بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

شرائع من قبلنا اور ان کا حکم ( نویں اور آخری قسط )

’’ شَرَائِعُ مَنْ قَبْلَنَا‘‘ اور اُن کا حکم

 (نویں اور آخری قسط)


’’شَرَائِعُ مَنْ قَبْلَنَا‘‘ ا ئمہ فقہاء کی نظرمیں
متذکرہ بالا مسالک میں سے آخری مسلک احناف نے اختیار کیا ہے۔ اور ’’شَرَائِعُ مَنْ قَبْلَنَا‘‘ سے اس قاعدے کے مطابق فقہی استنباطات کیے ہیں کہ شریعتِ محمدیہ علی صاحبہا الصلاۃ والسلام اصل ہے اور دیگر شرائع اس کے تابع ہیں۔ ہمارے اوپر ان شرائع کی پیروی اس حیثیت سے لازم ہے کہ وہ ہمارے نبی کی شریعت ہے، الایہ کہ ان شرائع کا نسخ صراحتاً ثابت ہو۔ امام بزدوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
’’وقد احتج محمد - رحمہ اللّٰہ - فی تصحیح المہایأۃ والقسمۃ بقول اللّٰہ تعالی: ’’وَنَبِّئْہُمْ أَنَّ الْمَائَ قِسْمَۃٌ بَیْنَہُمْ۔‘‘ (القمر: ۲۸) وقال:’’ لَہَا شِرْبٌ وَّلَکُمْ شِرْبُ یَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ‘‘ (الشعرائ:۱۵۵) فاحتج بہٰذا النص لإثبات الحکم بہ فی غیر المنصوص علیہ بما ہو نظیرہٗ فثبت أن المذہب ہو القول الذی اخترناہ۔ ‘‘ (۱)
’’امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے بطریقِ مہایاۃ (منافع کی تقسیم) اور حقِ آب پاشی کی تقسیم پر حضرت صالح علیہ السلام کے قصہ میں مذکور حکم ’’وَنَبِّئْہُمْ أَنَّ الْمَائَ قِسْمَۃٌ بَیْنَہُمْ‘‘ اور ’’لَہَا شِرْبٌ وَّلَکُمْ شِرْبُ یَوْمٍ مَعْلُوْمٍ‘‘ سے استدلال کیا ہے ۔ اس سے استدلال کیا، تاکہ اس کے ذریعے غیرمنصوص علیہ میں وہ حکم ثابت ہوجواس کی نظیر ہے، پس ثابت ہواکہ مذہب (حنفی) وہی قول ہے، جس کوہم نے اختیارکیا۔ ‘‘
صاحب کشف الأسرار لکھتے ہیںکہ: 
’’ یہ بات معلوم ہے کہ یہ استدلال اس نظرئیے کی بنیاد پر کیا ہے کہ مذکورہ حکم شریعتِ محمدیہ علی صاحبہا الصلاۃ والسلام ہی کا ایک حکم ہے، اس لیے کہ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ شریعتِ محمدیہ علی صاحبہا الصلاۃ والسلام کے احکام بیان کررہے ہیں، نہ کہ ’’شَرَائِعُ مَنْ قَبْلَنَا‘‘ کے احکام ۔ ‘‘(۲)
’’شَرَائِعُ مَنْ قَبْلَنَا‘‘ محدثین کی نظرمیں
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ’’شَرَائِعُ مَنْ قَبْلَنَا‘‘ سے استدلال کیا ہے، چنانچہ: ’’بَابٌ:بِمَنْ یُبْدَأُ فِی الْکِتَابِ ‘‘کے تحت حسب ذیل حدیث کونقل کیا ہے:
’’ عن أبی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ، عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہٗ ذکر رجلا من بنی إسرائیل، أخذ خشبۃ فنقرہا، فأدخل فیہا ألف دینار، وصحیفۃ منہ إلٰی صاحبہٖ، وقال عمر بن أبی سلمۃ ، عن أبیہ ، سمع أبا ہریرۃؓ: قال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم:’’ نجر خشبۃ، فجعل المال فی جوفہا، وکتب إلیہ صحیفۃ: من فلان إلی فلان۔ ‘‘ (۳)
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا تذکرہ فرمایا کہ: اس نے ایک لکڑی لی، اندر سے کھوکھلی کردی، اس میں ایک ہزار دینار اور اپنے دوست کے نام ایک مراسلہ رکھا۔ دوسری سند والی روایت میں یہ ہے کہ مراسلہ یوں لکھا: من فلان إلی فلان۔ ‘‘
قسطلانیؒ لکھتے ہیں:
’’ولعل البخاری خصّ سیاقَ ہٰذا الحدیث لعدم وجدانہٖ ما ہو علی شرطہٖ وہو علی قاعدتہٖ فی الاحتجاج بشرع من قبلنا إذ لم ینکر ولا سیما إذا ذکر فی مقام المدح لفاعلہٖ ۔ ‘‘ (۴)
’’شاید امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو یہاں اس لیے ذکرکیا کہ ان کو دوسری کوئی حدیث اپنی شرط کے مطابق نہیں ملی اور یہ استدلال اس قاعدے پر مبنی ہے کہ’’شَرَائِعُ مَنْ قَبْلَنَا‘‘ سے استدلال کیا جاسکتا ہے، جب اس کو علیٰ سبیل الانکار ذکرنہ کیا جائے، بالخصوص جب اس فعل کے کرنے والے کی مدح کے طور پر ذکر کیا جائے۔ ‘‘
امام محمدوامام بخاری E کے اس اسلوبِ استدلال سے معلوم ہوا کہ ’’شَرَائِعُ مَنْ قَبْلَنَا‘‘ جب قرآن وحدیث میں بغیر کسی نکیر یا تردید کے مذکور ہوں تو ہمارے لیے اس حیثیت سے حجت ودلیل ہیں کہ وہ ہماری شریعت یعنی شریعتِ محمدیہ علی صاحبہا الصلاۃ والسلام کا حکم ہے۔ 
’’شَرَائِعُ مَنْ قَبْلَنَا‘‘ کے متعلق غیر نزاعی متفقہ امور
’’شَرَائِعُ مَنْ قَبْلَنَا‘‘ کے حوالے سے حسب ذیل امور فقہاء اور اصولیین کے درمیان متفق علیہا ہیں:
۱:… اگر شریعتِ محمدیہ علی صاحبہا الصلاۃ والسلام کا کوئی حکم شرائع سابقہ کے کسی حکم کے لیے ناسخ بن کرآئے، تو بالاتفاق شرائع سابقہ کا حکم منسوخ ہوگا۔ 
۲:… اگر شریعتِ محمدیہ علی صاحبہا الصلاۃ والسلام میں کوئی نص یا حکم شرائع سابقہ کے کسی حکم کی تائید کرے، تو شرائع سابقہ کا وہ حکم برقرار رہے گا، تاہم شریعتِ محمدیہ علی صاحبہا الصلاۃ والسلام کی حیثیت سے، نہ کہ ’’شَرَائِعُ مَنْ قَبْلَنَا‘‘ کی حیثیت سے۔ 
۳:… اس وقت موجود کتابِ مقدس میں مذکور کسی حکم کو اگر کتاب اللہ اور سنت رسول میں ذکر نہ کیاگیا ہو، تو وہ شریعت محمدیہ علی صاحبہا الصلاۃ والسلام کا حکم نہیں ہوگا، اس لیے کہ قرآن مجید کے مطابق ان کی کتابوں میں تحریف ہوچکی ہے۔ 
۴:…تمام شرائع کا اس پر اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ وحدہٗ لاشریک ہے، گویا’’توحید‘‘ پر سب کا اتفاق ہے۔ 
۵:… محل اختلاف یہ ہے کہ شرائع سابقہ کا کوئی حکم کتاب اللہ میں مذکور ہو، یا پیغمبر علیہ السلام نے اس کو بیان کیا ہو، لیکن اس کی مشروعیت اور عدم مشروعیت کے بارے میں سکوت ہو، نہ تو صراحۃً یا اشارۃً اس کو برقراررکھنے کا ذکر ہو، اور نہ صراحۃً یااشارۃً اس کے منسوخ ہونے کا ذکر ہو۔ اس صورت کے بارے میں علماء کے اقوال مختلف ہیں، جن میں دو اقوال اہمیت کے حامل ہیں۔ پہلا قول: وہ شریعتِ محمدیہ علی صاحبہا الصلاۃ والسلام کا حصہ ہے۔ دوسراقول: شریعتِ محمدیہ علی صاحبہا الصلاۃ والسلام کا حصہ نہیں ہے۔ پہلاقول جمہور حنفیہ، مالکیہ، اور بعض شافعیہ کا مذہب ہے اور امام احمدؒ سے بھی ایک روایت یہی ہے۔ دوسرا قول بعض شافعیہ کا مذہب ہے، جس کو امام الحرمین ابواسحاقؒ، غزالیؒ اور آمدیؒ نے ترجیح دی ہے، اسی طرح بعض حنفیہ کا بھی یہی قول ہے۔ امام احمدؒ کی دوسری روایت ہے، ابن حزمؒ کا بھی قول ہے، اور معتزلہ کی طرف اس کی نسبت کی گئی ہے۔ 
بعض حضرات نے ’’شَرَائِعُ مَنْ قَبْلَنَا‘‘ کے متعلق یہ اسلوب اختیار کیا ہے کہ ’’شَرَائِعُ مَنْ قَبْلَنَا‘‘ ہمارے لیے بہرحال دلیل مستقل نہیں ہے، ہم نے کتاب وسنت کی روشنی میں اس کو دیکھنا ہے۔ 
’’شَرَائِعُ مَنْ قَبْلَنَا‘‘ کے بارے میں اختلاف نزاعِ لفظی
امام ابوزہرہؒ کی تحقیق کا حاصل یہ ہے کہ اس اختلاف پر کوئی نتیجہ مرتب نہیں ہوتا، اس لیے کہ شرائع سابقہ کا کوئی حکم ایسا نہیں جس کی موافقت یامخالفت میں شریعتِ محمدیہ علی صاحبہا الصلاۃ والسلام میں صراحۃًیا اشارۃًوکنایۃًکوئی حکم مذکور نہ ہو۔ امام ابو زہرہؒ کی تحقیق کے مطابق مختلف ابواب میں پھیلے ہوئے تقریباً مسائل ایسے ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ: یہ ’’شَرَائِعُ مَنْ قَبْلَنَا‘‘ کے قبیل میں سے ہیں، اور شریعتِ محمدیہ علی صاحبہا الصلاۃ والسلام میں ان میں سے ہر ایک مسئلے کی موافقت یا مخالفت میں اجمالی یا تفصیلی دلیل موجودہے، جس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ ’’شَرَائِعُ مَنْ قَبْلَنَا‘‘ کے بارے میں اختلاف نزاعِ لفظی کے قبیل میں سے ہے، جس پر عملاً کوئی نتیجہ مرتب نہیں ہوتا۔ 
مسلمانوں کی عدالت میں غیر مسلموں کے مقدمات
 اس موضوع سے متعلق یہ بحث ہے کہ اگر اسلامی ریاست میں غیر مسلم لوگ اپنا کوئی مقدمہ عدالت کے سامنے پیش کرتے ہیں، توکیا مسلمان حاکم یاقاضی ان کے درمیان فیصلہ کرنے کاپابند ہے؟ یا فیصلہ کیے بغیر ان کو واپس کرنے کااختیار رکھتاہے؟ مزید برآں! گزشتہ شرائع کے پیروکاروں پرکونسے احکام جاری ہوں گے؟ اسلامی احکام؟ یا پھر ان کی اپنی شریعتوں کے احکام؟! 
متعلقہ آیتِ کریمہ اور اس کاشانِ نزول
 متذکرہ بالا مضمون سورۂ مائدہ کی حسب ذیل آیات( ۴۱تا۴۴اور آیت نمبر:۴۸ ) میں بیان ہوا ہے:
’’یَأَیُّھَا الرَّسُوْلُ لَا یَحْزُنْکَ الَّذِیْنَ۔۔۔۔۔ تا۔۔۔۔۔ وَأَنِ احْکُمْ بَیْنَہُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللّٰہُ وَلَا تَتَّبِعْ أَہْوَائَ ہُمْ ۔ ‘‘ (المائدۃ:۴۱ تا ۴۹)
ان آیات کا شانِ نزول بغویؒ کے بیان کے مطابق یہ ہے کہ خیبر کے ایک یہودی مرد اور عورت نے جو کنوارے نہ تھے، زنا کیا۔ باوجودیکہ تورات میں اس جرم کی سزا ’’رجم‘‘ (سنگسار کرنا) تھی، مگر ان دونوں کی بڑائی مانع تھی کہ یہ سزا جاری کی جائے۔ آپس میں مشورہ ہوا کہ یہ شخص جو ’’یثرب‘‘ میں ہے (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) ان کی کتاب میں ’’زانی‘‘ کے لیے ’’رجم‘‘ کا حکم نہیں، کوڑے مارنے کا ہے تو ’’بنی قریظہ‘‘ کے یہود میں سے کچھ آدمی ان کے پاس بھیجو، کیونکہ وہ ان کے ہمسایہ ہیں اور ان سے صلح کا معاہدہ بھی کرچکے ہیں، وہ ان کا خیال معلوم کرلیں گے۔ چنانچہ ایک جماعت اس کام کے لیے روانہ کی گئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عندیہ معلوم کر لے کہ ’’زانی محض‘‘ کی کیا سزا تجویز کرتے ہیں؟ اگر وہ کوڑے مارنے کا حکم دیں تو قبول کر لو، اور ’’رجم‘‘ کا حکم دیں تو مت مانو۔ ان کے دریافت کرنے پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: تم میرے فیصلہ پر رضامند ہو گے؟ انہوں نے اقرار کر لیا۔ خدا کی طرف سے جبرائیل علیہ السلام ’’رجم‘‘ کا حکم لے آئے، مگر وہ لوگ اپنے اقرار سے پھر گئے، آخر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: فدک کا رہنے والا ابن صور یا تم میں کیسا شخص ہے ؟سب نے کہا: آج روئے زمین پر ’’شرائع موسویہ‘‘ کا اس سے زیادہ جاننے والا کوئی نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بلوایا اور نہایت ہی شدید حلف دے کر پوچھا کہ: ’’تورات‘‘ میں اس گناہ کی سزا کیا ہے؟ باوجودیکہ دوسرے یہود اس حکم کو چھپانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے تھے جس کا پردہ حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے ذریعہ سے فاش ہو چکا تھا، تاہم ابن صوریا نے جو ان کا معتمد تھا، کسی نہ کسی وجہ سے اس کا اقرار کر لیا کہ بے شک تورات میں اس جرم کی سزا رجم ہی ہے۔ بعدہٗ اس نے سب حقیقت ظاہر کی کہ کس طرح یہود نے رجم کو اُڑا کر زنا کی سزا یہ رکھ دی کہ زانی کو کوڑے لگائے جائیں اور منہ کالا کر کے اور گدھے پر اُلٹا سوار کرا کر گشت کرایا جائے۔ الحاصل حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں مرد و عورت پر رجم کی سزا جاری کی اور عرض کیا: اے اللہ! آج میں پہلا شخص ہوں جس نے تیرے حکم کو دنیا میں زندہ کیا، اس کے بعد کہ وہ اسے مردہ کر چکے تھے ۔ (۵)
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس واقعے کی تفصیل یوں بیان کی ہے:
’’عن ابن عمر رضی اللّٰہ عنہما، قال: أتی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بیہودی ویہودیۃ قد أحدثا جمیعا، فقال لہم: ’’ما تجدون فی کتابکم؟‘‘ قالوا: إن أحبارنا أحدثوا تحمیمَ الوجہ والتجبیۃ۔ قال عبد اللّٰہ بن سلام: ادعہم یا رسول اللّٰہ بالتوراۃ، فأتی بہا فوضع أحدہم یدہ علی آیۃ الرجم وجعل یقرأ ما قبلہا وما بعدہا، فقال لہ ابن سلام: ارفع یدک، فإذا أیۃ الرجم تحت یدہ، فأمر بہما رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فرُجِما:قال ابن عمرؓ: فرجما عند البلاط، فرأیت الیہودیَ أجنأ علیہا۔ ‘‘ (۶)
’’حضرت ابن عمر رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک یہودی مرد اور عورت لائے گئے، جنہوں نے بدکاری کی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا :تمہاری کتاب (تورات) میں کیا حکم ہے؟ کہنے لگے: ہمارے علماء نے یہ حکم ایجاد کیا ہے کہ چہروں کو کالا کردیا جائے اور گدھے پر اُلٹا بٹھایا جائے۔ عبد اللہؓ بن سلام نے عرض کیا: یارسول اللہ! ان سے تورات لانے کا کہہ دیں، چنانچہ تورات لائی گئی، ان میں ایک شخص نے آیت رجم پر ہاتھ رکھ کر چھپایا اور اس سے پہلے اور بعد والی آیتوں کو پڑھنے لگا۔ ابن سلام نے کہا: ہاتھ اُٹھادیں، چنانچہ اس کے ہاتھ کے نیچے والی جگہ میں آیتِ رجم موجود تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے رجم کا فیصلہ جاری فرمایا اور ان کو رجم کیا گیا۔ ابن عمر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: بلاط نامی جگہ میں ان کو رجم کیاگیا، میں نے اس یہودی مرد کو اس عورت پر جھکتے ہوئے دیکھا۔ ‘‘
اس حدیث شریف میں یہ تو بتایاگیا ہے کہ اس یہودی مرد اور یہودیہ عورت کو رجم کیا گیا، لیکن یہ بات محتاجِ بیان ہے کہ ان کواسلا می احکام کے تابع رجم کیا گیا؟ یا تورات کے حکم رجم کے تابع؟ بہرحال! اس تناظر میں سورۂ مائدہ کی محولہ بالا آیاتِ کریمہ نازل ہوگئیں۔ 
آیتِ کریمہ کی تفسیر کے بارے میں تین موقف
علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ نے بخاری شریف کی حدیث کی شرح میں اس مسئلے میں تین موقف ذکر کیے ہیں، فرماتے ہیں:
’’واختلف العلماء فی الحکم بینہم إذا ترافعوا إلینا أ واجب ذلک علینا أم نحن فیہ مخیرون؟۔ ‘‘
’’یہودیوں کے مابین فیصلہ کرنے کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے۔ جب وہ ہم مسلمانوں کے پاس اپنا مقدمہ لے کرآئیں تو کیا ہمارے اوپر ان کے درمیان فیصلہ کرنا واجب اور ضروری ہے؟ یا ہمیں فیصلہ کرنے نہ کرنے کا اختیار ہے؟۔‘‘
پہلاموقف: فقہاء حجازوعراق کا :’’حاکم کواختیارہے‘‘
’’فقال جماعۃ من فقہاء الحجاز والعراق: إن الإمام أو الحاکم مخیر إن شاء حکم بینہم إذا تحاکموا بحکم الإسلام، وإن شاء أعرض عنہم۔ وقالوا: إن قولہٗ تعالٰی: ’’فإن جائُ وْکَ‘‘ محکمۃ لم ینسخہا شیئ، وممن قال بذٰلک: مالک والشافعی فی أحد قولیہ، وہو قول عطاء والشعبی والنخعی، وروی ذلک عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما، فی قولہ: ’’فإن جائُ وْکَ‘‘ قال: نزلت فی بنی قریظۃ وہی محکمۃ۔ وقال عامر والنخعی: إن شاء حکم وإن شاء لم یحکم۔‘‘(۷)
’’حجاز اور عراق کے فقہاء کی ایک جماعت کا قول ہے کہ جب وہ (غیرمسلم) اسلامی حکم کے مطابق فیصلہ کرانا چاہیں تو مسلمان قاضی یا حاکم کو اختیار ہے، چاہے تو فیصلہ کردے اور چاہے تو فیصلہ نہ کرے۔ ان حضرات کا موقف یہ ہے کہ سورۂ مائدۃ کی آیت نمبر:۴۲ ’’فَإِنْ جَائُ وْکَ فَاحْکُمْ بَیْنَہُمْ‘‘ محکم ہے، منسوخ نہیں، یعنی یہی حکم اب تک برقرار ہے۔ امام مالک اور امام شافعیE کا ایک قول یہی ہے، اور صحابہؓ، تابعینؒ، مفسرینؒ کا بھی یہی قول ہے۔ ‘‘
دوسراموقف:ابن القاسم کا: ’’فریقین اورمذہبی پیشواؤں کی رضامندی سے فیصلہ کرے‘‘
’’وعن ابن القاسم: إذا تحاکم أہل الذمۃ إلٰی حاکم المسلمین ورضی الخصمان بہ جمیعًا فلا یحکم بینہما إلا برضا من أساقفتہما، فإن کرہ ذٰلک أساقفتہم فلا یحکم بینہم، وکذٰلک إن رضی الأساقفۃ ولم یرض الخصمان أو أحدہما لم یحکم بینہم۔ وقال الزہریؒ: مضت السنۃ أن یرد أہل الذمۃ فی حقوقہم ومعاملاتہم ومواریثہم إلٰی أہل دینہم، إلا أن یأتوا راغبین فی حکمنا فیحکم بینہم بکتاب اللّٰہ عز وجل۔‘‘ (۸)
’’ابن القاسم سے روایت ہے، اس کا حاصل یہ ہے کہ اگر دونوں فریق اسلامی احکام کے مطابق فیصلہ کرنے پر رضامند ہوں اور ان کے مذہبی پیشواؤں کو بھی اس پر اعتراض نہ ہو تو مسلمان قاضی یا حکم ان کے درمیان فیصلہ کرے گا۔ اگر فریقین رضامند ہوں، لیکن ان کے مذہبی پیشوا رضامند نہ ہوں یا اس کے برعکس مذہبی پیشوا رضامندہوں اور فریقین رضامندنہ ہوں یا پھر دونوں رضامند نہ ہوں تو ان تمام صورتوںمیں مسلمان قاضی ان کے درمیان اسلامی احکام کے مطابق فیصلہ نہیں کرے گا۔ اس قول کی تائید امام زہری رحمۃ اللہ علیہ کے اس قول سے ہوتی ہے کہ سنت یہی چلی آرہی ہے کہ (ذمیوں[غیر مسلموں]) کو ان کے حقوق، معاملات اور میراث کے مقدمات واحکام میں ان کے مذہبی پیشواؤں کی طرف فیصلے لینے کے لیے بھیج دیا جائے، الایہ کہ اگر وہ برضاورغبت خوشی سے اسلامی احکام کے مطابق فیصلہ کرانا چاہیں تو مسلمان قاضی اورحاکم ان کے درمیان قرآنی احکام کے مطابق فیصلہ کرے۔ ‘‘
تیسراموقف: احناف کا ’’مطلقاً فیصلہ کرنا لازم ہے‘‘
’’وقال آخرون: واجب علی الحاکم أن یحکم بینہم إذا تحاکموا إلیہ بحکم اللّٰہ تعالٰی، وزعموا أن قولہٗ تعالٰی: (وَأَنِ احْکُمْ بَیْنَہُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی) ناسخ للتخییر فی الحکم بینہم فی الآیۃ التی قبل ہٰذہٖ، وروی ذلک عن ابن عباسؓ، وبہ قال الزہری وعمر بن عبد العزیز والسدی، وإلیہ ذہب أبو حنیفۃ وأصحابہ، وہو أحد قولی الشافعی، إلا أن أبا حنیفۃ قال: إذا جاء ت المرأۃ والزوج فعلیہ أن یحکم بینہما بالعدل، وإن جاء ت المرأۃ وحدہا ولم یرض الزوج لم یحکم، وقال صاحباہ: یحکم، وکذا اختلف أصحاب مالکؒ۔ ‘‘ (۹)
’’دیگر فقہاء کہتے ہیں کہ بلاکسی شرط اور قید کے مطلقاً جب غیرمسلم مسلمان قاضی اورحاکم کے پاس مقدمہ لے کرآئیں، تو اس پر لازم ہے کہ ان کے درمیان قرآنی احکام کے مطابق فیصلہ کردے، ان کو واپس نہ کرے۔ ان کا موقف یہ ہے کہ سورۂ مائدۃ کی آیت نمبر:۴۹’’وَأَنِ احْکُمْ بَیْنَہُمْ‘‘پہلی والی آیت:۴۲ میں دیے گئے اختیار کے لیے ناسخ ہے۔ یعنی مسلمان حاکم اور قاضی کو اختیار نہیں کہ وہ فیصلہ کرے یا نہ کرے، بلکہ وہ فیصلہ کرنے کا پابند ہے۔ ابن عباسؓ، امام زہریؒ، امام ابو حنیفہؒ وصاحبینؒ کایہی قول ہے۔ امام شافعیؒ کا بھی دوسراقول یہی ہے، تاہم امام ابو حنیفہ نے یہ قید لگائی ہے کہ غیر مسلم میاں بیوی کے درمیان کوئی مقدمہ ہے، تو اگر دونوں اسلامی فیصلے کرانے پر رضامند ہیں تو فبہا، ورنہ اگر صرف بیوی اسلامی احکام کے مطابق فیصلہ چاہتی ہے اور شوہر نہیں چاہتا تو مسلمان قاضی وحاکم اس صورت میں فیصلہ نہیں کرے گا۔ جبکہ صاحبینؒ کا قول یہ ہے کہ شوہر کی رضامندی کی ضرورت نہیں۔ امام مالکؒ کے شاگردوں میں اسی طرح اختلاف ہے۔ ‘‘
 یہ تفصیل مالی معاملات اور حقوق ومواریث سے متعلق مقدمات کی ہے۔ حدود کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’واختلف الفقہاء أیضا فی الیہودیین من أہل الذمۃ إذا زنیا: ہل یُرجمان إن رفعہم حکامُہم إلینا أم لا؟ فقال مالکؒ: إذا زنی أہل الذمۃ وشربوا الخمر فلایتعرض لہم الإمام إلا أن یظہروا ذلک فی دیار المسلمین فیدخلون علیہم الضرر فیمنعہم السلطان من الضرر بالمسلمین قال مالکؒ: وإنما رجم رسولُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، الیہودین لأنہ لم یکن للیہود یومئذ ذمۃ، وتحاکموا إلیہ۔ وقال أبو حنیفۃ وأصحابہ: یُحَدَّانِ إذا زنیا کحد المسلمین، وہو أحد قولی الشافعی۔‘‘ (۱۰)
’’اگرزنا کاری اور شراب نوشی سے متعلق مقدمات ہوں تو احناف کے ہاں یہ بھی مالی مقدمات کی طرح ہیں۔ لیکن امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس کا حکم دوسرا ہے۔ علامہ عینیؒ لکھتے ہیں: اس کا حکم دوسرا ہے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا قول یہ ہے کہ اگر ذمی یہودی بدکاری اور شراب نوشی کا ارتکاب کریں، تو مسلمان حاکم ان سے کوئی تعرض نہ کرے۔ تاہم اگر بدکاری وشراب نوشی کا ارتکاب مسلمان بستیوں اور آبادیوں میں ہو، جس کے نتیجے میں مسلمان معاشرہ بے راہ روی کا شکار ہوسکتا ہو، یا اس کی وجہ سے کسی بھی قسم کا نقصان ہوسکتا ہو، تو مسلمان حاکم اس نقصان یا بے راہ روی کا سدباب کرے گا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن دویہودیوں کو رجم کیا تھا، امام مالکؒ اس کی توجیہ یوں کرتے ہیں کہ وہ یہودی ذمی نہیں تھے اور خود ہی اپنامقدمہ دربارِ رسالت میں لے کر آئے تھے، اس لیے ان کا حکم مختلف تھا۔ امام ابوحنیفہؒ وصاحبینؒ کا موقف یہ ہے کہ اگر غیرمسلم ذمی بدکاری کریں گے تو مسلمانوں کی طرح ان پر حدجاری ہوگی۔ امام شافعیؒ کا بھی ایک قول یہی ہے۔ ‘‘
حاصل یہ ہوا کہ احناف کے نزدیک مسلمان قاضی وحاکم اس بات کا پابند ہے کہ جب غیر مسلم ذمی اپنا کوئی مقدمہ، خواہ مالی حقوق سے متعلق ہو یا زناوشراب نوشی جیسے جرائم سے متعلق ہو، ان کے پاس لے کر آئیں تو ان کے درمیان اسلامی احکام کے مطابق فیصلہ کرے، فیصلہ نہ کرنے کا اس کو اختیار نہیں، جبکہ دیگر ائمہ بالخصوص امام مالکؒ کے ہاں پابندی نہیں۔ 
خلاصۂ بحث! 
پوری بحث کا خلاصہ مندرجہ ذیل نکات ہیں:
الف:… آخری شریعت، یعنی شریعتِ محمدیہ علی صاحبہا الصلاۃ والسلام سے پہلے والی آسمانی شریعتیں ’’شَرَائِعُ مَنْ قَبْلَنَا‘‘ کہلاتی ہیں۔ 
ب:… دین، ملت، شریعت اور مذہب لغوی مفہوم کے اعتبار سے چار مختلف اصطلاحات ہیں، لیکن خارجی مصداق کے اعتبار سے متحد ہیں، یعنی آسمانی تعلیمات پر مشتمل عقائد واعمال کا مجموعہ مختلف حیثیتوں سے دین، ملت، شریعت اور مذہب کہلاتا ہے۔ 
ج:… چاروں اصطلاحات میں فرق اعتباری یا تو معنی لغوی کی حیثیت سے ہے، یعنی باعتبارِ اطاعت وانقیاد’’دین‘‘۔ باعتبارِ جمعہ وبیان ’’ملت‘‘۔ باعتبارِ تشبیہ بالمائ’’شریعت‘‘ اور باعتبارِ رجوع الیہ’’مذہب‘‘ کہلاتا ہے۔ 
یا پھر عقائد کا پہلو مدنظر ہو تو ’’دین‘‘۔ اصول وقواعد کلیہ کا پہلو مدنظر ہو تو ’’ملت‘‘۔ اعمال اور فروعاتِ منصوصہ کا پہلو مدنظر ہو تو ’’شریعت‘‘۔ اور فروعات مجتہد فیہا کا پہلو مدنظر ہو تو ’’مذہب‘‘ کہلاتا ہے۔ 
د:…آسمانی شرائع میں باہم اتفاق بھی ممکن ہے اور اختلاف بھی، نیز انبیاء بنی اسرائیلo کی شریعتوں کے درمیان اتفاق واقع بھی ہوا ہے۔ 
ھ:… آخری پیغمبرخاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم زندگی کے قبل از بعثت کے مرحلے کے بارے میں تین اقوال ہیں کہ :۱:-آپ صلی اللہ علیہ وسلم پچھلی شریعتوں کی پیروی کے پابند تھے۔ ۲:- پیروی کے پابند نہیں تھے۔ ۳:…توقف اختیار کیا جائے۔ 
و:…زندگی کے بعد از بعثت مرحلہ میں ’’شَرَائِعُ مَنْ قَبْلَنَا‘‘ کی پیروی ازروئے عقل ونقل جائزہے، تاہم وقوع میں علماء کے چاراقوال ہیں:
۱:…پہلاقول ہے کہ: ’’شَرَائِعُ مَنْ قَبْلَنَا‘‘ کے تمام احکام کی اتباع ہمارے اوپر واجب ہے، جب تک ناسخ نہ آئے، یعنی شرائع میں اصل استمرار وبقاء ہے۔ 
اس موقف کی صحت پران متعدد آیات واحادیث سے استدلال کیا جاتا ہے، جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پچھلے انبیائo کی اقتداء کا حکم دیا گیا ہے، یا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی حکم شرعی میں سابقہ شرائع کا حوالہ دیا ہے۔ 
 اس استدلال کا جواب یہ ہے کہ عقائد میں اقتداء کا حکم ہے، ورنہ نصوص میں تعارض ہوگا۔ نیز مشترک احکام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر منسوخ احکام پر اپنی شریعت کی حیثیت سے عمل کیا ہے، سابقہ شریعت کے حکم کی حیثیت سے نہیں۔ 
۲:…دوسراقول پہلے کے بالکل برعکس یہ ہے کہ ’’شَرَائِعُ مَنْ قَبْلَنَا‘‘ کے کسی بھی حکم کی اتباع ہمارے اوپر واجب نہیں، إلایہ کہ عمل کرنے کا حکم دلیل سے ثابت ہوجائے، یعنی ہر آسمانی شریعت پہلے نبی کی وفات یا دوسرے نبی کی بعثت کے ساتھ ختم ہو جاتی ہے۔ 
استدلال ان نصوصِ قرآنیہ واحادیث پر مبنی ہے، جن میں اختصاصی شریعت کی بات کی گئی ہے، یا مخصوص علاقے اور قوم کی طرف انبیائo کی بعثت کی صراحت کردی گئی ہے۔ 
۳:…تیسراقول یہ ہے کہ شرائع سابقہ میں سے غیر ثابت النسخ تمام احکام پر مطلقاً عمل کرنا لازم ہے، لیکن شریعتِ محمدیہ علی صاحبہا الصلاۃ والسلام کے احکام کی حیثیت سے۔ 
مطلقاً عمل کرنا لازم ہے، خواہ اس حکم کا شرائع سابقہ میں سے ہونا اہل کتاب نے نقل کیا ہو، یا کسی مسلمان نے ان کی کتابوں سے سمجھا ہو۔ اس لیے یہ قول معتبر نہیں کہ کتب سابقہ کا محرف ہونا نصوصِ قطعیہ سے ثابت ہے اور احادیث میں صراحۃً مذکور ہے کہ اہل کتاب سے دین کی باتیں نہ پوچھی جائیں اور ان کی باتوں کی تصدیق کی جائے اور نہ تکذیب۔ 
۴:…چوتھا قول یہ ہے کہ شرائع سابقہ پر ثبوتِ شرعی کی بنیاد اپنے نبی کی شریعت کی حیثیت سے اتباع لازم ہے۔ 
قرآن مجید کی متعدد آیاتِ کریمہ اور احادیثِ نبویہ سے اس مسلک پر استدلال کیاگیا ہے۔ یہی احناف کا اختیار کردہ مسلک ہے۔ فقہاء اور محدثین نے اس مسلک کے مطابق استنباطات کیے ہیں۔ 
ز:…’’شَرَائِعُ مَنْ قَبْلَنَا‘‘ کے متعلق یہ اختلاف نزاعِ لفظی کے قبیل سے ہے، عملی لحاظ سے اس پر کوئی نتیجہ مرتب نہیں ہوتا۔ 
ح:… مسلمانوں کی عدالت میں اگر غیرمسلم اپنے مقدماتِ مالیہ لے کر آئیں تو سورۂ مائدہ کی آیات ۴۱-تا-۴۴ اور آیت نمبر:۴۸ سے استدلال کی روشنی میں فقہاء حجاز کے نزدیک مسلمان قاضی کو اختیار ہے کہ وہ فیصلہ کرے یا نہ کرے۔ 
ابن القاسمؒ کے نزدیک فریقین اور ان کے مذہبی پیشواؤں کی رضامندی سے فیصلہ کرے۔ 
احناف کے نزدیک قاضی پر مطلقاً فیصلہ کرنا لازم ہے۔ 
اور حدود (زنا وشراب) کے مقدمات میں امام مالکؒ کے نزدیک اس وقت فیصلہ کرے جب مسلمان معاشرہ کے متاثر ہونے کا خطرہ ہو۔ احناف کے نزیک مالی معاملات کی طرح حدود میں بھی مسلمان قاضی فیصلہ کرے۔ 
حوالہ جات
۱:…اصول البزدوی علی حاشیۃ کشف الاسرار، ج:۳، ص:۲۱۶۔     ۲:…حوالہ سابقہ
۳:…صحیح البخاری، بَابٌ: بِمَنْ یُبْدَأُ فِی الکِتَابِ، رقم:۶۲۶۱    ۴:…إرشاد الساری لشرح صحیح البخاری، ج:۹، ص:۱۹۲
۵:…تفسیر عثمانی، المائدہ آیت نمبر:۴۱، حاشیہ نمبر:۸۔         ۶:…صحیح البخاری، بابُ الرَّجْمِ فِی البَلاطِ، رقم: ۹۱۸۶۔ 
۷:…عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری، ج:۲۳، ص:۲۹۵    ۸:…حوالہ مذ کورہ، ج:۲۳، ص:۲۹۵
۹:…حوالہ مذ کورہ، ج:۲۳، ص:۲۹۵            ۱۰:…حوالہ مذ کورہ، ج:۲۳، ص:۲۹۵
(انتہیٰ)
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین