بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

سلسلۂ مکاتیب حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ

سلسلۂ مکاتیب حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ

مکتوبِ گرامی حضرت شیخ الحدیث زیدت برکاتہم 
(تمہید از: حضرت مولاناسید محمد یوسف بنوری ؒ)
دینی درس گاہوں کے اربابِ اہتمام کے لیے قابلِ توجہ لمحۂ فکریہ

’’بلاشبہ دینی مدارس کا منصب نہایت اونچا اور قابلِ فخر ہے،انبیاء کرام علیہم الصلوات والتسلیمات کی وراثت ہے، اور جو کچھ قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں فضائل آئے ہیں، کس کو مجال انکار ہوسکتا (ہے؟) لیکن جتنا منصب عالی ہے اس کی قیمت بھی بہت اونچی ہے، وہ صرف رضاء الہٰی اور نعیم جنت ہی ہوسکتی ہے، اگر کوئی اس جوہر بے بہاکی قیمت متاع دنیا کو بنائے کتنی بڑی شقاوت ہوگی؟! کیا صاف وصریح وعید احادیث میں نہیں آئی؟مسند احمد وسنن ابی داؤد وابن ماجہ میں حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت(میں ) صحیح حدیث سے فرمایا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے :’’من تعلّم علماً مما یبتغٰی بہ وجہ اللّٰہ، لایتعلمہ إلا لیصیب بہ عرضا من الدنیا لم یجد عرف الجنۃ‘ ‘یعنی ’’جس نے وہ علم حاصل کیاجس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی رضاحاصل ہوسکتی(ہے)اس کو صرف متاع دنیا کے لیے (حاصل) کیاتو جنت کی خوشبو بھی اس کو نصیب نہ ہوگی۔‘‘
لیکن کتنا مقامِ عبرت وتأسف ہے کہ یہ عظیم الشان، جلیل القدر منصب، منافع دنیا کے لیے وقف ہوگیا ہے! تعلیم وتدریس ،تصنیف وتالیف ،دعوت وارشاد ،امامت وخطابت یہ سب دین کے مناصب تھے ، آج دنیا کے مناصب بن گئے، سب کا مقصد شکم پروری ہے، اورتن آسانی ہے ، یاپھر طلب جاہ ومنزلت ہے ، اناللہ!
سناہے کہ حضرت فقیہ عصر، محدثِ وقت، عارف باللہ مولاناخلیل احمد (سہارن پوری)رحمہ اللہ کے سامنے کسی نے خواب بیان کیا کہ:یہ دیکھا کہ درس گاہ میں تپائیوں کے سامنے بجائے طلبہ کے بیل بیٹھے ہوئے ہیں، فرمایا: ’’انا للہ!اب سے لوگ علم دین پیٹ کے لیے پڑھیں گے ۔‘‘
اور آج کل عام طور پر یہی ہورہاہے الاماشاء اللہ، اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔اساتذہ وطلبہ میں شب خیزی وذکراللہ وتلاوت قرآن کریم کی عادت ختم ہورہی ہے، نمازِ فجر کے بعد قرآن کریم کی جگہ اخبارات کو مل گئی ، ریڈیواور ٹی وی جیسی منحوس چیزیں جدید تمدن نے گھر گھر پہنچادی ہیں،اناللہ!
بہرحال! مدارس کا جہاں مقصد بدل گیا وہاں عبادت وتلاوت وذکر کی کمی بھی بے حد آگئی ہے، جوذکر اللہ کی برکات اور تلاوت قرآن کریم کے جوانوار تھے وہ بھی ختم ہوتے جارہے ہیں، ان حالات اور پُرآشوب صورت حال نے ہمارے مخدوم گرامی منزلت حضرت شیخ الحدیث مولانامحمد زکریا کاندھلوی متع اللّٰہ الأمۃ بحیاتہم الطیبۃ المبارکۃ کو پریشان کررکھا ہے، اسی تاثر کی وجہ سے موصوف نے راقم الحروف کو ایک مفصل والانامہ لکھا ہے ،اربابِ مدارس کی توجہ اوراصلاح کے لیے ذیل میں شائع کیا جارہاہے ، اللہ تعالیٰ اس کو اربابِ مدارس کے لیے وسیلۂ عبرت ونصیحت وتوجہ بنائے، آمین!

مکتوبِ مبارک 

’’ مدارس کے روز افزوں فتن، طلبہ کی دین سے بے رغبتی وبے تو جہی اور لغویات میں اشتغال کے متعلق کئی سال سے میرے ذہن میں یہ ہے کہ مدار س میں ذکر اللہ کی بہت کمی ہوتی جارہی ہے، بلکہ قریباً یہ سلسلہ معدوم ہو چکا ہے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ بعض میں تو اس لائن سے تنفر کی صورت دیکھتا ہوں، جو میرے نزدیک بہت خطر ناک ہے، ہند وستان کے مشہور مدارس دارالعلوم ،مظاہرا لعلوم، شاہی مسجد مراد آباد وغیرہ کی ابتداء جن اکا بر نے کی تھی وہ سلوک کے بھی امام الا ئمہ تھے، انہی کی برکات سے یہ مدارس ساری مخالف ہواؤں کے باوجودا ب تک چل رہے ہیں۔
 اس مضمون کو کئی سال سے اہل مدارس منتظمین اور اکا بر ین کی خدمت میں تقریر ًاوتحریر ًاکہتا اور لکھتا رہا ہوں ،میر اخیال یہ ہے کہ آپ جیسے حضرات اس کی طرف تو جہ فرمادیں تو زیادہ مؤ ثر اور مفید ہو گا، مظا ہر العلوم میں تو میں کسی درجہ میں اپنے ارادہ میں کامیاب ہوں اور دارالعلوم کے متعلق جناب  الحاج مولانا قاری محمد طیب صاحب سے عرض کر چکا ہوں اوربھی اپنے سے تعلق رکھنے والے اہل مدارس سے عرض کرتا رہتا ہوں۔ روز افزوں فتنوں سے مدارس کے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ مدارس میں ذکر اللہ کی قضا قائم کی جائے ،شرور فتن اور تباہی دبر بادی سے حفاظت کی تد بیر ذ کر اللہ کی کثرت ہے، جب اللہ تعالیٰ کا نام لینے والا کوئی نہ رہے گا تو دنیا ختم ہو جائے گی، جب اللہ تعالیٰ کے پا ک نام میں اتنی قوت ہے کہ ساری دنیا کا وجودا س سے قائم ہے تو مدارس کا وجود تو ساری دنیا کے مقابلہ میں دریا کے مقابلہ میں ایک قطرہ بھی نہیں، اللہ تعالیٰ کے پاک نام کو ان کی بقاء وتحفظ میں جتنا دخل ہو گاظا ہر ہے۔
اکابر کے زمانہ میں ہمارے ان جملہ مدارس میں اصحابِ نسبت اور ذاکر ین کی جتنی کثرت رہی ہے وہ آپ سے بھی مخفی نہیں اور اب اس میں جتنی کمی ہو گئی وہ بھی ظا ہر ہے، بلکہ اگر یوں کہوں کہ اس پاک نام کے مخالف حیلوں اور بہانوں سے مدارس میں داخل ہوتے جارہے ہیں تو میرے تجر بہ میں تو غلط نہیں ،اس لیے میری تمنا ہے کہ ہر مدرسہ میں کچھ ذا کر ین کی تعداد ضرور ہوا کرے۔
طلبہ کے ذکر کر نے کے تو ہمارے اکا بر بھی خلاف رہے ہیں اور میں بھی موافق نہیں، لیکن منتہی طلبہ یا فارغ التحصیل یا اپنے سے یا اپنے اکا بر ین سے تعلق رکھنے والے ذاکرین کی کچھ مقدار مدار س میں رہا کرے اور مدرسہ ان کے قیام کا کوئی انتظام کر دیا کرے، مدرسہ پر طعام کا بار ڈالنا تو مجھے بھی گوارا نہیں، طعام کا انتظام تومدرسہ کے اکابر میں سے کوئی شخص ایک یاد و اپنے ذمہ لے لے یا باہر سے مخلص دوستوں میں سے کسی کو متوجہ کر کے ایک ایک ذکر کرنے والے کا کھا نا کسی کے حوالہ کر دیا جائے، جیسا کہ ابتداء میں مدار س کے طلبہ کا انتظام اسی طرح ہوتا تھا، البتہ اہل مدارس ان کے قیام کی کوئی صورت اپنے ذمہ لے لیں جو مدرسہ ہی میں ہو، اور ذکر کے لیے کوئی ایسی مناسب جگہ تشکیل کریں کہ دوسرے طلبہ کا کوئی حرج نہ ہو، نہ سونے والوں کا نہ مطالعہ کرنے والوں کا۔
 جب تک اس نا کارہ کا قیام سہار ن پور میں رہا تو ایسے لوگ بکثرت رہتے تھے میرے مہمان ہو کر، ان کے کھانے پینے کے انتظام تو میرے ذمہ تھا ،لیکن قیام اہل مدرسہ کی جانب سے مدرسہ کے مہمان خانہ میں ہو تا تھا، اور وہ بد لتے سد لتے رہتے تھے، صبح کی نماز کے بعد میرے مکان پر ان کے ذکر کا سلسلہ ایک گھنٹہ تک ضرور رہتا تھا، اور میری غیبت کے زمانہ میں بھی سنتاہوں کہ عزیز طلحہ کی کوشش سے ذاکر ین کی وہ مقدار اگر چہ زیادہ نہ ہو، مگر ۲۰، ۲۵ کی مقدار وز انہ ہو جاتی ہے، میرے زمانہ میں تو سو، سوا سوتک پہنچ جاتی تھی اور جمعہ کے دن عصر کے بعد مدرسہ کی مسجد میں تو دو سو سے زیادہ کی مقدار ہو جاتی تھی اور غیبت کے زمانہ میں بھی سنتا ہوں کہ ۴۰، ۵۰ کی تعداد عصر کے بعد ہوجاتی ہے، ان میں باہرکے مہمان جو ہوتے ہیں وہ دس بارہ تک تو اکثر ہو ہی جاتے ہیں، عز یز مولوی نصیر الدین سلمہٗ، اللہ تعالیٰ اس کو بہت جزائے خیر دے ان لوگوں کے کھانے کا انتظا م میرے کتب خانہ سے کرتے رہتے ہیں، اسی طرح میری تمنا ہے کہ ہر مدرسہ میں دو چار ذاکرین ضرور مسلسل رہیں، داخلی اور خارجی فتنوں سے بہت امن کی امید ہے ،ورنہ مدارس میں جو داخلی اور خارجی فتنے بڑھتے جارہے ہیں، اکا بر سے زمانہ میں جتنا بعد ہوتا جائے گا اس میں اضافہ ہی ہوگا۔
اس نا کارہ کو نہ تحریر کی عادت نہ تقریر کی، آپ جیسا یا مفتی محمد شفیع صاحب جیسا کوئی شخص میرے اس مافی الضمیر کو زیادہ وضاحت سے لکھتا تو شاید اہل مدارس پر اس مضمون کی اہمیت زیادہ واضح ہوجاتی، اس نا کارہ کے رسالہ ’’فضائل ذکر‘‘ میں حافظ ابن قیم کی کتاب ’’الو ابل الصیّب‘‘ سے ذکر کے سو کے قریب فوائد نقل کئے ہیں ،جن میں شیطان سے حفاظت کی بہت سی وجود ذکر کی گئی ہیں، شیاطینی اثرہی سارے فتنوں اور فساد کی جڑہیں، فضائل ذکر سے یہ مضمون اگر جناب سن لیں تو میرے مضمونِ بالا کی تقویت ہو گی، اس کے بعد میر امضمون تو اس قابل نہیں جو اہل مدارس پر کچھ اثر انداز ہو سکے، آپ میری درخواست کوزوردار الفاظ میں نقل کر اکر اپنی یا میری طرف سے بھیج دیں تو شاید کسی پر اثر ہوجائے۔
دارالعلوم، مظا ہر علوم اور شاہی مسجد کے ابتدائی حالات آپ کو مجھ سے زیادہ معلوم ہیں کہ کن صاحبِ نسبت اصحابِ ذکر کے ہاتھوں ہوئی ہے؟! انہی کی برکات سے یہ مدارس اب تک چل رہے ہیں، یہ ناکارہ دعاؤں کا بہت محتاج ہے، بالخصوص حسنِ خاتمہ کا کہ گور میں پاؤں لٹکائے بیٹھا ہے۔

(حضرت شیخ الحدیث مدظلہ ،بقلم حبیب اللہ،۳۰ نو مبر ۷۵ء) والسلام ،مکہ المکرمہ‘‘

حضرت بنوریؒ بنام حضرت شیخ الحدیثؒ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
۱۶؍جمادی الاخریٰ ۱۳۹۵ھ
مخدوم گرامی مآثر حضرت شیخ الحدیث زیدت برکاتہم العالیہ المقبولۃ، آمین!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

نامۂ برکت کی سعادت نصیب ہوئی، بنڈل کے ضائع ہونے کا افسوس ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ! مل جائے گا۔ حضرت والد ماجد کی وفات پر آپ کے تاثرات ودعوات نے ممنون فرمایا، حق تعالیٰ محض اپنے فضل وکرم سے آپ کے حسن ظن کو صحیح فرمائے اور مجھے آدمی بنائے، آمین!
مرحوم حضرت مولانایوسف صاحب (کاندھلوی) کے سوانح میں آپ کے متعلق کچھ غلطیاں رہ گئی ہیں، اس کا افسوس ہے۔ ’’معارف السنن‘‘ کے مقدمہ (میں)کوئی تکوینی ابتلاء پیش آیا ہے، اور اس کی وجہ میں کچھ سمجھ بھی گیا ہوں،دعا فرمائیں کہ میں معاف ہوجاؤں تو قلم آگے چلے،ابتداء توکوئی ۱۲ سال پہلے ہوچکی ہے،دو دو تین تین سال بعد چند سطریں لکھی جاتی ہیں اور بس میرے خیال میں کل بقیہ کام بیس گھنٹوں کا ہوگا، لیکن وہ میسر نہیں آتے،بہرحال کاغذ بھی دوسال سے خریدا ہے ، طباعت کاارادہ بھی ہوگیا ،شاید طباعت شروع ہونے کے بعد آپ کی دعاؤں سے توفیقِ تکمیل نصیب ہوجائے،قرآن کریم کے بعد حدیث کی کیوں ضرورت ہے؟اور حدیث کے بعد فقہ کی کیوں ضرورت ہے؟پہلے سے تقریباً فارغ ہوچکا ہوں،اور دوسرا جزء باقی ہے ، اس کے لیے کتاب ’’الفقیہ والمتفقہ‘‘خطیب کی ضرورت تھی، الحمدللہ وہ بھی طبع ہوکر آگئی ہے۔
حضرت شیخ امام العصر کشمیری v فرمایاکرتے تھے کہ: ’’قرآن معلق رہتاہے جب تک حدیث کی طرف رجوع نہ کیا جائے،اور حدیث معلق رہتی ہے، جب تک فقہ کی طرف رجوع نہ کیا جائے۔‘‘ اس کی شرح کرنی چاہیے،لیکن ذرا عنوان بدل دیا،وہ یہ ہے کہ : ’’قرآن کریم پر ایمان ممکن نہیں جب تک حدیث پر ایمان نہ لایاجائے،اور حدیث پر عمل ممکن نہیں جب تک فقہ پر عمل نہ کیاجائے، قرآن پر ایمان حدیث پر ایمان لانے پر موقوف ہے ، اور حدیث پر عمل کے لیے فقہ کی ضرورت ہے۔‘‘ بس !جزء ثانی کی ضرورت ہے، اگر آپ کی دعائیں شامل حال ہوں تو ان شاء اللہ تعالیٰ! جلد کام شروع کرلوں گا، تفصیل نہ سہی اجمال بھی کافی ہوگا۔
مکتوبِ گرامی بینات میں منشأکے خلاف شائع ہوگیا، اس کا افسوس ہے،آئندہ احتیاط کی جائے گی، یابہت غور کیاجائے گا، اگرکوئی حصہ نشرکے قابل نہ ہوتوحذف کرکے شائع کیاجائے گا۔
اگر آپ کاہندوستان جانامقدر ہے تو ارادہ ہے کہ عزیزم محمدبنوری سلمہٗ آپ کے ہمرکاب برائے خدمت ہوجائیں، پاسپورٹ بنایا گیا، بقیہ کی تکمیل کی جارہی ہے، شاید یہ خادمانہ صحبت ورفاقت زندگی میں انقلاب وتغیر پیدا کردے، آمین! آپ بھی دعا فرمائیں کہ اس آرزو کے لیے یہ خدمت وصحبت میسرآجائے اور اس صحبت پر صحیح ثمرات مرتب ہوں:

جھد المتیّم أشواق فیظھرھا

دمع علٰی صفحات الخد ینحدرٗ

پاؤں میں آج کل تکلیف زیادہ ہے ،اِدھر صحیح بخاری شریف (کے )ختم کی فکر ہے، اُدھر بسلسلہ قادیانیت‘ افریقہ کاایک دورہ بہت ضروری ہے،اس کی تیاری ہورہی ہے ،نیز رنگون ولندن کے سفر کا تقاضا شدیدہوتاجارہاہے،ان سب کے لیے دعافرمائیں ، اگر خیر ہو تو مقدر ومیسر ہواور توفیق نصیب ہو اور نافع ومثمر ہو۔
پاکستان کی حکومت کا رُخ غیر صحیح سمت میں جارہاہے، سوشلزم کے خطرات لاحق ہیں، خصوصی دعافرمائیں کہ حق تعالیٰ پاکستان کو صحیح اسلامی حکومت بنائے اور صحیح ثمرات مرتب فرمائے اور حکمرانوں کو صحیح فہم اور صحیح عمل کی توفیق عطا فرمائے، آمین! عریضہ طویل ہوگیا معافی چاہتاہوں۔

                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                             والسلام
                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                         آپ کامحمد یوسف بنوری عفی عنہ 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین