بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

ریاست اور مذہب کا تعلق غامدی صاحب کا جوابی بیانیہ، خود اُن کی عدالت میں (پہلی قسط)

ریاست اور مذہب کا تعلق غامدی صاحب کا جوابی بیانیہ، خود اُن کی عدالت میں                          (پہلی قسط)

    حال ہی میں جناب جاوید احمد غامدی کا ایک مضمون  ’’اسلامی ریاست: ایک جوابی بیانیہ‘‘ اُن کے ماہنامہ ’’اشراق‘‘ لاہور اور چند دوسرے رسائل اور جرائد میں شائع ہوا ہے۔ موضوع کی اہمیت اور دلفریب اندازِ بیان کے سبب یہ مضمون گہرے غور و فکر کا متقاضی سمجھاگیا اور اس پر بحثیں بھی ہوئیں۔ اس لیے بھی کہ یہ ملک میں جاری اسلام اور سیکولرزم کی اُس کشمکش کی عکاسی کرتا ہے، جس کے دوررس نتائج ہوں گے۔ ذیل کی سطور میں مضمون کے صرف چند نکات کا اختصار سے جائزہ لیا جاتا ہے۔ اس مضمون کا اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ ’’ریاست کا کوئی مذہب یا دین نہیں ہوتا۔‘‘ ماضی میں بھی اس موضوع پر بحث ہوتی رہی ہے جس میں ’’جوابی بیانیے‘‘ کے مصنف کا نقطۂ نظر وہی رہاہے جو پاکستان کے راسخ العقیدہ اسلامی مفکرین کا ہے۔ حوالے کے لیے ملاحظہ فرمایئے: ماہنامہ اشراق ستمبر ۱۹۸۸ء میں غامدی صاحب کا مضمون جو سابق صدر ضیاء الحق کی وفات کے تناظر میں لکھا گیا۔ قارئین کی سہولت کے لیے مضمون کا متعلقہ حصہ ذیل میں نقل کیا جاتا ہے۔ (خط کشیدہ جملے خصوصی توجہ کے مستحق ہیں) ’’صدر جنرل محمد ضیاء الحق بھی دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ان کی وفات ہماری تاریخ کا ایک ناقابلِ فراموش سانحہ ہے۔ نفاذِ دین کے لیے جو حکمتِ عملی انہوں نے اپنے دورِ اقتدار میں اختیار کیے رکھی، مجھے اگرچہ اس سے سخت اختلاف تھا، لیکن ابھی پچھلے ماہ میں نے جب ’’شریعت آرڈیننس‘‘ کے نفاذ کے بعد ان کی حکمت عملی پر تنقید لکھی تو اس میں یہ بھی لکھا: ’’مجھے اس بات کا اعتراف کرنا چاہیے کہ وہ بہرحال اس ملک کی تاریخ میں پہلے سربراہِ مملکت ہیںجنہوں نے اسلام کے ساتھ اپنے تعلق کو بغیر کسی معذرت کے پورے اعتماد کے ساتھ ظاہر کیا، اُسے برملا اس مملکت کی اَساس قرار دیا، اس کے بارے میں صاف صاف کہا کہ وہ جس طرح ہماری انفرادی زندگی کا دین ہے، اسی طرح ہماری ریاست کا بھی دین ہے۔ اپنی سربراہی کے پہلے دن سے اس کے نفاذ کے لیے کوشاں ہوئے۔  علماء اور اہلِ دین کے ساتھ بہت عقیدت مندانہ رویہ اختیار کیا۔ ہر قومی اور بین الاقوامی پلیٹ فارم پر جہاں انہیں موقع ملا، وہ قرآن کی آیات پڑھتے اور اسلام پر اپنے غیرمتزلزل یقین کا اظہار کرتے نظر آئے، اور اس ملک میں جہاں اکثر اربابِ سیاست اب بھی اس حماقت میں مبتلا ہیں کہ مذہب انسان کا انفرادی معاملہ ہے اور ریاست کے معاملات سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے، وہ ہر جگہ اور ہر موقع پر اس تصور کی بیخ کنی کرتے رہے۔صدر صاحب کی وفات کے بعد اب اس ملک کے درو دیوار اِن حقائق کا اعتراف کررہے ہیں۔‘‘                                     (ص:۶) خط کشیدہ جملوں میں موصوف نے صدر ضیاء الحق کے ان الفاظ کا حوالہ دیا ہے کہ اسلام جس طرح ہماری انفرادی زندگی کا دین ہے، اسی طرح ہماری ریاست کا بھی دین ہے او ریہ حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے صدر ضیاء الحق کے نقطۂ نظر سے کسی اختلاف کا اظہار نہیں کیا، بلکہ کہا کہ ملک کے جو ارباب ِسیاست یہ کہتے ہیں کہ مذہب انسان کا انفرادی معاملہ ہے اور ریاست کے معاملات سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے‘ وہ حماقت میں مبتلا ہیں۔ اب ’’جوابی بیانیے‘‘ میں موصوف کا یہ کہنا کہ ریاست کا کوئی دین نہیں ہوتا، یہ ان کے نقطۂ نظر میں ایک بڑی تبدیلی ہے اور جب تک وہ نہیں بتاتے کہ اس تبدیلی کی وجوہات یا محرکات کیا ہیں او ریہ ’’جدید وحی‘‘ کب اور کیوں نازل ہوئی؟ بحث کو آگے بڑھانا مفید نہیں ہوگا۔ ’’کیوں‘‘ سے ہماری مراد سبب (cause) ہے۔ ہم ان کے جواب کے منتظر رہیں گے۔ ویسے ہمیں صر ف ایک فیصد امید ہے کہ وہ اپنے ان تجربات اور مشاہدات کو بیان کریں گے جو اس تبدیلی کے محرک ہوئے، کیونکہ ’’اشراق‘‘ کے مذکورہ مضمون کی وضاحت کرتے ہوئے ان کی یادداشت کی ’’ایک اور‘‘ کمزوری واضح ہوجائے گی۔ یہاں یہ عرض کرنا نامناسب نہ ہوگا کہ یہ نقطۂ نظر میں محض تبدیلی نہیں بلکہ یوٹرن (U-turn) ہے، جس کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے: جو لکھا پڑھا تھا نیاز نے سو وہ صاف دل سے بھلادیا جناب جاوید احمد غامدی ’’جوابی بیانیے‘‘ میں لکھتے ہیں کہ’’’ خلافت کوئی دینی اصطلاح نہیں ہے۔‘‘ خلافت دینی اصطلاح ہے یا نہیں‘ اس سلسلے میں ہم جاوید احمد غامدی صاحب کے جلیل القدر استاذ امام امین احسن اصلاحی اور اُن (غامدی صاحب) کے استاذ الاستاذ امام حمید الدین فراہی کی تحریریں پیش کرتے ہیں۔ ان علماء کا انتخاب ہم نے اس لیے کیا کہ خود غامدی صاحب لکھتے ہیں: ’’حالی غالب کے شاگرد تھے۔ ان کے مرثیے کا اختتام انہوں نے جن شعروں پر کیا ہے ‘ انہیں لوگوں نے اُس زمانے میں حالی کے حسنِ عقیدت پر محمول کیا ہوگا، لیکن وقت نے ثابت کردیا کہ غالب وہی تھا جسے حالی کی آنکھوں نے دیکھا، میں نے بھی بہت سے عالم دیکھے، بہتوں کو پڑھا اور بہتوں کو سنا ہے، لیکن امین احسن اور ان کے استاد حمید الدین فراہی کا معاملہ وہی ہے کہ : غالبِ نکتہ داں سے کیا نسبت! خاک کو آسماں سے کیا نسبت!                                                                               (مقامات، طبع دوم، ص:۱۳۰،۱۳۱) مولانا امین احسن اصلاحی سورۂ آل عمران کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ  أُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ إِلٰی الْخَیْرِ وَیَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وََیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ  وَأُولَٰئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَاخْتَلَفُوْا مِنْ بَعْدِ مَا جَائَ ھُمُ الْبَیِّنَاتُ وَأُولٰئِکَ لَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۔‘‘          (آل عمران :۱۰۴،۱۰۵) ترجمہ:’’ اور چاہیے کہ تم میں سے ایک گروہ ایسا ہو جو نیکی کی دعوت دے، معروف کا حکم کرے اور منکر سے روکے اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو پراگندہ ہوگئے اور جنہوں نے اختلاف کیا بعد اس کے کہ ان کے پاس واضح ہدایات آچکی تھیں اور وہی ہیں جن کے لیے بڑا عذاب ہے۔‘‘ ’’خلافت‘‘ کے قیام کا بنیادی مقصد یہ‘ امت کو اس اہتمام و انتظام کی ہدایت فرمائی گئی ہے جو اعتصام بحبل اللہ پر قائم رہنے اور لوگوں کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے یہ ہدایت ہوئی کہ مسلمان اپنے اندر سے ایک گروہ کو اس کام پر مقرر کریں کہ وہ لوگوں کو نیکی اور بھلائی کی دعوت دے، معروف کا حکم کرے اور منکر سے روکے۔ معروف و منکر سے مراد شریعت اور سوسائٹی دونوں کے معروفات و منکرات ہیں اور ان کے لیے امرونہی کے جو الفاظ استعمال ہوئے ان کا غالب قرینہ یہی ہے کہ یہ کام مجرد وعظ و تلقین ہی سے نہیں انجام دینا ہے، بلکہ اختیار اور قوت سے اس کو نافذ کرنا ہے جو بغیر اس کے ممکن نہیں کہ یہ گروہ امت کی طرف سے سیاسی اقتدار و اختیار کا حامل ہو۔ اگر تنہا دعوت و تبلیغ ہی سے یہ کام لینا مدنظر ہوتا تو اس مطلب کو ادا کرنے کے لیے’’ یَدْعُوْنَ إِلٰی الْخَیْرِ‘‘ کے الفاظ کافی تھے، ’’یَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ‘‘ کی ضرورت نہیں تھی۔ ہمارے نزدیک اس آیت سے اس امت کے اندر خلافت کے قیام کا واجب ہونا ثابت ہوتا ہے، چنانچہ اسی حکم کی تعمیل میں مسلمانوں نے نبی a کی وفات کے بعد پہلا کام جو کیا وہ خلافت علیٰ منہاج النبوت کا قیام تھا۔‘‘                    (تدبر قرآن، جلد دوم، ص:۱۵۴،۱۵۵، فاران فائونڈیشن لاہور) مولانا امین احسن اصلاحی اپنی ایک اور تالیف میں لکھتے ہیں: ’’ریاست کا اسلامی تصور اس اصطلاح کے اندر چھپا ہوا ہے جو اسلام نے ریاست کی تعبیر کے لیے اختیار کی ہے۔ اسلامی لٹریچر پر نگاہ رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ اسلام نے اپنے اصولوں پر قائم شدہ سیاسی تنظیم کے لیے ریاست، سلطنت یا حکومت کی اصطلاحیں نہیں اختیارکی ہیں، بلکہ خلافت یا امارت یا امامت کی اصطلاحیں اختیار کی ہیں۔‘‘                   (اسلامی ریاست، ص:۸، شائع کردہ مرکزی انجمن خدام القرآن، لاہور) غامدی صاحب اگر اس کتاب کے شروع کے صرف پندرہ صفحات ہی پڑھ لیں تو وہ ان کے لیے چشم کشا ثابت ہوں گے اور خلافت کے دینی اصطلاح ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں ان کی غلط فہمیاں دور ہوجائیں گی۔ مولانا حمیدالدین فراہی نے سورۂ ’’وَالْعَصْرِ‘‘ کی تفسیر میں ایک عنوان قائم کیا ہے: ’’لفظ ’’وَتَوَاصَوْا‘‘سے خلافت کا وجوب‘‘ اس سورۃ کی تفسیر کرتے ہوئے مولانا نے سورۂ آل عمران کی حسب ذیل آیت کا حوالہ دیا ہے: ’’کُنْتُمْ  خَیْرَ أُمََّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنََّاسِ تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ۔‘‘                                                 (آل عمران:۱۱۰) (ترجمہ) ’’…تم بہترین امت ہو جو لوگوں کی ہدایت کے لیے اٹھائے گئے ہو، تم نیکی کا حکم دو گے، برائی سے روکو گے، اللہ پر ایمان لائو گے۔‘‘  (مولانا لکھتے ہیں) ’’اس آیت سے معلوم ہوا کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر اس امت کے اہم فرائض میں سے ہے، چنانچہ اس کے متعلق دوسری آیات بھی وارد ہیں، لیکن یہ امر واضح ہے کہ اس کی اصلی ذمہ داری، جیسا کہ ’’وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ أُمَّۃٌ‘‘سے متبادر ہوتا ہے، امت کے لیڈروں پر ہے۔ البتہ ’’تواصی‘‘ ایک فرضِ عام ہے جس میں تمام مسلمان برابر کے شریک ہیں۔ اس سے معاملے کی اصل حقیقت سامنے آتی ہے کہ مسلمانوں کو اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ عملِ صالح کریں، پھر ادائے حقوق کے معاملے میں ایک دوسرے کی مدد کریں، اور چونکہ ادائے حقوق بغیر خلافت و سیاست کے ناممکن ہے، اس لیے ضروری ہے کہ خلافت قائم کریں۔‘‘                        (مجموعہ تفاسیر فراہی، ص:۳۴۳،۳۴۴، فاران فائونڈیشن، لاہور) اب ہم ’’جوابی بیانیے‘‘ کے نکتہ نمبر:۴ پر اپنے معروضات پیش کرتے ہیں۔ غامدی صاحب لکھتے ہیں: ’’دنیا میں جو لوگ مسلمان ہیں اور اپنے مسلمان ہونے کا اقرار بلکہ اس پر اصرار کرتے ہیں، مگر کوئی ایسا عقیدہ یا عمل اختیار کرلیتے ہیں جسے کوئی عالم یا علماء یا دوسرے تمام مسلمان صحیح نہیں سمجھتے، ان کے اس عقیدے یا عمل کو غلط قرار دیا جاسکتا ہے، اُسے ضلالت اور گمراہی بھی کہا جاسکتا ہے، لیکن اس کے حاملین چونکہ قرآن و حدیث ہی سے استدلال کررہے ہوتے ہیں، اس لیے انہیں غیر مسلم یا کافر قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس طرح کے عقائد و اعمال کے بارے میں خدا کا فیصلہ کیا ہے، اس کے لیے قیامت کا انتظار کرنا چاہیے۔ دنیا میں ان کے حاملین اپنے اقرار کے مطابق مسلمان ہیں، مسلمان سمجھے جائیں گے، اور ان کے ساتھ تمام معاملات اسی طرح ہوں گے جس طرح مسلمانوں کی جماعت کے ایک فرد کے ساتھ کیے جاتے ہیں۔‘‘              (ماہنامہ اشراق، فروری۲۰۱۵ئ، ص:۲۲) غامدی صاحب کے اس کلیّے کے مطابق جناب غلام احمد پرویز اور ان کے متبعین اور مرزا غلام احمد قادیانی اور ان کے متبعین (جنہیں احمدی یا قادیانی کہا جاتا ہے) کو غیرمسلم یا کافر قرار نہیں دیا جاسکتا، کیونکہ یہ دونوں گروہ اپنے مسلمان ہونے پر اصرار کرتے ہیں اور قرآن اور حدیث ہی سے استدلال کرتے ہیں۔ اگرچہ جناب غلام احمد پرویز کو منکرِ حدیث اور منکرِ سنت کہا جاتا ہے، لیکن وہ بھی اپنے نقطۂ نظر کی تائید میں بعض احادیث پیش کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ ایسا کرتے ہوئے وہ ان احادیث کو سیاق و سباق سے الگ کردیتے ہیں، مثلاً درج ذیل حدیث: ’’عن أبی سعید الخدریؓ أن رسولَ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: لا تکتبوا عنی، ومن کتب عنی غیر القرأٰن فلیمحہ، وحدثوا عنی، ولا حرج۔‘‘  (صحیح مسلم) ’’ابوسعید خدریq سے روایت ہے کہ رسول اللہ a نے فرمایا کہ مجھ سے کچھ نہ لکھو، اور جس نے مجھ سے قرآن کے سوا کچھ اور لکھا تو اس کو چاہیے کہ وہ اُسے مٹادے اور مجھ سے روایت کرو کہ ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔‘‘                          (صحیح مسلم) کا حوالہ دیتے وقت وہ صرف شروع کا حصہ یعنی ’’ابوسعید خدریq سے روایت ہے کہ رسول اللہ a نے فرمایا کہ مجھ سے کچھ نہ لکھو اور جس نے مجھ سے قرآن کے سوا کچھ اور لکھا تو اس کو چاہیے کہ اُسے مٹادے‘‘ بیان کرتے ہیں اور بقیہ حصہ ’’اور مجھ سے روایت کرو کہ ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں‘‘ چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ اور اس طرح کی دوسری احادیث کا محل کیا ہے؟ اس سلسلے میں قارئین علماء کی وہ کتابیں ملاحظہ فرمائیں جن میں حجیتِ حدیث سے بحث کی گئی ہے۔ بہرحال مندرجہ بالا حدیث کی جامع اور مختصر توضیح امام نوویv نے اپنی شرح مسلم میں کی ہے۔ پرویز صاحب کے عقائد اور افکار کے بارے میں غامدی صاحب کے کلیّے یا ’’جوابی بیانیے‘‘ کے نکتہ نمبر:۴ کا اطلاق ان کے رفقاء کس طرح کرتے ہیں؟ اس سلسلے میں ماہنامہ اشراق، اکتوبر۲۰۰۸ء کا حوالہ پیش کیا جاتا ہے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ غامدی صاحب کے ادارے ’’المورد‘‘ کے رکن محمد رفیع مفتی کے بقول ادارے کے اسکالرز خطوط اور ای میلز کے ذریعے موصول شدہ دینی موضوعات پر جن سوالوں کے جواب دیتے ہیں ان میں منتخب سوالات و جوابات کو افادۂ عام کے لیے ’’یسئلون ‘‘کے عنوان کے تحت ’’اشراق‘‘ میں شائع کیا جاتا ہے۔ اب ’’قرآن فہمی کے متعلق اختلافِ رائے‘‘ کے زیرعنوان مندرجہ ذیل سوال اور اس کا جواب ملاحظہ فرمایئے:     ’’سوال: جاوید احمد صاحب غامدی علامہ پرویز صاحب کی قرآن فہمی سے کس حد تک متفق ہیں؟ علمائے کرام نے پرویز صاحب پر کفر کے بہت فتوے لگائے، غامدی صاحب کی پرویز صاحب کے بارے میں کیا رائے ہے؟ کیا وہ صحیح تھے یا غلط؟     (صفدر اقبال)     جواب: معاملہ یہ ہے کہ غامدی صاحب اور پرویز صاحب کی قرآن فہمی میں کوئی اتفاق نہیں ہے۔ ان دونوں حضرات کے قرآن فہمی کے اصولوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ غامدی صاحب نے اپنے قرآن فہمی کے اصولوں کو اپنی کتاب ’’اصول و مبادی‘‘ میں ’’مبادیِ تدبر قرآن‘‘ کے عنوان کے تحت تفصیل کے ساتھ بیان کردیا ہے، انہیں آپ وہاں دیکھ سکتے ہیں، اور پرویز صاحب نے اپنی تفسیر ’’مفہوم القرآن‘‘ کی ابتدا میں اپنے اصولوں کو بیان کیا ہے۔ ان دونوں حضرات کے اصولوں میں پائے جانے والے ایک بنیادی فرق کو میں یہاں بیان کردیتا ہوں:     غامدی صاحب کے نزدیک قرآن فہمی کے لیے ضروری ہے کہ قرآن کے الفاظ کے وہی معنی لیے جائیں جو نزولِ قرآن کے زمانے میں عربوں میں مستعمل تھے، جبکہ پرویز صاحب کے نزدیک کسی لفظ کے معنی اس کے مادے (root) سے طے کیے جائیں گے۔ تفصیل کے لیے آپ ان دونوں حضرات کی قرآن فہمی سے متعلق کتب کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔     ہمارے نزدیک کسی پر کفر کا فتویٰ لگانا درست نہیں۔ ہم دوسرے کی آراء سے اختلاف کرسکتے ہیں، ان کے خیالات کو غلط قرار دے سکتے ہیں، لیکن کسی کو کافر کہنے کا حق ہمیں حاصل نہیں۔ ہمارے نزدیک دین کے معاملے میں پرویز صاحب کی کئی آراء یکسر غلط تھیں۔                                             (اشراق، اکتو بر۲۰۰۸ئ، ص:۶۷) جواب کی آخری تین سطور خصوصی توجہ کی مستحق ہیں جن میں کہا گیا ہے: ’’ہمارے نزدیک کسی پر کفر کا فتویٰ لگانا درست نہیں، ہم دوسرے کی آراء سے اختلاف کرسکتے ہیں، اس کے خیالات کو غلط قرار دے سکتے ہیں، لیکن کسی کو کافر کہنے کا حق ہمیں حاصل نہیں۔‘‘ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں مسئلہ تکفیر اور پرویز صاحب کی تکفیر کے فتوے کے بارے میں امام امین احسن اصلاحی کے نقطۂ نظر سے بھی آگاہی حاصل کی جائے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ ۱۹۶۰ء کی دہائی کے اوائل میں پاکستان کے تقریباً ایک ہزار علماء نے جناب غلام احمد پرویز کو اُن کے عقائد کی بنا پر کافر اور دائرۂ اسلام سے خارج قرار دیا تھا۔ ان علماء کا تعلق دیوبندی، بریلوی، اہلِ حدیث اور شیعہ مکاتب فکر سے تھا۔ فتوے کی اشاعت کے بعد مولانا امین احسن اصلاحی کو پرویز صاحب کے ایک سرگرم حامی کی طرف سے ایک خط موصول ہوا جس میں بقول مولانا پہلے تو اُن علماء پر بڑی لے دے کی گئی تھی جنہوں نے پرویز صاحب پر کفر کا فتویٰ لگایا تھا، پھر مولانا سے پُرزور مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ پوری ایمان داری کے ساتھ اس فتوے پر اپنی رائے ظاہر کریں۔ اس خط کے علاوہ مولانا کو ’’کافر گری‘‘ کے عنوان سے خود پرویز صاحب کی طرف سے بھی ایک پمفلٹ موصول ہوا۔ اس تناظر میں مولانا اصلاحی ماہنامہ ’’میثاق‘‘ لاہور (مئی ۱۹۶۲ئ) کے اداریے میں لکھتے ہیں:     ’’( پرویز صاحب اور ان کے حامی) یہ مؤقف اختیار نہ کریں کہ علما کو کسی پر کفر کا فتویٰ لگانے کا حق نہیں ہے۔ اس امر میں تو کوئی شبہ نہیں کہ اسلامی نظام میں کسی کے کفر و ارتداد پر اس کو سزا دینا حکومت کا کام ہے، لیکن یہ بتانا کہ کیا چیز کفر ہے اور کیا چیز اسلام ہے، ہر حال میں علماء ہی کی ذمہ داری ہے۔ یہ ذمہ داری ان پر اللہ اور رسول a کی طرف سے ڈالی گئی ہے۔ اگر وہ اس کو ادا نہ کریں گے تو اس کے لیے وہ عنداللہ ذمہ دار ٹھہریں گے۔ یہ ذمہ داری یوں تو ان پر ہمیشہ رہی ہے اور ہمیشہ رہے گی، لیکن خاص طور پر اس زمانے میں تو اس کے تنہا حامل وہی ہیں، اس لیے کہ اس دور میں مسلمان حکومتوں کو لوگوں کے کفر و ایمان کے معاملے سے کوئی تعلق باقی ہی نہیں رہ گیا ہے۔ وہ یا تو سیکولرزم کے پردے میں غیر جانبدار بن کر بیٹھ گئی ہیں یا پھر مغربیت کے زیراثر آزادی و بے قیدی کی سرپرستی کررہی ہیں۔ ایسی صورت میں اگر علماء بھی لوگوں کی ہدایت و ضلالت کے معاملے سے بالکل بے تعلق ہوکر بیٹھ جائیں تو اس کا نتیجہ اس کے سوا اورکیا نکلے گا کہ نبی اُمی a کی امت شیطان اور اس کی ذریات کی صرف ایک چراگاہ بن کر رہ جائے۔     دوسری گزارش یہ ہے کہ اس فتوے کے جواب میں تاویل بازی اور مغالطہ انگیزی کی جو روش اختیار کی گئی ہے یہ بالکل غلط ہے۔ علماء نے جو فتویٰ دیا ہے وہ پرویز صاحب کی کسی مبہم عبارت یا کسی معلّق تحریر یا مجمل قول پر مبنی نہیں ہے کہ اس کی توضیح و تشریح کی ضرورت پیش آئے۔ یہ فتویٰ پرویز صاحب کے ایسے عقائد و نظریات پر مبنی ہے جن کو وہ ایک مدتِ دراز سے بیان کررہے ہیں۔      پرویز صاحب نے مختلف گروہوں کے علماء کے ایک دوسرے کے خلاف فتووںکا جو ریکارڈ شائع کیا ہے، یہ بھی ان کے حق میں کچھ سودمند نہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ مختلف مسلکوں کے غالی مولویوں نے گروہی تعصبات و نزاعات کے جوش میں ایک دوسرے کے خلاف فتوے دے ڈالے ہیں، لیکن اس سے اُس فتوے کی اہمیت ذرا کم نہیں ہوتی جو انہوں نے پرویز صاحب کے خلاف دیا ہے۔ کچھ بریلویوں کا دیوبندیوں کے خلاف یا کچھ دیوبندیوں کا بریلویوں کے خلاف کوئی فتوے دے دینا الگ چیز ہے اور کم و بیش ایک ہزار علماء کا جن میں مسلمانوں کے ہر مسلکِ فقہی و کلامی کے علماء شامل ہیں، پرویز صاحب کے کفر پر اجماع کرلینا ایک مختلف چیز ہے۔ اس قسم کا اجماع قادیانیوں کے سوا کسی کے کفر پر بھی اس ملک میں نہیں ہوا ہے۔     آخر میں ہم یہ بات بھی واضح کیے دیتے ہیں کہ پاک و ہند کے جن علماء کے اس فتوے پر دستخط ثبت نہیں ہیں، ان کو اس فتوے سے الگ خیال کرنا محض ایک مغالطہ ہے۔ اگر کچھ لوگوں نے اس پر دستخط نہیں کیے ہیں تو اس کی وجہ یا تو یہ ہے کہ فتووں پر دستخط کرنا ان کے رجحانِ طبیعت اور ذوق کے خلاف ہے، یا یہ ہے کہ اس دور میں اس چیز کو وہ کچھ زیادہ مفید نہیں پارہے ہیں۔ میرے جیسے لوگوں کے لیے یہ وجہ بھی ہوسکتی ہے کہ فتوے لکھنا یا اس پر دستخط کرنا میں نے اپنے منصب سے ہمیشہ ایک اونچی چیز سمجھا ہے، لیکن یہ بات کہنے میں مجھے ذرا حجاب نہیں کہ پرویز صاحب کے خیالات و عقائد کو میں نے ہمیشہ کفر و ضلالت سمجھا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو توفیق دے کہ وہ زندگی کا صحیح رُخ اختیار کریں اور دین سے ناواقفوں کے لیے فتنہ نہ بنیں۔‘‘   ( ماہنامہ ’’میثاق‘‘ لاہور ،مئی ۱۹۶۲ئ، ص:۵،۶،۹)  اب ہم ’’جوابی بیانیے‘‘ کے نکتہ نمبر:۴کی طرف دوبارہ رجوع کرتے ہیں، جیسا کہ عرض کیا گیا غامدی صاحب ’’بیانیے‘‘ میں یہ کہتے ہیں کہ:  ’’دنیا میں جو لوگ مسلمان ہیں، اپنے مسلمان ہونے کا اقرار بلکہ اس پر اصرار کرتے ہیں، مگر کوئی ایسا عقیدہ یا عمل اختیار کرلیتے ہیں جسے کوئی عالم یا علماء یا دوسرے تمام مسلمان صحیح نہیں سمجھتے، ان کے اس عقیدے یا عمل کو غلط قرار دیا جاسکتا ہے، اُسے ضلالت اور گمراہی بھی کہا جاسکتا ہے، لیکن چونکہ اس کے حاملین قرآن و حدیث ہی سے استدلال کررہے ہوتے ہیں، اس لیے انہیں غیر مسلم یا کافر قرار نہیں دیا جاسکتا۔‘‘  ہمارا معروضہ یہ ہے کہ اس استدلال کی رو سے احمدیوں یا قادیانیوں کو بھی غیر مسلم یا کافر قرار نہیں دیا جاسکتا، کیونکہ وہ بھی اپنے مسلمان ہونے کا اقرار، بلکہ اس پر اصرار کرتے ہیں اور قرآن و حدیث سے ہی اپنے مؤقف کے حق میں دلائل دیتے ہیں۔ بانی تحریکِ احمدیت مرزا غلام احمد قادیانی قرآن مجید کی ’’آیۂ خاتم النبیین‘‘ کی ایسی تعبیر کرتے ہیں جس سے اجرائے نبوت ثابت ہوتی ہے، جب کہ عام مسلمان اجرائے نبوت کو کفر سمجھتے ہیں۔ مرزا غلام احمد قادیانی کے دعویٰ نبوت کے پیش نظر پاکستان کی قومی اسمبلی نے ۷؍ ستمبر ۱۹۷۴ء کو ایک آئینی ترمیم کے ذریعے مرزا صاحب کے متبعین کو غیرمسلم اقلیت قرار دیا۔ اب غامدی صاحب کے ’’جوابی بیانیے‘‘ نے ایک نئی بحث کا دروازہ کھول دیا ہے، لبرل اور سیکولر حلقے اور بائیں بازو کے بعض رہنما اور دانشور مثلاً نیشنل عوامی پارٹی کے سابق سیکرٹری جنرل قسور گردیزی، پارٹی کے ایک رہنما شیر محمد مری المعروف جنرل شیروف، پاکستان ورکرز پارٹی کے رہنما عابد حسن منٹو، پاکستان ہیومن رائٹس کمیشن کے ڈائریکٹر ورکشاپ جناب حسین نقی، معروف ادیبہ اور کالم نگار محترمہ زاہدہ حنا پہلے ہی ۷؍ ستمبر ۱۹۷۴ء کی آئینی ترمیم یا ۱۹۸۴ء کے امتناعِ قادیانیت آرڈیننس پر نکتہ چینی کرچکے ہیں، اب غامدی صاحب کے ’’بیانیے‘‘ کی بنیاد پر اس آئینی ترمیم کو چیلنج کیا جاسکتا ہے۔      ۷؍ ستمبر ۱۹۷۴ء کی آئینی ترمیم کو چیلنج کرنے کی راہ جناب جاوید غامدی غیر شعوری طور پر پہلے ہی ہموار کرچکے ہیں۔ ہم نے ’’غیر شعوری‘‘ اس لیے کہا کہ ہمیں ان کی نیت پر کوئی شبہ نہیں ہے۔                                                                         ( جاری ہے)

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین