بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

رحمۃٌ للعالمین  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سیرت رب العالمین کی زبانی

رحمۃٌ للعالمین  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سیرت 

رب العالمین کی زبانی


قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا وہ عظیم الشان کلام ہے جو انسانوں کی ہدایت کے لیے خالق کائنات نے اپنے آخری رسول حضور اکرمa پر نازل فرمایا۔ خالقِ کائنات نے اپنے حبیب حضور اکرم a کو قرآن کریم میں عمومی طور پر ’’یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ‘‘، ’’یَا أَیُّہَا الرَّسُوْلُ‘‘، ’’یَا أَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ‘‘ اور ’’یَا أَیُّہَا الْمُزَّمِّلُ‘‘ جیسی صفات سے خطاب فرمایا ہے، حالانکہ دیگر انبیاء کرامo کو ان کے نام سے بھی خطاب فرمایا ہے۔ صرف چار جگہوں پر اسم مبارک محمد اور ایک جگہ اسم مبارک احمد قرآن کریم میں آیا ہے۔ 
قرآن کریم میں چار جگہ حضور اکرم a کے نام ’’محمد‘‘ کا ذکر
’’وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ۔‘‘ 
’’اور محمد ایک رسول ہی تو ہیں، ان سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں۔‘‘ (سورۃ آل عمران: ۱۴۴)
’’مَا کَانَ مُحَمَّدٌ أَبَآ أَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ۔‘‘ 
’’(مسلمانو!) محمد تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور تمام نبیوں میں سب سے آخری نبی ہیں۔‘‘                           (سورۃ الاحزاب: ۴۰)
’’وَالَّذِیْنَ أٰ مَنُوْا وَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ وَأٰ مَنُوْا بِمَا نُزِّلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّھُوَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّھِمْ کَفَّرَ عَنْھُمْ سَیِّأٰتِھِمْ وَأَصْلَحَ بَالَھُمْ ۔‘‘                             (سورۃ محمد : ۲)
ترجمہ:’’اور جو لوگ ایمان لے آئے ہیں، اور انہوں نے نیک عمل کیے ہیں، اور ہر اُس بات کو دل سے مانا ہے جو محمد(a) پر نازل کی گئی ہے، اور وہی حق ہے جو ان کے پروردگار کی طرف سے آیا ہے، اللہ نے ان کی برائیوں کو معاف کردیا ہے اور ان کی حالت سنوار دی ہے۔‘‘ 
’’مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗٓ أَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ۔‘‘ ( سورۃ الفتح: ۲۹)
’’محمد اللہ کے رسول ہیں، اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے مقابلہ میں سخت ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کے لیے رحم دل ہیں۔‘‘ 
 قرآن کریم میں ایک جگہ حضور اکرم a کے نام ’’احمد‘‘ کا ذکر
’’وَإِذْ قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ ٰیبَنِیْٓ إِسْرَآئِیْلَ إِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ إِلَیْکُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَيَّ مِنَ التَّوْراۃِ وَ مُبَشِّرًا بِرَسُوْلٍ یَّأْتِیْ مِنْ بَعْدِی اسْمُہٗٓ أَحْمَدُ۔‘‘    (سورۃ الصف: ۶)
’’ اور وہ وقت یاد کروجب عیسیٰ بن مریم نے کہا تھا کہ: اے بنو اسرائیل! میں تمہارے پاس اللہ کا ایسا پیغمبر بن کر آیا ہوں کہ مجھ سے پہلے جو تورات (نازل ہوئی) تھی، میں اس کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اُس رسول کی خوشخبری دینے والا ہوں جو میرے بعد آئے گا، جس کا نام احمد ہے۔‘‘ 
 معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ m نے اپنے زمانہ ہی میں حضور اکرم a کے نبی ہونے کی تصدیق فرمادی تھی۔ 
حضور اکرم a کا عالی مقام ومرتبہ
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو ایسا عظیم الشان مقام عطا فرمایا ہے کہ کوئی بشر، حتیٰ کہ نبی یا رسول بھی اس مقام تک نہیں پہنچ سکتا، چنانچہ اللہ تعالیٰ اپنے پاک کلام میں ارشاد فرماتا ہے: 
’’أَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ وَوَضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَ الَّذِیْ  أَنْقَضَ ظَھْرَکَ وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ۔‘‘                                        (سورۂ الم نشرح:۱-۴)
 ’’(اے پیغمبر! ) کیا ہم نے تمہاری خاطر تمہارا سینہ کھول نہیں دیا؟ اور ہم نے تم سے تمہارا وہ بوجھ اُتاردیا ہے، جس نے تمہاری کمر توڑ رکھی تھی۔ اور ہم نے تمہاری خاطر تمہارے تذکرے کو اونچا مقام عطا کردیا ہے۔‘‘
 دنیا میں کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرتا جس میں ہزاروں مسجدوں کے مناروں سے اللہ کی وحدانیت کی شہادت کے ساتھ حضور اکرم a کے نبی ہونے کی شہادت ہر وقت نہ دی جاتی ہو اور لاکھوں مسلمان نبی اکرم a پر درود نہ بھیجتے ہوں، غرضیکہ اللہ تعالیٰ کے بعد سب سے زیادہ حضور اکرم a کا نام نامی اس دنیا میں لکھا، بولا، پڑھا اور سنا جاتا ہے۔ 
حضور اکرم a صاحبِ حوض کوثر
خالقِ کائنات نے صرف دنیا ہی میں نہیں، بلکہ آپ a کو حوضِ کوثر عطا فرماکر قیامت کے روز بھی ایسے بلند واعلیٰ مقام سے سرفراز فرمایا ہے جو صرف اور صرف حضور اکرم a کو حاصل ہے، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: 
’’إِنَّا ٓأَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ إِنَّ شَانِئَکَ ھُوَ الْأَبْتَرُ۔‘‘ (سورۃ الکوثر: ۱- ۳) 
’’(اے پیغمبر!) یقین جانو ہم نے تمہیں کوثر عطا کردی ہے، لہٰذا تم اپنے پروردگار (کی خوشنودی) کے لیے نمازپڑھو اور قربانی کرو، یقین جانو تمہارا دشمن ہی وہ ہے جس کی جڑ کٹی ہوئی ہے (یعنی جس کی نسل آگے نہ چلے گی)۔‘‘
 کوثر جنت کے اُس حوض کانام ہے جو حضور اکرمa کے تصرف میں دی جائے گی اور آپ کی اُمت کے لوگ قیامت کے دن اس سے سیراب ہوں گے۔ 
 حضور اکرم a پر درود وسلام
اللہ تعالیٰ نے نہ صرف زمین میں بلکہ آسمانوں پر بھی اپنے نبی کو بلند مقام سے نوازا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: 
’’إِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ أٰ مَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا۔‘‘                                                      (سورۃ الاحزاب: ۵۶) 
’’اللہ تعالیٰ نبی پر رحمتیں نازل فرماتا ہے اور فرشتے نبی کے لیے دعائے رحمت کرتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی نبی پر درود وسلام بھیجا کرو۔‘‘
 اس آیت میں نبی اکرم a کے اس مقام کا بیان ہے جو آسمانوں میں آپ a کو حاصل ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں میں آپ a کا ذکرفرماتا ہے اور آپ a پر رحمتیںبھیجتا ہے۔ اور فرشتے بھی آپ a کی بلندیِ درجات کے لیے دعائیں کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے زمین والوں کو حکم دیا کہ وہ بھی آپ a پر درود وسلام بھیجا کریں۔ 
حضور اکرم a کا فرمان اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے
کیسا عالی شان مقام حضور اکرمa کو ملا کہ آپ کا کلام اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہی ہوتا تھا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ خود ارشاد فرماتا ہے: 
’’وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی إِنْ ھُوَ إِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی۔‘‘  (سورۃ النجم: ۳- ۴)
’’اور یہ اپنی خواہش سے کچھ نہیں بولتے، یہ تو خالص وحی ہے جو ان کے پاس بھیجی جاتی ہے۔‘‘
حضور اکرم a کو لوگوں کی ہدایت کی فکر
حضور اکرمa لوگوں کی ہدایت کی اس قدر فکر فرماتے کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: 
’’لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ أَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ۔‘‘ 
(اے پیغمبر!) شاید تم اس غم میں اپنی جان ہلاک کیے جارہے ہو کہ یہ لوگ ایمان (کیوں) نہیں لاتے!۔‘‘                                                     (سورۃ الشعراء: ۳)
 ہمارے نبی کافروں اور مشرکوں کو ایمان میں داخل کرنے کی دن رات فکر فرماتے اور اس کے لیے ہر ممکن کوشش فرماتے۔ 
حضور اکرم a نبی رحمت بناکر بھیجے گئے
رب العالمین نے اپنے نبی کو رحمۃٌ للمسلمین یا رحمۃٌ للعرب نہیں بنایا، بلکہ رحمۃٌ للعالمین بنایا ہے، جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے: 
’’وَمَآ أَرْسَلْنٰکَ إِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ‘‘                            (سورۃ الانبیاء: ۱۰۷) 
’’اور (اے پیغمبر!) ہم نے تمہیں سارے جہانوں کے لیے رحمت ہی رحمت بناکر بھیجا ہے۔‘‘
 جس نبی کو سارے جہاں کے لیے رحمت ہی رحمت بناکر بھیجا گیا ہو، اس نبی کی تعلیمات میں دہشت گردی کیسے مل سکتی ہے؟ آپ a نے ہمیشہ امن وامان کو قائم کرنے کی ہی تعلیمات دی ہیں۔ 
حضور اکرم a خاتم النبیین ہیں
آپa نبی ہونے کے ساتھ خاتم النبیین بھی ہیں، حضرت آدم m سے جاری نبوت کا سلسلہ آپa پر ختم ہوگیا، یعنی اب کوئی نئی شریعت نہیں آئے گی، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: 
’’مَا کَانَ مُحَمَّدٌ أَبَآ أَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ۔‘‘
’’(مسلمانو!) محمد تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں، اور تمام نبیوں میں سب سے آخری نبی ہیں۔‘‘                        (سورۃ الاحزاب: ۴۰) 
حضور اکرم a کو عالمی رسالت سے نوازا گیا
آپa کو عالمی رسالت سے نوازا گیا، متعدد آیا ت میں اللہ تعالیٰ نے آپ کی عالمی رسالت کو بیان کیا ہے، یہاں صرف دو آیات پیش ہیں: 
’’قُلْ ٰٓیأَیُّھَا النَّاسُ إِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ إِلَیْکُمْ جَمِیْعَا الَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ۔‘‘                                                    (سورۃ الاعراف: ۱۵۸) 
’’(اے رسول! ان سے) کہو کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اُس اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں جس کے قبضے میں تمام آسمانوں اور زمین کی سلطنت ہے۔‘‘ 
حضور اکرم a کا اسوۂ حسنہ بنی نوع انسان کے لیے
چونکہ آپa کو عالمی رسالت سے نوازا گیا ہے، اس لیے آپa کی زندگی قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لیے نمونہ بنائی گئی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے:
’’ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوْا اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا۔‘‘                                              (سورۃ الاحزاب ۲۱) 
’’حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے رسول اللہa کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ سے اور یوم آخرت سے امید رکھتا ہو اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتا ہو۔‘‘ 
حضور اکرم a کی زندگی کا ایک ایک لمحہ قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے نمونہ ہے، لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم حضور اکرم a کی سنتوں پر عمل کریں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے حبیب محمد مصطفی a کی تمام سنتوں کو آج بھی زندہ کررکھا ہے ۔
حضور اکرم a کی اتباع
اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبa کے اُسوہ میں دونوں جہاںکی کامیابی وکامرانی مضمر رکھی ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے آپa کی اتباع کو لازم قرار دیا، فرمانِ الہٰی ہے: 
’’قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ۔‘‘                                                       (سورۃ آل عمران: ۳۱) 
(اے پیغمبر! لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خاطر تمہارے گناہ معاف کردے گا۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی سینکڑوں آیات میں اپنی اطاعت کے ساتھ رسولa کی اطاعت کا بھی حکم دیا ہے۔ ان سب جگہوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ فرمانِ الٰہی کی تعمیل کرو اور ارشادِ نبوی کی اطاعت کرو۔ 
قرآن کریم کے مفسر اول: حضور اکرم a
اللہ تعالیٰ اپنے پاک کلام میں فرماتا ہے: 
’’وَأَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَیْہِمْ وَلَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ۔‘‘ (سورۃ النحل: ۴۴) 
’’ یہ کتاب ہم نے آپ کی طرف اتاری ہے کہ لوگوں کی جانب جو حکم نازل فرمایا گیا ہے، آپ اُسے کھول کھول کر بیان کردیں، شاید کہ وہ غوروفکر کریں۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے اس آیت اور اس طرح کی دوسری آیات میں واضح طور پر بیان فرمادیا کہ قرآن کریم کے مفسرِ اول حضور اکرم a ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی اکرم a پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی کہ آپ aاُمتِ مسلمہ کے سامنے قرآن کریم کے احکام ومسائل کھول کھول کر بیان کریں۔ اور ہمارا یہ ایمان ہے کہ حضور اکرم a نے اپنے اقوال وافعال کے ذریعہ قرآن کریم کے احکام ومسائل بیان کرنے کی ذمہ داری بحسن وخوبی انجام دی۔ صحابۂ کرامؓ، تابعینؒ اور تبع تابعینؒ کے ذریعہ حضور اکرمa کے اقوال وافعال یعنی حدیثِ نبوی کے ذخیرہ سے قرآن کریم کی پہلی اہم اور بنیادی تفسیر انتہائی قابل اعتماد ذرائع سے اُمتِ مسلمہ کوپہنچی ہے، لہٰذا قرآن فہمی حدیث کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ 
 تاریخ کا سب سے لمبا سفر حضور اکرم a کے نام
تاریخ کے سب سے لمبے سفر ( اسراء ومعراج) کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں بیان فرمایا ہے، جس میں آپa کو آسمانوں کی سیر کرائی گئی۔ مسجدِ حرام (مکہ مکرمہ) سے مسجدِ اقصیٰ کے سفر ’’سُبْحَانَ الَّذِیْ أَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الْأَقْصٰی‘‘کو اسراء کہتے ہیں اور یہاں سے جو سفر آسمانوں کی طرف ہوا اس کا نام معراج ہے۔ اس واقعہ کا ذکر سورۂ نجم کی آیات میں بھی ہے اور ان میں وضاحت بھی ہے کہ حضور اکرم a نے (اس موقع پر) بڑی بڑی نشانیاں ملاحظہ فرمائیں: ’’لَقَدْ رَأٰی مِنْ أٰیَاتِ رَبِّہِ الْکُبْرٰی۔ ‘‘
حضور اکرم a کی نماز
اللہ تعالیٰ کا پیار بھرا خطاب حضور اکرم aسے ہے کہ آپ رات کے بڑے حصہ میں نماز تہجد پڑھا کریں:
’’ ٰٓیأَیُّھَا الْمُزَّمِّلُ قُمِ اللَّیْلَ إِلَّا قَلِیْلاً نِّصْفَہٗٓ أَوِانْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلاً أَوْ زِدْ عَلَیْہِ وَرَتِّلِ الْقُرْأٰنَ تَرْتِیْلاً ۔‘‘                                                 ( سورۃ المزمل: ۱-۴) 
’’اے چادر میں لپٹنے والے! رات کا تھوڑا حصہ چھوڑکر باقی رات میں (عبادت کے لیے) کھڑے ہوجایا کرو۔ رات کا آدھا حصہ یا آدھے سے کچھ کم، یا اُس سے کچھ زیادہ۔ اور قرآن کی تلاوت اطمینان سے صاف صاف کیا کرو۔ ‘‘
ام المؤمنین حضرت عائشہ t فرماتی ہیں کہ: حضور اکرم aرات کو قیام فرماتے، یعنی نماز تہجد ادا کرتے، یہاں تک کہ آپa کے پاؤں مبارک میں ورم آجاتا۔ (بخاری) 
صرف ایک دو گھنٹے نماز پڑھنے سے پیروں میں ورم نہیں آتا ، بلکہ رات کے ایک بڑے حصہ میں اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہونے، طویل رکوع اور سجدہ کرنے کی وجہ سے ورم آتا ہے، چنانچہ سورۂ بقرہ اور سورۂ آل عمران جیسی لمبی لمبی سورتیں آپ aایک رکعت میں پڑھا کرتے تھے اور وہ بھی بہت اطمینان وسکون کے ساتھ۔ 
حضور اکرم a کے اخلاق
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں اپنے نبیa کے اخلاق کے متعلق فرماتا ہے: ’’وَإِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ‘‘۔۔۔۔۔۔ ’’اور یقینا تم اخلاق کے اعلیٰ درجہ پر ہو۔‘‘ (سورۃ القلم:۴) 
حضرت عائشہ t سے جب آپ a کے اخلاق کے متعلق سوال کیا گیا تو آپؓ نے فرمایا: ’’کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآنَ‘‘یعنی ’’آپ a کا اخلاق قرآنی تعلیمات کے عین مطابق تھا۔‘‘ (صحیح بخاری وصحیح مسلم) حضور اکرم a نے ارشاد فرمایا: ’’إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْأَخْلَاقِ۔‘‘۔۔۔۔ ’’مجھے بہترین اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے۔‘‘ (مسند احمد) ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے نبی اکرم a کے اخلاق حمیدہ کو پڑھیں اور ان کو اپنی زندگی میں لانے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ 
خلاصۂ کلام 
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جگہ جگہ اپنے حبیب محمد مصطفیa کے اوصافِ حمیدہ بیان فرمائے ہیں۔ ان میں سے چند کا ذکر ’’مشتے نمونہ از خروارے‘‘ کے طور پر کیا ہے۔
 ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے نبیa کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق مضبوط کریں۔ ہم اپنے نبیa کے طریقہ پر اسی وقت زندگی گزار سکتے ہیں جب ہمیں اپنے نبیa کی سیرت معلوم ہو، لہٰذا ہم خود بھی سیرت کی کتابوں کو پڑھیں اور اپنے بچوں کو بھی سیرتِ نبوی پڑھانے کا اہتمام کریں۔ 
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے حبیب محمد مصطفی a کے نقش قدم پر زندگی گزارنے والا بنائے، آمین۔ 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین