بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

سنت کی اہمیت اور ہمارا معاشرہ

سنت کی اہمیت اور ہمارا معاشرہ

    ایک عرصہ سے یہ بات ذہن میں تھی کہ سنت کی اہمیت پر چند چیزیں جمع کروں، کیونکہ ہمارے معاشرے میں عام خیال یہ ہے کہ جب کسی عمل کو سنت کہا جاتا ہے تو اس کو صرف اتنی اہمیت دی جاتی ہے کہ کرنے پر تو ثواب ہے، لیکن چھوڑنے پر باز پرس نہیں ہوگی، حالانکہ صحابہ کرام s تو جب سنت کا سنتے تو کان کھڑے ہوجاتے اور اس کو کر گزرتے، جبکہ ہمارے معاشرے میں سنت کو ٹال دیا جاتاہے، گویا یہ عمل کرنے کی چیز ہی نہیں۔ سنت کا لغوی معنی     لغوی معنی: خاص طریقہ، ضابطہ، طرز، وغیرہ۔ سنت کا اصطلاحی معنی     محدثین کے نزدیک سنت: ہر وہ قول، فعل، تقریر اور صفت ہے (چاہے پیدائشی ہو یا بعد میں اپنائی ہوئی ہو) جس کی نسبت نبی کریم a کی طرف کی جائے، برابر ہے کہ وہ رسالت ملنے سے پہلے ہو یا بعد میں۔     فقہاء کے نزدیک سنت کی تعریف یہ ہے کہ: ہر وہ فعل جس کو نبی کریم a نے عبادت کی حیثیت سے ہمیشہ کیا ہو اور کبھی کبھار بغیر کسی عذر کے اس کو چھوڑا بھی ہو۔     لفظ ’’سنت‘‘ جب نبی کریم a، صحابہ sاور کبار تابعین wاستعمال فرماتے ہیں تو اس کا معنی ہوتا ہے: ’’شریعت میں بتایاہوا ہر وہ طریقہ جس کی دین میں پیروی کی جاتی ہے‘‘۔ اس تعریف میں وسعت ہے اور اس میں فقہاء کی اصطلاحیں: واجب، سنت اور مستحب تمام شامل ہیں، جیساکہ علامہ جمال الدین قاسمی vنے ’’قواعد التحدیث‘‘ میں اس بات کی طرف نشاندہی کی ہے، فرمایا:  ’’ تنبیہ - ذکرنا أن السنۃ لغۃ : الطریقۃ، والمراد بہا فی اصطلاح الشارع وأہل عصرہٖ ما دل علیہ دلیل من قولہٖ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أو فعلہٖ أو تقریرہٖ ولہٰذا جعلت السنۃ مقابلۃ للقرآن، وبہٰذا الاعتبار تطلق علی الواجب، کما تطلق علٰی المندوب، وأما ما اصطلح علیہ الفقہاء وأہل الأصول من أنہا خلاف الواجب فہو اصطلاح حادث وعرف متجدد‘‘۔                       (قواعد التحدیث،ص:۱۴۶) ’’تنبیہ- ہم  بیان کرچکے کہ سنت کا لغوی معنی ہے: خاص طرز وانداز، جبکہ صاحب شریعت -علیہ السلام- اور ان کے دور میں سنت ہر اس چیز کا نام ہے جس کی طرف رہنمائی نبی کریمa کے قول، فعل اور تقریر سے ملتی ہو، اس وجہ سے سنت کو قرآن کریم کے مقابل علیحدہ درجہ دیا گیا، اس حیثیت سے واجب پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے جس طرح مستحب پر، اور جہاں تک فقہاء اور اصولیوں کی اصطلاح میں ’’سنت‘‘ کا تعلق ہے تو یہ واجب سے ہٹ کر علیحدہ درجہ ہے، لہٰذا یہ بعد کی اصطلاح ہے اور نیا عرف ہے‘‘۔     لہٰذا احادیث مبارکہ میں جب ’’من السنۃ کذا‘‘یا ’’سنتی‘‘ وغیرہ استعمال ہوتے ہیں تو  واجب، سنت اور مستحب تینوں میں سے کوئی بھی حکم اس سے مراد ہوسکتا ہے۔     جب فقہی اصطلاح میں لفظ ’’سنت‘‘ مشہور ہوا تو لوگوں نے حدیث میں سنت کے لفظ سے وہی معنی مراد لینا شروع کردیا جس میں اس عمل کے کرنے کی ترغیب ہوتی ہے اور اس کا کرنا لازم نہیںہوتا، اس طرف توجہ کی ضرورت ہے، تاکہ حدیث کے معنی میں غلط فہمی سے بچا جاسکے۔     خلاصہ کلام یہ ہے کہ سنت‘ فقہاء کی اصطلاح میں فرض وواجب سے کم تر درجہ رکھتی ہے، جبکہ احادیث میں وارد لفظ ’’سنت‘‘ واجب، سنت اور مستحب تینوں پر بولاگیا ہے، لہٰذا کسی عمل کے سنت ہونے پر نبی کریم a، صحابہ sاور کبار تابعین w کے لفظ ’’سنت‘‘ کے استعمال سے استدلال نہیں کیا جاسکتا۔     احادیث مبارکہ سے چند مثالیں جن میں لفظ ’’سنت‘‘ استعمال ہوا ہے: ۱-عن أنس ؓ قال: قال لی رسول اللّٰہ a: با بنیّ! إن قدرت أن تصبح وتمسی لیس فی قلبک غشّ لأحد فافعل، ثم قال لی: با بنیّ! وذلک من سنتی، ومن أحیا سنتی فقد أحبنی، ومن أحبنی کان معی فی الجنۃ‘‘۔  (رواہ الترمذی فی ابواب العلم، ج:۷،ص:۳۲۲) ترجمہ:…’’حضرت انسq سے روایت ہے، فرماتے ہیں: مجھ سے رسول اللہ a نے فرمایا: اے میرے پیارے بیٹے! اگر تم صبح وشام اس حال میں کر سکو کہ تمہارے دل میں کسی کے لیے کینہ نہ ہو تو ایسا کرو، پھر مجھ سے فرمایا: اے میرے پیارے بیٹے! یہ میری سنت (وطریقہ) میں سے ہے اور جس نے میری سنت کو زندہ کیا تو اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی تو وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا‘‘۔     فائدہ: اس حدیث شریف میں لفظ ’’سنت‘‘ طریقے کے معنی میں استعمال ہوا، نہ کہ واجب سے کم تردرجہ کے لیے۔ ۲-عن عروۃ بن الزبیرq قال: قلت لعائشۃ t  زوج النبی a: ما أری علی أحد لم یطف بین الصفا والمروۃ شیئاً وما أبالی أن لا أطوف بینہما، قالت: بئس ما قلت یا ابن أختی! طاف رسول اللّٰہa وطاف المسلمون، فکانت سنۃ۔۔۔الخ ‘‘۔    (رواہ مسلم فی کتاب الحج، ج:۹،ص:۲۵) ’’وفی روایۃ قالت عائشۃt: قد سنّ رسول اللّٰہ a الطواف بینہما، فلیس لأحد أن یترک الطواف بینہما‘‘۔                 (رواہ مسلم فی کتاب الحج،ج:۹،ص:۲۶) ترجمہ:…’’حضرت عروہv سے روایت ہے، فرماتے ہیں: میں نے حضور a کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ t سے کہا کہ میرے خیال میں جس نے صفا ومروہ کے درمیان سعی نہیں کی اس پر کوئی گناہ نہیں، اور مجھے کوئی پرواہ نہیں جبکہ میں ان دونوں (یعنی صفا ومروہ) کے درمیان سعی نہ کروں۔حضرت عائشہ tنے فرمایا: تم نے غلط کہا۔ اے میرے بھانجے! اللہ کے رسول a اور صحابہ sنے دونوں کے درمیان طواف (سعی) کیا ہے، تو یہ ضابطہ ہوگیا ،الخ‘‘۔ ۔۔۔۔۔۔۔ایک دوسری روایت میں حضرت عائشہ tفرماتی ہیں: اللہ کے رسول a نے صفا ومروہ کے درمیان سعی کو ضابطہ قرار دیا ہے، چنانچہ کسی کے لیے ان دونوں کے درمیان سعی چھوڑنے کی گنجائش نہیں۔     فائدہ :اس حدیث شریف کی تشریح کرتے ہوئے حافظ ابن حجرvفتح الباری میں فرماتے ہیں: ’’ تنبیہ: قول عائشۃؓ ’’سنّ رسول اللّٰہ a الطواف بین الصفا والمروۃ‘‘ أی فرضہ بالسنۃ، ولیس مرادہا نفی فرضیتہا‘‘۔              (فتح الباری،ج:۳،ص:۵۰۱)     مفہوم: حضرت عائشہ tنے ’’سنّ‘‘ کہہ کر اس کی فرضیت مراد لی، نہ کہ فرضیت کا انکار کیا ہے۔     ۳-حضرت ابو ہریرہ qکی وہ روایت جس میں حضرت خبیب بن عدی qکے ظلماً قتل کا تذکرہ ہے، اس میں حضرت ابو ہریرہ qکہتے ہیں : ’’فکان خبیب ہو سنّ الرکعتین لکل امرئ مسلم قتل صبرًا‘‘۔                                                      (رواہ البخاری فی کتاب الجہاد، ج:۳،ص:۱۱۰۸) ترجمہ:…’’تو خبیبq ہی وہ شخص ہیں جنہوں نے دو رکعتوں کی بنیاد رکھی ہر اس مظلوم مسلمان کے لیے جس کو قتل کیا جارہا ہو‘‘۔     فائدہ: اس حدیث شریف میں بھی حضرت ابوہریرہ qنے ’’سن‘‘ کا لفظ طریقے کے لیے استعمال کیا، ا س کو کوئی قتل کے وقت دو رکعت کے سنت ہونے کے لیے دلیل نہیں بنا سکتا۔ ۴-عن أنس q أن أہل الیمن قدموا علی رسول اللّٰہ a، فقالوا: أبعث معنا رجلاً یعلمنا السنۃ والإسلام، قال: فأخذ بید أبی عبیدۃؓ، فقال: ہذا أمین ہذہٖ الأمۃ‘‘۔                                   (رواہ مسلم فی کتاب الفضائل، ج:۱۰،ص:۱۸۷) ترجمہ:…’’حضرت انس q سے روایت ہے کہ یمن کے لوگ نبی اکرم a کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہمارے ساتھ کوئی ایسا شخص بھیج دیجئے جوہمیں اسلام اور (دین ) کاراستہ اور طریقہ کار سکھائے۔ حضرت انس qنے کہا کہ: پھر حضور a نے حضرت ابو عبیدہ qکا ہاتھ پکڑ کے فرمایا: یہ اس امت کا امانت دار ہے‘‘۔     فائدہ: اس حدیث شریف میں بھی لفظ ’’سنت‘‘ راستے اور طریقہ کار کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور یہ اس درجہ کے لیے استعمال نہیں ہوا جو واجب سے کم تر ہوتا ہے۔     ان مثالوں سے یہ بات خوب واضح ہوگئی کہ سنت کا معنی حدیث میں ’’الطریقۃ المسلوکۃ فی الدین‘‘ ہے،یعنی ’’شریعت کا بتایا ہوا ہر وہ طریقہ وانداز جس کی پیروی کی جاتی ہے۔سنت کی اس تعریف کو علامہ جرجانی vنے اپنی تصنیف ’’کتاب التعریفات‘‘ میں ذکر کیا ہے۔     ہمارے معاشرے میں بعض لوگوں سے جب کہا جاتا ہے کہ آپ نے فلاں سنت ترک کردی تو جواب ملتا ہے: جی سنت ہی تو ہے، جبکہ سنت میں کرنے کا پہلو بھی ہے، اس طرف توجہ نہیں ہوتی، جبکہ ہمارے بڑے تو شریعت کے ہرحکم کی بجا آوری میں کوشاں رہتے تھے اور یہ نہیں دیکھتے تھے کہ یہ فرض ہے، واجب ہے، سنت ہے یا مستحب، بلکہ کر گزرتے تھے۔     سنتوں پر عمل پیرا ہونا فرائض وواجبات کی حفاظت کا سبب ہے اور اللہ جل شانہٗ اور اس کے رسول a سے عشق ومحبت کی علامت ہے۔     اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو شریعت کے ہرہر حکم کی تابعداری کی توفیق نصیب فرمائے، آمین بجاہ حرمۃ النبی الأمی الکریم۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین