بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

سلسلۂ مکاتیب حضرت بنوری رحمہ اللہ

سلسلۂ مکاتیب حضرت بنوری رحمہ اللہ

 

والدِ محترم محدث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری v کے نام خلافتِ عثمانیہ کے نائب شیخ الاسلام علامہ محمدزاہد کوثری v کے گراں قدر مکاتیب کاترجمہ مع حواشی’’ بینات‘‘ کے صفحات میں شائع کیا گیا، جسے پذیرائی حاصل ہوئی۔ متعدد اہلِ علم نے اُسے پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا اور حضرت بنوریv اور دیگراکابر کے علمی افادات کے اس سلسلے کو جاری رکھنے پر اصرار فرمایا۔ والد محترم کی جانب سے تحریر کردہ خطوط اور اُن کے نام اکابر اہلِ علم کے مکاتیب کا کافی ذخیرہ ہمارے ریکارڈ میں موجود ہے۔ ان شاء اللہ! وقتاً فوقتاً کسی پہلو سے مفید مکاتیب منتخب کرکے قارئین کی نذر کیے جاتے رہیں گے۔ اُمید ہے سابقہ خطوط کی مانند یہ سلسلہ بھی مفید ثابت ہو گا۔                    (مرتب)

حضرت بنوریv بنام حضرت شیخ الحدیث مولانا محمدزکریاصاحبv
فی ۴ ربیع الأول ۱۳۶۱ھ ، من الجامعۃ الإسلامیۃ من دابھیل (سورت)
صاحب المآثر المبارکۃ مخدومی سیّدی ومولائی ووسیلتی فی الدّارین أطال اللّٰہ حیاتہ الطیبۃ ،آمین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ(۱)
تحیّۃ من عنداللّٰہ مبارکۃ طیبۃ

مدت سے چند حرف لکھنے کا اشتیاق تھا، مگر موانع پیش آتے رہے۔ اُمید ہے کہ مزاجِ اقدس خیروعافیت سے ہوں گے(۲) اور تشنگانِ فیوض کو سیراب فرماتے ہوں گے،  نرجواللّٰہ سبحانہٗ وتعالٰی أن یُّطیل حیاتَکم الطیّبۃَ المبارکۃَ وأن یُّدیمَ برکاتہٖ للأمۃ بکل شفاء ودواء۔
کئی دن سے اس کا اشتیاق پیداہواکہ حضرتِ اقدس کی خدمت میں یہ گزارش کروں کہ مجھے اجازتِ حدیث کی سند سے سرفراز فرمائیں، تاکہ اطمینانِ قلب کے لیے ایک ظاہری توسل کا ذریعہ بھی ہاتھ میں آئے، اگرچہ بضاعت مزجاۃ ہے اور اشتغال ناقص ہے، صرف اتناہے کہ آج کل زیادہ تر وقت اسی سلسلے میں گزررہاہے اور یہی آرزو ہے کہ قرآن وحدیث کے اشتغال میں زندگانی گزرے اور یہی وسیلۂ نجات بنے۔ اگر حضرتِ اقدس اپنی سندِ اجازت سے نوازیں اور اپنے سلسلہ میں شامل فرمائیں تویہ میری سعادت وخوش قسمتی ہوگی، (۳) اتنا عرض ہے کہ اگر طبیعتِ مبارکہ پر کسی قسم کی ناگواری ہواور دل نہ چاہے تو خلافِ طبع ہونے کی صورت میں اصرار نہیں کرتا،(۴) اگر صرف آپ کی مبارک دعا اور میری قلبی عقیدت ومحبت بھی قیامت میں وسیلہ بن جائے، اللہ تعالیٰ کے فضل سے کوئی مستبعد نہیں۔ دل میرایہ چاہتاہے کہ میں خود حاضر ہوتااور فیضِ زیارت سے باریاب ہوتا اور پھر عرض کرتا، لیکن کیا کیا جائے؟! مسافت بعید ہے، موانع بہت ہیں، حاضری کی سعادت سے محروم ہوں۔ اب اگرغائبانہ شفقتِ کریمانہ سے نوازیں گے تومراحم ومکارمِ عالیہ سے بعید نہیں۔ میں آپ کا ایک ناچیز مخلص ہوں اور ایک حلقہ بگوش خادم ہوں، گومجھے ظاہری حاضری کا موقع بہت کم ملا ہے اور براہِ راست فیض یاب ہونے کا موقع بھی نہیں ملتا ہے،لیکن الحمدللہ کہ عقیدت ومحبت سے دور نہیں ہوں اور آپ کی بعض تصانیفِ نافعہ سے مستفید بھی رہتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے ظلِّ عاطفت کو ہمارے سروں پر دیر تک قائم رکھے، اور ہمیں آپ کے ظاہری وباطنی فیوضات سے بیش از بیش مستفیض ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔
واللّٰہ سبحانہٗ وتعالٰی ھو الموفّق ، وفي الختام أرجوا یامولايَ! دعواتکم، وأقبّل یدیکم الکریمتین بوجد وھُیام ، وتقبّلوا تحیاتي ، والسلام وأنا الأفقر إلٰی رحمۃ اللّٰہ سبحانہٗ و تعالٰی محمد یوسف بن السید محمد زکریا بن میر مزمل شاہ بن میر أحمد شاہ بن میر موسٰی بن السید غلام حبیب بن السید رحمۃ اللّٰہ بن السید یحیٰی بن السید محمد أولیاء بن العارف المحقق السید آدم البنوري (الحسیني المتوفّٰی بالمدینۃ المنورۃ سنۃ ۱۰۵۳ھـ)
نوٹ: … اس مکتوب کا جواب حضرتؒ نے مرسلہ خط کے بین السطور وحواشی میں لکھا ہے ، جو نمبروار درج ذیل ہے:
۱:- السلام علیکم 
۲:- نعم، والحمدللّٰہ !
۳:- اس کو مقاصد میں سے کیوں سمجھا جاوے؟! ایک ہی سند کافی ہے ، آگے محض رسم ہے، البتہ اگر باقاعدہ درس ہو تو ایک درجہ نہیں، معتدبہ بھی ہے، مگر اس کی لیاقت تو کبھی نہیں ہوئی اور اب قوت بھی نہیں۔
۴:- دوستوں کی فرمائش سے ناگواری کیوں ہوتی؟! خجلت ضرور ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت بنوریv بنام حضرت شیخ الحدیث مولانا محمدزکریاصاحبv

بسم اللہ الرحمن الرحیم

۲۵جمادی الاولیٰ ۱۳۹۵ھ ،۶؍جون ۱۹۷۵ء

گرامی مفاخر مخدوم محترم حضرت شیخ الحدیث صاحب!  زادھم اللّٰہ توفیقًا و إحسانًا۔

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

حضرت قبلہ والد محترم مولانا سید محمدزکریا صاحب v چالیس دن کی تکلیف وکرب کے بعد کل جمعرات ۲۴جمادی الاولیٰ ۱۳۹۵ھ کی صبح ۱۰ بجے اس دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے اور ہم سے جدا ہوگئے، إناللّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔ اپنی حیاتِ مستعار کے سوسال پورے کرکے چل بسے۔ عقلاً اگرچہ خوشی ہونی چاہیے کہ دنیا کے مصائب سے نجات پاکر ارحم الراحمین کی بارگاہِ رحمت میں پہنچ گئے اور آخر میں سب سے بڑی آرزو یہی تھی، لیکن طبعاً اس نعمت کی محرومی سے ناقابلِ برداشت صدمہ ہے، بجز صبر وانقیاد اور کوئی چارہ کار نہیں۔ حق تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں اجر وصبر سے محروم نہ فرمائے، آمین!
آپ کی خدمت میں کل ایک تار دیاتھاکہ جلد سے جلد آپ کی دعاؤں سے فائدہ پہنچے، اس وقت انہی چند حرفوں پر اکتفا کرتا ہوں، دعوات کا محتاج ومشتاق ہوں، اب تواس لیے بھی زیادہ ضرورت ہے کہ دعواتِ مستجابہ سے اور نالہ ہائے سحری کی برکات سے محروم ہوگیا ہوں۔
                                                                          والسلام 
                                                          محمد یوسف بنوری عفاعنہ
عزیزم محمد سلمہٗ سلامِ اخلاص ونیاز پیش کرتا ہے۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین