بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

شرعی عائلی احکام کی دفعہ بندی:  متن قانونِ ثبوتِ نسب    (پہلی قسط)

شرعی عائلی احکام کی دفعہ بندی:
 متن قانونِ ثبوتِ نسب

   (پہلی قسط)

 

عائلی قوانین میں سے ثبوتِ نسب کے احکام کا دفعہ بند مجموعہ پیش خدمت ہے۔ اختصار کے پیشِ نظردفعات کی تشریحات، متعلقہ مسائل، حوالہ جات، مذاہب اسلامیہ، وطن عزیزاوراسلامی ممالک میں رائج قوانین کو اس میں شامل نہیں کیا گیا۔ فقہِ اسلامی کے ابواب میں سے خاص طورپر عائلی قوانین کی صیغہ بندی کی ضرورت اس لیے بھی پیش آئی کہ پاکستان میں مسلم پرسنل لاء (شریعت)اطلاق ایکٹ۱۹۶۲ء مسلمانوں پراُن کے شخصی قوانین کے سلسلے میں شریعت(فقہ اسلامی)کونافذ ٹھہراتا ہے۔ اس ضرورت کو پوراکرنے اور فقہِ اسلامی کو رائج عدالتی اُسلوب میں ڈھالنے کے لیے شخصی قوانین کی دفعہ بندی کی گئی ہے، جو اُمید ہے کہ طلبہ،علماء ،وکلاء اور ججز سمیت عام فقہِ اسلامی سے دلچسپی رکھنے والے حضرات کے لیے بھی مفید ہوگی۔ فیملی لاء کی دفعہ سازی پر اس سے پہلے جن اہل علم نے کام کیا ہے، ان کاکام اگرچہ وقیع اورقابل قدر ہے، ان کو سبقت کی فضیلت بھی حاصل اور اُمتِ مسلمہ ان کی مشکور ہے۔مگر اللہ پاک کی ذات سے امید ہے کہ یہ کاوش زیادہ دقیق وعمیق اورمفصل وجامع ثابت ہوگی۔ وماذٰلک علی اللّٰہ بعزیز۔                          (شعیب عالم)

 

بابِ اول
متن قانونِ ثبوتِ نسب 
(ثبوتِ نسب کے متعلق قرآن وسنت پرمبنی قانون)

تمہید:
 

ہر گاہ کہ قرینِ مصلحت ہے کہ ثبوتِ نسب سے متعلق قرآن وسنت کے احکامات، اُن پر مبنی فقہی اجتہادات وجزئیات اور جدید تحقیقات کو عصری قوانین کے قالب میں ڈھالا جائے، تاکہ شریعت اور آئین کے اغراض و مقاصد میں سے تحفظِ نسل کا اہم مقصد حاصل کیا جائے، باشندگانِ وطن میں سے ہر ایک کو شناخت وپہچان حاصل ہو، اس کے معاشرتی وقار اور سماجی حیثیت کا تعین ہو، عفت وعصمت کا تحفظ ہو، خاندان کا ادارہ مضبوط ومستحکم ہو، نسلِ انسانی کی بقا اور صحیح النسبی کی صورت میں مملکتِ خداداد کے ہرفرد کو وہ معاشرتی عزت و وقار اور جائز مقام و مرتبہ حاصل ہو، جس کا وہ انسانیت، شریعت اور آئین و قانون کی رو سے مستحق ہے، علی الخصوص تعینِ نسب کی وجہ سے قرابتوں اور رشتوں کی پہچان ہو اور ہر شخص اپنے ذمہ واجب الاداء فرائض اور قابلِ حصول حقوق سے آگاہ ہو، لہٰذا بذریعہ ہٰذا درج ذیل قانون وضع کیا جاتا ہے۔ 

دفعہ۔1 مختصر عنوان، وسعت اور نفاذ:
 

الف۔     یہ قانون قانونِ ثبوتِ نسب کہلائے گا ۔ 
ب۔     اس قانون کا نفاذ اس تاریخ سے ہوگا جو آئین کے تحت مجاز فرد، ادارہ یا ہیئت جیسی صورت ہو، اس کے لیے تجویز کرے ۔ 

 دفعہ۔2تعریفات:
 

اس قانون میں تاوقتیکہ سیاق و سباق عبارت سے کچھ اور مطلب ومفہوم نہ نکلتاہو، درج ذیل الفاظ کے وہی معنی لیے جائیں گے جو بذریعہ ہٰذا بالترتیب ان کے لیے مقرر کیے گئے ہیں، یعنی:

(1)نکاح

مرد وزن کے مابین مخصوص شرعی شرائط کے تابع وجود میں آنے والے ایک ایسے معاہدے کا نام ہے، جس کے تحت فریقین کے مابین صنفی تعلقات روا، پیداہونے والی اولاد کا نسب درست اور باہم حقوق وفرائض عائد ہوجاتے ہیں۔ 

(2)نکاحِ صحیح 

ایسا نکاح جواپنے تمام ارکان اور ضروری شرائط کی بجا آوری کے ساتھ انجام دیا گیا ہو۔ 

(3)نکاحِ فاسد 

وہ ہے جس میں صحتِ نکاح کی شرائط میں سے کوئی شرط یا شرائط مفقود ہوں، بالفاظِ دیگر جس میں صحتِ نکاح کی کسی شرط یا شرائط کی تعمیل نہ کی گئی ہو۔ قبل الدخول اس کا وہی حکم ہے جو نکاح باطل کا ہے۔ 

(۴)نکاحِ باطل 

جوازروئے شرع کالعدم اورسرے سے منعقد ہی نہ ہو۔ نکاحِ باطل نتیجے کے لحاظ سے بے اثر رہتا ہے اور اس سے فریقین کے درمیان کوئی ازدواجی حق قائم نہیں ہوتا۔ 

(5)شبہ 

جو ثابت نہ ہو، مگر ثابت کے مشابہ ہو۔ 

(6)شبہۃ المحل

جو شبہ‘محل کو حلال قرار دینے والی دلیل کی بنا پر پیدا ہو، وہ’’ شبہۃ المحل’’ ہے۔ اس کو شبۂ ملک، شبۂ مملوک، شبۂ حکمیہ بھی کہتے ہیں، اس کی مثال بیٹے کی باندی سے وطی کرنا ہے۔ 

(7)شبہۃ العقد 

عقد صورۃً موجود ہو، لیکن حقیقۃً موجود نہ ہو، جیسے محارم سے نکاح کرکے وطی کی جائے۔ 

(8)شبہۃ الفعل 

جس شخص پر حرمت اور حلت مشتبہ ہوجائے اور وہ اپنے قصورِ فہم کی بنا پر غیر دلیل کو جواز کی دلیل سمجھ کر ارتکاب کربیٹھے۔ اس قسم کی مثالیں جیسے: طلاق بائن کی عدت میں بیوی سے صحبت کرنا، اسی طرح باپ کی یا زوجہ کی باندی سے جماع یا طلاق بالمال دینے کے بعد مطلقہ سے جماع کرنا، وغیرہ۔ 

(9)فراش 

عورت ایک ہی شخص کے واسطے بچے پیدا کرنے کے لیے متعین ہو۔ نکاحِ صحیح میں ثبوتِ فراش کا مطلب ہے کہ استقرارِحمل کے وقت زن وشومیں زوجیت کا رشتہ قائم تھا، اس لیے عقدِ نکاح سے فراش کا بھی تعین ہوجاتاہے اور حمل کے لیے نقطۂ آغاز بھی قرار پاتا ہے۔ 
نکاحِ فاسد میں مفتیٰ بہ قول کے مطابق فراش کا تحقق، ’’دخول‘‘ سے ہوتا ہے، اس لیے حمل کی مدت بھی دخول کے بعد محسوب ہوتی ہے۔ 

(10)ولد الملاعنہ: 

وہ بچہ جس کی ولدیت لعان کی کارروائی کے سبب مجاز عدالت نے باپ سے قطع کردی ہو۔ 

(11)عدت 

نکاح کے آثار کے خاتمے کے لیے شریعت نے عورت کے واسطے جو مدت مقرر کی ہے، اس کا نام’’ عدت‘‘ ہے یانکاح یا شبہ نکاح کے زوال کے بعد عورت کاایک مدت تک انتظار کرنا’’عدت‘‘ کہلاتا ہے۔ 

(12)مراہقہ 

قریب البلوغ لڑکی جس سے جماع ممکن ہو۔ 

(13)مراہق

قریب البلوغ لڑکا، جو بلوغ کی اقل مدت کو پہنچ چکا ہو، مگر بلوغ کی کوئی علامت نہ پائی جاتی ہو۔ بلوغت کی اقل مدت لڑکی کے لیے نو سال، لڑکے کے لیے بارہ سال اور اکثر مدت دونوں کے لیے پندرہ سال ہے۔ 

(14) کبیرہ
 

بالغہ لڑکی مراد ہے۔ 

(15)آیسہ 

جس کو صغر سنی یا کبر سنی کی وجہ سے حیض نہ آتا ہو یا پاکی کے ایام کی طوالت کی وجہ سے، شریعت اس کو بحکمِ آیسہ گردانتی ہو۔ 

(16) مدخولہ

جس عورت سے اس کے شوہر نے حقیقی طور پر صحبت کی ہو۔ 

(17)غیر مدخولہ

جس عورت سے اس کے شوہر نے حقیقی صحبت نہ کی ہو، اگرچہ خلوتِ صحیحہ ہوچکی ہو۔ 

(18)بینونت 

رشتۂ نکاح کا منقطع ہونا مراد ہے۔ 

(19)بینونتِ صغریٰ 

قطع زوجیت کی ایسی صورت جس میں بدون حلالۂ شرعیہ صرف تجدیدِنکاح سے رشتۂ زوجیت بحال ہوسکتا ہو۔ 

(20)بینونتِ کبری 

جس میں حلالۂ شرعیہ کے بغیر بائنہ سے تجدیدِنکاح ممکن نہ ہو۔ 

(21)حرمتِ غلیظہ 

بینونتِ کبری کی مترادف اصطلاح ہے۔ 

(22)رجعت
 

معتدہ کو لوٹالینا خواہ قولاً ہو یا فعلاً اور شوہر نے رجعت پرگواہان قائم کیے ہوں یا نہ کیے ہوں۔ رجعت معتدہ کے فعل سے بھی ممکن ہے۔ 

(23)طلاقِ رجعی 

وہ طلاق مراد ہے جس میں رجعت ممکن ہو۔ 

(24)طلاقِ بائن 

ایسی طلاق جس کے اثر سے رشتۂ ازدواج ختم ہوجائے اورمطلقہ نکاح سے نکل جائے۔ 

(25)معتدہ بائنہ 

جو عورت طلاقِ بائن کی عدت میں ہو۔ 

(26)معتدہ رجعیہ 

جو عورت طلاقِ رجعی کی عدت میں ہو۔ 

(27)معتدۃ الوفات 

جو عورت شوہر کی وفات کی عدت گزار رہی ہو۔ 

(28)صریح طلاق 

جو طلاق نیت کی محتاج نہ ہو، خواہ صریح ہو یا کنایہ۔ 

(29)اقرار 

کسی دوسرے کے حق کے اپنے ذمہ واجب ہونے کی خبر دینے کو’’ اقرار‘‘ کہتے ہیں۔ جوشخص اقرار کرے اُسے ’’مُقِر ‘‘، جس کے متعلق کسی حق کا اقرار کیا جائے، اسے’’ مُقِر لہٗ‘‘، اور جس حق کا اقرارکیا جائے اُسے ’’مُقِربہٖ‘‘ کہتے ہیں۔ 

(30)بینہ

کسی معاملے کے ثبوت کے ذریعہ کو ’’بینہ ‘‘کہتے ہیں۔ 

(31)لعان 

ایسی چار گواہیاں جوقسموں سے مؤکد ہوں، شوہر نے اپنی پانچویں گواہی میں اپنے اوپر لعنت بھیجی ہواور عورت نے اپنے اوپرغضب کی بددعا کی ہو، شوہر کے حق میں یہ گواہیاں حدِ قذف کے قائم مقام ہیں اور بیوی کے حق میں حدِ زنا کے قائم مقام ہیں۔ 

(32)ولد الزنا 

زنا کے سبب جس بچہ کی ولادت ہو ئی ہو۔ 

(33)مجہول النسب 

جس شخص کا نسب معلوم نہ ہو، مگرضروری نہیں کہ وہ ولد الزنا بھی ہو۔ 

(34)قابلہ 

دائی/جنائی

(35)کامل شہادت 

دو مرد یا ایک مرد اور دوعورتوں کی گواہی’’ کا مل شہادت ‘‘ہے۔ 

(36)مرض الموت 

ایسا مرض جس میں موت کا گمان غالب ہو اور سال گزرنے سے قبل مریض کی موت واقع ہوجائے، طویل المدت امراض اس وقت مرض الموت شمار ہوں گے جب ان کی شدت میں مسلسل اضافہ ہو۔ 

(37)متارکت 

نکاحِ فاسد میں زوجین کا یا دونوں میں سے کسی ایک کا دوسرے سے جدا ہونا مراد ہے، اگرچہ جدائی دوسرے فریق کی غیر موجودگی میں ہو، اور خواہ زوجہ مدخولہ ہو یا غیر مدخولہ، تاہم مدخولہ ہونے کی صورت میں زبان سے علیحدگی کا اظہار ضروری ہے اور غیر مدخولہ ہونے کی صورت میں علیحدگی کا عز م بھی کافی ہے۔ ایک دوسرے قول کے مطابق زوجہ خواہ مدخولہ ہو یا غیرمدخولہ، دونوں ہی صورتوں میں زبان سے جدائی کا اعلان ضروری ہے ۔ 

(38)تفریق 

مجاز عدالت کا نکاحِ فاسد کی صورت میں ’’زوجین کے درمیان علیحدگی کردینا‘‘ مراد ہے۔ 

(39)باکرہ

جس کے ساتھ بذریعہ نکاح یا زنا کسی مرد نے صحبت نہ کی ہو، اگرچہ کھیل کود یا مرض کے سبب اس کی بکارت زائل ہوگئی ہو۔ 

دفعہ۔3نسب کی تعریف:
 

نسب اس شرعی تعلق کا نام ہے جو قرابت کے سبب والدین یا دونوں میں سے کسی ایک کے ساتھ قائم ہوجاتا ہے۔ 

دفعہ۔4نسب کے نتائج واثرات:
 

قیامِ نسب کے ساتھ ہی فریقین پرحقوق وذمہ داریاں عائد ہوجاتی ہیں، جن میں وراثت ولایت، حضانت، رضاعت، کفالت اورقرابت وغیرہ کے حقوق وفرائض شامل ہیں ۔ 

دفعہ۔5 نسب کے مراتب:

(1)    نکاح صحیح میں نومولود کا نسب بغیر دعوی کے ثابت ہوگا اور بجز لعان کے نفی سے منتفی بھی نہ ہوگا۔ 
(2)    نکاحِ فاسد میں لعان کے طریقے سے بھی نسب کی نفی ممکن نہیں، یہی حکم اُمِ ولد کا بھی ہے، البتہ محض نفی سے نسب منتفی ہوجائے گا۔ 
(3)    باندی سے نسب بدون دعویٰ کے ثابت نہ ہوگا۔ 

دفعہ۔6 نسب کی تحویل وتنسیخ: 
 

نسب، بعد ازثبوت، ناقابلِ انتقال وابطال اور ناقابلِ تحویل وتنسیخ ہے۔ 

دفعہ۔7نسب کا جھوٹا دعویٰ، اقرار یا انکار:
 

نسب کا جھوٹا دعویٰ، اقرار یا انکار ازروئے شرع حرام ہے۔ 

بابِ دوم
ثبوتِ نسب

فصلِ اول :مادری نسب

 

دفعہ۔8مادری نسب کا قیام :
 

مادری نسب کے قیام کا انحصار محض کسی عورت سے ثبوتِ ولادت پر ہے۔ 
     توضیح:    مادری نسب وہ ہے جو فقط ماں سے ثابت ہو۔ 

فصل دوم:پدری نسب

 

دفعہ۔9حمل کی مدت:
 

حمل کی اقل مدت چھ ماہ، غالب مدت نو ماہ اور اکثر مدت دو سال ہے۔ 

دفعہ۔10ثبوتِ نسب کے ذرائع:
 

ثبوتِ نسب کے ذرائع تین ہیں:
    (1)    نکاح
    (2)    بینہ
    (3)    اقرار
    توضیح :    نکاح خواہ صحیح ہو یا فاسد، مگر باطل نہ ہونا چاہیے۔ 

باب سوم
نکاحِ صحیح وفاسدکی صورت میں ثبوتِ نسب

فصل اول:نکاح صحیح

 

دفعہ۔11 نکاحِ صحیح کی صورت میں ثبوتِ نسب:

    (1)    جو بچہ جائز زوجیت کے زمانہ میں تولد ہو، وہ صحیح النسب قرار پائے گا، اگر چہ باپ اس کے نسب کا اقرار یا اعتراف نہ کرے یا خاموش رہے، بہ شرط یہ کہ:
         الف۔     بچہ نکاح سے چھ ماہ یا اس سے زائد مدت میں تولد ہواہو۔ 
        ب ۔     بچہ کو شوہر سے قرار دینا ممکن ہوبایں طور کہ وہ بالغ یا مراہق ہو۔ 
         ج۔     زوجین کا ملاپ متصور ہو۔ 
درج بالا شرائط کی موجودگی میں نسب سے انکار بجز لعان کے کسی اور صورت میں ممکن نہ ہوگا۔ 
    (2)    جو بچہ نکاح سے چھ ماہ کے اندر پیدا ہو، وہ ثابت النسب نہیں قرار پائے گا، مگر یہ کہ زنا کی صراحت کیے بغیر شوہر اس کے نسب کا دعویٰ کرے۔ 
دفعہ۔12معتدہ رجعیہ سے ثبوتِ نسب:
    (1)    جو عورت طلاقِ رجعی کی عدت میں ہو، خواہ عدت حیض سے ہو یا مہینوں سے، بہ شرط یہ کہ:
         الف۔     مراہقہ نہ ہو ۔ 
         ب۔     عدت گزرنے کا اقرار نہ کرتی ہو۔ 
اگر طلاق کے بعد دوسال یا اس سے زیادہ مدت گزرنے کے بعدبچہ جنم دے تو:
 نسب ثابت سمجھا جائے گا، خواہ دوسال سے مدت کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو، اور بچہ کی ولادت اس امر کا ثبوت ہوگا کہ شوہر رجوع کرچکا ہے۔ 
اگر طلاق کے بعد دوسال کے اندر بچہ کو جنم دے تو نسب ثابت ہوگا، تاہم ولادت سے عدت اختتام پذیر ہوجائے گی۔ 
    (2)    مطلقہ رجعیہ کبیرہ اگر عدت گزرنے کا اقرار کرتی ہے اورمدت بھی اس لائق ہے، تو ثبوتِ نسب کے واسطے لازم ہوگا کہ :
 ولادت اقرار کے بعد چھ ماہ سے پیشتر مگرطلاق کے بعد دو سال کے اندر ہو، بنا برایں:
 جوبچہ اقرار کے چھ ماہ بعد پیدا ہو وہ ثابت النسب نہیں کہلائے گا خواہ: بچے کی ولادت طلاق کے چھ ماہ کے اندر ہوئی ہو، یا چھ ماہ سے زیادہ اور دوسال کے اندر ہوئی ہو، یا دوسال یا اس سے زیادہ مدت میں ولادت ہوئی ہو۔ 
     شرط:    عدت گزرنے کا اقرار دوشرطوں کی رعایت سے قابل قبول ہوگا:
                الف۔      مدت اس لائق ہو کہ اس میں عدت گزرسکتی ہو۔ 
                ب۔     اقرار عدت گزرنے کے فوراً بعد ہو۔ 
        توضیح:     عدت کی اقل مدت حضرت امام ابوحنیفہv کے نزدیک اُنتالیس یوم اور صاحبینؒ کے نزدیک ساٹھ یوم ہے۔                  (جاری ہے)

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین