بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

شیخ الحدیث حضرت مولانا مطلع الانواررحمۃ اللہ علیہ کی رحلت

شیخ الحدیث حضرت مولانا مطلع الانوارv کی رحلت

شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہٗ کے شاگرد رشید، دارالعلوم دیوبند کے قدیم فاضل ، مدرسہ ہدایت الاسلام تخت آباد پشاور کے شیخ الحدیث حضرت مولانا مطلع الانوارؒ اس دنیائے رنگ وبو کی ستانوے بہاریں دیکھنے کے بعد ۲۱؍ صفر المظفر۱۴۳۸ مطابق ۲۱؍ نومبر ۲۰۱۶ء بروز پیر بعد نمازِ عشاء راہی عالم بقاء ہوگئے۔ إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون، إن للّٰہ ما أخذ ولہٗ ماأعطٰی وکل شیء عندہٗ بأجل مسمّٰی۔ قرآن کریم کا اعلان ہے کہ ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے، موت سے کسی کو مفر نہیں، یہاں جو بھی آیا جانے کے لیے ہی آیا ہے۔ لیکن وہ لوگ جن کے دم قدم اور یادِ الٰہی سے اللہ تعالیٰ کی زمین سکون پاتی تھی ، راستے، ہوائیں، فضائیں اور بر وبحر اُن کی وجہ سے رحمت ِحق سے فیض یاب ہوتے تھے، ان کی رحلت کے بعد اللہ تعالیٰ کی مخلوقات ان کی برکات سے محروم ہوجاتی ہیں، خصوصاً ایسے حضرات کا جانا بعد والوں کے لیے علم وحی سے محرومی کا باعث ہوتا ہے۔ حضرت مولانا مطلع الانوار v اکابر کی نشانی، عظیم علمی شخصیت، زہد وتقویٰ کے پیکر، اکابر کی نشانی، متواضع منکسر المزاج شخصیت تھی، آپ جس محفل میں ہوتے تو آپ ہی صدر نشین ہوتے۔دو سال قبل آپ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت چناب نگر کی سالانہ کانفرنس میں تشریف لائے تو آپؒ کی زیارت ہوئی اور جتنی دیر مجلس رہی، آپؒ اپنی تعلیمی زندگی کے حالات، اس راہ میں مشکلات اور خصوصاً دارالعلوم دیوبند میں اپنی تعلیم اور وہاں سے پاکستان کا سفر بڑے دل چسپ پیرائے میں سنا رہے تھے۔ آپ کی پیدائش حضرت مولانا عبدالواحد المعروف بہ ’’صاحب حق کوٹ‘‘ بن قطب دوران حضرت غندلؒ کے ہاں ۱۹۱۹ء میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم اپنے گھر سے شروع کی، وسطانی مکتب اپنے اعزہ اور اہل علاقہ کے نام ور علماء سے حاصل کی، جن میں مولانا عبدالرحمن کامل پوری v کا نام نامی بھی آتا ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے دارالعلوم دیوبند کا رُخ کیا، آپؒ نے سنایا کہ:تقسیم ہند کے سال شعبان میں طلبہ نے چھٹیاں گزارنے کے لیے اپنے اپنے وطن کا رُخ کیا، لیکن حضرت مرحوم کے دل میں یہ بات راسخ ہوگئی تھی کہ میں اس سال وطن نہیں جاؤں گا۔ جمعہ کی صبح ایک بنگالی طالب علم نے انہیں پاکستان بننے کی خبر سنائی۔ قیام پاکستان کے ساتھ ہی ہندو مسلم فسادات شروع ہوگئے، فرمایا کہ ہم نے اس زمانے میں ’’حزب اللہ‘‘ کے نام سے ایک حفاظتی تنظیم بنائی، جس کے سپہ سالار احمد یارخان تھے اور ان کے ساتھ چار علم دار مقرر ہوئے، جن میں ایک میں بھی تھا، ہر علم دار کے ماتحت پچیس مجاہد تھے، ان کا کام تمام رات مدرسہ کی حفاظت کرنا تھا۔ فرمایا کہ عید الاضحی کی رات بارہ بجے فوج دارالعلوم کا محاصرہ کرکے پچیس جانور قربانی کے زبردستی لے گئی۔ وہ عید ہم پر بہت کٹھن گزری، نمازِ عید بھی ہم نے عید گاہ کی بجائے دارالعلوم میں پڑھی۔ اس سال حضرت شیخ الاسلام مدنی صاحبv تقسیم کی وجہ سے ایک گونہ سیاست سے فارغ تھے اور فسادات کی وجہ سے دیوبند ہی میں مقیم رہے، اس لیے ہمیں ان سے خوب استفادے کا موقع ملا۔ فراغت کے بعد بھی دیوبند میں رہے، اس دوران جو کتابیں طالب علمی میں پڑھنے سے رہ گئی تھیں، اُن کی تکمیل کی۔ تقریباً دو سال تک ہندوستان میں موت وحیات کی کچھ بھی خبر گاؤں اور گھر والوں کو دیے بغیر رہے۔ اپریل ۴۹ء میں مولانا شبیر احمد عثمانی v کا کتب خانہ پاکستان منتقل کرنے کے لیے تین ٹرک آئے تو اس میں بڑی مشکلات کے ساتھ لاہور پہنچے۔ زمانۂ طالب علمی ہی میں دیوبند میں مطول اور جلالین شریف طلبہ کو پڑھانا شروع کیا۔ وطن واپس لوٹنے پر اپنے گاؤں کی مسجد میں درس وتدریس کا آغاز کیا اور یہاں مختصر المعانی تک کی کتابیں پڑھاتے رہے، پھر شدید بیماری کی وجہ سے معالج نے ٹھنڈی جگہ جانے کا مشورہ دیا تو پارہ چنار منتقل ہوگئے۔ بعد ازاں دارالعلوم اسلامیہ چارسدہ قائم ہوا تو اٹھارہ سال تک وہاں تدریسی خدمات سرانجام دیں۔ ابتدائی کتب سے لے کر طحاوی شریف اور مسلم شریف تک کتابیں زردرس رہیں۔ اوکاڑہ پنجاب میں مدرسہ حنفیہ میں بھی ایک سال تک پڑھایا، پھر علاقہ دوآبہ میرزو میں دارالعلوم احناف میں تقرر ہوا، چھ سال تک وہاں دورہ بھی پڑھاتے رہے، پھر علاقہ داؤد زئی کے دارالعلوم ہدایۃ الاسلام تخت آباد کو اپنی تدریسی خدمات سے نوازا ۔ ۱۹۹۲ء میں مردان میں پڑھانا شروع کیا اور عرصہ بارہ سال تک یہ سلسلہ رہا، پھر دوبارہ تخت آباد کے قدیم مدرسے والوں کے اصرار پر وہاں درس شروع کیا اور مرتے دم تک یہ سلسلہ قائم رہا۔ اپنے والد محترم سے ہی بیعت تھے۔ آپ کی نماز جنازہ چارسدہ کے سلیم شوگر مل میں بعد از ظہر ۲؍ بجے آپ کے صاحبزادے مولانا اسجد صاحب فاضل حقانیہ کی اقتداء میں ادا کی گئی، جس میں ہزاروں علمائ، صلحاء اور عوام الناس نے شرکت کی۔  اللہ تبارک وتعالیٰ آپ کی جملہ حسنات کو قبول فرمائے، آپ کے تلامذہ، معتقدین، متوسلین اور اعزہ واقرباء کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازیں۔ ادارہ بینات باتوفیق قارئین سے حضرت کے لیے ایصالِ ثواب کی درخواست کرتا ہے۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین