بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

روایت پسند علماء اور مروجہ اسلامی بینک کاری تحفظات اور دوری کے اسباب!


روایت پسند علماء اور مروجہ اسلامی بینک کاری

تحفظات اور دوری کے اسباب!


بینکوں کی اصلاح اور اسلام کاری کے نام پر ایک عرصہ سے اچھا خاصا کام ہورہا ہے، کئی ماہرینِ فن اور متعدد اہلِ فتویٰ کی مشترکہ کوششوں سے یہ کام روز افزوں پھیل رہا ہے، مگر اس کے باوجود روایت پسند علماء ِ حق کا ایک بہت بڑا طبقہ اس عمل سے نہ صرف یہ کہ لاتعلق ہے، بلکہ ایسی کوششوں کا ناقد چلا آرہا ہے۔ 
بینکوں کی اصلاح کے ’’مُبَیَّنہ مقاصد‘‘ کے پیشِ نظر اور ’’بعض اہلِ فتویٰ‘‘ کے شریکِ کار ہونے کی بنیاد پر بعض لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ ناقد علماء کو اس ’’کارِ خیر‘‘ میں شریک ہونا چاہیے، اگر شریک نہیں ہوسکتے، اور ’’مجوزین‘‘ کی ’’حوصلہ افزائی‘‘ نہیں کرسکتے تو کم از کم اس میدان میں محنت کرنے والے علماء اور ماہرین کو ’’ہدفِ تنقید‘‘ تو نہ بنائیں۔ یہ سوال بظاہر بڑا وزنی اور معقول ہے، مگر بینکوں کی حالیہ اصلاحی کوششوں سے متعلق ناقد علماء کے ’’تحفظات اور دوری کے اسباب‘‘ کا وزن اس سوال کے وزن سے کہیں بڑھ کر ہے۔ ذیل میں چند بنیادی تحفظات اور دوری کے اسباب پیشِ خدمت ہیں:

۱:- ’’معاشی انسان‘‘ اور ’’معادی انسان‘‘ کا نظریاتی و عملی موازنہ

بلاشبہ ’’معاش‘‘ انسان کا ایک بنیادی مسئلہ ، ایک ضرورت ، گزربسر کاایک لازمی وسیلہ ہے، مگر مقصود ہرگز نہیں ہے۔ مقصودِ اصلی ’’بندگی‘‘ ہے، جبکہ ’’معیشت‘‘ ثانوی ضرورت ہے۔ البتہ اس وسیلہ سے بطور وسیلہ وابستگی میں نظریۂ معاش اگر نظریۂ معاد پر غالب آجائے تو بتلایا جائے کہ ایسی معیشت کو اسلامی کہا جاسکتا ہے یا محض زرپرستی؟ 
موجودہ اداروں کو اسلامی مالیاتی ادارے کہنے سے قبل اسلامی معاشی عقیدے کے طور پر اس فکر کی بیداری ناگزیر ہے، تاکہ جاناجاسکے کہ مسلمان‘ معاشی انسان کتناہے اورمعادی کتنا ہے؟ جن مالیاتی اداروں کو اس وقت اسلامی کہا جارہا ہے، ان اداروں میں احتکارِ سرمایہ، اکتنازِ دولت، طمع ولالچ، حرصِ مال اور ہوسِ زر کی مذمت والی نصوص کس قدر قابلِ التفات ہیں، فکرِ مال کی فتنہ انگیزی بتانے والی نصوص زیادہ راجح نظر آتی ہیں، یانفسِ مال کاری؟ 
روایت پسند علماء سمجھتے ہیں کہ یہ ادارے مسلمان صارف (کلائنٹ) کو اسلامی نظریۂ معاش دینے کی بجائے صرف اور صرف مال کی ذخیرہ اندوزی اور نفع اندوزی کے گُر اور ہنر سکھانے میں مصروف ہیں اور مروجہ مُرابحہ، ہاؤس فائنانس، کار اجارہ اورتکافل پالیسی مجوزین کے ہاں فرض یا واجب کی بجائے محض مباح ہی ہوسکتے ہیں، ان عقود کو وہ مباح کے درجہ میں رکھ کر استعمال کی بجائے اسلامی ضرورت اور دینی اقتضاء کے طور پرپھیلارہے ہیں، جوکہ مسلمان کو ’’معادی‘‘ کی بجائے خالص ’’معاشی‘‘ انسان بنانے کی تگ ودو ہے۔ ایسے نظریہ پر عمل پیرا اداروں کو اسلام کی طرف منسوب کرنا نظریہ واعتقاد کے اصول سے غلط معلوم ہوتا ہے: ’’ ومنہم من شغفوا بأمور المعاش واشتغلوا بہا حتی لم یبق فرصۃ للاہتمام بأمر المعاد وتوقعہ وتفکرہ۔‘‘ 

۲:-اسلامی معیشت کا ’’اسلامی مفہوم‘‘

جب ہم اسلامی معیشت کانام لیتے ہیں تو اس کا حقیقی مطلب یہ ہوتاہے کہ جو مسلمان جس ذریعۂ روزگار سے وابستہ ہے، اس میں اسلامی احکام وآداب کا لحاظ رکھے۔ اگر محنت کش مسلمان‘ صنعت کار ہے توصنعت کاری سے متعلق اسلامی احکام وآداب کو سامنے رکھے۔ اگر وہ اجارہ دار ہے تو اجارہ کے احکام اور اجیر کے حقوق سے متعلق تفصیلات کا لحاظ رکھے۔ اگر مسلمان‘ باغبان یازمین دارہے تو وہ اپنے میدان میں اسلامی احکام کے مطابق چلے۔ ہماراملک چونکہ زرعی ملک ہے اورملکی معیشت کا اہم عنصر زراعت ہے، اس لیے پاکستان میں اسلامی معیشت کااطلاق ملک کی زراعت پر ہوناچاہیے اور اسلامی معیشت کے نفاذ کا محور زرعی اصلاحات ہونی چاہئیں، جیسے ایگری کلچرل بینکوں کی اُٹھان کابنیادی ہدف یہی بتایا گیا تھا، مگر یہاں زراعت اور دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری تو بے توجہی کا شکا رہے، اور سودی قرضوں کے نظام کو اسلامی قرار دینے کی پالیسی کو اسلامی معیشت کہاجارہاہے، جس کا لازمی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ نام نہاد اسلامی بینک کاری کا سفر‘ اسلامی معیشت کی بجائے روایتی بینک کاری کی ترویج وتقویت کا سفر ہے، اس لیے روایت پسند علماء اس سے دور رہنے میں عافیت سمجھتے ہیں۔ 

۳:-اسلامی معیشت اور غیر اسلامی معیشت میں ’’جوہری فرق‘‘

اسلامی معیشت اور غیر اسلامی معیشت میں جوہری فرق یہ ہے کہ تقسیمِ دولت کا انسانی معاشرے پر کیا اثر پڑا؟ امیر کی ثروت میں بڑھوتری کے ساتھ ساتھ غریب کی غربت میں کمی آئی یا نہیں؟ نام نہاد اسلامی بینکوں کو دیکھا جائے تو اُن کا اصول یہ ہے کہ چھوٹے تاجروں اور کمپنیوں کے ساتھ معاملات سے گریز کیا جائے۔ نام نہاد اسلامی بینک کاری کی شاخیں صرف بڑے شہروں تک محدود نظر آتی ہیں، اور صرف بڑے سرمایہ کاروں کے سرمائے کے فروغ اور گردش میں مصروف نظر آتی ہیں، ایسی معیشت جس میں سرمائے کی گردش مخصوص سرمایہ داروں کے درمیان چکرکاٹتی رہ جائے، اسے اسلامی طرزِ فکر پر مبنی معاشی نظام کہنا کیسے درست ہوسکتاہے؟

۴:-اسلامی بینک کاری یامغربی بینک کاری کی ’’تقلید کورانہ‘‘؟

بینک ایک خالص مغربی طرزِ معاش کے فروغ کا ادارہ ہے۔ بینک کاری کی اسلام کاری کے لیے قدم اٹھانے سے قبل اسلامی معیشت کے عادلانہ مساواتی اُصول اور مغربی معاشی نظام کے استحصالی شکنجوں کا جوتقابل لازمی تھا، بینکوں کی موجودہ اسلام کاری میں یہ تقابلی موازنہ تو کجا اُلٹامغربی بینک کاری کی ’’تقلید کورانہ‘‘ کا اُصول زیرِعمل ہے، بلکہ اسلامی اصولوں کی فوقیت کا ایمانی تقاضا بھی فراموش نظر آتا ہے۔ یہاں پہلے معاشی نظریہ اور طریقۂ تمویل‘ مغربی معاشی نظام سے مستعار لیا گیا ہے، پھرمصری طرزِ تطبیق پر اس کی فقہی تخریج فرمائی گئی ہے۔ ایسے طرزِ عمل پر شاہ ولی اللہؒ اور ان کے فکری پیروکار علمائے شریعت ’’تدارؤ بالدین‘‘ (امرِدینی کو ٹالنے) کا خدشہ محسوس کرتے چلے آرہے ہیں، اور اسے ’’اتباع سنن من کان قبلکم‘‘ کے قبیل سے سمجھا جاتا رہا ہے۔ 
’’اسلامی بینک کاری‘‘ کے عنوان سے ’’اسلامی معاشی نظام‘‘ کو مغرب کا تابع محض اور اس کے پیچھے دوڑتا ہوا نظام ظاہر کیا گیا ہے۔ ایسے نظام کو ’’اسلامی ‘‘کہنا بے جاہے۔ 

۵:-مغربی نظام کی بالادستی اور اثر و نفوذ سے طوطاچشمی

موجودہ مجوزہ نظام بینک کاری کی واقعیت جانچنے سے قبل مغربی معاشی سرمایہ داری نظام کی بالادستی، چیرہ دستی اور اس نظام کے تحفُّظ وتفوُّق کے لیے مغربی معیشت کی سہ گانہ بنیادوں (سود، بینک کاری اور آزاد منڈی) اور دوگانہ اُصولوں (سیکولر ڈیموکریسی، آزاد منڈی کی معیشت پر کاربند سودی نظام) کا تجزیہ و تحلیل درکار ہے، جس سے یہاں طوطاچشمی برتی گئی ہے اور موجودہ تخیُّلاتی نظام کو اسلامی، آسمانی اور آفاقی باور کرایاجارہاہے، جسے ہر صاحبِ بصیرت خواب اور سراب ہی کہہ سکتا ہے۔ 

۶:-کل کے بغیر جزء کی اصلاح کے دعویٰ کی واقعیت

عالمی تناظر سے احوالِ زمانہ پرکھنے والے پیشواؤں سے ہرگز مخفی نہیں کہ کسی بھی ملک کاکوئی بھی بینک ہو، وہ عالمی بینک کاری کے اَکِھل کی اکھنڈ ہی ہوتاہے، بالخصوص تمام دنیاکی بینکوں کی ہولڈنگ اور کنٹرولنگ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف ہی کرتے ہیں، دنیامیں جو بھی بینک قائم ہوتاہے تو وہ ورلڈ بینک اور عالمی مالیاتی ادارے کے اصول وقواعد کا پابند ہوتا ہے، دنیا کاکوئی بھی بینک اس گرفت سے آزاد یا دور رہ کر اپنا بینک کاری وجود باقی نہیں رکھ سکتا، نیزکوئی بھی ملک اپنے وسائل سے اپنے طور پر مستفید ہو عالمی مالیاتی ادارے اس کی اجازت بھی قطعاًنہیں دیتے، بلکہ ایسی سرگرمی کے خلاف ہر محاذ سے جنگ مسلط کرنا مغرب کے لیے ایمانی اقتضاء کا درجہ رکھتا ہے۔ آج دنیامیں جتنی جنگیں برپاہیں، ان کے پیچھے دنیابھر کے معاشی وسائل پر قبضے کے محرکات ہی کارفرماہیں۔ مغربی سرمایہ کاری کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ وہ دنیامیں اپنی معاشی بالادستی پر کسی قسم کا سمجھوتہ روانہیں رکھتی، جس کی وجہ سے دنیامعاشی ناہمواری، طبقاتی تقسیم اور امن وامان کے مسائل سے دوچار ہے۔ یہ عالمی نظام کی وہی تباہ کاریاں ہیں جن سے نجات کے لیے حضرت شاہ ولی اللہ v کا’’فک کل نظام ‘‘کا الہامی نعرہ ونظریہ رواج پایاتھا، جو میدانِ عمل سے وابستہ ہمارے سیاسی بزرگوں کا ’’شعار ‘‘کہلاتاہے، جس کی تمثیلی تعبیر کسی زمانے میں اپنے اِن بزرگوں سے یوں سناکرتے تھے کہ :’’ٹونٹی بدلنے سے ناپاک مٹکا پاک نہیں ہوتا۔‘‘ روایت پسند علماء اس نظریئے کو آج تک درست سمجھتے چلے آرہے ہیں، اس لیے ہمارے جیسا ہر طالب علم یہی کہتاہے اور کہے گا کہ: ’’کل کی اصلاح کے بغیر جزء کی اصلاح کا دعویٰ بے معنی ہے۔‘‘ اس لیے روایت پسند علماء بینکوں کی اسلام کاری کے حالیہ سفر میں رفیقِ سفر بننے سے رہ گئے اور اس سفر اور منزل کی حسرت بھی نہیں رکھتے۔ 

۷:-بینکوں کا اصلی کام قرضوں کا کاروبار ہے

بینک کے تقریباً بڑے بڑے کام ایک درجن کے لگ بھگ ہیں، ان میں سے ایک کام سودی قرضوں کا عمل ہے۔ ساری محنت کا محور یہی ہوتا ہے، جو بینک کا بنیادی اور اصلی کام ہے۔ بینک کی اسلام کاری کی طرف جاتے ہوئے قرضوں سے متعلق شرعی مزاج دیکھنا چاہیے، قرضوں سے متعلق بیعِ صرف کے احکام کو ملحوظ رکھنے کی ضرورت ہے، مگر بینکوں کے طرف دار حضرات‘ بینک کی ضرورت اور افادیت گنواتے اور منواتے ہوئے مجموعی کارکردگی کوموضوع بناکر اس کی آڑ میں قرضوں کے کاروبار کو ضرورتِ زمانہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پھر نظریۂ ضرروت کے سہارے سودی قرضوں کے عمل کی اسلام کاری کو اسلامی بینک کاری اور اسلامی معیشت قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ بینک کا ضرورت ہوناالگ پہلوہے، اور قرضوں کے کاروبار کا ضروری ہوناالگ معاملہ ہے، یہ طرزِ عمل دووجہوں سے غلط ہے:
۱لف:… غیر ضروری کو ضروری کہنا، کیوں کہ قرضوں کا کاروبار ہرگز ضروری نہیں ہے۔
ب:… غیر ضروری اور ناجائز کے جواز کے لیے جائز اور ضروری اُمور کو ڈھال بناناقرآن کریم کی رو سے یہ مشرکین مکہ کے ’’إِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا‘‘ جیسااستدلال بنتاہے، اور حضرت شاہ ولی اللہv کی اصطلاح میں ’’دسیسہ کاری‘‘ کہلاتاہے، اس لیے بینکوں کے اصلی کام (قرضوں کے کاروبار)کواسلامی بینک کاری کہنا قطعی غلط ہے!۔ 

۸:-کیاقرضوں کا کاروبار اسلام میں جائز ہے؟

بینک اپنی اصل اور ساخت کے لحاظ سے نہ تو تجارتی ادارہ ہے اور نہ ہی معروف معنوں میں حقیقی تجارت کرنے کا مجاز ہے۔ اگر وہ تجارت کرتاہے تو صرف اور صرف قرضوں کی تجارت کرسکتاہے، زرکالین دین کرسکتاہے اور وہ یہی کرتاہے توپھراسلامی بینک کا خلاصہ یہ ہوگا: حقیقی تجارت کے بجائے مختلف حیلوں بہانوں کے ذریعے قرضوںکے کاروبارکوجائز قرار دیناہے، ورنہ وہ بینک‘ بینک نہیں رہے گا، جب اسلامی بینک کی حقیقت یہی ٹھہرتی ہے تو ظاہر ہے کہ قرضوں کاکاروبار نفع اندوزی کے لیے کیاجائے تو یہ آسان کام نہیں ہے۔ 

۹:-نام نہاد اسلامی بینک کاری اور ضرورت واضطرار کے اصول کابے جا استعمال

اسلام کی طرف منسوب بینکوں کو جائز بنانے کے لیے مجوزین علماء نے ضرورت واضطرار کے نام پر کئی مسلمہ اصولِ شرعیہ سے غالباً صرفِ نظر کیا ہوا ہے، حالانکہ اکابر کے معاشی نظریات صاف بتاتے ہیں کہ ضرورت واضطرار اور عیش پرستی، زر اندوزی اور امیر سے امیرتر بننے کی حرص وخواہش کے درمیان فرق ملحوظ رکھا جانا ضروری ہے، کیوں کہ تمدنِ جدیدکے ہر تقاضا اور مغرب کی نقالی کو اضطرارِ شرعی کے درجہ میں شمار نہیں کیا جاسکتا۔ مگر نام نہاد اسلامی بینکوں کا حال یہ ہے کہ ضرورت واضطرار کے نام پر سودی قرضوں کو اپنی تمام تر کیفیات وخصوصیات کے ساتھ جائز قرار دیا جارہا ہے، حالانکہ کسی مجبور کے حق میں قرضہ‘ تو ضرورت اور اضطرار ہوسکتا ہے، بلکہ کارِ ثواب بھی ہے، مگر قرضوں کاکاروبار تو قطعاً ضرورت واضطرار نہیںکہلاتا، بلکہ ظلم، استحصال اور خداورسول کے خلاف اعلانِ جنگ کانام ہے، جو ادارے ضرورت واضطرار کا نام لے کر اس خطرناک اعلانِ جنگ کے مواقع کی فراہمی اور مقاصد کی تکمیل کی راہ پر گامزن ہوں، ا نہیں اسلامی کہنا ایمانی لحاظ سے غیرمعمولی امر ہے۔ 

۱۰:-بینک کاری کے ’’ضمانتی اصول‘‘ اور اسلامی تجارت کے ’’امانتی اصول‘‘ کا تقابلی جائزہ

بینک جب سودی ادارہ ہے تو سود کا متبادل سودی آلائشوںسے پاک تجارت ہی ہوگی: ’’أَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا‘‘ بینک کو تجارتی ادارے میں بدلنے کے لیے سرمایہ کار (بینک) کی تحویل میں سرمائے کی بابت بینک کاری کے ضمانتی اصول اور اسلامی تجارت کے امانتی اصول، نیز غیر متعین امکانی نفع اور متعین یقینی نفع کا نظریاتی قرب وبعد ناپنابھی ضروری ہے۔ اسی تقابل کے ذریعہ ممکن ہوگاکہ بینک کاری اور اسلامی تجارت اپنے بنیادی اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے یکجا ہوسکتے ہیں یانہیں؟! ماہرین فن بخوبی جانتے ہیں کہ نام نہاد اسلامی بینکوں میں سرمائے سے متعلق بینک کاری کا ضمانتی اصول پوری قوت کے ساتھ کارفرما ہے، جب کہ برائے نام اسلامی تجارت کا امانتی اصول تاویلِ فاسد کے ذریعہ انتہائی بے رحمی وبے وقعتی کے ساتھ پائے مال نظر آتا ہے۔ نیز نفع کے امکانی اور یقینی تعیُّن میں محض لفظ ’’ان شاء اللہ!‘‘ کا فرق دکھایاگیاہے۔ اس لیے موجودہ بینک کاری اداروں کو اسلامی کہنا غیراسلامی کو اسلامی کہنے کی غلطی لگ رہا ہے، اس ڈر سے روایت پسند اس نظام کے قریب نہیں جاپارہے۔ 

۱۱:-سودی بینک کے حالیہ متبادل کی حقیقت

ہمارے جیسے طلبہ جب حضرت مفتی اعظم مفتی محمد شفیع دیوبندیؒ، حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوریؒ اور مفکرِ اسلام حضرت مفتی محمود v اور دیگر اکابر کے معاشی افکار کے آئینے میں نام نہاد اسلامی بینک کاری کا چہرہ دیکھتے ہیں تو اس نام نہاد نظام کی مکروہ صورت‘ اکابر کی فکر سے بالکل جداگانہ نظرآتی ہے۔ اکابر کے ہاں توسودی بینک کا متبادل’’ بینک ‘‘نہیں تھا، بلکہ سودی بینک کا متبادل ’’شرکت ومضاربت‘‘ پر مبنی تجارتی ادارہ تھا، جب کہ موجودہ بینکوں میں شرکت ومضاربت کا کوئی عنصر نہیں پایا جاتا، بلکہ اُلٹا سودی قرضے کو اپنے مکمل وضعی طریقے اور مکمل خصوصیات کے ساتھ مرابحہ مؤجلہ، جب کہ روایتی لیزنگ کو اجارہ کے عنوان سے قوام ودوام بخشاگیا ہے، اور بینکوں کی یا ۹۸% یا ۸۰%آمدن کاذریعہ یہی دو تمویلی طریقے ہیں۔ یہ طریقے اکابر کوکبھی نہیں سوجھے تھے، بلکہ مال کاری کے یہ طریقے توضیائی دور (۸۱-۱۹۸۰ء) کی ضیاء پاشی کا نتیجہ ہیں، جو پہلے بیع مؤجل اور پٹہ داری کے عنوان سے متعارف ہوئے تھے، جنہیں اس وقت کے اہلِ دانش اور اربابِ فقہ وفتاویٰ نے سود کو چور دروازے سے داخل کرنے کی ناپاک جسارت قرار دیاتھا، پھر۸۵-۱۹۸۴ء میں اسی ’’بیعِ مؤجل ‘‘اور ’’پٹہ داری‘‘ کو ’’مرابحہ‘‘ اور’’ اجارہ‘‘ کے نام سے اور ’’حسن قضاء‘‘ کے اضافے کے ساتھ رواج دینے کی سعی لاحاصل ہوئی تھی۔ یہی وہ مال کاری کے دو طریقے ہیں جنہیں ۱۹۹۲ء سے نئے رنگ روغن کے ساتھ اسلامی معیشت کی تجدید بتایا جارہا ہے، البتہ یہاں ناموں میں اور مثالوں میں اتنی تبدیلی ضرور ہوئی کہ مرابحہ کے ساتھ مؤجلہ کالاحقہ لگا اور اجارہ کے ساتھ’’ منتہیہ بالتملیک‘‘ کالفظ بڑھادیاگیا، جب کہ مثال میں کھاد کی بوری کی جگہ ٹریکٹر کا لفظ رکھ کر ترمیم فرمائی گئی ہے۔ حالیہ اسلامی بینک کاری اسی نظام(۱۹۹۲ء والے ) کی علمبرداری کی دعوے دارہے۔ جن روایت پسند علماء کے سامنے بینکوں کی اسلام کاری سے متعلق اکابرکی تحریری کاوشیں موجود ہیں، وہ جانتے ہیں کہ اکابر کا نظریۂ بینک کاری وہ نہیں ہے جس پر ہمارے معاصر علماء بینک کاری فرمارہے ہیں، بلکہ اکابر کے نظریہ سے انحراف کے باعث روایتی علماء معاصر بینک کار علماء کے ساتھ چلنے سے قاصر رہ گئے۔ 

۱۲:-ضیائی نظریۂ بینک کاری کی پذیرائی اور اکابر کے نظریۂ بینک کاری کی عدمِ پذیرائی کے عوامل

بینکوں کی اصلاح اور اسلام کاری کاعمل تقریباً۱۹۶۰ء کی دھائی سے شروع ہواتھا، ہمارے اکابر حضرت مولانامفتی محمد شفیع صاحب، حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری، حضرت مفتی محمود، حضرت مفتی ولی حسن اور حضرت مفتی رشید احمد لدھیانوی w نے اس سلسلہ میں گراں قدر عملی وعلمی ماٰثر چھوڑے ہیں، مگر ان جبال العلم ہستیوں کی کاوشوں کو کبھی کسی نے قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا، مگر ۸۱-۱۹۸۰ء میں اسلامی نظریاتی کونسل نے بینک کاروں کی رعایت اور ان کے مفادات کے تحفُّظ پر مبنی بینک کاری کا نظام پیش کیاتو بینک کار حضرات اُسے ہاتھوں ہاتھ لینے لگ گئے۔ اگر کسی نے وقتی طور پر تحفُّظ کااظہار بھی کیا تو آگے چل کر وہی تحفُّظ اطمینان میں بدلتا چلاگیا، اب جب ہم اسلامی بینک کاری کی بات کرنے جارہے ہیں تو ہمیں اس میدان میں قدم رکھنے سے قبل یہ سوچنا لازم ہے کہ اکابر کے نظریۂ بینک کاری کو کبھی پذیرائی نہ ملنے اور ضیاء صاحب مرحوم کے سایۂ عاطفت میں پیش ہونے والے وقتی، عارضی اور عبوری نظریۂ بینک کاری کو قبول کرنے کے وہ جاذب عوامل آخر کیا ہیں ؟ان کی تشخیص ہونی چاہیے۔ نیز اس عبوری اور عارضی نظام سے متعلق کم ازکم اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ کے تأثرات ہی دیکھ لیے جائیں اور ۱۹۹۲ء کی مجلسِ بینک کاری کی روئیداد کے کم ازکم مختصر حواشی کا مطالعہ ہی کرلیاجائے تو شاید مروجہ اسلامی بینک کاری ’’علمی فتنہ‘‘ کا رُتبہ نہ پاسکے۔ نظریاتی کونسل کی رپورٹ اور ۱۹۹۲ء کی روئیداد کے سرسری مطالعہ سے وہ عوامل بھی نظر آسکتے ہیں جواس نظام کی قبولیت کا ذریعہ اور اکابر کے نظریہ کے قابل قبول بننے میں رکاوٹ بنتے رہے، اس لیے روایتی علماء اس نظام کی تائید سے کتراتے ہیں۔

۱۳:-تمویلی اداروں کی نظریۂ پیدائشِ دولت کی تشخیص کی ضرورت
 

کسی بھی مالیاتی/ تمویلی ادارے کو اسلامی کہنے سے قبل اس ادارے کے پیداواری نظریئے کا واضح ہونا لازم ہے۔ کسی بھی مالیاتی ادارے کا ’’نظریۂ پیدائشِ دولت ‘‘حصولِ دولت اور کسبِ مال کے لیے وہی درجہ رکھتا ہے جو انسان کے اعمال کی صلاح وصحت کے لیے ’’ایمان ‘‘ کا درجہ ہوتا ہے۔ نام نہاد اسلامی بینکوں کی آمدن، کاروبار اور مال کاری کا بنیادی عنصر جب قرضوں کا لین دین ہی ہے اور اصل مقصد بھی یہی ہوتا ہے، بعض تجارتی اصطلاحات برائے نام، حیلۂ فاسدہ کے طور پر استعمال ہورہی ہیں، تو یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ نام نہاد اسلامی بینک کاری‘ اسلامی تجارت کے بجائے روایتی بینک کاری ہی کررہی ہے اور اس کی دولت آفرینی کے پیچھے پیدائشِ دولت کا وہی نظریہ کارفرما ہے جو اسلامی لاحقے سے خالی بینکوں کی نفع اندوزی کے پیچھے کارفرما ہے اور وہ ہے سرمایہ دارانہ نظام کا بنیادی نظریۂ پیدائشِ دولت اور معروف پیداواری عامل ’’المال یلد المال‘‘یعنی عین اور محنت کے واسطے کے بغیر بھی پیسہ مال پیدا کرسکتا ہے، یعنی جس طرح اعیان(اشیاء) کا کرایہ جائز ہے، اسی طرح اَثمان(نقدی) کا کرایہ بھی جائز ہے اور اسی کرایہ کا بازاری نام ’’سود ‘‘ہے۔ اس لیے روایتی علماء نام نہاد اسلامی بینکوں کو اسلامی یا غیرسودی کہنے کی بجائے مغربی سرمایہ داری نظام کے فکری سانچوں میں ڈَھلی ہوئی روایتی بینک کاری کا شائع وذائع چربہ ہی سمجھتے ہیں، ہمارا خیال یہ ہے کہ روایتی بینک کاری کو روایتی انداز واندام کے ساتھ استعمال کرنا معمولی جرم ہے، جبکہ روایتی بینک کاری کو اسلامی کے نام سے رواج دینا بڑا جرم ہے، اگر اس عمل سے علماء وابستہ ہوں اور اس نظام کی صحت کے لیے تاویلات وتزویرات کی راہ پر چلنے لگ جائیں تو حضرت شاہ ولی اللہ v کے بقول یہ ’’علماء سالفین‘‘ والا مذموم عمل کہلائے گا اور یہ ’’ترویج الاستنباطات الواہیۃ‘‘ اور ’’تاویل‘‘ کے ذریعہ ایک جرم کو دوہرا جرم بنانے کے مترادف ہوگا، اس بنا پر بجز چند علماء کے اس نام نہاد اسلامی بینک کاری سے ملک بھر کے اہلِ فقہ وفتویٰ دور ہیں اور عوام وخواص کو بھی یہی مشورہ دیتے ہیں۔ 

۱۴:-فلسفۂ ولی اللّٰہی اور تجدیدِ معیشت کی کاوش
 

مروَّجہ نظام کی نظریاتی بنیادوں کو اگر ولی اللّٰہی افکار اور اُن کے ارتفاقی اور عمرانی اُصولوں  کے آئینے میں دیکھا جائے تو اس نظام میں حضرت امام شاہ ولی اللہv کا نظریۂ ملکیت، اُصولِ ارتقاق اور عقودِ باطلہ وفاسدہ کی ترویجی مہم کی بابت حجۃ اللہ البالغہ میں بیان کردہ اسرار وحکم دوربین سے بھی دکھائی نہیں دیتے، بلکہ اس کے برعکس قابلِ اشکال عقود کو درست باور کرانے میں تاویلِ فاسد کا ارتکاب بڑی بے باکی سے نظر آتا ہے، چنانچہ بینکوں کی اسلام کاری کے حالیہ طرزِ عمل میں حضرت مجدد احمد سرہندی اورحضرت شاہ ولی اللہ احمد دہلوی E کے تطہیری وتجدیدی مہک سے زیادہ دوسرے رُخ کی تجدیدی ہمک کا غلبہ محسوس ہورہاہے، اس لیے اس نظام کو اسلامی معیشت کی تجدیدی کاوش کہنے اور سمجھنے میں روایتی علماء کو تأمل رہتاہے اور رہے گا۔ 

۱۵:-اسلامی بینک کاری کی بنیاد اشتراکیت، سرمایہ داری یا اسلام؟
 

بینکوں کی اسلام کاری کے عمل میں روایتی علماء اس لیے بھی شامل نہ ہوسکے کہ وہ ابھی تک میدانِ عمل سے وابستہ اکابرِ جمعیت کے ۱۹۷۰ء کے سرگودھا والے اس ’’دستورِ مستور‘‘ کی تلاش میں ہیں، جس میں اکابر کے نظریۂ ملکیت، تحدیدِ ملکیت، زرعی اصلاحات، مزدور کے حقوق اور سرمایہ دار کے استحصالی اقدامات کی بابت اسلامی فکر مہیا کرنے کی محنت ہوئی تھی، انہیں اپنے سیاسی اکابر کے وہ معاشی افکار بھی درکار ہیں جن میں اسلامی مساوات اور بنیادی انسانی حقوق کابیان تھا، جس کی پاداش میں سرمایہ دار طبقے اور اس طبقے کے ہم نوا حضرات نے ہمارے سیاسی بزرگوں کو اشتراکی قرار دیا تھا اور ان کی کوششوں کو اسلامی لبادے میں سوشلزم اور کمیونزم کی ترویج قرار دیاتھا۔ اگر اسلامی مساوات اور انسانی ہمدردی کا نعرہ سوشلزم اور کمیونزم کے ساتھ لفظی مشابہت کی وجہ سے موجبِ کفر تھا تو آج کیپٹل ازم کی فقہی تخریج کیسے تجدیدی کارنامہ بن گئی؟اور اس فکر پر قائم معاشی نظام کیسے قابلِ داد اور لائقِ رشک بن گیا؟روایتی علماء ایسے ’’معاییر‘‘ کی عیاری (پیمائشی عمل) سمجھنے سے قاصر ہیں، اس لیے وہ ان بینکوں سے دوری کا مشورہ دیتے ہیں۔

۱۶:-مجوزین کے ہاں غیر سودی بینک کاری کا پرانا تصور

نام نہاد اسلامی بینکوں میں غیر سودی بینک کاری کا وہ تصوُّر بھی مفقود ہے جو مجوزین کے بعض کبار اہلِ علم پیش فرمایاکرتے تھے، وہ فرمایاکرتے تھے کہ :
’’جب ہم غیر سودی بینک کاری کا نام لیتے ہیں اور بینکنگ کو اسلامی اصولوں کے مطابق چلانے کی بات کرتے ہیں تو اس کامنشأ یہ نہیں ہوتا کہ چند حیلوں کے ذریعہ ہم موجودہ طریق کار کو ذرا سا تبدیل کرکے سارا نظام جوں کا توں برقرار رکھیں، بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ سرمایہ کاری کے پورے نظام کو تبدیل کرکے اسے اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالیں، جس کے اثرات تقسیمِ دولت کے نظام پر بھی مرتب ہوں، اور سرمایہ کاری کا اسلامی تصور یہ ہے کہ جو شخص کسی کاروبار کو سرمایہ فراہم کررہاہے، وہ یا تو نفع کا مطالبہ نہ کرے یااگر نفع کا مطالبہ کرتاہے تو نقصان کے خطرے میں بھی شریک ہو، لہٰذا غیرسودی بینک کاری میں بنیادی طور پر اس تصوُّر کا تحفُّظ ضروری ہے، اب اگر بینک کا سارا نظام مارک اَپ(مروجہ اسلامی بینک کاری میں اس مارک اَپ کانام رِبح اور اُجرت رکھ دیاگیا ہے۔ [مرتب]) کی بنیاد پر اُستوار کرلیا جائے تو سرمایہ کاری کا یہ بنیادی اسلامی تصور آخر کہاں اطلاق پذیر ہوگا؟۔۔۔۔۔ کیااس حیلے کے ذریعہ نظامِ تقسیمِ دولت کی مروجہ خرابیوں کا کوئی ہزارواں حصہ بھی کم ہوسکے گا؟ اگر نہیں، اور یقینا نہیں ، تو خدارا سوچئے! کہ مارک اَپ (مروجہ نام نہاد رِبح وکرایہ [مرتب]) کاحیلہ استعمال کرکے ہم اسلامی نظامِ سرمایہ کاری کا کیا تصوُّر دنیاکے سامنے پیش کررہے ہیں؟ ۔‘‘ 

۱۷:-شبہ بالربوا سے اجتناب کا شرعی تقاضا
 

اگر اُمور بالا واقعیہ سے صرف نظر کرتے ہوئے مجوزین اور مانعین کی آراء کو ائمہ مجتہدین کی اختلافی آراء کے درجہ میں فرض کرلیا جائے تو بابِ ربا میں شبہۂ ربا سے اجتناب کا شرعی تقاضا یہی بنتا ہے کہ متدین طبقہ اس نظام سے دور رہے اور دوسروں کو بھی یہی مشورہ دیا جائے۔ 

۱۸:-حلال وحرام کے اختلاف کا مخلص

نیز معاصر علماء کے اس اختلاف کو اگر فقہاء کے حلال وحرام والے اختلاف کے درجہ میں لے جاکر دیکھا جائے تب بھی اصولاً اجتناب واحتراز کا فیصلہ ہی کرنا ہوگا، کیونکہ حلال وحرام کے اختلاف کی صورت میں جانبِ حرمت کو ترجیح ہوتی ہے۔ 

۱۹:-مباحات کے اختلاف میں اربابِ مناصبِ دینیہ کا طرزِ عمل

علیٰ سبیل التنزُّل اگر اس اختلاف کوحلال وحرام کی بجائے، مباحات کا اختلاف قرار دیا جائے تو بھی اہلِ تقویٰ، اصحابِ تدیُّن، اربابِ مراتب اور صاحبانِ مناصبِ دینیہ کے لیے پھر بھی اجتناب واحترازہی کا حکم ہوگا، نہ کہ اس نظام کے تحت چلنے والے اداروں کی ممبر شپ اور اس نظام کی تقویت کا ذریعہ بننا۔ 

۲۰:-بابِ حرمت میں اصولِ ورع وتقویٰ کو نظر انداز کرنے والے خلاف اور شقاق کا سبب اور ذمہ دار ہیں
 

بینکوں کی اسلام کاری کی حالیہ کوششوں سے دوری کے یہ چند اسباب ہیں جو نام نہاد اسلامی بینکوں کی سرمایہ کاری کو حرام سمجھنے اور بتانے کے لیے روایت پسند علماء کی مجبوری ہیں، یہ کسی کی بے جا مخالفت نہیں ہے، بلکہ حکیم الامت حضرت تھانوی v کے بقول خلاف اور شقاق کے موردِ الزام وہی لوگ ہیں جو بابِ حرمت میں اصولِ ورع وتقویٰ کو نظر انداز کرتے ہوئے احتراز کی بجائے ابتلاء کے داعی ہیں۔

اللّٰہم أرنا الحق حقًا وارزقنا اتباعہٗ وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہٗ
وصلی اللّٰہ وسلم علٰی سیدنا محمد وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین