بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

شامت ِ اعمال

شامت ِ اعمال

 

حق تعالیٰ شانہٗ نے انسان کی سعادت وشقاوت کو اس کے اعمال سے وابستہ فرمایا ہے، ہر عمل پر اس کے مناسب ردّ عمل کا ظہور ہوتا ہے۔ بندوں کے جس قسم کے اعمال آسمان پر جائیں گے، اُنہی کے مناسب اُن کے حق میں آسمان سے فیصلے صادر ہوں گے۔ اعمالِ خیر پر خیر کے فیصلے آئیںگے اور اعمالِ شر پر دوسری نوعیت کے فیصلے ہوںگے۔ انفرادی اعمال پر افراد کے بارے میں شخصی فیصلے ہوںگے اور اجتماعی اعمال پر مجموعی طور پر قوم یا طبقہ کے بارے میں فیصلے ہوں گے۔
اعمال کے ثمرات ونتائج دنیا میں بھی رونما ہوتے ہیں اور آخرت میں بھی ہوں گے۔ اچھے اعمال پر جس طرح اخروی سعادت مرتب ہوتی ہے، اسی طرح دنیا میں سعادت وکامرانی نصیب ہوتی ہے۔ اور گندے اعمال پر آخرت کی شقاوت وخسران کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی عذاب کی شکلیں نمودار ہوتی ہیں۔ نیک وبد اعمال کے پورے نتائج کا ظہور تو آخرت میں ہوگا، کیونکہ کامل جزا وسزا کے لئے قیامت کا دن تجویز فرمایا گیا ہے، لیکن بطورِ نمونہ کچھ نتائج یا کم سے کم ان نتائج کی ہلکی سی جھلک، دنیا میں بھی رونما ہوتی ہے، تاکہ معاملہ یکسر اُدھار پر نہ رہے، بلکہ کچھ تھوڑا سانقد بھی دے دیا جائے۔
ہمارے یہاں جزا وسزا کے تصور میں دو غلطیاں بہت عام ہوگئی ہیں، قریباً سبہی عوام وخواص الا ماشاء اللہ! ان میں مبتلا نظر آتے ہیں:
 ایک: یہ کہ اچھے بُرے اعمال کے نتائج قیامت میں ظاہر ہوںگے، اُسی وقت جزا وسزا بھی ہوگی۔ ہماری اس دنیوی زندگی کو نیک وبد اعمال کی جزا وسزا سے کوئی تعلق نہیں۔ اس زندگی میں نیک وبد اعمال پر کوئی نتیجہ مرتب نہیں ہوتا، نہ یہاں کسی کو اپنے کئے کی جزا یا سزا ملتی ہے۔
دوم: یہ کہ آخرت کی جزا وسزا پر اگرچہ ایمان ہے، لیکن خواہشات کے غلبہ وتسلط، غفلت آمیز ماحول کی تاریکی اور دنیوی لذّات کی حلاوت وشیرینی نے آخرت کی جزا وسزا کے تصور کو بہت ہی دھندلا اور مضمحل کردیا ہے۔ اس کا استحضار ہی نہیں رہتا کہ جو اعمال ہم اپنے نامۂ عمل میں درج کرارہے ہیں، قیامت کے دن اُن کے ایک ایک ذرّہ کا حساب بھی دینا ہوگا:
’’فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ، وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّایَّرَہٗ‘‘۔ (الزلزال:۷،۸)
ترجمہ:…’’سو جو شخص (دنیا میں) ذرہ برابر نیکی کرے گا، وہ (وہاں) اس کو دیکھ لے گا اور جو شخص ذرہ برابر بدی کرے گا، وہ اس کو دیکھ لے گا‘‘۔  (ترجمہ حضرت تھانویؒ)
اور جن گناہوںکا بوجھ ہم آج لاد رہے ہیں، کل اُسے خود اپنی ناتواں کمر پر اٹھانا ہوگا:
’’وَہُمْ یَحْمِلُوْنَ أَوْزَارَہُمْ عَلٰی ظُہُوْرِہِمْ أَلاَسَائَ مَا یَزِرُوْنَ‘‘۔     (الانعام:۳۱)
ترجمہ:…’’اور حالت ان کی یہ ہوگی کہ وہ اپنے بار اپنی کمر پر لادے ہوں گے۔ خوب سن لو! کہ بری ہوگی وہ چیز جس کو لادیںگے‘‘۔    (ترجمہ حضرت تھانویؒ)
ہمارے طرزِ زندگی سے ایسا لگتا ہے کہ آخرت کی جزا وسزا کا ہمارے دنیوی اعمال سے کوئی ربط وتعلق نہیں، آخرت کا معاملہ اس دنیا سے یکسر بے تعلق ہے، ہم خواہ کیسے ہی عمل کرتے رہیں، ہم سے کوئی باز پُرس نہیں ہوگی، اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہیں، خود ہی معاف فرمادیںگے۔ ظاہر ہے کہ غفلت کی یہ کیفیت ہماری کھلی حماقت ہے، حدیث شریف میں ارشاد ہے:
’’الکیّس من دان نفسہ وعمل لما بعد الموت والعاجز من أتبع نفسہ ہواہا وتمنیٰ علی اﷲ‘‘۔                                    (مشکوٰۃ،ص:۴۵۱)
ترجمہ:…’’ہوشیار اور عقلمند تو وہ ہے جس نے اپنے نفس کو رام کرلیا اور موت کے بعد کی زندگی کے لئے عمل کیااور احمق ہے وہ شخص جس نے نفس کو اس کی خواہشات کے پیچھے لگادیا اور اللہ تعالیٰ پر آرزوئیں دھریں‘‘۔
الغرض ان دو غلطیوں میں مبتلا ہونے کی وجہ سے ہم اصلاحِ اعمال کی فکر سے بے نیاز ہیں، نہ اصلاحِ دنیا کے لئے اصلاحِ اعمال کی فکر ہے اور نہ اصلاحِ آخرت کے لئے۔
حکیم الامت حضرت اقدس تھانوی نور اللہ مرقدہٗ نے ان ہی دو غلطیوں کی اصلاح کے لئے رسالہ ’’جزاء الاعمال‘‘ تالیف فرمایا تھا، اس کی تمہید میں فرماتے ہیں:
’’یہ ناچیز ناکارہ اپنے دینی بھائیوں کی خدمت میں عرض رساں ہے کہ اس وقت میں جوحالت ہم لوگوں کی ہے کہ طاعت میں کاہلی وغفلت اور معاصی میں انہماک وجرأت وہ ظاہر ہے۔ جہاں تک غور کیا گیا، اس کی بڑی وجہ یہ معلوم ہوئی کہ اعمال حسنہ وسیئہ کی پاداش صرف آخرت میں سمجھتے ہیں، اس کی ہرگز خبر تک نہیں کہ دنیا میں بھی اس کا کچھ نتیجہ مرتب ہوتا ہے اور غلبۂ صفاتِ نفس کے سبب دنیا کی جزا وسزا پر چونکہ وہ سردست واقع ہوجاتی ہے، زیادہ نظر ہوتی ہے۔ پھر عالم آخرت میں بھی جزا وسزا کے وقوع کو گو عقیدۃً ان اعمال کا ثمرہ جانتے ہیں، مگرواقعی بات یہ ہے کہ جو علاقۂ قوی‘ مؤثر واثر میں اور سبب ومسبب میں سمجھنا چاہئے اور اسباب ومسببات دنیویہ میں سمجھتے ہیں، وہ علاقہ اس قوت کے ساتھ اعمال اور ان کے ثمراتِ آخرت میں ہرگز نہیں سمجھتے، بلکہ قریب قریب اس طرح کا خیال ہے کہ گویا اس عالم کے واقعات کا ایک مستقل سلسلہ ہے، جس کو چاہیںگے پکڑ کر سزا دے دیںگے، جس کو چاہیں گے خوش ہوکر نعمتوں سے مالامال کردیں گے۔ اعمال کو گویا اس میں کچھ دخل ہی نہیں ہے۔
(فائدہ:کوئی شخص یہ شبہ نہ کرے کہ اعمال کا دخل نہ ہونا تو صحیح حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے، جس میں آپ ا نے یہ فرمایا ہے کہ کوئی شخص عمل کے زور سے جنت میں نہ جاوے گا، انتہیٰ۔ دفعیہ اس شبہ کا یہ ہے کہ اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عمل کو بالکل دخل ہی نہیں ہے، بلکہ مقصود یہ ہے کہ عمل پر مغرور ہوکر نہ بیٹھ جاوے۔ جزوِ اخیر علّت تامّہ کا اللہ تعالیٰ کا فضل ہے، وبس! گویا یہ فضل بھی اعمالِ نیک سے نصیب ہوتا ہے، سو عمل ہی علت تامہ کا ایک جزو ٹھہرا۔ قال اﷲ تعالیٰ: ’’إِنَّ رَحْمَۃَ اﷲِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْن‘‘۔انتہیٰ)
حالانکہ یہ خیال بے شمار آیات واحادیث صحیحہ کے خلاف ہے، چنانچہ عنقریب تفصیلاً معلوم ہوتا ہے، انشاء اللہ تعالیٰ !۔اس لئے اس مرض کے دفع کرنے کے لئے دو امر ضروری خیال میں آئے:
اول: کتاب وسنت وملفوظاتِ محققین سے یہ دکھلادیا جائے کہ جیسے آخرت میں اعمال پر جزا وسزا واقع ہوگی، ایسے دنیا میں بھی بعض آثار ان کے واقع ہوئے ہیں۔
دوسرے: یہ ثابت کردیا جائے کہ اعمال میں اور ثمراتِ آخرت میں ایسا قوی علاقہ ہے، جیسا آگ جلانے میں اور کھانا پکانے میں یا کھانا کھانے میں اور شکم سیر ہوجانے میں یا پانی چھڑکنے میں اور آگ کے بجھ جانے میں۔ ان دونوں امروں کے ثبوت کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید قوی ہے کہ کہ سردست جزا اور سزا ہوجانے کے یقین سے اور اسی طرح کارخانۂ دنیا پر کارخانۂ آخرت کے مرتب ہونے کے غلبۂ اعتقاد سے طاعات میں رغبت اور معاصی سے نفرت پیدا ہوجانا سہل ہے۔ آئندہ توفیق وامداد حق تعالیٰ سبحانہ وتعالیٰ کی جانب سے ہے‘‘۔
قرآن کریم کی آیات بینات اور آنحضرت ا کے ارشادات طیبہ میں اعمال کے دنیوی نتائج بہ کثرت مذکور ہیں، آج کی صحبت میں اس سلسلہ کی ایک حدیث ذکر کی جاتی ہے۔
مؤطا امام مالکؒ ’’کتاب الجہاد باب ماجاء فی الغلول‘‘ میں حضرت ابن عباس ؓ کا ارشاد نقل کیا ہے:
’’ما ظہر الغلول فی قوم قط إلا ألقی فی قلوبہم الرعب ولا فشیٰ الزنا فی قوم إلا کثر فیہم الموت ولانقص قوم المکیال والمیزان إلا قطع عنہم الرزق، ولاحکم قوم بغیر الحق إلا فشیٰ فیہم الدم، ولاختر قوم بالعہد إلا سلط علیہم العدو‘‘۔     (مؤطا امام مالک، ص:۴۷۶، مؤطا امام محمد، ص:۳۶۹)
ترجمہ:…’’جس قوم میں خیانت عام ہوجاتی ہے، ا س کے دل میں رعب ڈال دیا جاتا ہے۔ اور جس قوم میں زنا عام ہوجاتا ہے، ان میں اموات کثرت سے واقع ہونے لگتی ہیں۔ جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے، ان کا رزق بند کردیا جاتا ہے۔ جو حق کے خلاف فیصلے کرتی ہے، اس میں خونریزی عام ہوجاتی ہے اور جو قوم عہد شکنی کرتی ہے، ان پر دشمن کا تسلط ہوجاتا ہے‘‘۔
اس حدیث میں جن پانچ گناہوں کے پانچ ہولناک نتائج ذکر کئے گئے ہیں، آج کا معاشرہ پوری طرح اُن کی لپیٹ میں ہے۔
۱…غلول: مال غنیمت میں خیانت کرنے کو کہتے ہیں اور کبھی اس کا اطلاق مطلق خیانت پر بھی آتا ہے، جس کے مقابلہ میں دیانت داری اور امانت کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ ’’امانت‘‘ اور ’’ایمان‘‘ قرین ہیں اور خیانت ایمان کی ضد ہے۔
حضرت انس بن مالکؓ خادمِ رسول اللہا فرماتے ہیں:
’’قلما خطبنا رسول اﷲ ا إلا قال لا إیمان لمن لا أمانۃ لہ ولادین لمن لا عہد لہ‘‘۔                                                  (مشکوٰۃ،ص:۱۵)
ترجمہ:…’’بہت کم ایسا ہوا ہوگا کہ آنحضرت ا نے ہمیں خطبہ دیا ہو اور اس میں یہ نہ فرمایا ہو کہ ایمان ہی نہیں اس شخص کا جس کے لئے امانت نہیں اور دین ہی نہیں اس شخص کا جس کو اپنے عہد کا پاس نہیں‘‘۔
دوسرے نصوص کے پیش نظر یہ حدیث اور اس نوعیت کی دیگر احادیث مؤوّل ہیں، یعنی اہل علم کے نزدیک ان میں اصل ایمان کی نفی نہیں، بلکہ کمالِ ایمان کی نفی مقصود ہے۔ تاہم بظاہر اس سے ایمان وخیانت کے درمیان جو ضدیت مفہوم ہوتی ہے، اس کو نمایاں کرنا مقصود ہے۔ الغرض ایمان دار معاشرہ خائن نہیں ہوتا اور نہ خائن معاشرہ اسلامی معاشرہ کہلانے کا مستحق ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں امانت ودیانت نام کی کوئی چیز ڈھونڈنے کو بھی نہیں ملتی، إلا ماشاء اللہ !۔ زندگی کا کونسا شعبہ ہے جس میں خیانت وبددیانتی سرایت نہ کر گئی ہو؟ اور نجی اداروں یا سرکاری محکموں میں کونسا ادارہ اور کونسا محکمہ ایسا ہے جو اس گندگی سے محفوظ ہو؟ گذشتہ دنوں وفاقی محتسب کا بیان اخبارات میں شائع ہوا تھا کہ:
’’اب تک قومی بچت کے ادارے میں فراڈ کے ۱۷۹ واقعات ہوچکے ہیں اور کراچی کے ایک واقعہ میں غبن کی گئی رقم تین کروڑ سے زائد ہے اور ابھی جن کیسوں کو نمٹانا باقی ہے، ان کی تعداد ایک سو سے متجاوز ہے‘‘۔
                                            (روز نامہ جنگ، کراچی ۸؍جولائی ۱۹۸۷ء)
یہ صرف ایک ادارے کے اُن واقعات کے اعداد وشمار ہیں جن کی شکایت وفاقی محتسب تک پہنچ سکی ہے۔ اس سے ہمارے معاشرے میں دیانت وامانت کے معیار کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
’’قیاس کن زِ گلستان من بہارِ مُرا‘‘
آج کل اخبارات میں اینٹی کرپشن کمیٹی کے چیئرمین کے بڑے دھواں دار بیانات اخبارات میں آرہے ہیں۔ خدا کرے یہ کمیٹی صورت حال کی اصلاح میں کسی حد تک کامیاب ہوجائے اور دیگر بہت سی کمیٹیوں اور اداروں کی طرح یہ خود ہی کرپشن کا شکار نہ ہوجائے۔
اسی بڑھی ہوئی خیانت وبددیانتی کا نتیجہ ہے کہ امن وامان مفقود ہے، ہر شخص پر خوف وہراس کی کیفیت طاری ہے۔ اس بدامنی سے نہ گھر محفوظ ہیں، نہ سڑکیں، نہ بازار، نہ دفاتر، نہ کالج، نہ جامعات، نہ مدارس، نہ مساجد ۔إنا ﷲ وإنا إلیہ راجعون۔
اس بددیانتی وخیانت کی فراوانی کا اصل سبب یہ ہے کہ کسی شخص کا کسی عہدہ ومنصب کے لئے انتخاب کرتے ہوئے اس کی تعلیم، سند اور ڈگری کو (یا پھر سفارش ورشوت کو) معیار بنایاجاتا ہے۔ یہ دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی کہ اس شخص کے دین ودیانت اور ایمان وامانت کا معیار کیا ہے؟
۲…حدیث کا دوسرا فقرہ یہ ہے کہ جس قوم میں زنا عام ہوجاتا ہے، اس میں اموات بہ کثرت واقع ہوتی ہیں۔ زنا کے عام ہوجانے میں اُس کے اسباب کو بڑا دخل ہے۔ ہمارے معاشرے میں زنا کے اسباب اس قدر عام ہیں کہ بھلے زمانوں میں اُن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ عورتوں کی بے حجابی وعریانی، لڑکوں، لڑکیوں کی مخلوط تعلیم، مرد وزن کا بے حجابا نہ اختلاط، ہر شعبۂ زندگی میں مرد وعورت کے دوش بدوش چلنے اور چلانے کا جنون، رومانی فلمیں اور فیچر، ہیجان انگیز گانے اور نغمے…۔ الغرض اسبابِ زنا کا ایک طوفان ہے، جس میں قوم گلے گلے تک ڈوب رہی ہے اور اس طوفان کی قوت وشدت روز افزون ہے۔ اس طوفان کو دیکھ کر نوجوان نسل بزبانِ حال یہ کہہ رہی ہے:
درمیانِ قعرِ دریا تختہ بندم کردہ ای
باز می گوئی کہ دامن تر مکن ہوشیار باش!
سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ نو خیز نسل جس کو صنف مخالف سے اختلاط کی تمام سہولتیں حاصل ہوں اور اس اختلاط کی راہ میں اُن پر کوئی پابندی عائد نہ ہو، اُس سے یہ توقع کیسے کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنی عفت وعصمت کو آلودگی سے بچانے میں کامیاب ہوجائے؟!۔ لاعاصم الیوم من أمر اﷲ إلا من رحم۔
ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ناخدایانِ قوم کو نسل جدید کی ان مشکلات کا کوئی احساس نہیں اورنہ اُسے اس طوفانِ نوح سے بچانے کے لئے کوئی تدبیر کبھی زیر غور آتی ہے۔بلکہ بہت سے قلم، جن کی آواز مؤثر ہے اور جو مسکین خود بادۂ جنسیت کے میگسار ہیں، وہ ’’آزادئ نسواں‘‘ کا علم اٹھائے، اس صورت حال کو مزید سنگین بنانے میں مصروف ہیں۔ چند بڑے گھرانے کی ’’بیگمات‘‘ ان کی آلۂ کار ہیں اور ناخدایانِ قوم ان بیگمات کے اشارۂ چشم وابرو پر رقص کرنے کو عین سعادت اور ’’صحیح خدمت اسلام‘‘ سمجھتے ہیں۔ انصاف فرمایئے! کیا یہ کسی اسلامی معاشرہ کے خطّ وخال ہیں؟ اور جو معاشرہ اس طرح ’’جنسی وبا‘‘ کی لپیٹ میں آجائے، اس میں نت نئے امراض کا ظہور اور کثرتِ اموات کا وقوع اس صورت حال کا فطری نتیجہ ہے۔
۳…حدیث کا تیسرا فقرہ ہے کہ جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے، وہ رزق کی بندش کے عذاب میں مبتلا ہوجاتی ہے۔ ’’ناپ تول میں کمی‘‘کا مفہوم عام ہے کہ جس مقدار کی تعیین کے لئے جو پیمانہ مقرر ہے، اُسے پورا نہ کیا جائے اور صاحب حق کا حق پورا ادا نہ کیا جائے۔ حضرت اقدس مفتی محمد شفیعؒ ’’معارف القرآن‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’قرآن وحدیث میں ناپ تول میں کمی کرنے کو حرام قرار دیا ہے، کیونکہ عام طور سے معاملات کا لین دین انہی دو طریقوں سے ہوتا ہے۔ انہی کے ذریعہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ حق دار کا حق ادا ہوگیا یا نہیں، لیکن یہ معلوم ہے کہ مقصود اس سے ہرایک حق دار کا حق پورا پورا دینا ہے، اس میں کمی کرنا حرام ہے۔ تو معلوم ہوا کہ یہ صرف ناپ تول کے ساتھ مخصوص نہیں، بلکہ ہر وہ چیز جس سے کسی کا حق پورا کرنا یا نہ کرنا جانچا جاتا ہے، اس کا یہی حکم ہے، خواہ ناپ تول سے ہو یا عدد شماری سے یا کسی اور طریقے سے، ہرایک میں حقدار کے حق سے کم دینا بحکم تطفیف حرام ہے۔
مؤطا امام مالک میں ہے کہ حضرت عمر بن خطابؓ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ نماز کے رکوع سجدے وغیرہ پورے نہیں کرتا، جلدی جلدی نماز ختم کرڈالتا ہے تو اس کو فرمایا:’’لقد طففت ‘‘یعنی تو نے اللہ کے حق میں تطفیف کردی۔ حضرت فاروق اعظمؓ کے اس قول کو نقل کرکے حضرت امام مالکؒ نے فرمایا: ’’لکل شئ وفاء وتطفیف‘‘ یعنی پورا حق دینا یا کم کرنا ہر چیز میں ہے۔ یہاں تک کہ نماز، وضو، طہارت میں بھی اور اسی طرح حقوق اللہ اور عبادات میں کمی کوتاہی کرنے والا تطفیف کرنے کا مجرم ہے۔ اسی طرح حقوق العباد میں جو شخص مقررہ حق سے کم کرتا ہے، وہ بھی تطفیف کے حکم میں ہے۔مزدور، ملازم نے جتنے وقت کی خدمت کا معاہدہ کیا ہے، اس میں سے وقت چُرانا اور کم کرنا بھی اس میں داخل ہے۔ وقت کے اندر جس طرح محنت سے کام کرنے کا عرف میں معمول ہے، اس میں سستی کرنا بھی تطفیف ہے۔ اس میں عام لوگوں میں، یہاں تک کہ اہل علم میں بھی غفلت پائی جاتی ہے، اپنی ملازمت کے فرائض میں کمی کرنے کو کوئی گناہ ہی نہیں سمجھتا۔أعاذنا اﷲ منہ‘‘۔          (معارف القرآن،ج:۸،ص:۶۹۳،۶۹۴)
’’ناپ تول میں کمی‘‘اور حقوق ادا کرنے کے جو پیمانے مقرر ہیں،ان کو پورا نہ کرنے کی بیماری بھی ہمارے معاشرے میں عام ہے، جیساکہ مندرجہ بالا اقتباس میں حضرت مفتی صاحبؒ نے اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ ہزاروں میں کوئی ایک ہوگا جو مقررہ پیمانے کو پورا ادا نہ کرنے کا مریض نہ ہو۔یہی وجہ ہے کہ اس کی سزا یعنی رزق کی بندش بھی عام ہور ہی ہے۔ رزق کی بندش کی بھی بہت سی صورتیں ہیں: ایک یہ کہ رزق کا قحط ہوجائے۔ ایک صورت یہ ہے کہ چیزوں کی تو فراوانی اور بہتات ہو، مگر صارفین کی قوتِ خرید میں کمی واقع ہوجائے۔ ایک صورت یہ ہے کہ رزق سے برکت اٹھ جائے اور( الا ماشاء اللہ!) ہر شخص کو قلتِ وسائل کی شکایت ہو۔
غور فرمایئے! تو ہمارے یہاں ’’بندشِ رزق‘‘ کی یہ ساری صورتیں پائی جاتی ہیں اور رزق کے معاملے میں معاشرے کی اکثریت حیران وپریشان ہے۔ بے روزگاری عام ہورہی ہے اور اس کے نتیجہ میں نوجوان نسل منفی جذبات کی آماجگاہ بن رہی ہے۔ معمولی سی بات پر لڑائی جھگڑا، قتل وقتال اور قومی املاک کی توڑ پھوڑ گویا روز مرہ کا معمول بن رہا ہے۔ کوئی دن ایسا نہ ہوگا جو اس نوعیت کے ناخوشگوار واقعات سے خالی گذرتاہو۔
حضرت مفتی صاحبؒ ’’قطعِ رزق‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’حدیث میں جن لوگوں کا رزق قطع کردینے کا ارشاد ہے، اس کی یہ صورت بھی ہوسکتی ہے کہ اس کو رزق سے بالکل محروم کردیا جائے اور یہ صورت بھی قطع رزق ہی میں داخل ہے کہ رزق موجود ہوتے ہوئے وہ اس کو کھا نہ سکے یا استعمال نہ کر سکے، جیسے بہت سی بیماریوں میں اس کا مشاہدہ ہوتا ہے اور اس زمانے میں بہت عام ہے۔ اسی طرح قحط کی یہ صورت بھی ہوسکتی ہے کہ اشیاء ضرورت مفقود ہوجائیں اور یہ بھی ہوسکتی ہے کہ موجود بلکہ کثیر ہونے کے باوجود ان کی گرانی اتنی بڑھ جائے کہ خریداری مشکل ہوجائے، جیساکہ آجکل اس کا مشاہدہ اکثر چیزوں میں ہورہا ہے۔ اور حدیث میں فقر مسلط کرنے کا ارشاد ہے، اس کے معنی صرف یہی نہیں کہ روپیہ، پیسہ اور ضرورت کی اشیاء اس کے پاس نہ رہیں، بلکہ فقر کے اصل معنی محتاجی اور حاجت مندی کے ہیں۔ ہر شخص اپنے کاروبار اور ضروریاتِ زندگی میں دوسروں کا جتنا محتاج ہو، وہ اتنا ہی فقیر ہے۔ اس زمانے کے حالات پر غور کیا جائے تو انسان اپنے رہن سہن اور نقل وحرکت اور اپنے ارادوں کے پورا کرنے میں ایسے ایسے قوانین میں جکڑا ہوا نظر آتا ہے کہ اس کے لقمہ اور کلمہ تک پر پابندیاں ہیں۔ اپنا مال موجود ہوتے ہوئے خریداری میں آزاد نہیں کہ جہاں سے چاہے کچھ خریدے، سفر میں آزاد نہیں کہ جب کہیں جانا چاہے چلا جائے۔ ایسی ایسی پابندیوں میں انسان جکڑا گیا ہے کہ ہرکام کے لئے دفتر گردی اور افسروں سے لے کر چپراسیوں تک کی خوشامدکئے بغیر زندگی گزارنا مشکل ہے۔ یہ سب محتاجی ہی تو ہے، جس کا دوسرا نام فقر ہے۔ اس تفصیل سے وہ شبہات رفع ہوگئے جو حدیث کے ارشاد کے متعلق ظاہری حالات کے اعتبار سے ہوسکتے ہیں‘‘۔      (معارف القرآن،ج:۸،ص: ۶۸۴،۶۹۵)
۴…حدیث کا چوتھا فقرہ یہ ہے کہ جو قوم حق کے خلاف فیصلے کرتی ہے، اس میں قتل وخونریزی عام ہوجاتی ہے۔ ’’حق کے مطابق فیصلہ‘‘ کرنے کا مطلب ہے ’’صحیح قانون کے مطابق صحیح فیصلہ کرنا‘‘ گویا اس کے مفہوم میں دو چیزیں شامل ہیں: ایک یہ کہ قانون کے مطابق بے لوث فیصلہ کیا جائے، جس میں نہ کسی کی رو رعایت ہو، نہ لالچ یا سفارش کار فرماہو۔ دوم یہ کہ جس قانون کے مطابق فیصلہ کیا گیا، وہ قانون بھی بجائے خود صحیح اور برحق ہو۔ پس اگر قانون ہی غلط ہو، ظالمانہ ہو تو اس کے مطابق جو فیصلہ بھی کیا جائے گا،وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک عدل وانصاف کا فیصلہ نہیں ہوگا اور ایسے فیصلے کرنے والا ’’ناحق فیصلہ‘‘ کی وعید کا مستحق ہوگا، وہ قیامت کے دن یہ عذر نہیں کرسکے گا کہ میں نے قانون کے مطابق فیصلہ کیا تھا۔اسی طرح اگر قانون تو صحیح اور برحق ہے، مگر فیصلہ کرنے والے نے قانون کے مطابق بے لَوث اور بے لاگ فیصلہ نہیں کیا، بلکہ رشوت وسفارش یا قرابت کی وجہ سے ایک فریق کی رعایت کی گئی تو یہ فیصلہ بھی ظالمانہ اور جابرانہ فیصلہ ہوگا۔
بدقسمتی سے ہمارے یہاں ’’حق کے مطابق فیصلہ‘‘ کی دونوں شرطیں مفقود ہیں۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک ہمارے یہاں انگریز کا قانون بعض جزوی ترمیمات کے ساتھ نافذ ہے اور ہماری عدالتیں(اگر ان کو عدالت کہنا صحیح ہے)اسی کے مطابق فیصلے کرنے کی پابند ہیں۔ گویا ہمارے یہاں عدالتوں میں ’’ماأنزل اﷲ‘‘ کے بجائے ’’ما أنزل الانکلیز‘‘ کے مطابق فیصلے ہوتے ہیں۔
اور پھر جس قسم کا قانون بھی نافذ ہے، صحیح یا غلط فیصلے اس کے مطابق نہیں ہوتے، بلکہ رشوت وسفارش کے مطابق فیصلے ہوتے ہیں۔ رشوت وسفارش کا طوفان قانون کی حکمرانی کو بہاکر لے گیا ہے، چنانچہ قانون ظالم سے مظلوم کو حق دلانے سے قاصر ہے، اس کی حیثیت منڈی کے بکاؤ مال کی ہے کہ جو شخص بھی اس کے زیادہ دام لگائے، قانون اس کی چاکری کے لئے حاضر ہے، کسی دانا کا یہ قول بالکل صحیح ہے کہ:
’’قانون مکڑی کا جالا ہے، یہ کمزور کو پھانس لیتا ہے اور طاقت ور اُسے توڑ دیتا ہے‘‘۔
ان دو چیزوں کے علاوہ موجودہ عدالتی نظام اتنا پیچیدہ اور اتنا مہنگا ہے، عام آدمی اس سے داد رسی کی کوئی توقع نہیں رکھتا، بلکہ عدالت کے لفظ ہی سے پناہ مانگتا ہے اور اگر عدالت سے رجوع کرنا ہی پڑے تو حصولِ انصاف کے طول وطویل راستے کو اپنی زندگی میں قطع کرنے کی اُسے کوئی توقع نہیں ہوتی۔ دیوانی مقدمات میں زیادہ تر فیصلہ باپ کے بجائے بیٹے کی زندگی میں ہوتا ہے اور بسا اوقات دادا کے مقدمہ کا فیصلہ پوتے کو سنایاجاتا ہے۔ فوجداری مقدمات میں بھی سالہا سال تک جیلوں میں پڑے سڑتے رہتے ہیں اور عدالت ایک طویل عرصے کے بعد فیصلہ کرتی ہے کہ وہ مجرم ہیں یا بے قصور؟ اور بے قصور ہونے کی صورت میں اُنہیں عدالت کے دروازے پر انصاف کی بھیک مانگنے کے جرم میں طویل عرصہ جیل کی ہوا کھانی پڑتی ہے۔
الغرض ہمارے موجودہ عدالتی نظام میں اول تو وہ قانون ہی (الا ماشاء اللہ!) غلط اور ناحق ہے، جس کے مطابق فیصلے کئے جاتے ہیں۔
دوسرے: یہ عدالتی فیصلے اکثر وبیشتر بے لَوث نہیں، بلکہ رشوت وسفارش یا دوستی وقرابت کی بنا پر کئے جاتے ہیں۔
تیسرے: انصاف مفت تو کیا، سستا بھی مہیا نہیں ہوتا۔ ہمارے ملک میں انصاف ایسی گراں جنس ہے کہ غریب آدمی کی دسترس سے باہر ہے۔
چوتھے: یہ عدالتی نظام ایسا پیچ در پیچ ہے کہ دادرسی کے طالب کا پیمانۂ عمر لبریز ہوجاتا ہے اور وہ قید حیات سے رہائی حاصل کرلیتا ہے، وہ عدالت اُسے انصاف دلانے سے قاصر رہتی ہے۔ یہ تمام تر صورت حال ظلم درظلم، درظلم، درظلم کی ہے، جس کی چکی میں ’’انصاف کے نام‘‘ پر معاشرہ پِس رہا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ قانون کا احترام اُٹھ گیا ہے اور قانون کو ہاتھ میں لینے کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے اور اس کے نتیجہ میں انارکی، افراتفری، فتنہ وفساد اور قتل وغارت کے لاوے پھوٹ رہے ہیں۔ یہ وہ صورتحال ہے جس کا نقشہ حدیث شریف میں ان الفاظ میں کھینچا گیا ہے کہ: ’’جب کوئی قوم ناحق فیصلے کرتی ہے تو اُن میں خونریزی عام ہوجاتی ہے‘‘۔
حدیث شریف کا پانچواں فقرہ عہد شکنی سے متعلق ہے کہ جب کوئی قوم اپنے کئے ہوئے معاہدوں کا پاس نہیں کرتی، بلکہ عہد شکنی کا ارتکاب کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ اُس پر دشمن کو مسلط کردیتے ہیں۔ اس سے غالباًوہ سرکاری معاہدات مراد ہیں جو غیر قوموں کے ساتھ کئے جاتے ہیں۔ عہد شکنی بجائے خود ایک بدترین جرم ہے، لیکن غیر قوموں کے ساتھ کئے گئے معاہدات میں عہد شکنی کرنا اس جرم کو اور زیادہ سنگین کردیتا ہے اور بالآخر یہ عہد شکنی مسلمانوں کی ذلت ورسوائی اور اُن پر دشمن کے تسلط کا سبب بن جاتی ہے۔ نعوذ باﷲ من ذلک۔
خلاصہ یہ کہ آج ہم جن پریشانیوں میں مبتلا ہیں، وہ ہماری شامتِ اعمال کا نتیجہ ہیں۔ اس صورت حال کو نہ تو کانفرنسوں اور جلسوں کے ذریعہ بدلا جاسکتا ہے، نہ حکومت کی تبدیلی اس کا حل ہے، نہ انتخاب، نہ پارلیمنٹ۔ ان پریشانیوں کے ازالہ کی بس ایک صورت ہے کہ ہم اپنی بدعملیوں سے توبہ کریں اور اصلاحِ احوال کے لئے اصلاحِ اعمال کا راستہ اختیار کریں۔ حق تعالیٰ شانہٗ ہمارے حال پر رحم فرمائیں، ہماری کوتاہیوں اور لغزشوں کو معاف فرمائیں اور اعمالِ صالحہ اختیار کرنے کی صورت میں جس ’’حیات طیبۃ‘‘ کا وعدہ فرمایاگیا ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں بھی نصیب فرمائیں۔
وصلی اﷲ تعالیٰ علی خیر خلقہ سیدنا ومولانا محمد النبی الأمی نبی الرحمۃ وعلی آلہ وأصحابہ وأتباعہ أجمعین۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین