سے کہ طلبہ سوار ہیں اور حضرت پیدل ہیں، قمچی ہاتھ میں ہے اور ٹٹو ہانک رہے ہیں۔ جس سے طلبا بچنا چاہتے تھے بالآخر وہی چیز پھر سامنے آکر رہی۔ سبحان اللہ! بے نفسی اور شفقت کی انتہا ہے۔(۱۰) شیخ الہندv: اتباعِ شیخ کا مثالی نمونہ     اس مقام پر اگرچہ یہ واقعہ شیخ الہند v کے معمول کی پابندی اور طلبہ کے حق میں شفقت و رعایت کی غرض سے بیان کیا گیا ہے، لیکن اگر اس سے متصل ایک اور اہم واقعہ بیان نہ کیا جائے تو بات ادھوری رہ جائے گی اور منازلِ سلوک و احسان میں شیخ کی اتباعِ کامل کے متعلق شیخ الہند v کا اُسوہ پوری طرح نکھر کر سامنے نہیں آسکے گا۔ شیخ الہندv کا یہ معمول ذکر کیا جاچکا ہے کہ آپ کا جمعرات کے روز چھ گھنٹے پڑھانے کے بعد دیوبند سے گنگوہ پیدل جانے کا معمول تھا۔ ایک دفعہ: ’’شیخ الہندؒ کے دوست نے جو زمانہ طالب علمی سے دوست تھے اور بعد میں سرکاری ملازمت اختیار کرلی تھی، پوچھا کہ او محمود! بتاتودے، گنگوہ میں کیا رکھا ہے جو تو ہر جمعرات کو دوڑا دوڑا جاتا ہے؟ شیخ الہندv نے جواب دیا: ظالم تو نے پی ہی نہیں! اب کے تو بھی چل! ـــــ وہ ساتھ جانے پر تیار ہوگیا، چناں چہ ساتھ لے گئے، اتفاق سے ان دنوں شاہ عبد القدوس گنگوہیv  کے مزار پر عرس ہورہا تھا۔ حضرت امام ربانی [گنگوہیv] کا معمول عرس کے ایام میں ابتداء ً تو یہ تھا کہ ان دنوں میں گنگوہ چھوڑ دیتے تھے، خانقاہ خالی کردیا کرتے تھے اور جب معذور ہوگئے تھے تو سفر ترک فرمادیا تھا۔ ہاں! خانقاہ میں نہیں آتے تھے، البتہ نماز کے لیے پانچوں وقت تشریف لاتے، بلکہ نماز خود ہی پڑھایا کرتے تھے۔ اتنا لحاظ عرس والے بھی کرتے تھے کہ اذان کے وقت سے جماعت ختم ہوجانے اور سنتیں وغیرہ پڑھنے تک قوالی بند کردیا کرتے تھے۔ ان ایام میں حضرت کے یہاں مہمانوں کی آمد ورفت بالکل بند رہتی تھی، کسی سے مصافحہ تک نہیں کرتے تھے۔ـــــ غرض حضرت شیخ الہندv رات کے وقت گنگوہ پہنچے اور حضرت کے مکان پر حاضر ہوئے۔ حضرت نے دیکھتے ہی ڈانٹنا شروع کردیا اور فرمایا: ابھی واپس جاؤ۔ آپ [شیخ الہندv] کے ایک اور بھائی اور دوست تھے: شاہ مظہر حسن گنگوہیؒ، مولانا فخر الحسن گنگوہیؒ محشی ابو داود کے بھائی، انہوں نے عرض کیا: حضرت! یہ عرس میں شرکت کے لیے نہیں آئے، آپ کے پاس آئے ہیں۔ حضرت (گنگوہیv)نے ارشاد فرمایا: میں بھی جانتا ہوں عرس میں شرکت کے لیے نہیں آئے، میں اتنا بھولا نہیں ہوں، میرے پاس آئے ہیں، مگر آئے تو ہیں اس مجمعے میں ہوکر، ان کے ذریعے اس مجمعے کی رونق تو بڑھی، ’’من کثر سواد قوم فھو منھم‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’جس نے کسی قوم کے افراد میں اضافہ کیا وہ ان ہی میں سے ہے‘‘ وارد ہوا ہے، قیامت کو اپنی براء ت کرتے رہیں۔اس کے بعد شاہ مظہر حسن گنگوہیv ان [شیخ الہندv] کو اپنے مکان پر لے گئے اور کہا روٹی تو کھالو۔ اس پر حضرت شیخ الہندvنے آب دیدہ ہو کر فرمایا کہ: ’’حضرت تو فرماویں ابھی چلا جا، میں کس منہ سے کھاؤں!‘‘ چنانچہ اسی وقت گنگوہ سے واپس ہوگئے، پھر دوسرے وقت عرس ختم ہونے کے بعد حاضر ہوئے‘‘۔(۱۱) شیخ الہندv: استاذ نانوتویv کی خدمت، ۲۲ ؍میل کا پیدل سفر     جس انسان کا نفس اس درجے مزکی اور مطہر ہوچکا ہو، اس کا قلب اپنے محسنین اور اساتذہ جن سے اسے علم وفضل اور صلاح و تقوی بلکہ ایمان میں رسوخ اور عمل میں دوام کی دولت میسر آئی ہو‘ کی محبت سے کس درجے لبریز ہوگا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ یہ محبت ہی انسان کو محبوب کا خادم اور محبوب کو مخدوم بناتی ہے۔ اس خدمت کا صرف ایک نمونہ دیکھئے! ایک مرتبہ مولانا نانوتوی v کو بخار تھا، زمانہ برسات کا تھا اور آنا دیوبند تھا۔ شیخ الہندv نے استاذ نانوتوی v کو گھوڑے پر سوار کیا، ایک ہاتھ سے اس کی لگام پکڑی اور ایک ہاتھ سے رکاب کے قریب ہو کر حضرت کی کمر کو سہارا دیا اور اس طرح ۲۲؍ میل کا راستہ پیدل طے کیا۔(۱۲)     ۲۲؍ میل کا پیدل سفر ـــــ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے، یہ وہی شخص کر سکتاہے جس کو استاذ کی محبت نے بے خود کردیاہو۔ شیخ الہندv: مولانا نانوتوی v کے والد کی اولاد سے بڑھ کر خدمت     چلئے!!! حضرت نانوتوی v تو استاذ تھے، اس طرز کی خدمت کی مثالیں ڈھونڈنے سے دیگر باصفا حضرات کے یہاں بھی مل جائیں گی، لیکن ایک واقعہ اس سے زیادہ حیران کردینے والاہے جو استاذ نانوتوی v سے نہیں بلکہ ان کے والد محترم سے متعلق ہے۔ مولانا قاری طیب v لکھتے ہیں:     ’’ حضرت نانوتویؒ کے والد شیخ اسد علی مرحوم جب مرض وفات میں شدید مبتلا ہوئے تو علاج کے لیے دیوبند لائے گئے، قیام شیخ الہندؒ کے مکان پر ہوا، دستوں کا مرض تھا ۔۔۔۔۔  ایک دفعہ دست چارپائی پر خطا ہوگیا، اس وقت حضرت نانوتوی v بھی یہاں موجود نہ تھے، حضرت شیخ الہندv موجود تھے اور صورت ایسی ہوگئی کہ نجاست اٹھانے کے لیے ظرف(برتن) بھی نہ تھا۔ حضرت شیخ الہندv نے بے تکلف ساری نجاست اپنے ہاتھوں اور ہتھیلیوں میں لے لی اور سمیٹنی شروع کردی، تمام ہاتھ گندگی میں آلودہ ہی نہ تھے بلکہ ہاتھوں میں نجاست لبریزی کے ساتھ بھری ہوئی تھی۔ حضرت نانوتویv پہنچ گئے اور دیکھا کہ حضرت شیخ الہندv کے دونوں ہاتھ نجاست اور مواد سے بھرپور ہیں اور وہ اسے سمیٹ سمیٹ کر بار بار باہر جاتے ہیں اور پھینک پھینک کر آتے ہیں۔ اس پر حضرت نانوتویv بہت متاثر ہوئے اور وہیں کھڑے کھڑے ہاتھ دعا کے لیے اٹھائے اور عرض کیا کہ خداوند! محمود کے ہاتھوں کی لاج رکھ لے اور اس خاص وقت میں جو جو بھی اپنے اس محبوب تلمیذ کے لیے مانگ سکتے تھے ہاتھ اٹھائے ہوئے مانگتے رہے۔‘‘(۱۳) مولانا نانوتویv اور مولانا گنگوہیv کی اولادوں سے خادمانہ برتاؤ کے مظاہر     اس خدمت و محبت اور مولانا نانوتوی v کے دل سے نکلی ہوئی دعاؤں نے شیخ الہند v کی عظمت و رفعت کو ثریا تک پہنچا دیا۔ مولانا نانوتوی v کے خدا جانے کتنے اور کیسے کیسے ذہین و ذکی تلامذہ ہوں گے، لیکن آج ان کی اکثریت کا نام تاریخ اور ماضی کے دھندلکوں کی نظر ہوچکا اور شیخ الہندv کانام مولانا نانوتوی v کے ساتھ ایسے جڑا ہوا ہے جیسے رومیؒ کا شمس تبریزؒ کے ساتھ۔ یہ استاذ کی محبت ہی کا اثر ہے کہ مولانا نانوتویv اور مولانا گنگوہی v کے متعلقین سے شیخ الہندv خادمانہ برتاؤ فرماتے تھے اور ان کے حقوق اداکرنے کی کوشش کرتے تھے۔ مولانا محمد قاسم نانوتوی v کے صاحبزادے حافظ محمد احمد صاحبؒجو شیخ الہندv کے شاگرد تھے‘ کے متعلق شیخ الہندv نے فرمایا: ’’حافظ احمد کا میرے دل میں اتنا احترام ہے کہ اگر وہ پاخانے کی ٹوکری اٹھانے کو بھی مجھ سے کہیں تو میں اس کی تعمیل کو اپنی عزت سمجھوں گا۔‘‘(۱۴)     شیخ الہندv‘ حافظ صاحب کے استاذ ہوتے ہوئے بھی ان کے سامنے مؤدب اور نیاز مندانہ بیٹھا کرتے تھے۔ یہ معمول کی بات تھی کہ جب حافظ صاحب شیخ الہندv کے مکان پر تشریف لے جاتے اور شیخ الہندv صحن مکان میں چارپائی پر بیٹھے ہوتے، دروازے کے سامنے کی سڑک کی لمبی مسافت سے جہاں حافظ صاحب آتے ہوئے شیخ الہندv کو نظر پڑجاتے تو حضرتؒ چارپائی چھوڑ کر کھڑے ہوجاتے تھے اور اس وقت تک کھڑے رہتے تھے جب تک کہ حافظ صاحب مکان میں پہنچ کر اپنی جگہ بیٹھ نہ جائیں اور ان کے بٹھانے کی صورت یہ ہوتی تھی کہ حضرت شیخ کرسی منگواتے، اسے اپنے سرہانے بچھاتے، جب حضرت حافظ صاحب اس پر بیٹھ جاتے تب حضرت چارپائی پر بیٹھ جاتے۔(۱۵)     یہ تو براہِ راست مولانا نانوتویv کی اولاد کا معاملہ تھا، اب مولانا نانوتویv کی تیسری نسل یعنی حافظ محمد احمد ؒ کے صاحبزادگان مولانا قاری محمد طیب اور مولانامحمد طاہر کے ساتھ رویہ دیکھئے! قاری محمد طیبv لکھتے ہیں: جب شیخ الہندv نے مالٹا سے رہا ہو کر دیوبند ورود فرمایا تو حافظ صاحبؒ نے فرمایا کہ: حضرت! ان دونوں بچوں (محمد طیب اور محمد طاہر) کو بیعت فرمالیجیے! تو ازراہِ تفنن فرمایا: ’’لوگ مجھے کہتے ہیں کہ یہ بڑا ہوشیار ہے۔ دو بزرگوں (حضرت گنگوہیؒ اور حضرت نانوتویؒ) کے دو ہی صاحبزادے ہیں (مولانا مسعود احمد گنگوہیؒ اور حافظ احمد صاحبؒ) اس نے دونوں پر پہلے ہی سے قبضہ جمارکھا ہے، اب اگر ان بچوں کو بھی بیعت کرلیا تو کہیں گے کہ دیکھو اس نے آگے کو بھی قبضہ رکھنے کو داغ بیل ڈال دی ہے۔ دو دن کے بعد اچانک خود ہی دارالعلوم تشریف لاکر مجھے اور طاہر مرحوم کو بلایا، ہمارے ذہن میں بھی نہیں رہا تھا کہ ہمیں بیعت بھی ہونا ہے۔ میں نے عرض کیا: حضرت کیوں یاد فرمایا؟ فرمایا: مرید کرنا ہے۔ اس وقت ندامت سی ہوئی کہ اس کے لیے ہمیں خود حاضر ہونا تھا، لیکن یہاں قصہ برعکس ہورہا ہے‘‘۔ (۱۶)     استاذ کی اولادکی اولادکے حق اور خدمت کا ایک اور محیر العقول واقعہ دیکھیے جو اپنے تأثر میں اس سے بھی بڑھ کر ہے۔ جب قاری طیب صاحب v کا رشتہ شیخ الہندv کے ایما و حکم پر رام پور کے ایک باعزت و دین دار گھرانے میں طے ہوا تو شیخ الہندv نے بڑی امنگ اور جوشِ مسرت سے فرمایا کہ بھائی! یہ رشتہ میں لے کر جاؤں گا۔ چنانچہ یہ پیغام خود ہی لے کر رام پور تشریف لے گئے اور وہاں جاکر فرمایا: ’’میں اس وقت حضرت نانوتویv کے گھرانے کے ایک ڈوم اور حجام کی حیثیت سے رشتے کا پیامی بن کر آیا ہوں۔‘‘ (۱۷) میں مولانا نانوتوی vکے گھر کی خادمہ کا غلام ہوں:شیخ الہندؒ     اسی طرح اپنے برادراصغر مولانا محمد طاہر کے متعلق قاری طیب صاحبv ہی راوی ہیں کہ: ’’ایک مرتبہ مغرب سے کچھ پہلے کا وقت تھا، نماز کے لیے حضرت شیخ الہندv کی مجلس سے سب لوگ اٹھ کر چلے، میرے برادر خورد مولوی طاہر مرحوم ٹھہرگئے۔ حضرت شیخ الہند نور اللہ مرقدہٗ اندر زنانہ مکان سے گرم پانی لائے اور مولوی طاہر مرحوم سے فرمایا کہ: وضو کرلو، وہ ذرا ہچکچائے کہ حضرت میرے لیے لوٹا لائے، اس پر فرمایا کہ: تم جانتے بھی ہو کہ میں کون ہوں؟ میں پیرو کا غلام ہوں۔ (پیرو حضرت نانوتویv  کے گھر میں خادمہ تھیں)۔(۱۸) شیخ الہندv: بہ صد گریہ مولانانانوتوی v کی اہلیہ کے جوتے سر پررکھنا     پے بہ پے خدمت، عظمت و تعلق اور اس خادمانہ پاس و لحاظ کے باوصف شیخ الہندv ہمیشہ اس بات پر نادم اور شرمندہ رہے کہ انہوں نے مولانا نانوتوی v کے احسانات کا حق ادا نہیں فرمایا۔ چنانچہ سفر حجاز کے لیے روانہ ہوتے وقت مولانا نانوتویv کے گھر حاضر ہوئے، مولانا نانوتویv کی اہلیہ کی خدمت میں عرض کیا:     ’’اماں جی! آپ کی کوئی خدمت نہیں کی، بہت شرمندہ ہوں، اب سفر میں جارہا ہوں، ذرا اپنا جوتہ دے دیجیے، انہوں نے پس پردہ سے جوتا آگے بڑھادیا، حضرت شیخ الہندv  نے اس کو لے کر اپنے سر پر رکھا اور روتے رہے کہ میری کوتاہیوں کو معاف فرمادیجیے‘‘۔(۱۹) مولانا نانوتویv و مولانا گنگوہی v کے صاحبزادگان سے اصرار: کہہ دو! یہ ناکارہ ہماراخادم ہی رہا     چلیے! یہ تو حضرت نانوتویv کی اہلیہ تھیں، شیخ الہندv کے لیے ماں کے مثل تھیں، ان کے رو بہ رو یہ عاجزی اور ندامت قابل فہم بھی ہے، لیکن مولانا نانوتویv کے صاحبزادے حافظ محمد احمد صاحبؒ اور مولانا رشید احمد گنگوہی v کے صاحبزادے مولاناحکیم مسعودؒ کے بالمقابل بھی شیخ الہندv کی عاجزی اور ندامت کا یہی عالم تھا۔ جب کہ حافظ صاحبؒ شیخ الہندv کے شاگرد تھے اور حکیم صاحبؒ مرید۔مولانا سیّدحسین احمد مدنی v سے منقول ہے کہ:     ’’ حضرت شیخ الہندv کے مالٹا سے آنے کے بعد حضرت کی مردانہ نشست کے سامنے کے کمرے میں بند کواڑ کھول کر میں اچانک اندر گھسا تو یہ منظر دیکھا کہ دونوں مخدوم زادے ابن قاسم حضرت حافظ اور ابن رشید حضرت حکیم مسعود احمد صاحب گنگوہی تخت پر ہیں اور حضرت شیخ الہندv تخت سے نیچے ان دونوں کے سامنے مؤدب بیٹھے ہیں اور رو رہے ہیں اور ہاتھ جوڑے ہوئے انتہائی نیاز مندی سے کہہ رہے ہیں کہ میں نے آپ دونوں کا کوئی حق واجب ادا نہیں کیا، اب میرے مرنے کا وقت ہے اور دونوں بزرگوں (حضرت قاسمؒ اور حضرت گنگوہیؒ) کو منہ دکھانا ہے تو میں انہیں ان کے صاحبزادوں کے بارے میں کیا جواب دوں گا؟ تم دونوں کوئی کلمہ تسلی کا میرے لیے کہہ دو کہ میں وہی کلمہ ان بزرگوں کے سامنے کہہ دوں اور قیامت کے دن یہ بزرگ خود تم سے کچھ پوچھیں تو تم بھی کلمۂ خیر کہنا کہ یہ ناکارہ خادم ہمارا خادم ہی رہا اور ہم سے الگ نہیں ہوا۔‘‘(۲۰)     یہی وہ اوصاف تھے جس نے شیخ الہندv کو جا ودانی بخشی تھی۔ اپنے شاگرد اور مرید کے روبہ رو ہاتھ جوڑ کر وہی شخص بیٹھ سکتا ہے جو مقام احسانی کو پاچکا ہو۔ یہ بے نفسی اور فنائیت عظیم مجاہدات اور سینکڑوں کرامات سے بلند اور بیش قیمت ہے۔ شیخ الہندv: جانور سے اُنس     عشق ومحبت کے خمیر سے پروان چڑھنے والے ہی معرفت اور احسان کے مقام پر فائز ہوتے ہیں۔ ایسے شخص کے دل میں انسان تو انسان جانور تک کے لیے جذبۂ ترحم بیدار رہتا ہے۔مولانا عزیز الرحمن بجنوریؒ لکھتے ہیں:     ’’حضرت شیخ الہندvکی عادت شریفہ تھی کہ ہر سال قربانی کے لیے بچھڑا خریدا کرتے تھے۔ سال بھر تک اس کی خوب خاطر کرتے اور اپنی اولاد کی طرح رکھتے تھے۔ ایک دفعہ جو بچھڑا خریدا وہ آپ سے بہت زیادہ مانوس ہوگیا۔ حضرت جب دار الحدیث درس دینے کے لیے تشریف لے جاتے تو وہ بچھڑا بھی ہمراہ جاتا اور دار الحدیث کے باہر بیٹھ جاتا۔ جب آپ سبق سے واپس ہوتے تو بچھڑا بھی آپ کے پیچھے پیچھے واپس ہوتا۔ لیکن جب قربانی کا دن آیا تو حضرت شیخ الہندv نے تعمیل حکم خداوندی میں خود اپنے دست مبارک سے اس کو ذبح کیا۔ راوی کا بیان ہے کہ اس وقت حضرت کی یہ حالت تھی کہ ہاتھ سے چھری چلا رہے تھے اور آنکھوں سے اشک ریزاں تھے۔‘‘(۲۱)     اور یہ صرف ایک دفعہ ہی کا واقعہ نہیں ہے، بلکہ مولانا محمود حسن گنگوہیv کی تصریح کے مطابق یہ شیخ الہندv کا معمول تھا کہ وہ جانور خود پالتے، اسے خود چارہ کھلاتے، ایام قربانی جب قریب ہوجاتے تو گھاس میں کمی کردیتے اور بالٹی بھر کر دودھ جلیبی کھلاتے، پھر قربانی سے پہلے اس کے جگہ جگہ مہندی لگاتے اور پھر یوم نحر(۱۰ ذو الحجہ) کو قربان کر کے ’’لَنْ تَنَالُوْا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ‘‘ پر عمل کرتے۔‘‘(۲۲) وعظ اَللہ کے لیے نہ کہ اظہارِ علم کی غرض سے     مولانا اشرف علی تھانویv جس زمانے میں جامع العلوم کان پور میںمدرس تھے، وہاں جلسہ دستار بندی میں شرکت کی درخواست کے لیے اپنے اساتذہ حضرت شیخ الہند محمود حسنv اور مفتی عزیز الرحمنv وغیرہ کو دیوبند خط لکھا۔ شیخ الہندv کی سادگی کا حال یہ تھا کہ آپ کے پاس صرف ایک کرتا، ایک پاجامہ، ایک ٹوپی اور ایک لنگی تھی۔ آپ کے کپڑے کھدر کے ہوتے، ہاتھ سے دھوئے جاتے اور انہیں استعمال کیا جاتا۔ چوں کہ کان پور میں دیگر مکتب خیال کے علما اور اہل علم سے ملاقات و نشست کا احتمال تھا، اس لیے مولانا تھانویv نے شیخ الہندv کو خاص طور پر لکھا:     ’’حضرت! میں ایک بات عرض کرتا ہوں، ہے تو حماقت جو میں عرض کرتا ہوں، مگر بڑے چھوٹوں کی بے وقوفی کو بھی برداشت کرلیتے ہیں۔ حضرت! آپ ذرا دھلے ہوئے کپڑے پہن کر تشریف لاویں ۔۔۔۔۔ حضر ت شیخ الہندv نے جواب دیا: تمہارے خط کی رعایت کی جائے گی۔‘‘     حضرت تھانویv نے سب لوگوں کو خوش خبری سنائی کہ میرے استاذ شیخ الہندv دیوبند سے تشریف لانے والے ہیں، جو اتنے اتنے کمالات کے جامع ہیں۔ جب ان حضرات کو آمد کی اطلاع پہنچی تو حضرت تھانوی v ان کو لینے کے لیے اسٹیشن گئے، شیخ الہندv نے اپنے ہاتھ کے دھلے ہوئے کپڑے پہنے ہوئے تھے، ایک لنگی کندھے پر تھی اور جو کان پور کے علماء تھے وہ بڑے بڑے جبے پہنے ہوئے تھے، یہاں ان کو کوئی صورت سے بھی نہیں پہچانتا تھا کہ یہ کوئی چار حرف بھی جانتے ہوں گے۔ مولانا تھانوی v نے وعظ و تقریر کی درخواست کی، شیخ الہندv نے فرمایا: ’’میں اور وعظ! کیا تمہاری بھد نہیں ہوگی کہ ایسے کے شاگردہیں، جن کو بولنا بھی نہیں آتا۔ تمہارا وعظ تو، ماشا ء اللہ! وعظ ہوتا ہے‘‘۔     حضرت تھانوی v نے عرض کیا: نہیں !نہیں! آپ وعظ فرمائیں، فرمایا: ’’اچھی بات ہے، وعظ کہوں گا، تاکہ سامعین کو معلوم ہوجائے کہ شاگرد استاذ سے بڑھا ہوا ہے۔‘‘(۲۳)     وعظ شروع فرمایا، جس میں فقہ کے مسائل خوب بیان فرمائے۔ علمائے کان پور یہ سمجھتے تھے کہ دیوبند اور سہارن پور کے علماء معقولات نہیں جانتے، فقہ خوب جانتے ہیں۔ اسی اثناء میں مولانا مفتی لطف اللہ علی گڑھیؒ تشریف لے آئے ۔ــــ شیخ الہندv  نفس کشی کے موقع کی تلاش میں رہتے تھے، جہاں کوئی ایسا موقع آیا جس سے نفس کو حظ اٹھانے کا موقع ملے یا کوئی ایسی بات ہو جس سے اپنی بڑائی یا عظمت جھلکتی ہو شیخ الہندv اسی وقت نفس کشی کا سامان مہیا کرلیتے تھے، ان کی ذات وقتی تأثرات و جذبات سے بالکل غیر متأثر اور لاتعلق ہوچکی تھی۔ مولانا لطف اللہ v کی آمد اور شیخ الہندv کی للّٰہیت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے مولانا تھانویv لکھتے ہیں:     ’’جناب مولانا لطف اللہ صاحب علی گڑھیv بھی کان پور تشریف لائے ہوئے تھے، میرے عرض کرنے پر جلسے میں تشریف لائے اور عین اثنائے وعظ میں تشریف لائے۔ اس وقت ایک بڑا عالی مضمون بیان ہورہا تھا جس میں معقول کا ایک خاص رنگ تھا۔ ہم لوگ خوش ہوئے کہ ہمارے اکابرکی نسبت معقولات میں مہارت کم ہونے کا شبہہ آج جاتا رہے گا اور سب دیکھ لیں گے کہ معقول کس کو کہتے ہیں۔ مولاناؒ کی جوں ہی مولانا علی گڑھی v پر نظر پڑی فوراً وعظ بیچ ہی میں سے قطع کر کے بیٹھ گئے۔ مولانا فخر الحسن صاحب گنگوہیv بہ وجہ ہم درس ہونے کے بے تکلف تھے، انہوں نے دوسرے وقت عرض کیا کہ یہ کیا کیا؟ یہی تو وقت تھا بیان کا۔ فرمایا: ہاں! یہی خیال مجھ کو آیا تھا، اس لیے قطع کردیا کہ یہ تو اظہارِ علم کے لیے بیان ہوا، نہ کہ اللہ کے واسطے۔‘‘(۲۴) ترجمۂ قرآن کی اشاعت کے لیے تلامذہ کی تصدیق،بے مثل عاجزی     مولانا لطف اللہ علی گڑھیؒ تو پھر معاصر، ذی علم اور صاحب نسبت بزرگ تھے، ان کے رو بہ رو تواضع کا اختیار کرنا اتنا حیران کن نہیں جتنا اپنے تلامذہ کے سامنے تواضع کا واقعتی اظہار موجبِ حیرت معلوم ہوتا ہے۔ مولانا اشرف علی تھانوی v سے منقول ہے:     ’’جب حضرتؒ نے قرآن پاک کا ترجمہ پورا کیا، تو حضرتؒ نے دیوبند میں سب علماء کو جمع کر کے- جو حضرت کے خدام اور تلامذہ تھے- یہ فرمایا کہ: بھائی! میں نے قرآن شریف کا ترجمہ پورا تو کردیا ہے، لیکن سب مل کر اس کو دیکھ لو،اگر پسند ہو تو شائع کرو، ورنہ رہنے دیا جائے۔‘‘(۲۵)     بلا شک بے نفسی، للّٰہیت اور تقویٰ کا یہ مقام عارفین کو بھی بہت آخر میں جا کر نصیب ہوتا ہے اور اس کا حصول انسان کو ہر ہر لمحہ اپنے احتساب اور محاسبے میں مشغول اور متوجہ رکھتا ہے۔ شیخ الہندؒؒ: انگریزوں کے متعلق استفتا کا جواب لکھنے سے اعراض ، نفرت کلیدی وجہ     ایسے متقی اور با صفا انسان کا کوئی کام جذبات یا غصے سے مغلوب ہونے کا نتیجہ نہیں ہوتا۔ انگریز جس سے شیخ الہندv نفرت میں بہت بڑھے ہوئے تھے، تحریک ِخلافت کے دوران جب ترکِ موالات کے بارے میں حضرتؒ سے استفتا کیا گیا تو اپنے محبوب ترین شاگردوں (مولانا سید حسین احمد مدنیv، مولانا شبیر احمد عثمانیv اور مفتی محمد کفایت اللہv) کو بلا کر فرمایا: ’’بھائی! یہ استفتا آیا ہے، میں چاہتا ہوں اس کا جواب آپ لکھ دیں، کیوں کہ حکمِ خداوندی یہ ہے کہ:’’وَ لَایَجْرِمَنَّکُمْ شَنَأٰنُ قَوْمٍ عَلٰی أَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ھُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی۔‘‘(اور تمہیں کسی قوم کی عداوت اس پر آمادہ نہ کرے کہ تم عدل و انصاف کے خلاف کچھ کہو، عدل کرو کہ وہی تقویٰ کے قریب تر ہے) اور مجھے انگریزوں سے جس درجے عداوت و بغض ہے اس کے ہوتے ہوئے مجھے اپنے نفس پر اطمینان نہیں ہے، کہیں میں ان کے بارے میں خلافِ انصاف کوئی بات نہ لکھ جاؤں۔‘‘(۲۶) شیخ الہندv: تکفیر مسلم سے احتراز کا نمونہ     جو انسان اپنے بدترین دشمن کے متعلق حکم لگانے میں اس درجے محتاط ہو وہ حلقۂ یاراں کے لیے کیوں ریشم کی طرح نرم نہ ہوگا۔ اسی احتیاط کی ایک مثال دیکھیے!ــــ مفتی محمد شفیعv فرماتے ہیں کہ: شیخ الہندv کے متعلقین میں کسی صاحب نے اہل بدعت کی تردید میں ایک رسالہ لکھا، اہل بدعت نے اس کا جو رَد لکھا، اس میں انہیں کافر قرار دیا، اس عمل کے جواب میں ان صاحب نے دو شعر کہے: مرا کافر اگر گفتی غمے نیست چراغ کذب را نبود فروغے مسلمانت بخوانم در جوابش دروغ را جزا باشد دروغے ترجمہ:’’تم نے مجھے کافر کہا، مجھے اس کا غم نہیں، کیوں کہ جھوٹ کا چراغ جلا نہیں کرتا، میں اس کے جواب میں تمہیں مسلمان کہوں گا، کیوں کہ جھوٹ کی سزا جھوٹ ہی ہو سکتی ہے۔‘‘     انہوں نے شیخ الہند v کو یہ شعر سنائے تو آپؒ نے شعر کی لطافت کی تعریف فرمائی، لیکن ساتھ ہی ارشاد ہوا کہ تم نے لطافت کے ساتھ ہی سہی کافر تو کہہ دیا، حالاں کہ فتوے کی رو سے وہ کافرنہیں ہیں، اس لیے ان اشعار میں اس طرح ترمیم کرلو: مرا کافر اگر گفتی غمے نیست چراغ کذب را نبود فروغے مسلمانت بخوانم در جوابش وہم شکر بجائے تلخ دروغے اگر تو مومنی فبھا والا دروغے را جزا باشد دروغے(۲۷) ترجمہ:’’تم نے مجھے کافر کہا، مجھے اس کا غم نہیں، کیوں کہ جھوٹ کا چراغ جلا نہیں کرتا، میں اس کے جواب میں تمہیں مسلمان کہوں گا اور تلخی کا جواب شیرینی سے دوں گا۔ اگر تم واقعی مومن ہو تو خیر، ورنہ جھوٹ کی سزا جھوٹ ہی ہو سکتی ہے۔‘‘ حوالہ جات ۱:…اشرف علی تھانویؒ، ملفوظات حکیم الامتؒ، ملتان: ادارہ تالیفات اشرفیہ، ۱۴۳۰ھ، جلد:۳، صفحہ:۱۲۷، ملفوظ:۱۹۳۔ ۲:…سلیمان بن احمد الطبرانیؒ، المعجم الأوسط، قاہرہ، دار الحرمین، ۱۴۱۵ھ/ ۱۹۹۵ئ، باب المیم، من اسمہ محمد، محمد بن عثمان بن أبی شیبۃ، جلد:۵، صفحہ:۳۵۶، رقم: ۵۵۴۱۔            ۳:…عزیز الرحمن بجنوریؒ، تذکرۂ شیخ الہندؒ، صفحہ:۱۵۰۔ ۴:…حسین احمد مدنیؒ، سفرنامہ شیخ الہندؒ، لاہور، مکتبہ محمودیہ، ۱۹۷۷ئ، صفحہ:۱۵۹۔ ۵:…عزیز الرحمن بجنوریؒ، تذکرۂ شیخ الہندؒ، صفحہ:۱۶۸۔    ۶:…حسین احمد مدنیؒ، سفرنامہ شیخ الہندؒ، صفحہ:۱۵۹۔ ۷:…قاری محمد طیبؒ، ’’پچاس مثالی شخصیات‘‘، مشمولہ مجموعہ رسائل حکیم الاسلام(مرتب: محمد عمران قاسمی بگیانوی)، مردان، مکتبۃ الاحرار، ۲۰۱۱ئ، جلد:۷، صفحہ:۴۲۲۔            ۸:…ایضاً، صفحات:۴۲۲-۴۲۳۔ ۹:…ایضاً، صفحہ:۴۲۳۔                ۱۰:…ایضاً، صفحہ:۴۲۴-۴۲۵۔ ۱۱:…محمود حسن گنگوہیؒ، ملفوظات فقیہ الامت، جلد:۱، صفحات: ۱۰۶-۱۰۷، قسط اوّل۔ ۱۲:…عزیز الرحمن بجنوریؒ، تذکرہ مشائخ دیوبند، بجنور، زرین کتب خانہ، ۱۹۵۸ئ، صفحہ:۲۰۲۔ ۱۳:…قاری محمد طیبؒ، ’’پچاس مثالی شخصیات‘‘، مشمولہ مجموعہ رسائل حکیم الاسلام، جلد:۷، صفحات:۴۲۶-۴۲۷۔ ۱۴:…ایضاً، صفحہ: ۴۳۹۔            ۱۵:…ایضاً، صفحہ: ۴۳۹-۴۴۰۔ ۱۶:…ایضاً، صفحہ: ۴۲۱-۴۲۲۔            ۱۷:…ایضاً، صفحہ:۴۲۶۔ ۱۸:…محمد زکریا سہارن پوریؒ، آپ بیتی، صفحہ:۹۵۴۔    ۱۹:…ایضاً۔ ۲۰:…قاری محمد طیبؒ، ’’پچاس مثالی شخصیات‘‘، مشمولہ مجموعہ رسائل حکیم الاسلام، جلد:۷، صفحہ:۴۴۰۔ ۲۱:…عزیز الرحمن بجنوریؒ، تذکرۂ شیخ الہندؒ، صفحات:۱۶۸-۱۶۹۔ ۲۲:…محمود حسن گنگوہیؒ، ملفوظات فقیہ الامت، جلد:۱، صفحات: ۱۰۵-۱۰۶، قسط :۴ ۔ ۲۳:…محمود حسن گنگوہیؒ، ملفوظات فقیہ الامت، جلد:۱، صفحات: ۴۲-۴۳، قسط: ۵ ۔ ۲۴:…اشرف علی تھانویؒ، ’’ذکر محمودؒ  ‘‘، مشمولہ تذکرہ شیخ الہندؒ، صفحہ:۵۳۰۔ ۲۵:…محمد زکریا سہارن پوریؒ، آپ بیتی، جلد:۲، صفحہ:۹۵۰۔ ۲۶:…قاری محمد طیبؒ، ’’پچاس مثالی شخصیات‘‘، مشمولہ مجموعہ رسائل حکیم الاسلام، جلد:۷، صفحات:۴۲۷-۴۲۸۔ ۲۷:…محمد تقی عثمانی، اکابر دیوبند کیا تھے؟، کراچی: ادارۃ المعارف، ۲۰۰۳ئ، صفحہ:۲۳۔                         (جاری ہے)

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین