بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

اسلام اور سیکولرزم  (تیسری اور آخری قسط)

اسلام اور سیکولرزم

 

 (تیسری اور آخری قسط)

تیسرا باب
ہندوستان کی مسلم اقلیّت کے لیے ایک مناسب لائحۂ عمل

سیکولرزم کی متعدد توجیہات کا قرآن و سنت کی روشنی میں جائزہ لینے اور اسلامی نقطۂ نظر سے ان کا حکم بیان کرنے کے بعد اب ہم اس سبب کو بھی بیان کرنا چاہتے ہیں جس کی بنا پر ہم ہندوستان میں ایک وقت مقررہ تک سیکولر حکومت کے قیام کی حمایت کرتے ہیں۔ ظاہر ہے بات فقط اتنی ہوتی جتنی ’’راجیو بھارگوا‘‘ نے پانچویں توجیہ میں بیان کی ہے تو ہم تمام مصلحتوں کو نظر انداز کر کے سیکولرزم کے تئیں مخالفانہ رویہ اپناتے، کیونکہ اس توجیہ کی رو سے وہ بھی تحریکِ الحاد کی ایک ذیلی تحریک قرار پاتاہے، جب کہ ہمارے نزدیک حقیقت یہ نہیں جو ’’ راجیو بھارگوا ‘‘ نے اپنے مضمون کی آخری توجیہ میں بیان کی ہے، کیونکہ ہندوستان کا سیکولر دستور نہ صرف یہ کہ مذہبی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا، بلکہ مندرجہ ذیل دفعہ کے ذریعہ ملک کے تمام مذاہب کو تبلیغ و اشاعت کی پوری آزادی دیتا ہے:
’’ تمام اشخاص کو آزادیِ ضمیر اور آزادیِ مذہب قبول کرنے، اس کی پیروی کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا مساو ی حق ہے، بشرطیکہ امنِ عامہ، اخلاقِ عامہ، صحتِ عامہ اور اس حصہ کی دیگر توضیحات متأثر نہ ہوں۔‘‘                                    (بھارت کا آئین:۴۶)
ہندوستان چونکہ بہت سے مذاہب اور بے شمار قوموں سے عبارت ہے، اس لیے یہاں تمام قوموں کے جذبات و احساسات کا لحاظ رکھتے ہوئے حکومت ایسی غیر جانبدارانہ ہونی چاہیے جو کسی ایک مذہب کی وکالت کے بجائے تمام مذاہب کی اشاعت وحفاظت کی راہیں ہموار کرتی ہو، تو مختلف مذاہب کو مساوی حق دینے اور ملک کے تمام باشندوں کو بلا تفریقِ مذہب و ملت یکساں مواقع فراہم کرنے کا نام ہی ہندوستان میں سیکولرزم ہے، ’’سی آر گوپال آچاریہ ‘‘ اور ’’ راجیو بھارگوا ‘‘ نے بھی تیسری توجیہ میں یہی معنی بیان کیے ہیں اور آزاد ہندوستان کی معمار شخصیتیں بھی سیکولرزم کی بابت ان ہی خیالات کا اظہار کرتی رہی ہیں۔
توا س طرح قانونی رو سے جہاں ہمارا پرسنل لاء ایک حد تک محفوظ قرار دیا جا سکتا ہے، وہیں دستورِ ہند کے تحت ہمیں اس بات کا بھی پورا حق پہنچتا ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات کی اشاعت، دینی عبادات و شعائر کا اہتمام اور قصرِ اسلامی کی تعمیر میں جی جان سے جُت جائیں، نیز دلیل و حجت کے ذریعہ اسلام کو تمام ادیان سے عظیم ثابت کردیں۔ لائحۂ عمل کے باب میں ہمیں ان ہی خطوط کو طے کرنا ، ان ہی اُمور پر غور کرنا اور ان ہی نقطوں کو سمجھنا ہے جن پر ہماری ہی نہیں آئندہ آنے والی تمام نسلوں کی کامیابی و ناکامی کا دارومدار ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کمزوریوں کی بھی نشاندہی کرنی ہے جنہوں نے عرصۂ دراز سے صلاحیتوں کو مفلوج کرکے ہماری ترقی کی راہیں مسدود کر رکھی ہیں۔

مسلمانانِ ہند کی دو خامیاں اور ان کی اصلاح کی ضرورت

جہاں تک میں سمجھتا ہوں موجودہ دور میں ہماری سب سے مہلک بیماریاں دو ہی ہیں: ایک اتحاد کا فقدان اور دوسری تعلیم میں حد درجہ پسماندگی۔ یہی وہ کمزوریاں ہیں جو کسی بھی قوم کو اوجِ ثریا سے ہٹا کر تحت الثریٰ میں دھکیل دیتی ہے۔ ہم ہی نہیں دنیا کی تاریخ میں جو قومیں بھی تباہی و بربادی کے گڑھوں کی جانب تیز تیز قدموں سے بھاگتی نظر آتی ہیں ،ا ن میں دیگر خرابیوں کے علاوہ یہ دونوں بیماریاں بھی بدرجہ اتم موجود ہیں ، جنہوں نے نہ صرف یہ کہ انہیں قیادت سے محروم کردیا، بلکہ بحیثیت قوم ہمیشہ ہمیش کے لیے انہیں دنیا کے پردے سے ہٹا دیا۔ ماضی کی طرح آج بھی مسلمانوں کے اکثر و بیشتر مسائل ان ہی دو خرابیوں کی پیداوار ہیں اور انہیں نقصانات سے بچانے کے لیے قرآن کریم نے اتحاد و یک جہتی پر زور دے کر تفرقہ بازی کی سخت مذمت کی ہے:
’’وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا۔‘‘     (آل عمران : ۱۰۳)
’’ اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑے رہو اورمتفرق مت ہو۔‘‘
اور وہ تمام مسلمانوں کو حقیقی بھائیوں کی طرح مل جل کر رہنے کی تلقین کرتا ہے:
’’إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ إِخْوَۃٌ۔‘‘          (الحجرات:۱۰)
’’ مسلمان تو آپس میں سب بھائی بھائی ہیں۔‘‘
اہلِ اسلام کو باہم نرم اور غیروں کے بالمقابل گرم دیکھنا چاہتاہے:
’’مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ أَشِدَّائُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَائُ بَیْنَہُمْ۔‘‘       (الفتح : ۲۹)
’’ محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو صحابہؓ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے حق میں سخت ہیں اور آپس میں ایک دوسرے پر مہربان ہیں۔‘‘
 تفرقہ کے نقصانات کو اُجاگر کر کے جہاں اس کی راہوں کو مسدود کرتا ہے وہیں اُمت کو ایک نقطہ پر جمع ہونے اور اپنی صفوں میں کامل اتحاد کی تاکید کرتا ہے:
’’وَأَطِیْعُوْا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْہَبَ رِیْحُکُمْ۔‘‘        (الأنفال : ۴۶)
’’ اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو اور آپس میں جھگڑا نہ کرو، ورنہ تم کمزور ہوجاؤ گے اور تمہاری ہوا اُکھڑ جائے گی۔‘‘
مسلمانوں کے عہد ِ گزشتہ کی تاریخ بھی اس کی شہادت دیتی ہے کہ جہاں وہ قدم سے قدم ملا کر چلے، باہمی تعاون، میل ومروت اور اتحادو یک جہتی کو اپنا شعار بنایا، وہیں کامیابی نے ان کے قدم چوم لیے اور نہ صرف یہ کہ وہ مشرق و مغرب میں پھیل گئے، بلکہ ایشیا، افریقہ اور یورپ کی تمام قومیں ان کا راستہ چھوڑ کر الگ کھڑی ہوگئیں۔ انسانی تاریخ کے تمام کھنڈرات آج بھی مسلمانوں کی اسی عظمتِ رفتہ کی گواہی دیتے ہیں۔ لیکن جہاں وہ اجتماعیت سے دستبردار ہوکر انفرادیت کا شکار ہوئے ، اتحاد و یکجہتی کا دامن ان کے ہاتھوں سے چھوٹ گیا اور تفرقہ کی ان کے درمیان آہنی دیواریں کھڑی ہوگئیں ، وہیں ان کے وقار اور دبدبہ کو نہ صرف سخت دھچکا لگا، بلکہ اس نازک موقع سے فائدہ اُٹھاکر دشمن بھوکے شیر کی طرح ٹوٹ پڑے اور آن کی آن میں ان کی سلطنت و پادشاہی کوتہ وبالا کر ڈالا۔ ماضی میں اسپین اور دورِ حاضر کی تمام مسلم حکومتیں اس سلسلہ کی زندہ مثالیں ہیں۔ اس لیے آج کے ان خطرناک حالات میں ماضی کے تلخ تجربوں سے درسِ عبرت حاصل کرتے ہوئے ہمارے لیے یہ امر ناگزیر ہوگیا ہے کہ جتنی جلد ممکن ہوسکے اختلافات کی خلیج کو پاٹ کر اپنی صفوں میں کامل اتحاد پیدا کریں، صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے انفرادی خواہشات کو کچل دیں او ر ملت کو ایک پلیٹ فارم پر لاکر اپنے حقوق کو حاصل کرنے کے لیے مل جل کر مجاہدہ کریں۔ نیز حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ہمیں ان تمام آپسی عداوتوں، چپقلش اور فروعی اختلافات کو بھی مٹا دینا ہوگا جنھوں نے زمانۂ دراز سے مسلمانانِ ہند کے درمیان اجنبیت و غیریت کی بلند دیواریں کھڑی کر رکھی ہیں۔ یہ وقت کا اہم ترین تقاضا ہے جسے مسلمانوں کو ہر حال میں پورا کرنا ہے ۔
دوسری ہلاکت خیز بیماری تعلیم میں حد درجہ پسماندگی ہے جو مسلمانوں کے اندر زہر کی طرح سرایت کر چکی ہے، ان کی ایک بڑی اکثریت آج بھی دینی و دنیاوی علوم سے ایسے ہی نا آشنا ہے جیسے کہ شہری تہذیب و تمدن سے دور قبائلی خاندان ہوا کرتے ہیں، پھر ان کے جدید تعلیم یافتہ طبقہ کی حالت بھی کچھ زیادہ قابلِ اطمینان نہیں، وہ یونیورسٹیوں اور کالجوں میں عصری علوم سے تو ایک حد تک واقف ہوگیا، لیکن اسلام کے بنیادی عقائد توحید، رسالت و قیامت سے اتنا ہی ناواقف رہا جتنا کہ ایک غیر مسلم ہوسکتا ہے، جبکہ مسلمانوں کا وہ طبقہ جو حاملینِ شریعت اور دینی قیادت کا دعویدار ہے ،وہ مدارسِ اسلامیہ میں بخاری، مسلم، جلالین، ہدایہ جیسی معرکۃ الآراء کتابوں میں تو مہارتِ تامہ حاصل کرچکا ہے، لیکن اس کے اکثر افراد عصری علوم و زبان سے اتنے نا آشنا ہیں کہ ریلوے اسٹیشن پر ریزرویشن کا فارم بھی اپنے ہاتھوں سے پُر نہیں کرسکتے، بلکہ حریفوں کے محتاج ہوتے ہیں ۔ جس قوم نے افریقہ و ایشیا میں علم و حکمت کے چراغ جلائے تھے، یورپ میں صنعت و حرفت کی قندیلیں روشن کی تھیں، جس نے ابن خلدون، رازی اورابن سینا جیسے عظیم مؤرخین، مفکرین اور سائنسدانوں کو جنم دیا تھا اور جو پوری دنیا کے علوم کی واحد امین تھی، آج علمی و فکری حیثیت سے اتنی کنگال ہوچکی ہے کہ اس کا شمار دنیا کی پسماندہ ترین اقوام میں کیا جارہا ہے۔
ملت کے ان دونوں حلقوں کی غفلت کو مسلم اقلیّت کی موجودہ حالت کی روشنی میں دیکھتے ہوئے بے اختیار آنسو نکل پڑتے ہیں کہ قائدینِ ملت نہ صرف یہ کہ وسعتِ نظری سے کنارہ کش رہے، بلکہ آج تک دورِ حاضر کے تقاضوں پر غور نہ فرماسکے، اس لیے اب وقت آچکا ہے کہ مسلمانانِ ہند طویل نیند اور مدہوشی سے بیدار ہوں اور دونوں طبقے مل جل کر ایسا لائحۂ تعلیم مرتب کریں جس پر عمل پیرا ہوکر نہ صرف یہ کہ اپنے ماتھے سے تعلیمی پسماندگی کا داغ مٹادیں، بلکہ اس میدان میں دوڑتی تمام قوموں کو پیچھے چھوڑدیں۔
دینی مدارس اور اسلامی اداروں کے ذمہ داروں کو موجودہ دور کے اندر ہندوستان کی مسلم اقلیت کے تقاضوں کو دیکھتے ہوئے اپنے اس قدیم طرزِ عمل اور مروج نصابِ تعلیم پر نظر ثانی کر کے وہ تمام خامیاں دور کرنی چاہئیں جس کی وجہ سے ہمارے علماء عصری علوم سے بالکل نا آشنا رہے ہیں۔ نیز مدارسِ اسلامیہ میں جہاں تفسیر و حدیث اور فقہ جیسے علوم کو پڑھایا جائے، وہیں اسلام کی روشنی میں عصری علوم، رائج الوقت زبانوں اور سائنس کی تعلیم دینا بھی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، اس سے جہاں علماء میں خود اعتمادی اور احساسِ برتری پیدا ہوگا، وہیں جب وہ مدارس کے پُرسکون ماحول سے نکل کر معاشرے کی متحرک فضاء میں داخل ہوں گے تو نہ اس میں اپنے آپ کو اجنبی محسوس کریں گے اور نہ ہی احساسِ کمتری کا شکار ہوں گے، بلکہ نہایت بے باکی کے ساتھ جاہلیت کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر گفتگو کریں گے ۔ 
دینی مدارس کی اصلاح کے ساتھ ساتھ ہمیں مختلف مسلم کالجز اور عصری علوم کی بے شمار درسگاہیں قائم کر کے ان میں ایسا نصاب جاری کرنا ہے جو عصری اور سائنسی علوم کو سمیٹنے کے ساتھ ساتھ قرآن و سنت کے معارف اور علومِ نبوت کی روح سے پوری طرح سرشار ہو۔ مسلمانوں کی تعلیم میں پیچھے رہنے اور ان کی پسماندگی کے جہاں بہت سے اسباب ہیں، وہیں یہ سب بھی کچھ کم نہیں کہ ہندوستان کی دوسری بڑی اکثریت ہونے کے باوجود بھی آج تک منظم طور سے ایسی تعلیمی منصوبہ بندی نہ کرسکے جو اُن کی دینی و دنیوی ترقی کا باعث بنتی، جبکہ ہمارے ملک کی بہت چھوٹی اقلیت عیسائیت نے حیرت انگیز طور پر پورے ملک میں اپنے تعلیمی مشن کا جال بچھا رکھا ہے، اور ہماری صورتِ حال یہ ہے کہ اسلامی کالجز نہ ہونے کے باعث جہاں بہت سے مسلم طلباء تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں، وہیں ہمارے ذہین طلباء حریفوں کے ان کالجوں میں اپنا مستقبل تاریک بنا کر لوٹتے ہیں جہاں ان کی حوصلہ شکنی کے پورے اسباب فراہم ہیں۔
اپنی ان ہی کوتاہیوں کی بنا پر ہم تعلیم میں اتنے پیچھے رہ گئے ہیں کہ ملک کے مشہور صحافی ’’کلدیپ نیّر ‘‘ کو یہ کہنے کی جرأت ہوسکی کہ ’’مسلمان تعلیمی میدان میں ہندوؤں سے دوسو سال پیچھے ہیں۔‘‘
اگر ہمارے اندر کچھ بھی غیرت ہے تو ’’ کلدیپ نیّر ‘‘ کے اس ریمارک کا جواب دینے کے لیے کمر کَس لیں اور تعلیمی پسماندگی کے خلاف اتنا مجاہدہ کریں کہ معاشرہ میں پھر کبھی اس کی پرچھائیں بھی نظر نہ آئے۔

اپنے دین سے مکمل وابستگی کی ضرورت

ان حقائق کے علاوہ ہمیں اس نکتہ کو بھی سمجھنا ہے کہ ملت کی پسماندگی میں جہاں تفرقہ بازی ، جہالت و غباوت اور اقتصادی بحران کارفرما ہے، وہیں آزاد خیالی، بے راہ روی اور دین سے حد درجہ دوری نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان ہی بیماریوں کی بدولت اُمتِ مسلمہ ایک نازک دور سے گزر رہی ہے اور مغربی افکارسے نوجوانوں کی آنکھیں خیرہ ہورہی ہیں، مسلم معاشرہ میں ایک افراتفری ، بے چینی اور عجیب مایوسی کا عالم ہے، بزمِ اقوام میں ہم سمندر کی جھاگوں کی طرح بے وزن ہوچکے ہیں ، حریف قومیں ہمیں لقمۂ تر کی طرح نگل جانا چاہتی ہیں اور وہ ہماری غیرت و حمیت کو للکار کر اس طرح ہم پر ٹوٹ پڑ رہی ہیں جس طرح بھوکے دسترخوان پر جاگرتے ہیں، اسی حالت کی منظر کشی کرتے ہوئے رسول اللہ صہلی اللہ علیہ وسلم نے پیشن گوئی کی تھی:
’’عَنْ ثَوْبَانَؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ - صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ -: یُوْشِکُ الْأُمَمُ أَنْ تَدَاعٰی عَلَیْکُمْ کَمَا تَدَاعَی الْأَکَلَۃُ إِلٰی قَصْعَتِہَا۔ فَقَالَ قَائِلٌ: وَمِنْ قِلَّۃٍ نَحْنُ یَوْمَئِذٍ؟ قَالَ: بَلْ أَنْتُمْ یَوْمَئِذٍ کَثِیْرٌ وَلٰکِنَّکُمْ غُثَائٌ کَغُثَائِ السَّیْلِ وَلَیَنْزَعَنَّ اللّٰہُ مِنْ صُدُوْرِ عَدُوِّکُمُ الْمَہَابَۃَ مِنْکُمْ وَلَیَقْذَفَنَّ اللّٰہُ فِيْ قُلُوْبِکُمُ الْوَہْنَ. فَقَالَ قَائِلٌ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! وَمَا الْوَہْنُ؟ قَالَ: حُبُّ الدُّنْیَا وَکَرَاہِیَۃُ الْمَوْتِ۔‘‘                      (سنن أبی داود )
ترجمہ: ’’حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: عنقریب ایک ایسا وقت آئے گا کہ دیگر قومیں جمع ہوکر تمہارے اوپر اس طرح ٹوٹ پڑیں گی جس طرح کھانا کھانے والے اپنے کھانے کے پیالے کے ارد گرد جمع ہوجاتے ہیں! کسی نے سوال کیا کہ کیا یہ اس وجہ سے کہ اس وقت ہماری تعداد کم ہوگی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: بلکہ تمہاری تعداد تو اس وقت کافی زیادہ ہوگی، البتہ تمہاری حیثیت سیلاب کے تنکوں کی طرح ہوگی، اور تمہارے دشمن کے دل سے تمہارا رُعب نکل جائے گا، اور اللہ تمہارے دلوں میں ’’وَہْن‘‘ پیدا کرے گا، کسی نے سوال کیا کہ یارسول اللہ ! ’’ وَہْن‘‘ کیا ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: دنیا کی محبت اور موت سے نفرت کو ’’ وَہْن‘‘ کہا جاتا ہے۔‘‘
  یہ دنیا سے محبت اور موت سے نفرت ہی تو ہے جس کی وجہ سے دورِ حاضر کے مسلمان صحابہؓ کے کردار و عمل، قرآنی فکر و شعور اور نبوی مزاج سے دست بردار ہوکر قرنِ اول سے پوری طرح کٹ چکے ہیں، وہ دیگر قوموں کی طرح کھانے پینے اور آرام و آسائش کا سامان جمع کرتے کرتے یہ بھول ہی گئے کہ حاملینِ شریعت ہونے کی بنا پر قرآن وسنت کی رو سے ہم پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ لائحۂ عمل کے با ب میں آکر اس طرف بھی خصوصی توجہ دینی ہے کہ جہاں مسلمانوں کے کردار و عمل کی تعمیر، اعتماد و یقین کی تخم ریزی اور ان کی مکمل اسلامی ذہن سازی کی جائے وہیں ان کا اسلام سے رشتہ جوڑ کر عظیم ذمہ داریوں کا احساس دلایا جائے اور ہماری پوری یہ کوشش ہونی چاہیے کہ ہم معاشرہ کو اتنا دین دار بنادیں کہ اس کے ہرفرد کے وجود سے یہ خاموش صدا آرہی ہو:
’’إِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُکِيْ وَمَحْیَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔‘‘           (الانعام:۱۶۲)
’’بے شک میری نماز اور میری تمام عبادات اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ کے لیے ہے جو سارے جہاں کا پروردگار ہے۔‘‘
اگر ہم نے ان بنیادوں پر اس کی عمارت اُٹھادی اور معاشرہ کو پورے طور پر اسلامی سانچہ میں ڈھال دیا تو نہ کوئی باطل نظریہ ہمیں مرعوب کرسکے گا، نہ کوئی قوم ہمارے تشخص پر شب خون مارے گی اور نہ ہی دنیا کی کوئی طاقت ہمیں قیادت سے دست بردار کرسکے گی: ’’وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۔‘‘ ۔۔۔ ’’ اور تم ہی غالب رہو گے بشرطیکہ تم سچے مسلمان رہو۔‘‘

دعوت وتبلیغ کا اہتمام

اپنی ان خامیوں کو دور کرنے، ملت کی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے، عصری علوم حاصل کرنے اور دین کو مضبوطی سے پکڑ لینے کے بعد ہمیں پھر اس ذمہ داری کی طرف پلٹنا ہے جو آخری رسول a نے حاملینِ قرآن وسنت کے ہونے کی بنا پر ہمارے کاندھوں پر ڈالی تھی، یعنی دعوت و تبلیغ۔
دوسری ذمہ داریوں کی طرح یہ بھی وہ مظلوم فریضہ ہے جسے ہم نے ایک دائرے میں محدود کرکے عرصہ دراز سے اس کے ہمہ گیر پہلوؤں کو نظر انداز کر رکھا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہندوستان میں ایک ہزار سال سے بسنے کے باوجود ہم اپنے طاقتور پیغام، محکم تعلیم اور عہد آفریں دعوت سے بھی اس قوم کو واقف نہ کراسکے جو سینکڑوں سال سے ہمارے پڑوس میں رہتی ہے۔
کل قیامت میں اگر یہی قوم ہم پر دعویٰ کردے کہ خدارا! یہ لوگ برسہابرس تک ہمارے پڑوس میں رہے، لیکن تیرے پیغام کو ہم تک نہ پہنچا سکے جو بطورِ امانت تو نے انہیں سونپ رکھا تھا تو ہمارے پاس اس کا کیا جواب ہوگا؟
اس لیے نبوت کی اس امانت کو دوسری قوموں تک پہنچانے اور خداوندِ قدوس کی پکڑ سے بچنے کے لیے منظم طور پر مقامی زبان میں معروضی لٹریچر پیش کیاجانا وقت کی ایسی ضرورت بن چکا ہے جس کے بغیر اسلام کا تعارف کرانے اور ان غلط فہمیوں کاازالہ ناممکن ہے جو عرصہ دراز سے بردارانِ وطن کے درمیان چلی آرہی ہے۔
دعوت کے اسی مرحلہ کو عبور کرنے کے لیے ہم نے سیکولرزم سے ایک وقتِ مقررہ تک سمجھوتہ کیا ہے، تاکہ مذہبی آزادی کی دفعات سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہم معاشرہ کو مکمل طور سے اسلامی بنیادوں پر قائم کردیں، اس لیے ان حکمتوں کے پیشِ نظر ہمیں نہایت تیزی کے ساتھ دعوت و تبلیغ کی جانب پیش رفت کرنی چاہیے اور جہاں اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کو دور کر کے معاشرہ کی اصلاح کرتے ہوئے ہم دینی تعلیمات پر عمل پیرا ہوںوہیں ملت کے ہر ہر فرد کے دل و دماغ میں یہ بات پوری قوت سے اُتاردیں کہ اتحاد و تعلیم اور تبلیغ و دعوت ہی وہ شہپر ہیں جن سے فلاح و ترقی کا شاہین پرواز کرتا ہے۔

وصلی اللّٰہ تعالٰی علٰی سیّدنا محمد وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین والحمد للّٰہ ربّ العالمین

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین