بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

شرائع من قبلنا اور ان کا حکم ( پانچویں قسط )


’’ شَرَائِعُ مَنْ قَبْلَنَا‘‘ اور اُن کا حکم

 (پانچویں قسط)

 


پہلے مسلک کی تائید میں پیش کردہ استدلالا ت کے جوابات
پہلی آیتِ کریمہ سے استدلال کاجواب
امام غزالیؒ رقم طراز ہیں:
’’ أُولٰئِکَ الَّذِیْنَ ہَدٰی اللّٰہُ فَبِہُدَاہُمُ اقْتَدِہْ‘‘ (الأنعام: ۹۰) قلنا أراد بالہدی التوحید، ودلالۃ الأدلۃ العقلیۃ علی وحدانیتہٖ وصفاتہٖ بدلیلین: أحدہما: أنہٗ قال: ’’فَبِہُدَاہُمُ اقْتَدِہْ‘‘ (الأنعام:۹۰) ولم یقل بہم، وإنما ہداہم الأدلۃ التی لیست منسوبۃ إلیہم، أما الشرع فمنسوب إلیہم فیکون اتباعہم فیہ اقتداء بہم۔ الثانی: أنہٗ کیف أمر بجمیع شرائعہم وہی مختلفۃ وناسخۃ ومنسوخۃ ومتی بحث عن جمیع ذٰلک، وشرائعہم کثیرۃ، فدل علی أنہٗ أراد الہدی المشترک بین جمیعہم وہو التوحید۔ ‘‘(۱)
’’ أُولٰئِکَ الَّذِیْنَ ‘‘و الی آیتِ کریمہ میں ’’ھدی‘‘ سے توحید اور اللہ کی وحدانیت اور صفات پر دلائلِ عقلیہ کی دلالت مراد ہے۔ اس بات کی دودلیلیں ہیں: پہلی دلیل یہ کہ: ’’فَبِہُدَاہُمُ اقْتَدِہْ‘‘ ( یعنی ان کی ہدایت کی اقتداء ) فرمایا ، ’’بِہِمْ‘‘(ان کی اقتدائ) نہیں فرمایا اور انبیاء کرامعلیہم السلام کی ہدایت سے مراد دلائل ہیں، جو اُن کی طرف منسوب نہیں، جبکہ شریعت ان کی طرف منسوب ہے، پس شریعت میں پیروی ان انبیاء علیہم السلام کی اقتداء ہوگی، (ان کی ’’ھُدٰی‘‘ کی پیروی نہیں ہوگی)۔ دوسری دلیل یہ کہ: تمام شرائع کی اقتداء کا حکم دینا کیونکر ممکن ہے، جبکہ وہ شرائع باہم مختلف ہیں، ان میں ناسخ ومنسوخ پائے جاتے ہیں، اور کب آپ نے ان تمام شرائع کوتلاش کیا، جبکہ شریعتیں لاتعداد ہیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مراد وہ ’’ھُدٰی‘‘(ہدایت) ہے جو سب کے درمیان مشترک ہے، اور وہ توحید ہے۔ ‘‘
حاصل جواب یہ ہے کہ آپ کوجس ’’ھُدٰی‘‘(ہدایت)کی پیروی کاحکم دیا گیا ہے، اس سے مرادعقائد ، بالخصوص عقیدۂ توحید ہے، جوتمام انبیائعلیہم السلام کے درمیان مشترک ہے۔ آپ کوشرائع کی پیروی کا حکم نہیں ہے، اس لیے کہ شرائع مختلف ہیں، اس لیے اس آیتِ کریمہ سے شرائع کی پیروی پر استدلال درست نہیں۔ 
دوسری آیتِ کریمہ سے استدلال کاجواب :
دوسرے استدلال کا امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے حسبِ ذیل عبارت میں جواب دیا ہے:
’’ثُمَّ أَوْحَیْنَا إِلَیْکَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّۃَ إِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفًا‘‘ (النحل: ۱۲۳) وہٰذا یتمسک بہٖ من نسبہٗ إلی إبراہیم - علیہ السلام - وتعارضہٗ الآیۃ الأولی۔ ثم لا حجۃ فیہا إذ قال: ’’أَوْحَیْنَا إِلَیْکَ‘‘ (النحل:۱۲۳) فوجب بما أوحی إلیہ لا بما أوحی إلی غیرہٖ وقولہ: ’’أَنِ اتَّبِعْ‘‘ (النحل: ۱۲۳) أی: افعل مثل فعلہٖ، ولیس معناہ کن متبعًا لہٗ وواحدًا من أمتہٖ، کیف والملۃ عبارۃ عن أصل الدین والتوحید والتقدیس الذی تتفق فیہ جمیع الشرائع؟ ولذٰلک قال تعالٰی: ’’وَمَنْ یَّرْغَبُ عَنْ مِّلَّۃِ إِبْرَاہِیْمَ إِلَّا مَنْ سَفِہَ نَفْسَہٗ‘‘ (البقرۃ: ۱۳۰) ولا یجوز تسفیہ الأنبیاء المخالفین لہٗ۔ ویدل علیہ أنہٗ لم یبحث عن ملۃ إبراہیم، وکیف کان یبحث مع اندراس کتابہٖ وإسناد أخبارہٖ ؟۔ ‘‘ (۲)
’’مخالف کے قول کے مطابق یہ آیتِ کریمہ پچھلے استدلال میں مذکور آیتِ کریمہ سے متعارض ہوگی، اس لیے کہ پہلی والی آیتِ کریمہ میں تمام انبیائعلیہم السلام کی شرائع کی پیروی کا حکم ہے اور دوسری میں صرف شریعتِ ابراہیمیہ کی پیروی کا حکم ہے، جبکہ جمہور کے موقف کے مطابق ’’ھُدٰی‘‘اور’’ مِلَّۃ‘‘ دونوں سے مراد توحید اور بنیادی عقائد ہیں، جن میں تمام شرائع متفق ہیں، اور دونوں آیات میں انہی بنیادی متفق علیہ عقائد کی پیروی کا حکم ہے۔ دوسرا یہ کہ ملتِ ابراہیمی کی اتباع سے مراد یہ ہے کہ ابراہیمعلیہ السلام جیسا طریقہ کار اپنائے۔ یہ معنی نہیں کہ ابراہیمعلیہ السلام کی امت میں سے ایک فرد بن کر ان کی شریعت کی پیروی کریں، ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شریعتِ ابراہیمیہ کے احکام کو تلاش کرکے اس کی پیروی شروع فرماتے، حالانکہ اس کی کوئی دلیل نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا ہو۔ پھر خود اسی آیت میں صراحۃً مذکور ہے: ’’ ثُمَّ أَوْحَیْنَا إِلَیْکَ‘‘ یعنی آپ کی طرف آنے والی وحی کی بنیاد پر آپ ملتِ ابراہیمی کی پیروی کریں، نہ کہ ابراہیم علیہ السلام کی طرف آنے والی وحی کی بنیاد پر، پس اگر آپ نے کچھ احکام میں ملتِ ابراہیمی کی پیروی فرمائی ہے تو اپنی شریعت کی حیثیت سے، نہ کہ ابراہیمی شریعت کی حیثیت سے ، اس لیے اس آیتِ کریمہ سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ کو اپنی وحی والی شریعت کی پیروی کا حکم ہے۔ ‘‘
حاصلِ جواب یہ ہے کہ آیتِ کریمہ اگر ملتِ ابراہیمی کی پیروی کو لازم قراردینے پر دال ہو، تو ان آیات سے متعارض ہوگی، جن سے مخالف نے پچھلی تمام شرائع کی پیروی لازم ہونے پر استدلال کیا ہے۔ نیز مخالف نے آیتِ کریمہ کا مطلب غلط سمجھا ہے۔ 
تیسری آیتِ کریمہ سے استدلال کاجواب 
’’ الآیۃ الثالثۃ: قولہٗ تعالٰی:’’شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحًا‘‘ (الشوری: ۱۳) وہٰذا یتمسک بہٖ من نسبہٗ إلٰی نوح - علیہ السلام - وہو فاسد، إذ تعارضہ الآیتان السابقتان۔ ثم الدین عبارۃ عن أصل التوحید، وإنما خصص نوحًا بالذکر تشریفًا لہٗ وتخصیصًا، ومتی راجع رسول اللّٰہ - صلی اللّٰہ علیہ وسلم - تفصیل شرع نوح؟ وکیف أمکن ذٰلک مع أنہٗ أقدم الأنبیاء وأشد الشرائع اندراسا؟ کیف وقد قال تعالٰی:’’شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحًا‘‘ (الشوری: ۱۳) فلو قال: ’’شرع لنوح ما وصاکم بہ‘‘ لکان ربما دل ہذا علٰی غرضہم، وأما ہٰذا فیصرح بضدہٖ۔ ‘‘(۳)
’’حاصلِ عبارت یہ ہے کہ مخالف کے قول کے مطابق سورۂ شوریٰ کی آیتِ کریمہ کاپہلی والی دونوں آیات سے تعارض ہو گا، اس لیے کہ سورۂ انعام والی آیت میں تمام انبیائعلیہم السلام کی شریعت کی پیروی کا حکم ہے اور سورۂ نحل والی آیت میں ابراہیمی شریعت کی پیروی کاحکم ہے اور سورۂ شوریٰ والی آیت میں نوح علیہ السلام کی شریعت کی پیروی کا حکم ہے، جبکہ جمہور کے قول کے مطابق سورۂ شوری والی آیت میں بھی ’’الدین‘‘سے بنیادی عقائد مراد ہیں، جن میں تمام انبیاء کرامعلیہم السلام متفق ہیں، اور اس کی پیروی کا حکم دیاگیا ہے۔ تیسرا یہ کہ نوحعلیہ السلام کی شریعت کے احکام غیرمعلوم تھے اور یہ کسی طرح ثابت نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شریعت کی کھوج لگا کر پیروی کا اہتمام کیا ہو۔ اگریوں کہہ دیا جاتاکہ نوح علیہ السلام کی شریعت وہی تھی، جس کی پیروی کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوحکم دیاگیاہے، توشاید کسی حدتک ان کے دعوی پر دلیل ہوتی ، جبکہ موجودہ آیتِ کریمہ تواس دعوی کی ضد پر صراحۃً دال ہے۔ ‘‘
حاصلِ جواب یہ ہے کہ اس استدلال کی صحت آیاتِ کریمہ کے درمیان وجودِ تعارض کو مستلزم ہے۔ نیز آیتِ کریمہ میں مشروعیتِ دین کی یکسانیت کو بیان کیاگیا ہے، اور دین عقائد کے مجموعہ کا نام ہے، اور فروعات کے مجموعے کا نہیں، اس لیے مخالف کا استدلال بے محل ہے۔ 
چوتھی آیتِ کریمہ سے استدلال کاجواب
’’الآیۃ الرابعۃ: قولہٗ تعالٰی: ’’إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْرَاۃَ فِیْہَا ہُدًی وَّنُوْرٌ یَّحْکُمُ بِہَا النَّبِیُّوْنَ‘‘ (المائدۃ:۴۴) الآیۃ، وہو أحد الأنبیاء فلیحکم بہا۔ واستدل بہٰذا من نسبہٗ إلٰی موسٰی - علیہ السلام - وتعارضہٗ الآیات السابقۃ۔ ثم المراد بالنور والہدی أصل التوحید وما یشترک فیہ النبیون دون الأحکام المعرضۃ للنسخ، ثم لعلہٗ أراد النبیین فی زمانہٖ دون من بعدہم، ثم ہو علی صیغۃ الخبر لا علی صیغۃ الأمر فلا حجۃ فیہ ، ثم یجوز أن یکون المراد حکم النبیین بہا بأمر ابتدأہم بہٖ اللّٰہ تعالٰی وحیًا إلیہم لا بوحی موسٰی - علیہ السلام -۔ ‘‘ (۴)
’’حاصلِ جواب یہ ہے کہ اس آیت سے استدلال میں بھی تمام وہ احتمالات موجود ہیں، جو پچھلی آیات میں تھے، یعنی مخالف کی تشریح کے مطابق اس آیتِ کریمہ کا دیگر تینوں آیاتِ کریمہ سے تعارض ہوگا، اس لیے یہاں بھی مشترکات(عقائد) مراد ہیں، قابلِ نسخ احکام مراد نہیں۔ یہ بھی احتمال ہے کہ ’’یَحْکُمُ بِہَا النَّبِیُّوْنَ‘‘ سے مراد موسیٰ علیہ السلام کے زمانے کے انبیاء مراد ہوں نہ کہ بعد میں آنے والے۔ مزید برآں! آیت میں خبر ہے، امر نہیں، جیسا کہ یہ احتمال ہے کہ انبیاء کرامعلیہم السلام اس شریعت کی پیروی کرتے تھے، لیکن اپنی شریعت کی حیثیت سے، نہ کہ موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کی حیثیت سے۔ ‘‘
ان تمام جوابات کا خلاصہ یہ ہوا کہ قرآن مجید کی کسی بھی آیت میں اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوپچھلے انبیاء کرام علیہم السلام پر ایمان لانے، ان کی پیروی کرنے، ان کے طریقہ پر چلنے اور ان کی طرف نازل ہونے والی وحی کو اپنانے کا حکم دیاگیا ہے، تو اس سے بنیادی عقائد، متفق علیہ مشترکات اورغیر قابل النسخ محکمات مراد ہیں، ورنہ قرآنی آیات میں تعارض کی صورت سامنے آئے گی۔ مزید برآں! اکثر آیاتِ کریمہ صراحۃً اس بات پر دلالت کررہی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس شریعت کی پیروی کے پابند ہیں، جو آپ پر نازل ہوئی ہے۔ پس یہ آیاتِ کریمہ جمہور کے مؤقف کی مؤید ہیں، نہ کہ اس مؤقف کی کہ شرائع میں اصل استمرار و بقاء ہے۔ 
پہلی حدیث سے استدلال کا جواب
’’ قلنا: بل فیہ ’’ فَمَنِ اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ۔ ‘‘ (البقرۃ: ۱۹۴)
حضرت انس بن النضر رضی اللہ عنہ کی بہن حضرت ربیع رضی اللہ عنہا کے واقعے سے استدلال کے جواب کاحاصل یہ ہے کہ ایک تو قرآن مجیدکی’’فَمَنِ اعْتَدٰی‘‘ والی آیت کے عموم میں دانت کے قصاص کا حکم شامل ہے۔ (۵) دوسرا یہ کہ جب تورات والے احکامِ قصاص کو بغیر کسی نکیریاتردید کے قرآن مجید میں نقل کردیا گیا تو اب وہی احکام‘ شریعتِ قرآنیہ وشریعتِ محمدیہ کے احکام بن گئے اور اسی حیثیت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت اس کی پیروی کی پابندہیں، نہ کہ شریعتِ موسویہ کی حیثیت سے۔ 
دوسری حدیث سے استدلال کا جواب
’’قلنا: ما ذکرہٗ - صلی اللّٰہ علیہ وسلم - تعلیلاً للإیجاب، لکن أوجب بما أوحی إلیہ ونبہ علی أنہم أمروا کما أمر موسٰی وقولہ ’’لِذِکْرِیْ‘‘ (طہ: ۱۴) أی: لذکر إیجابی للصلاۃ، ولولا الخبر لکان السابق إلی الفہم أنہٗ لذکر اللّٰہ تعالٰی بالقلب أو لذکر الصلاۃ بالإیجاب۔ ‘‘(۶)
’’یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۂ طہٰ کی آیتِ کریمہ کو نماز واجب ہونے کی علت اور وجہ کے طور پر ذکر نہیں فرمایا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جو وحی آئی تھی، اس کے بموجب فرمایا کہ: جب نماز یادآئے تو اس کو پڑھ لیں۔ آیت نقل کرنے سے اس طرف تو جہ دلائی کہ اس اُمت کو نماز کا حکم اس طرح دیا گیا ہے جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیاگیا تھا ۔ ‘‘
تیسری حدیث سے استدلال کا جواب
’’الحدیث الثالث: مراجعتہٗ - صلی اللّٰہ علیہ وسلم - التوراۃَ فی رجم الیہودیین وکان ذٰلک تکذیبًا لہم فی إنکار الرجم ، إذ کان یجب أن یراجع الإنجیل فإنہٗ آخر ما أنزل اللّٰہ، فلذٰلک لم یراجع فی واقعۃ سوی ہذہٖ ، واللّٰہ أعلم۔ ‘‘(۷)
’’حاصلِ جواب یہ ہے کہ رجم کے حکم سے انکار میں یہود کے جھوٹ کو ثابت کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تورات منگوانا اگراس نظریے پر مبنی ہوتا کہ ’’شَرَائِعُ مَنْ قَبْلَنَا‘‘ کے احکام کی پیروی ہمارے اوپر لازم ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم انجیل منگوالیتے، اس لیے کہ ’’شَرَائِعُ مَنْ قَبْلَنَا‘‘ میں باعتبارِ نزول آخری کتاب انجیل تھی، نہ کہ تورات ۔ مزید برآں ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس واقعہ کے علاوہ کسی اور موقع پر تورات نہیں منگوائی، جو اس بات کی دلیل ہے کہ اس موقع پر تورات منگوانا اس نظریے پر مبنی نہیں کہ شرائع میں اصل استمرار ہے۔ ‘‘
اس واقعہ سے استدلال کا اصل جواب یہ ہے کہ اس وقت جرمِ زنا کی سزا کا یہودیوں پر اجراء اور تنفیذ مقصود تھی، جو اُن کی شریعت کی روشنی میں کی گئی، مسلمانوں پر سزا کی تنفیذ مقصود نہیں تھی اور نہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تورات والی شریعت کے احکام کا مسلمانوں پر اجراء کیا ہے، جبکہ زیرِ بحث مسئلہ یہ ہے کہ کیا ’’شَرَائِعُ مَنْ قَبْلَنَا‘‘ مسلمانوں کے لیے اب بھی شریعت ہے؟ یاہم صرف شریعتِ محمدیہ((علی صاحبہا الصلوۃ والسلام )) کی پیروی کے پابند ہیں؟ اس لیے اس واقعہ سے زیرِ بحث مسئلہ پر استدلال بے محل ہے۔ 
حواشی و حوالہ جات 
۱:…المستصفی، لأبی حامد محمد بن محمد الغزالی ، م:۵۰۵ھـ، ج:۱ ، ص:۱۶۵-۱۶۸-۲۴۶۔ 
۲:… حوالہ مذکورہ، ج:۱ ، ص:۱۶۵-۱۶۸۔         ۳:… حوالہ مذکورہ، ج:۱ ، ص:۱۶۵-۱۶۸۔ 
۴:… حوالہ مذکورہ، ج:۱ ، ص:۱۶۵-۱۶۸۔         ۵:… حوالہ مذکورہ، ج:۱ ، ص:۲۵۹۔ 
۶:… حوالہ مذکورہ، ج:۱ ، ص:۲۶۰۔             ۷:… حوالہ مذکورہ، ج:۱ ، ص:۲۶۰۔ 
 (جاری ہے)
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین