بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

’شرائع من قبلنا‘‘ اور اُن کا حکم (آٹھویں قسط)

’شرائع من قبلنا‘‘ اور اُن کا حکم

 

(آٹھویں قسط)


چوتھا مسلک، وضاحت اور دلائل

’’ثبوتِ شرعی کی بنیاد پر اپنے نبی کی شریعت کی حیثیت سے اتباع لازم ہے۔‘‘
تیسرا اور چوتھا مسلک ایک حیثیت سے مشترک ہیں اور ایک حیثیت سے مختلف۔ اشتراک اس حیثیت سے ہے کہ ’’شرائع من قبلنا‘‘ کی پیروی ہم پر واجب ہے، لیکن اس حیثیت سے کہ وہ ہمارے نبی کی شریعت بن گئی ہے۔ فرق اس حوالے سے ہے کہ تیسرے مسلک کے مطابق ’’شرائع من قبلنا‘‘ ہمارے لیے مطلقاًواجب التعمیل ہیں۔ کسی بھی ذریعے سے معلوم ہوجائے کہ یہ حکم پچھلی شریعتوں کا ہے، ہم اس کی پیروی کے پابند ہیں، الایہ کہ وہ حکم منسوخ ہوجائے۔ جبکہ چوتھے مسلک کے مطابق ہم اس وقت اس کی پیروی کے پابند ہیں، جب معتبر شرعی طریقے سے ثابت ہوجائے کہ یہ حکم شرائع سابقہ کا حکم ہے۔ امام غزالی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’والصّحیح عندنا أنّ ما قصّ اللّٰہ تعالٰی منہا علینا من غیر إنکارٍ أو قصّہٗ رسولُ اللّٰہ - صلّٰی اللّٰہ علیہ وسلّم - من غیر إنکارٍ فإنّہٗ یلزمنا علٰی أنّہٗ شریعۃ رسولنا -علیہ السّلام-۔‘‘ (۱)
’’ہمارے نزدیک صحیح قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو پچھلی شریعت کے احکام انکار کے بغیر ہمارے سامنے بیان فرمائے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کے بغیر بیان فرمائے، تو ہمارے اوپر اس حیثیت سے ان کی پیروی لازم ہے کہ وہ ہمارے رسول رحمہ اللہ کی شریعت ہے۔‘‘
با لفاظِ دیگر کسی دلیلِ شرعی (آیتِ قرآنیہ یا حدیثِ نبویہ) سے جن احکام کا شرائعِ سماویہ سابقہ میں سے ہونا ثابت ہو، تو ناسخ صریح کے ظہور تک اس کی اتباع ہم پر لازم ہوگی، لیکن اس حیثیت سے کہ وہ ہمارے نبی کی شریعت بن گئی ہے۔ پس جس حکم کاکتاب اللہ یا سنت رسول اللہ سے حکمِ شرعی ہونا بغیر انکار وبغیر دلیلِ نسخ کے ثابت ہو جائے تو صرف وہی ہمارے لیے حکم شرعی ہوگا۔ ظاہر ہے کہ جب اس کا حکم شرعی ہونا ہماری کتاب (قرآن مجید) اور ہماری سنت وحدیث پر منحصر ہے، تو ہمارے لیے ہماری ہی شریعت کے ایک حکم ہونے کی حیثیت سے واجب الاتباع اور لازم العمل ہے۔ اور یہی اکثر مشائخ و ائمہ احناف کا مسلک ہے، جن میں ابو منصورؒ، قاضی امام ابوزیدؒ، شیخینؒ اور اکثر متاخرین کے نام نمایاں ہیں۔ صاحبِ کشف الاسرار لکھتے ہیں:
’’ذہب أکثرُ مشایخنا منہم الشّیخ أبو منصور والقاضی الإمام أبو زید والشّیخان وعامّۃ المتأخّرین - رحمہم اللّٰہ - إلٰی أنّ ما ثبت بکتاب اللّٰہ تعالٰی أنّہٗ کان من شریعۃ من قبلنا أو ببیان من رسول اللّٰہ - صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم - یلزمنا العمل بہٖ علٰی أنّہٗ شریعۃ نبیّنا ما لم یظہر ناسخہٗ۔‘‘(۲)
’’ہمارے اکثر مشائخ، جن میں ابو منصورؒ، قاضی امام ابوزیدؒ،شیخینؒ اور اکثر متاخرین کے نام نمایاں ہیں، نے یہ مذہب اختیار کیا ہے کہ کتاب اللہ یاسنت رسول سے جس حکم کا شرائع سابقہ میں سے ہوناثابت ہو جائے،توناسخ ظاہر ہونے تک اس حیثیت سے اس پرعمل کرنا ہمارے اوپر لازم ہے کہ وہ ہمارے نبی کی شریعت ہے۔‘‘

چوتھے مسلک کے دلائل 

چوتھاموقف ، یعنی: ’’ثبوتِ شرعی کی بنیاد پر شرائع سابقہ پر عمل کرنا لازم ہے، لیکن شریعتِ محمدیہ کی حیثیت سے‘‘کی بنیاد حسبِ ذیل آیاتِ کریمہ اور احادیثِ نبویہ ہیں:

قرآن مجید کی پہلی دلیل

’’وَإِذْ أَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ النَّبِیِّیْنَ لَمَا أٰتَیْتُکُمْ مِّنْ کِتَابٍ وَّحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَائَ کُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ۔‘‘ (آل عمران: ۸۱)
’’ اور جب لیا اللہ نے عہد نبیوں سے کہ جو کچھ میں نے تم کو دیا کتاب اور علم، پھر آوے تمہارے پاس کوئی رسول کہ سچا بتا دے تمہارے پاس والی کتاب کو تو اس رسول پر ایمان لاؤ گے۔‘‘

استدلال کا خلاصہ

علامہ عثمانی رحمہ اللہ آیتِ کریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’اس آیت کریمہ میں بتایا گیا کہ حق تعالیٰ نے خود پیغمبروں سے بھی یہ پختہ عہد لے چھوڑا ہے کہ جب تم میں سے کسی نبی کے بعد دوسرانبی آئے تو ضروری ہے کہ پہلا نبی پچھلے کی صداقت پر ایمان لائے اوراس کی مدد کرے۔اگر اس کا زمانہ پایا تو بذاتِ خود بھی اور نہ پائے تو اپنی اُمت کوپوری طرح ہدایت وتاکید کر جائے کہ بعد میں آنے والے پیغمبر پر ایمان لاکر اس کی اعانت ونصرت کرنا کہ یہ وصیت کرجانابھی اس کی مدد کرنے میں داخل ہے۔ اس عام قاعدہ سے روزِ روشن کی طرح ظاہر ہے کہ خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لانے اور ان کی مددکرنے کا عہد بلااستثناء تمام انبیاء سابقین سے لیاگیا ہوگا ،اور انہوں نے اپنی اپنی امتوں سے یہی قول وقرار لیے ہوںگے۔ حضرت علی وابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ سے منقول ہے کہ اس قسم کاعہد انبیائ علیہم السلام سے لیاگیا۔‘‘ (۳) 
شمس الائمۃبزدوی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں: 
’’یہ آیتِ کریمہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ شرائع میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمام شریعتوں اور تمام انبیاء کرام علیہم السلام کے لیے اصل اور متبوع ہیں اور تمام شرائع واصحاب الشرائع انبیاء کرام علیہم السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ہیں، وجوبِ اتباع کی حیثیت سے تمام انبیاء کرام علیہم السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بمنزلہ اُمتی کے ہیں۔ اگلے پچھلے خلائق کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بمنزلہ رأس وقلب کے ہیں، اور سب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حیثیت ثابت ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شرائع سابقہ کی پیروی کا پابند ٹھہرانا اس بات کو مستلزم ہے کہ آپ انبیاء سابقین علیہم الصلوۃ والسلام کے تابع ہوں، متبوع نہ ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی اُمت کے افراد میں سے ایک فرد اور اُمتی ہوں، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی نہ ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام ان کے مقام سے کمتر ہو، افضل نہ ہو،(نعوذباللہ!) جبکہ ان باتوں کا کوئی بھی قائل نہیں، اس لیے کہ ان کو صحیح ماننے سے لازم آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو متبوعیت کے اعلیٰ مقام سے تابعیت کے ادنیٰ مقام پر لایا جائے،اور داعیِ انسانیت کے مقامِ بلند سے مدعویت کے فروتر مقام کی طرف لایا جائے جو صحیح اور درست نہیں۔‘‘(۴)

اشکال

اس تشریحی وتوضیحی نظریئے پر یہ اعتراض وارد ہوسکتا ہے کہ انبیاء سابقین علیہم السلام سب کے سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے گزرے ہیں، تو بعد میںآنے والے گزرے ہوئے لوگوں کے لیے کیسے اصل اورمتبوع بن سکتے ہیں؟

جواب

کسی کا زمانے کے لحاظ سے پہلے ہونا اس کے تابع ہونے سے مانع نہیں، جس طرح کسی کا زمانے کے لحاظ سے بعد میں ہونا اس کے متبوع ہونے سے مانع نہیں۔ تقدمِ زمانی کے باوجود تابع بننے کی نظیر نمازِ ظہر کی سنتیں ہیں، جو فرائض سے پہلے پڑھی جاتی ہیں اور فرائض بعد میں ادا کیے جاتے ہیں، اس کے باوجود سنتیں تابع ہیں، اور فرائض اصل اور متبوع، اس لیے تمام انبیاء کرام علیہم السلام تقدمِ زمانی کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ہیں۔صاحب کشف الاسرار نے اس نظریئے کو محسوس مثال کے ذریعے ایک اور تعبیر اور دوسرے زوایے سے سمجھایا ہے، فرماتے ہیں:
’’فإنّ المقصود من فطرۃ الخلق إدراکہم سعادۃ القرب من الحضرۃ الإلٰہیّۃ ولایمکن ذٰلک إلّا بتعریف الأنبیاء - علیہم السّلام - فکانت النُّبوّۃ مقصودۃ بالإیجاب والمقصود کمالہا لا أوّلہا، وإنّما یکمل بحسب سنّۃ اللّٰہ جلّ جلالہٗ بالتّدریج فتمہّد أصل النّبوّۃ بآدم ولم یزل تنمو وتکمل حتّی بلغت الکمال بمحمّد - صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم - فکان تمہید أوائلہا وسیلۃ إلی الکمال کتأسیس البناء ، وتمہید أصول الحیطان وسیلۃ إلی کمال صورۃ الدّار الّتی ہی غرض المہندسین ولہٰذا کان خاتم النّبیّین، فإنّ الزّیادۃ علی الکمال نقصان، فثبت أنّہٗ ہو الأصل فی النّبوّۃ والشّریعۃ، وغیرہٗ بمنزلۃ التّابع لہٗ۔‘‘(۵)
’’مخلو ق کو پیدا کرنے کا مقصدیہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں تقرب حاصل کرنے کی سعادت سے سرفراز ہو جائیں، اور یہ مقام انبیاء کرام علیہم السلام کی تعلیمات سے بہرہ ور ہونے کے بغیر ممکن نہیں۔ پس مقصدِ تخلیق پورا کرنے کے واسطے نبوت بھی مقصود ٹھہری، لیکن محض نبوت نہیں، بلکہ کمالِ نبوت، جو سنۃاللہ اور عادتِ خداوندی کے مطابق تدریجاً کمال تک پہنچی۔ گویا نبوتِ آدم تمہید تھی، جو مسلسل بڑھتی اور مراحلِ کمال طے کرتی رہی، یہاں تک کہ نبوتِ محمدیہ کے ساتھ کمال کے آخری مرتبے تک پہنچ گئی، پس ابتدائی نبوتیں کمالِ نبوت تک پہنچنے کا وسیلہ اور ذریعہ تھیں، جیسے: عمارت کی بنیادیں اور باغ کے اندر درختوں کی جڑیں عمارت اورباغ کی آخری اورکامل ومکمل شکل کے لیے وسیلہ اور ذریعہ ہوتی ہیں، جو انجینئرز اورباغبان کے ذہن میں موجود ہوتی ہیں، جس کے بعد کمال کا کوئی درجہ نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین بنایا گیا، اس لیے کہ کمال تک پہنچنے کے بعد اضافہ نقصان سمجھا جاتا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ نبوت وشریعت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اصل ہیں، اور دیگر نبوتیں تابع ہیں۔‘‘
 یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت تمام انسانیت کے لیے ہے، جس پر کئی نصوص دلالت کررہی ہیں، جوآگے بیان ہوں گی۔

قرآن مجید کی دوسری دلیل

’’وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا کَافَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا وَّلٰکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَایَعْلَمُوْنَ۔‘‘ (السبأ:۲۸)
’’اور تجھ کو جو ہم نے بھیجا سو سارے لوگوں کے واسطے خوشی اور ڈر سنانے کو، لیکن بہت لوگ نہیں سمجھتے۔‘‘

استدلال کاخلاصہ

اس آیتِ کریمہ کا مفہوم یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اگلے پچھلے تمام انسانوں کے لیے نبی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدآنے والے انسانوں کے لیے واجب الاتباع ہے، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے گزرنے والوں کے لیے بایں معنی واجب الاتباع ہے کہ اگر ان میں سے کوئی دنیا میں آئے گا تو شریعتِ محمدیہ( علی صاحبہا الصلوۃ والسلام ) کی پیروی کا پابند ہوگا۔ صاحب کشف الأسرارلکھتے ہیں:
’’أنّہٗ مبعوث إلٰی جمیع النّاس حتّی وجب علی المتقدّمین والمتأخّرین اتّباع شریعتہٖ فکأن الکلّ تابعاً لہٗ۔‘‘ (۶)
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں کی طرف مبعوث تھے، یہاں تک کہ اگلے پچھلوں سب پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کی پیروی واجب تھی ،پس سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع تھے۔‘‘

آیتِ کریمہ کی تفسیر میں مفسرین کے اقوال

 

حافظ ابن کثیرؒ

’’یقول تعالٰی لعبدہٖ ورسولہٖ محمّد، صلوات اللّٰہ وسلامہٗ علیہ ’’وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا کَافَّۃً لِّلنَّاسِ‘‘ أی: إلّا إلٰی جمیع الخلق من المکلّفین، کقولہٖ تعالٰی ’’قُلْ یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ إِلَیْکُمْ جَمِیْعًا۔‘‘ (الأعراف:۱۵۸) ’’تَبَارَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعَالَمِیْنَ نَذِیْرًا‘‘ (الفرقان:۱) قال محمّد بن کعب فی قولہٖ: ’’وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا کَافَّۃً لِّلنَّاسِ‘‘ یعنی: إلی النّاس عامّۃ۔ وقال قتادۃ فی ہذہ الآیۃ: أرسل اللّٰہ محمّدًا صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم إلی العرب والعجم۔- عن عکرمۃ قال: سمعتُ ابنَ عبّاسؓ یقول: إن اللّٰہ فضّل محمّدًا صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم علٰی أہل السّماء وعلی الأنبیائ۔ قالوا: یا ابن عبّاس! فیم فضّلہ اللّٰہ علی الأنبیاء ؟ قال: إنّ اللّٰہ قال:’’وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ لِیُبَیِّنَ لَہُمْ‘‘ ، وقال للنّبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم: ’’وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا کَافَّۃً لِّلنَّاسِ‘‘، فأرسلہ اللّٰہ إلی الجنّ والإنس۔ وہذا الّذی قالہ ابن عبّاسؓ قد ثبت فی الصّحیحین رفعہٗ عن جابرؓ قال: قال رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم: ’’أعطیتُ خمسًا لم یعطہنّ أحد من الأنبیاء قبلی ، وکان النّبیّ یبعث إلی قومہٖ ، وبعثت إلی النّاس عامّۃ ۔‘‘ وفی الصّحیح أیضًا أنّ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم قال: ’’بعثتُ إلی الأسود والأحمر‘‘ قال مجاہد: یعنی: الجنّ والإنس۔ وقال غیرہٗ: یعنی: العرب والعجم۔ والکلّ صحیح۔‘‘ (۷)
’’اللہ تعالیٰ اپنے بندے اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ارشاد فرماتے ہیں: ’’وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا کَافَّۃً لِّلنَّاسِ‘‘۔۔۔۔۔ ’’ہم نے آپ کومخلوق میں سے تمام مکلفین کی طرف مبعوث فرمایا‘‘ جیسے ارشاد فرمایا : ’’قُلْ یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ إِلَیْکُمْ جَمِیْعًا۔‘‘ (الأعراف:۱۵۸)
’’توکہہ اے لوگو! میں رسول ہوں اللہ کا تم سب کی طرف ‘‘۔۔۔۔۔۔ ’’تَبَارَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعَالَمِیْنَ نَذِیْرًا‘‘ (الفرقان:۱) ’’بڑی برکت ہے اس کی جس نے اُتاری فیصلہ کی کتاب اپنے بندہ پر، تاکہ رہے جہان والوں کے لیے ڈرانے والا۔ ‘‘محمد بن کعب سورہ سبأ کی آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ’’یعنی تمام لوگوں کی طرف۔‘‘قتادہؒ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو عرب وعجم کی طرف مبعوث فرمایا۔ عکرمہؒ سے روایت ہے،فرمایا: میں نے ابن عباسؓ کو سنا، فرما رہے تھے: اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمان والوں اور انبیاء کرام علیہم السلام پربرتری دی۔ شاگردوں نے دریافت کیا: انبیاء پر کس حوالے سے فضیلت دی؟ فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ لِیُبَیِّنَ لَہُمْ‘‘ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا : ’’وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا کَافَّۃً لِّلنَّاسِ‘‘پس اللہ نے آپ کو جن وانس کی طرف بھیجا ہے۔ ابن عباسؓ نے جو ارشاد فرمایا، صحیحین میں حضرت جابرؓ کی مرفوع حدیث میں ثابت ہے، فرمایا: رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مجھے پانچ خصوصیتوں سے نوازا گیا جو مجھ سے پہلے انبیاء کرام علیہم السلام کو نہیں دی گئی تھیں۔ ان میں ایک خصوصیت یہ ہے کہ ہرنبی صرف اپنی قوم کی طرف مبعوث ہوتا تھا اور مجھے تمام لوگوںکی طرف مبعوث کیاگیا ہے۔ حدیث صحیح میں بھی فرمایا : مجھے کالے اور گورے کی طرف بھیجا گیاہے۔ مجاہدؒ نے معنی بیان کیا کہ جن وانس کی طرف۔ بعض نے کہا: عرب وعجم کی طرف۔ دونوں باتیں درست ہیں۔‘‘

علامۃ آلوسی رحمہ اللہ 

’’والآیۃ علیہ أظہر فی الاستدلال علی عموم رسالتہٖ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وہی فی ذٰلک کقولہٖ تعالٰی:’’قُلْ یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ إِلَیْکُمْ جَمِیْعًا۔‘‘ (۸)
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے عموم پر استدلال کرنے میں آیتِ کریمہ بالکل واضح اورصریح ہے اور اس پر دلالت کرنے میں یہ سورۂ اعراف کی’’قل یا أیھا الناس‘‘ جیسی ہے۔‘‘

علامہ ابن عاشور رحمہ اللہ 

’’وفی ہذہ الآیۃ إثبات رسالۃ محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم علٰی منکریہا من العرب وإثبات عمومہا علٰی منکریہا من الیہود۔‘‘ (۹)
’’ اس آیت کریمہ میں عرب منکرین رسالت کے مؤقف کے خلاف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اثبات ہے اور عموم رسالت کے یہودی منکرین کے خلاف رسالت محمدیہ کے عموم کا اثبات ہے۔‘‘

احادیثِ نبویہ سے استدلالِ مذکور کی تائید
 

آیت کریمہ کی متذکرہ بالا تفسیر کی دلیل وہ احادیث نبویہ ہیں، جن میں یہ مذکورہے کہ بعثتِ محمدیہ کے بعد اگر سابقہ انبیاء علیہم السلام دنیا میں تشریف لائیں گے توشریعتِ محمدیہ علی صاحبہا الصلوۃ والسلام کی پابندی کریں گے، نہ کہ اپنی شریعت کی۔ احادیث ملاحظہ ہوں:
۱:-’’عن أبی ہریرۃ، أنّ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: کیف أنتم إذا نزل فیکم ابن مریم فأمّکم منکم؟ فقلت لابن أبی ذئب: إنّ الأوزاعیّ، حدّثنا عن الزّہریّ، عن نافع، عن أبی ہریرۃؓ، وإمامکم منکم قال ابن أبی ذئب: تدری ما أمّکم منکم؟ قلت: تخبرنی، قال: فأمّکم بکتاب ربّکم تبارک وتعالی، وسنّۃ نبیّکم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم۔‘‘(۱۰)
’’رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس وقت تمہارا کیا حال ہوگاجب ابن مریم ؑ تمہارے درمیان نزول فرمائیں گے اور تم میں سے کوئی شخص تمہاری امامت کرے گا؟! ولید بن مسلم کہتے ہیں: میں نے اپنے شیخ ابن ابی ذئب سے کہا کہ امام اوزاعیؒ نے ہمیں یہ حدیث یوں نقل کی ہے : ’’وإمامکم منکم‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’تمہارا امام تم میں سے ہوگا‘‘۔ فرمایا: جانتے ہو ’’أمّکم منکم‘‘ کا کیا مطلب ہے؟۔میں نے عرض کیا: آپ بتلا دیجئے۔فرمایا : تمہارے رب کی کتاب اور نبی کی سنت کے مطابق تمہاری امامت/پیشوائی کرے گا۔‘‘
روایت کا حاصل یہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے دوقسم کے الفاظ مروی ہیں: ۱:-’’وإمامکم منکم‘‘،۲ :-’’أمّکم منکم‘‘ پہلی قسم کے الفاظ کا معنی متعین ہے، یعنی عیسیٰ علیہ السلام کی موجودگی میں بھی امامت کا فریضہ اُمتِ محمدیہ ( علی صاحبہا الصلوۃ والسلام )ہی کاایک فردسرانجام دے گا، پھر امامت کے معنی میں دو احتمالات ہیں: ۱:-نماز کی امامت، ۲:- پیشوائی اور حاکمیت۔ لیکن حضرت جابرؓ کی روایت امامتِ صلوٰۃ کے معنی کو متعین کرتی ہے، جس کے الفاظ یہ ہیں: ’’فیقول أمیرہم: تعال صلّ لنا، فیقول: لا، إنّ بعضکم علی بعض أمراء تکرمۃ اللّٰہ ہٰذہ الأمّۃ‘‘ (۱۱) ۔۔۔۔۔۔۔ ’’مسلمانوں کے امیر کہیں گے: تشریف لائیے، ہمیں نماز پڑھا دیجیے۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے: نہیں،تم آپس میں ایک دوسرے کے امیر ہو۔ ‘‘ جبکہ دوسری قسم کے الفاظ ’’أمّکم منکم‘‘ میں معنی خاص (امامت نماز) اور معنی عام (پیشوائی) دونوں کا احتمال ہے۔ امامتِ نماز، جس کوحدیث جابرؓ نے تقریباً متعین کردیا ہے،اور معنی عام کوابن أبی ذئب نے ترجیح دی ہے۔ تاہم دونوں احتمالات پر ہمارا مدعا ثابت ہوتا ہے۔ پہلے احتمال میں تواس بات کی صراحت ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موجودگی میں اُمتِ محمدیہ ( علی صاحبہا الصلوۃ والسلام )کا ایک فرد امامت کرے گا، تاکہ اُمتِ محمدیہ ( علی صاحبہا الصلوۃ والسلام )کی عزت افزائی اوراکرام ہو۔ دوسرے احتمال میں اس بات کی صراحت ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قرآنی احکام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے ذریعے اس اُمت کی پیشوائی کریں گے۔اور یہی مقصود ثابت کرنا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد بحیثیت اُمتی ہوگی، نہ کہ بحیثیت نبی ورسول، وھوالمطلوب۔‘‘
۲:-’’عن ابن المسیّب أنّہ سمع أبا ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ، یقول: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم :والّذی نفسی بیدہٖ، لیوشکنّ أن ینزل فیکم ابن مریم حکمًا مقسطًا، فیکسر الصّلیب، ویقتل الخنزیر، ویضع الجزیۃ، ویفیض المال حتّی لایقبلہٗ أحد۔‘‘(۱۲)
’’ فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ عنقریب تم میں ابن مریم اُتریں گے، وہ منصف حاکم ہوں گے، صلیب توڑ یں گے اور سور کو مار ڈالیں گے اور جزیہ موقوف کریں گے اور مال کی اس قدر کثرت ہوگی کہ کوئی قبول کرنے والا نہ ہوگا۔‘‘
۳:-’’عن عبد الرّحمٰن بن یزید الأنصاریّ۔۔۔ یقول: سمعت عمّی مجمّع ابن جاریۃ الأنصاریّ یقول: سمعت رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم یقول: یقتل ابن مریم الدّجّال بباب لدّ۔‘‘ (۱۳)
 ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ابن مریم دجال کوباب لدّ کے پاس قتل کریں گے۔‘‘
ان دونوں احادیث میں یہ بات بتائی گئی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام حاکم عادل بن کرآئیں گے، دجال کے خلاف قتال کریں گے۔ اور یہ بات ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے حکمرانی کی اور نہ شریعتِ عیسویہ میں قتال وجہاد کا حکم تھا، اس لیے وہ بموجبِ حکمِ شریعتِ محمدیہ حکمرانی کریںگے اورقتال فرمائیں گے۔ اسی لیے امام نووی رحمہ اللہ نے نزولِ عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق احادیث کو عنوان دیا ہے: ’’باب نزول عیسی ابن مریم حاکمًا بشریعۃ نبیّنا محمّد صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم‘‘ اور حدیث کے الفاظ ’’حکمًا مقسطًا‘‘کی شرح میں فرمایا:
’’(حکماً) أی ینزل حاکماً بہٰذہ الشریعۃ لاینزل نبیاً برسالۃ مستقلّۃ وشریعۃ ناسخۃ بل ہو حاکم من حکّام ہٰذہ الأمّۃ۔ (۱۴)
’’اس شریعتِ(محمدیہ علی صاحبہا الصلوۃ والسلام ) کے مطابق فیصلے کرنے والے حاکم کی حیثیت سے تشریف لائیں گے، مستقل رسالت اورناسخِ شریعت نبی کی حیثیت سے تشریف نہیں لائیں گے، بلکہ اس اُمتِ(محمدیہ علی صاحبہا الصلوۃ والسلام ) کے حکام میں سے ایک حاکم (فیصلے کرنے والے) کی حیثیت سے تشریف لائیں گے۔‘‘
۴:-’’عن جابر رضی اللّٰہ عنہ: ’’ أنّ عمر بن الخطّاب أتی النّبیّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بکتاب أصابہ من بعض أہل الکتاب، فقال: یا رسول اللّٰہ! إنّی أصبت کتابًا حسنًا من بعض أہل الکتاب، قال: فغضب وقال: أمتہوّکون فیہا یا ابن الخطّاب؟! فوالّذی نفسی بیدہٖ لقد جئتکم بہا بیضاء نقیّۃ، لا تسألوہم عن شیء فیخبروکم بحقّ فتکذّبوا بہٖ، أو بباطل فتصدّقوا بہٖ، والّذی نفسی بیدہٖ لو کان موسٰی حیّا ما وسعہٗ إلّا أن یتّبعنی۔‘‘(۱۵)
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک کتاب لے کر حاضر ہوئے ،جو انہوں نے اہل کتاب سے حاصل کی تھی، کہنے لگے: یارسول اللہ ! میں نے اہل کتاب سے ایک اچھی کتاب حاصل کی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصے ہوئے اور فرمایا :خطاب کے بیٹے! کیاتمہیں شریعتِ محمدیہ میں تردد ہے؟! اس ذات کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے،تحقیق میں تمہارے پاس ایک صاف ستھری بے غبار شریعت لے کرآیا۔ ان یہود ونصاریٰ سے کچھ نہ پوچھو ،کہیں وہ تمہیں حق بات کی خبر دیں تو تم اس کو جھٹلانے لگو، یا پھر غلط خبر دے توتم اس کی تصدیق کرنے لگو۔ اس ذات کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، اگر موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے تو میری پیروی کے بغیر ان کے پاس کوئی اور راستہ نہ ہوتا۔‘‘
۵:- ’’عن جابر بن عبد اللّٰہ رضی اللّٰہ عنہما: قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم :’’ لا تسألوا أہل الکتاب عن شیء ، فإنّہم لن یہدوکم، وقد ضلّوا، فإنّکم إمّا أن تصدّقوا بباطل، أو تکذّبوا بحقّ، فإنّہٗ لو کان موسٰی حیًّا بین أظہرکم،ما حلّ لہ إلّا أن یتّبعنی۔‘‘ (۱۶)
’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اہل کتاب سے کچھ بھی نہ پوچھو، وہ ہر گز تمہاری راہ نمائی نہیں کریں گے،جبکہ وہ خود گمراہ ہوچکے ہیں۔ یا تو تم باطل باتوں کی تصدیق کربیٹھو گے، یا پھر حق باتوں کی تکذیب کے مرتکب ہو گے۔ اگر موسیٰ علیہ السلام بھی تمہارے درمیان زندہ ہوتے تو ان کے لیے بھی میری پیروی کے بغیر اور کوئی طریقہ جائز نہ ہوتا۔‘‘
۶:- ’’عن عبد اللّٰہ بن عبّاس رضی اللّٰہ عنہما قال: ’’ یا معشر المسلمین! کیف تسألون أہل الکتاب، وکتابکم الّذی أنزل علی نبیّہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم أحدث الأخبار باللّٰہ، تقرء ونہ لم یشب، وقد حدّثکم اللّٰہ أنّ أہل الکتاب بدّلوا ما کتب اللّٰہ وغیّروا بأیدیہم الکتاب، فقالوا: ہو من عند اللّٰہ لیشتروا بہ ثمنا قلیلا، أفلا ینہاکم ما جاء کم من العلم عن مسئلتہم، ولا واللّٰہ ! ما رأینا منہم رجلاً قطّ یسألکم عن الّذی أنزل علیکم۔‘‘ (۱۷)
’’ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:مسلمانو! تم اہل کتاب سے کیونکر پوچھتے ہو، جبکہ تمہاری وہ کتاب جو تمہارے نبی پر اُتاری گئی ہے، اللہ کے احکام پر مشتمل باعتبارِ نزول جدید ترین کتاب ہے -جس کو تم پڑھتے ہو- پرانی نہیں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں بتایا ہے کہ اہل کتاب نے اللہ کے لکھے ہوئے کو تبدیل کردیا ہے، اور اپنے ہاتھوں سے کتابِ الٰہی میں تبدیلیاں کی ہیں، اور کہنے لگے کہ: ہمارے ہاتھ کا لکھا ہوا اللہ کی طرف سے آیا ہے، تاکہ اس پر تھوڑاسامال لے لیں۔ کیا تمہارے پاس آنے والے علم(قرآن)نے تمہیں اہل کتاب سے پوچھنے سے منع نہیں کیا؟! بخدا ان اہل کتاب میں ہم نے کوئی شخص ایسا نہیں دیکھا، جو تمہارے اوپر نازل ہونے والی کتاب کے بارے میں تم سے پوچھتے ہوں۔‘‘
اس حدیث شریف سے جہاں یہ بات معلوم ہوئی کہ شریعتِ محمدیہ کے آنے کے بعد اب سابقہ شریعتوں کو نہ دیکھا جائے ، وہاں اس کی وجہ بھی بیان ہوئی کہ محرف ومبدل ہونے کی وجہ سے وہ اب قابل اعتبار نہیں رہیں۔ بہرحال! یہ بات ثابت ہوئی کہ شریعتِ محمدیہ اصل ہے اور دیگر شرائع اس کی تابع ہیں۔

قرآن مجید سے تیسری دلیل

’’ثمّ أورثنا الکتاب الّذین اصطفینا من عبادنا۔‘‘ (الفاطر:۳۲)
’’ پھر ہم نے وارث کیے کتاب کے وہ لوگ جن کو چن لیا ہم نے اپنے بندوں سے۔‘‘

استدلال کا خلاصہ

اس آیتِ کریمہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سابقہ انبیاء کی شریعتوں کے محاسن کے وارث ہیں، گویا وہ شرائع‘ میراث ہیں، جو خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منتقل ہوئی ہیں۔ اور میراث کا اُصول یہ ہے کہ وہ مورث کی ملکیت سے وارث کی ملکیت میں منتقل ہو جاتی ہے، پھر وہ وارث ہی کی ملکیت رہتی ہے، اور وارث ہی کی طرف منسوب ہوتی ہے، مورث کی طرف نہیں، اس لحاظ سے خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم تمام شرائع سابقہ کے وارث ہیں اور اب وہ شریعتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہیں۔ تو اس کی پیروی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پراور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت پر بایں حیثیت واجب ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت ہیں، نہ کہ ان سابقہ انبیاء علیہم السلام کی شرائع۔ صاحب کشف الاسرار رقم طراز ہیں:
’’أشار إلی أنّ شرائع من قبلنا إنّما تلزمنا علی أنّہا شریعۃ لنبیّنا لا أنّہا بقیت شرائع لہم، فإنّ المیراث ینتقل من المورّث إلی الوارث علی أنّہ یکون ملکًا للوارث ومضافًا إلیہ لا أنّہ یکون ملکًا للمورّث فکذٰلک ہذا۔ ‘‘(۱۸)
’’آیتِ کریمہ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ سابقہ شریعتوں کی پیروی ہمارے اوپر اس حیثیت سے لازم ہے کہ وہ ہمارے نبی کی شریعت ہے، یہ نہیں کہ ابھی تک ان کی شریعت کی حیثیت سے باقی ہیں، اس لیے کہ میراث مورث سے وارث کی طرف اس طور پر منتقل ہوتی ہے کہ وارث کی ملک بن جاتی ہے، اور وارث کی طرف اس کی اضافت ونسبت ہو جاتی ہے، نہ یہ کہ مورث کی ملک رہتی ہے۔ اس طرح یہاں بھی ہے۔‘‘

قرآن مجید کی چوتھی دلیل

الف:-’’مِلَّۃَ أَبِیْکُمْ إِبْرَہِیْمَ‘‘(الحج:۷۸)
’’دین تمہارے باپ ابراہیم کا۔‘‘
ب:-’’قُلْ صَدَقَ اللّٰہُ فَاتَّبِعُوْا مِلَّۃَ إِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفًا۔‘‘ (آل عمران: ۹۵)
’’تو کہہ! سچ فرمایا اللہ نے، اب تابع ہو جاؤ دین ابرا ہیم کے جو ایک ہی کا ہو رہا تھا۔‘‘

استدلال کا خلاصہ

دونوں آیاتِ کریمہ صراحۃً اس بات پر دلالت کررہی ہیں کہ شریعتِ محمدیہ اور ملتِ ابراہیمیہ ایک ہی حقیقت کے دونام ہیں، اس لیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ملتِ ابراہیمی کی پیروی کا حکم دیاگیا ہے۔ اور یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ نزولِ آیت کے وقت وہ ملت ملتِ ابراہیمیہ برقرار نہیں رہی، جیسا کہ دوسرے مسلک کے ضمن میں بیان ہوا کہ ہر نبی کی شریعت کا وقت اس نبی کی وفات یا اگلے نبی کی بعثت کے ساتھ ختم ہوجاتا ہے۔ پس ملتِ ابراہیمی اس اعتبار سے کہا گیا کہ وہ ابراہیم علیہ السلام کی برحق ملت تھی اور اب بھی برحق ملت ہے، تاہم ابراہیم علیہ السلام کی طرف اس کی نسبت ختم ہوئی اور اب وہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی ملت بن گئی۔ جس طرح مالِ موروث موت سے پہلے مورِث کی ملکیت رہتا ہے، مورِث کی موت کے بعد وارث کی ملکیت میں منتقل ہو جاتا ہے۔ فرماتے ہیں:
’’فثبت بہٰذین النّصّین أنّ ہٰذہ الشّریعۃ ملّۃ إبراہیم وقد امتنع ثبوتہا ملّۃ لہٗ للحال لما ذکرنا فی القول الثّانی فثبت أنّہا ملّتہٗ علٰی معنی أنّہا کانت لہٗ فبقیت حقًّا کذلک وصارت لرسول اللّٰہ محمّد - علیہ السّلام - کالمال الموروث مضافاً إلی الوارث للحال وہو عین ما کان للمیّت لا ملک آخر لکنّ الإضافۃ إلی المالک ینتہی بالموت إلی الوارث فکذٰلک الشّریعۃ فی حقّ الأنبیاء -علیہم السّلام-۔‘‘(۱۹) 
’’ان دونوں آیاتِ کریمہ سے ثابت ہوا کہ یہ شریعت ملتِ ابراہیمی ہے، جبکہ فی الحال اس شریعت کا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ملت ہونا ممتنع ہے ،جس کی وجہ ہم نے دوسرے قول میں ذکر کی۔پس ثابت ہوا کہ یہ شریعت اس معنی کر ملتِ ابراہیمی ہے کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ملت تھی،لیکن اب یہ اسی طرح ملتِ حقہ برقرار رہ کر اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ملت بن گئی ،جیسا کہ مالِ موروث فی الحال وارث کی طرف منسوب ہوتا ہے، جبکہ وہ بعینہ وہی مال ہوتا ہے، جو میت کا تھا، نہ کہ کوئی اور ملکیت، لیکن موت کے ساتھ ہی مالک کی طرف نسبت ختم ہو کر وارث کی طرف ہوئی۔ اسی طرح انبیاء علیہم السلام کے حق میں شریعتیں ہیں۔‘‘

حوالہ جات

۱:…المستصفی، لأبی حامد محمد الغزالی،متوفی:۵۰۵ـ، ج:۱، ص:۱۶۵    ۲:…کشف الأسرار ،ج:۳،ص:۲۱۳
۳:…دیکھیے: تفسیر عثمانی،ص:۷۸                ۴:… کشف الاسرار ،ج:۳، ص:۲۱۵
۵:…کشف الأسرار شرح أصول البزدوی، ج:۳، ص:۲۱۵        ۶:…حوالہ مذکورہ،ج:۳، ص:۲۱۵
۷:…تفسیر القرآن العظیم لإبن کثیر الدمشقی، متوفی:۷۷۴ھـ،ج:۶،ص:۵۱۸
۸:…روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی للآلوسی ،متوفی: ۱۲۷۰ھ،ج:۱۱،ص:۳۱۸
۹:…التحریر والتنویر لمحمد الطاہر بن عاشور التونسی، متوفی :۱۳۹۳ھـ،ج:۲۲، ص:۱۹۸
۱۰:…الصحیح للإمام مسلم بن الحجاج، متوفی: ۲۶۱ھـ،رقم:۲۴۶        ۱۱:…ایضاً، رقم: ۲۴۷
۱۲:…صحیح البخاری للإمام البخاری،باب قتل الخنزیر،رقم:۲۲۲۲
۱۳:…سنن الترمذی للإمام محمد بن عیسی الترمذی، متوفی:۲۷۹ھـ، باب ما جاء فی قتل عیسی ابن مریم الدّجّال،رقم:۲۲۴۴
۱۴:…المنہاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج للنووی، متوفی:۶۷۶ھ،ج:۲، ص:۱۹۰
۱۵:…المصنف لأبی بکر بن أبی شیبۃ، متوفی:۲۳۵ھ، باب:من کرہ النّظر فی کتب أہل الکتاب، رقم:۲۶۴۲۱، ج:۵،ص:۳۱۲
۱۶:…مسند الإمام أحمد بن حنبل، متوفی:۲۴۱ھـ، رقم:۱۴۶۳۱، ج:۲۲، ص:۲۶۸
۱۷:…صحیح البخاری ،باب لا یسأل أہل الشّرک عن الشّہادۃ وغیرہا،رقم:۲۴۸۵
۱۸:…کشف الاسرار، ج:۳، ص:۲۱۰            ۱۹:…حوالہ مذکورہ،ج:۳، ص:۲۱۶

 (جاری ہے)
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین