بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

شرائع من قبلنا اور ان کا حکم


’’ شرائعمن قبلنا‘‘ اور اُن کا حکم

 

 (چوتھی قسط)

 

اب یہ بات محتاجِ بیان ہے کہ شریعتِ محمدیہ ( (علی صاحبہا الصلوۃ والسلام )) میں ان احکام کی مشروعیت کس حیثیت سے ہے؟ شرائع سابقہ کے احکام کی حیثیت سے؟ یا شریعتِ محمدیہ ( (علی صاحبہا الصلوۃ والسلام )) کے احکام کی حیثیت سے؟ اس حوالے سے مختلف اقوال ہیں،جن کی تفصیل حسب ذیل ہے: 

بعد از بعثت ’’شَرَائِعُ مَنْ قَبْلَنَا‘‘کی پیروی کے حوالے سے چاراقوال 

پہلا قول:۔۔۔۔۔۔ ’’شَرَائِعُ مَنْ قَبْلَنَا‘‘ کے تمام احکام کی اتباع ہمارے اوپر واجب ہے، جب تک ناسخ نہ آئے۔ 
دوسرا قول:۔۔۔۔۔۔ ’’شَرَائِعُ مَنْ قَبْلَنَا‘‘کے کسی بھی حکم کی اتباع ہمارے اوپر واجب نہیں، الا یہ کہ عمل کرنے کا حکم دلیل سے ثابت ہوجائے ۔
تیسرا قول:۔۔۔۔۔۔ ’’شَرَائِعُ مَنْ قَبْلَنَا‘‘کے تمام احکام کی اتباع ہمارے اوپر لازم ہے، لیکن اس حیثیت سے کہ ہماری شریعت بن گئی۔
چوتھا قول:۔۔۔۔۔۔ ’’شَرَائِعُ مَنْ قَبْلَنَا‘‘ کے ان احکام کی پیروی ہمارے اوپر لازم ہے، جن کو قرآن مجید یا احادیثِ نبویہ میں انکار یا تردید کے بغیر نقل کیا جائے۔
چوتھا اور آخری قول راجح ہے، وجوہِ ترجیح آگے تفصیلاً آرہی ہیں۔ امام بزدوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: 
’’قَالَ بَعْضُ الْعُلَمَائِ: یَلْزَمُنَا شَرَائِعُ مَنْ قَبْلَنَا حَتَّی یَقُومَ الدَّلِیلُ عَلَی النَّسْخِ بِمَنْزِلَۃِ شَرَائِعِنَا وَقَالَ بَعْضُہُمْ : لَا یَلْزَمُنَا حَتّٰی یَقُوْمَ الدَّلِیْلُ وَقَالَ بَعْضُہُمْ: یَلْزَمُنَا عَلٰی أَنَّہٗ شَرِیْعَتُنَا۔ ‘‘(۱)
’’بعض علماء کا قول یہ ہے کہ ہمارے اوپر شرائع سابقہ کی پیروی اس وقت تک مطلقًا لازم ہے، جب تک نسخ کی کوئی دلیل قائم نہ ہو،جیسے ہماری اپنی شریعت کاحکم ہے۔ بعض کا قول یہ ہے کہ پیروی اس وقت تک لازم نہیں ،جب تک پیروی کرنے کی کوئی دلیل قائم نہ ہو، جبکہ بعض کا قول یہ ہے کہ اس حیثیت سے پیروی لازم ہے کہ وہ ہماری شریعت بن گئی۔‘‘
بہرحال! اس عبارت میں بیان کردہ مسالک حسبِ ذیل چار قواعد پر مبنی ہیں: 

قواعدِ اربعہ

پہلا قاعدہ:۔۔۔۔۔۔ شرائع سماویہ میں اصل استمرار وبقاء ہے۔
دوسرا قاعدہ:۔۔۔۔۔۔ ہرآسمانی شریعت پہلے نبی کی وفات یا دوسرے نبی کی بعثت کے ساتھ اختتام پذیر ہو جاتی ہے۔
تیسرا قاعدہ:۔۔۔۔۔۔ شرائع سابقہ میں سے غیر ثابت النسخ احکام پر بحیثیت اپنی شریعت کے عمل لازم ہے۔
چوتھا قاعدہ:۔۔۔۔۔۔ ثبوتِ شرعی کی بنیاد پر شرائع سابقہ کے احکام کی اتباع لازم ہے۔
 

پہلے قول کی وضاحت اور دلائل

’’شَرَائِعُ مَنْ قَبْلَنَا‘‘کی اتباع ہمارے اوپر واجب ہے ،جب تک ناسخ نہ آئے۔
اس قول کی بنیاد یہ قاعدہ ہے کہ: ’’شرائع سماویہ میں اصل استمرار وبقاء ہے۔‘‘ گویا حضورk کی بعثت کے بعد بھی سابقہ شریعتیں برقرار ہیں، منسوخ نہیں ہیں۔امام سرخسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: 
’’فَأَمَّا الْفَرِیق الأولُ قَالُوا: صفۃ الْإِطْلَاق فِی الشَّیْء یَقْتَضِی التَّأْبِیدَ فِیہِ إِذا کَانَ مُحْتملا للتأبید،فالتوقیت یکون زِیَادَۃ فِیہِ لَا یجوز إثْبَاتہ إِلَّا بِالدَّلِیلِ۔ ‘‘(۲)
’’پہلے فریق کا کہنا ہے کہ کسی حکم کامطلق ہونا تأبید(ہمیشگی )کامتقاضی ہے، اگر اس میں تأبید کا احتمال ہو، پس اس کو کسی وقت کے ساتھ خاص کرنا اس میں اضافہ کرنے کے مترادف ہے ،جودلیل کے بغیرجائز نہیں۔‘‘

 پہلے مسلک کے دلائل
 

نقلی دلائل، مشتمل برآیاتِ قرآنیہ
 

پہلی آیت کریمہ اور طریقۂ استدلال

’’اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ ہَدَی اللّٰہُ فَبِہُدٰہُمُ اقْتَدِہْ۔‘‘ (الأنعام: ۹۰)
’’ یہ وہ لوگ تھے جن کو ہدایت کی اللہ نے، سو تو چل ان کے طریقہ پر۔‘‘
 اس آیت کریمہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گزشتہ انبیاء کی ’’ھُدٰی‘‘ (تعلیمات) کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے اور ’’ھُدٰی‘‘کے مفہوم میں ایمان اور شرائع دونوں شامل ہیں، اس لیے کہ دونوں کے مجموعے کی پیروی سے ہدایت ملتی ہے، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر گزشتہ شریعتوں کی پیروی واجب ہوئی۔ ’’ھُدٰی‘‘ ایمان وشرائع کا مجموعہ ہے، اس کی دلیل سورۂ بقرہ کی ابتدائی آیت کریمہ ہیں، ارشادربانی ہے: 
’’ہُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ ۔۔۔۔۔۔۔ إلٰی۔۔۔۔۔۔۔۔ أُولٰئکَ عَلٰی ہُدًی مِّنْ رَّبِّہِمْ وَأُولٰئکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۔‘‘ (البقرۃ:۲-۵)
’’ راہ بتلاتی ہے ڈرنے والوں کوجو کہ یقین کرتے ہیں بے دیکھی چیزوں کا، اور قائم رکھتے ہیں نماز کو، اور جو ہم نے روزی دی ہے ان کو اس میں سے خرچ کرتے ہیں،وہی لوگ ہیں ہدایت پر اپنے پروردگار کی طرف سے، اور وہی ہیں مراد کو پہنچنے والے۔‘‘
ان آیاتِ کریمہ میں متقین کی صفات میں دوچیزوں کا تذکرہ ہے :۱:… ایمان،۲:… اعمالِ صالحہ، یعنی اقامتِ صلوۃ وایتاء زکوٰۃ ،اور آخر میں فرمایا: ’’ اُولٰئِکَ عَلٰی ھُدًی‘‘ معلوم ہوا کہ ایمان اور عمل صالح دونوں کا مجموعہ ’’ھُدٰی‘‘ ہے، اور سابقہ انبیاء علیہم السلام کی اسی ’’ھُدٰی‘‘ کی اقتداء اور پیروی کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہے۔

دوسری آیت کریمہ اور طریقۂ استدلال

’’ثُمَّ أَوْحَیْنَا إِلَیْکَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّۃَ إِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفاً وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ۔‘‘(النحل: ۱۲۳)
’’ پھر حکم بھیجا ہم نے تجھ کو کہ چل دین ابراہیم پر جو ایک طرف کا تھا، نہ تھا وہ شرک والوں میں۔‘‘
 اس آیت کریمہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صیغۂ امر کے ساتھ ’’ملتِ ابراہیمی‘‘ کی پیروی کا حکم دیاگیا ہے، اور صیغۂ امر وجوب کے لیے آتا ہے، پس معلوم ہوا کہ آپ پر ملتِ ابراہیمی کی پیروی واجب ہے، جو شریعتِ سابقہ ہے۔

 تیسری آیتِ کریمہ اور طریقۂ استدلال
؎

’’إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْرَاۃَ فِیْہَا ہُدیً وَّنُورٌ یَّحْکُمُ بِہَا النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ أَسْلَمُوْا لِلَّذِیْنَ ہَادُوْا وَالرَّبَّانِیُّوْنَ وَالْأَحْبَارُ۔‘‘ (المائدۃ: ۴۴)
’’ ہم نے نازل کی تورات کہ اس میں ہدایت اور روشنی ہے، اس پر حکم کرتے تھے پیغمبر جو کہ حکم بردار تھے اللہ کے یہود کو، اور حکم کرتے تھے درویش اور عالم ۔‘‘
 اس آیتِ کریمہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام تورات کے ذریعے فیصلے کرتے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی من جملہ انبیاء میں سے ہیں، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرتورات کے احکام کے مطابق فیصلے کرنا واجب ہے۔

چوتھی آیتِ کریمہ اور طریقۂ استدلال

’’شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّینِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِی أَوْحَیْنَا إِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٖ إِبْرَاہِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسَی أَنْ أَقِیْمُوْا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ کَبُرَ عَلٰی الْمُشْرِکِیْنَ مَا تَدْعُوْہُمْ إِلَیْہِ اَللّٰہُ یَجْتَبِیْ إِلَیْہِ مَنْ یَّشَائُ وَیَہْدِیْ إِلَیْہِ مَنْ یُّنِیْبُ ۔‘‘ (الشوریٰ: ۱۳ )

 

 

’’ راہ ڈال دی تمہارے لیے دین میں وہی جس کا حکم کیا تھا نوح کو اور جس کا حکم بھیجا ہم نے تیری طرف اور جس کا حکم کیا ہم نے ابراہیم کو اور موسیٰ کو اور عیسیٰ کو، یہ کہ قائم رکھو دین کو اور اختلاف نہ ڈالو اس میں، بھاری ہے شرک کرنے والوں کو وہ چیز جس کی طرف تو اُن کو بلاتا ہے، اللہ چن لیتا ہے اپنی طرف سے جس کو چاہے اور راہ دیتا ہے اپنی طرف اس کو جو رجوع لائے۔‘‘

 اس آیتِ کریمہ میں بتایا گیا ہے کہ اُمتِ محمدیہ کے لیے اس دین کی راہ ڈال دی ہے ،جس کا نوح علیہ السلام،محمد،ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام کو حکم کیا تھا۔ گویا ان سب کادین ایک ہے، اور ’’دین‘‘ ایمان وشرائع کے مجموعے کا نام ہے، پس ان تمام انبیاء علیہم السلام کادین اورشریعت ایک ہے، جس کی بجاآوری کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی جاتی ہے۔ (۳)

پانچویں آیتِ کریمہ اور طریقۂ استدلال

’’أٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَیْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ کُلٌّ آمَنَ بِاللّٰہِ وَمَلَائِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ أَحَدٍ مِنْ رُّسُلِہٖ۔‘‘ (البقرۃ: ۲۸۵)
’’ مان لیا رسول نے جو کچھ اترا اس پر اس کے رب کی طرف سے اور مسلمانوں نے بھی سب نے مانا اللہ کو اور اس کے فرشتوں کو اور اس کی کتابوں کو اور اس کے رسولوں کو کہتے ہیں کہ ہم جدا نہیں کرتے کسی کو اس کے پیغمبروں میں سے۔‘‘
 علامہ سرخسی پہلے قول والوں کاآیت کریمہ سے استدلال نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ نئے رسول کے آنے سیپچھلے رسول کی رسالت ختم نہیں ہوتی ، اسی طرح ان کی شریعت بھی قابل عمل ہی رہے گی، جب تک کسی حکم کے منسوخ ہونے پر کوئی دلیل قائم نہ ہو،کیا دیکھتے نہیں ہوکہ ہمارے اوپر تمام انبیاء کی رسالت کااقرار لازم ہے ،جس کی طرف اس آیت کریمہ میں اشارہ واقع ہوا ہے :’’وَالْمُؤْمِنُونَ کُلٌّ آمَنَ‘‘۔(۴)
 

نقلی دلائل مشتمل براحادیث نبویہ
 

پہلی حدیث اور طریقۂ استدلال

’’عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَالَ: کَسَرَتِ الرُّبَیِّعُ وَہْیَ عَمَّۃُ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ثَنِیَّۃَ جَارِیَۃٍ مِنَ الأَنْصَارِ ، فَطَلَبَ القَوْمُ الْقِصَاصَ، فَأَتَوُا النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَأَمَرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْقِصَاصِ، فَقَالَ أَنَسُ بْنُ النَّضْرِ: عَمُّ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ: لاَ وَاللّٰہِ ، لاَ تُکْسَرُ سِنُّہَا یَا رَسُولَ اللّٰہِ ! فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: یَا أَنَسُ ! کِتَابُ اللّٰہِ القِصَاصُ فَرَضِیَ القَوْمُ وَقَبِلُوْا الْإِرْشَ۔‘‘(۵)
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرمایا: رُبَیَّع -انس بن مالک کی پھوپھی- نے ایک انصاری بچی کے سامنے والے دانت توڑدیے، ان لوگوں نے قصاص کا مطالبہ کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قصاص کا حکم دیا۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے چچا انس بن النضر رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں، بخدا!ربیع کے دانت نہیں توڑے جائیں گے، یا رسول اللہ! رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : انس ! اللہ کی کتاب کا حکم قصاص ہے، چنانچہ وہ لوگ راضی ہوئے اور دیت قبول کرلی۔‘‘
اس حدیث شریف کے مطابق جب حضرت أنس بن النضر رضی اللہ عنہ نے قسم کھا کر کہا کہ میری بہن ربیع کا دانت قصاص کے طور پرنہیں توڑا جائے گا، تو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا: اے أنس! کتاب اللہ کا حکم قصاص ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد ’’والسن بالسن ‘‘(المائدۃ:۴۵) والی آیت ہے، جبکہ اسی آیت کریمہ کے ابتدائی الفاظ ’’وکتبنا علیہم فیہا‘‘ میں صراحۃً اس کو تورات کا حکم قرار دیا گیا ہے، گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تورات والے حکم پر عملدرآمد کا عندیہ دیا، جو اس بات کی دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تورات والی شریعت کی پیروی کے پابندتھے۔ (۶)

دوسری حدیث اور طریقۂ استدلال

’’عَنِ ابْنِ الْمُسَیَّبِ، أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلّٰی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: ’’ مَنْ نَسِیَ صَلَاۃً فَلْیُصَلِّہَا إِذَا ذَکَرَہَا، فَإِنَّ اللّٰہَ یَقُولُ: (أَقِمِ الصَّلَاۃَ لِذِکْرِیْ۔‘‘ (طہ: ۱۴) (۷)
’’ابن المسیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو نماز پڑھنا بھول جائے، جب یاد آئے تو اس وقت پڑھے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’أَقِمِ الصَّلَاۃَ لِذِکْرِیْ‘‘۔۔۔۔’’ نماز قائم رکھ میری یادگاری کو۔‘‘
اس حدیث شریف میں یاد آنے پر بھولی ہوئی نما زکے پڑھنے کوضروری قرار دینے کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۂ طہٰ کی آیت کریمہ ’’أَقِمِ الصَّلَاۃَ لِذِکْرِی‘‘سے استدلال کیا ہے، جب کہ اس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو خطاب ہے، گویا شریعتِ موسویہ کے ایک حکم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دلیل کے طور پرپیش فرمایا ، جو اس بات کی دلیل ہے کہ وہ شریعت ہمارے لیے بھی شریعت ہے، ورنہ اس کے ایک حکم کو دلیل کے طور پر پیش کرنے کا مطلب نہیں رہے گا۔

تیسری حدیث اور طریقۂ استدلال

’’عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّہُ قَالَ: إِنَّ الْیَہُودَ جَاء ُوا إِلَی النَّبِیِّ ، فَذَکَرُوا لَہُ أَنَّ رَجُلًا مِنْہُمْ وَامْرَأَۃً زَنَیَا، فَقَالَ لَہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ : مَا تَجِدُونَ فِی التَّوْرَاۃِ فِی شَأْنِ الزِّنَا؟ فَقَالُوا: نَفْضَحُہُمْ وَیُجْلَدُونَ، فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ سَلَامٍ: کَذَبْتُمْ، إِنَّ فِیہَا الرَّجْمَ، فَأَتَوْا بِالتَّوْرَاۃِ، فَنَشَرُوہَا فَجَعَلَ أَحَدُہُمْ یَدَہُ عَلَی آیَۃِ الرَّجْمِ، ثُمَّ جَعَلَ یَقْرَأُ مَا قَبْلَہَا وَمَا بَعْدَہَا، فَقَالَ لَہُ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ سَلَامٍ: ارْفَعْ یَدَیْکَ، فَرَفَعَہَا فَإِذَا فِیہَا آیَۃُ الرَّجْمِ، فَقَالُوا: صَدَقَ یَا مُحَمَّدُ، فِیہَا آیَۃُ الرَّجْمِ،، فَأَمَرَ بِہِمَا رَسُولُ اللّٰہِ فَرُجِمَا، قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بنُ عُمَرَ: فَرَأَیْتُ الرَّجُلَ یَحْنِی عَلَی الْمَرْأَۃِ یَقِیہَا الْحِجَارَۃَ۔‘‘(۸)
’’ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، فرمایا: یہود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بتایا کہ ان میں سے ایک مرد اور ایک خاتون نے بدکاری کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا : بدکاری کے متعلق تورات میں کیا حکم ہے؟کہنے لگے : ہم ان کو ذلیل کرتے ہیں اور ان کو کوڑے لگائے جاتے ہیں۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے کہا: تم لوگوں نے جھوٹ بولا، تورات میں رجم کا حکم ہے، پس وہ تورات لے آئے،اس کو کھولا، ان میں سے ایک صاحب نے رجم والی آیت پر ہاتھ رکھا، اور اس سے آگے پیچھے پڑھنے لگے۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے اس شخص سے کہا : ہاتھ اٹھاؤ، چنانچہ جب ہاتھ اٹھایا تو وہاں رجم والی آیت موجود تھی۔ یہودی کہنے لگے: اے محمد! اس(عبداللہ) نے سچ کہا، اس میں رجم والی آیت ہے، چنانچہ آپ کے حکم سے وہ دونوں سنگسار(رجم) کیے گئے۔ ابن عمر فرماتے ہیں : میں نے دیکھا وہ مرداس عورت کو پتھروں سے بچانے کے لیے اس کے اوپر جھک رہا تھا۔‘‘
یہودیوں کی بد کاری کے اس قضیے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تورات منگوائی ،اور تورات میں موجود رجم کے حکم کے مطابق ان یہودیوں کو رجم کرنے کے احکام جاری فرمائے، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ پچھلی شریعتیں اب بھی حجت ہیں۔ (۹)
 

عقلی دلیل

صاحب کشف الاسرار رقم طرازہیں: 
’’أَنَّ الرَّسُولَ الَّذِی کَانَتِ الشَّرِیعَۃُ مَنْسُوبَۃً إلَیْہِ لَمْ یَخْرُجْ مِنْ أَنْ یَّکُوْنَ رَسُوْلًا بِبَعْثِ رَسُوْلٍ آخَرَ بَعْدَہٗ فَکَذَا شَرِیْعَتُہٗ لَا یَخْرُجُ مِنْ أَنْ یَّکُونَ مَعْمُوْلًا بِہَا بِبَعْثِ رَسُولٍ آخَرَ مَا لَمْ یَقُمْ دَلِیلُ النَّسْخِ فِیْہَا۔ ‘‘(۱۰)
 ’’وہ رسول جس کی طرف شریعت منسوب ہوتی ہے، نئے رسول کی بعثت کی وجہ سے رسول ہونے سے نہیں نکلتے، اسی طرح ان کی طرف منسوب شریعت دوسرے رسول کی بعثت کی وجہ سے معمول بہا ہونے سے نہیں نکلتی، جب تک نسخ کی دلیل قائم نہ ہو۔‘‘
 اس دلیل کی وضاحت یہ ہے کہ رسول کی طرف شریعت کی نسبت اس شریعت کی حقانیت اور عنداللہ پسندیدہ ہونے کی دلیل ہے۔ رسول کواس لیے مبعوث کیا جاتا ہے کہ وہ لوگوں کو اس شریعت کا عنداللہ پسندیدہ ومقبول ہونا بتلائے، پس جب کسی رسول کی بعثت کی ذریعے اس پر نازل کی گئی شریعت کا پسندیدہ ومقبول ہو نا معلوم ہوجائے، تو دوسرے رسول کی بعثت سے اس شریعت کی پسندیدگی وقبولیت ختم نہیں ہوتی، بلکہ وہ حسب سابق عنداللہ پسندیدہ ومقبول رہتی ہے ، اسی طرح وہ شریعت غیر منسوخ اورقابل عمل بھی رہے گی ،جس طرح دوسرے رسول کی آمد سے پہلے غیر منسوخ وقابل عمل تھی، بلکہ دوسرے رسول کی آمد وبعثت سے اس کی حقانیت کی مزید تائید ہوگی۔ حسبِ ذیل آیاتِ قرآنیہ سے اس کی طرف اشارہ ملتا ہے: 
’’وَأَنْزَلْنَا إِلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْکِتَابِ وَمُہَیْمِنًا عَلَیْہِ۔‘‘ (المائدۃ: ۴۸)
 ’’اور تجھ پر اتاری ہم نے کتاب سچی، تصدیق کرنے والی سابقہ کتابوں کی اور ان کے مضامین پر نگہبان۔‘‘
بلا امتیاز تمام انبیاء ورسل کو ماننا اور قرآن مجید کا کتب سابقہ کی تصدیق کرنا اسی بات کا متقاضی ہے کہ پچھلی شریعتیں اب بھی عنداللہ پسندیدہ، غیر منسوخ اور قابل عمل ہیں، اس سے حسب ذیل نتیجہ ہی أخذ ہوتا ہے: 
’’أَنَّ الْأَصْلَ فِی شَرَائِعِ الرُّسُلِ-عَلَیْہِمْ السَّلَامُ - الْمُوَافَقَۃُ إلَّا إذَا ظَہَرَ تَغْیِیرُ حُکْمٍ بِدَلِیلِ النَّسْخِ۔‘‘ (۱۱)
 ’’انبیاء کی شریعتیں اصالۃ باہم موافق ومطابق ہیں ، الا یہ کہ دلیل شرعی کے ذریعے سے کسی حکم کا منسوخ ہونا معلوم ہو جائے۔‘‘
اس مضمون کو حسب ذیل اسلوب وانداز میں بھی بیان کیاگیا ہے: 
’’یعنی انبیاء سابقین کی طرف جس شریعت کی نسبت ہوتی ہے، وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کی شریعت ہے، ان انبیاء کی شریعت نہیں،جو ہم سے پہلے گزرے ہیں، اس لیے کہ ارشاد خداوندی: (شرع لکم من الدین) کے بموجب اللہ تعالیٰ ہی شرائع واحکام کے شارع ہیں، اس لیے کہ اس آیت میں اللہ نے شریعت کی نسبت اپنی طرف فرمائی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی شریعت کی طرف دعوت دینا اور بندوں کو اس کی تبلیغ کرنا ہر نبی پرواجب ہے، الایہ کی کسی حکم کا منسوخ ہونا ثابت ہو جائے، جس کے ذریعے اس بات کا علم حاصل ہو جائے کہ زمانے کی تبدیلی کی وجہ سے مصلحت تبدیل ہو گئی۔ اور جب تک نسخ اور تبدل مصلحت ثابت نہ ہو، تو محض رسول کی وفات کی وجہ سے شریعت کا اختتام پذیر ہونا جائز نہیں ہوگا، ورنہ اللہ تعالیٰ کی طرف تنا قض کی نسبت لازم آئے گی۔‘‘(۱۲)
ان تمام نقلی اورعقلی دلائل سے یہ بات ثابت ہوئی کہ شرائع سماویہ میں أصل استمرار وبقاء ہے، اسی لیے ناسخ صریح کے ظہور تک ہمارے اوپر’’شَرَائِعُ مَنْ قَبْلَنَا‘‘ کی اتباع واجب ہے ،لیکن جمہور أصولیین کایہ مسلک نہیں ،ان کی نظرمیں متذکرہ بالا تمام استدلالات محل نظر ہیں۔امام غزالیؒ نے ایک ایک استدلال کاجواب دیا ہے۔

حواشی

۱:…أصول البزدوی،ج:۳،ص:۲۱۲۔            ۲:…أصول السرخسی ـ،ج:۲،ص:۱۰۰۔
۳:…دیکھئے کشف الاسرار ،ج:۳،ص:۲۱۳۔        ۴:…دیکھئے أصول سرخسی،ج:۲،ص:۱۰۰۔
۵:…صحیح البخاری، باب قولہ:(والجروح قصاص)رقم:۴۶۱۱۔    ۶:…دیکھیے، المستصفیٰ لأبی حامد الغزالی، ج:۱،ص:۱۶۸۔
۷:…المصنف لعبد الرزاق ، رقم:۲۲۴۵،،ج:۲،ص:۳۔    ۸:…سنن أبی داود،باب فی رجم الیہودیّین،رقم:۴۴۴۶۔
۹:…المستصفیٰ لأبی حامدالغزالی،ج:۱،ص:۱۶۸۔        ۱۰:…کشف الأسرار شرح أصول البزدوی،ج:۳،ص: ۲۱۳۔
۱۱:…ایضاً۔                ۱۲:…کشف الأسرار شرح أصول البزدوی،ج:۳،ص:۲۱۴۔                                                                                                                                                                                                                             (جاری ہے)

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین