بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

’’ شرائع من قبلنا ‘‘ا ور اُن کا حکم (تیسری قسط)

’’شَرَائِعُ مَنْ قَبْلَنَا‘‘ا ور اُن کا حکم

                          (تیسری قسط)

آخری نبیa کی انبیاء سابقینB کی پیروی جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کیاآخری پیغمبر a بھی گزشتہ انبیاء Bکی شریعتوں کی پیروی کے پابندتھے؟ توسمجھ لینا چاہیے کہ آپ a کی زندگی کے دومرحلے تھے: پہلا مرحلہ قبل از نبوت، دوسرا مرحلہ بعد از نبوت۔ دونوں مرحلوں کے حکم میں حسبِ ذیل تفصیل ہے: پہلامرحلہ: ۔۔۔۔۔۔ قبل از بعثت ’’شَرَائِعُ مَنْ قَبْلَنَا‘‘کی پیروی اس میں حسبِ ذیل تین اقوال ہیں: پہلاقول بعض متکلمین کے نزدیک قبل از بعثت آپ a کو ’’شَرَائِعُ مَنْ قَبْلَنَا‘‘ کی پیروی کا حکم نہیں دیا گیا۔ دوسرا قول دیگر بعض علماء کرام کے نزدیک آپa زندگی کے اس مرحلے میں گزشتہ شرائع کی پیروی کے پابند تھے، تاہم اس میں اختلاف ہے کہ کونسی شریعت کے پابند تھے؟ حضرت نوح m کی شریعت کے؟ حضرت ابراہیم m کی شریعت کے؟ حضرت موسیٰ m کی شریعت کے؟ حضرت عیسیٰ m کی شریعت کے؟ یا پھر ہر اس حکم کے جس کا شرعی حکم ہونا ثابت ہو؟ تیسرا قول  تیسرا قول توقف کا ،جو امام غزالیؒ اور قاضی عبدالجبارکی طرف منسوب ہے۔امام سرخسیؒ لکھتے ہیں: ’’وبین المتکلمین اختلاف فی أن النبی علیہ السلام قبل نزول الوحی (علیہ) ہل کان متعبدا بشریعۃ من قبلہٖ ، فمنہم من أبٰی ذلک ومنہم من توقف فیہ ومنہم من قال: کان متعبدا بذٰلک ۔‘‘(۱) ’’متکلمین کا آپس میں اس بارے میں اختلاف ہے کہ وحی کے نزول سے پہلے کیا نبی کریمa پچھلی شریعت پر عمل کرنے کے پابند تھے؟ بعض علماء نے اس سے انکار کیا ہے۔ بعض نے توقف اختیار کیا ہے، جبکہ بعض حضرات نے کہا ہے کہ آپ پچھلی شریعت پر عمل کرنے کے پابند تھے۔ (اس کی تفصیل علم کلام میں ہے) ۔‘‘ صاحبِ کشف الاسرار رقم طراز ہیں: ’’پچھلی شریعتوں کی پیروی کرنے کے حوالے سے علماء کا دو جگہوں میں اختلاف ہے : پہلی یہ کہ کیا آپ a بعثت سے پہلے انبیاء o میں سے کسی نبی کی شریعت کی پیروی کے پابند تھے؟ بعض علمائ، جیسے: ابوالحسین البصری اور متکلمین کی ایک جماعت نے اس کا انکار کیا ہے۔ اور بعض نے اس کو ثابت کیا ہے۔ تاہم مثبتین کا پھر اس میں بھی اختلاف ہوا: ایک قول یہ ہے کہ آپ حضرت نوح m کی شریعت کے پابند تھے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ آپ حضرت ابراہیم m کی شریعت کے پابند تھے۔ تیسراقول یہ ہے کہ حضرت موسیٰ m کی شریعت کے پابند تھے۔ چوتھا قول یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ m کی شریعت کے پابند تھے۔ پانچواں قول یہ ہے کہ ہراس حکم کی پیروی کے پابندتھے جس کاآسمانی شریعت میں سے ہونا ثابت ہو جاتا۔ بعض علماء نے اس مسئلے میں توقف اختیار کیا ہے، جیسے امام غزالیؒ اور عبدالجبار وغیرہ۔ (۲) امام غزالی v رقم طراز ہیں: ’’اس اصول کے مطابق ہم ایک مسئلہ پیش کرتے ہیں، وہ یہ کہ کیا آپa مبعوث ہونے سے پہلے انبیاء میں سے کسی نبی کی شریعت پر عمل کرنے کے مکلف (پابند) تھے؟ بعض علماء نے انکار کیا ہے، اور بعض نے ثابت کیا ہے۔ پھر بعض علماء نے حضرت نوح m کی شریعت، بعض نے ابراہیم m کی شریعت، بعض نے حضرت موسیٰ m کی شریعت اور ایک جماعت نے حضرت عیسیٰ m کی شریعت کی طرف نسبت کی ہے۔ راجح قول یہ ہے کہ تمام صورتیں از روئے عقل ممکن ہیں، تاہم قطعی طور پر معلوم نہیں کہ واقع میں کیا صورت تھی۔‘‘ (۳) یعنی تمام صورتیں اگر چہ عقلاً جائز ہیں ،تاہم کسی دلیلِ قطعی سے کسی ایک صورت کاواقع ہونا معلوم نہیں،اس لیے ایسے امورمیں اَٹکل سے باتیں کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا، جن سے کوئی عملی عبادت متعلق نہ ہو۔ پہلے قول کی ترجیح بہر حال! کتبِ عقائد میں اس قول کو ترجیح دی گئی ہے کہ قبل از بعثت آپa کو ’’شَرَائِعُ مَنْ قَبْلَنَا‘‘ کی پیروی کا حکم نہیں دیا گیا،ا س لیے کہ شریعتِ عیسوی سے پہلے کی شریعتیں تو شریعتِ عیسوی سے منسوخ ہوگئیں، جبکہ شریعتِ عیسوی ہمارے لیے اس بنا پرحجت نہیں کہ اس کے ناقلین نصاریٰ ہیں ، جو عقیدۂ تثلیث اختیار کرنے کی وجہ سے کفر کے مرتکب ہوئے، اور کافروں کا قول معتبر نہیں۔ اور جو نصاریٰ تثلیث کے قائل نہیں، اور مکمل طور پر شریعتِ عیسوی کے پیروکار ہیں، وہ اتنی کم تعداد میں ہیں کہ ان کا قول حجت نہیں۔ امام رازیv رقم طراز ہیں: ’’المسألۃ السابعۃ:الحق أن محمدا صلی اللّٰہ علیہ وسلم قبل نزول الوحی ماکان علٰی شرع أحد من الأنبیاء علیہم السلام، وذٰلک لأن الشّرائع السابقۃ علٰی شرع عیسٰی علیہ الصلاۃ والسلام صارت منسوخۃ بشرع عیسٰی علیہ الصلاۃ والسلام، وأما شریعۃ عیسٰی علیہ السلام فقد صارت منقطعۃ بسبب أن الناقلین عندہم النصاری، وہم کفار بسبب القول بالتثلیث، فلا یکون نقلہم حجۃ۔ وأما الذین بقوا علی شریعۃ عیسٰی علیہ السلام مع البراء ۃ من التثلیث فہم قلیلون، فلا یکون نقلہم حجۃ ۔ وإذا کان کذٰلک ثبت أن محمداً صلی اللّٰہ علیہ وسلم ما کان قبل النبوۃ علٰی شریعۃ أحد۔‘‘(۴) ’’ساتواں مسئلہ: حق بات یہ ہے کہ نزولِ وحی سے پہلے محمد a انبیاء (سابقین)o میں سے کسی کی بھی شریعت پر نہیں تھے، اس لیے کہ عیسیٰ m کی شریعت سے پہلی کی شریعتیں عیسیٰ m کی شریعت کے ساتھ منسوخ ہوگئیں، جبکہ خودشریعتِ عیسوی کا(تسلسل)بھی منقطع ہوگیا، اس لیے کہ اس کے ناقلین نصاریٰ تھے اور عقیدۂ تثلیث کی وجہ سے وہ کافر ہیں، پس ان کی روایت حجت نہیں اورشریعتِ عیسویہ پر قائم عقیدۂ تثلیث کے منکر عیسائیوں کی تعداد انتہائی قلیل ہے، ان کی روایت اس لیے حجت نہیں۔ اور جب صورت حال یہ ہے تو ثابت ہوا کہ محمد a نبوت سے پہلے کسی بھی نبی کی شریعت پر نہیں تھے۔‘‘ اس کا حاصل یہ ہوا کہ اگرچہ اس مسئلہ میں تین اقوال ہیں،تاہم راجح قول یہ ہے کہ قبل از نزولِ وحی آپ a کسی سابقہ شریعت پر عمل کرنے کے پابند نہیں تھے ۔ راجح قول پر اشکال لیکن اس پر من جملہ دیگر شبہات کے ایک شبہ یہ واردہوتا ہے کہ قبل ازبعثت آپ a نماز، حج، عمرہ اور صدقہ وخیرات کی ادائیگی کااہتمام فرماتے تھے ، حیوان کوذبح کرکے کھاتے تھے، مردارکے کھانے سے اجتناب فرماتے تھے ۔اور یہ اُمور شریعت ہی سے معلوم ہوسکتے ہیں ،عقل سے نہیں۔ پس معلوم ہوا کہ آپ ان اُمور کی ادائیگی کسی سابقہ شریعت ہی کی پیروی میں فرماتے ہوں گے۔ اشکال کا جواب امام غزالی v اس شبہ کونقل فرما کر جواب میں لکھتے ہیں: ’’ہٰذا فاسد من وجہین: أحدہما:أن شیئًا من ذٰلک لم یتواتر بنقل مقطوع بہ ولا سبیل إلٰی إثباتہٖ بالظن۔ الثانی: أنہٗ ربما ذبح الحیوان بناء  علٰی أنہٗ لا تحریم إلا بالسمع ولا حکم قبل ورود الشرع، وترک المیتۃ عیافۃ بالطبع کما ترک أکل الضب عیافۃ، والحج والصلاۃ إن صح فلعلہٗ تبرکا بما نقل جملتہٗ من أنبیاء  السلف، وإن اندرس تفصیلہٗ۔‘‘(۵) ’’یہ شبہ دووجہ سے غلط ہے، ایک تواس لیے کہ یہ امور کسی دلیلِ قطعی متواتر کے ساتھ منقول نہیں، اور ظنی دلائل سے ثبوت کافی نہیں۔ دوسرا اس لیے کہ شایدآپ نے حیوان اس وجہ سے ذبح کیا کہ کسی چیز کی حرمت دلیل نقلی ہی سے ثابت ہو سکتی ہے، اور نزولِ شریعت سے پہلے کوئی حکم موجود نہیں تھا،اور مردار کھانے کوطبعی ناپسندیدگی کی وجہ سے ترک کیا ہو،جیسے گوہ کھانے کوآپa نے اسی طرح ترک فرمایا تھا۔ اور حج ونماز کی ادائیگی اگر صحیح روایت سے ثابت ہے، تو شاید آپ تبرکاً اداکرتے ہوں ،اس لیے کہ اجمالی طور پر یہ امور انبیاء سابقینo سے ثابت ہیں، اگرچہ ان کی تفصیلات مٹ چکی ہیں۔‘‘ دوسرامرحلہ:۔۔۔۔۔۔ بعدازبعثت ’’شَرَائِعُ مَنْ قَبْلَنَا‘‘ کی پیروی اس مسئلے میں دوحیثیتوں سے بحث کرنی ہے: ۱:…جوازِعقلی ، ۲:…وقوعِ سمعی۔ ۱:…جوازِ عقلی جمہور کے نزدیک عقلاً اس میں کوئی مانع نہیں کہ آپ a کوکسی سابق پیغمبرکی شریعت کی پیروی کا حکم دیا جائے، تاہم قدریہ کا اس میں اختلاف ہے، امام غزالیv لکھتے ہیں: ’’أما الجواز العقلی فہو حاصل إذ للّٰہ تعالٰی أن یتعبد عبادہٗ بما شاء من شریعۃ سابقۃ أو مستأنفۃ أو بعضہا سابقۃ وبعضہا مستأنفۃ، ولا یستحیل منہ شیء لذاتہٖ ولا لمفسدۃ فیہ ، وزعم بعض القدریۃ أنہٗ لا یجوز بعثۃ نبی إلا بشرع مستأنف، فإنہٗ إن لم یجدد أمرا فلا فائدۃ فی بعثتہٖ، ولا یرسل اللّٰہ تعالٰی رسولا بغیر فائدۃ۔‘‘(۶) ’’یعنی ازروئے عقل اس میں کوئی ممانعت نہیں کہ کسی نبی کو گزشتہ شریعت کی پیروی کا پابند بنایا جائے، جس طرح اس کو نئی شریعت بھی دی جاسکتی ہے، تاہم قدریہ کا خیال ہے کہ اگر پرانی ہی شریعت پر عمل کرانا مقصود ہے تو نئے پیغمبر کو مبعوث کرنے میں کوئی فائدہ نہیں، اور اللہ تعالیٰ کسی رسول کوفائدے کے بغیر مبعوث نہیں فرماتے۔‘‘ لیکن قدریہ کے اس موقف اور استدلال دونوں کو نقلی اور عقلی دلائل سے رد کیا گیا ہے،امام غزالیv رقم طراز ہیں: ’’یدل علی جوازہٖ ما یدل علی جواز نصب دلیلین وبعثۃ رسولین معًا کما قال تعالٰی: (إِذْ أَرْسَلْنَا إِلَیْہِمُ اثْنَیْنِ فَکَذَّبُوْہُمَا فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ) (یس:۱۴) کما أرسل موسٰی وہارون وداود وسلیمان، بل کخلق العینین مع الاکتفاء فی الإبصار بإحداہما، ثم کلامہم بناء علی طلب الفائدۃ فی أفعال اللّٰہ تعالٰی، وہو تحکم۔‘‘(۷) ’’اس کے جواز پر وہی دلیل دلالت کرتی ہے، جوایک دعویٰ پر دو دلیلیں قائم کرنے کے جواز اور دورسولوں کو ایک ساتھ مبعوث کرنے کے جواز پر دلالت کرتی ہے، جیسے ارشاد فرمایا: ’’إِذْ أَرْسَلْنَا إِلَیْہِمُ اثْنَیْنِ فَکَذَّبُوْہُمَا فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ۔‘‘(یس:۱۴) [’’جب بھیجے ہم نے ان کی طرف دو تو ان کو جھٹلایا، پھر ہم نے قوت دی تیسرے سے۔‘‘]اور جیسے موسیٰ وہارون، داؤد وسلیمان o کومبعوث فرمایا، بلکہ جیسے دوآنکھیں بنائیں، باوجود یہ کہ دیکھنے کے لیے ایک آنکھ کافی ہے۔ پھر مخالف کے دعویٰ کی بنیاد افعالِ خداوندی میں فائدہ کو طلب کرنے پر ہے،اور یہ طرز بلادلیل ہے۔‘‘ ۲:…وقوعِ سمعی وقوعِ سمعی سے مرادیہ ہے کہ کیا قرآن وسنت میں ایسی کوئی نقلی دلیل موجود ہے، جس کی رو سے آپ a گزشتہ شریعت کی پیروی کرنے کے پابند ہوں؟ یا گزشتہ شریعت کے احکام کو برقرار رکھا گیا ہو؟ یا پھر آپa کی شریعت کا ہر ہر حکم نیا ہو؟ اس حوالے سے بحث کرتے ہوئے امام غزالیv فرماتے ہیں:  ’’أما الوقوع السمعی فلا خلاف فی أن شرعَنا لیس بناسخٍ جمیع الشرائع بالکلیۃ إذ لم ینسخ وجوبَ الإیمان وتحریم الزنا والسرقۃ والقتل والکفر، ولکن حرم علیہ - صلی اللّٰہ علیہ وسلم - ہذہٖ المحظورات بخطابٍ مستأنفٍ أو بالخطاب الذی نزل إلی غیرہٖ وتعبد باستدامتہٖ ولم ینزل علیہ الخطاب إلا بما خالف شرعہم، فإذا نزلت واقعۃ لزمہٗ اتباع دینہم إلا إذا نزل علیہ وحی مخالف لما سبق فإلٰی ہٰذا یرجع الخلاف۔‘‘(۸) ’’جہاں تک وقوعِ سمعی کا تعلق ہے، تو اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ ہماری شریعت تمام سابقہ شرائع کے لیے بالکلیہ ناسخ نہیں، اس لیے کہ (شرائع سابقہ کے احکام مثلاً) وجوبِ ایمان، زنا، چوری، قتل اور کفر کی حرمت شریعتِ محمدیہ نے منسوخ نہیں کی ہے، لیکن رسول اللہ a پر ان ممنوعات کو مستأنف (ازسر نو) خطاب (حکم) کے ساتھ حرام کیا، یا پھر ایسے خطاب (حکم ) کے ساتھ حرام کیا، جو کسی اور پیغمبر کی طرف نازل ہوا، اور آپ کو اس کے دائم وبرقرار رکھنے کا حکم دیا گیا ، جب کہ آپa پر صرف وہ احکام نازل ہوئے جو گزشتہ شریعتوں کے مخالف تھے، پس جب کوئی مسئلہ پیش آتا ،تو آپa پر گزشتہ انبیاء کے دین کی پیروی لازم ہوتی، مگر یہ کہ آپa پر ایسی وحی نازل ہوجوگزشتہ حکم کے خلاف ہو، اسی میں اختلاف ہے۔‘‘ حاصل یہ ہواکہ بعدازبعثتِ نبوی ’’شَرَائِعُ مَنْ قَبْلَنَا‘‘کی پیروی ازروئے عقل جائزہے اور ازروئے نقل ثابت ہے،اس بات پراگرچہ کوئی متعین نقلی دلیل موجود نہیں، تاہم کتبِ سماویہ میں موجود مشترک احکام ثبوتِ سمعی کو مستلزم ہیں، چنانچہ یہ بات بالکل واضح ہے ،اورشرائعِ سماویہ کامطالعہ کرنے والوں پر تو بالکل مخفی نہیں کہ شرائع میں کئی ایک احکام مشترک ہیں،سابقہ شرائع میں بھی موجودتھے اور شریعتِ محمدیہ میں بھی مشروع ہیں،جیسے قصاص کے احکام وغیرہ۔ حواشی ۱:… أصول السرخسی، لمحمد بن أحمد، شمس الأئمۃ السرخسی، متوفی:۴۹۰ـھ ، ج:۲، ص:۱۰۰۔ ۲:… کشف الأسرار شرح أصول البزدوی، ج:۲، ص:۲۱۲۔ ۳:…المستصفی ،لأبی حامد محمد بن محمد الغزالی،الإمام ، متوفی:۵۰۵ھ، ج:۱، ص:۱۶۵۔ ۴:…معالم أصول الدین ،لمحمد بن عمر الرازی،الامام فخر الدین، متوفی:۶۰۶ھ، ج:۱، ص:۱۱۰۔ ۵:…المستصفی، لأبی حامد محمد بن محمد الغزالی، متوفی:۵۰۵ھـ، ج:۱، ص:۱۶۵۔ ۶:…حوالہ مذکورہ ،ج:۱،ص:۱۶۵۔ ۷:…حوالہ مذکورہ۔ ۸:…حوالہ مذکورہ۔                                                                                  (جاری ہے) ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین