بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

زندہ اسلام اور مردہ عیسائیت

زندہ اسلام اور مردہ عیسائیت

    قال اﷲ جل جلالہ وعم نوالہ: ’’إِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْإِسْلَامُ ‘‘۔     وقال النبی a: ’’ومحمد فرق بین الناس الخ‘‘۔ (مشکوٰۃ شریف)     زمانہ قدیم میں عیسائیت کی قیادت ’’کلیسا‘‘ کے ہاتھ میں تھی جو عیسائی پوپوں کی مذہبی حکومت ہوتی تھی، پھر قیادت پراسٹیٹ یعنی گورنمنٹ اور کلیسا کے درمیان لمبا جھگڑا ہوگیا۔ کلیسا کی مذہبی قیادت میں چونکہ پادریوں اور پوپوں کے پاس جدید معاشرہ کے مسائل کا حل نہیں تھا، اس لیے اس جنگ میں اسٹیٹ نے کلیسا کو شکست دے دی اور کلیسا اسٹیٹ سے باہرہوگیا، اس طرح عیسائی اسٹیٹ مذہب سے بالکل الگ ہوکر رہ گئی اور کلیسا اپنے پادریوں اور پوپوں کے ساتھ الگ ہوکر بیٹھ گیا۔ پھر دونوں کے مابین یہ طے ہوا کہ کلیسا کا مذہب اسٹیٹ کے امور میں مداخلت نہیں کرے گا اور اسٹیٹ کلیسا کو ایک محدود مقام پر رکھ کر الگ تھلگ رکھے گی۔ چنانچہ روما سلطنت اٹلی میں ویٹی کن کا ایک علاقہ عیسائی پادریوں اور پوپوں کے حوالہ کردیا گیا جو چند کلو میٹر پر مشتمل ہے اور جس پر پوپوں کی حکومت ہے اور یہ ان کا ایساہی مرکزی اورمذہبی مقام ہے، جیساکہ مسلمانوں کے پاس مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ ہے۔ عیسائی ممالک پوپوں کی اس محدود قیادت کا مالی تعاون کرتے ہیں اور بجٹ میں کلیسا کا حصہ مقرر کرتے ہیں۔     اس تاریخی پس منظر کے بیان سے میرا مقصد یہ ہے کہ دنیا دیکھے اور انصاف سے فیصلہ کرلے کہ ویٹی کن آباد ہے یا مکہ مکرمہ ومدینہ منورہ آباد ہے۔ میرا دعویٰ ہے کہ ویٹی کن ہرلحاظ سے ویران ہے اور مکہ مکرمہ ومدینہ منورہ ہر لحاظ سے آباد ہے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام زندہ وتابندہ مذہب ہے اور عیسائیت بے روح میت اور مردہ حقیقت ہے۔ چنانچہ بطور دلیل میں جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کے پرنسپل اور شیخ الحدیث حضرت مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر صاحب دامت برکاتہم کا چشم دید واقعہ عرض کرنے کی جسارت کرتا ہوں۔ میں نے حضرت ڈاکٹر صاحب سے جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں دیگر علما کی موجودگی میں پوچھا کہ آپ نے اٹلی کا سفر کیا ہے اور ویٹی کن کا مشاہدہ بھی کیا ہے، آپ نے وہاں کیا دیکھا ؟حضرت ڈاکٹر صاحب نے اپنا مشاہدہ یوں بیان کیاکہ:     روماسلطنت اٹلی میں ویٹی کن ایک شہر ہے جو عیسائی پوپوں کا مرکز ہے، یہ جگہ عیسائی مذہب کا مرکزی مقام ہے۔ وہاں کا پوپ پوری دنیا کی عیسائیت کا سب سے بڑا مذہبی پیشوا سمجھا جاتا ہے۔ ایک پوپ کے مرنے کے بعد دوسرا پوپ اس عہدے پر فائز ہوجاتاہے۔ ویٹی کن ایک چھوٹا سا شہر ہے، اس کے اندر قلعہ نما ایک مقام ہے جو چہار دیواری کے اندر ہے، اونچی اونچی دیواریں ہیں اور لمبی لمبی گیلریاں ہیں، ایک طرف سے اس کا بڑا گیٹ ہے، اس میں ہرجانے والے سے گیارہ یا تیرہ ڈالر بطور ٹکٹ لیا جاتا ہے۔ اندر جاکر گیلریاں بنی ہوئی ہیں، ان گیلریوں اور برآمدوں میں حضرت عیسیٰ طغریٰ اور حضرت مریم طغریٰ کی تصاویر رکھی ہوئی ہیں، لوگ اس پر گزرتے ہیں اور اسے دیکھ کر چلے جاتے ہیں۔ ان سے گزر کر آگے عیسائیوں کے قدیم زمانے کی جنگوں کے نقشے رکھے ہوئے ہیں، اس سے گزر کر اگلے گیٹ سے لوگ نکل جاتے ہیں۔ بس یہی ویٹی کن ہے، نہ وہاں کوئی عبادت ہے، نہ اللہ تعالیٰ کا نام ہے، نہ کوئی گر جا ہے۔ ممکن ہے کہیں گر جاہو، لیکن ہم نے نہیں دیکھا۔ ہمارا خیال تھا کہ ویٹی کن کوئی بڑا علاقہ ہوگا، اس میں عبادت خانہ ہوگا، وہاں لوگ عبادت کرتے ہوں گے، لیکن دیکھنے کے بعد ہم نے اس کو اپنے خیال کے بالکل برعکس پایا۔ گویا یہ کہاوت صادق آرہی تھی کہ ’’کھودا پہاڑ نکلا چوہا،وہ بھی مرا ہوا‘‘ ہمیں وہاں پر نہ کوئی عبادت خانہ نظر آیا، نہ کوئی عبادت ہوتی ہوئی نظر آئی، ایک خالی ویران علاقہ نظر آیا جس میں ہرطرف وحشت اور نحوست محسوس ہورہی تھی۔عیسائی لوگ دنیا کو دھوکہ دیتے ہیں اور مسلمانوـں کے حج اور عمرہ کے مناظر دیکھنے دکھانے کو ممنوع قرار دیتے ہیں۔     یہ ہیں ڈاکٹر صاحب کے وہ کلمات جو ویٹی کن کے مشاہدہ کے تأثر میں آپ نے ارشاد فرمائے ہیں۔ اس مضمون کے لکھنے اور دینِ مسیحی اور دینِ اسلام کے تقابل کا سبب یہ بنا کہ میں نے جب اس سال ۱۹؍رمضان ۱۴۳۵ھ میں مدینہ منورہ سے احرام باندھا اور عمرہ ادا کرنے کے لیے مکہ مکرمہ آیا تو رمضان کا آخری عشرہ شروع ہونے والا تھا، صفا مروہ پہنچ کر سعی کرنے لگا تو لوگوں کے ازدحام میں پھنس گیا، اس وقت میرے ذہن میں ویٹی کن کا خیال آیا اور زبان پر بے اختیار یہ جملے جاری ہوگئے: اے خالی خولی ویران ویٹی کن! تیرے پاس رکھا کیا ہے؟ دیکھو محمد عربی a کی محبوبیت کا سمندر لوگوں سے کس طرح ٹھاٹھیں مار رہا ہے؟ بے شک ان میں بے شمار گناہ گار ہوں گے، لیکن ان کے دلوں میں محمدیت کا ایسا جذبہ ہے کہ اگر ان کو کوئی کہہ دے کہ توحید اور اسلام کا کلمہ طیبہ چھوڑ دو تو وہ مرنے مارنے پر اتر جاتے ہیں۔ موسم حج کے ولولہ انگیز عظیم مناظر تو اپنی جگہ ایک بحر زخار ہے جو ناپید کنار ہے، لیکن رمضان میں عمرہ کے لیے فرزندان توحید کا جو امنڈتاہوا سیلاب نظر آتا ہے، اس کا بیان نوک قلم میں لاکر قلمبند کرنا کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ کئی مربع میل حرم مکہ اور حرم مدینہ میں وہ کونسی جگہ ہے جہاں انسانوں کا سمندر موجزن نہ ہو؟ حرم میں اندر کے وسیع ہال ہوں یا کھلا مطاف ہو یا صفامروہ ہوں یا باہر کے وسیع میدان ہوں، وسیع سڑکیں ہوں یا کھلے بازار ہوں یا فلک بوس ہوٹل ہوں، مکہ ہو یا مدینہ ہو، کسی جگہ تل دھرنے کی جگہ نہیں ملتی ہے۔ اگر ویران ویٹی کن اس عظیم مجمع کا نظارہ کرے تو اپنے خالی دامن کو دیکھ کر شرم سے اس کا سرجھک جائے گا اور اقرار کرلے گا کہ: چراغِ مردہ کجا نور آفتاب کجا بیں تفاوت راہ از کجا است تا بکجا     دنیا کا کونسا ملک ہے اور اقوام عالم کی کونسی قوم ہے اور دنیا کا کونسا خطہ ہے جس کے مسلمانوں کا جم غفیر یہاں ’’لبیک أللّٰہم لبیک‘‘ کا نعرہ بلند نہ کرتا ہو؟     مختلف النوع اور مختلف طبائع کے انسانوں کا یہ عظیم مجمع اس طرح پرسکون اور امن وامان سے رہتا ہے جس کی نظیر دنیا پیش نہیں کرسکتی ہے۔ اگر کسی اور مقام پر اس جم غفیر کا عشر عشیر بھی اکٹھا ہوجائے تو ہرروز سینکڑوں جھگڑے ہوں گے، لیکن یہاں انسانوں کا آپس میں محبت والفت اور تعاون قابل دید ہوتا ہے، ہرشخص کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ یہاں آئے ہوئے اپنے مسلمان بھائیوں کی کوئی خدمت کرے۔ روزہ کے افطار کے وقت مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کے دروازوں پر چھوٹے چھوٹے بچے کھڑے ہوجاتے ہیں، اور ہر آنے والے کا دامن پکڑ پکڑ کر بڑے پیار سے اپنے دسترخوان کی طرف بلاتے ہیں کہ آئیے! ہمارے ساتھ افطارکیجئے! جب کہنے والا کہتا ہے کہ میں اپنے ساتھیوں کے پاس جاتا ہوں تو یہ بچے کہتے ہیں کہ کیا ہم آپ کے ساتھی نہیں ہیں؟ پھر دسترخوان پر مدینہ منورہ میں وہ نعمتیں جمع ہوتی ہیں جن کا شمار کرنا مشکل ہوتا ہے، رات بھر ان نعمتوں سے لاکھوں انسان فائدہ اٹھاتے ہیں، پھر سحری کے وقت راستوں میں اللہ تعالیٰ کے بندے کھڑے ہوتے ہیں اور سحری کرنے والوں تک سحری پہنچاتے ہیں، کیا محبت وایثار اور ہمدردی کا یہ منظر ویٹی کن پیش کرسکتا ہے؟ نہیں، نہیں، ہرگز نہیں! کیونکہ ایک طرف زندہ حقیقت ہے اور دوسری طرف بے جان میت ہے ۔     مسلمانوں کے مختلف ممالک سے آئے ہوئے ان مختلف انسانوں میں ایسے ایسے خوبصورت انسان بھی ہوتے ہیں کہ ان کو دیکھ کر دل خوش ہوجاتا ہے اور زبان پر یہ کلمات آتے ہیں کہ یا اللہ! تیرا شکر ہے کہ محمد عربی a کی امت میںایسے ایسے خوبصورت انسان بھی داخل ہیں، بعض بچے جب مکہ ومدینہ کے حرم میں دوڑتے نظر آتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ فرش پر چمکدار موتی بکھرے ہوئے ہیں، بعض چھوٹے بچے جب احرام لگائے ہوئے نظر آتے ہیں تو بے اختیار جسم جھوم کر زبان پر یہ جملہ آتا ہے کہ مولا! تیرا شکر ہے، تیرا دین زندہ ہے، تیرے نبی کا معجزہ زندہ ہے۔ مخلوق خدا کے اس ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر میں عبادات کے ایسے روح پرور مناظر ہیں کہ اگر غیر مسلم اقوام اس کودیکھ لیں تو اسلام قبول کرلیںگے، اسی لیے امریکہ وغیرہ غیر مسلم ممالک میں حج وعمرہ اور حرمین شریفین کے مناظر دیکھنے دکھانے پر پابندی ہے۔ کیا اس طرح روح پرور مناظر کا نقشہ ویٹی کن دکھا سکتا ہے؟ نہیں، نہیں! ہرگز نہیں۔ ہاں! البتہ ایسے مناظر کو وہ دھوکہ دے کر چھپاسکتا ہے۔     عیسائیوں کے بعض دھوکہ باز ادارے دنیا کو دھوکہ میں رکھنے کے لیے یہ پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ اسلام کو کسی شریف طبقہ نے قبول نہیں کیا ہے، بلکہ چند سیاہ فام صحرائی اور جنگلی جاہلوں نے قبول کیا ہے۔ میں کہتا ہوں ویٹی کن جھوٹ بولتا ہے، وہ ذرا حج وعمرہ کے مناظر کو دیکھیں تو ان کو شریف مسلمانوں اور اعلیٰ خاندانوں اور عظیم سرداروں کی بھری ہوئی دنیا نظر آجائے گی اور اگر قدیم تاریخ کو کھول دیں تو ان کو فرشتوں کی صورت میں دحیہ کلبی ؓ جیسے انسان نظر آجائیں گے اور بجلی کی طرح جریر بن عبد اللہ بجلیؓ کا چمکتا ہوا چہرہ نظر آجائے گااور اگر دنیا کی قیادتوں کو دیکھا جائے تو مسلمانوں نے چودہ سوسال سے مسیحی اقوام کو انسانیت وسیادت اورسیاست ولیاقت سکھائی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے محمد عربی a کو اعلیٰ رفعتوں اور بے شمار ترقیوں اور کامیابیوں سے نواز کر اعلان فرمایا: ’’وَالضُّحٰی وَاللَّیْلِ إِذَا سَجٰی مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَمَاقَلٰی وَلَلْآخِرَۃُ خَیْرٌ لَّکَ مِنَ الْأُوْلٰی وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی‘‘۔     یہ رفعتیں اور عظمتیں اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم a کے واسطہ سے آپ a کی امت کو بھی عطا کیں۔ یہ الگ بات ہے کہ مسلمانوں کے حکمرانوں نے اپنا راستہ چھوڑ دیا اور ویٹی کن کا راستہ اپنا لیا تو خوار ہوگئے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ ویٹی کن کے پاس نہ کتاب ہے، نہ سنت ہے، نہ نماز ہے، نہ زکوٰۃ ہے، نہ روزہ ہے، نہ حج وعمرہ ہے، نہ مرکز ہے، نہ اجتماعیت ہے، نہ محبت ہے، نہ عبادت ہے اور نہ شرافت ہے، بلکہ ویٹی کن کے پوپ اور مسیحی دنیا کے پادری سب سے زیادہ بے راہ روی کے شکار ہیں۔ اپنے مقدس مقام ویٹی کن میں بیٹھ کر اغلام بازی اور جنسی تعلقات میں ایسے ڈوبے ہوئے ہیں کہ بی بی سی اور دیگر بین الاقوامی نشریاتی ادارے ان کی شرمناک حرکتوں پر چیخ اٹھے ہیں، یہاں تک کہ ویٹی کن کے بڑے پوپ بینڈک نے مجبوراً شرم کے مارے استعفیٰ دے دیا ہے، کہاں یہ بے حیائی اور کہاں حرمین شریفین میں وہ شرافت کہ مرد اور عورتیں ایک ساتھ رہ کر ایک دوسرے کو ماں بہن اور باپ بیٹا تصور کرتے ہیں۔ مرد کو خیال نہیں آتا ہے کہ وہ خود مرد ہے اور سامنے عورت ہے، نہ عورت کو یہ خیال آتا ہے کہ وہ خود عورت ہے اور سامنے مرد ہے، کہاں یہ زندہ حقیقت؟ اور کہاں مردہ مسیحیت: چراغ مردہ کجا نور آفتاب کجا بیں تفاوت راہ از کجا است تا بکجا     بے ساختہ زبان سے دعا نکلتی ہے: ’’ أللّٰہم اغفر لامۃ محمد a اللّٰہم ارحم أمۃ محمدa أللّٰہم تجاوز عن أمۃ محمد a آمین یارب العالمین وصلی اللّٰہ علی نبیہ الکریم۔

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین