بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

دینی مدارس کے خلاف معرکہ آرائی کیوں؟

دینی مدارس کے خلاف معرکہ آرائی کیوں؟

 

الحمد للّٰہ وسلام علٰی عبادہٖ الذین اصطفٰی

۲۰،۲۱؍ ربیع الاول ۱۴۳۶ھ ، مطابق ۱۳،۱۴؍ جنوری ۲۰۱۵ء بروز منگل، بدھ محترم جناب سلیم صافی صاحب کا کالم ’’دینی مدارس ، اصل مسئلہ اور حل‘‘ کے نام سے روزنامہ جنگ میں دو اقساط میں شائع ہوا ہے، جس میں جناب موصوف نے مدارس اور اہل مدارس کے بارہ میں پائی جانے والی کئی ساری غلط فہمیوں کے ازالہ کی عمدہ، جاندار اور احسن کوشش فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ آنجناب کو اس پر جزائے خیر عطا فرمائے۔ لیکن موصوف نے اپنے اسی کالم میں مدارس ، اہل مدارس، نصاب اور نظام تعلیم کے متعلق جناب جاوید احمد غامدی کی ایک تحریر کے حوالہ سے ایسی چند بے بنیاد اور بے حقیقت باتیں بھی تحریر فرمادی ہیں، جن کی نشاندہی اور صحیح صورتحال سے آگاہی کی ضرورت ہے۔ محترم جناب! اس بات سے یقینا آپ واقف ہوں گے کہ ہر دور میں ایک طبقہ ایسا رہا ہے، جو ہمیشہ حکومت اور علمائے حق کے درمیان منافرت اور منازعت اور دینی مدارس کے خلاف معرکہ آرائی کو ملک وملت کی سب سے بڑی خدمت تصور کرتا ہے، اور بار بار وقفے وقفے سے اس پروپیگنڈہ کو ہوا دیتا رہتا ہے کہ دینی مدارس سے فارغ التحصیل دورِ جدید کے تقاضوں اور ضروریات سے نابلد اور بے خبر ہیں۔ حالانکہ اہل بصیرت علمائے حق دورِ جدید کے تقاضوں سے نہ صرف یہ کہ باخبر ہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی کتاب اور حضور اکرم a کی احادیث مبارکہ کی تدریس ، تعمیل اور ترویج کے ساتھ ساتھ مسلم امراء اور عام مسلمانوں کی بھی قرآن وسنت کی روشنی میں خیرخواہی اور راہنمائی کرتے آئے ہیں۔ 2:… صحیح صورتحال یہ ہے کہ ملاحدہ اور تجدد پسندوں کی ایک کھیپ کا مقصد امت مسلمہ کو اس کے ماضی سے کاٹ دینا اور اسے دین اسلام کی چودہ سو سالہ متفقہ اور متوارث تعبیر سے محروم کردینا ہے اور یہ اپنے غلط نظریات ، پریشان خیالات اور ہویٰ وہوس سے معمور افکار کی ترویج کے لیے اپنے آپ کو ہمیشہ صاحب ِاختیار وصاحب ِاقتدار لوگوں کے ساتھ نتھی کرلینے میں مصلحت تصور کرتی اور اس میں اپنی عافیت سمجھتی ہے اور جب بھی ان کی کج روی اور غلط روی پر انہیں ٹوکا جاتا ہے تو ٹوکنے والوں کے خلاف شور مچادیا جاتا ہے کہ یہ دور جدید کے تقاضوں سے واقف نہیں۔ حالانکہ علمائے امت، مسلم معاشرہ میں ہی رہتے ہیں اور ان کی چوبیس گھنٹے کی زندگی مسلمانوں کے روزمرہ معاملات کو قرآن وسنت کی کسوٹی پر پرکھنے اور اس پر گامزن رکھنے کی کوششوں میں صرف ہوتی ہے۔ باشعور اور اہل بصیرت حضرات جانتے ہیں اور اس کے قائل ہیں کہ اگر یہ علمائے امت، دینی ادارے اور دینی مدارس نہ ہوتے تو آج امت مسلمہ کو دین متین کی صحیح شکل ملنا مشکل تھی اور اسی طرح معاشرہ میں باطل کے پھیلائے گئے پروپیگنڈے اورجال سے مسلمانوں کوچھٹکارا نہ ملتا۔ 3:… ہمیں یہ بھی باور کرنا اور یادرکھنا چاہیے کہ ہم مسلمان ہیں اور مسلمانوں کا دستور، نصب العین اور سپریم لا اتھارٹی قرآن وسنت ہی ہے اور ایک مسلمان کی پیدائش سے موت تک تمام مراحل کی راہنمائی آپ a نے اپنے قول اور عمل سے فرمادی ہے۔ ایک شفیق باپ اپنی اولاد کی اتنا اچھی اور صحیح راہنمائی نہیں کرسکتا جتنا آپ a نے اپنی امت کی راہنمائی فرمائی ہے۔ اور ایک مسلمان کی زندگی اسی میںدائر رہے گی، اس سے باہر نکلنے کی کوئی کوشش کرے گا تو وہ اللہ تعالیٰ کی حدود سے تجاوز کرنے والا ظالم، فاسق اور کافر کہلائے گا۔ 4:…قرآن وسنت کی وہی تشریح معتبر ہوگی جو صحابہ کرام s کے توسط سے تابعینؒ، تبع تابعینؒ اور نسلاً بعد نسل تعلیم وتعلم کے ذریعہ ہر دور میں امت تک پہنچتی رہی۔ تحقیق کے نام پر اپنی رائے سے قرآن کریم کی من مانی تشریح کرنا اور ایسی باتیں پیش کرنا جن کا ثبوت نہ تو قرآن کریم میں ہو اور نہ ہی احادیث رسول اللہ میں ہو، اس کو دجل ،کذب اور فتنہ سے تعبیر کیا گیا ہے، جس سے آپ a نے صراحت کے ساتھ امت کو منع فرمایا ہے، جیسا کہ حضرت ابوہریرہ q سے مروی ہے: ۱:…’’ قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یکون فی آخر الزمان دجالون کذابون یأتونکم من الأحادیث بمالم تسمعوا أنتم ولاآبائکم فإیاکم وإیاھم لایضلونکم ولایفتنونکم۔‘‘                                   (رواہ مسلم، مشکوٰۃ،ص:۲۸) ’’رسول اللہ a نے فرمایا: آخری زمانہ میں دھوکے باز جھوٹے ہوں گے، وہ تمہارے پاس ایسی حدیثیں لے کر آئیں گے جو نہ تم نے سنی ہوں گی اور نہ تمہارے آباء واجداد نے، تو تم ان سے اپنے آپ کو بچانا، کہیں وہ تمہیں گمراہ نہ کریں اور تمہیں آزمائش میں نہ ڈال دیں۔‘‘ ۲:…’’ من قال فی القرآن برأیہ فلیتبوأ مقعدہٗ من النار۔‘‘(رواہ الترمذی، مشکوٰۃ،ص:۲۵) ترجمہ:’’جس نے قرآن کریم میں اپنی رائے سے کوئی بات کہہ دی تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے ۔‘‘ ۳:…’’ من قال فی القرآن برأیہ فأصاب فھو أخطأ۔‘‘    (رواہ الترمذی، مشکوٰۃ،ص:۲۵) ترجمہ:’’جس نے قرآن کریم میں اپنی رائے سے کوئی بات کہہ دی اور پھر وہ ٹھیک بھی تھی تو اس نے تب بھی غلطی کی۔‘‘ اسی لیے علمائے امت نے قرآن کریم کی تفسیر ہمیشہ وہی کی ہے جو حضور اکرم a ، صحابہ کرامs، تابعینؒ اور تبع تابعینؒ نے فرمائی ہے،تاکہ اس میں اپنی رائے، اپنی سوچ اور اپنی فکر کا شائبہ تک نہ ہو۔ 5:… صرف قرآن اور قرآن کی رَٹ لگانا اور قرآن کریم کے علاوہ سنت رسول اللہ کو نہ ماننا یہ بھی تحریف دین اور انکارِ سنت وحدیث کے زمرہ میں آتا ہے۔ ایک مسلمان کے لیے جس طرح قرآن کریم کا اتباع واجب، لازم اور ضروری ہے، اسی طرح سنت وحدیث کا اتباع بھی واجب، لازم اور ضروری ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے: ’’وَ مَاأٰتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَانَھَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا۔‘‘               (الحشر:۷) ’’جو کچھ تمہیں رسول(a)دیں وہ لے لو اور جس چیز سے منع کردیں اس سے باز آجاؤ۔‘‘ حضور اکرم a کا ارشاد ہے: ۱:… ’’ ترکت فیکم أمرین، لن تضلوا ماتمسکتم بہما، کتاب اللّٰہ وسنۃ رسولہٖ۔‘‘                                                                 (رواہ فی المؤطا، مشکوٰۃ، ص:۳۰) ’’میں نے تم میں دو چیزیں چھوڑی ہیں، جب تک ان دونوں کو پکڑے رہوگے گمراہ نہیں ہوگے، وہ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول (a)کی سنت ہے۔‘‘ ۲:…’’ألاإنی أوتیت القرآن ومثلَہ معہٗ ألا یوشک رجل شبعان علٰی أریکتہٖ یقول: علیکم بہذا القرآن فما وجدتم فیہ من حلال فأحلوہ وماوجدتم فیہ من حرام فحرّموہ وإن ماحرم رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کما حرم اللّٰہ، ألا لایحل لکم الحمار الأھلی ولاکل ذی ناب من السباع ولا لقطۃ معاھد إلا أن یستغنی عنہا صاحبہا ومن نزل بقوم فعلیہم أن یقروہ فإن لم یقروہ فلہ أن یعقبہم بمثل قراہ۔‘‘                                       (رواہ ابوداؤد، مشکوٰۃ،ص:۲۹) ’’خوب غور سے سن لو! مجھے قرآن اور اسی جیسی اور چیز(وحی) دی گئی ہے، خبردار! قریب ہے کہ ایک شکم سیر آدمی اپنے تخت پر بیٹھ کر یہ کہے کہ: تم قرآن کو ہی تھامے رکھو، جو اس میں حلال پاؤ، اس کو حلال سمجھو اور جو اس میں حرام پاؤ، اس کو حرام سمجھو۔ حالانکہ جو کچھ رسول اللہ a نے حرام کیا ہے، وہ ایسا ہی ہے جیسے اللہ نے حرام کیا ہو، خبردار! تمہارے لیے پالتوگدھے حلال نہیں ہیں اور نہ کچلی سے کھانے والے درندے جانور اور نہ کسی معاہد کی گری پڑی چیز، مگر یہ کہ اس کا مالک اس سے بے نیاز ہو، اور جو شخص کسی قوم کے پاس مہمان بن کر جائے تو ان(قوم) کے لیے اس کی مہمان نوازی ضروری ہے، اگر وہ اس کی مہمان نوازی نہ کرے تو اس کو اجازت ہے کہ وہ مہمانی کے بقدر ان کو سزا دے ۔‘‘     6:… جمہور علمائے امت کی پیروی کرنے اور عقائد و اعمال میں ان کو راہنما و مقتدا بنانے کا حکم بھی آپ a نے دیا ہے، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر r سے مروی ہے: ۱:… ’’إن اللّٰہ لایجمع أمتی أو قال: أمۃَ محمد علی ضلالۃ وید اللّٰہ علٰی الجماعۃ ومن شذ شذ فی النار۔‘‘                         (رواہ الترمذی، مشکوٰۃ،ص:۳۰) ۲:…’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: اتبعوا سوادَ الأعظم فإنہٗ من شذ شذ فی النار۔ ‘‘                                 (رواہ ابن ماجۃ من حدیث أنسؓ، مشکوٰۃ،ص:۳۰) آمدم برسرمطلب:محترم! آپ نے لکھا ہے کہ : ’’دینی مدارس کے بارہ میں یہ رائے صرف مجھ جیسے طالب علموں، جو باہر سے اس کا نظارہ کررہے ہیں کی نہیں، بلکہ اس نظام کے اندر شعور کی منازل طے کرنے والے بہت سارے جید علمائے کرام برملا اس رائے کا اظہار کررہے ہیں، جاوید غامدی ان لوگوں میں سے ہیں جو اس نظام کے تحت پڑھ کر اس کے قریبی شاہد بن چکے ہیں۔‘‘ ماشاء اللہ! آپ نے خود ہی اعتراف کیا ہے کہ میں جو کچھ تحریر کررہا ہوں، اس میں میرے ذاتی مطالعہ اور مدارس کو قریب سے دیکھنے کا کوئی عمل دخل نہیں، بلکہ مدارس کے نظام سے ناواقف اور مجہول لوگوں نے جو کچھ تحریر کیا ہے، اسی کو آگے نقل کررہا ہوں۔ آپ ہی سے دادِ انصاف چاہوں گا کہ جس شخص کا مطالعہ اتنا ہی ناقص ہو، اور کسی چیز کے بارہ میں اس کی معلومات غلط بیانی کرنے والوں سے مستعار ہوں، اس کو اس چیز کے بارہ میں رائے دینے اور دوسروں کو موردِ الزام ٹھہرانے کا کوئی حق ہے؟ پھر آپ نے بہت سارے جید علمائے کرام کا ذکر کیا ہے۔ میں عرض کرتا ہوں کہ اگر اس کے ساتھ ساتھ ان جید علمائے کرام کے نام کی مختصر فہرست بھی دے دیتے تو ہم ان کے علمی حدود اربعہ، ان کی علمی استعداد اور تجربہ کے بارہ میں کچھ عرض کرنے کی پوزیشن میں ہوتے، لیکن آپ بھی سمجھتے ہیں کہ یہ جملہ آپ نے صرف اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے بڑھایا ہے۔ آپ نے جاوید غامدی کا نام لیا اور کہا کہ: ’’جاوید غامدی ان لوگوں میں سے ہیں جو اس نظام کے تحت پڑھ کر اس کے قریبی شاہد بن چکے ہیں۔‘‘ محترم! آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ جناب جاوید غامدی صاحب نے کبھی کسی مدرسہ میں نہیں پڑھا اور نہ ہی کسی مدرسہ میں داخل ہوا، اس نے بی اے تک عصری تعلیم اسکول اور کالج میں رہ کر حاصل کی، جماعت اسلامی میں شامل ہوا، پھر اس سے نکالا گیا، امین احسن اصلاحی سے کچھ تعلق جوڑا، اور عقلیت پسندی میں اس کا اور حمید الدین فراہی کا جانشین بنا۔ بہت سارے دینی مسلمات کا انکار کیا، موصوف اسلامی جہاد کے مخالف ، قرآن کریم کی معنوی تحریف کے مرتکب، حدیث وسنت کی حجیت کو نہیں مانتے اور حدیث کو دین کا حصہ تسلیم نہیں کرتے، اجماعِ امت کے منکر، شرعی اصطلاحات کا معنی بدلنے میں ماہر اور مغربی تہذیب کو اسلامی معاشرہ میں رائج کرنے کے لیے ہمہ وقت کوشاں ہیں۔ خلاصہ یہ کہ وہ پرخطرپگڈنڈیوںکے راہی اور شدید لفظی تضادات اور فکری وذہنی اضطراب کی زَد میں ہیں کہ آپ ان کی کسی تحریر کو پڑھ کر یا ان کی کوئی تقریر سن کر کسی صحیح نتیجے پر پہنچ ہی نہیں سکتے۔ تھوڑا سا تجربہ تو آپ کو بھی ہوگیا ہوگا جو انہوں نے روزنامہ جنگ میں ’’جوابی بیانیہ ‘‘کے عنوان سے کالم لکھا تھا اور آپ نے خود اس کی خامیاں گنوائی تھیں۔ اس لیے آپ کو ان کی کتاب ’’چہ باید کرد‘‘ کے حوالہ سے دینی مدارس کے بارہ میں رائے قائم کرنے اور اس کا حوالہ دینے کا قطعاً کوئی حق نہیںتھا۔ آپ خود ہی بتائیں کہ ایک آدمی کسی مدرسہ میں نہیں گیا، کبھی اس نے مدارس کا نصاب نہیں پڑھا، دین کو اور قرآن کریم کو کسی استاذ سے نہیں سمجھا تو اس کی رائے اور تبصرہ کا کیا وزن ہوگا؟ ’’آپ خود ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں،ہم عرض کریں گے تو شکایت ہوگی‘‘ اس لیے موصوف کے حوالہ سے جو کچھ آپ نے لکھا محض الزام تراشی، جھوٹ اور بہتان کے علاوہ اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ بہرحال آپ نے ان کی جو تحریر نقل کی ہے، اس کا لب لباب اور خلاصہ صرف تین باتیں تھیں، ان تینوں باتوں کا جواب عرض ہے: مثلاً:۱نہوں نے لکھا ہے کہ:۱:… سب سے بڑی خرابی ان مدارس کے نظام میں یہ ہے کہ یہ تقلید کے اصول پر قائم ہیں۔ ۲:دوسری بڑی خرابی ان مدارس کے نظام میں یہ ہے کہ یہ اگرچہ دینی مدارس ہیں، لیکن دین میں جو حیثیت قرآن کو حاصل ہے، وہ ان میں اُسے کہیں حاصل نہیں۔ ۳: تیسری بڑی خرابی یہ ہے کہ ان کا نصاب نہایت فرسودہ اور ہماری علمی اور دینی ضرورتوں کے لیے بالکل بے حاصل ہے۔ ان تینوں باتوں کا ترتیب وار جواب عرض ہے: ۱:-محترم! تقلید کا حکم تو قرآن کریم ، سنت رسول اللہ (l) اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے تعامل سے ثابت ہے، جو صحابیؓ جس علاقہ کا گورنر اور عامل بن کر جاتا وہاں کے مسلمان اس صحابیؓ اور عامل کی تقلید کرتے، ان سے مسائل پوچھتے اور اس پر عمل کرتے۔ اس کے بعد کئی فقہاء اور ائمہ مجتہدین ہوئے، لیکن قبولیت ان چار فقہاء : امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبل w کو ہوئی۔ چاروں برحق ہیں اور چاروں نے قرآن وسنت کی تشریح اپنے اپنے الفاظ اور اپنی اپنی تعبیرات میں بیان کی ہے۔ عام مسلمانوں کو ایک نظم میں رکھنے اور ان کو نفس و شیطان کے اغوا سے بچانے کے لیے کسی ایک فقہ کی پیروی کو ضروری قرار دیا گیا۔ الحمد للہ! مدارس میں کسی بھی فقہ کا پیروکار داخلہ لینا چاہے، اس کو داخلہ مل جاتا ہے، فقہ کا اختلاف کبھی کسی مدرسہ میں داخلہ کے لیے حائل نہیں ہوا۔ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں فقہ حنفی کے ساتھ ساتھ فقہ شافعی، فقہ مالکی اور فقہ حنبلی کے پیروکار کثیر تعداد میں پڑھتے رہے ہیں اور اب بھی پڑھ رہے ہیں۔ یہی حال دوسرے مدارس کا بھی ہے۔ یہ تو حکومت نے پابندی لگادی کہ دینی تعلیم کے حصول کے لیے کوئی غیر ملکی طالب علم پاکستانی مدارس میں داخلہ نہیں لے سکتا، ورنہ مدارس میں کسی فقہ کی بنیاد پر کسی طالب علم کو داخلہ سے محروم نہیں کیا جاتا۔ رہا کوئی اہل حدیث کسی دیوبندی کے مدرسہ میں یا بریلوی کسی شیعہ کے مدرسہ میں داخل نہیں ہوسکتا۔ یہ بھی مدارس پر الزام ہے، ورنہ کوئی بھی فرد بحیثیت طالب علم کسی مسلک اور کسی مکتب فکر کے مدرسہ میں داخلہ لینا چاہے تو اس پر کوئی پابندی نہیں، اس لیے کہ راقم الحروف اس کا عینی گواہ ہے کہ غالباً ۱۹۸۳ء یا ۱۹۸۴ء میں میرے درجہ ثانیہ کے وقت ایک شیعہ طالب علم ہمارے مدرسہ میں ایک استاذ کے پاس قرآن کریم کی تفسیر پڑھنے آتا تھا اور پوری بحث بھی کرتا تھا۔ اسی طرح دورہ حدیث کے سال میں جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں ہمارا ایک ساتھی اہل حدیث مسلک سے تعلق رکھتا تھا، اور اس نے اہل حدیث ہونے کے باوجود دورہ حدیث جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن سے ہی مکمل کیا اور سند فراغ حاصل کی اور وہ آج بھی ایک اہل حدیث مکتب فکر کے ادارہ میں پڑھا رہا ہے۔ محترم! مدارس صرف دینی تعلیم کے لیے ہیں اور ہر ایک کے حصولِ تعلیم کے لیے کھلے ہوئے ہیں، مدارس میں فرقہ بندی یا تعصب کو کبھی ہوا نہیں دی گئی، لیکن جب سے حکومتوں کی ایک دوسرے پر تسلط اور غلبہ کی پالیسیوں اور سازشوں کے ذریعہ فرقہ واریت کو ہوا دی گئی اور ان کو آپس میں دست وگریبان کردیا گیا تو ہر ایک دوسرے کے سایہ سے ڈرنے لگا۔ ورنہ دیوبندی ہویا بریلوی، اہل حدیث ہو یا شیعہ، سب ایک دوسرے کا علمی احترام کرتے تھے اور اب بھی کرتے ہیں۔ ۲:-محترم! آپ نے لکھا:’’دوسری بڑی خرابی ان مدارس کے نظام میں یہ ہے کہ یہ اگرچہ دینی مدارس ہیں، لیکن دین میں جو حیثیت قرآن کو حاصل ہے، وہ ان میں اسے کہیں حاصل نہیں۔ ‘‘ محترم! یہ بات بھی حقیقت سے بہت دور ہے، اس لیے کہ ہر طالب علم کو قرآن کریم ناظرہ پڑھانے سے پہلے نورانی قاعدہ، بغدادی قاعدہ، وغیرہ پڑھایا جاتا ہے، تاکہ اُسے الفاظِ قرآن کی پہچان ہوجائے اور اس کا تلفظ درست ہوجائے، اس کے بعد ناظرہ قرآن کریم، پھر حفظ قرآن یا اس کا ایک پارہ یاد کرایا جاتا ہے۔ صحیح قراء ت اور تجوید کے لیے جمال القرآن، جزری ، فوائد مکیہ اور اس طرح کی فن قراء ت سے متعلق دوسری کتب پڑھائی جاتی ہیں۔ درجہ ثانیہ سے ایک پارہ قرآن کریم، ترجمہ اور تفسیر، درجہ ثالثہ میں دس پارہ کا ترجمہ وتفسیر، درجہ رابعہ میں پھر دس پاروں کا ترجمہ وتفسیر، درجہ خامسہ میں بقیہ پاروں کا ترجمہ وتفسیر، درجہ سادسہ میں پورے قرآن کریم کی تفسیر، تفسیر جلالین کے نام سے پڑھائی جاتی ہے اور درجہ سابعہ میں تفسیر بیضاوی ۔ اب اگر یہ قرآن کریم کو اولیت اور فوقیت نہیں اور اس کو نصاب میں محور ومرکز کا مقام حاصل نہیں تو اور کس کو حاصل ہے؟ بلکہ مدارس کے نصاب میں پڑھایا جانے والا مکمل نصاب ہے ہی قرآن کریم کی خدمت اور قرآن کریم کی تفہیم کے لیے۔ ہاں! اتنا ضرور ہے کہ مدارس سے فارغ التحصیل طالب علم قرآن کریم میں اپنی من مانی تاویل نہیں کرتا، قرآن کریم کی تحریف کا مرتکب نہیں ہوتا، ریسرچ اور تحقیق کے نام سے اپنے غلط نظریات کے لیے قرآن کریم کو ڈھال نہیں بناتا، وہ ہمیشہ قرآن کریم کو احادیث کے آئینہ اور اسلاف کے طریقہ میں دیکھتا ہے اوراسی کے مطابق تشریح کرتا ہے۔ شیخ الہند مولانا محمود حسن v کا ترجمۂ قرآن، علامہ شبیر احمد عثمانی v کی تفسیر عثمانی، حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی v کا ترجمۂ قرآن،بیان القرآن ، مولانا محمد ادریس کاندھلوی v کی تفسیر معارف القرآن، مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیعvکی تفسیر معارف القرآن، مولانا عاشق الٰہی بلند شہری vکی تفسیر انوار البیان، صوفی عبدالحمید سواتی vکی معالم العرفان فی دروس القرآن، یہ تمام اکابر وہی ہیں جنہوں نے مدارس میں اسی نصاب کو پڑھا ہے اور انہوں نے یہ قرآن کریم کی خدمت کی ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ اگر ان کو قرآن کریم نہیں پڑھایا گیا اور قرآن کریم ان کو نہیں سمجھایا گیا تو یہ کئی کئی جلدوں میں انہوں نے تفاسیر کیسے لکھ لیں؟ فقہ کی بنیاد بھی قرآن کریم ہی ہے اور فقہ سے مراد قرآن کریم کے وہ احکام ہیں جو انسان کی عملی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں، مثلاً عبادات: نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، قربانی، وغیرہ۔ مناکحات: نکاح، طلاق، تفریق، مہر، عدت، ثبوتِ نسب، والدین، اولاد، بیوی کا نفقہ، میراث، وصیت وغیرہ۔ معاملات: خریدوفروخت، آجر اور اجیر، مالک اور کرایہ دار کے احکام، ہبہ، قرض وغیرہ، انتظامی قوانین: امیر کا انتخاب، عدلیہ کی تشکیل ، شہادت، جرائم پر سزائیں، امن وامان قائم رکھنے کی تدبیریں وغیرہ یہ سب قرآنی احکامات ہیں جن کو آسان الفاظ میں فقہ کے عنوان کے تحت پڑھا اور پڑھایا جاتا ہے۔ جدید تحقیق اور اجتہاد ان مسائل میں روا نہیں جو کہ منصوص ہیں یا ان پر پہلے تحقیق ہوچکی ہے اور وہ عملی توارث وتواتر سے چلی آرہی ہیں، ہاں! جدید پیش آمدہ مسائل میں تحقیق ناگزیر ہے، لیکن اس کے لیے بھی شرائط ہیں: ۱:۔۔۔تمام علوم عالیہ وآلیہ میں مہارتِ تامہ ہو۔ ۲:۔۔۔  جدید مسائل کاحل انفرادی نہ ہو، بلکہ شورائی طریقہ پر ہو۔ ۳:۔۔۔ مجلس شوریٰ کا ہر رکن متقی، پرہیزگار، علم وعمل کا جامع اور خالص اسلامی ذہن رکھتا ہو، مغربی تہذیب وتمدن کا دل دادہ اور مستشرقین کا تربیت یافتہ نہ ہو۔ ۴:۔۔۔ جدید مسائل میں ان اصولوں کو پیش نظر رکھا جائے گا جو مجتہدین نے طے کردیے ہیں، جدید مسائل کا حل ان اصولوں کے ماتحت رہ کر ہو، ان سے بالا تر نہیں۔ ۵:۔۔۔ سب کو مجلس شوریٰ کے فیصلے کا پابند کیا جائے۔ اگر ان شرائط کا لحاظ نہ رکھا گیا اور اپنی انفرادی رائے کو ریسرچ اور تحقیق کے نام سے پیش کیا گیا تو اس سے فتنے پیدا ہوں گے اور فرقہ واریت پھیلے گی، جس کے روکنے کے لیے یہ سب تدابیر اختیار کی جارہی ہیں۔ اس لیے انفرادی طور پر اپنی اپنی تحقیق کے پردہ میں فتنہ کھڑا کرنے اور فرقہ واریت پیدا کرنے اور پھیلانے کی اجازت کسی کو نہ دی جائے گی۔ ۳:- آپ نے لکھا کہ تیسری بڑی خرابی یہ ہے کہ ان کا نصاب نہایت فرسودہ اور ہماری علمی ودینی ضرورتوں کے لیے بالکل بے حاصل ہے۔ اس کے جواب میں شہید اسلام حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدvکی ایک تحریر کا حوالہ کسی قدر حک واضافہ کے ساتھ دینا کافی ہوگا، حضرت لکھتے ہیں: ’’اصولی طور پر جو بات دیکھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ جن حالات میں دین کے تحفظ کے لیے دینی مدارس کانظام عمل میں آیا تھا، کیا ان حالات میں کوئی تبدیلی ہوئی ہے؟ بادی النظر میں حالات بہت کچھ بدل چکے ہیں، وہ غلامی کا دور تھا، اور یہ آزادی کا دور ہے، لیکن اگر گہری نظر سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ وہی حالات جوں کے توں اب بھی باقی ہیں اور ان میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ دینی مدارس کا نظام جب قائم ہوا اس وقت حالات یہ تھے کہ عصری تعلیم گاہوں میں دینی علوم اور دینی اقدار کے تحفظ کا کوئی احساس نہیں تھا، بلکہ ان کا نصاب تعلیم ، فلسفۂ تعلیم اور طرزِ تعلیم مغربیت کے محور پر گردش کرتا تھا، ان میں اگر دینی علوم پڑھائے جاتے تھے تو وہ بھی دین کی خاطر نہیں، بلکہ محض حصولِ دنیا کے لیے تھے، اس لیے ضرورت محسوس کی گئی کہ دینی علوم واقدار کے تحفظ کے لیے الگ قومی ادارے قائم کیے جائیں اور ان کا طرز ایسا رکھا جائے کہ دنیوی منصب وجاہ کے عشاق اس کوچے میں قدم نہ رکھ سکیں، بلکہ یہاں صرف وہی لوگ آئیں جنہوں نے دنیا کی ہر آسائش وآزمائش سے بالاتر ہوکر دینی علوم سے رشتہ جوڑنے کا فیصلہ کرلیا ہو، اس جرم وفا میں ان کو گالیاں دی گئیں، طعن وتشنیع کے تیروں سے ان کے سینے چھلنی کیے گئے، ان کے حق میں ایسے ایسے فقرے چست کیے گئے کہ انہیں سن کر شیطان بھی پناہ مانگے، مگر آفرین ہے ان دلق پوش بوریہ نشین درویشوں کو کہ انہوںنے یہ سب کچھ دیکھنے سننے کے باوجود قال اللہ وقال الرسول کی چوکھٹ سے سراٹھانا گوارا نہ کیا کہ: موج خوں سر سے گزر ہی کیوں نہ جائے آستانِ یار سے اٹھ جائیں کیا ہم دیکھتے ہیں کہ آزادی کے بعد بھی ہمارے یہاں دو متوازی نظام تعلیم چل رہے ہیں، ایک انگریزی دور کی یادگار جس کا منتہائے نظر کرسی وملازمت، جیب اور پیٹ کے سوا کچھ نہیں، دوسرا دینی نظام تعلیم جس کا مقصد وحید دینی علوم واقدار کا تحفظ ہے، اگر اول الذکر مدارس تعلیم کا رخ دنیا سے دین کی طرف پھر گیا ہوتا اور وہ مغربی طرزِ تعلیم کے محور پر گھومنے کے بجائے مدنی فلسفۂ تعلیم کے محور پر گردش کرنے لگتے تو ہم دینی مدارس کے ارباب حل وعقد کو پرخلوص اور پرزور مشورے دے سکتے تھے کہ وہ بھی اپنے دائرہ عمل میں تبدیلی پیدا کرلیں، تاکہ عصری تعلیم اور دینی تعلیم کو ہم آہنگ کیا جاسکے، لیکن جب ہماری عصری تعلیم گاہوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، نہ ان کی وضع قطع اسلامی، نہ ان کی نشست وبرخاست اسلامی، نہ ان کا طرزبودوباش اسلامی، نہ ان کے جذبات اسلامی، نہ ان کے مقاصد اسلامی، بلکہ اول سے آخر تک دنیا ہی دنیا مطمح نظر ہے، بلکہ برائے نام اسلامیات جو رکھی گئی ہے وہ بھی خالص دنیا کی خاطر ہے، جس سے نہ جذبۂ عمل پیدا ہوتا ہے، نہ فکر آخرت، نہ تعلق مع اللہ کی دولت نصیب ہوتی، نہ اصلاحِ معاد کی، تو یہ بات فہم سے بالاتر ہے کہ آخر دینی مدارس کی کایا پلٹ کرنے پر کیوں زور دیا جاتا ہے؟ یہ معدودے چند درویش جو خدا تعالیٰ کے دین کے لیے وقف ہوگئے ہیں ان کو بھی دنیا ہی کا کلوروفام سنگھاکر آخر مدہوش وبیہوش کرنے کی کوشش کیوں کی جاتی ہے؟ اب اگرحکومت اور ان کے رفقاء عصری مدارس کی اصلاح کی طرف توجہ فرماتے، ان کے طرز تعلیم، نصاب تعلیم اور فلسفۂ تعلیم میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کرتے تو مدارس عربیہ کی اصلاح خود بخود ہوجاتی، لیکن موجودہ حالات میں دینی مدارس کے ڈھانچہ کو تبدیل کردینا ہمارے نزدیک نہ ان مدارس کے حق میں بہتر ہوگا، نہ ملک و ملت کے حق میں۔ آج برصغیر میں دینی علوم کی پختگی ، دینی فہم کی سلامتی اور دینی اقدار کے آثار ونشانات جو نظر آتے ہیں ان کی نظیر پوری دنیا میں کہیں نہیں ملتی، اور یہ انہی دینی مدارس کے طرز تعلیم اور ان بوریہ نشین طالب علموں کے اخلاص کی برکت ہے۔ اگر یہ نظام تعلیم بدل دیا گیا تو چند سال بعد یہاں کچھ بھی باقی نہیں رہے گا، دینی مدارس ضرور ہوں گے ، مگر دین نہیں ہوگا۔اس ضمن میں ہم ان علمائے کرام سے بھی گزارش کرنا چاہتے ہیں جن کی خیرخواہی کے لیے یہ سب کچھ ہوگا کہ یہ ان کے لیے شدید آزمائش ہے، انہیں اپنی خداداد بصیرت سے فیصلہ کرنا چاہیے کہ ان حالات میں دین کے تحفظ کی کیا صورت ہوسکتی ہے۔ واللّٰہ الموفق لکل خیر وسعادۃ۔ (اربابِ اقتدار سے کھری کھری باتیں، ج:۲،ص:۲۹۰)    وصلی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد وعلی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین