بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

’’شرائع من قبلنا‘‘ا ور اُن کا حکم (پہلی قسط)

’’شَرَائِعُ مَنْ قَبْلَنَا‘‘ا ور اُن کا حکم

 

                          (پہلی قسط)

 

تمہید وتعارف

تمہیدمیں تعارف کے طورپر ’’شرائع من قبلنا‘‘ کاایک عمومی مفہوم ذیل کی سطورمیں ملاحظہ ہو:

 ’’شرائع من قبلنا‘‘ کامعنی ہے: ہم(اُمتِ محمدیہl)سے پہلے کی شریعتیں، یعنی آخری نبی حضرت محمد مصطفیa سے پہلے تشریف لانے والے انبیاء کرام o کی وہ آسمانی شریعتیں، جو وہ اپنی اپنی اُمتوں کے پاس لے کر آئے تھے، اور جن کا ذکر ان کی کتابوں (توراۃ اور انجیل وغیرہ) میں موجود ہے۔ ان شریعتوں کے احکام بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ ہیں، جن پر ایمان لانا اور ان کے مطابق عمل کرنا ان سابقہ انبیائo کے زمانۂ نبوت میں ضروری تھا، تاہم شریعتِ محمدیہl کے آنے کے بعد وہ تمام گزشتہ شریعتیں منسوخ ہوگئی ہیں۔

توکیا وہ شریعتیں من کل الوجوہ منسوخ ہوگئیں؟ یا فی الجملہ؟ اگر فی الجملہ منسوخ ہیں، یعنی ان کے کچھ احکام اب بھی برقرار ہیں، تو کس حیثیت سے؟ مثلاً: شریعتِ موسویہ کی حیثیت سے؟ یا پھر شریعتِ محمدیہl کی حیثیت سے؟ نیز جو کل یا بعض احکام منسوخ ہیں، تو ان کے نسخ کا وقت کب سے شروع ہوا؟ آپa کی بعثت سے پہلے؟ یا آپa کی بعثت کے بعد؟ اس طرح کے تمام سوالا ت کے جوابات پر مشتمل ایک تحقیقی جائزہ تفسیر، حدیث، فقہ، أصول فقہ اور کلام کی کتابوں سے یہاں نقل کیا گیا ہے۔

ان مباحث کو بیان کرنے سے قبل چند اصطلاحات کی وضاحت ضروری ہے، جو لفظِ شریعت کے ہم معنی یا قریب المعنی کے طور پر استعمال ہوتی رہتی ہیں، مثلاً: دین، ملت اور مذہب وغیرہ۔

مقدمہ:  -  دین، ملۃ اور شریعۃ  -    معنی اورتعریف

لفظِ’’دین‘‘ کا لغوی معنی

لفظِ’’دین‘‘ کا لغوی معنی طاعت اور انقیا د ہے، اور اس لفظ کے تمام مشتقات میں یہی معنی پایا جاتا ہے، ابن فارسؒ لکھتے ہیں:

’’دَین‘‘ ایک ہی اصل ہے جس کی طرف اس طرح کے تمام فروع لوٹتے ہیں، فرماںبرداری اور کمزور ہونے کی ایک صورت ہے۔ پس دین کا معنی ہے:اطاعت گزاری۔ کہاجاتا ہے: ’’دَانَ لَہٗ یَدِیْنُ دِیْنًا‘‘ تابعدار، فرماں بردار اور اطاعت گزارہو گیا۔ ’’قَوْمٌ دِیْنٌ‘‘کا معنی ہے: فرماںبردار لوگ۔ ’’الْمَدِینَۃُ‘‘ بروزن ’’مَفْعَلَۃٌ‘‘بمعنی شہر کو اس لیے مدینہ کہا جاتا ہے کہ وہاں حکمرانوں کی اطاعت ہوتی ہے۔ اس معنی کر’’مَالِکِ یَوْمِ الدِّینِ‘‘ کہا گیا، یعنی فیصلے والا دن۔ بعض کے نزدیک حساب کتاب اور بدلے والا دن۔ کوئی بھی معنی ہو، وہ دن ایساہوگا جس میں سرجھکانا ہوگا۔ اس قبیل سے’’ الدَّیْنُ‘‘ (قرضہ) ہے، اس لیے کہ قرض میں مکمل رسوائی، پستی اور تابعداری ہوتی ہے۔ عرب کہتے ہیں: ’’ الدَّیْنُ ذُلٌّ بِالنَّہَارِ، وَغَمٌّ بِاللَّیْل‘‘ (قرضہ دن کے وقت رسوائی کا باعث ہے اور رات کو پریشانی کا باعث ہے)۔‘‘(۱)

لفظِ’’ملّۃ‘‘کا لغوی معنی

 لفظ’’ ملّۃ‘‘کا لغوی معنی :اُکتا جانا، گرم ریت پرچلنا، کہنا، لکھوانا اور ملت اختیار کرنا ہے، علامہ زمخشری لکھتے ہیں:

’’(م،ل،ل: اس مادے سے مشتق الفاظ کا معنی ہے اُکتا جانا، کہاجاتا ہے:’’أطعمہٗ خبزَ ملّۃ‘‘ اس کو ’’ملۃ‘‘ (گرم ریت والی روٹی)کھلائی۔’’طریق مملّ‘‘وہ راستہ جس پرلوگوں کی بہت زیادہ چلن ہو۔ مِلَّۃٌ: بمعنی چلنے کا راستہ، اس سے لیاگیا ہے ۔کہا جاتا ہے: ’’ملتِ ابراہیمی بہترین ملت ہے۔‘‘’’امتلَّ‘‘کا معنی ہے:ملت اختیار کرنا۔‘‘(۲)

ابن سیدہؒ لکھتے ہیں:

’’طَرِیقٌ مَلِیْلٌ‘‘ اور ’’مُمِلٌّ‘‘ وہ راستہ جس پر اس حد تک چلاؤ ہو کہ راستے کے نشان پڑجائیں۔’’أَمَلَّ الشَّیئَ‘‘کا معنی ہے :کہہ دیا اور لکھوایا۔ ’’ملۃ‘‘ کا معنی ہے: شریعت۔ ’’تَمَلَّلَ وامْتَلَّ‘‘ کا معنی ہے:ملت میں داخل ہوا۔ جلدی کرنے کے معنی میں بھی آتا ہے۔‘‘(۳)

لفظِ’’شریعۃ‘‘ کا لغوی معنی

لفظ ’’شریعۃ ‘‘کا لغوی معنی پانی کی گھاٹ اور راستہ ہے، صاحب لسان العرب لکھتے ہیں:

’’شَرَعَ الْوَارِدُ‘‘ کا معنی ہے: براہ ِراست منہ لگاکر پانی پی لیا، اور’’شَرَعَتِ الدَّوَابُّ فِیْ الْمَائِ‘‘ کا معنی ہے: چوپائے پانی میں داخل ہوگئے۔ ’’شَرِیْعَۃٌ، شِرَاعٌ‘‘اور ’’مَشْرَعَۃٌ‘‘ پانی کی اس گھاٹ اور راستہ کو کہا جاتا ہے، جہاں سے پانی پینے کے لیے اُترا جاتا ہے۔ لیثؒ کہتے ہیں: اسی معنی کی مناسبت سے ان احکام کا نام شریعت رکھا گیا ہے، جن کو اللہ نے روزہ، نماز، حج اور نکاح وغیرہ کی شکل میں اپنے بندوں کے لیے شریعت مقرر کردی ہے۔ کلام عرب میں ’’الشِّرْعۃُ‘‘ اور ’’الشَّرِیْعَۃُ‘‘ پانی کی گھاٹ کو کہا جاتا ہے، یعنی پانی پینے کی وہ جگہ اور راستہ جہاں سے لوگ پانی میں داخل ہوتے ہیں، اور پانی پیتے ہیں۔ عرب اس گھاٹ کو اس وقت تک شریعت نہیں کہتے، جب تک وہ تیار اورغیر منقطع نہ ہو، نظر آنے والا اور جاری ہو، ڈول کے ذریعے اس سے پانی حاصل نہ کیا جاتا ہو۔‘‘ (۴)

اصطلاحی تعریفات

لفظ’’دین‘‘، ’’ملۃ‘‘اور’’شریعۃ ‘‘کی چند اصطلاحی تعریفات ملاحظہ ہوں:

’’الدین‘‘کی اصطلاحی تعریف

پہلی تعریف

’’الدین:ما یذہب إلیہ الإنسان ویعتقد أنہ یقربہٗ إلی اللّٰہ وإن لم یکن فیہ شرائع مثل دین أہل الشرک۔‘‘(۵)

’’دین ان امور کا نام ہے جن کو انسان اختیار کرتا ہے، اور یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ یہ اُمور مجھے قربِ الٰہی نصیب کرادیں گے، اگر چہ ان میں شریعتیں نہ ہوں، جیسے مشرکین کا دین۔‘‘

دوسری تعریف

’’الدین: وضعٌ إلٰہیٌّ یدعو أصحابَ العقول إلی قبول ما ہو عند الرسولؐ۔‘‘

’’اللہ تعالیٰ کے وضع کردہ وہ امور دین ہیں، جورسول پر اتاری گئیں تعلیمات کو قبول کرنے کی طرف عقل والوں کو دعوت دیتے ہوں۔‘‘

تیسری تعریف

’’وضعٌ إلٰہیٌّ سائقٌ لذوی العقول باختیارہم المحمود إلی الخیر بالذات۔‘‘(۶)

’’ان خداوندی قوانین کا نام ہے جو عقل والوں کو ان کے اچھے اختیار کے ذریعے خیربالذات کی طرف لے جائیں۔‘‘

’’الشریعۃ‘‘کی اصطلاحی تعریف

پہلی تعریف

’’اسْمُ الشَّرِیْعَۃِ وَالشَّرْعِ وَالشِّرْعَۃِ فَإِنَّہٗ یَنْتَظِمُ کُلَّ مَا شَرَعَہُ اللّٰہُ مِنَ الْعَقَائِدِ وَالْأَعْمَالِ۔‘‘(۷)

’’الشَّرِیعَۃُ وَالشَّرْعُ وَالشِّرْعَۃُ‘‘کا لفظ تمام ان عقائد اور اعمال کو شامل ہے، جن کو اللہ تعالیٰ نے شرعی قانون کے طور پر مقرر کیا ہو۔‘‘

دوسری تعریف

’’ماشرع اللّٰہُ لعبادہٖ مِن الأحکام التی جاء بہا نبی من الأنبیاء صلی اللّٰہ علیہم وعلٰی نبینا وسلم سواء کانت متعلقۃ بکیفیۃ عمل وتسمی فرعیۃ وعملیۃ أو بکیفیۃ الاعتقاد، وتسمی أصلیۃ ۔‘‘(۸)

’’بندوں کے لیے مقرر کردہ وہ احکام، جن کو انبیاء کرامo میں سے کوئی بھی نبی لائے ہوں، شریعت کہلاتی ہے، خواہ وہ احکام عمل سے متعلق ہوں، وہ احکام فرعیہ عملیہ کہلاتے ہیں یا عقیدہ سے متعلق ہوں، وہ احکام اصلیہ کہلاتے ہیں۔‘‘

یہ مطلق شریعت کی تعریف ہے، چونکہ ہماری مراد شریعتِ محمدیہ(l) ہے، اس لیے اس کی تعریف حسب ذیل ہوگی:

’’الشریعۃالمحمدیۃ‘‘ کی اصطلاحی تعریف

’’ہی ماسنَّہ اللّٰہ لعبادہ من الأحکام عن طریق نبینا محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم وجعلہٗ خاتمۃ لرسالاتہ۔‘‘(۹)

’’شریعت محمدیہ سے مراد احکام کا وہ مجموعہ ہے، جن کو اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی حضرت محمدaکی وساطت سے بندوں کے لیے مقرر کیا ہے اور اس کو تمام رسالتوں اورشریعتوں کے لیے خاتم قراردیا ہو۔‘‘ 

’’الملۃ‘‘کی اصطلاحی تعریف

’’الملۃ ہی: الدین، غیر أن الملۃ لا تستعمل إلا فی جملۃ الشرائع دون آحادہا۔‘‘(۱۰)

’’ملۃ‘‘ دین ہی ہے،تاہم ’’ملۃ‘‘ کا لفظ مجموعہ شرائع میں استعمال ہوتا ہے، ایک ایک حکم میں نہیں۔‘‘

تینوں کلمات کی اصطلاحی تعریفات سے معلوم ہوا کہ ان کے مصداق میں جوہری وبنیادی فرق نہیں، بلکہ ان کے درمیان دوچیزیں قدرمشترک ہیں: پہلی یہ کہ عقائدو اعمال کا وہ مجموعہ جوالٰہی تعلیمات پر مشتمل ہو۔ دوسری یہ کہ انبیاء کرام o کے واسطے سے اُمت کو ملا ہو، جیسا کہ تعریف میں صراحۃً بتایا گیا کہ ملت اور دین ہم معنی ہیں، اس لیے ’’ملۃ‘‘ کی الگ تعریف نہیں کی گئی ہے، گویا ان کلمات کا مصداق ایک ہے، تاہم اعتباری فرق کی وجہ سے الگ الگ نام تجویز کیے گئے ہیں وہ اعتباری فرق کیا ہے؟ اور ان کی مصداق میں باہم کیا نسبت ہے؟ ذیل کے سطور میں ملاحظہ ہو:

’’دین‘‘، ’ ’ملۃ‘‘ ا ور’ ’شریعت‘‘ کے درمیان نسبت اور فرق

ابوالہلال العسکری کے نزدیک

ابو الہلال العسکری کے نزدیک تینوں کا مصداق ایک ہے، فرق اعتباری ہے جس میں لغوی معنی مدنظر رکھا گیا ہے، لکھتے ہیں:

’’الدین: ہو الطریقۃ المخصوصۃ الثابتۃ من النبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم، یسمی من حیث الانقیاد لہٗ دینا، ومن حیث إنہٗ یملی ویبین للناس ملۃ، ومن حیث إنہ یردہا الواردون المتعطشون إلی زلال نیل الکمال شرعاً وشریعۃً۔‘‘(۱۱)

’’دین حضورa سے ثابت مخصوص طریقے کا نام ہے۔ اس کو اس اعتبار سے ’’دین‘‘ کہا جاتا ہے کہ دل وجان سے مان کر اس کا انقیاد (سرتسلیم خم)کیا جائے۔ اور اس حیثیت سے ’’ملت‘‘ کہلاتا ہے کہ اس کو بتایا جاتا ہے اور لوگوں کے سامنے بیان کیا جاتا ہے۔ اور اس حیثیت سے ’’شریعت‘‘ کہلاتاہے کہ مرتبۂ کمال تک پہنچنے کے میٹھے خوشگوار پانی کے پیاسے اس گھاٹ پر آکر اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔‘‘

اس عبارت سے معلوم ہوا کہ تینوں مصطلحات کا مصداق ایک ہے، اور ان کے درمیان نسبت اتحاد ہے، فرق اگر ہے تو اعتباری ہے، یعنی انبیاء کرام o کے ذریعے اُمتوں کو ملنے والا عقائد و اعمال پر مشتمل آسمانی و الٰہی تعلیمات کا مجموعہ اس حیثیت سے ’’شریعت‘‘ کہلاتا ہے کہ ہدایت کے پیاسے لوگ پانی کے مشابہ وحی کی گھاٹ پر آتے ہیں، اور ہدایت حاصل کرکے پیاس بجھالیتے ہیں۔ اور اس حیثیت سے ’’دین‘‘ کہلاتا ہے کہ لوگ اس مجموعۂ عقائد واعمال کی اطاعت کرتے ہیں اور اس کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں۔ اور اس حیثیت سے ’’ملت‘‘ کہلاتا ہے کہ اس کو مربوط انداز میں جمع کرکے لوگوں کے سامنے بیان کیا جاتا ہے اور اس حیثیت سے ’’مذہب‘‘ کہلاتا ہے کہ اس کی طرف لوگ رجوع کرتے ہیں، اور دینی ضرورت پورا کرنے کے لیے اس کی طرف ذہاب اختیار کرتے ہیں، گویا ہر اصطلاح میں معنی لغوی کا لحاظ رکھا گیا ہے۔

شریف جرجانی کا قول

شریف جرجانی نے قدرے مختلف انداز اختیار کیا ہے، ان کے ہاں مذہب کی اصطلاح بھی ان تینوں مصطلحات کے مترادف ہے اور چاروں متحدبالذات اور مختلف بالاعتبار ہیں، فرق اعتباری میں یا تو معنی لغوی ملحوظ ہے، جیسا کہ ابوالہلال العسکری کے ہاں ہیں یا پھر نسبت کے اعتبار سے فرق ہے، فرماتے ہیں:

’’الدِّین والملۃ متحدان بالذات، ومختلفان بالاعتبار، فإن الشریعۃ من حیث إنہا تطاع تسمٰی دینًا، ومن حیث إنہا تُجمع تسمٰی ملۃً، ومن حیث إنہا یُرجَع إلیہا تسمی مذہبًا، وقیل: الفرق بین الدین، والملۃ، والمذہب أن الدین منسوب إلی اللّٰہ تعالٰی، والملّۃ منسوبۃ إلی الرسولؐ، والمذہب منسوبٌ إلی المجتہد۔‘‘(۱۲)

’’دین‘‘ اور ’’ملت‘‘متحد بالذات اور مختلف بالاعتبار ہیں، چنانچہ’’شریعت‘‘اس حیثیت سے’’دین‘‘کہلاتی ہے کہ اس کی اطاعت اورپیروی کی جاتی ہے۔ اور اس حیثیت سے ’’ملت‘‘کہلاتی ہے کہ اس کو جمع کیا جاتا ہے اور اس حیثیت سے ’’مذہب‘‘ کہلاتی ہے کہ اس کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ ایک اورقول کے مطابق تینوںمیں فرق یہ ہے کہ ’’دین‘‘ اللہ کی طرف، ’’ملت‘‘ رسول اللہa کی طرف،اور ’’مذہب‘‘ مجتہد کی طرف منسوب ہے۔‘‘

اس توجیہ کا حاصل یہ ہے کہ وحی سے مأخوذ عقائد واعمال کا مجموعہ تو اصالۃً ’’شریعت‘‘ہے، جو باعتبار اطاعت کے ’’دین‘‘ اور باعتبار جمع وبیان کے ’’ملت‘‘ اور باعتبار رجوع الیہ ’’مذہب‘‘ کہلاتا ہے۔ گویا ’’مذہب‘‘ کو بھی ’’شریعت‘‘، ’’ملت‘‘ اور ’’دین‘‘ کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ نیز ’’شریعت‘‘ کی وجہ تسمیہ کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ مزیدبرآں! ایک اور حوالے سے بھی فرق بیان کیا گیا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کے اعتبار سے ’’دین‘‘، رسولa کی طرف نسبت کے اعتبار سے’’ملت‘‘ اور مجتہد کی طرف نسبت کے اعتبار سے ’’مذہب‘‘ کہلاتا ہے۔

شیخ الہند مولانا محمود حسنv کی توجیہ

شیخ الہندv کے نزدیک یہ اصطلاحاتِ ثلٰثہ من کل الوجوہ متحد بالذات نہیں، مصداق میں حقیقی فرق موجود ہے۔ فرماتے ہیں: 

’’ہرشریعت میں تین باتیں ہوتی ہیں،اول عقائد (جیسے: توحید ونبوت وغیرہ) سو اس میں توسب دین والے شریک اور موافق ہیں، اختلاف ممکن ہی نہیں۔ دوسرے قواعدِ کلیہ شریعت کہ جن سے جزئیات وفروعی مسائل حاصل ہوتے ہیں،اورتمام جزئیات میں وہ کلیات ملحوظ رہتے ہیں، اورملت فی الحقیقت انہی اصول اور کلیات کانام ہے، اور ملتِ محمدی اور ملتِ ابراہیمی کاتوافق واتحاد انہی کلیات میں ہے۔ تیسرے مجموعۂ کلیات وجزئیات وجمیع اصول وفروع، جس کو شریعت کہتے ہیں، جس ۱۳کا خلاصہ یہ ہوا کہ رسول اللہ a اور حضرت ابراہیمm کی ملت ایک ہے اورشریعت جداجدا۔ ‘‘  (۱۳)

شیخ الہندv کی توجیہ کی ترجیح

شیخ الہند v کی بیان کردہ توجیہ دوسری توجیہات کی بنسبت زیادہ دقتِ نظری پر مبنی ہے، جس کے مطابق اگرچہ ’’دین‘‘، ’’ملت‘‘ اور’’شریعت‘‘ کے مصداق میں بعض اجزاء میں اشتراک پایا جاتا ہے، تاہم باعتبارِ اطلاق ان کے درمیان حقیقی فرق موجود ہے، چنانچہ عقائد- جن میں تمام ادیانِ سماویہ مشترک ہیں- پر ’’دین‘‘ کا اطلاق ہوتا ہے۔ اصول وقواعد کلیہ-جو ابراہیمی ومحمدی ملت میں مشترک ہیں- پر’’ملت‘‘ کا اطلاق ہوتا ہے،اور اصول وقواعد اور جزئیات وشرائع کے مجموعہ پر’’شریعت‘‘ کا اطلاق ہوتا ہے، جو ہر رسول کو الگ الگ عطا کی گئی ہے۔ یہ توجیہ نصوصِ قرآنیہ کے بالکل موافق ہے، ملاحظہ ہوں:

سورۂ شوریٰ کی آیت کریمہ ’’شَرَعَ لَکُمْ  مِّنَ الدِّیْنِ۔‘‘(الشوریٰ:۱۳) میں تمام انبیاء کا دین ایک قراردیا گیا ہے۔

متعدد آیات میں امت محمدیہ کو ملت ابراہیمی کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے، جیسے:’’فَاتَّبِعُوْا مِلَّۃَ إِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفًا۔‘‘(آل عمران:۹۵)

سورۂ مائدہ کی آیت ’’لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْہَاجًا۔‘‘ (المائدۃ:۴۸) میں صراحۃً انبیاء o کی شریعتوں کو مختلف قراردیا گیا ہے۔ 

حوالہ جات

۱:… معجم مقاییس اللغۃ، لابی الحسین احمد بن فارس،متوفی:۳۹۵ھ، مادہ:دَیَنَ ، ج: ۲،ص: ۳۸۰۔

۲:… اساس البلاغۃ،لابی القاسم محمود بن عمرو الزمخشری، جار اللہ، متوفی:۵۳۸ھ، ج: ۲،ص: ۲۲۸۔

۳:… المحکم والمحیط الاعظم،لابی الحسن علی بن اسماعیل بن سیدہ،متوفی:۴۵۸ھـ، ج:  ۱۰،ص: ۳۷۸۔

۴:… لسان العرب، لابن منظورالافریقی، متوفی:۷۱۱ھـ،۸،ص: ۱۷۵۔

۵:… معجم الفروق اللغویۃ،لأبی ہلال الحسن بن عبد اللہ العسکری،متوفی:نحو۳۹۵ھـ، ج: ۱،ص: ۵۱۰۔

۶:… التوقیف علی مہمات التعاریف لزین الدین محمد المناوی ،متوفی:۱۰۳۱ھـ، ج: ۱،ص: ۱۶۹۔

۷:… مجموع الفتاوی،لابی العباس احمد بن عبد الحلیم بن تیمیۃ الحرانی، متوفی:۷۲۸ھ، ج: ۱۹،ص: ۳۰۶۔

۸:… کشاف الاصطلاحات تھانوی، ج: ۲،ص: ۷۵۹۔

۹:… مقاصد الشریعۃ الاسلامیۃ لدکتور/محمد سعد الیوبی ،ص:۳۳۔

۱۰:… معجم الفروق اللغویۃ لابی ہلال الحسن بن عبد اللہ العسکری،متوفی:نحو۳۹۵ھـ، ج: ۱،ص: ۵۱۱۔

۱۱:… معجم الفروق اللغویۃ، لابی ہلال الحسن بن عبد اللہ العسکری،متوفی:نحو۳۹۵ھـ، ج: ۱،ص: ۵۱۰۔

۱۲:… کتاب التعریفات، لعلی بن محمد الشریف الجرجانی، متوفی:۸۱۶ھـ، ج: ۱،ص: ۱۰۵۔

۱۳:… تفسیر عثمانی، البقرۃ،آیت:۱۳۵، حاشیۃ:۶۔

                                                                               (جاری ہے)

۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین