بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

شہید ِعلم

 شہید ِعلم

    یہ جہاں بھی عجب جہاںہے ، اس میں قدرت نے اگر کسی چیز کو دوام بخشا ہے، تووہ فناو زوال ہے کہ اس جہاں میں ثبات اور دوام صرف اور صرف فناء اور زوال کو ہے اور بس! موت کی گرفت سے آج تک نہ کوئی بچ سکا اور نہ ہی قیامت تک کوئی بچ سکے گا ،یہاں نیک وبدکا فرق ختم ہو جاتا ہے اور امیر وغریب کی تمیز مٹ جاتی ہے ،بلکہ ایک موقع پر پوری کائنات ان (فنا و زوال)کا کشتۂ تیغ ہو جائے گی او ر ’’وَیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُوْالْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ‘‘والی حقیقت سے پردہ اٹھ جائے گا ،لیکن اس جہانِ فانی میں کچھ ایسی شخصیات بھی ہوتی ہیں کہ ان کی عمر کی شمع کوتو اَجل پھونک دیتی ہے ،لیکن ان کے کردار ، خدمات اور احسانات کی بناپر ان کی یادوں کی شمعیں نہ صر ف روشن رہتی ہیں ، بلکہ زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ فزوں تر ہو تی ہیں ،دنیا میں نہ ہوتے ہوئے بھی محافل کی زینت اور مجالس کی رونق ہوتی ہیں ۔     اس مبارک اور قابل ِرشک کارواں کے ایک فرد حضرت مولانا مفتی عبدالمجیددین پوری شہید رحمہ اللہ تعالیٰ بھی ہیں ۔موصوف نے اپنی زندگی علم حاصل کرنے ،پھر اس علم کو پھیلانے اور امت کی رہنمائی کے لئے وقف کر دی تھی ۔آپ نے فقہ وافتاء جیسے جا ن کسل،محنت طلب میدان کا انتخاب کیا اور اپنی تمام صلاحیتوں کو اس میں صَرَف کیااور اس میدان کے شہسوارثابت ہوئے ۔ ہزاروں کی تعداد میں مسائل آپ کی نظر سے گزرے اور اتنی ہی تعداد میں آپ کی تصویب و تصدیق سے مزین ہو کر اُمت تک پہنچے،اور آپ نے کتنے سائلین کی رہنمائی فرمائی ؟ اس کا اندازہ جامعۃ العلوم الاسلامیہ کے دارالافتاء میں سائلین کی آمدسے بآسانی لگایا جا سکتا ہے ۔ جدید مسائل پر آپ کی نظر     جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹائون کے دارالافتاء کو عالم اسلام میں جو مقام حاصل ہے، وہ محتاج ِبیان نہیںہے اور امت کو اس ادارے کے فتوی پر اعتمادبھی ہے ، اس لئے ملک اور بیرونِ ملک سے جامعہ کے دارالافتاء میں ہر قسم کے استفتاء ا ت آپ کی سر پر ستی اور رہنمائی میں حل ہوتے اور اس کے ساتھ عام مسلمانوں کے پیش آمدہ مسائل پر آپ وقیع اور مدلل نقطۂ نظر رکھتے تھے اور ہر قسم کے فتنوں سے باخبر رہتے اور اُن کی سر کوبی کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے اور مسلمانوں کو ان سے بچانے کی کوشش فرماتے تھے، چنانچہ کچھ عرصہ قبل ایک کفریہ فلم ’’خدا کے لئے ‘‘ جو پاکستان میں فلمائی گئی تھی ،جس میں اسلام اور شعائر اسلا م کا مذاق اڑ ایا گیا تھا، اس کے پاکستان میں ریلیز ہونے سے پہلے ہی آپ نے اس سے متعلق حکمِ شرعی واضح کرتے ہوئے فتویٰ جاری کیا اور بہت سارے مسلمانوں کے ایمان کی حفاظت فرمائی ۔اسی طرح مروجہ اسلامی بینکاری سے متعلق مفصل تحریر جو ’’مروجہ اسلامی بینکاری ،تجرباتی مطالعہ ،شرعی جائزہ، فقہی نقد وتبصرہ ‘‘کے نام سے کتابی شکل میں منظرِ عام پر آ چکی ہے ، بھی آپ کی سر پرستی میں مرتب ہوئی۔ ’’موبائل فون لون ‘‘ کے حکمِ شرعی پر بھی پہلا فتویٰ آپ ہی کا تھا، ماضی قریب میں بلکہ ماہنامہ ’’بینات‘‘ کے فروری کے شمارے میں آپ نے ’’مروجہ تکافل ‘‘(جو عرصہ دراز سے زیرِ بحث ایک معرکۃ الآراء مسئلہ تھا، آپ نے اس کے متعلق بھی فتویٰ صادر فرمایا۔ ’’مسئلہ تحریف قرآن ، یک طرفہ عدالتی خلع اور پرائز بانڈ‘‘ جیسے اہم موضوعات پر بھی آپ نے بہت مفصل فتاویٰ صادر فرمائے۔ غرض شایدہی کوئی نیا مسئلہ ایسا ہو، جس میں آپ نے اُمت کی رہنمائی نہ فرمائی ہو، ’’جزاھم اللّٰہ عنا وعن سائر المسلمین‘‘ ۔     بحث و تحقیق کی شاید ہی کوئی وقیع مجلس ایسی ہو جس میں آ پ نے شرکت نہ فرمائی ہو اور امت مسلمہ کو در پیش مسائل میں ان کی بروقت رہنمائی نہ فرمائی ہو ،اس وادیٔ خار دار میں آپ جس کامیابی سے گزرے ، اس کوصرف محنت اورفہم وفراست کا نتیجہ قرارنہیں دیا جاسکتا ، بلکہ اُسے ایک ولی اللہ کی کرامت ہی کہا جائے گا۔ آپ کی تواضع اور انکساری     موصوف کی سب سے زیادہ جاذب اور دلکش ادا جس نے ہر ایک کے دل دماغ پر عقیدت اور محبت کا نقش قائم کیا ، وہ آپ کی متواضع طبیعت تھی ۔تواضع کی باتیں پڑھنے کو توبہت ملتی ہیں، لیکن تواضع کی عملی شکل دیکھنے کو بہت کم ملتی ہے ۔آپ علم وفضل کے جس قدر اونچے منصب پر فائز تھے ، اُسی قدر منکسر المزاج اور متواضع تھے، اس پر مُستزاد یہ کہ جب بھی کسی سے ملتے، تو اس طرح خندہ پیشانی اورمتبسم چہرے کے ساتھ ملتے کہ ملنے والے کو اِحساس نہیں ہوتا کہ میں اتنی بڑی شخصیت سے ملاقات کر رہا ہوں، بلکہ اپنی عظمت اور بڑائی کو تواضع اور اپنائیت کے پردے میں اس طرح سے چھپا لیتے کہ اجنبی ملاقاتی بھی یہ محسوس کرتا کہ میں اپنے کسی پرانے، بے تکلف دوست سے ملاقات کر رہا ہوں ۔آپ اپنے مصروف اوقات میں ملنے والے کو یہ محسوس نہیں ہونے دیتے کہ آپ عُجلت میں ہیں۔ اس تواضع و انکساری اور ملنساری جیسے بلند اور اخلاقِ کریمانہ نے آپ کی محبت ہر دل پر ثبَت کر دی تھی۔’’وَفِيْ ذٰلِکَ فَلْیَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُوْنَ‘‘۔       شاید انہی اَوصاف کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو شہادت کا وہ بلند مقام ومرتبہ عطا فرمایا، جس کی توصیف قرآن مجید نے اس طرح فرمائی:’’  أَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّھَدَآئِ وَالصَّالِحِیْنَ‘‘ اور ان کی رفاقت کو اچھی رفاقت قرار دیا ہے۔      آپ کی شہادت کا سانحہ اہلِ علم حضرات کے لئے عموماًاور جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹائون کے لئے خصوصاًایک عظیم سانحہ ہے ۔ جامعہ علوم اسلامیہ اس حوالہ سے ایک درخشاں روایت کا حامل ہے کہ جامعہ نے تسلسل کے ساتھ شہادتیں پیش کیں، یہ جامعہ اور اہل ِجامعہ کے لئے اعزاز اور افتخار کی بات ہے۔ لیکن سَفَّاک دشمن جن نا پاک عزائم کی تکمیل کے لئے یہ شنیع اور قبیح جرم کا ارتکاب کر رہا ہے ،اس کے یہ عزائم ان شاء اللہ! کبھی پورے نہیں ہوں گے۔ جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹائون وہ شجر ِمبارک ہے جو ’’أَصْلُھَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُھَا فِيْ السَّمَآئِ‘‘کا مصداق ہے، مصائب کی خزاں اس کے برگ وبار کو متاثر نہیں کر سکی۔ع برق گرتی ہے تو یہ نخل ہرا ہوتا ہے     اللہ تعالیٰ نے اس ادارے کو وہ مقبولیت، آفاقیت اور محبوبیت عطا کر رکھی ہے کہ فراعنۂ عصر اپنی مکروہ چال بازیوں کے باوجود اس کو متاثر نہ کر سکے اور ان کے علی الرغم یہ گلشن اسی طرح شاداب رہے گا، ان شاء اللہ! اور یہاں سے’’ قال اللّٰہ وقال الرسول‘‘کی صدائیں بلند ہوتی رہیں گی اور بزبانِ حال جامعہ ان فراعنہ سے کہہ رہا ہے: رہے ہیں اور ہیں فرعون میری گھات میں اب تک  مگر کیا غم کہ میری آستین میں ہے یدِبیضاء      آپ کی شہادت جہاں ایک عظیم سانحہ ہے، وہاں اَربابِ حل و عقدکے لئے ایک تازیانہ بھی ہے کہ ایسے لوگ جن کی زندگی امن واخوت کے درس کے لئے وقف تھی، ان کی اس طرح سے دن دَہاڑے سرِ عام شہادت کیا پیغام دیتی ہے؟! انتظامیہ کس قدر بے حس اور بے بَس ہو چکی ہے کہ اتنی عظیم ہستیوں کو اِس طرح سے شہید کیا جاتا ہے اور یہ ٹَس سے مَس بھی نہیں ہوتی۔  خدا جانے کہ ہمارے خفیہ ادارے کس مقصد کے لئے ہیں؟! اور ان کی تربیت کے یہ بلند وبانگ دعوے کہاں جاتے ہیں؟ ان پر قوم کا خطیر سرمایہ کس مقصد کے لئے صرف کیاجاتا ہے کہ یہ ادارے دہشت گردوں تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے ۔     اس رَوِش سے تو دہشت گردی کی لعنت کو جو فروغ ملے گا ، وہ ملک و ملت کے لئے کن بحرانوں کو جنم دے گی؟ اِس کی سنگینی کا اندازہ ابھی نہیں لگایا جا سکتا ۔انتظامیہ کی قانونی، اخلاقی اور شرعی ذمہ داری بنتی ہے کہ ان ظالموں تک رسائی حاصل کرے اور انہیں کیفرکردار تک پہنچا ئے ،اوراگر انتظامیہ کے یہ لوگ اس فریضہ میں کوتاہی کا ارتکاب کریں گے ،تو قیامت کے دن اللہ کے سامنے جواب دہ ہوں گے، ان شہداء کا لہو اِن کے دامن پہ ہو گااور اُن سے پوچھ ہوگی کہ امن وامان کی ذمہ داری اُٹھانے کے باوجود  امن وامان نا پید کیوںرہا؟! ۔ اگر فرائض پورے نہیں کر سکتے ، تو مستعفی ہو جاتے ،لیکن یہ کیا ظلم ڈھایا کہ عہدہ اور منصب کے مزے تو لوٹے، لیکن ذمہ داری کو پورانہ کیا ۔زندگی چندکی دن ہے ،پھر اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونا ہے :’’وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا أَيَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ‘‘۔     جگر نے کیا خوب کہا : اَرباب ِستم کی خدمت میں بس اتنی سی گزارش ہے میری دنیا سے قیامت دور ہی سہی دنیا کی قیامت دور نہیں      اللہ تعالیٰ موصو ف کی شہادت کو قبول فرمائیں ، اہل ِجامعہ اور ان کے اہل وعیال کو اُن کی برکات سے محروم نہ فرمائیں۔ أ للّٰھم اغفرہ و ارفع درجتہ في المھدیین،أللّٰھم افسح لہ في قبرہ ونوِّر لہ فیہ ولاتفتنا بعدہ ۔آمین۔ ٭٭…٭٭

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین