بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

شیخ الحدیث صوفی محمد سرورؒ کی رحلت

شیخ الحدیث صوفی محمد سرورؒ کی رحلت


جامعہ اشرفیہ لاہور کے شیخ الحدیث، حضرت مولانا مفتی محمد حسن قدس سرہٗ کے خلیفہ مجاز، حضرت مولانا خیر محمد جالندھری قدس سرہٗ کے تلمیذ، ہزاروں علماء کرام کے شیخ و مربی حضرت مولانا صوفی محمد سرور صاحب اس دنیا کے رنگ و بو میں پچاسی بہاریں دیکھ کر ۲۹؍ شعبان ۱۴۳۹ھ، مطابق ۱۵؍ مئی ۲۰۱۸ء بروز منگل راہیِ آخرت ہوگئے۔ إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔ إن للّٰہ ما أخذ ولہٗ ما أعطٰی وکل شیء عندہٗ بأجلٍ مسمّٰی۔
تھوڑے ہی عرصہ میں ہندو پاک کے کئی اکابر اور بزرگ اس دنیا سے رخصت ہوئے، مثلاً: حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمی قدس سرہٗ کے فرزند ارجمند حضرت مولانا محمد سالم قاسمیؒ رئیس و مہتمم دارالعلوم دیوبند انڈیا (وقف) ۱۴؍ اپریل ۲۰۱۸ء، حضرت مولانا سیّد عطاء اللہ شاہ بخاری قدس سرہٗ کے صاحبزادہ حضرت مولانا حافظ سیّد عطاء المؤمن شاہ بخاریؒ ۲۲؍ اپریل ۲۰۱۸ء، حضرت مولانا مفتی جمیل احمد تھانوی قدس سرہٗ کے صاحبزادہ اور حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی قدس سرہٗ کے نواسہ، دارالعلوم الاسلامیہ اقبال ٹائون کامران بلاک لاہورکے مہتمم حضرت مولانا مشرف علی تھانویؒ ۳۰؍اپریل ۲۰۱۸ء مدینہ طیبہ میں وصال فرماگئے۔ مولانا قاری منظور الحق (لاوہ، تلہ گنگ) ۴؍ مئی ۲۰۱۸ء ،پیر طریقت حضرت مولانا عبدالغفورؒ (ٹیکسلا) ۱۸؍ مئی ۲۰۱۸ء راہیِ عالم آخرت ہوئے۔ لگتا یوں ہے کہ موت نے قیمتی انسانوں کو اس دنیا سے لے جانے کا تہیہ کرلیا ہے اور یہ قربِ قیامت کی علامات میں سے ہے، جیسا کہ حضور اکرم a کا ارشاد ہے:
’’إن اللّٰہ لایقبض العلم انتزاعاً ینتزعہٗ من قلوب العباد ولکن یقبضہٗ بقبض العلماء۔ حتی إذا لم یبق عالماً اتخذالناس رؤساً جھالاً فسئلوا فأفتوا بغیر علم فضلوا وأضلوا۔‘‘ 
ترجمہ: ’’بے شک اللہ تعالیٰ اس علم کو اس طرح قبض نہیں کرے گا کہ بندوں کے سینوں سے چھین لے، بلکہ قبضِ علم کی صورت یہ ہوگی کہ اللہ تعالیٰ علماء کو اُٹھاتا رہے گا، یہاں تک کہ جب ایک عالم بھی باقی نہیں چھوڑے گا تو لوگ جاہلوں کو پیشوا بنالیں گے، ان سے سوالات ہوں گے وہ بغیر جانے بوجھے فتویٰ دیں گے، خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔‘‘ 
ایک اور حدیث میں ہے: 
’’یذہب الصالحون الأول فالأول، ویبقٰی حفالۃ کحفالۃ الشعیر أوالتمر لایبالیہم اللّٰہ بالۃ۔‘‘ 
ترجمہ: ’’نیک لوگ یکے بعد دیگرے اُٹھتے جائیں گے اور (انسانیت کی) تلچھٹ پیچھے رہ جائے گی، جیسا کہ ردّی، جَو اور کھجور رہ جاتے ہیں، حق تعالیٰ ان کی کوئی پروا نہیں کرے گا۔‘‘ 
شہیدِ اسلام حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی نوراللہ مرقدہٗ لکھتے ہیں:
’’جس طرح انسانوں کی جسمانی صحت نسلاً بعد نسل کمزور ہوتی جارہی ہے، اسی طرح اخلاقی صحت بھی دن بدن رُو بہ زوال ہے، آج کل عام طور پر انسان‘ انسان نہیں۔ انسانیت کی چلتی پھرتی لاشیں ہیں، جو حیاتِ مستعار کا بار کندھوں پر اُٹھائے پھر رہی ہیں اور فضائے بسیط کو اپنے تعفُّن سے مسموم کررہی ہے۔

نیستند آدم خلافِ آدم اند
ایں بہائم در غلافِ آدم اند

اجلِ مسمّٰی (موت) کا ہاتھ انسانیت کے دسترخوان سے قیمتی دانوں کو بتدریج اُٹھاتا جارہا ہے اور اب انسانیت کے ڈھیر میں خال خال حضرات ایسے نظر آتے ہیں جو انسانیت کے اخلاقی جوہر کے امین ہوں، جن کے علم پر اعتماد کیا جاسکے، جن کا عمل اُمت کے لیے نمونہ بنے اور جن کے سیرت و کردار کو دیکھ کر انسانی سیرت کی نوک پلک درست کی جائے۔
ان اکابر کے سانحۂ ارتحال کا ایک المناک پہلو یہ ہے کہ اُمت ان فیوض و برکات سے محروم ہوجاتی ہے جن کا تعلق ان کی ذات سے ہوتا ہے، ان کی دعائے نیم شبی، بارگاہِ خداوندی میں ان کی گریہ و زاری، پوری اُمت کے لیے ان کا سراپا سوز و گداز، اصلاحِ اُمت کی فکر اور لگن، یہ چیزیں ان کی ذات کے ساتھ ہی رخصت ہوجاتی ہیںا ور اُمت کے لیے اس نقصان کی کوئی تلافی ناممکن ہوجاتی ہے۔
علاوہ ازیں ہر بزرگ کے ساتھ تعلق مع اللہ کی ایک نسبت قائم ہوتی ہے، جو اُمت میں قبولِ حق کی ایک خاص استعداد پیدا کرتی ہے، اس نسبت کے ختم ہوجانے کے بعد قبولِ حق کی استعداد کا رنگ وہ نہیں رہتا ہے جو پہلے تھا، آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ذاتِ اقدس کی صحبت و معیت کی وجہ سے ایمان و یقین کا جو نقشہ تھا، نزولِ وحی کے مشاہدہ سے جو کیفیت حاصل ہوتی تھی،جبرئیل  علیہ السلام  کی آمد سے جو ملکوتی اثرات قلوب پر نازل ہوتے تھے اور اس کی وجہ سے تعلق مع اللہ کی جو نسبت قائم ہوتی تھی دورِ نبوت کے بعد اُسے آخر کس طرح حاصل کیا جاسکتا ہے؟ اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت انس رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں:
’’وما نفضنا أیدینا من التراب إلا أنکرنا قلوبنا۔‘‘ 
ترجمہ: ’’ہم ابھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دفن سے فارغ بھی نہ ہو پائے تھے کہ ہمارے قلوب کی وہ کیفیت باقی نہ رہی۔‘‘
غروبِ آفتاب کے بعد آپ روشنی کے ہزاروں وسائل جمع کرلیں، مگر وہ روشنی اور حرارت جو وجودِ آفتاب سے حاصل ہوتی ہے، کسی طرح حاصل نہیں ہوسکتی، اسی طرح خلافتِ راشدہ کے چاروں اَدوار میں نسبت مع اللہ کا رنگ بدلتا رہا، دورِ صدیقی کی برکات کبھی واپس نہ آسکیں، نہ دورِ فاروقی کی نسبت کو واپس لیا جاسکا۔
فرض کیجئے! ایک مکان میں بے شمار قمقمے روشن ہیں، جو اپنی تابانی اور ضیا پاشی میں مختلف ہیں، اگر ان کو یکے بعد دیگرے گُل کردیا جائے تو تدریجاً روشنی مدہم ہوتے ہوتے یکسر ختم ہوجائے گی اور پورے ماحول پر تاریکی کے مہیب سائے منڈلانے لگیں گے، اسی طرح اہل اللہ کا وجود اس کائنات کے لیے رُشد و ہدایت کی قندیل ہے، جوں جوں اہل اللہ اس عالم سے روپوش ہوتے جارہے ہیں، ہدایت کا نور مدہم پڑتا جارہا ہے اور آہستہ آہستہ یہ کائنات‘ کفر و ضلالت کی تاریکیوں کی لپیٹ میں آتی جارہی ہے اور قلوب سے نورِ یقین مٹتا جارہا ہے اور جب رُشد و ہدایت کی ایک بھی شمع باقی نہیں رہے گی اور ہر چہار جانب سے تاریکی چھا جائے گی تو اس عالم کی بساط کو لپیٹ دیا جائے گا، چنانچہ ارشادِ نبوی ہے:
’’لاتقوم الساعۃ حتی لایقال فی الأرض اللّٰہ، اللّٰہ، لاتقوم الساعۃ إلا علٰی شرار الخلق۔‘‘
ترجمہ: ’’قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک زمین میں اللہ اللہ کہا جاتا ہے۔ قیامت اس وقت قائم ہوگی جب کہ صرف شریر لوگ باقی رہ جائیں گے۔‘‘
حضرت مولانا صوفی محمد سرورؒ آغازِ جوانی سے ہی متبعِ سنت، شریعت کے پابند، گناہوں سے کوسوں دور، عابد، زاہد، اللہ تبارک و تعالیٰ سے محبت رکھنے والے اور تارک عن الدنیا رہے۔ ہمیشہ انہوں نے اپنے آپ کو دین کے لیے ہی وقف رکھا۔ یہی وجہ تھی کہ علماء کا ہر حلقہ اور ہر جماعت آپ سے محبت کرتی اور آپ کو اپنا سرپرست اور بزرگ تسلیم کرتی تھی۔ درس و تدریس کے ساتھ ساتھ آپ کو تصنیف و تالیف سے بھی شغف رہا۔ آپ کی کئی کتابیں طبع ہوکر حلقۂ اہلِ علم میں سندِ قبولیت اور درجۂ محبوبیت پاچکی ہیں۔
حضرت صوفی صاحب کی پیدائش چوہدری محمد رمضان کے ہاں ۷؍ ستمبر ۱۹۳۳ء کو راجن پور میں ہوئی۔ ابتدائی دینی تعلیم گھر پر ہوئی، میٹرک کے بعد جامعہ اشرفیہ لاہور میں داخلہ لیا اور ۱۹۵۴ء میں دورئہ حدیث کرکے سندِ فراغت حاصل کی۔ ایک سال تکمیل میں لگایا، تکمیل کے بعد دو سال جامعہ اشرفیہ نیلاگنبد لاہور میں تدریس کی۔ اس کے بعد جامعہ خیرالمدارس ملتان میں حضرت مولانا خیر محمد جالندھری قدس سرہٗ سے دورئہ حدیث دوبارہ کیا اور ساتھ ہی ساتھ فنون کی کتابیں بھی پڑھاتے رہے۔ ۱۹۶۰ء سے ۱۹۷۰ء تک دارالعلوم عیدگاہ کبیروالا میں تدریس فرماتے رہے۔ ۱۹۷۰ء سے آخر دم تک جامعہ اشرفیہ لاہور سے وابستہ رہے۔ 
آپ نے اپنے وصال سے کچھ عرصہ پہلے اپنے متعلقین، مسترشدین، خلفاء، اپنے تلامذہ اور عامہ مسلمین کو ایک مجمع عام میں پُرمغز و پُراثر خصوصی نصائح ارشاد فرمائیں، افادئہ عام کی غرض سے انہیں بھی کسی قدر حک و اضافہ کے بعد ہدیۂ قارئین کیا جاتا ہے:

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہٗ ونصلی ونسلم علٰی رسولہ الکریم وخاتم النبیین وعلیٰ آلہٖ وأزواجہٖ وأصحابہٖ وأتباعہٖ أجمعین

میں اپنے خلفاء کو خصوصاً اور سب مسلمانوں کو عموماً محبت سے تاکیداً عرض کرتا ہوں کہ: سب سے پہلے اپنے عقائد کو اہل السنۃ والجماعۃ کے عقیدے کے مطابق رکھنا۔ ضرورت کے مطابق علم دین حاصل کرنا۔ اگر پہلے ضروریاتِ دین کا علم حاصل نہیں کیا ہے تو حاصل کیجئے، اگر حاصل کرلیا ہے تو عمل کیجئے۔
زندگی بھر اپنے باطن کی اصلاح کی فکر رکھنا۔ یہ مت سوچنا کہ خلیفہ بن چکا ہوں، اب مجھے ضرورت نہیں یا میں اصلاح یافتہ ہوچکا ہوں، بلکہ ساری زندگی اس بات کا دھیان رہے کہ بُرے اخلاق مثلاً: تکبر، حسد، غیبت، حبِ مال، حبِ جاہ، حبِ دنیا اور ریا کاری وغیرہ کہیں اُبھرنے نہ پائیں اور اچھے اخلاق جیسے: محبت ِ الٰہیہ، اخلاص، صبر، شکر، توکل وغیرہ کہیں دبنے نہ پائیں، یعنی ہم کسی وقت ان عالی اخلاق سے خالی نہ ہوں۔ 
ساری زندگی اس طرف دھیان رکھنے اور عملی طور پر کوشش کرنے کا نام اصلاح یافتہ ہونا ہے۔ اس کا پتہ تو موت کے وقت ہی لگ سکتا ہے، اس لیے کوئی اپنے آپ کو اصلاح یافتہ نہیں سمجھ سکتا۔ علماء و طلبا درس و تدریس میں مغرور کبھی نہ ہوں، شکر بجا لائیں، اہل اللہ کی خدمت، صحبت اور زیارت کو رغبت و شوق سے اپنانا۔ (اپنے اکابر خصوصاً) حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی قدس سرہٗ کے ذوق کے مطابق دین کا کام کرتے رہنا۔
 جماعت کی نماز کو بلاعذر مستقل کبھی نہ چھوڑنا۔ چار انگل سے کم داڑھی کبھی نہ کاٹنا۔ کھڑے ہونے کی حالت میں، رکوع کی حالت میں، چلنے کی حالت میں شلوار وغیرہ ٹخنوں سے نیچے کبھی نہ رکھنا۔معاملات، لین دین میں کبھی کسی کا پیسہ نہ مارنا۔ کسی کو بُرا کہا ہو یا غیبت کی ہو یا مارا پیٹا ہو تو جلدی معافی مانگ لینا۔ اولاد کی تربیت کا خاص خیال رکھنا۔ اختلافی مسائل میں احتیاط پر عمل کرنا۔ سب گناہوں سے توبہ کرتے رہنا۔اہلِ حقوق کو ان کے حقوق ادا کرنا۔ لڑنے جھگڑنے سے مکمل پرہیز کرنا۔ غیر محرم عورتوں سے بلاوجہ غیر ضروری تعلقات نہ رکھنا۔ غیر شرعی اور غیر قانونی کاموں کے کرنے سے ہمیشہ بچنا۔
 اپنے مسلک کو چھوڑنا نہیں، دوسرے کے مسلک کو چھیڑنا نہیں۔ حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی مسلک میں سے اسی طرح چاروں سلسلوں چشتیہ، نقشبندیہ، سہروردیہ اور قادریہ میں سے کسی ایک کی ایسے انداز میں تعریف کرنا کہ جس سے دوسرے کی تذلیل ہو، بلکہ اس طرح کہنے سے بھی بچا جائے کہ ہمارا مسلک و مشرب ہی اچھا ہے۔ شہوت اور غصہ کے تقاضے پر ناجائز عمل نہ کرنا۔ جلد بازی سے بچنا۔ مشورہ کرکے کام کرنا۔ امت میں ہمیشہ جوڑنے کا کام کرنا، انتشار اور فتنہ والے امور سے بہت بچنا۔ 
ختم نبوت کے کام کے ساتھ ہمیشہ جڑے رہنا۔ تبلیغ کے کام کے ساتھ جڑنا، تبلیغی حضرات کی ہمیشہ نصرت کرنے کی ہمت کرنا۔ غیبتوں کے کرنے، سننے سے بہت بچنا۔ حسد اور ریاکاری نے بہت لوگوں کو تباہ کردیا ہے، بلکہ اکثر اُمت ان دونوں گناہوں کی وجہ سے بربادی کی طرف بڑھ رہی ہے، ہمیشہ ان دونوں گناہوں سے خاص طور سے ہوشیار رہنا۔ اپنی رائے پر جمود کبھی نہ رکھنا، اور اپنی رائے کو کبھی حرفِ آخر نہ سمجھنا۔ مہمان نوازی، صدقہ نافلہ، خیرات، ہدایا، تحفے، سخاوت جیسے نیک کاموں، نیک اعمال کو اپنے عمل میں رواں رکھنا۔ 
زندگی بھر حق تعالیٰ کا شکر ہی شکر ادا کرتے رہنا۔ مصیبت والے دنوں میں عافیت کی طلب میں کمی نہ کرنا، جب خدانخواستہ کوئی مصیبت آجائے تو صبر و استقامت سے کام لینا۔ غصہ اور سخت مزاجی کو بدل کر نرمی اور ضبط و تحمل کو عادت بنانا۔ موت کا ہر وقت خیال رکھنا۔ اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے رہنا، نیکی ہوجائے تو شکر بجالانا، گناہ ہو جائے تو سچی توبہ میں دیر نہ کرنا۔ سچ بولنے اور رزق حلال کو مستقل اپنانا۔ بیوی پر ظلم و زیادتی، بلاوجہ ڈانٹ ڈپٹ، سخت گیری سے بہت دور رہنا۔ 
معاشرہ میں اچھے سے اچھا کردار ادا کرنا۔ کبھی کسی سے متعلق بُری رائے قائم نہ کرنا۔ کسی کے معاملات میں اول تو دخل نہ دینا، اگر دینا ہو تو شریعت کے مطابق فیصلہ کرنا۔دینی بات یا واقعات نقل کرنے میں مبالغہ نہ کرنا۔ کسی کے عیب تلاش نہ کرنا، بلکہ ہر ایک کے عیب پر پردہ ڈالے رکھنا۔ روزانہ تلاوت قرآن کریم کا کچھ نہ کچھ معمول رکھنا۔ درود پاک کی کوشش کیجئے کہ روزانہ ایک ہزار بار پڑھ لیا جائے، کوئی سا بھی درود ہو۔ 
اسی طرح ذکر اللہ خوب کیجئے، خاص طور پر پانچ سو بار کلمہ شریف، پانچ سو بار لاحول ولا قوۃ إلا باللّٰہ، نیز چلتے پھرتے، اُٹھتے بیٹھتے دیگر تسبیحات: سبحان اللّٰہ، الحمدللّٰہ، لا إلٰہ إلا اللّٰہ، اللّٰہ أکبرپڑھتے رہنے کی کوشش کرنا، تاکہ نیکیاں زیادہ سے زیادہ جمع ہوسکیں۔
دل سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اور میرے خاندان کو اور مجھ سے اصلاحی تعلق رکھنے والوں اور ہر مومن مرد اور ہر مومن عورت کو معاف فرمائے اور ہم سب حاضرین کی بلا عذاب و بلاحساب بخشش فرمائے، آمین ثم آمین۔‘‘
آپ نے مندرجہ ذیل کتب تالیف فرمائیں:
۱:... حسن المعبود فی حل سنن ابودائود (اردو) دو جلد، ۲:... الخیر الجاری فی حل صحیح البخاری (۶ جلد)، ۳:...تحسین المبانی (مختصر المعانی کا خلاصہ)، ۴:...احسن المواعظ، مسلک تھانہ بھون۔
اللہ تبارک و تعالیٰ حضرت کی حسنات کو قبول فرمائیں، جنت الفردوس کا آپ کومکین بنائیں، آپ کے پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازیں، آمین۔ 

قارئینِ بینات سے حضرت کے لیے ایصالِ ثواب کی درخواست ہے۔
وصلی اللّٰہُ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیّدنا محمد وآلہٖ وأصحابہٖ وأتباعہ أجمعین
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین