بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

سعودی حکومت اور اُمتِ مسلمہ میں اعتمادکی ضرورت! (دوسری اور آخری قسط)

سعودی حکومت اور اُمتِ مسلمہ میں اعتمادکی ضرورت!                               (دوسری اور آخری قسط)

حقِ حرمین اورعمرہ فیس! حرمین شریفین اُمتِ مسلمہ کا مشترکہ روحانی ورثہ ہے، اس ورثہ میں عرب و عجم، مرد وخواتین اور بوڑھے، بچے سب برابر کے حق دار ہیں۔ حرم کے مستقل باسیوں کا حرم میں جتنا حق ہے اتنا ہی حق دنیا کے کسی اور کونے سے آنے والے کا ہے:’’سواء ن العاکف فیہ والباد‘‘ (الحج:۲۵)کے ذیل میں اس کی تفصیلات دیکھی جاسکتی ہیں۔ اگر کوئی مسلمان اپنے اس روحانی وراثتی حق سے جائز طور پر مستفید ہونا چاہے تو دنیا کا کوئی جابر حاکم یا جبری قانون اس کی راہ میں حائل نہیں ہوسکتا۔ کسی مسلمان کے لیے حرم شریف جانا ایساہی ہے جیسے وہ اپنے ملکیتی گھر میں یا محلے کی مسجد میں چلاجائے، جس طرح یہاں کسی کو رکاوٹ ڈالنے کاحق نہیں ،اسی طرح حرم جانے والے کی راہ میں رکاوٹ ڈالنابھی شرعی و قانونی لحاظ سے جائز نہیں۔ آیت بالا کے ضمن میں جصاص ،قرطبی اور رازی جیسی فقہی تفاسیر میں متعدد آثار و احادیث کے حوالوں سے یہ سمجھایاگیاہے کہ حرم میں کسی کا ایسا امتیازی حق نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے کو اس کے حق سے محروم کرسکے۔ یہاں پر مفسرین نے ’’عاکف‘‘ اور ’’باد‘‘ کے مساویانہ حق کی مراد میں دو قول ذکر فرمائے ہیں: ۱:… حرم اور اس کے اطراف کی املاک میں مالکانہ مساوات مراد ہے، ۲:… عبادات کے استحقاق میں مساوات مراد ہے، پہلے قول کے مطابق بعض فقہاء نے حرم کے اطر اف (مکہ ) کی اراضی کی خرید و فروخت اور عمارتوں کے کرایہ لینے سے اس بنا پر منع فرمایا ہے کہ ارض حرم اوراس کی عمارتیں کسی کی ذاتی ملکیت نہیں ہوسکتیں، بلکہ وہ تمام مسلمانوں کی مشترکہ ملک ہے، ظاہرہے کہ ایک شریک دوسرے شریک سے کرایہ کا مطالبہ کرے تووہ شرعاً جائزنہیں(۱)۔ حضرت عمر q کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے مکہ والوں کو یہاں تک کہہ رکھاتھا کہ اپنے گھر وں کے دروازے ہی مت بنائو، اگر حفاظت کی خاطر دروازے بنانا ناگزیر ہوجس کی اجازت بھی دی گئی تھی، تو حاجیوں کے لیے دروازے بندکرنے پر اُکھاڑنے کا حکم اور عمل بھی ملتا ہے۔ اوائل اسلام میں تو مکہ کے ملکیتی گھروں کو سوائب (کھلی ملکیت) سے یاد کیا جاتا تھا، تاکہ ’’بادی ‘‘(باہر سے آنے والے حاجیوں ومعتمر) جہاں چاہیں ٹھہر سکیں ، اور آپؓ ہی سے یہ بھی مروی ہے : ’’من أکل کراء بیوت مکۃ فإنما أ کل نا رًا فی بطنہٖ ۔‘‘ ’’وروی عن عمرؓ وابن عباسؓ و جماعۃ إلٰی أن القادم لہ النزول حیث وجد وعلی رب المنزل أن یؤویہ شاء أوأبی۔وقال ذلک سفیان الثوریؒ وغیرہ۔‘‘ (قرطبی) (۲) یہ رائے حضرت عمر q ،حضرت ابن عباسr سے لے کر امام مالکؒ، سفیان ثوریؒ اور بعد تک کے زعماء اُمت کی رہی ہے، یعنی حرم مکی بلکہ یہاں کی اراضی اور عمارتوں کی ملکیت میں ’’عاکف‘‘ (مقامی ) اور ’’باد‘‘ (غیر مقامی) دونوں برابر کے حق دار ہیں، اسی لیے کسی سے کسی رہائش کا کرایہ وغیرہ لینا بھی ان حضرات کے ہاں ناجائز اور ظلم ہے، یہ کرایہ ایساہی ہے جیساکہ کسی صاحب خانہ سے اپنے گھرمیں رہنے کاکرایہ مانگنا،ظاہرہے کہ یہ کرایہ نہیں بلکہ ناجائزٹیکس بنتاہے جوکہ ظلم ہے ۔اس رائے کی رو سے حرم کی ساری عمارتیں ’’سرکاری سرائے‘‘ اور ’’رباط‘‘ کے طور پر استعمال ہونی چاہئیں، مگر اللہ تعالیٰ جزائے خیردے امام اعظم ابوحنیفہ v کو کہ انہوں نے اور ایک روایت کے مطابق امام شافعی v  نے بھی ’’ الَّذِیْنَ أُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ الخ ‘‘ جیسی قرآنی آیت اور دیگر مختلف جوازی دلائل کی بنا پر مکہ مکرمہ کی اراضی اورذاتی عمارتوں پر مالکانہ حقوق کو جائزتسلیم فرمایا اور ملکیتی عمارتوں کے کرایہ لینے کی اجازت دی اور دوسری صدی سے لے کر تاحال حرم کے آس پاس کی عمارتوں کے کرائے کاجواز امام صاحبv کے جواز ی فتوی کے مرھون منت ہے اورحرم سے لے کر دنیا کے اطراف تک امام صاحبv کے اس فتویٰ کو ’’تلقی بالقبول‘‘ حاصل ہے۔(۳) اس لیے مکہ کی رہائشی عمارتوں کی کرایہ داری پر کسی کو اشکال نہیں رہا۔ امام صاحبv کے اس فتویٰ میں جہاں اُمت مسلمہ کی سہولت ہے وہاں حرم اور اہل حرم کافائدہ بھی ہے، اس لیے اس ’’حنفی مسئلے‘‘ پر کبھی کسی کو تشویش نہیں ہوئی اور نہ امام صاحبv کے اس فتوی کا روایات وآثار سے تقابل فرمایا گیا، بلکہ اس کے مقابلے میں مکہ کی عمارتوں کی کرایہ داری کوناجائز بتانے والی تمام مرفوع روایات ،آثار اور ائمہ کے اقوال کو ’’ أُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ‘‘ والی آیات اور فعلی اجماع کے ذریعہ مرجوح قرار دیاگیاہے ۔حرم کی عمارتوں کے کرایہ کی ممانعت بتانے والی روایات کا حوالہ دینے کا یہاں مقصد صرف اتنا ہے کہ حرم شریف سے متعلق امت مسلمہ کا مشترکہ مالکانہ استحقاق بھی علمائے اُمت کے ایک طبقے کے ہاں بڑے دلائل سے منوایا گیا ہے، گوکہ یہ قول مرجوح سہی، مگر اتنا ضرور ماننا پڑے گا تعامل اُمت اور تلقی اُمت بھی شرعی احکام میں کچھ نہ کچھ مقام ضرور رکھتے ہیں۔ ’’سواء نِ العاکف فیہ والباد‘‘ میں جس مساوات کا بیان ہے اس میں ایک قول تو وہی ہے جس کی تفصیل اوپر بیان ہوئی، اس مساوات کے بارے میں دوسرا قول یہ ہے کہ حرمین میں عبادت کے استحقاق میں سارے مسلمان برابر ہیں۔ عبادت کے حق میں ’’عاکف ‘‘اور ’’باد ‘‘کی مساوات اوربرابری میں کسی کاادنیٰ اختلاف بھی نہیں ہے۔ امام رازیv اس دوسرے قول کو ذکر فرماتے ہیں : ’’القول الثانی: المراد جعل اللّٰہ الناس فی العبادۃ فی المسجد سواء لیس للمقیم أن یمنع البادی وبالعکس قال علیہ السلام : ’’یابنی عبد مناف! من ولی منکم من أمور الناس شیئاً فلا یمنعن أحداً طاف بہذا البیت أوصلی أیۃ ساعۃ من لیل أونہار۔‘‘ وھذا قول الحسنؒ و مجاھدؒ وقول من أجاز بیعَ دور مکۃ۔‘‘ (۴) اس تقریرکامدعایہ ہے کہ حرم آنے والے مسلمان کوکسی بھی طور پر منع کرنا یا اس کی راہ میں کسی قسم کی رکاوٹ ڈالنا شرعاً جائز نہیں، بلکہ یہ عمل مسجد حرام سے روکنے کے مترادف ہے جس کی شناعت و ممانعت خود آیت بالا ’’وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللّٰہِ۔‘‘(۵) اور ’’صد عن المسجد الحرام‘‘ جیسی دیگر آیات میں موجود ہے۔ بنا بریں سعودی حکومت کی عمرہ پالیسی میں سردست دو اُمور انتہائی قابل غور ہیں: ۱:… ویزا فیس جبکہ ویزے پر ’’مجاناً‘‘ لکھا ہوتا ہے۔ ۲:…ایک سال یا تین سال کے دوران دوسرا عمرہ کرنے والے پر دو ہزار سعودی ریال کی ادائیگی کو لازم قرار دینا۔ حج یاعمرہ کے ویزے پر علانیہ یا غیرعلانیہ فیس وصول کرنے کو درج بالا نصوص کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ حر م کی قریبی عمارتوں میں رہائش کی فیس سے زیادہ سنگین ہے، بلکہ براہِ راست عبادت یا ارادئہ عبادت پر ٹیکس کے مترادف ہے۔ ایسا ٹیکس اگر مسلمان حاکم کی طرف سے کسی غیر مسلم کے اپنے عبادت خانہ جانے پر مقرر کیا جائے تو وہ بھی بالاتفاق حرام ہے،(۶) چہ جائیکہ کسی مسلمان سے حرم جانے پر ٹیکس عائد کیا جائے، شاید اسی وجہ سے سعودی حکومت عمرہ اور حج کے ویزے پر ’’مجاناً‘‘ کا لفظ رقم کرنے کا اہتمام کرتی چلی آرہی ہے، مگر اب بعض ٹریول کمپنیوں اور دیگر ذرائع سے معلوم ہوا کہ اپرول یا ویزہ لگوانے کے لیے جو رقم وصول کی جاتی ہے اس میں سے سعودی حکومت کے پاس بھی کچھ جمع کرانا ہوتا ہے، جس میں حج و عمرہ پر فیس وصول کرنے کی ذاتی قباحت پر مستزاد‘ عبادت کو تجارت کا ذریعہ بنانے کی خرابی بھی لازم آرہی ہے، جوکہ خلافِ شرع ہونے کے علاوہ اُمت مسلمہ اور سعودی حکومت کے درمیان بداعتمادی، بدگمانی اور نفرت کاذریعہ بن رہی ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ حج و عمرہ کے ویزوں کو آمدن کا ذریعہ بنانا سعودی حکومت کی ضرورت ہے نہ حکام بالا اس سے باخبر ہیں۔ اگر ہمارا حسن ظن درست ہو تو سعودی حکومت کو اس طرف توجہ دینی چاہیے۔ ممکن ہے ویزہ فیس کو انتظامی خدمات کا معاوضہ قرار دیا جاتا ہو تو اس کی گنجائش ماننے کے باوجود یہ اشکال بالکلیہ رفع نہیں ہوسکتا کہ ’’حرم ‘‘ جانا ہر مسلمان کا حق ہے اور اس حق تک رسائی کی راہ میں کسی قسم کی رکاوٹ ڈالنا جائز نہیں ہے، بلکہ رکاوٹ کو دور کرنا متعلقہ حکومت کا فریضہ ہے۔ یہ فریضہ حرمین شریفین کی تولّیت کی وجہ سے سعودی حکومت کا فرض منصبی ہے، اسی کی بدولت تو سعودی حکومت کو حق حکمرانی حاصل ہے۔ اتنا بڑا معاوضہ ملنے کے باوجود حج و عمرہ کے ویزہ کی معمولی فیسو ں کو لازم قرار دینا یقیناً سعودی حکومت کی ضرورت بھی نہیں ہوسکتا۔ عمرہ فیس سے بڑھ کرمحل اشکال تین سال یاایک سال میں مکررعمرہ کرنے والے معتمرین پر دو ہزار سعودی ریال کی ادائیگی کولازم قرار د یناہے۔ دوہزار ریال کی بابت تاوقتِ تحریر متعدد متضاد خبریں سامنے آچکی ہیں، آخری اطلاع کے مطابق دو ہزار سعودی ریال کی ادائیگی کو تین سال کے عرصہ کے ساتھ مشروط کرنے کی پالیسی واپس لے لی ہے، جبکہ ایک سال کے دوران مکرر عمرہ کرنے والوں پر دوہزار ریال کا لزوم اب بھی باقی ہے، ممکن ہے آگے چل کر ایک سال کے دوران متعدد عمرے کرنے والوں کو بھی رعایت مل جائے۔ تین سال سے ایک سال کی طرف آنا خوش آئند ہے، یہ نیک شگون ہے کہ سعودی حکومت نے اپنی پالیسی کو قابل ترمیم سمجھا ، ا س پر ہم سعودی حکومت کے مشکور ہیں ۔ مگر یہاں دو باتیں بڑی اہم ہیں،ایک یہ کہ دوہزار ریال کی شرط اور ا س کی و صولی کی فقہی و شرعی حیثیت کیا ہے؟ دوسری بات یہ ہے کہ اگر یہ فیس شریعت، قانون اور اخلاق کی رو سے درست نہ ہو تو سعودی حکومت جسے اُمت مسلمہ ملوکیت کی بجائے اسلامی حکومت سمجھتی ہے، اس کی طرف سے اس طرح کے فیصلے کیسے سرزد ہوتے ہیں ؟ایسی پالیسی بنانے والے کون لوگ ہیںاور ان کے مقاصد کیا ہوسکتے ہیں؟  یہ کہنا تو قطعی غلط ہوگا کہ اتنے بڑے اقدامات کے پیچھے شریعت و قانون سے ناواقفیت کارفرماہے، ہاں! یہ ہوسکتاہے کہ سعودی حکومت کے پالیسی ساز اداروں میں بھی سعودی حکومت کے بعض ایسے بدخواہ موجود ہیں جو سعودی حکومت اور اُمتِ مسلمہ کے درمیان غلط فہمی ،دوری، بداعتمادی اور بدگمانی پھیلانے پر کمر بستہ ہیں اور ان بد خواہوں کی کارستانی اور ان کے عزائم سے حکام بالاپوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ حرم جانے پر فیس مقرر کرنا ٹیکس ہے جہاں تک دوہزار ریال کی ادائیگی کاتعلق ہے، اس کی فقہی حیثیت میں کئی احتمال گنوائے جاسکتے ہیں، مثلاً:تبرع،عطیہ،ٹیکس یا جرمانہ !ایک سال میں دومرتبہ عمرہ کرنے پر دوہزار ریال کی ادائیگی اگر اختیار ی ہو جبری نہ ہوتوپھر اُسے تبرع و عطیہ کہا جاسکتا تھا، مگر یہاں معاملہ برعکس ہے تو اب اس شرط کو ٹیکس یا جرمانہ ہی کہاجاسکتاہے۔ اگر ٹیکس قرار دیں تو یہ تاریخ کا وہ پہلا ٹیکس کہلائے گا جو کسی مسلمان حکمران کی طرف سے کسی عبادت کی ادائیگی پر عائد کیا گیا ہو، شریعتِ اسلامیہ کی رو سے مسلما ن حکومت کے لیے حرام ہے کہ وہ غیر مسلموں سے ان کی عبادت گاہوں پر ٹیکس عائد کرے یا ان کی عبادتوں کی ادائیگی پر مالی یا انتظامی طور پر کوئی رخنہ ڈالے۔ حضرت عمر q نے تو غیر مسلموں کے رہائشی گھروں کو بھی مالی لگان سے مستثنیٰ رکھنے کا حکم جاری فرمارکھا تھا، الغرض اگر کافروں پر اس نوعیت کا ٹیکس حرام ہے تو مسلمانوں پر مسلمان حکمرانوں کی جانب سے حرمین جانے پر ٹیکس عائد کرنا کسی شرعی دلیل کی بنیاد پر جائز ہوسکتا ہے؟ بلکہ یہ پالیسی تو حدیبیہ کے مقام پر ’’اس سال نہیں، آئندہ سال‘‘کی شرط اور پابندی کے مترادف ہے اور ’’منع عن المسجد الحرام ‘‘اور ’’صد عن المسجد الحرام ‘‘کی صریح حرمت کے تحت صراحۃً داخل ہوسکتی ہے، بلکہ ’’وَمَا لَھُمْ أَن لَّا یُعَذِّبَھُمُ اللّٰہُ وَھُمْ یَصُدُّوْنَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ‘‘ (الانفال:۳۴) کی روسے عذابِ خداوندی کو دعوت دینے کے مترادف ہے، جبکہ اس وقت پوری اسلامی دنیا اور سعودیہ کے لیے زمینی اورآسمانی عذابوں سے بچنے کی تدابیرسوچی جارہی ہیں۔(۷) مجوزہ فیس مالی جرمانہ کی شکل ہے اگرزائرینِ حرمین پر دوہزار ریال یا اس جیسی مالی پابندی اس وجہ سے عائد کی جائے کہ وہ بار بار حرمین کیوں جاتے ہیں ؟ان کی وجہ سے رش ہوتاہے، یہ رقم عائد کرنے سے باربارآنے والوں کی روک تھام ہوسکے گی، بار بار آنا گویا کہ بزبانِ حال جرم ہے، یہ رقم اس جرم کی مالی سزا ہے تو ایسی سزا مقرر کرنے والے پالیسی سازوں کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ فقہی اصطلاح میں اسے ’’تعزیر مالی ‘‘یا ’’غرامہ مالیۃ ‘‘ یعنی مالی جرمانہ کہاجاتاہے جوکہ کسی واقعی شرعی جرم کی سزا کے طورپرعائدکیاجائے توبھی حرام ہے، چہ جائیکہ کسی بڑی عبادت کوجرم قراردے کر اس کی ادائیگی پر عائد کیا جائے۔ اگر کوئی مالی جرمانے اورعبادت پر جرمانے کو جائز سمجھتا ہو تو اسے باور کرایا جائے کہ کم ازکم فقہ حنفی میں تو مالی جرمانہ کی گنجائش نہیں ہے، بلکہ فقہ حنفی میں تو یہاں تک لکھاہواہے کہ مالی جرمانہ کی اگرکہیں گنجائش ملتی بھی ہو تو حاکمانِ وقت سے ایسی گنجائشوں کوچھپائے رکھناضروری ہے ، تاکہ عوام پر ظلم کا جواز نہ بناسکیں۔(۸) بکثرت حج وعمرے کرنا اسلاف کا معمول ہے مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ حرم جاناعبادت ہے جرم نہیں، اسلاف کے تراجم میں کثرتِ حج و عمرہ کو باقاعدہ منقبتی فضیلت میں شمار کیاجاتاہے ۔’’حجّ بین کذا وکذا حجۃ وعمرۃ‘‘ کے الفا ظ سے بکثرت حج و عمرہ کرنے والوں کا امتیاز ذکرکیاجاتاہے ۔خود امام اعظم ابو حنیفہ v نے پچپن حج و عمر ے کیے تھے، اس لیے اگر سعودی حکومت ہر حال میں دو ہزار ریال یا اور شکل میں حاجیوں پر مالی بوجھ ڈالنا چاہتی ہے اور اس کے پالیسی ساز اس کو جائز بھی قرار دیتے ہوں تو کم از کم یہ پابندی حنفی حاجیوں پر عائد نہیں ہوسکتی، وہ اپنے مسلک کی روسے اس پابندی سے نہ صرف آزاد ہیں بلکہ ناجائز بھی سمجھتے ہیں۔ اس لیے کم از کم مسلکی احترام کی خاطر حنفی حاجیوں اور معتمر ین کوحج وعمرہ کے حوالے سے ہرقسم کی فیس سے مستثنیٰ رکھاجائے۔ اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو۔ حوالہ جات ۱:… إِنَّ الَّذِینَ کَفَرُواْ وَیَصُدُّونَ عَن سَبِیلِ اللّٰہِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِی جَعَلْنَاہُ لِلنَّاسِ سَوَآء ً الْعَاکِفُ فِیہِ وَالْبَادِ وَمَن یُرِدْ فِیہِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُّذِقْہُ مِنْ عَذَابٍ أَلِیمٍ ۔قال ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما نزلت الآیۃ فی أبی سفیان بن حرب وأصحابہ حین صدوا رسول اللّٰہ ( صلی اللّٰہ علیہ وسلم ) عام الحدیبیۃ عن المسجد الحرام عن أن یحجوا ویعتمروا وینحروا الہدی فکرہ رسول اللّٰہ ( صلی اللّٰہ علیہ وسلم ) قتالہم وکان محرماً بعمرۃ ثم صالحوہ علی أن یعود فی العام القابل المسألۃ الثانیۃ العاکف المقیم بہ الحاضر والبادی الطاریء من البدو وہو النازع إلیہ من عربتہ وقال بعضہم یدخل فی العاکف القریب إذا جاور ولزمہ للتعبد وإن لم یکن من أہلہ المسألۃ الثالثۃ اختلفوا فی أنہما فی أی شیء یستویان قال ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما فی بعض الروایات إنہما یستویان فی سکنی مکۃ والنزول بہا فلیس أحدہما أحق بالمنزل الذی یکون فیہ من الآخر إلا أن یکون واحد سبق إلی المنزل وہو قول قتادۃ وسعید بن جبیر ومن مذہب ہؤلاء أن کراء دور مکۃ وبیعہا حرام واحتجوا علیہ بالآیۃ والخبر أما الآیۃ فہی ہذہ قالوا إن أرض مکۃ لا تملک فإنہا لو ملکت لم یستو العاکف فیہا والبادی فلما استویا ثبت أن سبیلہ سبیل المساجد وأما الخبر فقولہ علیہ السلام (مکۃ مباح لمن سبق إلیہا )۔۔۔۔۔۔ وعلی ہذا المراد بالمسجد الحرام الحرم کلہ لأن إطلاق لفظ المسجد الحرام والمراد منہ البلد جائز بدلیل قولہ تعالی سُبْحَانَ الَّذِی أَسْرَی بِعَبْدِہِ لَیْلاً مّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ (الإسرائ:۱)وہہنا قد دل الدلیل وہو قولہ الْعَاکِفُ لأن المراد منہ المقیم إقامۃ وإقامتہ لا تکون فی المسجد بل فی المنازل فیجب أن یقال ذکر المسجد وأراد مکۃ القول الثانی المراد جعل اللّٰہ الناس فی العبادۃ فی المسجد سواء لیس للمقیم أن یمنع البادی وبالعکس قال علیہ السلام (یا بنی عبد مناف من ولی منکم من أمور الناس شیئاً فلا یمنعن أحداً طاف بہذا البیت أو صلی أیۃ ساعۃ من لیل أو نہار۔۔۔۔۔۔۔ وہذا قول الحسن ومجاہد وقول من أجاز بیع دور مکۃ وقد جرت مناظرۃ بین الشافعی وإسحق الحنظلی بمکۃ وکان إسحق لا یرخص فی کراء بیوت مکۃ واحتج الشافعی رحمہ اللّٰہ بقولہ تعالی الَّذِینَ أُخْرِجُواْ مِن دِیَارِہِم بِغَیْرِ حَقّ (الحج:۴)فأضیفت الدار إلی مالکہا وإلی غیر مالکہا وقال علیہ السلام یوم فتح مکۃ (من أغلق بابہ فہو آمن )وقال(صلی اللّٰہ علیہ وسلم) (ہل ترک لنا عقیل من ربع )۔(مفاتیح الغیب،للإمام العالم العلامۃ والحبر البحر الفہامۃ فخر الدین محمد بن عمر التمیمی الرازی الشافعی، ط:دار الکتب العلمیۃ بیروت ۱۴۲۱ھ ) ۲:… وروی عن عمرؓ وابن عباسؓ وجماعۃ ’’إلی أن القادم لہ النزول حیث وجد ، وعلی رب المنزل أن یؤویہ شاء أو أبی۔  وقال ذلک سفیان الثوری وغیرہ ، وکذٰلک کان الأمر فی الصدر الأول ، کانت دورہم بغیر أبواب حتی کثرت السرقۃ ؛ فاتخذ رجل بابا فأنکر علیہ عمر وقال :أتغلق بابا فی وجہ حاج بیت اللّٰہ ؟ فقال: إنما أردت حفظ متاعہم من السرقۃ ، فترکہ فاتخذ الناس الأبواب۔ وروی عن عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ أیضا أنہ کان یأمر فی الموسم بقلع أبواب دور مکۃ ، حتی یدخلہا الذی یقدم فینزل حیث شاء ، وکانت الفساطیط تضرب فی الدور۔ وروی عن مالک أن الدور لیست کالمسجد ولأہلہا الامتناع منہا والاستبداد ؛ وہذا ہو العمل الیوم۔ وقال بہذا جمہور من الأمۃ.  وروی الدارقطنی عن علقمۃ بن نضلۃ قال: توفی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأبو بکر وعمر رضی اللّٰہ عنہما وما تدعی رباع مکۃ إلا السوائب ؛ من احتاج سکن ومن استغنی أسکن۔ وزاد فی روایۃ: وعثمان۔ وروی أیضا عن علقمۃ بن نضلۃ الکنانی قال: کانت تدعی بیوت مکۃ علی عہد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأبی بکر وعمر رضی اللّٰہ عنہما السوائب ، لا تباع  من احتاج سکن ومن استغنی أسکن۔ وروی أیضا عن عبد اللّٰہ بن عمرو عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: إن اللّٰہ تعالی حرم مکۃ فحرام بیع رباعہا وأکل ثمنہا - وقال - من أکل من أجر بیوت مکۃ شیئا فإنما یأکل نارا۔ (الجامع لأحکام القرآن،أبو عبد اللّٰہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی، ج:۱۲،ص:۳۲، ط:دار عالم الکتب، الریاض، المملکۃ العربیۃ السعودیۃ) ۳:… وقال أبوحنیفۃؒ: لابأس ببیع بناء بیوت مکۃ وأکرہ بیع أراضیہا وروی سلیمان عن محمد عن أبی حنیفۃ  قال: أکرہ إجارۃ بیوت مکۃ فی الموسم ، وفی الرجل یقیم ثم یرجع فأما المقیم والمجاور فلانری بأخذ ذٰلک منہم بأساً، وروی الحسن بن زیاد عن أبی حنیفۃؒ أن بیع دور مکۃ جائز۔ (احکام القرآن للجصاص، ج:۳، ص:۲۲۹، ط: دارالکتاب العربی) ۴:… القول الثانی المراد جعل اللّٰہ الناس فی العبادۃ فی المسجد سواء لیس للمقیم أن یمنع البادی وبالعکس۔ (مفاتیح الغیب،للإمام العالم العلامۃ والحبر البحر الفہامۃ فخر الدین محمد بن عمر التمیمی الرازی الشافعی،ط: دار الکتب العلمیۃ - بیروت- ج:۲۳،ص:۲۲) وروی سعید بن جبیر عن بن عباسؓ قال: کانوا یرون الحرم کلہ مسجدا سواء العاکف فیہ والبادی وروی یزید بن أبی زیاد عن عبد الرحمن بن سابط سَواء ً الْعاکِفُ فِیہِ وَالْبادِ قال من یجیء من الحاج والمعتمرین سواء فی المنازل ینزلون حیث شاء وا غیر أن لا یخرج من بیتہ ساکنہ قال وقال ابن عباس فی قولہ سَواء ً الْعاکِفُ فِیہِ وَالْبادِ قال العاکف فیہ أہلہ والباد من یأتیہ من أرض أخری وأہلہ فی المنزل سواء ولیس ینبغی لہم أن یأخذوا من البادی إجارۃ المنزل وروی جعفر بن عون عن الأعمش عن إبراہیم قال قال رسول اللّٰہ صلّٰی اللّٰہ علیہ وسلّم مکۃ حرمہا اللّٰہ لا یحل بیع رباعہا ولا إجارۃ بیوتہا۔(الکتاب: أحکام القرآن للجصاص،أحمد بن علی المکنی بأبی بکر الرازی الجصاص الحنفی، ج:۵، ص:۶۱، ط: دار إحیاء التراث العربی- بیروت) ۵:… وثالثہا أنہا نزلت فی مشرکی العرب الذین منعوا الرسول علیہ الصلاۃ والسلام عن الدعاء إلی اللّٰہ بمکۃ وألجؤہ إلی الہجرۃ فصاروا مانعین لہ ولأصحابہ أن یذکروا اللّٰہ فی المسجد الحرام وقد کان الصدیق رضی اللّٰہ عنہ بنی مسجداً عند دارہ فمنع وکان ممن یؤذیہ ولدان قریش ونساؤہم۔۔۔المسألۃ الخامسۃ السعی فی تخریب المسجد قد یکون لوجہین أحدہما منع المصلین والمتعبدین والمتعہدین لہ من دخولہ فیکون ذلک تخریباً۔ ( مفاتیح الغیب،للإمام العالم العلامۃ والحبر البحر الفہامۃ فخر الدین محمد بن عمر التمیمی الرازی الشافعی، ج:۴ ،ص:۹، ط: دار الکتب العلمیۃ- بیروت۱۴۲۱ھ) ۶:…  وأما إجارۃ البیوت فإنما أجازہا أبوحنیفۃؒ إذا کان البناء ملکاً للمؤاجر فیأخذ أجرۃ ملکہٖ فأما أجرۃ الأرض فلاتجوز وہو مثل بناء الرجل فی أرض لآخر یکون لصاحب البناء إجارۃ البناء ۔ (احکام القرآن للجصاص، ج:۳، ص:۲۳۰، ط: دارالکتاب العربی، بیروت) ۷:…قولہ تعالی وما لہم ألا یعذبہم اللّٰہ وہم یصدون عن المسجد الحرام وہذا العذاب غیر العذاب المذکور فی الآیۃ الأولی لأن ہذا عذاب الآخرۃ والأول عذاب الاستیصال فی الدنیا۔ (أحکام القرآن للجصاص،أحمد بن علی المکنی بأبی بکر الرازی الجصاص الحنفی ، ج:۴،ص:۲۲۸،  ط :دار احیاء التراث العربی ـ بیروت ۱۴۰۵ھ ) ۸:…فی الخلاصۃ والخانیۃ للتعزیر بأخذ المال أن رأی القاضی أو الوالی جاز ، من جملۃ ذٰلک من لایحضر الجماعۃ یجوز التعزیر بأخذ المال ، انتہٰی۔ إلا أن روایۃ جواز التعزیر بأخذ المال ینبغی أن لایطلع علیہ سلاطین زماننا لأنہم بعد الاطلاع قد یجاوزون حد الأخذ بالحق إلی التعدی بالباطل۔ (المتانۃ، ج:۲، ص:۵۴۶، ط: مکتبہ عمریہ ، کوئٹہ)

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین