بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

روزہ اللہ تعالیٰ کی محبت کانشان!

روزہ اللہ تعالیٰ کی محبت کانشان!

 

الحمد للّٰہ وسلام علی عبادہ الذین اصطفی

اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو مٹی سے بناکر اشرف المخلوقات کا لقب دیا۔ سوچنے اور سمجھنے کے لیے اُسے عقل وشعور کی نعمت سے نوازا۔ دیکھنے ، سننے، چکھنے، سونگھنے اور لذت وتکلیف محسوس کرنے کے لیے حواسِ خمسہ جیسے اعضاء سے مزین کیا۔ راہِ حق دکھانے اور بتانے کے لیے انبیاء کرام علیہم السلام کا عظیم الشان سلسلہ جاری فرمایا، اُنہیں آیاتِ بینات اور معجزات سے مالا مال کیا۔ انبیاء ورسل علیہم السلام نے اولادِ آدم کو ان کے خالق ومالک کی بندگی اور اطاعت کی طرف بلایا۔ جن بندگانِ الٰہی نے ان داعیانِ الیٰ اللہ کی دعوت پر لبیک کہی اور اُسے قبول کیا، خالق کائنات نے اُنہیں سعادت مندی اور نجاتِ ابدی کا پروانہ عطا کیا اور جن افراد نے ان کی دعوت سے سرتابی کی اور طغیان وعصیان کا مظاہرہ کیا، رب ذوالجلال نے انہیں راندۂ درگاہ اور عتاب وعقاب کا نمونہ بنادیا۔ سلسلۂ نبوت کی آخری کڑی خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ ا کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے مبعوث فرمایا، قرآن کریم جیسی لاریب اور عظیم کتاب کو آپ اپر نازل فرمایا، آپ اکی شریعت کو آخری شریعت بنایا۔ آپ ا نے اپنی امت کو سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی توحیداور اپنی رسالت کی دعوت دی، جن لوگوں نے کلمۂ توحید اور آپ اکی رسالت کو قبول کیا، اُنہیں نماز کی دعوت دی گئی۔ اس کے بعد زکوٰۃ، حج اور رمضان کے روزہ کی فرضیت نازل ہوئی اور ان پانچوں چیزوں کواسلام کی بنیاد اور اساس قرار دیا گیا، جیسا کہ حضور اکرم ا کا ارشاد ہے: ’’بنی الإسلام علیٰ خمس: شھادۃِ أن لا إلٰہ إلا اللّٰہ وأن محمداً عبدہٗ ورسولہٗ وإقامِ الصلوٰۃ وإیتائِ الزکوٰۃ والحجِ وصومِ رمضان‘‘۔      (متفق علیہ، مشکوٰۃ،ص:۱۲) ترجمہ:’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبودنہیں اور محمد ا اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ دینا اور حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا‘‘۔ مختصر یہ کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضور اکرم ا کی برکت سے اس امت کو رمضان جیسا ماہِ عظیم، ماہِ مبارک ، ماہِ صبر اور ماہِ مواساۃ عطا فرمایا، جس میں تھوڑی سی بدنی مشقت یعنی سحری سے لے کر غروب آفتاب تک عبادت کی نیت سے کھانے، پینے اور جنسی خواہشات سے اپنے آپ کو روک لینے پر اللہ تعالیٰ نے اُنہیں بہت سے انعامات ، برکات، ہدایا اور عطایا سے نوازا ہے، مثلاً: رزق کی زیادتی، گناہوں سے مغفرت، جہنم سے آزادی، جنت کا حصول، روزے دار کی منہ کی بُو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک وعنبر سے زیادہ پسندیدہ ہونا، سارا دن مچھلیوں کا ان کے لیے استغفار کرنا، جنت کا ان کے لیے سجایا جانا، سرکش شیاطین کا قید کیا جانا، رمضان کی آخری رات میں روزہ داروں کی مغفرت کیا جانا، اللہ تبارک وتعالیٰ کا روزے دار کی طرف متوجہ ہونا اور اپنی رحمت خاصہ کا نزول فرمانا، اللہ تعالیٰ کا خطاؤں کو معاف فرمانا، روزے داروں کی دعاؤں کا قبول ہونا ، اللہ تعالیٰ کا اپنے روزے دار بندوں کی وجہ سے ملائکہ پر فخر فرمانا، روزے کا گناہوں اور جہنم سے ڈھال بننا، رمضان میں ایک نفل کا ثواب فرض کے برابر اور ایک فرض کا ثواب عام دنوں کے اعتبار سے ستر فرائض کے برابر ہونا، اسی طرح عام عبادات میں ایک عمل کا ثواب دس گنا سے لے کر سات سو تک اور خاص طور پر شب قدر کی عبادت کا ثواب ہزار مہینوں سے افضل اور زائد ملنا۔ لیکن روزے کے لیے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا اور دوسری روایت میں ہے کہ میں خود روزے کی جزا ہوں، یعنی میں روزے دار کا بن جاتا ہوں، اب وہ جو چاہے گا میں اس کو عطا کروں گا۔ایک حدیث میں ہے: ’’ وروی عن أبی سعید الخدری رضی اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ ا: إذا کان أول لیلۃ من رمضانَ فُتِحَتْ أبوابُ السمائ، فلا یُغْلَقُ منھا بابٌ حتیٰ یکون آخرُ لیلۃ من رمضان، ولیس عبدٌ مؤمنٌ یصلی فی لیلۃٍ فیہا إلا کتب اللّٰہ لہٗ ألفاً وخمسَ مائۃ حسنۃ بکل سجدۃٍ وبنیٰ لہ بیتاً فی الجنۃ من یاقوتۃٍ حمرائَ لھا ستون ألفَ بابٍ لکل بابٍ منھا قصرٌ من ذھبٍ موشحٌ بیاقوتۃٍ حمرائَ، فإذا صام أولَ یومٍ من رمضانَ غُفِرَلہٗ ماتقدم من ذنبہٖ إلٰی مثل ذلک الیوم من شھر رمضان، واستغفر لہ کلَّ یوم سبعون ألفَ ملکٍ من صلاۃ الغداۃ إلیٰ أن تَوَاریٰ بالحجاب، وکان لہ بکل سجدۃٍ یسجدھا فی شھر رمضان بلیل أو نھارٍ شجرۃٌ یسیر الراکب فی ظلھا خمسَ مائۃِ عامٍ۔‘‘                                     (الترغیب والترھیب، ج:۲، ص:۹۳،۹۴، ط:دارإحیاء التراث العربی) ترجمہ:۔۔۔’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ا نے فرمایا: جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو آسمان کے تمام دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، پھر ان میں سے کوئی دروازہ آخر رمضان تک بند نہیں کیا جاتا، اور جو مومن بندہ اس (رمضان) کی رات میں نماز پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ہر سجدہ کے بدلہ میں پندرہ سو نیکیاں عطا فرماتے ہیں اور اس کے لیے جنت میں سُرخ یاقوت کا ایک گھر بناتے ہیں، جس کے ساٹھ ہزار دروازے ہوتے ہیں، ان میں سے ہر دروازے کا (کے اندر )ایک سونے کا محل ہے جو سرخ یاقوت سے مزین کیا گیا ہے، پھر (مومن بندہ)جب رمضان کے پہلے دن روزہ رکھتا ہے تو اُس کے گزشتہ گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں اور ہر دن فجر کی نماز سے سورج غروب ہونے تک ستر ہزار فرشتے اس کے لیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں اور رمضان میں خواہ دن ہو یا رات وہ جو بھی سجدہ کرتا ہے، اس کے بدلہ میں اس کے لیے (جنت میں )ایک ایسا درخت لگ جاتا ہے جس کے سائے کے نیچے ایک گھڑ سوار پانچ سو سال تک دوڑ سکتا ہے ‘‘۔ اسی طرح روزے دار کو دو خوشیوں کا ملنا: ایک افطار کے وقت کی خوشی کہ اللہ تعالیٰ نے روزے جیسی عظیم عبادت کی توفیق عطا فرمائی اور ایک خوشی اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے وقت ہوگی، ان شاء اللہ! اسی طرح روزہ داروں کے لیے جنت کے بابِ ریان کا مخصوص ہونا، جنت میں شرابِ طہور کا ملنا، جس کے پینے کے بعد کبھی پیاس نہیں لگے گی، روزہ رکھنے سے صحت کا ملنا، روزہ کا روزے دار کے لیے قیامت کے دن سفارش کرنا،خیر کے کام کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کے منادی کی طرف سے مزید اعمالِ خیر کی ترغیب دینا، رمضان کی پہلی رات میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا اپنے بندوں پر نظر رحمت کرنا اور جس پر اللہ تعالیٰ کی نظر رحمت ہوگئی، اس کو کبھی عذاب کا نہ ملنا، ہر دن دس لاکھ لوگوں کا جہنم سے آزاد ہونا اور ایک روایت میں ساٹھ ہزار کا آزاد ہونا اور رمضان کی آخری رات میں پورے مہینے کے برابر آزاد شدہ لوگوں کی تعداد کے برابر لوگوں کا جہنم سے آزاد کیا جانا،رب العالمین کا فرشتوں سے ان کے اجر کے بارہ میں دریافت کرنا اور فرشتوں کو ان روزہ داروں کی بخشش پر گواہ بنانا، آسمان کے دروازوں کا کھلنا، رمضان کی ہر رات میں اللہ تعالیٰ کے منادی کا اللہ تعالیٰ کی جانب سے یہ ندا دینا کہ ’’ہے کوئی سوال کرنے والا کہ میں اس کا سوال پورا کروں؟ ہے کوئی اپنے گناہوں سے توبہ کرنے والا کہ میں اس کی توبہ قبول کروں؟ ہے کوئی بخشش مانگنے والا کہ میں اس کو بخشش دوں؟ ہے کوئی دعا کرنے والا کہ میں اس کی دعا قبول کروں؟ ‘‘ شب قدر میں فرشتوں کا عبادت میں مصروف لوگوں سے مصافحہ کرنا، ان کی دعاؤں پر فرشتوں کا آمین کہنا، ہررات دن میں روزہ دار کی ایک دعا کا قبول ہونا۔ یہ تمام وہ انعامات ہیں جو اللہ تبارک وتعالیٰ روزہ رکھنے والوں کو روزہ کی بنا پر عطا فرماتے ہیں۔ روزہ رکھنے کی بنا پر اتنے انعامات ملنے کے باوجود اللہ تبارک وتعالیٰ نے اہل ایمان کو روزہ کی فرضیت کے بارہ میں بڑے محبانہ، شفیقانہ اور حکیمانہ انداز میں فرمایا: ’’یَاأَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلٰی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ‘‘۔                                                                                (البقرۃ:۱۸۳) ترجمہ:۔۔’’اے ایمان والو!فرض کیا گیا تم پر روزہ جیسے فرض کیا گیا تھا تم سے اگلوں پر تاکہ تم پرہیزگار ہوجاؤ‘‘۔ یعنی یہ روزہ صرف تم پر فرض نہیں ہوا، بلکہ تم سے پہلے لوگوں پر بھی فرض کیاگیا اور یہ روزہ اس لیے فرض کیا گیا، تاکہ تم متقی بن جاؤ اور یہ چند دنوں کی بات ہے، لیکن ا س میں بھی مریض اور مسافر کو اجازت ہے کہ وہ بعد میں اس کی قضا کرسکتے ہیں اور جو لوگ روزہ کی طاقت نہیں رکھتے، بڑھاپے وغیرہ کی بنا پر وہ فدیہ دے دیا کریں۔ یہ کتنا شفقت ، محبت اور پیار بھرا انداز اور خطاب ہے جو اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے بندوں کے لیے اختیار فرمارہے ہیں۔روزے کے روحانی وجسمانی فوائد اور اس کی حکمتیں بیان کرتے ہوئے حضرت مولانا سید زوّار حسین شاہ صاحب نور اللہ مرقدہٗ رقم طراز ہیں:  ’’روزہ رکھنے میں بہت سی حکمتیں اور فوائد ہیں، جن سے روزہ کی اہمیت پر روشنی پڑتی ہے، ایک حکمت یہ ہے کہ روزہ رکھنے سے انسان کو اپنی عاجزی اور مسکینی اور خدا تعالیٰ کی عظمت وجلال اور اس کی قدرت کاملہ پر نظر پڑتی ہے اور اس سے بندگی اور فرمانبرداری کی صفت پیدا ہوتی ہے۔روزہ کی برکت سے چشم بصیرت کھلتی ہے اور دین کی سمجھ میں ترقی ہوتی ہے، روزہ کی حالت میں فرشتوں کی صفاتِ ملکیہ سے متصف ہوتا ہے اور اس کی برکت سے انسان کو ملائکہ الٰہی کے ساتھ قرب حاصل ہوتا ہے۔ روزہ کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری کا موقع ملتا ہے، درندگی اور چوپایوں والی صفت سے دوری حاصل ہوتی اور انسانی ہمدردی کا جذبہ دل میں پیدا ہوتا ہے ، کیونکہ جب تک کسی شخص نے بھوک اور پیاس کی تکلیف کو محسوس ہی نہ کیا ہو، وہ بھوکوں اور پیاسوں کے حال سے کس طرح واقف ہوسکتا ہے؟۔۔۔۔جو شخص بھوک اور پیاس کی مشقت سے واقف نہ ہو، وہ رزاق مطلق کی نعمتوں کا شکر حقیقی طور پر ادا نہیں کرسکتا، اگرچہ زبان سے شکر کے الفاظ ادا کرتا رہے۔ جب تک کسی کے معدہ میں بھوک اور پیاس کا اثر اور اس کے رگ وریشہ میں ضعف وناتوانی کا احساس نہ ہو، اس کو اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کی قدر نہیں ہوتی، جو اس کی بھوک اور پیاس کو دور کرتی اور کمزوری کو زائل کرتی ہیں، اسی لیے وہ ان خداوندی نعمتوں کا کما حقہ شکر بھی ادا نہیں کرسکتا۔ روزہ انسان کے لیے ایک روحانی غذا ہے، جو دوسرے جہاں یعنی آخرت میں انسان کو ایک غذا کا کام دے گا۔ جن لوگوں نے اس دنیا میں روزے نہیں رکھے، وہ اس جہاں میں بھوکے پیاسے ہوں گے اور ان پر آخرت میں روحانی افلاس ظاہر ہوگا، کیونکہ انہوں نے اپنے ساتھ اپنا زادِ راہ نہیں لیا۔ روزہ کی اہمیت یہ بھی ہے کہ یہ بلغمی امراض اور رطوباتِ فُضلیہ کو جسم سے زائل کردیتا ہے۔ روزہ میں صبر اور برداشت کرنے کی عادت ہوجاتی ہے۔ ریگستان یا بیابانی سفر میں اگر اتفاق سے غذا یا پانی میسر نہ آئے تو روزہ کا عادی شخص اس فاقہ کو برداشت کرسکتا ہے، بخلاف زیادہ کھانے والے شخص کے جو فاقہ کو زیادہ دیر تک برداشت نہ کرکے تھوڑے عرصہ میں موت کے منہ میں پہنچ جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ان سب مصلحتوں اور حکمتوں کے باوجود روزہ کی ایک بہت بڑی اہمیت اور ایک خاص حکمت یہ ہے کہ روزہ اللہ تعالیٰ کی محبت کا ایک بہت بڑا نشان ہے، جس طرح کوئی شخص کسی کی محبت میں سرشار ہوکر کھانا پینا چھوڑدیتا ہے اور میاں بیوی کے تعلقات بھی اس کو بھول جاتے ہیں، اسی طرح روزہ دار بھی اللہ تعالیٰ کی محبت میں سرشار ہوکر اسی حالت کا اظہار کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوائے کسی اور کے لیے روزہ رکھنا جائز نہیں ہے‘‘۔                                          (مقالاتِ زوّاریہ،ص:۱۴۰،۱۴۱) مسلمانوں کو چاہئے کہ ان ایام کی قدر کریں، اخلاص اور محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے روزہ رکھیں، روزہ کو جھوٹی باتوں ، تمام گناہوں اور ریاکاری سے محفوظ رکھیں، ورنہ روزے کے ثواب سے محرومی کا سامنا کرنا پڑے گا، جیسا کہ آپ ا کا ارشاد ہے کہ:’’کتنے روزہ رکھنے والے ایسے ہیں کہ جنہیں سوائے بھوکا پیاسا رہنے کے کچھ حاصل نہ ہوگا اور کتنے قیام کرنے والے ایسے ہیں کہ سوائے مشقت کے انہیں کچھ حاصل نہ ہوگا‘‘۔ اسی طرح آپ ا کا ارشاد ہے: ’’ من صام رمضان وعرف حدودہٗ وتحفظ مما ینبغی لہ أن یتحفظ کَفَّرَ ماقبلہ۔ رواہ ابن حبان فی صحیحہ والبیہقی‘‘۔(الترغیب والترھیب، ج:۲، ص:۵۵، ط: دار إحیاء التراث العربی)  یعنی جس نے رمضان کا روزہ رکھا اور اس کی حدود کو پہچانا اور روزوں کا ہر اعتبار سے تحفظ کیا، اللہ تبارک وتعالیٰ ایسے روزہ کو گزشتہ گناہوں کے لیے کفارہ بنادیں گے۔ مسلمان خواہ مرد ہوں یا عورتیں بغیر عذرِ شرعی کے کسی روزہ کی قضا نہ کریں، اس لیے کہ آپ ا نے ارشاد فرمایا: ’’من أفطر یوماً من رمضان من غیر رخصۃ ولامرض لم یقض عنہ صوم الدھر کلہ وإن صامہ‘‘۔                                                             (مشکوٰۃ،ص:۱۷۷) یعنی جس نے رمضان کا ایک روزہ بغیر کسی رخصت اور بیماری کے چھوڑدیا، ساری زندگی وہ روزے رکھتا رہے، اس ایک روزہ کا ثواب اسے نہیں مل سکتا۔ روزہ خواہ فرض ہو یا نفل ،اس میں کوئی ایسی خاص بات تو ضرور ہے نا! کہ جس کی بنا پر آپ ا بار بار اس کی تاکید فرمارہے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اس کے مثل اور اس کے برابر کوئی عبادت نہیں، جیسا کہ حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول!مجھے کوئی ایسا عمل بتلائیے کہ جس کی بنا پر مجھے جنت کا داخلہ مل جائے۔ آپ ا نے فرمایا: روزوں کولازم پکڑو، اس کے برابر کوئی عمل نہیں ہوسکتا۔ صحابیؓ فرماتے ہیں: میں نے دوبارہ ، سہ بارہ یہی سوال کیا، آپ ا نے ہر مرتبہ یہی فرمایاکہ: روزوں کو لازم پکڑو، اس کے برابر کوئی عمل نہیں ہوسکتا۔ حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ نے اس پر ایسا عمل کرکے دکھایا کہ رمضان کے فرض روزوں کی بجاآوری تو کرتے ہی تھے، لیکن نفلی روزوں کا بھی ساری زندگی ایسا اہتمام کیا کہ کہا جاتا ہے: ان کے گھر سے دن کو کبھی بھی دھواں اُٹھتا ہوا نظر نہیں آیا، سوائے ان دنوں کے جب کہ کوئی مہمان ان کے گھر میں آجاتا۔ اسی لیے فرمایاگیا کہ رمضان المبارک کی برکتوں اور رحمتوں سے جو محروم رہا، وہ تمام خوبیوں اور بھلائیوں سے محروم رہا۔ رمضان المبارک کو قرآن کریم کے ساتھ ایک خاص تعلق ہے، ہر مسلمان کو چاہئے کہ رمضان المبارک میں زیادہ سے زیادہ قرآن کریم کی تلاوت کرے، دعاؤں کا اہتمام کیاجائے، صدقہ وخیرات کی کثرت کی جائے، اپنے ملازم اور نوکروں سے کام میں تخفیف کی جائے، لاإلٰہ إلا اللّٰہ کا ورد رکھا جائے، استغفار کا معمول بنایا جائے، جنت کی طلب ہو اور جہنم سے آزادی کی دعائیں کی جائیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں رمضان المبارک جیسے سعید لمحات واوقات عباد ت میں گزارنے اوراس کے تمام انعامات ، برکات اور فضائل حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے،آمین۔

وصلی اللّٰہ تعالیٰ علیٰ خیرِ خلقہٖ سیدِنا محمدٍ وعلیٰ آلہٖ وصحبہٖ أجمعین

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین