بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

شبِ برأت میں انفرادی عبادت کرنا

 

شبِ برأت میں انفرادی عبادت کرنا

احادیث کی روشنی میں بلا شبہ ماہِ شعبان بہت سی فضیلتوں کا حامل ہے، چنانچہ رمضان کے بعد آپ a سب سے زیادہ روزے اسی ماہ میں رکھتے تھے۔ حضرت عائشہt  فرماتی ہیں کہ میں نے رمضان کے علاوہ رسول اللہ a   کو کبھی پورے مہینے کے روزے رکھتے نہیں دیکھا، سوائے شعبان کے کہ اس کے تقریباً پورے دنوں میں آپ روزہ رکھتے تھے۔ (بخاری، مسلم، ابو داود)  اسی مضمون کی ایک روایت ام المؤمنین حضرت ام سلمہt سے ترمذی میں مذکور ہے۔ حضرت اسامہ بن زیدr فرماتے ہیں کہ: میں نے رسول اللہa سے سوال کیا کہ میں نے آپ کو شعبان سے زیادہ کسی اور مہینے میں (نفلی) روزہ رکھتے نہیں دیکھا؟ رسول اللہ a نے فرمایا کہ: ’’یہ رجب اور رمضان کے درمیان واقع ایک مہینہ ہے، جس کی برکت سے لوگ غافل ہیں۔ اس ماہ میں اللہ تعالیٰ کے سامنے اعمال پیش کیے جاتے ہیں، میری خواہش ہے کہ میرے اعمال اس حال میں پیش ہوں کہ میں روزہ سے ہوں۔‘‘              (سنن نسائی، الترغیب والترہیب، ص:۴۲۵، مسند احمد، ابو داود: ۲۰۷۶) محدثین کی ایک بڑی جماعت کی رائے ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ حضرت عائشہ t فرماتی ہیں کہ: رسول اللہ a شعبان کے تقریباً مکمل مہینے میں روزہ رکھتے تھے۔ میں نے پوچھا کہ: کیا آپ کو شعبان کے روزے بہت پسند ہیں؟ رسول اللہ a نے فرمایا کہ: ’’اللہ تعالیٰ اس سال انتقال کرنے والوں کے نام اس ماہ میں لکھ دیتا ہے۔ میری خواہش ہے کہ میری موت کا فیصلہ اس حال میں ہو کہ میں روزہ سے ہوں۔‘‘ (رواہ ابویعلٰی، وہو غریب واسنادہٗ حسن، الترغیب والترہیب)  بعض دیگر احایث میں شعبان کے آخری دنوں میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا گیا ہے، تاکہ اس کی وجہ سے رمضان المبارک کے روزے رکھنے میں دشواری نہ ہو۔      (بخاری، کتاب الصوم- مسلم، کتاب الصیام)  مذکورہ اوراس طرح کی متعدد احادیث کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ماہِ شعبان بلاشبہ بہت سی فضیلتوں کا حامل ہے اور اس ماہ میں زیادہ سے زیادہ روزہ رکھنا چاہیے۔ شبِ برأت اس ماہ کی پندرہویں رات کو شب برأت کہا جاتا ہے، جو ۱۴؍ تاریخ کے سورج غروب ہونے سے شروع ہوتی ہے اور ۱۵ تاریخ کی صبح صادق تک رہتی ہے۔ شبِ برأت فارسی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی : ’’نجات پانے کی رات‘‘ کے ہیں، چونکہ اس رات میں بے شمار گناہ گاروں کی مغفرت کی جاتی ہے، اس لیے اس شب کو شب برأت کہا جاتا ہے۔ اس رات کی فضیلت کے سلسلہ میں علماء کے درمیان زمانۂ قدیم سے اختلاف چلا آرہا ہے، لیکن تحقیقی بات یہ ہے کہ اس رات کی فضیلت کا بالکلیہ انکار کرنا صحیح نہیں ہے۔ شب برأت کی فضیلت کے متعلق تقریباً ۱۰؍ صحابہ کرام s سے احادیث مروی ہیں، جن میں سے بعض صحیح ہیں۔ اگرچہ دیگر احادیث کی سند میں ضعف موجود ہے، لیکن وہ کم از کم قابل استدلال ضرور ہیں اور احادیث کی اتنی بڑی تعداد کو رد کرنا درست نہیں ہے۔ نیز اُمت ِمسلمہ کا شروع سے اس پر معمول بھی چلا آرہا ہے، لہٰذا علم حدیث کے قاعدہ کے مطابق ’’ اگر حدیث سند کے اعتبار سے ضعیف ہو، لیکن اُمتِ مسلمہ کا عمل اس پر چلا آرہا ہو تو اس حدیث کو بھی قوت حاصل ہوجاتی ہے اور وہ قابل اعتبار قرار دی جاتی ہے۔‘‘ ان احادیث پر عمل کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ نیز اس باب کی احادیث مختلف سندوں کے ساتھ وارد ہوئی ہیں، اگرچہ بعض احادیث کی سند میں ضعف ہے، لیکن علم حدیث کے قاعدہ کے مطابق ایک دوسرے سے تقویت لے کر یہ احادیث ’’حسن لغیرہٖ‘‘ بن جاتی ہیں، جس کا اعتراف متعدد بڑے بڑے محدثین نے بھی کیا ہے۔ عقل سے بھی سوچیں کہ یہ کیسے ممکن ہوا کہ مختلف ملکوں اور مختلف شہروں میں رہنے والے حضرات نبی اکرم a کی طرف کسی ایک جھوٹی بات کو منسوب کرنے میں متفق ہوگئے، نیز سب نے شعبان کی ۱۵؍ تاریخ کو ہی کیوں اختیار کیا، کوئی دوسری تاریخ یا کوئی دوسرا مہینہ کیوں اختیار نہیں کیا ؟ ان احادیث سے شب برأت میں کسی مستقل عمل کو ثابت نہیں کیا جارہا ہے، بلکہ اعمالِ صالحہ (مثلاً:نماز ِفجروعشاء کی ادائیگی، بقدرِ توفیق نوافل خاص کر نماز تہجد کی ادائیگی، قرآن کریم کی تلاوت، اللہ کا ذکر، اللہ تعالیٰ سے گناہوں کی معافی اور دعائیں) کے کرنے کی رغبت دی جارہی ہے ،جن کا تعلق ہر رات سے ہے، اور ان اعمالِ صالحہ کا احادیث صحیحہ سے ثبوت بھی ملتا ہے، جس پر ساری اُمت متفق ہے۔ شب برأت بھی ایک رات ہے، شب برأت میںتھوڑا اہتمام کے ساتھ ان اعمالِ صالحہ کی ادائیگی کے لیے علماء ومحققین کی ایک بڑی جماعت کی رائے کے مطابق ۱۰؍ صحابۂ کرامs سے منقول احادیث ثبوت کے لیے کافی ہیں۔  وضاحت اگر کچھ لوگوں نے غلط رسم ورواج اس رات میں شروع کرد یئے ہیں،جن میںسے بعض کا ذکر مضمون کے آخر میں آرہا ہے، تو اس کی بنیاد پر ان اعمالِ صالحہ کو اس رات میں کرنے سے روکا نہیں جاسکتا، بلکہ رسم ورواج کے روکنے کا اہتمام کرنا ہوگا، مثلاً: عید الفطر کی رات یا دن میں لوگ ناچنے گانے لگیں تو سرے سے عید الفطر کاانکار نہیں کیا جائے گا، بلکہ غلط رسم ورواج کو روکنے کا مکمل اہتمام کیا جائے گا۔ نیز شادی کے موقع پر رسم ورواج اور بدعات کی وجہ سے نکاح ہی سے انکار نہیں کیا جائے گا، بلکہ بدعات اور رسم ورواج کو روکنے کی کوشش کی جائے گی۔ اسی طرح موت کے وقت اور اس کے بعد کی بدعات وخرافات کو روکنے کی کوشش کی جائے گی، نہ کہ تدفین ہی بند کردی جائے۔ شبِ برأت کی فضیلت سے متعلق چند احادیث  حضرت معاذ بن جبلq کی روایت ہے کہ رسول اللہ aنے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ پندرہویں شب میں تمام مخلوق کی طرف تجلی فرماتا ہے اور ساری مخلوق کی سوائے مشرک اور بغض رکھنے  والوں کے سب کی مغفرت فرماتا ہے۔‘‘ (صحیح ابن حبان، طبرانی، وذکرہ الامام الحافظ السیوطی فی ’’الدر المنثور‘‘ عن البیہقی، وذکرہ الحافظ الہیثمی فی’’مجمع الزوائد‘‘، ج:۸، ص:۶۵ وقال: رواہ الطبرانی فی الکبیر والاوسط ورجالہ ثقات)  اسی مضمون کی روایت حضرت عبد اللہ بن عمرrسے مسند احمد (ج:۲،ص:۱۷۶) میں بھی مروی ہے: ’’قاتل اور بغض رکھنے  والوں کے علاوہ اللہ تعالیٰ سب کی مغفرت فرماتا ہے۔‘‘ جس کو الحافظ الہیثمی نے ’’مجمع الزوائد، ج:۸ ، ص:۶۵ ‘‘ میں صحیح قرار دیا ہے۔ اسی مضمون کی روایت حضرت ابو موسیٰ اشعری q سے ابن ماجہ (کتاب اقامہ الصلاۃ، ج:۱،ص:۴۵۵) میںمروی ہے۔ اسی مضمون کی روایت حضرت ابو ہریرہq سے مروی ہے۔ (رواہ البزار، وذکر الحافظ الہیثمی فی’’مجمع الزوائد‘‘) اسی مضمون کی روایت حضرت ابو ثعلبہ الخشنیq سے مروی ہے۔ (اخرجہ الطبرانی والبیہقی،الدر المنثور للسیوطی) اسی مضمون کی روایت حضرت ابو بکر صدیق qسے مروی ہے۔ (اخرجہ البزار والبیہقی، مجمع الزوائد للہیثمی) اسی مضمون کی روایت حضرت عوف بن مالک qسے مروی ہے۔ (اخرجہ البزار،مجمع الزوائد للہیثمی) اسی مضمون کی روایت حضرت کثیر بن مرہ vسے مرسلاً مروی ہے۔ (اخرجہ البیہقی ، حسن البیان للشیخ عبداللہ الغماری) حضرت عثمان بن ابی العاص qسے روایت ہے کہ رسول اللہ a نے ارشاد فرمایا: ’’پندرہویں شب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آواز لگائی جاتی ہے کہ:’’ ہے کوئی مغفرت مانگنے والا کہ میں اس کے گناہوں کو معاف کروں؟ ہے کوئی سوال کرنے والا کہ میں عطا کروں؟ہر سوال کرنے والے کو میں عطا کرتا ہوں، سوائے مشرک اور زنا کرنے والے کے ۔‘‘ (اخرجہ البیہقی فی شعب الایمان،ج: ۳،ص:۳۸۳، الدر المنثور للسیوطی، ذکرہ الحافظ ابن رجب فی اللطائف) حضرت عائشہ t روایت کرتی ہیں کہ: میں نے ایک رات رسول اللہa کو اپنے پاس نہ پایا تو میں آپ a کی تلاش میں نکلی۔ آپ a بقیع میں تشریف فرما تھے، (مجھے دیکھ کر)آپ a نے فرمایا: کیا تمہیں ڈر تھا کہ اللہ اور اس کے رسول(a) تم پر ظلم کریں گے؟ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ!  مجھے گمان ہواکہ آپ دیگر ازواج مطہراتؓ کے پاس تشریف لے گئے ہوں گے۔ تو آپ a نے فرمایا: ’’بے شک اللہ تعالیٰ پندرہویں شعبان کی شب کو نچلے آسمان پر نزول فرماتاہے اور قبیلہ بنوکلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد میں لوگوں کی مغفرت فرماتاہے اور اس رات میں بے شمار لوگوں کی مغفرت کی جاتی ہے، مگر مشرک، عداوت کرنے والے ، رشتہ توڑنے والے، تکبرانہ طور پر ٹخنوں سے نیچے کپڑا پہننے والے، والدین کی نافرمانی کرنے والے اور شراب پینے والے کی طرف اللہ تعالیٰ کی نظر کرم نہیںہوتی۔‘‘ (مسند احمد، ج: ۶، ص:۲۳۸، ترمذی (ابواب الصیام)، ابن ماجہ (کتاب اقامۃ الصلاۃ)، بیہقی، مصنف ابن ابی شیبہ، الترغیب والترہیب) حضرت علی بن ابی طالب q سے روایت ہے کہ رسول اللہ a نے فرمایا: ’’جب شعبان کی پندرہویں شب ہو تو اس رات میں قیام کرو اوراس دن روزہ رکھو، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ غروبِ آفتاب کے وقت سے سماء دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور کہتے ہیں: کیا کوئی مغفرت طلب کرنے والا ہے کہ میں اس کی مغفرت کروں؟ کیا کوئی رزق کا متلاشی ہے کہ میں اسے رزق عطا کروں ؟ کیا کوئی مصیبت کا مار اہے کہ میں اس کی مصیبت دور کروں؟ کیا کوئی ایسا ہے؟ کیا کوئی ایسا ہے؟ حتیٰ کہ صبح صادق کا وقت ہوجاتا ہے۔‘‘ (اخرجہ ابن ماجہ (کتاب اقامۃ الصلاۃ)، والبیہقی فی شعب الایمان، الدر المنثور للسیوطی، الترغیب والترہیب للمنذری،  لطائف المعارف للحافظ ابن رجب) اس رات میں ان اعمالِ صالحہ کا خاص اہتمام عشاء اور فجر کی نمازیں وقت پر ادا کریں، بقدرِ توفیق نفل نمازیں خاص کر نمازِ تہجد اد ا کریں۔ اگر ممکن ہو تو صلاۃ التسبیح پڑھیں۔ قرآن پاک کی تلاوت کریں۔ کثرت سے اللہ کا ذکر کریں۔ اللہ تعالیٰ سے خوب دعائیں مانگیں، خاص کر اپنے گناہوں کی مغفرت چاہیں۔ کسی کسی شبِ برأت میں قبرستان تشریف لے جائیں۔ اپنے اور میت کے لیے دعائے مغفرت کریں۔ لیکن ہر شب برأت میں قبرستان جانے کا خاص اہتمام کوئی ضروری نہیں ہے، کیونکہ پوری زندگی میں نبی اکرم a سے صرف ایک مرتبہ اس رات میں قبرستان جانا ثابت ہے۔  نوٹ:… شبِ برأت میں پوری رات جاگنا کوئی ضروری نہیں ہے، جتنا آسانی سے ممکن ہو‘ عبادت کرلیں۔ لیکن یاد رکھیں کہ کسی شخص کو آپ کے جاگنے کی وجہ سے تکلیف نہیں ہونی چاہیے۔ پندرہویں تاریخ کا روزہ شب برأت کی فضیلت کے متعلق بہت سی احادیث موجود ہیں، مگر شب برأت کے بعد آنے والے دن کے روزے کے متعلق صرف ایک ضعیف حدیث موجودہے ، لہٰذا ماہ شعبان میں صرف اور صرف پندرہویں تاریخ کے روزہ رکھنے کا بہت زیادہ اہتمام کرنا یا اس دن روزہ نہ رکھنے والے کو کم تر سمجھنا صحیح نہیں ہے، البتہ ماہِ شعبان میںکثرت سے روزے رکھنے چاہئیں۔ شب برأت میں غیر ثابت شدہ اعمال اس رات میں مندرجہ ذیل اعمال کا احادیث سے کوئی ثبوت نہیں ہے ، لہٰذا ان اعمال سے بالکل دور رہیں: حلوہ  پکانا: حلوہ پکانے سے شب برأت کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔ آتش بازی کرنا: یہ فضول خرچی ہے، نیز اس سے دوسروں کی املاک کو نقصان پہنچنے کا بھی خدشہ ہے۔ اجتماعی طور پر قبرستان جانا۔قبرستان میں عورتوں کا جانا: عورتوں کا کسی بھی وقت قبرستان جانا منع ہے۔ قبرستان میں چراغاں کرنا۔ مختلف قسم کے ڈیکوریشن کا اہتمام کرنا۔ عورتوں اور مردوں کا اختلاط کرنا۔ قبروں پر چادر چڑھانا: کسی بھی وقت قبروں پر چادر چڑھانا غلط ہے۔ نوٹ:… اس رات میں بقدرِ توفیق انفرادی عبادت کرنی چاہیے، لہٰذا اجتماعی عبادتوں سے حتیٰ الامکان اپنے آپ کو دور رکھیں، کیونکہ نبی اکرم a سے اس رات میں اجتماعی طور پر کوئی عبادت کرنا ثابت نہیں ہے۔  شبِ برأت میں جن کی مغفرت نہیں ہوتی جن گناہ گاروں کی اس بابرکت رات میں بھی مغفرت نہیں ہوتی، وہ یہ ہیں: ۱:…مشرک، ۲:…قاتل، ۳:…والدین کی نافرمانی کرنے والا، ۴:… بغض وعداوت رکھنے والا، ۵:…رشتہ توڑنے والا، ۶:…تکبرانہ طور پر ٹخنوں سے نیچے کپڑا پہننے والا، ۷:… شراب پینے والا، زنا کرنے والا۔ لہٰذا ہم سب کو تمام گناہوں سے خاص کر ان مذکورہ کبیرہ گناہوں سے بچنا چاہیے۔  خلاصۂ کلام ماہِ شعبان کی فضیلت اور اس میں زیادہ سے زیادہ روزہ رکھنے کے متعلق اُمت ِمسلمہ متفق ہے، البتہ پندرہویں رات کی خصوصی فضیلت کے متعلق علماء ، فقہاء اور محدثین کے درمیان زمانۂ قدیم سے اختلاف چلا آرہا ہے۔ علماء ، فقہاء اور محدثین کی ایک بڑی جماعت کی رائے ہے کہ اس باب سے متعلق احادیث کے قابل قبول (حسن لغیرہٖ) اور امت مسلمہ کا عمل ابتداء سے اس پر ہونے کی وجہ سے اس رات میں انفرادی طور پر نفل نمازوں کی ادائیگی، قرآن کریم کی تلاوت، ذکر اور دعاؤں کا کسی حد تک اہتمام کرنا چاہیے۔ کسی کسی شب برأت میں قبرستان بھی چلا جانا چاہیے۔ اس نوعیت سے اس رات میں عبادت کرنا بدعت نہیں، بلکہ اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے تمام نیک اعمال کو قبول فرمائے، آمین ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین