بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

سنِ ہجری!

سنِ ہجری!

محرم الحرام سے نئے سال کا آغاز ہوتا ہے،گویا ہجرتِ نبوی (l) سے اب تک زمانہ گردشِ ایام کی تیرہ سو بانوے منزلیں طے کر چکا ہے، اور آج سے ٹھیک آٹھ سال بعد زمانہ صد سالہ کروٹ بدل کر چودھویں صدی میں منتقل ہو جائے گا۔ صدی کا آخری حصہ عموماً تنزل وانحطاط کا دور ہوتا ہے۔ گزشتہ چند سالوںمیں اُمت جن حوادث سے دوچار ہوئی، انسانی قدریں جس تیزی سے پامال ہوئیں، انسانیت کے آلام ومصائب میں جس سرعت سے اضافہ ہوا اور ملتِ اسلامیہ پر ابتلاء وآزمائش کے جو پہاڑ ٹوٹے، اگر آئندہ آٹھ سالوں میں پستی وتنزل کی یہی رفتار رہی تو نہیں کہاجاسکتا کہ چودھویں صدی کے اختتام تک دنیا انحطاط کے کس نقطہ تک جا پہنچے گی۔ بظاہر یہ آٹھ سال شدید فتنوں اور آزمائشوں کے سال ہوںگے جن کا نقشہ شاید وہ ہوگا جو صحیح مسلم کی ایک حدیث میں آتاہے: ’’بادروا بالأعمال فتناً کقطع اللیل المظلم یصبح الرجلُ مؤمناً ویمسی کافراً ویمسی مؤمناً ویصبح کافراً، یبیع دینہ بعرضٍ من الدنیا۔‘‘         (مشکوٰۃ،ص:۴۶۲) ترجمہ:…’’ان فتنوں سے پہلے جو شبِ تاریک کے تہ بہ تہ ٹکڑوں کی مانند ہوں گے، اعمال میں سبقت کرو، ان میں آدمی کی یہ حالت ہوگی کہ صبح کو مومن ہوگا اور شام کو کافر اور شام کو مومن ہوگا اور صبح کو کافر اُٹھے گا۔ دنیا کے معمولی مفاد کی خاطر اپنا ایمان بیچتا پھرے گا۔‘‘ بعض روایات کے مطابق اس اُمت کی طبعی عمر ایک ہزار سال تھی، اس کے بعد سے اُسے ضعفِ پیری کا عارضہ لاحق ہوا اور وہ بتقاضائے عمر شدید امراض کا شکار ہونے لگی، تاہم مصلحین ومجددین کی گرمیِ دل اور سوزشِ باطن اس کو بہترین غذا پہنچارہی تھی اور خود اُمت کے باطن قویٰ امراض وآلام کا دم خم رکھتے تھے، مگر اب تو اس کے تمام اعضاء شل اور باطنی قویٰ ماؤف ہوچکے ہیں، اس کی قوتِ مدافعت جواب دے چکی ہے۔ اب یہ اُمت فتنوں کے مقابلہ میں خم ٹھونک کر کھڑا ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتی، بلکہ ہر موقع پر طوفان کے رُخ بہنے کی خوگر ہوچکی ہے۔ ادھر اس کے اطباء ومعالجین اس مریضِ جاں بلب کی غلط چارہ سازی میں مصروف ہیں، ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر اس کا کیا کیا جائے؟! کہیں جمہوریت کے انجکشن سے اس کی بحالیِ صحت کی امید کی جارہی ہے، کہیں یہودیت ومغربیت کے تریاق کو اس پر آزمایا جارہا ہے، کہیں سائنس اور مادیت کے کیپسول اس کے حلق سے اُتارے جارہے ہیں، کہیں سوشلزم کے مارفیا سے اُسے چند لمحے تسکین دلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مگر صد حیف کہ یہ برخود غلط معالجین نہ اس اُمت کے ’’مزاج شناس‘‘ ہیں، نہ اس کے مرض اور اسبابِ مرض کی تشخیص کرپائے ہیں، نہ اس کے علاج کی اہلیت وصلاحیت رکھتے ہیں۔ ایسے میں یہ مریض مرے گا نہیں تو اور کیا ہوگا؟!  وَکَانَ أَمْرُ اللّٰہِ قَدَراً مَّقْدُوْراً۔ جن فتنوں کی طرف اوپر اشارہ کیاگیاہے، ان کا آخری نقطہ دجالِ اعور (کانے دجال) کا فتنہ ہوگا۔ جب سے اللہ تعالیٰ نے اس مخلوق کو پیدا کیا ہے دجال سے بڑا کوئی فتنہ آیا نہ آئے گا۔ یہ تمام فتنے جو آچکے ہیں یا آئیں گے گویا دجالِ اعور کے فتنۂ کبریٰ کے لیے زمین تیار کررہے ہیں۔ دجال کا فتنہ کب برپا ہوگا؟ اس کا صحیح علم تو علیم وخبیر ہی کے پاس ہے، مگر نقشہ کچھ ایسا بن رہا ہے کہ شاید اب وقت زیادہ نہیں، یہ فتنہ مومن وکافر اور خبیث وطیب کے درمیان امتیازی لکیر ثابت ہوگا۔ حدیث میں آتا ہے کہ: ’’جو شخص ہرجمعہ کو سورۂ کہف پڑھا کرے وہ فتنۂ دجال سے محفوظ رہے گا‘‘۔ (مستدرک حاکم) ہر مسلمان کو اس کی فکر کرنی چاہیے، ہرجمعہ کو سورۂ کہف پڑھنے کا خود بھی التزام کریں، گھر میں بیوی بچوں سے بھی اس کی پابندی کرائیں اور اپنے تمام متعلقین، دوست احباب اور عام مسلمانوں کو بھی اس کی دعوت دیں۔ حضرات علماء کرام اس سورت کا درس دیں اور اس کے مضامین کی مسلمانوں کو تربیت دیں۔ اس سورت کی مرکزی دعوت یہ ہے کہ ایک مسلمان میں کم از کم اصحابِ کہف کا سا جذبۂ ایمان پیدا ہونا چاہیے کہ ماسوا اللہ کی ہردعوت کو’’ شطط‘‘ (بیہودہ بات) کہہ کر ٹھکرادے اور وقت آنے پر خویش، اقرباء اور گھر بار کو تج کر اللہ کے نام پر کسی گوشۂ گمنامی کی طرف ہجرت کرجائے۔ دنیا کی رنگارنگی کا سبزباغ اس کے عقیدہ وایمان کو متزلزل نہ کرسکے۔ اس کے نزدیک آخرت کی ’’باقیات صالحات‘‘ کے مقابلہ میں متاعِ دنیا کی تمام رعنائیاں اور دل فریبیاں ذرۂ بے مقدار سے بڑھ کر حقیر وذلیل ہوں۔ ا س کا عقیدہ یہ ہو کہ آخرت کا دامن ہاتھ سے چھوڑ کر صرف دنیا کے لیے مرنے کھپنے والے احمقوں کا ٹولہ ہیں، جن کے ہاتھ حسرت وبربادی اور خسارہ ونقصان کے سوا کچھ نہیں آئے گا۔ امن وامان کے عام حالات میں ایک سپاہی کو مقررہ وظیفہ دیاجاتاہے، مگر جب چاروں طرف بغاوت اور شورش کے شعلے بھڑک اُٹھیںاور حکومتِ وقت سے سرکشی وسرتابی کی فضا عام ہوجائے، اس زمانے میں کسی سپاہی کی جانب سے وفاداری کا مظاہرہ بڑی قیمت رکھتا ہے اور اس کا باغی فوج کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہو جانا بڑی قدر ومنزلت سے دیکھا جاتاہے، اُسے خلعت شاہی اور گراںقدر انعامات سے نوازاجاتاہے، اس کے منصب میں ترقی دی جاتی ہے اور اسے بیش بہا عطیات کا مستحق سمجھاجاتاہے۔ آج جب کہ بگڑی ہوئی انسانیت میں اپنے خالق سے بغاوت وبرگشتگی کی فضا عام ہے، احکامِ الٰہیہ کو توڑا جارہاہے، مادیت کا فتنہ اطرافِ عالم کو محیط ہے، ایسے حالات میں جو لوگ اپنے کریم آقا سے وفاداری واطاعت شعاری کا ثبوت پیش کریںگے انہیں بیش بہا انعامات کی دولت سے نوازا جائے گا، آنحضرت a کا ارشاد ہے: ’’العبادۃ فی الہرج کہجرۃ إلیَّ۔‘‘                      (مشکوٰۃ،ص:۴۶۲، بروایت مسلم) ترجمہ:…’’فتنہ کے زمانے میں عبادت کرنے کا درجہ ایسا ہے جیسے کوئی شخص ہجرت کرکے میرے پاس آجائے۔‘‘ ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ:  ’’اس اُمت کے آخر میں کچھ لوگ ہوںگے، جن کو اُمت کے پہلے لوگوں (صحابہ کرامؓ) جیسا اجر وانعام عطا کیا جائے گا۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا حکم کریںگے، اس کی نافرمانی سے منع کریںگے، اور ان لوگوں سے جو فتنہ میں مبتلا ہیں، مقابلہ کریںگے۔‘‘    (مشکوٰۃ،ص:۵۸۴)  اس پُر فتن زمانہ میں جن سعادت مندوں کو اپنے ایمان کی فکر اور اطاعتِ خداوندی کی لگن ہے، اور جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ذریعہ امت کو ایمان وعمل کی لائن پر ڈالنے کی محنت میں کوشاں ہیں، وہ بہت ہی مبارک باد کے مستحق ہیں، انہیں فتنوں سے گھبرانانہیں چاہیے کہ یہ ان کے لیے نہایت اعلیٰ درجات وترقیات کا ذریعہ ہیں، مگر خود مادیت کے گرداب سے نکل کر ایمان ویقین کی لائن پڑنا، اور بندگانِ خدا کو اس کی دعوت دینا بغیر اس کے ممکن نہیں کہ وقفہ وقفہ کے بعد کچھ وقت نکال کر اللہ والوں کی پاکیزہ مجلسوں میں حاضری دی جائے، ہر محلہ کی مسجد کو محلہ والوں کی دینی ضروریات اور ایمان وعمل کی دعوت کا مرکز بنایاجائے، ہرگھر کو ذکر وتلاوت سے معمور کیا جائے اور اس کے لیے اتنی محنت کی جائے کہ ہرمسلمان کا رابطہ مسجد سے اُستوار ہوجائے، بس یہ ہے آج امت کی سب سے بڑی ضرورت۔ ’’چونکہ احکامِ شرعیہ کا مدار حسابِ قمری پر ہے، ا س لیے ا س کی حفاظت فرض الکفایۃ ہے، پس اگر ساری امت دوسری اصطلاح کو اپنا معمول بنا لیوے، جس سے حسابِ قمری ضائع ہوجائے، سب گنہگار ہوںگے اور اگر وہ محفوظ رہے (تو) دوسرے حساب کا استعمال مباح ہے، لیکن خلافِ سنتِ سلف ضرور ہے اور حسابِ قمری کا برتنا بوجہ اس کے فرضِ کفایہ ہونے کے لابد افضل واحسن ہے۔‘‘               (تفسیر بیان القرآن: حضرت حکیم الامت تھانوی قدس سرہٗ) کہنے کو تو چھوٹی سی بات ہے،مگرہے بہت بڑی، انگریزیت کے زیر اثر آج کے دیندار حلقوں میں بھی انگریزی تاریخ کا رواج ایسا عام ہے کہ اسلامی تاریخ کی سنت بہت سے حلقوں میں مٹ چکی ہے، آیئے! نئے سال کے آغاز پر اس سنت کے احیاء کا عزم کریں۔ وفقنا اللّٰہ لکل خیر وسعادۃ، وصلی اللّٰہ تعالٰی علی صفوۃ البریۃ محمد وآلہٖ وأصحابہٖ وأتباعہٖ أجمعین۔ 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین